Study buddhism shantideva

شانتی دیو

شانتی دیو (آٹھویں صدی) تبت کے تمام مسالک میں پائی جانے والی بودھی ستوا تعلیمات خصوصاً چھ پرامت (چھ کمالات) کی مشق کا بھارتی ماخذ تھا۔

شانتی دیو مشرقی بھارت کے بنگال کے ایک خطہ میں آٹھویں صدی میں وہاں کے بادشاہ کے ہاں پیدا ہوا۔ جب وہ تخت نشین ہونے والا تھا تو اس نے منجو شری کو خواب میں دیکھا، جس نے اس سے کہا، "تخت و تاج تمہارے لئیے نہیں ہے۔" منجو شری کی نصیحت پر عمل کرتے ہوۓ اس نے سلطنت کو خیر باد کہا اور جنگل کو چلا گیا۔ وہاں اس کی ملاقات مختلف غیر بودھی گورووں سے ہوئی جن کے ساتھ اس نے مطالعہ کیا اور گہرا مراقبہ کر کے جاذب ارتکاز کے ترقی یافتہ درجات حاصل کئیے۔ لیکن شکیا مونی کی مانند اس نے محسوس کیا کہ گہرے ارتکاز میں ڈوب جانے سے دکھ کے اسباب کو مٹایا نہیں جا سکتا۔ منجو شری پر بھروسہ کرتے ہوۓ اسے تمام مہاتما بدھوں کی حکمت کے قالب کی روشن ضمیری نصیب ہوئی اور اس سے اس نے درس لیا۔ 

تب شانتی دیو نے جنگل چھوڑا اور وہ نالندا کے یونیورسٹی آشرم میں چلا گیا جہاں ایبٹ نے اسے بطور بھکشو منصب عطا کیا۔ وہاں اس نے عظیم سوتر اور تنتروں کا مطالعہ کیا اور ان کی گہری مشق کی، مگر وہ اپنی عبادات کو مخفی رکھتا تھا۔ سب لوگ خیال کرتے تھے کہ وہ محض کھاتا پیتا، سوتا اور بیت الخلا جاتا ہے۔ لیکن در حقیقت وہ ہر وقت روشن مراقبہ کی حالت میں ہوتا تھا۔ 

آخرکار آشرم کے بھکشووں نے اسے آشرم سے نکالنے کا فیصلہ کیا، کیونکہ ان کے خیال میں وہ بیکار انسان تھا۔ اس کے لئیے انہوں نے یہ بہانہ بنایا کہ وہ کسی اصلی بنیادی صحیفے پر درس دے، اور انہوں نے سوچا کہ اس طرح وہ اپنی حماقت کو ظاہر کرے گا۔ انہوں نے بہت بلندی پر بغیر سیڑھی کے ایک تخت بچھایا، یہ خیال کرتے ہوۓ کہ وہ اس تک پہنچ نہیں پاۓ گا۔ مگر تخت خود بخود شانتی دیو کے برابر نیچے آ گیا، تا کہ شانتی دیو اس پر چڑھ سکے۔ 

پھر اس نے 'بودھی ستوا رویہ اختیار کرنا، بودھی چریاواترا' پر درس دینا شروع کیا۔ جب وہ نویں باب میں کھوکھلا پن (خالی پن) پر ایک خاص اشلوک پر پہنچا، تو وہ آہستہ سے آسمان کی جانب اٹھ گیا۔ وہ اشلوک درج ذیل ہے:

(۹۔۳۴) جب کوئی (سچ مچ موجود) فاعل مظہر یا کوئی (سچ مچ موجود) غیر فاعل مظہر (اس کا خالی پن) دوئی پسند من کے سامنے نہیں رہتے، تو چونکہ اس کی اور کوئی صورت ناممکن ہے، تو ایسی صورت میں من کو مکمل سکون ہوتا ہے کسی ایسی حالت میں جہاں من کا کوئی ہدف نہیں ہوتا (بطور ناممکن کے)۔ 

اس کے بعد بقیہ متن پڑھنے کی صرف اس کی آواز سنائی دی۔ وہ بذات خود نظر سے اوجھل ہو چکا تھا۔ بھکشووں نے بعد میں اپنی یاد داشت سے کام لے کر متن کو رقم کیا۔ 

اس درس میں شانتی دیو نے دو اور تصانیف جو اس نے نالندا میں لکھی تھیں کا بھی حوالہ دیا: (۱) تربیت کا مکمل بیان، 'شکشا سموچیا' اور (۲) سوتروں کا مکمل بیان، 'سوتر سموچیا' مگر کسی کو ان کی جاۓ وقوعہ کا علم نہ تھا۔ بالآخر کسی کو شانتی دیو کا کشف ہوا جس میں شانتی دیو نے انکشاف کیا کہ وہ تصانیف کسی بھکشو کے کمرے کی چھت کے شہتیروں میں مستور تھیں۔ اس میں شانتی دیو نے یہ بھی کہا کہ وہ اب نہیں لوٹے گا۔ 'سوتروں کا مکمل بیان' میں سوتروں کی بابت خاص خاص باتوں کا ذکر ہے جبکہ 'تربیت کا مکمل بیان' میں مختلف عبادات کا ذکر ہے۔

پہلے والی کتاب اور 'بودھی ستوا رویہ اختیار کرنا' کا تبتی زبان میں ترجمہ 'تنگیور' یعنی مہاتما بدھ کے اقوال پر ہندوستانی تبصروں کے تبتی تراجم کا مجموعہ، میں موجود ہے۔ کونو لاما رنپوچے کا کہنا ہے کہ 'سوتروں کا مکمل بیان'  کا بھی تبتی زبان میں ترجمہ ہوا تھا مگر یہ 'تنگیور' میں کہیں بھی موجود نہیں ہے۔ 

'بودھی ستوا رویہ اختیار کرنا' پر  خصوصاً نویں باب پر کئی تبصرے لکھے گئے۔ تبتی تبصرے تمام مسالک سے ماخوذ ہیں، کیونکہ یہ کتاب تبت کے تمام بودھی مکاتب فکر میں اہم حیثیت رکھتی ہے۔ 'گیلوگ' مسلک میں تسانگ خاپا کی تصنیف 'مسلک کی درجہ بہ درجہ راہ کا اعلیٰ بیان' (لم-رم چن-مو) بڑی حد تک 'تربیت کا مکمل بیان' اور ''بودھی ستوا رویہ اختیار کرنا'، خصوصاً اپنے اور دوسروں کے درمیان تبادلہ، سے ماخوذ ہے۔ اگرچہ تسانگ خاپا نے 'بودھی ستوا رویہ اختیار کرنا' پر کوئی تبصرہ الگ سے نہیں لکھا مگر اس کی کتاب 'مسلک کی درجہ بہ درجہ راہ کا اعلیٰ بیان' میں اس کے بہت سے نقاط پر بحث کی گئی ہے۔ اس کی کتاب 'قابلِ تشریح اور حتمی تعبیرات کی بہترین شرح کا نچوڑ' میں نویں باب کے بہت سے نقاط کا ذکر ہے۔ اس کی تصنیف 'ناگر جونا کے درمیانی راہ پر لکھے ہوۓ بنیادی بند پر چندر کرتی کا اضافی مضمون کے مقصد کی مکمل وضاحت' بھی بڑی حد تک اس پر مشتمل ہے۔  

تقدس مآب چودھویں دلائی لاما کے "بودھی ستوا رویہ اختیار کرنا" پر جنوری ۱۹۷۸ میں بودھ گیا، بھارت میں خطاب سے اقتباس، جس کی ترمیم اور ترجمہ ڈاکٹر الیگزینڈر برزن نے کیا۔
Top