اسلامی نقطۂ نظر سے بدھ مت

بدھ فلسفی قادرِ مطلق خدا نہیں ہیں

بدھ مت کے بانی، شاکیہمُنی، کپل-واستو نام کی ایک چھوٹی سی شہری ریاست کے شہزادے تھے۔ یہ ریاست ڈھائی ہزار سال پہلے اس علاقے جو آج شمالی ہند کا سرحدی علاقہ اور نیپال کہلاتا ہے میں واقع تھی۔ اپنی رعایا کے جسمانی اور ذہنی دکھ تکلیف کو دیکھ کر شاکیہمُنی نے اپنی شاہانہ زندگی ترک کر دی اور سال ہا سال وہ راہ ڈھونڈنے کے لیے گیان مراقبہ کرتے رہے جس پر چل کر ساری مخلو قات اپنے مسائل سے آزاد ہو سکے اور ہمیشہ رہنے والی خوشی اور سعادت حاصل کر سکے۔ جاندار مخلوقات کے لیے ان کے درد مندی کا جو گہرا اور بھرپور جذبہ تھا اور فہم و فراست جتنی گہری تھی اس کے نتیجے میں وہ اپنی ساری خامیوں، نارسائیوں اور مسائل پر قابو پانے اور اپنے اندر چھپے ہوئے سارے امکانات بروئے کار لانے میں کامیاب ہوئے تاکہ ایک بودھا بن جائیں۔ بودھ قادر مطلق خدا کو نہیں کہتے بلکہ اس کا لفظی مطلب ہے وہ شخص جو "پوری طرح جاگ چکا ہو" اور ایسا مرد یا عورت دوسرے کے ہر معاملہ میں کام آ سکے۔ اس کے بعد شاکیہمُنی بدھ فلسفی کی ساری زندگی اس کام میں بسر ہوئی کہ وہ بیداری جو ان کے لیے حقیقت بن چکی تھی اسے اپنے اندر پیدا کرنے کے طریقے دوسروں کو بھی سکھا دیں تاکہ ان کا اندر بھی روشنی اجاگر ہو سکے اور وہ خود بھی روشن ضمیر نروانبودھ بن سکیں۔

"قرآن مجید" میں بدھ فلسفی کا ذکر

حامد عبدالقادر بیسویں صدی کے وسط کے اہلِ علم میں سے ہیں۔ وہ اپنی عربی کتاب "بدھ فلسفی – حیات و فلسفہ" میں خیال ظاہر کرتے ہیں کہ قرآن مجید میں دو جگہ (لانباء، ۸۵ اور ص، ۴۸) انبیاء کے تذکرے میں جو ذوالکفل "کفل والا شخص" کا نام آیا ہے، جسے صالحین اور صابرین میں سے کہا گیا ہے، تو اس سے اشارہ شاکیہمُنی گوتم بودھ کی طرف ہے۔ اکثر علماء نے ذوالکفل کو بنی اسرائیل کے نبی حزقيل کا حوالہ قرار دیا ہے لیکن حامد عبدالقادر نے اس کی وضاحت یوں کی ہے کہ "کفل" کپلا کی معّرب صورت ہے جو کپيلا وستو کا مخفف ہے۔ عبدالقادر کا کہنا ہے کہ قرآن مجید میں جو انجیر کا ذکر ہے (والتین، ۱-۵) وہ بھی بدھ فلسفی ہی کا حوالہ ہے کیونکہ مہاتما کو روشن ضمیری انجیر کے درخت تلے حاصل ہوا تھا۔ بعض علماء کو اس تعبیر سے اتفاق ہے اور اپنی رائے کی تائید میں وہ یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ گیارھویں صدی عیسوی کے ہندوستانی تاریخ کے فارسی مسلم عالم البیرونی نے بدھ فلسفی کا بطور نبی ذکر کیا ہے۔ دیگر اہلِ علم دلیل کے آخری حصے کو رد کرتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ البیرونی نے محض یہ تذکرہ کیا ہے کہ ہندوستان کے لوگ بدھ فلسفی کو نبی سمجھتے ہیں۔

کچھ علماء کا خیال یہ ہے کہ مستقبل میں جس بودھا مائیتریا، رؤف و رحیم شخصیت کے آنے کی پیش گوئی کی گئی ہے وہ محمد (صلى الله عليه وسلم) رسول اللہ کے ذات ہے۔ بطور بندۂ رحمٰن بدھ فلسفی کو انجیر کے پیڑ تلے جو عرفان حقیقت نصیب ہوا تھا اسے وحی خدا وندی کہ کر بیان نہیں کیا جاتا۔ تاہم ما بعد کے عظیم بودھ مرشدوں کو کتب مقدسہ بصورت الہام حاصل ہوئی تھیں جیسے ہندوستان میں چوتھی صدی عیسوی میں اسانگ کو براہ راست مائیتریا در توشیتا یعنی خوشی کی جنت سے کتاب مقدس ملی تھی۔

بدھ مت والے بطور اہلِ کتاب

بدھ فلسفی کا عرفانِ حق اور ان کی وہ تعلیمات جو دوسروں کو عرفان حق کے طریقے سکھاتی ہیں ان کو سنسکرت میں "دھرم" کہتے ہیں جس کا لفظی مطلب ہے "حفاظتی اقدامات" – یہ وہ اقدامات ہیں اور وہ طریقے ہیں جن کو اختیار کرکے انسان خود بھی اور دوسروں کے لئے دکھ اور مصائب سے بچنے کے کر سکتا ہے۔ ان اقدامات پر بدھ فلسفی کے ارشادات اور وعظ، جو دوسری صدی قبل مسیح تک زبانی بیان اور منتقل ہوتے آئے تھے، روحانی تحریروں کی صورت میں لکھے گئےتھے۔ آج کا ازبکستان اور شمالی افغانستان وہ علاقہ ہے جہاں عربوں اور بدھ مت والوں کا سب سے پہلے آمنا سامنا ہوا۔ مذکورہ بالا تحریریں اس علاقے میں قدیم ترکی اور سغدیائی ترجموں کی صورت میں کثرت سے ملتی تھیں۔ ان زبانوں میں "دھرم" کے لفظ کا ترجمہ یونانی زبان سے مانگے ہوئے لفظ "نوم" سے کیا گیا۔ یونانی میں اس لفظ کا مطلب" قانون" تھا۔

"قرآن مجید" "اہلِ کتاب" کے مذاہب کے لیے رواداری کا سبق دیتا ہے۔ اہل کتاب سے مراد ہے یہودیت اور عیسائیت۔ بدھ مت کے پیرو کار اگرچہ حقیقتی معنوں میں "اہلِ کتاب" نہیں تھے لیکن عربوں کو جب ان سے معاملہ کرنا پڑا تو انہیں بھی وہی حقوق اور حیثیت دے دی گئی جو یہود و نصاریٰ کو ان کی حکومت میں حاصل تھی۔ انہیں اپنے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی تھی بشرطیکہ ان کے عام لوگ جزیہ ادا کرتے رہیں۔ یوں لگتا ہے کہ "اہلِ کتاب" کے قانونی تصور کو وسعت دے کر اس میں وہ سب لوگ شامل کر دیے گئے جو کسی اعلیٰ مقتدر ہستی کے متعین کردہ اصول و قواعد کی پابندی کرتے تھے۔

بدھ مت کی بنیادی تعلیمات

چار بلند و بالا (آریہ) سچائیاں

دھرم کے بارے میں بدھ فلسفی کی سب سے بنیادی تعلیم "چار بلند و بالا (آریہ) سچائیاں" کے نام سے معروف ہے، وہ چار امور جن کی ان ہستیوں نے تصدیق کی جوعرفانِ حق کی منزل کو پہنچ چکے تھے۔ بدھ فلسفی کا مشاہدہ تھا کہ ہر شخص کو (۱) سچے مسائل (دکھ) کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بلا شبہ زندگی میں بہت سی خوشیاں ملتی ہیں لیکن اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ زندگی مشکل چیز ہے۔ بیماری، بڑھاپا، اپنی اور اپنے پیاروں کی موت، زندگی کی ناکامیاں، دوسرے لوگوں سے تعلقات میں مایوسی اور بگاڑ اور ایسی دیگر باتیں اپنی جگہ دشوار ہیں لیکن لوگ اپنے لیے ان حالات کو مزید مشکل اور تکلیف دہ بنا لیتے کیونکہ ان کے رویے الجھن اور نا سمجھی پر مبنی ہوتے ہیں۔

(۲) مسائل کی سچے اصل جڑ یہ ہے کہ لوگوں میں آگہی کا فقدان ہے، حقیقت سے غافل ہیں۔ مثال کے طور پر سب لوگ اس خیال میں رہتے ہیں کہ وہ کائنات کا مرکز ہیں۔ جب وہ چھوٹے بچے تھے تو آنکھیں بند کرتے ہی انہیں یہ لگتا تھا کہ ان کے علاوہ کوئی موجود نہیں رہا۔ اس صورتحال سے فریب کھا کر وہ یہ محسوس کرتے ہیں کہ اگر کوئی اہم ہے تو ان کی ذات، لہذا انہیں ہمیشہ اپنی مرضی کرنے کی اجازت ہونا چاہیے۔ اس طرح کے خود مرکز، خودرائے اور خود پسند رویّے کے نتیجے میں غلط فہمی، جھگڑے، لڑائیاں حتٰی کہ جنگیں پیدا ہوتی ہیں۔ اگر یہ بات ٹھیک ہوتی کہ وہ مرکز کائنات ہیں تو دوسرے لوگوں کو کیا اختلاف ہو سکتا تھا لیکن کوئی بھی یہ نہیں مانتا کیونکہ ہر شخص اپنی جگہ یہ سمجھتا ہے کہ وہ خود کائنات کا مرکز ہے۔ سب لوگ تو درست نہیں ہو سکتے۔

تاہم یہ ناممکن ہے کہ (۳) مسائل کے سچی بند: سارے دکھ اور مسائل دور ہو جائیں ایسے کہ انسان کو پھر کبھی ناخوشی اور تکلیف کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ یہ تبھی ہو گا جب ہم (۴) ذہن کی وہ سچی سیدھی راہ اپنا لیں جس سے حقیقت کی سمجھ بوجھ حاصل ہوتی ہے۔ بہ الفاظ دیگر، جب انسان کو اس امر کا پورا گیان اور حقیقت سے آگہی حاصل ہو جائے کہ ہم سب ایک دوسرے کا سہارا ہیں، ایک رشتہ میں جڑے ہوئے ہیں اور کوئی شخص بھی مرکز کائنات نہیں ہے تو لوگوں کے لیے یہ ممکن ہوگا کہ وہ اپنے مسائل کے حل تلاش کریں تاکہ سب مل جل کر سکھ چین اور ہم آہنگی سے رہ سکیں۔ الغرض بدھ مت کی بنیادی راہ عمل سائنٹیفک اور عقل پر مبنی ہے۔ مسئلے حل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ان کے اسباب کا کھوج لگا کر ان کو دور کیا جائے۔ ہرشے اسباب و علت کے قانون کی پابند ہے۔

خالی پن اور باہمی انحصار

بدھ فلسفی کی تعلیمات کے مرکزی نکات یہ ہیں کہ حقیقت پر نظر کیجیے یعنی یہ دیکھیے کہ ہر شے اور تمام انسان آپس میں جڑے ہوئے ہیں اس لیے ہم میں سب مخلوقات کے لیے برابر کی محبت اور درد مندی ہونی چاہیے۔ وہ اعلٰی ترین اصول جو ہر شے کو ایک وحدت میں پرو دیتا ہے اس کا عنوان ہے سب ناموں اور تصورات سے ماوراء "خالی پن" (voidness [emptiness])۔ خالی پن یہ بتاتا ہے کہ ناممکن اور خیالی انداز میں کوئی شے کسی دوسری شے سے کٹ کر، واقعی الگ تھلگ ہو کر، وجود نہیں رکھتی بلکہ تمام ہستیاں اور ہر چیز ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہوئے وجود میں آتی ہیں۔ چونکہ تمام جاندار مخلوقات اور طبعی ماحول ایک دوسرے پر دارومدار رکھتے ہیں لہذا انسان کو ہر دوسری مخلوق کے لیے محبت، درد مندی اور دیکھ بھال کا رویّہ رکھنا چاہیے اور عملاً مدد کرنے کی ذمہ داری اٹھانا چاہیے۔ ان دو پہلوؤں پر جمے رہنا جنہیں دانش و طریقت کے عنوان سے بیان کیا گیا ہے اس بات کا تقاضا کرتا ہے انسان کامل ارتکاز، پورا دھیان رکھے اور اخلاقی ضبط نفس کی بنیاد پر مضبوطی سے جما رہے۔ بدھ فلسفی نے ان تمام معاملات میں اپنی ضبط نفس سدھارنے کے لیے کئی طریقے لوگوں کو سکھائے ہیں۔

اخلاقیات اور کرم کی بات

بدھ فلسفی نے اس بات پر بہت زور دیا ہے کہ انسان اپنی زندگی میں اخلاقیات کی سختی سے پابندی کرے، نیکی بدی، اچھے برے کا دھیان رکھے۔ ان کا فرمان ہے کہ دوسروں کی مدد کرنے کی کوشش کرے اور اگر یہ ممکن نہ ہوتو کم از کم ان کو دکھ تو نہ دے۔ ان کے ہاں اخلاقیات کی بنیاد کو کرموں کے سائنسی اصول کی اصطلاح سے واضح کیا گیا ہے یعنی ہمارے رویوں کا سلسۂ اسباب و علل – "کرم "کا مطلب قسمت یا تقدیر نہیں ہے بلکہ اس سے مراد وہ محرّکات اور داعیے ہیں جو کسی شخص کے لفظی، جسمانی اور ذہنی اعمال و حرکات کا باعث بنتے ہیں اور ان کے ساتھ ظاہر ہوتے ہیں۔ منفی یا مثبت طور پر کوئی عمل کرنے کے داعیے اور محرکات اس لیے ابھرتے ہیں کہ ان کے پیچھے کوئی سابقہ کیفیت یا حرکت رہی ہوگی جس کی وجہ سے انسان ایسی صورتحال سے دو چار ہوتا ہے جس میں اسے کسی نہ کسی درجے کی خوشی یا دکھ کا تجربہ ہوتا ہے۔ یہ صورتحال اس زندگی میں یا آئندہ کسی جنم میں واقع ہو گی۔

پُنر جنم

دیگر ہندوستانی ادیان کی طرح بدھ مت بھی دوسرے جنم یا تناسخ کا قائل ہے۔ فرد کا ذہنی تسلسل، اپنی جبلتوں، صلاحیتوں وغیرہ کے ساتھ گذشتہ جنموں سے آتا ہے اور اگلے جنموں میں چلا جاتا ہے۔ انسان جو کرم کرتا ہے اور اس سے جو میلانات بن کر ابھرتے ہیں ان پر اس بات کا دارومدار ہوتا ہے کہ وہ اگلے جنم میں دوزخ میں پیدا ہو، جنت میں جنم لے، آدمی کی جون میں آئے یا جانور کی یا پھر بھوت پریت کی شکل میں داخل کردیا جائے۔ ہر مخلوق کو دوسرے جنم کے تجربے سے گذرنا پڑتا ہے اور اس پر ان کا کوئی قابو نہیں ہوتا اور اسے ان کے گڑبڑ رویّوں کی طاقت متعین کرتی ہے مثلاً غصہ، حماقت، وابستگی اور لگاؤ اور اضطراری طور پر کچھ کر گذرنے کے وہ داعیے جو ان کے کرم کی وجہ سے حرکت میں آتے ہیں۔ اگر انسان ان منفی محرّکات اور داعیوں پر عمل کر بیٹھے جو اس کے ذہن میں اس لیے ابھرتے ہیں کہ اس کے گذشتہ رویّوں نے انہیں اس راستہ پر ڈال دیا ہوتا ہے اور اس طرح تخریبی طرز عمل اختیار کر لیں تو نتیجے میں اسے ناخوشی، دکھ اور مصیبت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کے برعکس اگر انسان تعمیری کاموں میں مصروف رہے تو اسے خوشی ملتی رہتی ہے۔ سو ہر فرد کی خوشی اور غم جزاء یا سزا کا عمل نہیں ہے بلکہ اس کے گذشتہ اعمال کی وجہ سے وجود میں آتے ہیں جو رویّوں کے قوانین اسباب و علت کے پابند ہیں۔

بدھ مت کی اخلاقیات کی اساس یہ ہے کہ ان دس کاموں سے اجتناب کیا جائے جو خاص طور پر خرابی لانے والے کام ہیں۔ ان میں قتل، چوری اور نامناسب جنسی تعلقات کے جسمانی عمل شامل ہیں اور زبان سے ہونے والے اعمال میں جھوٹ، بدگوئی، بدزبانی، لڑائی کروانے والی باتوں اور لایعنی گفتگو کو شمار کیا گیا ہے۔ ذہنی اعمال میں لوبھ لالچ کی سوچیں، نفرت کے خیالات، مسخ شدہ اور دشمنی پر مبنی افکار جن کی وجہ سے انسان مثبت چیزوں کی قدروقیمت سے انکار کر دیتا ہے۔ بدھ فلسفی نے شریعت کی طرح کوئی قانونی ضابطہ نہیں مقرر کیا جس سے منفی اعمال کی سزا متعین کی جا سکے۔ تخریبی سرگرمیوں میں ملوث لوگوں کو اگر دوسرے انسان انعام یا سزا دے بھی دیں تب بھی منفی طرز عمل کے حامل لوگوں کو اپنے اعمال کے نتیجے میں آنے والے دکھ تکلیف تو سہنا پڑیں گے۔

عبادات اور مراقبہ

بدھ فلسفی یہ جانتے تھے کہ نہ صرف اپنے تمام مسائل پر قابو پا کر بودھا بن جانے کی صلاحیت کے اعتبار سے سب لوگ برابر نہیں ہیں بلکہ یہ بھی امر واقعہ ہے کہ مختلف افراد کی ترجیحات دلچسپیاں اور صلاحیتیں اور ہنر بھی الگ الگ ہوتے ہیں۔ ان اختلافات کو سامنے رکھتے ہوئے بدھ فلسفی نے کئی مختلف طریقے بتائے جن پر عمل کر کے انسان اپنی تربیت کر سکتا ہے، اپنی کمی کوتاہی کو دور کر سکتا ہے اور اپنے اندر چھپے امکانات کو بروئے کار لا سکتا ہے۔ ان میں کئی چیزیں شامل ہیں مثلاً مطالعہ، مراسم عبودیت جیسے نماز سے پہلے تین مرتبہ سجدہ، ضرورت مندوں اور اہل روحانیت کی کھلے دل سے مدد کرنا، بدھ فلسفی کے ناموں کا جاپ کرنا، مالا پر منتروں کا جاپ کرنا، مقدس مقامات کی زیارت، مقدس یادگاروں کے گرد پھیرے لگانا اور بالخصوص مراقبہ اور گیان دھیان کرنا۔ مراقبہ کا مطلب ہے ایک اچھی سود مند عادت کو راسخ کرنا اور اسے حاصل کرنے کے لیے کرنا یہ ہوتا ہے کہ دہرا دہرا کر مثبت روّیے پیدا کیے جائیں، ابھارے جائیں مثلاً محبت، صبر، ذہن میں رکھتے ہوئے، ارتکازاور حقیقت شناسی، اور پھر ان کی مدد سے اپنی ذاتی زندگی کے مختلف حالات پر ان کا اطلاق کرتے رہنا۔

اس کے علاوہ یہ کہ بدھ فلسفی نے کبھی لوگوں سے یہ نہیں کہا تھا کہ وہ صرف ان پر بھروسا کر کے ان کی بات مان لیں بلکہ ان کا کہنا تھا کہ ان کی بات کی اس طرح جانچ پرکھ کریں جیسے سونا خریدتے ہوئے کیا کرتے ہیں۔ اگر لوگوں کو تجربے سے ان تعلیمات کا مفید ہونا معلوم ہو جائے تو پھر انہیں چاہیے کہ اپنی زندگی میں اسے آزما کر دیکھیں۔ بدھ فلسفی کا فرمان ہے کہ اس کے لیے شناخت بلکہ مذہب بدلنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں۔ جسے بھی ان تعلیمات میں کوئی چیز سودمند محسوس ہو اسے اس بات کی اجازت ہے کہ اس پر عمل کرے۔

بدھ مت میں عبادت کے کوئی مقررہ اوقات نہیں ہیں۔ عوام کے لیے مذہبی مراسم کی کوئی روایت نہیں جس میں کوئی عالم ان کی پیشوائی کرے، کوئی یوم سبت نہیں۔ لوگ جب اور جہاں چاہیں عبادت اور دعا انجام دے سکتے ہیں۔ تاہم عام طور پر عبادت اور مراقبہ یا تو بدھ مت کے مندروں میں کیا جاتا ہے یا گھروں میں بنائی ہوئی عبادت گاہوں کے سامنے۔ ان گھریلو زیارتوں میں اکثر بودھاؤں کے مجسمے اور تصویریں رکھی جاتی ہیں یا ان بودھی-ستواؤں کی جو دوسروں کی مدد اور خدمت کے لیے اور بودھا بننے کےلیے کلیتاً وقف ہو رہے تھے۔ لوگ ان مجسموں کی نہ تو پوجا کرتے ہیں نہ ان سے دعائیں مانگتے ہیں۔ ان کو سامنے رکھنے کی غرض یہ ہے کہ ان بزرگ ہستیوں پر دھیان جمایا جا سکے جن کا عکس یہ مجسمے فراہم کرتے ہیں۔ چونکہ یہ بودھاؤں اور بودھی-ستواؤں قادر مطلق خدا نہیں ہیں لہذا دعا کا مقصود ان سے ہمت حاصل کرنا اور ان کی رہنما قوت کی مدد طلب کرنا ہے تاکہ اپنے مقاصد حسنہ حاصل کیے جا سکیں۔ غیر تعلیم یافتہ لوگ البتہ ان سے اپنی حاجات پورا کرنے کے لیے دعا کرنے لگتے ہیں۔ یہ بودھاؤں جس منزل پر پہنچ چکے ہیں اور حصولِ عرفان میں ان کا جو مرتبہ ہے اس کے اعتراف اور احترام میں ان کی تصویروں اور مجسموں پر خوشبویات، موم بتیاں، پانی کے پیالوں اور کھانے کے چڑھاوے چڑھائے جاتے ہیں۔

کھانے پینے کے آداب اور شراب نوشی سے گريز

بدھ مت میں کھانے پینے کے کوئی مقررہ قوانین نہیں ہیں۔ بدھ مت کے پیروکاروں کو ترغیب عموماً یہ دی جاتی ہے کہ شاکا ہاری بننے کی کوشش کریں، غلّہ اور سبزیاں زیادہ سے زیادہ استعمال کریں تاہم اگر صرف زراعت پر انحصار بھی کیا جائے تب بھی کیڑے مکوڑے تو بہر حال ہر طرح کی کاشتکاری میں تلف ہوتے ہی ہیں۔ سو، ان کی کوشش یہ رہتی ہے کہ اپنی خوراک اور کھانے کی ضروریات پوری کرنے کے لیے جانوروں اور کیڑے مکوڑوں کو کم از کم نقصان پہنچایا جائے۔ بعض اوقات گوشت کا استعمال نا گزیر ہو جاتا ہے مثلاً کسی طبّی ضرورت سے، اپنے میزبان کا دل رکھنے کے لیے یا جب غذا کے نام پر گوشت کے سوا کچھ اور میسر ہی نہ ہو۔ اس صورت میں کھانے والا اس جانور کے لیے اظہار تشکر کرتا ہے جس نے اس کے لیے اپنی جان دی اور اس کے اگلے جنم کے بہتر ہونے کی دعا کرتا ہے۔

بدھ فلسفی نے اپنے ماننے والوں کو یہ ہدایت بھی کی تھی کہ شراب کا ایک قطرہ بھی استعمال نہ کریں۔ بدھ مت کی ساری تربیت ذہن میں رکھتے ہوئے، نظم و ضبط، ضبط نفس اور تزکیہ و تنظیم سے عبارت ہے۔ شراب پی کر ان میں کچھ بھی باقی نہیں رہتا۔ لیکن بدھ مت کے سارے پیروکار بدھ فلسفی کی اس ہدایت پر عمل نہیں کرتے۔

خانقاہی سلسلے

بدھ مت کی روایت کے دوحصے ہیں، راہبوں کا سلسلہ اور عام لوگ کا سلسلہ۔ ان کے ہاں راہب اور راہبائیں ہوتی ہیں جو سینکڑوں قسم کے عہد و پیمان اور نبھاتے ہیں جس میں ہمیشہ کنوارا رہنے کا عہد و پیمان بھی شامل ہے۔ وہ اپنا سر منڈاتے ہیں، مخصوص کپڑے پہنتے ہیں اور خانقاہوں میں اجتماعی صورت میں رہتے ہیں۔ ان کی ساری زندگی مطالعے، مراقبہ، عبادت اور عام لوگوں کے استفادے کےلیے رسومات ادا کرنے کے لیے وقف ہوتی ہے۔ اس کے جواب میں عام لوگ خانقاہوں کی خدمت اس طرح کرتے ہیں کہ خانقاہ والوں کو کھانے پینے کی چیزیں نذر کرتے رہتے ہیں خواہ خانقاہوں کو براہ راست پہنچا کر، خواہ ان راہبوں کو عطا کر کے جو ہر صبح ان کے گھروں پر خیرات لینے آتے ہیں۔

مساوات اور برابری

بدھ فلسفی کے زمانے میں بھارت کا ہندو سماج اگرچہ ذات پات کے نظام میں بٹا ہوا تھا جس میں نیچ ذات کے کچھ طبقوں کو دوسرے لوگ اچھوت سمجھتے تھے لیکن بدھ فلسفی نے اعلان کر دیا کہ ان کے راہبوں کے گروہ میں ہر کوئی برابر ہے۔ اس طرح بدھ فلسفی نے ان لوگوں کے لیے ذات کا فرق مٹا دیا جو معاشرے کو چھوڑ کر خانقاہوں میں آ بسے تھے اورجنہوں نے اپنی زندگی روحانیت کے لیے وقف کر دی تھی۔ خانقاہی اداروں میں فرق مراتب کا نظام ان لوگوں کے احترام پر مبنی تھا جو راہبانہ طرز حیات کے لیے منتخب کر لیے گئے تھے اور جو اپنے ان کے وعدے و پیمانوں جو رکھا طویل ترین عرصے تک کرتے رہے تھے۔ ایک کم عمر شخص جو کسی بڑی عمر کے آدمی سے پہلے راہب بن گیا ہو اسے عبادت کی صف بندی میں مؤخر الذکر سے اگلی صف میں جگہ ملتی ہے اور اسے کھانا اور چائے پہلے پیش کی جاتا ہے۔ اگر کسی اجتماع میں مرد و زن یکجا ہوں تو ایشیائی رواج کے مطابق دونوں الگ الگ بیٹھتے ہیں اور مردوں کی صفیں عورتوں سے آگے رکھی جاتی ہیں۔

Top