ایک جہاندیدہ بوڑھے کی نصیحت کا بیان

دکھہ کے موضوع پر یہ تعلیمات "ایک آزمودہ کار بوڑھے کی نصیحت" سے ماخوذ ہیں جس کا ماخذ قیمتی استاد گونگتانگ رنپوچے(۱۷۶۲ء -۱۸۲۳ء) کی ذات ہے۔ بہت سی حکایات پر مشتمل یہ تعلیمات ایک منظوم کہانی کی شکل میں بیان کی گئی ہیں جو صحیفے پر مبنی ہے۔ اس تعلیم کا خاص نکتہ دنیا کو زہد اور خود کو آزاد کرنے کے مصمم ارادے میں ہماری مدد کرناہے اور عمومی سطح پر، ہر شخص کو فائدہ پہنچانے کی غرض سے روشن ضمیری کی حصولیابی کے لیے بودھیچت کے لیے بنیاد فراہم کرنا ہے۔

معصوم بودھ کے لیے خراج عقیدت، جس نے پُنر جنم کے ان بیجوں سے پیچھا چھڑا لیا، جو کرم اور پریشان کُن جذبات کی طاقت سے مسلسل نمودار ہوتے رہتے ہیں، جن پر ہمارا کوئی قابو نہیں، اور نتیجتاً، جو بودھ بڑھاپے، بیماری اور موت کی اذیتوں کے تجربے سے آزاد ہو چکا ہے۔
سنسار کے وسیع، تنہا اور وحشی میدان میں ایک بوڑھا رہتا ہے۔ ایک نوجوان لڑکا اس سے ملاقات کے لیے جاتا ہے۔ لڑکے کو اپنی جوانی اور صحت پر ناز ہے۔ ان دونوں کے ما بین یہ بات چیت ہوتی ہے۔
"اے بوڑھے! تم دوسروں کی بہ نسبت اپنے عمل، اپنے چہرے اور اپنی گفتگو میں اتنے مختلف کیوں ہو؟
یہ سن کر، بوڑھا جواب دیتا ہے۔ "اگر تم یہ کہتے ہو کہ میرا عمل، چال ڈھال، طور طریقے اور بات چیت کا انداز دوسروں سے الگ ہے، تو یہ مت سوچو کہ تم اوپر آسمان میں اڑ رہے ہو۔ نیچے، اس زمین پر اتر آو جہاں میں ہوں اور میری باتیں سنو!"

کچھہ نوجوان یہ سمجھتے ہیں کہ بڑھاپا صرف سن رسیدہ لوگوں کے لیے ہے اور وہ خود اس سے ہمیشہ بچے رہیں گے۔ ایسے نوجوان بہت مغرور ہوتے ہیں اور بوڑھوں سے کسی طرح کا معاملہ کرنے کا تحمل ان کے اندر نہیں ہے۔

بوڑھا شخص مزید کہتا ہے – "کچھہ برس پہلے میں بہت طاقت ور تھا، زیادہ حسین تھا اور تم سے زیادہ توانا تھا۔ میں ایسا تو نہیں جنا تھا جیسا کہ آج ہوں۔ اگر میں دوڑ لگاتا تو میں صبا رفتار گھوڑوں کی برابری کر سکتا تھا۔"

[زیادہ تر بوڑھے اسی طرح کی باتیں کرتے ہیں۔ حال کبھی بھی اتنا اچھا نہیں ہوتا جتنے کہ وہ دن جو گزر چکے ہوں۔

"اگر میں کسی چیز کو پکڑنا چاہتا، تو میں ننگے ہاتھوں سے خانہ بدوشوں کے علاقے میں بیلوں تک کو پکڑ سکتا تھا۔ میرا بدن اتنا لوچ دار تھا کہ میں آسمان میں ایک پرندے کی طرح اڑ سکتا تھا۔ میرا جسم اتنا تندرست تھا کہ میں ایک پر شباب دیوتا جیسا دکھائی دیتا تھا۔ میں سب سے زرق برق رنگین لباس اور سونےاور چاندی کے گہنوں کا ڈھیر زیب تن کرتا تھا، مزیدار کھانے اور مٹھائیاں منوں کے حساب سے ہڑپ کر جاتا تھا اور سرکش توانا گھوڑوں کی سواری کرتا تھا۔ کھیل تماشے، ہنسی مذاق اور سیر تفریح کے بغیر شاید ہی کبھی میں تنہا رہا ہوں۔ مشکل ہی سے ایسی کوئی مسرت ہوگی جس کا تجربہ میں نے نہ کیا ہو!"
"اس وقت، میں نے کبھی بھی اپنی زندگی کی ناپائداری یا اپنی موت کے بارے میں نہیں سوچا۔ نہ ہی مجھے بڑھاپے کی اذیتوں سے دوچار ہونے کی توقع تھی جن میں آج میں مبتلا ہوں!"

[ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ جس علاقے میں میرا قیام تھا، وہیں ایک نوجوان بھی رہتا تھا۔ وہ ایک پر تعیش زندگی گزارتا تھا اور ہمیشہ عشرت و عش میں ڈوبا رہتا تھا۔ دھیرے دھیرے وہ بوڑھا ہوتا گیا۔ اس کا بدن جھک گیا، اس کی آمدنی گھٹ گئی۔ اس نے اپنے دوستوں سے کہا، "میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ بڑھاپا اس طرح اچانک آجائے گا۔"

"دوستوں، ضیافتوں اور عیش و آرام میں ڈوبی ہوئی زندگی گزارتے وقت، بڑھاپا اچانک نمودار ہوتا ہے اور تمھارے قہقہوں کی گونج کے درمیان تمھیں اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔"

[گیشے کماپا نے کہا، " ہمیں شکر گزار ہونا چاہیے کہ بڑھاپا دھیرے دھیرے آتا ہے۔ اگر وہ یکا یک آجائے تو ناقابل برداشت ہو تا ہے۔ اگر تیس برس کی عمر میں ہم سو جائیں اور جاگیں تو اسی برس کے دکھائی دیں، ایسی صورت میں ہم اپنے آپ کو دیکھنے کی تاب بھی نہ لا سکیں گے۔ جب اچانک ہمیں اپنے بڑھاپے کا احساس ہوتا ہے، تو اسے قبول کرنے میں ہمیں کچھہ وقت لگتا ہے۔ مگر تب تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ گو کہ کہا جاتا ہے کہ موت سے کچھہ گھنٹے پہلے دھرم پرکاربند ہونے سے ہمیں فائدہ پہنچتا ہے، مگر تنتر کے آداب بجا لانے کے لیے ہمیں ایک صحت مند جسم کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی لیے، اس وقت جب ہم جوان ہوں، تانترک مشقیں شروع کر دینا اہم بات ہے۔

"جب ہم بہت بوڑھے ہو جاتے ہیِں، آئینے میں اپنے آپ کو دیکھنا ہمیں اچھا نہیں لگتا۔ اس وقت ہمارے جسم اور ہمارے دماغ کمزور ہو جاتے ہیں۔ سر سے پیر تک ہمارے جسموں کا انحطاط ہونے لگتا ہے۔ ہماری پیشانیاں اس طرح جھک جاتی ہیں اگر جیسا کہ ہم نے ہمیشہ ایک گلدستے کے عطاء اختیار وصول کیا گیا۔""میرے سر پر یہ سفید بال، جن میں ایک بھی کالے رنگ کا نہیں ہے، یہ میرے منزہ یا خالص ہونے کی نشانی نہیں ہے۔ یہ تو موت کے دیوتا کے منھہ سے چھوٹے ہوئے اولے کے تیر ہیں جو میرے سر پہ پہنچ کر رک گئے۔ میرے ماتھے پر پڑی لکیریں کسی پلپلے نوزائیدہ بچے کے بدن کی سلوٹیں نہیں ہیں جو اپنی ماں کا دودھ پی رہا ہو۔ یہ موت کے دیوتا کے سفیروں کی گنتیاں ہیں کہ میں زندگی کے کتنے برس گزار چکا ہوں۔ جب میں پلک جھپکتا ہوں تو اس لیے نہیں کہ آنکھوں میں دھواں چلا گیا ہے۔ یہ میری حسی طاقتوں کے انحطاط کے ساتھہ میری بیچارگی کی ایک علامت ہے۔ جب میں اپنے کان پر ہاتھہ لگا کر کچھہ سننے کی شدید کوشش کرتا ہوں، تو اس لیے نہیں کہ میں کوئی خفیہ پیغام بھیج رہا ہوں۔ یہ میری سماعت کی خرابی کی پہچان ہے۔
"جب میری ناک بہنے لگے اور میں چھینکنا شروع کر دوں، تو یہ میرے چہرے کی زیبائش کے لیے موتی بکھیرنا نہیں ہوگا۔ یہ نشانی ہے اس بات کی کہ بڑھاپے کی دھوپ جوانی کی طاقت و توانائی کی برف کو پگھلا رہی ہے۔ دانتوں کا جھڑنا اس بات کی علامت نہیں کہ کسی نو عمر بچے کی طرح اب نئے دانت نکلنے والے ہیں۔ یہ پہچان ہے اس واقعے کی کہ کھانا کھانے کے اوزار اب بے کار ہو چکے ہیں اور موت کا دیو، انھیں اب الگ کر رہا ہے۔ جب بات کرتے وقت منھہ میں لعاب بھر جائے اور میں تھوک نکالنے لگوں تو یہ زمین کی صفائی کے لیے پانی کا چھڑکاو نہیں ہے۔ یہ نشانی ہے اس واقعے کی کہ میرے پاس کہنے کے لیے اب الفاظ ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ جب میں بے ربط گفتگو کرنے لگوں اور ہکلانے لگوں تو یہ کسی نئی بدیسی زبان کا بولنا نہیں ہے۔ یہ اس بات کی نشانی ہے کہ عمر بھر کی بک بک کے بعد میری زبان اب تھک چکی ہے۔
"جب میری صورت بگڑ جائے، تو اس سے یہ مطلب نہیں نکلتا کہ میں اپنے آپ کو کسی بندر کے بہروپ میں چھپانے کی کوشش کر رہا ہوں۔ یہ تو میرے اس پورے بدن کے زوال کی نشانی ہے جو میں نے ادھار مانگ رکھا تھا۔ جب میرا سر خوب ہلنے لگے، تو یہ نہ سمجھو کہ تمھاری باتوں سے متفق نہیں ہوں۔ اس سے تو یہ مطلب نکلتا ہے کہ موت کے دیوتا نے اپنی مضبوط اور مستحکم چھڑی سے میرے سر پر ضرب لگائی ہے۔ جب میں کمر جھکا کر چلنے لگوں، تو ایسا نہیں ہے کہ میں اپنی کھوئی ہوئی سوئی ڈھونڈنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ یہ میرے جسم میں زمین کے عنصر کے انحطاط کی صاف علامت ہے۔
"جب میں اپنے ہاتھوں اور گھٹنوں کے بل چلنے لگوں، تو میں کسی چوپایے کی نقل نہیں کر رہا ہوں۔ یہ صرف اس لیے ہے کہ اب میرے پیروں کا سہارا کافی نہیں رہ گیا ہے۔ جب میں فرش پر بیٹھوں تو یہ ایسا ہوگا جیسے ایک جھولا ہاتھہ سے چھوٹ گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں دوستوں سے ناراض ہو گیا ہوں۔ یہ تو جسم پر قابو ختم ہو جانا ہے۔
"جب میں دھیرے دھیرے چلنے لگوں تو میری چال کسی عظیم مدبر کی چال نہیں ہوگی۔ اس کا سبب صرف یہ ہوگا کہ میں اپنے بدن کے توازن کا احساس پوری طرح کھو چکا ہوں۔ جب میرے ہاتھہ کانپنے لگیں، تو یہ نہ سمجھو کہ میں کسی چیز کے لالچ میں اپنے ہاتھہ ہلا رہا ہوں۔ یہ تو اس ڈر کی نشانی ہے کہ موت کا دیوتا اب مجھہ سے سب کچھہ چھینےجا رہا ہے۔ جب میں بس بہت ذرا سا کھانے پینے لگوں، تو اس کی وجہ یہ نہیں ہوگی کہ میں کنجوس اور بخیل ہو گیا ہوں۔ یہ تو میرے ہاضمے کی طاقت اور حرارت میں تخفیف اور ا س کے انحطاط کی وجہ سے ہوگا۔ جب میں ہلکے کپڑے پہننے لگوں، تو یہ کسی کھلاڑی کی نقالی نہیں ہوگی۔ یہ تو صرف اس لیے ہوگا کہ اپنے جسم کی نقاہت کے باعث اب کپڑوں کا بوجھہ اٹھانا بھی میرے لیے مشکل ہو گیا ہے۔
"جب سانس لینا میرے لیے مشکل ہو جاتا ہے اور میں ہانپنے لگتا ہوں، تو اس کے معنی یہ نہیں ہوتے کہ میں کسی کے علاج کے لیے منتر پھونک رہا ہوں۔ یہ نشانی ہے کمزوری کی اور میرے جسم سے توانائیوں کے ختم ہو جانے کی۔ جب میں ہاتھہ پیر کم چلاوں اور میرے پاس کرنے کے لیے کچھہ زیادہ نہ ہو، تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں ارادتاً اپنی سرگرمیوں کو محدود کرنا چاہتا ہوں۔ یہ تو اسی لیے ہے کہ بوڑھے آدمی کی قوت کار ہی سمٹ جاتی ہے۔ جب میں ذرا ذرا سی باتیں بھولنے لگوں، تو یہ اس وجہ سے نہیں ہوگا کہ میری نظر میں دوسرے لوگ غیر اہم ہو چکے ہیں اور میں انھیں حقیر سمجھنے لگا ہوں۔ یہ میرے حافظے کے شعور میں زوال پیدا ہو جانے کی نشانی ہے۔
"اے نوجوان! مجھے تنگ مت کرو اور میرا مذاق نہ اڑاو! میں جس حالت کا تجربہ اس وقت کر رہا ہوں، یہ صرف میرا تجربہ نہیں ہے۔ ہر شخص اسی طرح کے تجربے سے گزرتا ہے۔ تم ذرا صبر کرو اور دیکھتے جاؤ۔ تین برس کے اندر اندر بڑھاپے کے پہلے کچھہ پیغام لانے والے تم تک بھی آ جائیں گے۔ تم اس پر یقین نہیں کروگے اور میری بات تمھیں اچھی نہیں لگے گی، لیکن اسی مدت کے اندر تم اپنی پانچوں حسوں کے زوال کا تجربہ کرنے لگو گے۔ تم خوش قسمت ہوگے اگر اس عمر کو پہنچ جاؤ جو میری ہے۔ اگر تم اتنے ہی برس زندہ رہ گئے تب بھی تم اتنا زیادہ نہیں بول سکو گے جتنا میں بولتا ہوں!"
نوجوان شخص جواب دیتا ہے، " بجائے اس کے کہ میں اتنے برس زندہ رہوں جتنے برس تم زندہ رہے ہو اور اتنا ہی بد صورت اور ٹھکرایا ہوا بن جاؤں جیسے کہ تم ہو اور میرا شمار تمھاری طرح کتّوں میں کیا جانے لگے، بہتر ہوگا کہ میں مرجاؤں!"
بوڑھا آدمی ہنستا ہے۔ کہتا ہے، " نوجوان تم بہت بے خبر ہو اور احمق بھی ہو کہ تمھیں لمبی عمر پانے کی خواہش اور خوش رہنے کی خواہش بھی ہے اور تم یہ بھی چاہتے ہو کہ بڑھاپا نہ آئے۔ موت بہ ظاہر بہت آسان لگتی ہے، مگر اصل میں اتنی آسان نہیں ہے۔ سکون کے ساتھہ اور خوشی خوشی مرنے کے لیے تمھیں کسی ایسے شخص کی ضرورت ہے جس نے کبھی غلط طریقے سے کوئی نذرانہ قبول نہ کیا ہو یا دس اعمال صالح کی اخلاق شکنی نہ کی ہو، اور جس نے دھرم، بچار اور مراقبے کی دولت خوب اکٹھا کی ہو۔ تبھی موت آسان ہو سکتی ہے۔
" بہر حال، میں اس طرح کی خوش فہمی نہیں رکھتا۔ مجھے یقین نہیں کہ میں نے کوئی بھی تعمیری کام کیا ہے۔ مجھے موت سے ڈر لگتا ہے اور ہر دن جو میں جیتے ہوئے بسر کرتا ہوں اس کے لیے میں شکر گزار ہوں۔ میری شدید خواہش ہے کہ ہر دن میں ایک زندہ انسان کے طور پر گزاروں۔"
نوجوان کا ذہن بدل جاتا ہے اور وہ کہتا ہے، "اے بوڑھے آدمی! ہر بات جو تو نے کہی درست ہے۔ دوسروں نے مجھے بڑھاپے کی تکلیفوں کے بارے میں جو باتیں بتائی ہیں وہ تمھاری کہی ہوئی باتوں سے متفق ہیں۔ تم نے جس طرح بڑھاپے کا مظاہرہ کیا ہے، میرے دماغ کے لیے بہت کار آمد ہے۔ میں بڑھاپے کے دکھوں پر حیران ہوں۔ اے دانش مند بزرگ! اگر تم نے کسی ایسے طریقے کے بارے میں سنا ہو جس کی مدد سے بڑھاپے سے نجات مل سکتی ہے، تو اسے اپنے تک راز بنا کر نہ رکھو؛ مجھے بھی اس راز میں شریک کر لو اور مجھے بھی بتاؤ کہ حقیقت کیا ہے!"
بوڑھا خوش گوار انداز میں کہتا ہے، "یقیناً بڑھاپے سے نجات کا ایک طریقہ ہے۔ اگر تم اسے جان لو تو اس پر عمل کرنا بہت آسان ہوگا۔ ذرا سی کوشش سے، ہم اپنے آپ کو اس اذیت سے فوراً آزاد کر سکتے ہیں۔ اگرچہ ہر شخص جو پیدا ہوا ہے، مرتا بھی ہے۔ مگر بہت کم لوگ بوڑھے ہو کر مرتے ہیں۔ بہت سے لوگ بڑھاپے کی عمر تک پہنچنے کا موقعہ حاصل کیے بغیر، جوانی میں ہی مر جاتے ہیں۔ بڑھاپے کے دکھہ سے نجات کے یہی طریقے بودھ کی تعلیمات میں ہیں۔ اس وجہ سے ہے کہ بودھ کی تعلیمات سے مُکش اور روشن ضمیری کرنے کے بہت طریقوں پر مشتمل ، دوسرے لفظوں میں ہم یہ جان سکتے ہیں کہ بھلا کون سے طریقے ہیں جن سے ہمیں پُنر جنم نہ ملے، ہم بوڑھے نہ ہوں، بیمار نہ ہوں یا ہمیں موت نہ آئے؛ لیکن ہم ان طریقوں پر عمل نہیں کرتے۔"

[ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی خانقاہ میں ایک خود ساختہ لامہ رہتا تھا۔ خانقاہ میں اس کی حیثیت ایک نو مشق کی تھی، اور بیشتر بھکشو اس کی طرف توجہ نہیں دیتے تھے۔ انھوں نے خانقاہ کے مستقبل کی بابت گفتگو کے لیے ایک اجلاس طلب کیا۔ نوجوان لامہ نے کہا کہ رسیاں اور چادریں تیار کی جائیں تاکہ لاشوں کو لپیٹا جا سکے۔ ہر شخص نے اسے ایک بد شگونی قرار دیا اور اس نوجوان لامہسے ناراض ہوئے۔ پھر انھوں نے یہ بحث کی کہ خانقاہ کی امداد کے لیے ہر ایک کو کیا کرنا چاہیے۔ اس پر نوجوان نے کہا کہ ناپائیداری پر مراقبہ ہونا چاہیے، یہ کہتے ہوئے اس نے انھیں ایک عظیم درس دیا۔ بعد کے بہت سے دلائی لاماوں نے اس کی تعریف کی ہے۔ مستقبل کی تیاری کے لیے، ضرورت اس بات کی ہے کہ مرنے کی تیاری کی جائے۔

"ہر شخص زندگی جاوید کا طلب گار ہے اور ان طریقوں کا جن سے یہ مقصد حاصل کیا جا سکے۔ لیکن جنم تو ہو، مگر موت نہ آئے، یہ ناممکن ہے۔ یہاں تک کہ ہزاروں پوری طرح روشن ضمیر لوگ، جن میں شاکیہمُنی بودھ بھی شامل ہیں، اس دنیا سے گزر گئے۔ اور جہاں تک بودھی ستوا اور ماضی کے عظیم گرؤوں کا تعلق ہے، صرف ان کے نام باقی رہ گئے۔ دنیا کی تاریخ سے بھی اسی واقعے کی شہادت ملتی ہے۔ تمام بڑی تاریخی شخصیتیں موت سے ہم کنار ہوئیں۔ بس ان کے آثار بچے رہ گئے۔ لہٰذا، ہمیں اپنی یقینی اور ناگزیر موت کی سچائی کو بھولنا نہیں چاہیے۔ موجودہ عہد کے تمام عظیم گرو بھی اسی طرح گزر جائیں گے۔ آج جو بچے پیدا ہوئے ہیں، سب کے سب، اگلے سو برسوں کے اندر مر جائیں گے۔ چنانچہ، اے نوجوان! تم یہ امید بھلا کیسے کر سکتے ہو کہ صرف تم ہی ہمیشہ زندہ رہو گے؟ اس لیے، بہتر یہی ہوگا کہ تم روحانی اعتبار سے اپنے آپ کو مرنے کے لیے تیار کر سکو۔
"لمبی زندگی روپے پیسے سے خریدی نہیں جا سکتی، نہ ہی مادی عیش و آرام کے ذریعے حاصل کی جا سکتی ہے۔ اگر تمھارے اندر روحانی اعتماد ہو اور تم یہ جان سکو کہ تم زندگی سے کیا پانا چاہتے ہو، تو جیسے جیسے تمھاری جسمانی عمر بڑھتی جائے گی اتنی ہی زیادہ خوشی اور دماغ کی جوانی تمھیں میسر آتی جائے گی۔ اگر تم جسمانی عیش اور آسودگی سے تو لطف اٹھاتے ہو، مگر تم نے ایک خالی، بے روح زندگی بسر کی ہے، تو جیسے جیسے تمھاری عمر بڑھتی جائے گی تم اتنے ہی ناخوش ہوتے جاؤ گے۔ تمھیں ایک سیاح کی طرح سفر کرتے رہنا ہے تاکہ اپنے ذہن کو موت کی فکر میں مبتلا ہونے سے دور رکھہ سکو۔ اس کے بر خلاف، اگر تمھارے اندر تھوڑا سا روحانی اعتماد موجود ہے، تو جیسے جیسے تم موت سے قریب ہوتے جاؤ گے تمھارے اندر یہ احساس بڑھتا جائے گا کہ تم اس بیٹے کی مانند ہو جو اپنے خوشیوں بھرے گھر کی طرف واپس آرہا ہے۔ تم موت سے بھاگو گے نہیں، بلکہ موت کے واسطے سے مسرت آمیز زندگیوں کے ایک سلسلے پر اپنی نظریں جمائے رہوگے۔"

[ایک مرتبہ، ایک عظیم روحانی معلم نے کہا، "کیونکہ مجھے اپنی آئندہ زندگیوں کا یقین ہے؛ اس لیے مجھے کوئی فکر نہیں۔ موت کسی بھی وقت آسکتی ہے، اور میں اس کا استقبال کروں گا۔"

"موت کی اذیت چونکہ ناگزیر ہے، اس لیے ہمیں اس کی بابت کچھہ کرنا چاہیے۔ ہم چپ چاپ بس بیٹھے تو نہیں رہ سکتے، اور بس مایوسی کی حالت میں تو نہیں رہ سکتے۔ بہ طور انسان ہمارے پاس عقل تو ہے کہ ہم نجات کے بہت سے طریقوں کو آزما سکیں۔ اے نوجوان! بودھ بھی تمھیں اس سے زیادہ واضح تعلیمات نہیں دے سکتے۔ میں نے اپنے دل کی گہرائی سے یہ باتیں کہی ہیں۔ اگرچہ، یہ میری بہت سوچی سمجھی نصیحتیں ہیں، لیکن صرف میرے لفظوں پر بھروسہ نہ کرو؛ خود بھی ان کا تجزیہ کر لو۔ اپنے طور پر ناپائداراور زندگی کی بے ثباتی سے متعلق مشقیں انجام دو۔ ایک کہاوت ہے، "دوسروں سے رائے مشورہ تو کرتے رہو، مگر اپنا فیصلہ خود کرو!" اگر تم اپنے لیے دوسروں کو فیصلے کرنے کا اختیار دیتے رہے، تو بہت سے لوگ تمھیں الگ الگ نصیحتیں اور مشورے دیتے رہیں گے۔"
نوجوان کہتا ہے، " وہ تمام باتیں جو تم نے کہیں، سچ ہیں اور کار آمد ہیں۔ لیکن، ابھی آئندہ کچھہ برسوں تک میں یہ سب نہیں کر سکتا۔ مجھے دوسرے بہت سے کام کرنے ہیں۔ میرے پاس ایک وسیع جائداد ہے، دولت ہے، اور بہت کچھہ ہے۔ مجھے بہت سا کاروبار کرنا ہے اور اپنی جائداد کی دیکھہ بھال کرنی ہے۔ میں کچھہ برسوں کے بعد تم سے ضرور ملوں گا اور تب یہ مشقیں انجام دوں گا!"
بوڑھے کو یہ سن کر نہایت ناگواری ہوتی ہے اور وہ کہتا ہے، "وہ تمام باتیں جو تم نے مجھے بتائیں، بے معنی الفاظ ہِیں اور یہ سب بے معنی باتیں ہیں! یہ میرا تجربہ بھی رہا ہے، میں نے بھی اسی طرح سوچا تھا کہ کچھہ برس بعد کوئی با معنی عمل اختیار کروں گا ! لیکن میرے ارادے دھرے کے دھرے رہ گئے اور اب میں بوڑھا ہو چکا ہوں! مجھے پتہ ہے کہ تم نے جو کچھہ کیا وہ کتنی فضول باتیں ہیں۔ کچھہ برسوں میں کیے جانے والے کام، کبھی پورے نہ ہو سکیں گے۔ تم ہمیشہ انہیں ٹالتے جاؤ گے۔ اگلے کچھہ برس میں کیے جانے والے کاموں کی حالت تو کسی بوڑھے کی داڑھی جیسی ہے؛ آج اسے تم مونڈوگے تو کل اور زیادہ بڑھ جائے گی۔ کل، پھر ایک کل پر ٹالتے ٹالتے، تم دیکھوگے کہ زندگی اسی طرح ختم ہو گئی۔ دھرم کے مطابق زندگی گزارنے اور عمل کرنے کے ارادے کو ٹالتے رہنے نے بہت سے لوگوں کو بے وقوف بنایا ہے۔ مجھے تم پر یہ بھروسہ نہیں ہے کہ تم اس ارادے پر عمل کرسکوگے۔ اسی لیے اب ہمارا باتیں کرتے رہنا محض وقت ضائع کرنا ہے۔ جاؤ، اپنے گھر واپس جاؤ اور جو چاہو کرو ! اور اب مجھے کچھہ منتروں کا جاپ کرنے دو !"
نوجوان بہت حیران ہوتا ہے اور اسے بوڑھے کی ان باتوں سے کچھہ تکلیف پہنچتی ہے۔ وہ کہتا ہے، "تم مجھہ سے اس طرح کی گفتگو کرنے کے بارے میں سوچ بھی کیسے سکتے ہو؟ بتاؤ! اس زندگی میں مادی مقاصد کتنی جلدی انجام دیے جا سکتے ہیں؟"
بوڑھا ہنستا ہے، کہتا ہے : "چونکہ تم نے یہ سوال پوچھے ہیں، اس لیے میں سوچتا ہوں کہ اس بات کا جواب بھی مجھے دینا ہی چاہیے کہ زندگی کے تمام مقاصد کی انجام دہی کے لیے کتنی مدت درکار ہوتی ہے۔ جنوب کی سمت میں موت کا دیوتا رہتا ہے جسے اس سے مطلق غرض نہیں ہے کہ تم نے اپنے کام پورے کر لیے ہیں یا نہیں۔ وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ اگر اس سے تمھارے مراسم دوستانہ ہو سکیں اور تمھیں زندگی میں کچھہ کر گزرنے کی اجازت اس سے مل جائے، تب تم چین سے بیٹھہ سکتے ہو۔ ورنہ، تمھیں کبھی چین نہ مل سکے گا۔ لوگ تو چائے کی ایک پیالی پیتے پیتے بیچ میں ہی مر جاتے ہیں جس وقت کھانا میز پر لگا ہوا ہو، جب وہ چل پھر رہے ہوں، اس سے پہلے کہ وہ نسوار کی بس ایک چسکی لے سکیں تو اچانک موت آ جاتی ہے۔
"ایسا سب کے ساتھہ ہے، یہاں تک کہ عظیم گرؤوں کے ساتھہ بھی۔ ان کی بہت سی تعلیمات ادھوری رہ جاتی ہیں، کیونکہ ان تعلیمات کو قلم بند کرنے کا کام ختم ہونے سے پہلے وہ مر جاتے ہیں۔ چنانچہ، جس وقت موت کا دیوتا آتا ہے، تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ "میرے پاس ایک بڑی جائداد اور اثاثہ ہے اور کرنے کے لیے ابھی بہت سے کام ہیں۔" تم اس کے سامنے کسی طرح کی شیخی نہیں مار سکتے؛ تمھیں سب کچھہ چھوڑنا پڑے گا! اس معاملے میں، ہم بالکل بے اختیار ہیں۔ ہم اپنی مدت حیات کا تعین نہیں کر سکتے۔ اس لیے، اگر تم کچھہ کرنے کے اہل ہو، اس کی شروعات فوراً کردو! یہی ایک با معنی بات ہے، ورنہ تو تمھاری ساری جائداد اور اثاثے بے کار ہیں۔ لیکن ان دنوں بہت کم لوگ ایسے ہیں جو تم کو سچائی کی باتیں بتائیں گے جن سے تمھارا فائدہ ہو سکتا ہو۔ اس سے بھی زیادہ کمیاب ایسے لوگ ہوتے ہیں جو کسی کے مخلصانہ مشورے پر کان دھر سکیں!
"نوجوان کے دل پر اس بات کا گہرا اثر پڑتا ہے، اور اب چونکہ اس کے دل میں بوڑھے کے لیے زبردست احترام کا جذبہ پیدا ہو چکا ہے، وہ چند قدم پیچھے کی طرف مڑتا ہے اور بوڑھے کو سجدہ تعظیمی بجا لاتا ہے۔ وہ کہتا ہے، "میں نے سنہرے پرچموں، گیشے یا یوگیوں سے گھرا ہوا ایک بھی ایسا لامہ نہیں دیکھا جو تم سے زیادہ بصیرت سے بھرپور تعلیمات دے سکتا ہو۔ تم بہ ظاہر ایک عام سے بوڑھے آدمی ہو، لیکن تم در اصل ایک عظیم روحانی رفیق ہو۔ میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ اپنی بساط بھر، تمھاری بتائی ہوئی باتوں پر عمل کروں گا، اور آئندہ بھی براہِ مہربانی مجھے مزید تعلیمات دیتے رہنا!"
بوڑھے آدمی نے اپنی رضامندی کا اظہار کیا اور یہ درخواست قبول کی۔ وہ کہتا ہے، "میں زیادہ کچھہ نہیں جانتا، مگر میں نے زندگی کا وسیع تجربہ حاصل کیا ہے۔ میں اسی کی مدد سے تمھیں تعلیم دوں گا۔ سب سے مشکل کام اس کی شروعات ہے اور اپنے آپ کو دھرم میں قائم کرنا ہے۔ دھرم پر اپنے عمل کی شروعات اس وقت جب تم پہلے ہی سن رسیدہ ہو چکے ہو زیادہ دشواری ہوتی ہے۔ اس لیے، اہم بات یہ ہے کہ اس کام کو جوانی کی عمر میں ہی شروع کر دیا جائے۔
"جوانی میں تمھاری یاد داشت اچھی رہتی ہے۔ تمھاری ذہانت سرگرم ہوتی ہے اور تمھارے اندر اتنی جسمانی طاقت ہوتی ہے کہ تم عبادت کے ذریعے مثبت قوتوں کی ذخیرہ اندوزی کر سکو۔ تنتر کی اصطلاحوں میں، تمھاری توانائی-چینلوں میں مضبوطی اور طاقت اس وقت زیادہ ہوتی ہے جب تم جوان ہو۔ اگر کم عمری میں تم لالچ اور مواد کے اموال کو لت کی بندشوں کو توڑ سکؤ اور اپنے آپ کو روحانی سرگرمیوں میں لگا لو، تو یہ بہت قابل قدر ہے۔ ایک بار جب تم دھرم کو قبول کر لیتے ہو، اس کے بنیادی نکات کو سمجھہ لیتے ہو، اور اس کی روح کو اپنی گرفت میں لے لیتے ہو، تو پھر، تم جو بھی کروگے، کہوگے، اور سوچو گے، وہ دھرم ہی ہو گا۔"

[میلاریپا اور را لوتساوا نے بھی یہی کہا ہے، " جب میں کھاتا ہوں، چلتا ہوں، بیٹھتا ہوں، یا سوتا ہوں، تو یہ سب کچھہ دھرم کی پیروی ہوتا ہے۔"

"دھرم میں کسی طرح کے سخت قوانین نہیں ہیں۔ لہٰذا کوشش کرو کہ بہت سی باتیں ایک ساتھہ دھیان میں نہ آئیں، یا یہ کہ تمھارا دماغ کمزور نہ ہونے پائے۔ اٹھو اور دھرم کی پیروی کا سلسلہ شروع کردو! اور دھرم میں اپنا دل لگائے رہو! ہر لمحہ اپنے دھیان کو بھٹکنے نہ دو۔ ابھی، اسی پل سے اپنا جیون، جسم، گویائی اور دماغ دھرم پر عمل کے لیے وقف کر دو!"
اب بوڑھا آدمی جوان کو بتاتا ہے کہ دھرم کی بنیاد کن باتوں پر ہے؛ " پہلے تو ایک سند یافتہ روحانی مرشد کی تلاش کرو اور اپنا سارا اثاثہ، اسی کے ساتھہ ساتھہ اپنے تمام تصورات اور اپنی سرگرمیاں سب کچھہ اس کی نذر کر دو۔ دوسروں کو تم کتنا فائدہ پہنچا سکو گے اس کا انحصار ایک مناسب روحانی مرشد کی دریافت اور اس کے ساتھہ تمھارے مکمل قلبی تعلق پر ہے۔"

[آتیشا نے اسی نکتے پر زور دیا تھا، وہ اکثر بیان کرتا تھا کہ اپنے تمام ۱۵۵ گرؤوں کے ساتھہ اس کی پوری کی پوری قلبی وابستگی تھی۔

"پھر، ضرورت اس بات کی ہے کہ دس نیک اعمال پر کاربند رہنے کے اپنے عہد و پیمان اور اپنے وعدے کا پاس رکھو۔ ان کی حفاظت ویسے ہی کرو جیسے اپنی آنکھوں کی۔ اس زندگی سے اپنا تعلق اسی طرح توڑ دو جیسے کہ ایک جنگلی ہاتھی اپنی بیڑیاں توڑ دیتا ہے۔ پھر اپنی سماعت، اپنے بچار اور مراقبے کو اکٹھا کرو اور ان تینوں کو ایک ساتھہ انجام دو۔ اس ساری سرگرمی کو سات پسلیوں والی ریاضت کا سہارا دو۔ یہ طریقہ ہے مثبت طاقت کی تعمیر، صلاحیتوں کی ذخیرہ اندوزی اور ان میں اضافے کا۔ یہ سب تم کر لوگے تو، بدھیت تمھاری انگلیوں کے اشارے پر ہوگی۔"

[پانچوے دلائی لامہ نے کہا کہ اگر ایک تربیت یافتہ مرشد ایک تربیت یافتہ شاگرد کی رہنمائی کرتا ہے تو بدھیت اس کی ہتھیلیوں میں سمٹ آتی ہے۔ میلاریپا نے بھی کہا تھا کہ اگر تمھارا ایک تربیت یافتہ مرشد ہو تو اس کی مستند تعلیمات پر عمل کرنے والا ایک تربیت یافتہ شاگرد بودھ کی تمامتر بصیرت پا سکتا ہے، گو، ہمیشہ زور اس بات پر دینا چاہیے کہ مرشد، تعلیم دینے والا، مناسب طور پر تربیت حاصل کر چکا ہو۔

"یہی تو اصل خوشی ہے، یہی مسرت ہے، اے عزیز بیٹے ! اگر تم اسی طرح مشق اور ریاضت کرتے رہے تو تمھاری تمام خواہشات پوری ہوں گی!"

[یہ تعلیمات دماغ کی تربیت کے لیے بہت مفید ہیں، یہ تعلمیات سخت دماغوں میں لوچ پیدا کرا دیتی ہیں۔ ایک کہاوت ہے " مکّھن رکھنے کے لیے کبھی چمڑے کے بیگ جیسے نہ بنو۔ چشمے میں خذف ریزے کی مثال نہ بنو۔" چمڑے کے بیگ میں چاہے جتنا مکھن رکھہ دیا جائے، وہ نرم نہیں پڑتا۔ پتھر کا ٹکڑا چاہے جتنے دن کسی چشمے میں ٹھہرا رہے، وہ بھی ملائم نہیں پڑتا۔

اس روز کے بعد سے، نوجوان خالص دھرم کے اصولوں پر عمل کرنے لگا اور اس کے عمل میں آٹھہ دنیوی اور بچگانہ احساسات کی ذرا بھی آمیزش نہیں تھی۔

[ہمیں بھی یہی کچھہ کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ہم جتنی زیادہ تعلیمات سے باخبر ہوتے جاتے ہیں، ہمارے اندر اپنے آپ کو سدھارنے اور ان تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنے کی ضرورت کا احساس اتنا ہی گہرا ہوتا جاتا ہے اور ہم ان خذف ریزوں کی طرح بے حس نہیں پڑے رہتے جو کسی چشمے کے پانی میں ڈوبے رہنے کے باوجود کبھی نرم نہیں پڑتے۔

بوڑھا آدمی کہتا ہے، "میں نے یہ تعلیمات اپنے روحانی استادوں سے سنی تھیں اور یہ میرے اپنے تجربوں پر بھی مبنی ہیں۔ کاش اس کا فائدہ لامحدود، ذی شعور مخلوقات کی اپنی خوشیوں کی خاطر ان تک بھی پہنچے۔"
مصنف اس گفتگو کو ختم ان الفاظ پر کرتا ہے کہ، اگرچہ میں نے کم ہی ریاضت کی ہے اور میرا دھرم کا تجربہ نہ ہونے کے برابر ہے، پھر بھی ذی شعور مخلوقات کی سرشت میں موجود رنگا رنگی کے باعث، ہو سکتا ہے کہ ان میں سے کچھہ کے لیے، یہ تعلیمات کارآمد بھی ہوں۔ ایسے محدود مخلوقات کے ذہنوں کو فائدہ پہنچانے کی امید کے ساتھہ، میں نے یہاں جو بھی لکھا ہے وہ خلوص کے ساتھہ لکھا ہے اور خالصتاً اپنی محرکِ عمل کی بنا پر لکھا ہے۔ یہ تعلیمات، جو زندگی کی ناپائداری کے موضوع پر ہیں، صرف ایک دلچسپ کہانی مرتب نہیں کرتیں جو میری خود ساختہ گھڑت ہو، بلکہ یہ کہانی آریادیو کے "چار سو بند" پر مبنی ہے۔
Top