آٹھویں صدی کے اواخر میں تبتی سیاسی جوڑ توڑ

چین سے تبتی رشتے

تبت اور چین نے آپس میں پہلے سفارتی تعلقات ۶۰۸ء میں قائم کیے جب بادشاہ سونگ تسین گامپو کے والد نمری لونت سین گنام ری سلون متشان﴾ نے سوئی خاندان کی حکومت کے دوران چینی دربار میں اپنا پہلا تبتی وفد بھیجا تھا۔ سونگ تسین گامپو نے اس کے جواب میں، ۶۳۴ء میں تانگ دربار کو ایک وفد بھیجا تھا اور ایک ہان چینی شہزادی وین چنگ سے ۶۴۱ء میں شادی بھی کرلی تھی۔ اس کے چار برس بعد، اس نے ووتائی شان (ووت آئی شان، تبتی: ری پورتسے لنگا) بیجنگ کے جنوب مغرب میں واقع مقدس چینی بودھی پربت پر پہلے تبتی مندر کی تعمیر کا فرمان جاری کیا تھا۔ اس وقت سے، دونوں سلطنتوں کے مابین متواتر جنگوں کے باوجود، وقتاً فوقتاً تبت اپنے سفیروں کو تانگ دربار بھیجتا رہا۔

ایک صدی بعد بادشاہ می اگت سوم کو بلا شبہ اپنی ہان چینی (بدھ مت کی پیروکار) بیگم ملکہ جن چینگ کی وجہ سے ہان چینی بدھ مت میں خاص دلچسپی رہی۔ ۷۴۰ء میں شواندزنگ کے ذریعہ تانگ چین پر پابندیاں عائد کیے جانے اور بدھ مت کی حالت کمزور ہوجانے کے باوجود می اگت سوم نے اس مذہب کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کے لیے ۷۵۱ء میں وہاں ایک وفد بھیجا تھا۔ اس کے جو ان بیٹے، اور مستقبل کے تبتی بادشاہ ٹری سونگ – دے – ت سین ﴿کھری سرونگ ۔ لدے بتسان﴾ نے بدھ مت میں جو دلچسپی دکھائی تھی، اس نے بھی بدیہی طور پر اس کے وفد کو اس مشن پر جانے کی ترغیب دی ہوگی۔ اس مشن کی قیادت ایک سابق تبتی سفیر کے بیٹے باسانگ شی﴿سبا سانگ ۔ شی﴾ نے کی تھی۔

۷۵۵ء میں اجنبیوں سے بیزاری کے مرض میں مبتلا حزب اختلاف کے وزیروں نے بادشاہ می ۔ اگت سوم کو قتل کردیا۔ یہ وہی گروہ تھا جس نے ہان چینی اور ختنی بھکشوؤں کو جنہیں دیسی نسل کی ملکہ جن چینگ نے مدعو کیا تھا، تبت سے نکال باہر کر دیا تھا۔ قتل کا یہ واقعہ اسی سال کا ہے جب این لوشان بغاوت ہوئی تھی، اور پہلے کی طرح وزیروں کو شاید یہ ڈر تھا کہ بدھ مت اور تانگ چین کی طرف بادشاہ کا جھکاؤ تبت پر تباہی لے آئے گا۔ ان کے اس جرات مندانہ اقدام کو ۷۵۰ء میں عباسیوں کے ذریعے خلافت امیہ کے خاتمے اور این لوشان بغاوت سے بھی حوصلہ ملا تھا۔ ہان چینی بدھ مت کے خلاف اس حملے کی یاد دلاتے ہوئے جس کا ارتکاب این لوشان نے کیا تھا، بدیسیوں سے نفرت اور بیزاری کی بیماری کے شکار وزیروں نے تبت میں بدھ مت کو کچلنے کی ایک مہم شروع کی جو چھ برس جاری رہی۔ بہر حال، زیادہ امکان اسی بات کا ہے کہ اس کا نشانہ تانگ دربار کا حامی گروہ تھا۔

شنترکشت کو تبت مدعو کیا جانا

چین کو جانے والا وفد باسانگ شی کی قیادت میں، بودھی متون کو ساتھ لے کر ۷۵۶ء میں تبت لوٹ آیا۔ باسانگ شی نے اس زمانے کے بدھ مخالف ماحول کی وجہ سے یہ متون چھپا دیے، مگر ٹری سونگ – دے – تسین کو جو اس وقت تک ابھی نابالغ تھا، بدھ مت کی طرف جانے کی ترغیب دی۔

۷۶۱ء میں، ٹری سونگ – دے- تسین بالغ ہوگیا اور تخت نشینی کے بعد، سرکاری طور پر اپنے بودھی ہونے کا اعلان کر دیا۔ پھر اس نے شمالی ہندوستان میں ابھی قائم کی جانے والی پال سلطنت ﴿۷۵۰ء اختتام بارہویں صدی﴾ کو ایک وفد بھیجا۔ سیل نانگ ﴿گسال سنانگ﴾ کی سربراہی میں جانے والے اس وفد کو اس نے یہ مشن سونپا کہ وہ نلندا کے صدر راہب بودھی معلم شنترکشت کو پہلی بار تبت آنے کی دعوت دے۔

ہندوستان کے صدر راہب کی آمد کے کچھ ہی دنوں بعد تبت میں چیچک کی وبا پھوٹ پڑی۔ دربار کے بدیسی مخالف گروہ نے اس وبا کی تہمت بدیسی بھکشو کے سر ڈال دی اور اسے تبت سے باہرنکال دیا۔ جیسا کہ وہ تبت میں ہان چینی اور ختنی بھکشوؤں کے ساتھ کر چکے تھے، جب ۷۳۹ء میں وہاں ایسی ہی ایک وبا پھیلی تھی۔

ٹری سونگ – دے – تسین اپنے اس عزم سے ہمت ہارنے والا نہیں تھا کہ اسے اپنی مملکت میں بدھ مت کی حالت کو مستحکم کرنا ہے۔ وہ ایک انتہائی طاقتور اور حوصلہ مند لیڈر تھا۔ اس کے عہد حکومت میں تبت نے ایک جارح توسیع پسندانہ پالیسی اختیار کی۔ این لوشان کی بغاوت کے بعد تانگ کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، اس نے شمال مشرقی تبت کے بڑے حصوں کو پھر سے قبضے میں کر لیا جنہیں چین نے پہلے چھین لیا تھا۔ وہ تو تانگ کی راجدھانی چانگ آن تک پر، ۷۶۳ء میں ایک مختصر مدت کے لیے قابض ہوگیا، اس واقعے کے سال بھر بعد ہی جب ویغور قاغان بوگو نے، اپنا مذہب چھوڑ کر مانویت کو قبول کرلیا تھا۔

اٹھارواں نقشہ: تبت نویں صدی کےاوائل میں
اٹھارواں نقشہ: تبت نویں صدی کےاوائل میں

پھر ٹری سونگ – دے – تسین شاہراہ ریشم تک براہ راست پہنچنے والے تانگ چین کے راستے کو بند کرتے ہوئے گانسو کے قطعہٴزمین پر چلا گیا۔ اس قطعہٴ زمین کی شمالی شاخ ترفان اور کوچا کی بیرونی چوکیوں کے بیچ میں پڑتی تھی۔ اس کی وجہ سے چینی تجارت کو منگولیا میں ویغوروں کے علاقے سے گزر کر شمال کی طرف جاتے ہوئے تبتوں کی مقبوضہ زمین کا چکر کاٹنا پڑتا تھا۔ اس کے بعد تبتی لوگ ترفان اور بیشبالق پر اپنا اقتدار قائم کرنے کے لیے ویغوروں اور ہان چین کے خلاف ایک طویل سہ رخی جنگ میں الجھ گئے، جہاں تانگ حکومت کا بس برائے نام قبضہ تھا۔ چینی تجارت نے اب اندورنی منگولیا کے راستے سے اپنا رخ بدل لیا تھا اور اسے خاص شمالی شاہراہ ریشم تک پہنچنے کے لیے ان دو شہروں سے گزرنا تھا۔

اپنی فوجی کامرانیوں نے اسے جو سہارا دیا تھا، اس کے باعث اپنے بڑھے ہوئے اعتماد اور طاقت کے ساتھ، ٹری سونگ – دے- تسین نے ایک بار پھر سیل نانگ کو ہندوستان کے لیے روانہ کیا تا کہ شنترکشت کو ایک بار پھر مدعو کیا جاسکے۔ اب کی مرتبہ ہندوستانی راہب اپنے ساتھ پدم – سمبھاوا ﴿گرو رنپوچے﴾ کو لے آیا تا کہ تبت میں ان روحانی طاقتوں کو سدھایا جاسکے جو بدھ مت کے قیام کی طرف مخاصمانہ رویہ رکھتی تھیں۔

سمیاے خانقاہ کی تعمیر

بہار کی عظیم ہندوستانی بودھی خانقاہی یونیورسٹیاں، جیسے کہ نلندا، جو شنترکشت کے اپنے وطن میں واقع تھی، کئی صدیوں تک اسے ریاستی حمایت کسی وقفے کے بغیر ملتی رہی اگرچہ حکومتوں کے سیاسی نظام میں تبدیلیاں ہوتی رہیں۔ بادشاہ ہرش نے (۶۰۶۔۶۴۷ء) جس کا تعلق پچھلی گپت حکومت سے تھا، اپنے دربار میں ایک ہزار نلندا بھکشوؤں کی سرپرستی کی تھی اور اس نے احترام کی نشانی کے طور پر ہان چینی راہب شواندزنگ کے پاؤں تک چھوئے تھے۔

عہدرواں کا حکمران پال خاندان، بدھ مت کی سرپرستی میں اس سے بھی بہت آگے بڑھ گیا تھا۔ اس شاہی سلسلے کا پہلا بادشاہ گوپال (۷۵۰۔۷۷۰ء) اودنت پوری کی بودھی خانقاہی یونیورسٹی کا بنیاد گزار تھا، جب کہ اسی خاندان کے دوسرے بادشاہ دھرم پال نے (۷۷۰۔۸۱۰ء) سوم پور میں وکرم شلا ﴿یونیورسٹی﴾ قائم کی۔ گو کہ دھرم پال نے اپنی سلطنت مغرب میں گندھارا کی سرحدوں تک اور مشرق میں بنگال تک پھیلا دی تھیں، مگر اس نے کبھی بھی ریاست کے فوجی اور سیاسی اتار چڑھاؤ میں بودھی خانقاہوں کو شریک نہیں ہونے دیا۔ نہ ہی اس نے کبھی ان کی باگ ڈور سنبھالنے کی کوشش کی۔ شمالی ہندوستان کی خانقاہیں مذہبی تربیت کی حصولیابی میں مکمل طور پر آزاد تھیں۔

ٹری سونگ – دے- تسین نے، ۷۶۶ء میں، ہندوستانی بادشاہ گوپال کی مثال سے متاثر ہو کر اودنت پوری کے نمونے پر سمیاے خانقاہ کی تعمیر کے احکامات جاری کیے۔ یہ بنیادی طور تبتوں کے استعمال کے لیے بنائی جانے والی ملک کی پہلی بودھی خانقاہ تھی۔ اس کی تعمیر کے دوران ہی پہلے سات دیسی تبتوں کو بطور راہب مقرر کیا گیا، اور ۷۷۵ء میں اس کی تکمیل کے وقت تک تین سو سے زیادہ اہل وطن ان کی صفوں میں شامل ہوچکے تھے۔ اس سے پہلے تبت میں صرف بودھی مندر تھے اور غیرملکی بھکشوؤں کے لیے چند معمولی خانقاہی سہولتیں دستیاب تھیں، جیسے کہ ۷۲۰ء کے ختنی اور چینی پناہ گزینوں کے لیے۔

ہر چند کہ تبتی بھکشوؤں کو ان کا منصب ﴿رہبانیت﴾ ہندوستانی روایت کے مطابق تفویض کیا گیا تھا، ٹری سونگ- دے- تسین نے ثقافتی امتزاج کی پالیسی پر عمل کیا۔ بہر حال، اس پالیسی کا ایک مقصد سیاسی مصلحت بھی رہی ہوگی۔ اسے ﴿ٹری سونگ- دے- تسین کو﴾ اپنے دربار کے تین گروہوں دیسی تبتی، ہندوستانی حامی اور چینی حامی دھڑوں کی باہمی چپقلشوں کے پیش نظر توازن قائم رکھنے کی ضرورت تھی۔ چنانچہ اس نے سمیاے کے مقام پر جو خاص مندر تعمیر کروایا، اس میں اوپر تلے تین منزلیں رکھیں، جن میں ہر منزل تین الگ الگ ثقافتوں کے نمائندہ طرز تعمیر تبتی، شمالی ہندوستانی اور ہان چینی کا پتہ دیتی تھی۔ اس ﴿واقعے﴾ سے یاد آتا ہے کہ اپنے شاہی سلسلے ﴿خاندان﴾ کے بانی مبانی، سونگ تسین گامپو نے سیاسی مقاصد کے تحت زہانگ زہونگ، نیپال اور تانگ چین کی شہزادیوں سے اسی طرح کا توازن قائم رکھنے کی کوشش میں شادیاں کی تھیں۔

چین کے ساتھ ثقافتی رابطے

اگرچہ ٹری سونگ- دے- تسین نے شاہراہ ریشم کے مغربی کنارے پر قبضہ حاصل کرنے کے لیے چین کے خلاف جنگ کی تھی، مگر ایسا لگتا ہے کہ اس کے اندر ہان چینیوں کے خلاف ثقافتی تعصب نہیں تھا، بالخصوص بدھ مت کے سلسلے میں۔ اس کے فوجی منصوبے بنیادی طور پر سیاسی اور اقتصادی نوعیت کے حامل تھے۔

این لوشان بغاوت کو دبانے اور شاہی اقتدار کو بحال کرنے کے بعد، جو تانگ سلاطین نتیجتاً سامنے آئے، انہوں نے نہ صرف یہ کہ بادشاہ شواندزنگ کے ذریعے بدھ مت پر عائد کردہ پابندیاں اٹھالیں، بلکہ مذہب کی سرپرستی بھی کرنے لگے۔ پال ہندوستان کے معاملے کے برعکس، بہر حال، ہان چینی بودھوں نے، جواباً اسی طرح ریاست کا ساتھ دیا۔ یہ بات صاف نہیں ہے کہ ایسا بودھوں کی اپنی پہل کے باعث ہوا تھا یا اس ریاستی پالیسی کے باعث کہ حکومت کے تئیں حمایت کو بڑھاوا دینے کے لیے بدھ مت کی مقبولیت سے فائدہ اٹھایا جائے، سوئی ﴿شاہی﴾ خاندان کے بانی کا خود کو ایک چکر ورتن حکمراں کے طور پر اور تانگ ملکہ وو کے اپنے آپ کو مائیتریا بدھ کے طور پر مشتہر کرنے کی جو روایت ہمارے سامنے ہے، اس کے پیش نظر تو ثانی الذکر سبب کا ہی امکان زیادہ قرین قیاس ہے۔

۷۶۶ء میں بادشاہ دائی زونگ ﴿دور:۷۶۳۔۷۸۰ء﴾ نے ووتائی شان پر ایک نئی خانقاہ کی داغ بیل ڈالی اور اسے یہ نام دیا گیا: ”سنہرے شہ نشین والا مندر جو شیطانی طاقتوں سے بچانے والا اور ملک و قوم کی حفاظت کرنے والا ہے۔”ایک مقبول نیا ہان چینی بودھی متن سامنےآیا “بودھی ستو راجا کا سوتر جو قوم کا دفاع کرتا ہے۔ ”تانگ بادشاہ نے مانویت کے خلاف ۷۶۸ء اور ۷۷۱ء میں مزید احتیاطیں پھر سے نافذ کر دیں تا کہ بدھ مت کے خالص وجود کو اس مذہب سے بچا کے رکھا جائے جسے ایک جھوٹی نقل قرار دے دیا گیا تھا۔

یہ واقعات شمالی چینی بدھ مت کے اسی طرز کی تقلید کرتے ہیں جو چھ شاہی سلسلوں کے دور (۲۸۰۔۵۸۹ء) میں وضع کیا گیا ۔اس وقت شمالی چین کے غیرہان حکمراں بودھی خانقاہوں کو سختی کے ساتھ کنٹرول کر رہے تھے اور اپنی فوجی کامرانی کی خاطر مذہبی رسوم کی ادائیگی کے لیے ان خانقاہوں کی کفالت کر رہے تھے۔ بدلے میں بھکشوؤں کو اس خطرناک زمانے میں شاہی تحفظ چاہیے تھا اور ان پر یہ فرض عائد کردیا تھا کہ اپنے حکمرانوں کو بدھ جیسا مان لیں، حکومت کی خدمت کریں، اور بودھی تعلیمات کی پاکیزگی میں ردّ وبدل کرکے انہیں ایسا بنا دیں کہ ان تعلیمات سے ان لیڈروں کی سخت ترین پالیسیوں تک کا جواز نکال لیا جائے۔ تبتی، ہندوستانی اور چینی رواجوں میں ایک ثقافتی امتزاج پیدا کرنے کی اپنی پالیسی کی مناسبت سے، ٹری سونگ- دے- تسین کو چین کے حالیہ واقعات کے بارے میں اور زیادہ جانکاری درکار تھی۔ لہٰذا، ۷۶۰ء کی دہائی کے اوآخر میں اس نے صرف باسانگ شی ہی نہیں بلکہ سیل نانگ کے لیے بھی تانگ چین کی طرف ایک دوسرا وفد روانہ کیا۔ اس وفد کی واپسی پر، بادشاہ نے دراگ مار ﴿براگ ۔ دمار﴾ کے مقام پر بودھی مندر، نانگ لہا کھنگ ﴿نانگ لہا ۔ کھانگ کی تعمیر کی﴾ یہ جگہ شاہی دربار کے پاس تھی۔ سمیاے خانقاہ سے ملی ہوئی جو ابھی تک زیر تعمیر تھی۔ مندر نئے سنہرے شہ نشین والے مندر کے نمونے پر بنایا گیا تھا جو شیطانی طاقتوں سے محفوظ رکھتا ہے اور ملک وقوم کا دفاع کرتا ہے۔ اس میں یہ رمز چھپا ہوا تھا کہ ہان چین کی طرح یہاں بھی بدھ مت کو ریاست میں ثانوی درجہ مل جائے گا اور یہ ذمہ داری اس پر ڈال دی جائے گی کہ ہر آن بڑھتی ہوئی تبتی شاہی طاقت کے مفادات کی خدمت انجام دے۔

سمیاے خانقاہ کی تکمیل

سمیاے کی تکمیل ۷۷۵ء میں ہوئی اور بادشاہ نے شنترکشت کو اس کا پہلا صدر راہب مقرر کیا۔ بہر حال، پدم- سمبھاوا، اس کی تکمیل سے ذرا پہلے ہی چلا گیا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ تبتی لوگ ابھی سب سے گہری بودھی تعلیمات کے لیے تیار نہیں ہیں، بالخصوص دذوگ چن ﴿ردزوگ۔ چین، عظیم کاملیت﴾ کے لیے، اسی لیے، اس نے خانقاہ کی دیواروں اور ستونوں میں اس موضوع سے متعلق متون چھپا دیئے تاکہ انہیں بعد میں اس وقت دریافت کیا جائے جب زمانہ زیادہ سازگار اور پختہ ہوچکا ہو۔

شمالی ہندوستانی اور ہان چینی، دونوں قسم کے معلمین کو اب سمیاے آنے کی دعوت دی گئی تاکہ وہ بودھی متون کے ترجمے اور تدریس میں مدد دیں۔ بہر حال، اپنے آغاز کے وقت سمیاے صرف بدھ مت کے لیے مختص نہیں تھی۔ اس کی سرگرمیاں ثقافت کی وسیع تر روشنیوں کا احاطہ کرتی تھی۔ وہاں خانہ ساز، ہمہ تبتی روایات کے ماہرین بھی موجود تھے، تاکہ زہانگ زہونگ زبان کے مواد کو تبتی میں منتقل کر سکیں۔ اس میدان میں بھی سمیاے ثقافتی امتزاج کی شاہی پالیسی کا انعکاس کرتی تھی۔

۷۷۹ء میں، بادشاہ نے بدھ مت کو تبت کے ریاستی مذہب ہونے کا اعلان کردیا۔ اس نے کچھ مخصوص مالدار خاندانوں کو ٹیکسوں کی ادائیگی سے مستثنیٰ قرار دے دیا اور اس رعایت کے بدلے میں ان کے سپرد یہ کام کر دیا کہ وہ تیزی سے بڑھتے ہوئے راہبوں کے فرقے کو مالی تعاون مہیا کریں۔ لہاسا میں خاص مندر کے نذرانے کی خاطر دو سو خاندانوں کو وسائل فراہم کرنے ہوتے تھے اور ہر راہب کی مدد کے لیے تین خاندانوں کو ضرورت کا سارا سامان دینا ہوتا تھا۔

ٹری سونگ- دے- تسین کو شاید اس اقدام کی ترغیب نیپالی لچھوی شاہی خاندان کے راجہ شیو دیوا دوم (۷۰۴۔۷۵۰ء) کی مثال سے ملی تھی۔ یہ نیپالی بادشاہ، ہر چند کہ اس نے بدھ مت کے ریاستی مذہب ہونے کا اعلان نہیں کیا تھا، مگر اپنی ذاتی خانقاہ شیو دیوا وہار کو مالی مدد دینے کی ذمہ داری اس نے ایک پورے گاؤں پر ڈال دی تھی۔ گو کہ سوراشٹرا کے میترا کا اور راشٹرکوٹا راجاؤں نے بھی والا بھی کی خانقاہوں کو مالی امداد مہیا کرنے کی ایسی ہی پالیسی اپنائی تھی، مگر اس کا امکان کم ہے کہ ٹری سونگ- دے- تسین کو اس مثال سے آگاہی رہی ہو۔

چین کے ساتھ پر امن مفاہمت اور تبتی مذہبی کونسل کا قیام

تبتی بادشاہ نے جو ابھی تک ثقافتی امتزاج کے لیے کوشاں تھا، نئے تانگ بادشاہ دیزونگ ﴿دور:۷۸۰۔۸۰۵ء﴾ سے ۷۸۱ء میں یہ درخواست کی کہ وہ ہر دوسرے سال دو راہبوں کو سمیاے بھیجتا رہے تا کہ وہ تبتوں کو تربیت دے سکیں۔ دو برس بعد، ۷۸۳ء میں تانگ چین اور تبت نے ترفان اور بیشبالق کے سوال پر کئی دہائیوں کی جنگ کے بعد، امن کے ایک سمجھوتے پر دستخط کیے اور دو مشرقی ترکستانی شہروں کا کنٹرول تانگ فوجوں کے حوالے کر دیا۔

سمیاے کے ہندوستانی صدر راہب شنترکشت کا اس کے کچھ ہی دنوں بعد ۷۸۳ء میں انتقال ہوگیا۔ مرنے سے پہلے، اس نے ٹری سونگ- دے- تسین کو خبردار کیا کہ مستقبل میں بودھی تعلیمات کا تبت میں زوال ہوگا، ہان چینی اثرات کے باعث۔ اس نے بادشاہ کو یہ نصیحت بھی کی کہ وہ اس وقت درپیش ہونے والے اس مسئلے کو طے کرنے کے لیے، ہندوستان سے اس کے چیلے کملشیل کو تبت آنے کی دعوت دے۔

ٹری سونگ- دے- تسین نے سمیاے کے پہلے صدر راہب کے طور پر سیل نانگ کو شنترکشت کا جانشین مقرر کیا۔ اسی سال، ۷۸۳ء میں، بادشاہ نے تمام مذہبی معاملات کا فیصلہ کرنے کے لیے، سمیاے کے صدر راہب کی سربراہی میں ایک مذہبی کونسل قائم کی۔ یہ آغاز تھا تبتی طرز حکومت کا جس میں آخر کار، عام قسم کے اور خصوصی طور پر سند یافتہ، دونوں طرح کے وزرا شامل تھے۔ اس زمانے کی سیاست کے سیاق کی حدوں میں رہتے ہوئے اس نظام ﴿حکومت﴾ کے ارتقا کو سمجھنا ہمارے لیے یوں بھی معاون ہوسکتا ہے کہ اس سے ہمیں تبت اور اس کی باج گزار ریاستوں میں، تین دہائیوں کے بعد عباسیوں کے سامنے کابل شاہ اور تبتی فوجی کمانڈر کی خود سپردگی کے باوجود اسلام کے نہ پھیل سکنے کی وجہ بھی سمجھ میں آجائے گی۔

تبتی مذہبی کونسل کی پالیسی کا تجزیہ

اس وقت تبت کے شاہی دربار میں تین خاص گروہ تھے۔ ہندوستان حامی، تانگ چین حامی اورغیرملکیوں سے نفرت جو بیماری کی حد تک جا پہنچی ہو اور ان تینوں گروہوں کے اپنے اپنے حمایتی قبیلے تھے۔ سیل نانگ ہندوستان حامی گروہ کے قبیلے کا رکن تھا۔ پال ہندوستان اور تانگ چین جانے والے شاہی وفود کی سربراہی ﴿کے تجربے﴾ نے اسے یہ آگہی بخشی تھی کہ وہ اول الذکر ﴿پال ہندوستان﴾ میں بدھ مت کی صورت حال کو ہان چین کی بہ نسبت اچھی طرح سمجھ سکے اور یہ جان سکے کہ پال ہندوستان میں یہ صورت حال بدھ مت کے لیے کتنی سازگار تھی۔ پال ہندوستان میں خانقاہوں کی کفالت ریاست ﴿سرکار﴾ کی طرف سے ہوتی تھی اور انہیں بغیر کسی ذمہ داری کا بوجھ اٹھائے، پوری خود مختاری حاصل تھی۔ دونوں میں سے کسی کو ﴿نہ تو خانقاہ کو، نہ سرکار کو﴾ ایک دوسرے کے معاملات سے کوئی غرض نہ تھی۔ مزید برآں، سیل نانگ کے دورے کے بعد سے پال بادشاہ تبتی دربار کو اپنی طرف سے خراج ادا کرتے رہتے تھے، اگرچہ ان کا یہ اقدام تجارتی وفود بھیجنے کی ایک مصلحت آمیز ترکیب بھی ہوسکتا ہے، جو بھی ہو، تبتی دربار کو یہ امید ضرور رہی ہوگی کہ پال ریاست تبت کے بودھی اداروں کی حمایت بھی کرتی رہے گی۔ دوسری طرف، تانگ چین میں بودھی خانقاہوں کو ریاستی امداد صرف سرکاری کنٹرول کی قیمت پر ملتی تھی۔

ہان چین میں، خاص طور پر شمال میں بدھ مت بار بار مشترکہ سرکاری کفالت اور کنٹرول میں رہتا آیا تھا۔ بہر حال، چونکہ حکمراں گھرانوں کو بار بار چیلنج کیا جاتا، اور ان میں بار بار الٹ پلٹ ہوتی رہتی تھی۔ اس لیے مذہب کو اکثر غیر مستحکم بنیاد ہی میسر آتی تھی۔ مثلاً توبا شمالی وی کے شاہی سلسلے ) ۳۸۶۔۵۳۵ء) نے اپنی مملکت میں بودھی خانقاہوں کے انتظام کے لیے ایک سرکاری بیورو بنا رکھا تھا جس کا سربراہ بادشاہ کا اپنا منتخب کیا ہوا ایک صدر راہب ہوتا تھا۔ اس بیورو کو یہ اختیار حاصل تھا کہ ایسے رشوت خور بھکشوؤں کو جو خانقاہ کے نظم وضبط میں دخل انداز ہوں اور اپنی حیثیت کا غلط فائدہ اٹھائیں، وہ خانقاہ سے نکال باہر کرے، یہ بیورو ﴿دفتر﴾ اکثر قانون کے مطابق اپنے نظم وضبط کے قاعدے نافذ کرتا تھا۔ بہر حال، جب حکومت ایسے وزرا کے تحت آئی جو بدھ مت کے تئیں شاہی امداد اور حمایت سے جلتے تھے تو بیورو کو تحلیل کر دیا گیا اور بودھوں کے خلاف مذہبی ایذا رسانی اور زیادتی کا سلسلہ شروع ہو گیا، مثال کے طور پر ۴۴۶ء میں۔

ایک مذہبی کونسل کے قیام کے ساتھ، ٹری سونگ- دے- تسین شاید ہان چینی نمونے کی پیروی کررہا تھا، مگر اس نے کچھ خاص ہندوستانی اور تبتی عناصر بھی اس میں ملا دیے۔ ہندوستانی نیپالی رواج کی مناسبت سے ریاست خانقاہوں کی امداد اس طرح بھی کرتی تھی کہ کچھ خاندانوں کو محصول کی ادائیگی سے مستثنیٰ کر دیتی تھی اور اس کے بدلے میں، ان کے سپرد یہ کام کر دیتی تھی کہ وہ خانقاہوں اور بھکشوؤں کو کھانے پینے کا سامان مہیا کرتے رہیں۔ ان مراعات کے جواب میں، ہان چین کی طرح، یہاں بھی خانقاہیں ریاست کی فلاح کے لیے مذہبی رسوم ادا کرتی رہتی تھیں۔ یہ سلسلہ ایک عرصےسے جاری اس تبتی رواج سے خوب مطابقت رکھتا تھا جس کے مطابق تبت کی مقامی ماقبل بدھ روایت کے تربیت یافتہ راہبوں کو ہی شاہی دربار میں خدمات انجام دینے اور مذہبی رسوم کے ادا کرنے کی ذمہ داری سونپی جاتی تھی۔ ہان چینی نمونے کے مطابق بیورو اندرونی بودھی معاملات کو چلانے اور ان کی دیکھ بھال کرنے کا فریضہ انجام دے گا، لیکن ہندوستانی رواج کے مطابق اسے سرکاری نظم وضبط سے ﴿آزادی اور﴾ خود مختاری بھی حاصل ہوگی۔

تبتی دربار میں خاص ہندوستان حامی گروہ کے ایک رکن اور مذہبی کونسل کے پہلے سربراہ کی حیثیت سے سیل نانگ کو فطری طور پر، ہندوستان سے اور زیادہ قریبی رشتہ قائم کرنے، اور تانگ چین کے ساتھ بس ایک کمزور تعلق بنائے رکھنے کی خواہش تھی۔ اس کے علاوہ، اسے خاص فکر اس بات کی تھی کہ ﴿خانقاہوں پر﴾ ہان چینی وضع کے سرکاری کنٹرول یا بدھ مت پر جبر اور ایذا رسانی کے رویے سے گریز اختیار کیا جائے۔ بہر حال، ٹری سونگ- دے- تسین نے سیاسی محاذ پر اسی وقت تانگ چین کے آگے سر جھکایا تھا۔ اس نے تبتی دربار میں چین نواز گروہ کے ہاتھ مضبوط کر دیئے تھے۔ یہ صورت حال اس گروہ ﴿چین نواز﴾ کے لیے یوں سازگار تھی کہ وہ بادشاہ سے خانقاہوں پر ہان چینی وضع کی سرکاری کنٹرول کی پالیسی کے نفاذ کے لیے اصرار کرسکتا تھا۔ دربار میں بدیسیوں سے بیزار نفرت کرنے والے گروہ کے لیے بھی یہ ماحول سازگار تھا کیونکہ تانگ چین کے ساتھ جو مضبوط رابطہ اختراع کیا جا رہا تھا، اس کے خلاف وہ اپنا ردعمل ظاہر کرسکتے تھے اور اس وقت وہ غیر ملکی اثرات، بشمول بدھ مت کا صفایا کرنے کی اپنی مہم بھی پھر سے شروع کرسکتے تھے۔

سیل نانگ اور مذہبی کونسل کو اس وقت بلا تاخیر اور فیصلہ کن انداز میں عمل کرنے کی ضرورت تھی، اس سے جو حل نکلے گا وہ کونسل کی حیثیت کو مستحکم کرے گا جو نہ صرف یہ کہ خود مختار ہوگی بلکہ بجائے خود حکومت پر اس کے اثرمیں مضبوطی آئے گی، چنانچہ سیل نانگ نے ٹری سونگ- دے- تسین کو قائل کر دیا کہ وہ مذہبی کونسل کے تمام اراکین کو وزیروں کی سطح کے سبھی اجلاسوں میں شرکت کی اجازت دے اور اس کونسل کو یہ اختیار بھی ہو کہ وہ وزیروں کے فیصلے کو مسترد کر دے۔ تبت کے صدر راہب کی ابتدائی رہنمائی کے تحت، مذہبی کونسل جلد ہی بجائے خود بادشاہ کے وزیروں کی کونسل سے زیادہ طاقت ور ہوگئی۔

غیرملکیوں سے نفرت کرنے والوں کا صفایا

۷۸۴ء میں پہلے اقدام کے طور پر مذہبی کونسل نے قدامت پسند ”غیرملکی بیزار گروہ” کا صفایا کرنے کی مہم شروع کی اور اس کے قائدین کو، عوامی جمہوریہ چین کے موجودہ دور کے شمال مغرب یونان صوبے میں، گلگت اور ننجاؤ ﴿نان۔ چاؤ﴾ بھیج کر جلا وطن کر دیا۔ چونکہ اسی گروہ نے انتیس برس پہلے بادشاہ کے باپ کا قتل کیا تھا اور بدھ مت کے تئیں چھ برس کی ستم رانی اور ایذار سائی کے سلسلے کو ہوا دی تھی، لہٰذا اس وقت سب سے بڑا خطرہ اسی کی طرف سے تھا۔

بارہویں صدی کے تبتی بدھ تاریخی روزنامچے اس واقعے کی تفصیل ان بون راہبوں پر ستم رانی اور زیادتی کے طور پر بیان کرتے ہیں جو بدھ مت کے مخالف تھے۔ اگرچہ گلگت اور ننجاؤ میں منظم بون عقیدے کے ثانی الذکر پیروکاروں کی موجودگی سے ظاہر ہوتا ہے کہ بہت سے لوگ جنہیں جلاوطن کردیا گیا۔ ماقبل بودھی تبتی روایت کے ماننے والے تھے، تاہم ان کا جو صفایا کیا گیا، اس کے اسباب اپنی نوعیت کے لحاظ سے بنیادی طور پر سیاسی تھے۔ ایسا مذہبی اور نظریاتی اختلافات کی بنیاد پر نہیں کیا گیا تھا۔ گیارہویں صدی کے خاتمے سے پہلے، بون ﴿عقیدہ﴾ بہر حال، ایک منظم مذہب نہیں تھا اور بون کی اصطلاح صرف شاہی دربار کے اس مخالف بدیسی بیزار گروہ کی طرف اشارہ کرتی ہے۔

بدھ مت کے معلمین اور دیسی تبتی روایت نے اس وقت تک سمیاے میں اپنے اپنے متون کے ترجمے کا کام ایک ساتھ مل کر کیا تھا۔ بہر حال، چونکہ اس مرحلے میں سیاسی صورت حال نہایت غیرمستحکم تھی، اس لیے سمیاے کے دیسی نظام کے خاص روحانی پیشوا، ڈرنپا نامکا ﴿ڈران۔ پانام۔ مکا﴾ نے اس روایت کے بیشتر متون کی نقلیں، حفاظت کے خیال سے خانقاہ کی دیواروں کی درزوں اور شگافوں میں چھپا دیں۔ بعد کی تبتی بون تاریخیں، ایک مذہبی ایذا رسانی کی رپورٹ کی حمایت کرتے ہوئے، یہ بتاتی ہیں کہ وہ بدھ مت کو قبول کرنے میں حیلے اور بہانے اس لیے کرتا رہا تا کہ سمیاے میں مقیم رہے اور ان متون کی حفاظت کرتا رہے۔ تزکیئہ نفس کے بعد، اس نے مترجم وائر وچان کے جیسے مشہور تبتی معلموں کو خود اپنی روایت اور بدھ مت کے، مختلف الاجزا اور مخلوط مرکب کا درس دیا۔

تبتی بون اور بودھی مذہبی تاریخیں اکثر واقعات کا بیان اپنے ہی سیاسی ایجنڈے کی روشنی میں کرتی ہیں۔ بہرحال، کوئی بھی تبتی ماخذ یہ نہیں کہتا کہ ڈرنپا نامکا یا اس کے کسی بھی پیشہ ور ساتھی کو اپنے ریت رواج اور عقائد کو ترک کرنے اور بدھ مت کو قبول کرلینے پر مجبور کیا گیا تھا۔ اس بات کا امکان کہیں زیادہ ہے کہ تبت کی دیسی روایت اور بدھ مت کو، کم سے کم بادشاہ سونگ تسین گامپو کے وقت ایک دوسرے کے ساتھ خلط ملط کردیا گیا ہو۔ پہلے تبتی بادشاہ نے دونوں روایتوں سے منسلک مذہبی رسوم کی ادائیگی کا حکم دیا تھا، اور ڈرنپا نامکا نے بس اسی میلان کو جاری رکھا یا شاید اسے اور آگے بڑھایا۔ کچھ بھی ہو ان ﴿دونوں﴾ مذہبی نظاموں کا آپس میں ایک دوسرے پر اثر اپنے آپ ہی رونما ہوا ہوگا اور سمیاے کے مقام پر دونوں ﴿روایتوں﴾ کے روحانی معلمین کی موجودگی کے باعث اسے فروغ ملا ہوگا۔

اگر سب نہیں تو بیشتر، بدیسی بیزار سیاسی حلقے کے لوگوں کا شاہی دربار سے صفایا، تبتی دیسی روایت کی تقلید میں ہوا ہوگا۔ بہرحال، اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ان مذہبی رسوم کی ادائیگی کرنے والے یا اس نظام کے تمام عناصر تبت سے بالکل ختم کر دیئے گئے، جیسا کہ مذہبی تاریخیں ہمیں یقین دلانا چاہتی ہیں یا ۸۲۱ء میں تانگ چین کے ساتھ ایک دوسرے امن معاہدے کی تکمیل، دیسی روایت سے وابستہ تمام مذہبی رسوم کے ساتھ، بہ شمول جانوروں کی قربانی کے، کی گئی۔ منظم بون مذہب کے بانیوں اور انتخابی رویہ رکھنے والے بون / بودھی معلمین نے گیارہویں صدی کے آغاز میں کہ ڈرنپا نامکا کے چھپائے ہوئے متون باہر نکال لیے۔ یہ دو واقعات صاف طور پر ظاہر کرتے ہیں کہ تبتی مذہبی کونسل نے جبریہ بدھ مت قبول کر لینے کی پالیسی کا اطلاق نہیں کیا۔ ان سے اس امر کی نشاندہی بھی ہوتی ہے کہ دیسی عقیدہ وسطی تبت میں ۷۸۴ء کی ”پاک کرنے کی تمام تر کارروائی“ کے بعد بھی برداشت کیا جاتا رہا۔

اگر یہ معاملہ دیسی تبتی عقیدے اور خود دیسی تبتوں کے ساتھ رہا تو پھر ہم صاف طریقے سے یہ نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں کہ بعد کی دہائیوں میں، ایک بدیسی مذہب، موسوم بہ اسلام کو بے دخل کرنے اور غیر تبتوں کو دوبارہ بدھ مت میں داخل کرنے کے لیے، کونسل نے تبتی حکومت پر یہ دباؤ نہ ڈالا ہوگا کہ وہ سغد میں بغاوتوں اور شورشوں کا ساتھ دے۔

تانگ چین حامی گروہ کا بے اثر کیا جانا

۷۸۴ء میں غیر ملکیوں سے بیزار گروہ کا صفایا ہو جانے کے بعد اب تبتی حکومت کے سامنے صرف دو باہم مخالف گروہ بچ رہے تھے۔ کچھ وزیروں کا تعلق شمال مشرقی تبت کے اس طاقت ور قبیلے سے تھا جو تانگ چین کا حامی تھا اور جس سے ملکہ دوواگیرتریمالو نسبت رکھتی تھی۔ دوسرا گروہ جس سے سیل نانگ کا تعلق تھا، وسطی تبت کے ایک حریف فرقے سے تھا جسے تانگ دربار پر بھروسہ نہیں تھا، جو اس کے خلاف مسلسل جنگ چھیڑے رکھتا تھا، اور پال ہندوستان سے جو قریبی رشتے نیز ایک طاقت ور مذہبی کونسل کے قیام کا حامی تھا۔

۷۸۶ء میں تانگ چین کے ساتھ تین برس کے امن کی معیاد ختم ہوگئی۔ ویغوروں نے جو کو بغاوت (۷۸۳۔۷۸۴ء) تانگ حکمراں خاندان کے خلاف کمک بہم پہنچائی تھی، اور تبتوں نے انہیں شکست دینے کے لیے تانگ فوجوں کی مدد کی تھی۔ تانگ دربار نے وعدہ کیا تھا کہ اس مدد کے انعام کے طور پر وہ ترفان اور بیشبالق تبتوں کے حوالے کر دے گا، لیکن جب تانگ بادشاہ نے ان کے معاہدے کو نظر انداز کیا تو تبتوں نے حملہ کر دیا۔

اگلے پانچ برسوں تک تبتوں نے تانگ چین سے دُن ہوانگ لے لیا، ترفان اور بیشبالق کے لیے تانگ فوجوں کے ساتھ اپنی مقابلہ آرائی ختم کردی، اور جنوبی تارم طاس ریاستوں، خاص طور پر ختن پر اپنی گرفت کو اور زیادہ مضبوط کردیا۔ ویغوروں نے اس صورت حال کا فائدہ اٹھایا اور ان کے برائے نام باج گزار قرلوقوں کو دزونغاریہ اور شمال مغربی ترکستان کے حصوں سے کھدیڑ باہر کرتے ہوئے، تانگ چین سے کوچا بھی اپنے قبضےمیں لے لیا۔ بہرحال، تانگ فوجیں گانسو قطعہ زمین کے لیے، انہیں مسلسل چیلنج کرتی رہیں۔

چین تبتی تعلقات کے اسی موڑ پر، تبتی بادشاہ ٹری سونگ- دے- تسین نے سمیاے کے مقام پر (۷۹۲۔۷۹۴ء) اس مشہور مذاکرے کی دعوت دی جس میں شمالی ہندوستان کے بودھوں کے نمائندوں نے ہان چینی بدھ بھکشوؤں کو شکست دے دی۔ اس نے ایک بار میں ہمیشہ کے لیے یہ فیصلہ کر دیا کہ تبت میں بدھ مت کی جو خاص شکل مروج رہے گی وہ شمالی ہندوستانی ہوگی، ہان چینی نہیں اسی طرح کی ایک بحث اور اس کے نتائج طبی نظام کے اپنائے جانے کے سلسلے میں بھی سامنے آ‏ئے۔ بہر حال، یہ واقعات تانگ چین مخالف گروہ کے سیاسی مطمح نظر کی فتح کو جتنا ظاہر کرتے ہیں اتناہی ہندوستانی بدھ فلسفیانہ خصوصیات اور طبی روایت کو بھی، مذہبی کونسل، بلا شبہ تانگ چین حامی گروہ پر ہندوستان نواز ﴿حامی﴾ گروہ کو ترجیح دینے کے حق میں تھی، مزید برآں، یہ واقعہ کہ سیل نانگ، ان میں سے بیشتر بحثوں کی تعبیر کا فریضہ انجام دے رہا تھا، اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ اسے ان ﴿بحثوں﴾ کے نتائج پر اثر انداز ہونے کا کتنا موقع حاصل تھا۔

سغد میں تبتی پالیسی کا خلاصہ

بادشاہ سونگ دیت سین۷۹۷ء میں اپنی ذمہ داریوں سے سبک دوش ہوا اوراس کے اگلے برس اس کا انتقال ہوگیا۔ اس کی جانشینی، اس کے بیٹے منی تسین پو﴿مو۔ نے بتسان۔ پو﴾ ﴿دور:۸۰۰:۸۱۵ء﴾ نے اختیار کی جسے سینالیگ ﴿سد۔ نا۔ لیگس﴾ کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔ ثانی الذکر کے دور حکومت میں، خلفیہ المامون تبت کو ایک ڈرامے والے ملک ﴿وقوم﴾ کے طور پر دیکھنے میں پوری طرح حق بجانب تھا، خاص طور سے اس صورت میں کہ تبت اور اس کے اتحادی سغد کو آنکھیں دکھا رہے تھے اور بغاوت کی حمایت کر رہے تھے۔ بہر حال، اس کا تبت کے ارادوں کا تجزیہ اور اس کے نتیجے میں ایک ﴿عام﴾ تصادم کو مقدس ﴿مذہبی﴾ جنگ قرار دے دینا درست نہیں تھا۔

مشرقی ترکستان پر اپنی گرفت دوبارہ قائم کرنے کے بعد، یقینی طور پر تبت مغربی ترکستان میں اپنے اقتدار کی توسیع کرنا چاہتا تھا اور اسی لیے، یقینی طور پر، وہ اپنے دشمنوں کی حکومت میں عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش بھی کرتا۔ بھکشوؤں کی مذہبی کونسل تبت کے اندر، کسی مخالفت کے بغیر داخلی طاقت ﴿اور اقتدار﴾ کی حصولیابی کے جذبے سے مغلوب تھی تا کہ ملک میں بدھ مت کے فروغ کو یقینی بنایا جاسکے۔ ایک مرتبہ، اس نے جب حکومت کو ان تمام گروہوں ﴿اور فرقوں﴾ سے پاک کردیا جو اس کی مخالفت کرتے یا اس کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کرتے، تو اب اس کی خاص سرگرمیاں ایک ایسی لغت کی تالیف پر مرکوز ہوگئی تھیں، جو سنسکرت سے تبتی میں ترجمے کی معیار بندی میں مدد دے سکے اور جس سے ترجمے کے لیے متون کے انتخاب کو منظم کرنے کے کام میں بھی سہولت ہوتا کہ بدھ مت کو بہترین طریقے سے سمجھا جائے اور اس کی ﴿بدھ مت کی﴾ طہارت قائم رہے۔ اسے دوسرے مذاہب سے یا تبت کے اندر یا باہر بدھ مت کی اشاعت سے سروکار نہ تھا۔

مزید برآں، مسلمیہّ اسلام کے سغدیائی پیروکاروں اور مانوی شیعوں کو ان کی بنوعباس مخالف بغاوت میں مدد دیتے ہوئے تبت ان کے مذہبی فرقوں کے تئیں اپنی طرف داری یا مہربانی کا اظہار قطعاً نہیں کر رہا تھا۔ بادشاہ ٹری سونگ- دے- تسین کے فرمان جو تبت کے لیے ہندوستانی بدھ مت کے انتخاب کو اس کے سب سے بڑے سہارے کی شکل میں دیکھے جانے سے متعلق ہیں، انہوں نے مانویت کو بھی صریحاً مسترد کر دیا تھا۔ وہ تانگ چینی بادشاہ شواندزنگ کی اس تنقید کا اعادہ کرتے ہیں کہ مانویت بدھ مت کی ایک سطحی نقل ہے اور اس کی اساس ایک جھوٹ پر قائم ہے۔

بادشاہ ٹری ریلپا چین

بنوامیہ نے ۸۱۵ء میں تبت کے باج گزاروں، کابل کے شاہ کو شکست دینے، اور بعد کے برسوں میں تبت کے مقبوضہ گلگت کے اندر مزید یلغار کرنے میں کامیاب کیوں ہوئے۔ بلاشبہ، اسی سال ٹری سونگ- دے- تسین کی موت تھی۔ نیا تبتی بادشاہ، اس کا بیٹا ٹری ریلپا چین ﴿کھری۔ رال۔ پا۔ کین﴾ ﴿دورحکومت: ۸۱۵۔۸۳۶ء﴾ نے ایک نوعمر بچے کے طور پر اس کی جانشینی اختیار کی، اور اس وقت تبت کو مضبوط قیادت میسر نہیں تھی۔ اس کے کچھ ہی عرصے کے بعد، بہر حال، ٹری ریلپا چین بلوغت کی عمر کو پہنچا، وہ بہت طاقت ور بن گیا اور اس نے بدھ مت کی حیثیت کو اور زیادہ مستحکم کیا۔

عباسیوں نے ۸۱۹ء میں کابل اور گلگت سے مراجعت اختیار کی، اسی کے ساتھ طاہری ریاست قائم کی۔ ۸۲۱ء میں تبت نے تانگ چین کے ساتھ ایک دوسرا امن معاہدہ کیا اور اس کے اگلے برس ویغوروں کے ساتھ اسی طرح کا معاہدہ کیا۔ تبتوں نے گانسو قطعہ زمین اور دُن ہوانگ، اسی کے ساتھ ساتھ ترفان اور بیشبالق اپنے پاس رکھا۔ موخر الذکر دونوں شہروں کی ملکیت بعد کی تین دہائیوں میں تبتوں اور ویغوروں کے درمیان کئی بار تبدیل ہوئی تھی۔

اپنی فتوحات سے ولولہ پاکر بادشاہ ٹری ریلپا چین نے امن کا جشن منانے کے لیے کئی نئے بودھی مندر تعمیر کیے اور اپنا دارالسلطنت یارلونگ وادی سے لہاسا لے گیا، جو تبت میں بودھوں کی خاص پناہ گاہ ہے۔ مقدس تبتی تاریخوں کے مطابق، ٹری ریلپا چین نے ترجمے کا ایک بیورو ﴿دفتر﴾ بھی قائم کیا تا کہ ایک سنسکرت تبتی لغت مرتب کی جائے اور بودھی متون کے ترجمے کے اسلوب اور اصطلاحات کی معیار بندی کی جاسکے۔ واقعہ یہ ہے کہ ان منصوبوں ﴿پروجیکٹوں﴾ کا آغاز اس کے باپ، ٹری سونگ- دے- تسین نے کروایا تھا۔ مقدس تاریخیں انہیں ﴿ان منصوبوں کو﴾، بہر حال، اسی سے منسوب کرتی ہیں تا کہ سونگ تسین گامپو، ٹری سونگ- دے- تسین اور ٹری ریلپا چین کی پہچان اس وقت کے، بدھ مت کے تین خاص شاہی سرپرستوں اور اس طرح آوالوکیت- ایشور، منجوشری اور وجرپانی کی ”بدھ شبیہوں” کے اوتار کے طور پر کی جاسکے۔ یہ بازگشت ہے ان تاریخوں میں تین بدھ شبیہوں کو بالترتیب تبت، چین اور منچوؤں اور منگولیا کے سرپرست ”بدھوں” سے منسوب کیے جانے کی اور گیلوگ کے بانی، تسونگ کھاپا ﴿تسونگ۔ کھا، پا، ۱۳۵۷۔۱۴۱۹ء﴾، کو ان تینوں کی تجسیم ﴿اظہار مادی﴾ کے طور پر دیکھنے کی۔

غصب ناکی کی شبیہہ وجرپانی کی طرح، بہرحال، بادشاہ ریلپا چین اپنے مذہبی جوش میں کسی قدر متشدد ہوگیا۔ نہ صرف یہ کہ اس نے ہر راہب کو امداد فراہم کرنے والے خاندانوں کی تعداد بڑھا کر تین سے سات کردی اور اس طرح ریاست کی معیشت پر دباؤ بہت بڑھ گیا، اس نے یہ فرمان بھی جاری کر دیا کہ کوئی بھی شخص اگر تضحیک آمیز انداز میں کسی راہب پر انگلی اٹھائے گا تو وہ قطع کردی جائے گی۔ ایسی صورت میں کہ بدھ مت کی حالت اس وقت اتنی مستحکم تھی، اور عباسیوں کی توجہ کا رخ کسی اور طرف پھر گیا تھا، کابل کے شاہ کا اپنا مذہب بدل کر اسلام قبول کرلینا، تبت یا کابل اور گلگت میں اس کی باج گزار ریاستوں تک اسلام کی اشاعت پر بہت عارضی اور معمولی اثر ڈال سکا۔

Top