جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی میں دلائی لاما

ترجمان کے ذریعےۛ: میں سب سے پہلے یہ اعزاز تفویض کرنے پر جامعہ ملیہ اسلامیہ کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا اور یہاں موجود مہمان خصوصی (ہندوستان کے وزیر برائے فروغ انسانی وسائل) ڈاکٹر کپل سبل، وائس چانسلر صاحب، پروفیسر صاحبان، ڈین صاحبان، طلبہ اور تمام مہمانان جو یہاں جمع ہوئے ہیں ان تمام حضرات کا خیر مقدم کرتا ہوں۔

عزت مآب دلائی لامہۛ: اب مائیکرو فون ملنے کے بعد میں انگریزی میں بولنے کی کوشش کروں گا۔ سامعین کو یہ جان لینا چاہیے کہ میری انگریزی، بہت بہت شکستہ ہے، لہٰذا بعض موقعوں پر میں غلط لفظ کا استعمال بھی کرسکتا ہوں۔ اس لیے بالعموم میں اپنے سننے والوں کو یہ مشورہ دیتا ہوں کہ جب میں اپنی ٹوٹی پھوٹی انگریزی بولوں تو وہ "محتاط رہیں"۔ غلط لفظ کا استعمال کرنے کی وجہ سے، میں کبھی غلط فہمی بھی پیدا کرسکتا ہوں۔ مثال کے طور پر سہواً میں "رجائیت" کی جگہ "قنوطیت" بھی کہہ سکتا ہوں، یہ ایک سنگین غلطی ہوگی۔ اصل خطرہ اسی بات کا ہے، اس لیے میری شکستہ انگریزی سنتے وقت آپ لوگ ہوشیار رہیں۔

یہ سند وصول کرنے پر میں واقعی بڑا فخر محسوس کرتا ہوں۔ سب سے پہلے یہ کہ جب کبھی مجھے اس طرح کی ڈگریاں دی جاتی ہیں تو عام طور پر میرا جواب یہ ہوتا ہے کہ درحقیقت میں نے (اپنی) تعلیم پر کچھ بھی وقت صرف نہیں کیا، مگر یہ ڈگریاں مجھے بغیر پڑھے مل گئیں۔ ایسے طلبہ جو اپنی ڈاکٹریٹ حاصل کررہے ہیں، میرا خیال ہے کہ انہوں نے اس کے لیے خاصا وقت صرف کیا اور کوشش کی ہوگی، لیکن مجھے تو مختلف یونیورسٹیوں سے یہ ڈگریاں زیادہ کوشش کے بغیر ہی مل گئیں، لہٰذا میں انتہائی فخر محسوس کرتا ہوں۔ خاص طور پر یہاں، اس وقت ایک مشہور اسلامی یونیورسٹی کی ﴿طرف سے﴾ اس سند کی میں واقعی بہت قدر کرتا ہوں کیونکہ مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دینے سے بھی میری ایک گہری وابستگی ہے۔

۱۱ستمبر کے واقعے کے بعد سے میں بہت مستحکم طریقے سے اسلام کی مدافعت کررہا ہوں کیونکہ مسلم پس منظر رکھنے والے گنتی کے شر انگیز لوگوں کی حرکات کے باعث، پورے اسلام کو ایک طرح کی عمومی منفی شبہیہ دے دی گئی ہے۔ یہ سراسرغلط ہے، فطری اور حقیقت پسندانہ سطح پر بات کی جائے تو ﴿واقعہ یہ ہے﴾ کہ اسلام ہمارے کرہ ارض پر نہایت اہم مذاہب میں سے ایک ہے۔ گزشتہ بہت سی صدیوں کے دوران، آج بھی اور آئندہ بھی، لاکھوں انسانوں کے لیے اسلام امید، اعتماد اور روحانی فیضان کا وسیلہ تھا، ہے اور رہے گا۔ یہ ایک سچائی ہے۔ مزید برآں، بچپن کے دور سے میرے کئی ایسے قریبی دوست رہے ہیں جو مسلمان ہیں۔ مثال کے طور پر، میرا خیال ہے کہ اب سے کم از کم چار صدیاں پہلے مسلمان تاجروں نے تبت، لہاسا میں بود و باش اختیار کی اور اس طرح مسلمان قوم کا ایک چھوٹا سا حلقہ وجود میں آیا۔ اس مسلمان حلقے سے کسی جھگڑے فساد کی کوئی شہادت نہیں ملتی، یہ نہایت نیک طنیت لوگ تھے۔

علاوہ ازیں، میں اس ملک کے کچھ مسلمانوں کو جانتا ہوں، جنہوں نے مجھے بتایا کہ اسلام کے حقیقی ماننے والوں کو تمام مخلوقات کے لیے محبت اور درد مندی کا جذبہ رکھنا ہوتا ہے، اور یہ بھی کہ اگر کوئی مسلمان قتل وغارت کا مرتکب ہوتا ہے تو وہ دراصل مسلمان نہیں رہتا۔ "جہاد" کا مطلب دوسروں پر حملہ کرنا نہیں ہے۔ "جہاد" کے زیادہ گہرے معنی یہ ہیں کہ ہم اپنے باطن میں ایک جدوجہد کی راہ اختیار کریں ﴿تالیاں﴾، یہ جدوجہد ان تمام منفی جذبات کے خلاف ہو، مثلاً غصہ، نفرت اور دنیا طلبی، یعنی کہ ایسے جذبات جو ہمارے ذہنی ماحول کے لیے اور زیادہ مسائل پیدا کرتے ہیں، اور انہی کے ذریعے سے خاندان کے اندر یا قوم کے اندر مزید مشکلات جنم لیتی ہیں۔ اس لیے ایسے منفی جذبات، ایسے تخریبی جذبات کے خلاف لڑنا اور جدوجہد کرنا، ایک گہری سطح پر دراصل یہی "جہاد" کا مطلب ہے۔

لہٰذا، اپنے مختلف فلسفے کے باوجود، اس مذہب کی روح بھی وہی ہے جو دوسرے مذاہب کی ہے۔ دوسرے مذاہب کے پیروکاروں سے مزید گفت وشنید اور مزید روابط کے باعث، میں نے دیکھا ہے کہ فلسفیانہ میدان میں بڑے اختلافات کے باوصف، علمی سطح پر یہ سب (مذاہب) یکساں طور پر محبت، دردمندی، عفو، رواداری، تہذیب ذات اور قناعت کا چلن اپنائے ہوئے ہیں۔ اسی لیے، مجھے جب بھی موقع ملتا ہے، میں ہمیشہ لوگوں سے یہی کہتا ہوں کہ گنتی کے کچھ گمراہ مسلمانوں کی وجہ سے، ہمیں اسلام کے بارے میں عمومی رائے نہیں قائم کرنی چاہیے۔ ہندوؤں میں بھی (اسی طرح) کچھ شرپسند لوگ موجود ہیں، یہودیوں میں بھی ہیں، عیسائیوں میں بھی ہیں اوربودھوں میں بھی ہیں۔ اور یہ بات واضح ہے کہ چھوٹے سے تبتی بودھی فرقے میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں۔ اسی لیے، ایک اسلامی یونیورسٹی کی طرف سے ﴿اعزازی﴾ سند کے تفویض کیے جانے پر، میں واقعتاً بے حد فخرمحسوس کرتا ہوں۔

اب کچھ باتیں اپنی وابستگیوں کے بارے میں۔ تادم مرگ ، میں نے خود سے دو عہد کر رکھے ہیں۔ ایک تو یہ کہ مجھے مذہبی ہم آہنگی کے فروغ کی خاطر کام کرتے رہنا ہے، دوسرا یہ کہ انسانی سطح پر، مجھے باطنی انسانی اقدار، اعلی انسانی اوصاف کو ترقی دیتے رہنا ہے، بالخصوص انسانی یگانگت ﴿اورمحبت﴾ کے جذبات کو جو حیاتیاتی اعتبار سے ان اوصاف کی اشاعت کا سبب بنتے ہیں۔ ہماری پیدائش کے ساتھ ہی، ماں کی جانب سے بچے کو عظیم شفقت ملتی ہے۔ بچے کی طرف سے بھی، اس کے جنم لیتے ہی، یہ جانے بغیر کہ وہ ﴿ماں﴾ کون سی ہستی ہے، بچہ پوری طرح سے اس پر انحصار کرنے لگتا ہے۔ ماں جب بچے کو شفقت کی نظر سے دیکھتی ہے، تو بچے کو انتہائی مسرت کا احساس ہوتا ہے، اور جب انہیں ایک دوسرے سے الگ کردیا جائے اس وقت بچہ خود کو غیر محفوظ سمجھنے لگتا ہے۔ جانوروں تک میں اس قسم کی حس پائی جاتی ہے۔ اس طرح ہماری زندگیاں انہی راستوں پر آگے بڑھتی ہیں۔ چنانچہ وہ شخص جو اپنی پیدائش کے وقت انتہائی شفقت کے تجربے سے دوچار ہوتا ہے، اس کے اندر آئندہ کے کچھ برسوں تک بلکہ اپنی پوری زندگی کے دوران اپنے صحت مند اور درد مند انسان ہونے کا تجربہ برقرار رہتا ہے۔ لیکن وہی لوگ، اگر اس وقت کمسن عمر میں محبت سے محرومی کے شکار ہوں اور ان کے ساتھ ناروا سلوک کیا جائے تو یہ تجربہ زندگی بھر انہیں پریشان رکھتا ہے۔ بظاہر وہ چاہے جیسے دکھائی دیں، مگر ان کے باطن کی تہہ میں ایک خوف اور بے اعتباری کا احساس جاگزیں رہتا ہے۔ بنی نوع انسان میں یہ بے اعتباری دراصل بنیادی انسانی فطرت کے خلاف ہے، ﴿کیونکہ﴾ ہم ﴿بہرحال﴾ ایک سماجی مخلوق ہیں۔ کسی بھی سماجی مخلوق کے لیے، فرد کے حق میں مکمل تعاون کا بھروسہ نہایت ضروری ہے۔ فرد معاشرے کا حصہ ہوتے ہیں اور فرد کے مستقبل کا تمام تر دارومدار معاشرے یا ملت پر ہے۔

اس کے علاوہ ، جہاں تک آپ کی اپنی کامیاب زندگی کے اسباب کا تعلق ہے، تو اگر آپ کے اندر بے اعتباری اور خوف کا جذبہ پروان چڑھتا رہا اور اگر آپ دوسروں سے دور رہے تو ایسا فرد بھلا کیسے خوش رہ سکتا ہے؟ یہ بہت محال ہے! اسی لیے، حقیقی (باہمی) تعاون کے لیے، باہمی یگانگت ﴿اور دوستی﴾ بہت ضروری ہے۔ اعتبار دوستی کی بنیاد ہے۔ اعتبار کا دارومدار صاف دلی، شفافیت پر ہے، اسی فضا میں اعتبار کو فروغ حاصل ہوتا ہے۔ اس کی بنیاد دل کی گرمی پر ہے، دوسرے کی بھلائی اور فلاح کے جذبے پر۔ جس وقت یہ جذبہ بیدار ہوتا ہے، تو دوسروں کے استحصال کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ دوسروں کو دھوکہ دینے، ٹھگنے یا بے وقوف بنانے اور تکلیف پہنچانے کی گنجائش نہیں رہتی کیونکہ دوسرے کی فلاح کا حقیقی جذبہ آپ پر حاوی ہو جاتا ہے۔ یہ باتیں لازمی طور پر مذہب کے واسطے سے نہیں پیدا ہوتیں بلکہ انہیں حیاتیاتی عوامل جنم دیتے ہیں۔

اسی لیے، میری خاص وابستگیوں میں سے ایک یہ ہے کہ لوگوں کے اندر اس حقیقت کا احساس جگاتا رہوں کہ "ہم سماجی مخلوق ہیں"۔ اس وقت، بالخصوص آج کی دنیا میں،عالمی معیشت کے دباؤ سے، اور ماحولیاتی مسئلوں کی وجہ سے بھی، پوری دنیا میں لگ بھگ سات ارب کی آبادی میں، ایک دوسرے کے مفادات آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ لہٰذا، اس سچائی کے باعث آج "ہم" اور "وہ" کا کچھ بھی مطلب نہیں رہا۔ اب ہمیں پوری نسل انسانی کو ایک اکائی، ایک خاندان کے طور پر دیکھنا ہوگا۔ اسی لیے، میں لوگوں سے اکثر کہتا ہوں کہ یہ ساری دنیا میرے اپنے وجود کا حصہ ہے اور اسی رویے کو ترقی دینے کی ضرورت ہے۔ جب "ہم" اور "وہ" کے مابین ٹھوس تقسیم قائم ہوجاتی ہے، اس وقت تشدد جنم لیتا ہے۔ اگر ہم اپنے اندر یہ احساس پیدا کرلیں کہ تمام بنی نوع انسان "میرا" اپنا حصہ ہیں، ہمارے اپنے وجود کا حصہ ہیں، تو پھر تشدد کے استعمال کے لیے کوئی جگہ نہیں رہے گی۔

لہٰذا، یہی میری اصل جدوجہد ہے، اپنے بہت سے دوستوں کے ساتھ، اب ہم یہ سوچ رہے ہیں کہ گزشتہ صدی، یعنی بیسویں صدی تو تشدد کی صدی بن گئی تھی۔ اس صدی کے دوران، تشدد کے نتیجے میں دو سو ملین سے زیادہ جانیں ضائع ہوئیں۔

میں ابھی ابھی جاپان میں نوبیل یافتگان کے ایک اجتماع میں شریک ہوکر واپس آیا ہوں، ہیرو شیما کے مقام پر جہاں انسانوں پر پہلا جوہری بم گرایا گیا تھا، سچ مچ یہ کیسی وحشت ناک واردات تھی۔ اس صدی کے دوران انسانوں پر جوہری ہتھیار آزمائے گئے! اس لیے یہ بیسویں صدی، اپنی بہت سی ترقیوں کے باوجود، ایک طرح سے خوں ریزی کی صدی بھی بن گئی۔ اب، اگر اس بے انتہا تشدد اور قتل و غارت کے نتیجے میں کچھ انسانی مسائل سچ مچ حل کرلیے گئے ہوں اور ان سے کچھ فائدہ حاصل ہوا ہو، تو پھر ٹھیک ہے، اس کے لئے کوئی جواز ہو سکتا ہے۔ لیکن ایسا تو کچھ بھی نہیں ہوا۔ اسی لیے اپنے پچھلے تجربوں کی بنیاد پر، اب ہمیں اس بات کی ہر ممکن کوشش کرنی ہوگی کہ اکیسویں صدی باہمی مکالمے کی صدی بن جائے۔ اس کے لیے پوری نسل انسان کی وحدت کے احساس کو فروغ دینے کی ضرورت ہوگی۔ میرا خیال ہے کہ مختلف قومیتوں، مختلف ثقافتوں اور مختلف مذہبی عقائد کا ہونا، یہ سب ثا نوی باتیں ہیں۔ اہمیت اس بات کی ہے کہ بنیادی سطح پر ہم سب ایک جیسے انسان ہیں۔

اسی لیے، بعض اوقات میں سوچتا ہوں کہ اتنے سارے مسائل جن سے ہم دوچار ہیں، اصلاً ہمارے اپنے پیدا کردہ ہیں۔ ہمارے اپنے پیدا کردہ یہ مسائل اس وجہ سے رونما ہوئے کہ ﴿زندگی کی﴾ بنیادی سطح کو بھلا کر، ہم ﴿زندگی کی﴾ ثانوی سطح کی اہمیت پر ضرورت سے زیادہ زور دینے لگے۔ تو پھر، اب وقت آگیا ہے کہ ایک مسرور دنیا، ایک پرامن دنیا کی تعمیر کے لیے، ہم انسانیت کی اہمیت کو اجاگر کریں۔ اور یہ احساس عام کریں کہ ہر ایک فرد کے مفادات کا انحصار باقی تمام انسانوں کے مفاد پر ہے۔ لہٰذا ہمیں ایک دوسرے کے مفادات کا خیال رکھنا ہوگا۔ اپنے لیے زیادہ سے زیادہ فائدے کی حصولیابی کا یہی مناسب طریقہ ہے۔

تو یہ میری دوسری وابستگی ہے۔ میری پہلی وابستگی مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دینے سے ہے، دوسری وابستگی بنیادی انسانی قدروں کو فروغ دینے سے ہے۔ لہٰذا، اپنی آخری سانس تک میں نے خود کو انہی ﴿وابستگیوں﴾ کے لیے وقف کر رکھا ہے۔

اس لیے آپ لوگ، نوجوان لوگ، ان میں جو لوگ طالب علم ہیں، انہیں پہلے میں مبارکباد دیتا ہوں، اس بات کی کہ آپ نے نہایت محنت سے اپنی ڈگریاں حاصل کی ہیں۔ میرا خیال ہے کہ شاید پچھلے کچھ روز اپنے جوش وخروش کے نتیجے میں آپ ٹھیک سے سوئے بھی نہ ہوں گے۔ مجھے لگتا ہے کہ شاید آج کی رات آپ کو گہری نیند آئے گی۔ بہرحال، میں آپ کو اپنی طرف سے مبارکباد پیش کرتا ہوں، اسی کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتانا چاہتا ہوں اور آپ کو اس احساس میں شریک کرنا چاہتا ہوں کہ زندگی آسان نہیں ہے، یہاں آسانیوں کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔ آپ کو بہت سے مسئلے پیش آئیں گے، مگر، بہرحال، یہ تو ہونا ہی ہے کہ ہم سب ایک انسانی معاشرے کے افراد ہیں۔ تو پھر اس سے کیا کہ ہم کس طرح کے مسئلوں سے دوچار ہوں گے، کچھ بھی ہو، ہمیں ان پر قابو پانا ہوگا۔ اس کے لیے خود اعتمادی اور نشاط پروری نہایت ضروری ہے اور نوجوانوں کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ ضبط سے کام لیں۔ آپ کے راستے میں جب کوئی مشکل یا روکاوٹ پیدا ہو، اس وقت اپنا حوصلہ نہ ہاریں۔ ایک تبتی کہاوت ہے۔ "نو مرتبہ کی ناکامی" "نومرتبہ کی جدو جہد!" تو یہ ضروری ہے۔ براہ کرم اسے اپنے ذہن میں رکھیے۔

اس کے علاوہ ایک بات اور ہے۔آپ کا تعلق اس نسل سے ہے جو واقعتاً اکیسویں صدی کی نسل ہے۔ میرا تعلق بیسویں صدی سے تھا۔ اور یہاں موجود پروفیسروں اور وزیروں میں سے بعضوں کا تعلق بھی بیسویں صدی سے رہا۔ اور اب کہ اکیسویں صدی کے دس برس گزر چکے ہیں ۔ ابھی نوّے سال تو اور آنے ہیں۔ تو پھر وہ لوگ جو ان آنے والے برسوں کی شکل متعین کریں گے، وہ تو آپ (نوجوان) لوگ ہی ہوں گے۔ تو اس کے لیے خود کو تیار کرلیجیے۔ اور ایک بہتر دنیا، ایک پرامن دنیا، ایک پر انبساط دنیا کی تخلیق کے لیے آپ سب کا ایک وژن، اس کے لیے آپ کو نہ صرف تعلیم بلکہ اخلاقی اصولوں کی ضرورت ہے۔ میرا خیال ہے کہ ہم نے بیسویں صدی کے دوران جو بہت سے مسئلے پیدا کیے، یہاں تک کہ اس ﴿اکیسویں﴾ صدی کے شروع میں بھی جو مسئلے پیدا کیے، ان کا تعلق تعلیم کی کمی سے نہیں ہے، بلکہ اخلاقی اصولوں کے فقدان سے ہے۔ چنانچہ ایک خوش، پر امن دنیا کی تشکیل کے لیے تعلیم اور اخلاقی اصولوں کو ایک ساتھ چلنا ہوگا۔

اب جہاں تک اخلاقیات کا سوال ہے، تو اس کی بہت سی سطحیں ہیں۔ ایک سطح مذہبی اعتقاد کی ہے۔ اس سے زیادہ بنیادی سطح پر، مذہبی اعتقاد کے بغیر، صرف عام انسانی تجربے، سوجھ بوجھ اور پھر جدید ترین سائنسی دریافتوں کی سطح پر، آپ اس یقین تک پہنچتے ہیں جو آپ کے اندر گرم جوشی کا جذبہ پیدا کرتا ہے اور کشادگی پیدا کرتا ہے جس سے آپ کی جسمانی صحت پر بھی اس کا خوشگوار اثر پڑتا ہے۔ ہر شخص کو اپنی صحت کی فکر رہتی ہے۔ اچھی صحت کا سب سے خاص وسیلہ دماغی سکون ہے۔ اس لیے درد مندی کے احساس کو فروغ دینے کے لیے ضروری ہے کہ اپنی کوششیں تیز تر کردی جائیں۔ اچھی صحت کی حصولیابی کا یہی اہم ترین ذریعہ ہے اور ایک اچھے خاندان کی تعمیر کے لیے بھی یہ نہایت اہم ہے۔

اس لیے، تعلیم کی سمت میں تو آپ کو پہلے ہی ایک اعلی سند تفویض کی جا چکی ہے۔ اب اپنی باطنی قدروں کے فروغ پر بھی آپ مزید توجہ صرف کریں، اس کا مطلب ہے حقیقی انسانی اقدار اور اخلاقیات! وائس چانسلر نے (اپنی تقریر میں) پہلے ہی اس کی طرف اشارہ کیا تھا۔ زندگی کی طرف انسان پروری کا رویہ۔ یہ بہت بہت اہم ہے اور میں اس احساس میں آپ کے ساتھ شریک ہونا چاہتا ہوں۔ تو پھر، اتنا کافی ہے۔ آپ سب کا بہت بہت شکریہ!

Top