من کے لم-رم درجات کا جائزہ

قیمتی انسانی پنر جنم کا بہترین استعمال

ہم سب کو ایک قیمتی پنر جنم مع ایک قیمتی جسم کے عطا ہوا ہے جو ایک اعلیٰ (عظیم) روحانی ترقی کا موقع فراہم کرتا ہے۔ اس وقت ہمیں روشن ضمیری حاصل کرنے کا جو موقع میسر ہے وہ پہلے کبھی نہ تھا اور نہ ہی ہو گا چاہے ہم راجہ اندر، جو دیوتاؤں کا بادشاہ تھا، کی شکل میں ہی کیوں نہ دوبارہ پیدا ہوں۔

چونکہ اس وقت حالات نہائت سازگار ہیں لہٰذا یہ بات اہم ہے کہ ہم اس سے پورا استفادہ کرنے کے تمام ضابطوں سے روشناس ہوں۔ روحانی ترقی کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنے اندر زیادہ سے زیادہ رحم دلی اور دردمندی پیدا کریں۔ دردمندی کی بنیاد پر ہم ایک ایسا ہمہ تن منہمک دل تشکیل دے سکتے ہیں جو بودھی چت عزم رکھتا ہو۔ یہ روشن ضمیر بننے کی خواہش ہے۔ بہ الفاظ دیگر یہ خواہش ہے اپنی تمام کمزوریوں کو دور کرنے کی اور اپنی صلاحیتوں کو پوری طرح بروئے کار لانے کی تاکہ جس حد تک ممکن ہو سب اس سے مستفید ہو سکیں۔ اپنے دلوں کو دوسروں کیلئے اور روشن ضمیری کیلئے وقف کر دینا ہمارے قیمتی پنر جنم کا بہترین استعمال ہے۔

گزشتہ زندگی کے رویہ سے پیدا شدہ مثبت امکانات موجودہ زندگی میں بطور وجہء کامیابی

انسانوں کی کئی قسمیں ہیں اور ان میں سے ایسے انسان ملنا نہائت مشکل ہے جو اپنی آئیندہ زندگی کو بہتر بنانے کے متمنی ہوں، چہ جائیکہ وہ روشن ضمیر بننے میں دلچسپی رکھتے ہوں۔ بیشتر انسانوں کا مقصد اس زندگی میں اپنے لئے مسرت ڈھونڈنا ہے۔ جہاں تک خوشی حاصل کرنے اور دکھ اور مسائل سے بچنے کا تعلق ہے تو اس میں ہم سب برابر ہیں۔

وہ لوگ جو اس زندگی میں خوشی حاصل کرنے پر اپنی توجہ مرکوز کرتے ہیں، تو یاد رہے کہ خوشی کی دو قسمیں ہیں: جسمانی خوشی، اور ذہنی خوشی۔ بیشتر لوگ محض کسی قسم کی جسمانی مسرت پر توجہ مرکوز کرتے ہیں۔ جہاں تک جسمانی مسرت کا تعلق ہے، گو کہ ہم سب ایسی مسرت حاصل کرنے کی کم وبیش کوشش کرتے ہیں، ہم میں سے اکثر یہ نہیں جانتے کہ یہ مسرت کیسے حاصل کی جائے۔ مثال کے طور پر کچھ لوگ ایسے ہیں جو خوراک، لباس یا رتبے کی خاطرمعصوم انسانوں کا خون کرتے ہیں۔ بعض دوسرے لوگ محض خوشی کی تلاش میں یا جسمانی تشفی کی خاطر چوری چکاری، دھوکہ دہی یا نقب زنی کے مرتکب ہوتے ہیں، مگر خواہ وہ کتنی ہی کوشش کیوں نہ کریں وہ ایسی مسرت حاصل کرنے کے مناسب طریقوں سے بے بہرہ ہوتے ہیں۔ مسرت کے بجائے وہ اپنے لئے مصیبتیں کھڑی کر لیتے ہیں۔

اس کے برعکس وہ لوگ جو مختلف شعبوں مثلاً کاروبار، تجارت، زراعت، تعلیم یا فنون لطیفہ وغیرہ کے ذریعہ حق حلال کی روزی کمانا چاہتے ہیں انہیں ہم دو گروہوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ ایک تو وہ جو اپنے کام میں کامیاب ہیں اور وہ بہت سی دولت اور املاک اکٹھی کر لیتے ہیں، اور دوسرے وہ ہیں جو کہ کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوتے بلکہ بری طرح ناکام رہتے ہیں۔ اگر ہم یہ سوال اٹھائی ں کہ اس کی وجہ کیا ہے کہ بعض کیوں کامیاب ہوتے ہیں اور بعض ناکام۔ تو اس کی وجہ وہ بیج ہیں جو انہوں نے اپنی گزشتہ زندگیوں میں بوئے۔ جو اپنی گزشتہ زندگیوں میں تباہ کن اعمال کے مرتکب ہوئے انہوں نے بے حد منفی امکانات پیدا کئے اور نتیجتہً وہ اس زندگی میں ناکام ہیں۔ وہ جنہوں نے گزشتہ زندگیوں میں مثبت کام کئے انہوں نے مثبت امکانات روشن کئے اور یہ امر ان کی موجودہ زندگی میں کامیابی کا باعث بنا۔

اگر آپ اس شرح سے مطمئن نہیں تو یوں سوچئے کہ ایسی تفریق کی کوئی وجہ نہیں۔ تمام لوگ یکساں محنت اور صلاحیت سے کام کر رہے ہیں، ان کی کامیابی بھی برابر ہونی چاہئے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ان کی کامیابی کی وجہ اس کام کی نوعیت ہے جو وہ اس جنم میں روزی کمانے کے لئے کرتے ہیں مثلاً کاروبار یا تجارت۔ مگر یہی اس کی کل وجہ نہیں۔ کامیابی کی حقیقی وجہ وہ مثبت امکانات ہیں جو گزشتہ جنموں کے دوران مثبت اعمال سے پیدا کئے گئے۔ جبکہ وہ کام اور پیشہ جو ہم اس زندگی میں اختیار کرتے ہیں یہ وہ حالات ہیں جو ان وجوہات کے پایہ تکمیل تک پہنچنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔

لہٰذا کامیابی کا انحصار وجوہات اور حالات کے بیک وقت وقوع پذیر ہونے پر ہے۔ وجوہات گزشتہ جنموں سے آتی ہیں یعنی وہ امکانات جو ان زندگیوں میں پیدا کئے گئے۔ حالات موجودہ زندگی میں وقت اور محنت کے اعتبار سے پیدا ہوتے ہیں۔ دونوں کا ملاپ لازم ہے۔

آئندہ زندگیوں کے بارے میں فکر

اس زندگی میں لوگ خواہ کتنے ہی خوشحال کیوں نہ ہوں یا ان کا کتنا ہی جاہ و جلال کیوں نہ ہو پھر بھی کوئی شخص بھی اپنے مال و متاع سے مطمئن نظر نہیں آتا۔ کوئی بھی یہ نہیں کہتا "اب میرے پاس بہت کچھ ہے، مجھے اور کسی چیز کی ضرورت نہیں"۔ لوگ کبھی بھی اپنے مال و دولت سے مطمئن نظر نہیں آتے۔ وہ ہمیشہ مزید کے خواہاں ہوتے ہیں۔ وہ اپنی تمام عمر کام کی نذر کر دیتے ہیں مگر کام کبھی ختم نہیں ہوتا۔

یہ اس کسان کی مانند ایک کبھی نہ ختم ہونے والا سلسلہ بن جاتا ہے جو سال کے تمام موسموں میں محنت کرتا ہے، فصل بونے، اس کی دیکھ بھال کرنے اور اسے کاٹنے تک۔ موسم بہار میں وہ پھر فصل بوتا ہے اور اس طرح ایک بار پھر اسی چکر سے گزرتا ہے۔ ہمارا کام کا سلسلہ بھی ایسے ہی چلتا ہے۔

اگرچہ ہم ایسا کبھی نہیں سوچتے کہ اس جنم کے کام کا یہ سلسلہ کبھی ختم ہو جائے گا مگر در حقیقت ایک وقت ایسا آئے گا جب یہ کام تمام ہو جائے گا، وہ ہو گا ہمارا وقت مرگ۔ وہ وقت غم اور دکھ کا وقت ہو گا نہ کہ خوشی کا۔

پس وہ لوگ جو اس جنم میں محض خوراک، لباس اور نام و نمود کی خاطر کام کر رہے ہیں وہ محض اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس طرح ہو سکتا ہے انہیں جسمانی آرام مل جائے مگر ان کے من کو خوشی نہیں مل سکتی۔ من کی مسرت کے بغیر ان کی زندگی ادھوری رہ جاتی ہے اور وہ غم کی حالت میں موت سے ہمکنار ہوتے ہیں۔

لہٰذا یہ بات اہم ہے کہ ہم من کی پائیدار مسرت کی خاطر کام کریں۔ اس جنم میں ہم اگر کوئی جسمانی مسرت حاصل کر لیں تو وہ پائیدار نہیں ہو گی۔ اگر ہم پائیدار مسرت کے متمنی ہیں تو ہمیں اپنی آئندہ زندگیوں پر توجہ دینی چاہئے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب ہم اس پہلو کو ملحوظ خاطر رکھتے ہیں تو ہم سچ مچ پائیدار مسرت حاصل کرنے کے لئے کام کرتے ہیں۔

جب ہم اپنی آئندہ زندگیوں کو خوشگوار بنانے کے لئے کام کرتے ہیں تو ہم ایک روحانی ہستی بن جاتے ہیں، ایسی ہستی جو کہ دھرم کے روحانی تقاضوں کو پورا کرے۔ اگر ہم اپنے آپ کو اس جنم کے ملاحظات تک محدود رکھیں، ان چیزوں تک جو زوال پذیر ہیں تو پھر ہم محض ایک دنیا دار انسان بن کے رہ جائیں گے۔ اور اگر ہم آئیدہ جنموں کے معاملات پر غور کریں تو ہم ایک روحانی انسان بن جاتے ہیں۔

آئندہ زندگیوں کو خوشگوار بنانے کی خاطر تباہ کن اطوار سے پرہیز

آئندہ زندگیوں میں مسرت کو یقینی بنانے کے لئے دھرم کی بعض "حفاظتی تدابیر" اختیار کرنا پڑتی ہیں۔ خصوصاً تباہ کن افعال سے پرہیز۔ تباہ کن افعال کُل دس ہیں جن میں سے تین کا تعلق جسم سے ہے، چار کا زبان سے اور تین کا دل سے۔ ان سب سے اجتناب اور بچاؤ کے ذریعہ ہم اپنی آئندہ زندگیوں کو خوش آئند بنا سکتے ہیں۔

اب تک ہم نے اس بات کا تعین کر لیا ہے کہ اگر ہم مثبت رویہ رکھیں تو ہم ایک ایسی روحانی راہ پر چل نکلتے ہیں جو اس زندگی میں اور آنے والی زندگیوں میں خوش آئند اثرات پیدا کرے گی۔ ایسا مثبت رویہ اس قسم کی چیزوں پر توجہ مرکوز کرتا ہے مثلاً کسی جانور یا کیڑے مکوڑے کو جان بوجھ کر مارنا، دانستہ طور پر چوری، اور ان اعمال سے پیدا شدہ تمام منفی اثرات کو جاننا۔ اس میں اس بات کا ادراک اور یہ مصمم عزم شامل ہیں کہ قتل اور چوری سے رو گردانی کی جائے۔ ایسے فیصلے پولیس یا فوج کی نگرانی میں نہیں کئے جاتے تا کہ ان پر مثبت انداز میں عمل یقینی بنایا جا سکے۔ ان کا اپنا اخلاقی ضبط انہیں نقصان دہ اعمال سے باز رکھتا ہے۔

پس کامل اخلاقی انضباط ہی وہ حفاطتی تدبیر ہے جو ہمارے لمحہ نزع کو خوشگوار بنا سکتی ہے۔ بصورت دیگر ہماری موت غم و ہراس کی حالت میں ہو گی۔ اگر ہم نے ان حفاظتی تدابیر کے ذریعہ ایک اعلٰی اخلاقی انسان بننے کی کوشش کی ہے تو بوقت مرگ ہمیں کوئی اندیشہ نہ ہو گا۔ ہمیں اس بات کو جمع خاطر رکھنا چاہئے کہ ہمارا پنر جنم ایک انسان یا دیوتاؤں کی دنیا کے کسی دیوتا کے روپ میں ہو گا جیسے (راجہ) اندر یا اس قسم کی کوئی ہستی۔

تمام زندگیوں میں پیش آنے والے بے لگام، رو بہ اعادہ مسائل

خواہ ہمارا دوسرا جنم انسان کی صورت میں ہو یا دیوتاؤں کے بادشاہ کی شکل میں ہمیں ہر حال زندگی میں مسائل کا سامنا ہو گا۔ کچھ ایسے مسائل ہیں جو ہمارے اختیار سے باہر ہیں اور بار بار پیش آتے ہیں قطع نظر اس بات کے کہ ہم کہاں اور کس روپ میں دوبارہ پیدا ہوئے۔ اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ محض اگلے جنم میں کسی خراب حالت میں پیدا ہونے سے بچنے کے لئے منفی اعمال سے پرہیز کوئی معنی نہیں رکھتا۔ کیونکہ ہم کہیں اور کسی شکل میں بھی پیدا ہوں مسائل سے چھٹکارا نہیں۔

اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ایک وسیع تر فکر کی ضرورت ہے۔ اگر ہم ایک پرسکون اور مستحکم من کو تشکیل دیں جسے سنسکرت میں "شامتھا" اور تبتی زبان میں "شنے" کہتے ہیں تو ہم ایک دیوتا کی شکل میں جو کہ ایک اعلیٰ منصب پر فائز ہو دوبارہ پیدا ہو سکتے ہیں، ایسا منصب جو غیر مرئی ہے یا جہاں ہستیاں بے شکل ہیں۔ اس طرح سے ہم پنر جنم کی اس شکل کی شان و شوکت سے آراستہ ہو سکتے ہیں۔ مگر کسی ایسی ہستی کے روپ میں پنر جنم جو اعلیٰ منصب کی حامل ہو کوئی خاص معنی نہیں رکھتا۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کسی کثیر منزلہ عمارت کی سب سے اوپر والی چھت پر چڑھنا، مگر جب ہم وہاں پہنچ جاتے ہیں تو اب سوائے نیچے اترنے کے اور کوئی چارہ نہیں۔

مہاتما بدھ کی تعلیمات پر اعتماد

لہٰذا یہ ضروری ہے کہ خواہ ہم کہیں بھی پیدا ہوئے ہوں ہم نہ صرف اپنے مسائل کو حل کریں بلکہ ایک قدم اور آگے چلیں۔ ایسا کرنے کی خاطر ہمیں اپنے مسائل اور مصائب کی وجوہات کو امتیازی آگاہی سے جاننا ہو گا تا کہ ہم واضح طور پر حقیقت اور افسانے میں تفریق کر سکیں۔ اس طرح ہم بالآخر خالی پن حاصل کر لیتے ہیں جس کا مطلب ہے میں کے وجود کی ناممکن صورتوں کی مکمل غیر موجودگی۔ حقیقت کا ایسا واضح تصور ہماری خام خیالی کو حذف کر دیتا ہے اور اس کے ساتھ ہی ان تمام آلام و مصائب کو ہمیشہ کے لئے نسخ کر دیتا ہےجن سے ہم کسی بھی زندگی میں دوچار ہوتے ہیں۔ یہ دائمی خوشی کا باعث بنتا ہے اور اس کا حصول ہمارے بس میں ہے۔

ہم خالی پن کی تعلیمات کے بارے میں قدیم تحریروں سے سیکھ سکتے ہیں جو مہاتما بدھ کے الفاظ میں محفوظ ہیں۔ لیکن ہم ان تحریروں کے بارے میں کیسے تسلی کریں، نہ صرف خالی پن کے بارے میں، بلکہ ان سب باتوں کے بارے میں جو مہاتما بدھ نے کہیں۔ ان کی صحت کے بارے میں تسلی منطقی تجزیہ کی بنا پر کی جاسکتی ہے۔ مثلاً خالی پن ہی کو لے لیجئے۔ خالی پن کی صحت منطقی تاویل پر بھروسہ کرکے کی جاسکتی ہے۔ مزید، وہ تعلیمات جو سکھاتی ہیں کہ کیسے سمادھ (مکمل ارتکاز) اور ایک پرسکون و مستحکم من کی کیفیت حاصل کی جاسکتی ہے، ان کی صحت پر اطمینان اسی وقت کیا جاسکتا ہے جب ہم انہی ہدایات پر خود عمل پیرا ہوں اور ان کیفیات سے ہم خود گذریں۔ مستزاد، ہمیں خود تجربہ ہوگا کہ ان اعمال کے ذریعہ ہم کو مختلف انواع کے انتہائی بلند اور ماورائے ادراک احساسات حاصل ہوتے ہیں جن کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ اس جذب کا ضمنی نتیجہ ہیں۔ ہم حقیقتاً، اپنے آپ کے تجربات سے، ان نکات کو ثابت کرسکتے ہیں جو مہاتما بدھ نے ہمیں سکھائے ہیں۔

اس طرح مہاتما بدھ کی مختلف موضوعات کی تعلیمات، جن کو ہم ذاتی تجربہ اور منطق سے ما ن لیتے ہیں، کو عملی جامہ پہناتے ہوئے ہمیں یقین ہونے لگتا ہے کہ مہاتما بدھ کے الفاظ میں ایک عمومی صداقت ہے۔ اس پُر اعتماد یقین سے جو اطمینان حاصل ہوتا ہے، اس کی وجہ سے ہمیں مہاتما بدھ کی دوسری مبہم باتیں بھی بہت معتبر لگتی ہیں۔

مثلاً مہاتما بدھ نے کہا کہ اگر ہم کوئی کام تعمیری طور پر کریں، تو نتیجتاً ہم ایک بہتر حالت میں دوبارہ جنم لیں گے۔ انسان کے روپ میں یا دیوتا کے روپ میں۔ اس کے برخلاف، اگر ہم تخریبی یا منفی طریقہ پر کام کریں تو اس کے نتیجہ میں ہمارا دوسرا جنم جہنمی مخلوق کی صورت میں ہوگا۔۔ جیسے "بھوکا"، بھوت، یا ایک جانور۔ یہ باتیں رویہ کے علت و اثر کی ہیں، جنہیں اپنے ذاتی تجربہ یا محض منطق سے ثابت کرنا مشکل ہے۔ لیکن ہمیں محض اندھے عقیدے یا الہامی کتاب کی سند پر انہیں قبول کرنا ضروری نہیں۔ یہ اس لئے کہ اگر منطق اور تجربہ تصدیق کریں ان باتوں کی، جو مہاتما بدھ نے مکمل ارتکاز اور خالی پن کے صحیح معنی کے بارے میں بتائی ہیں، تومہاتما بدھ نے عمل اور اس کے نتائج کے بارے میں جو بھی کہا اسے تسلیم کرلینا نہایت معقول لگتا ہے۔

نتیجتاً، بڑی احتیاط سے ہمیں مہاتما بدھ کے ان بیانات پر غور کرنے کی ضرورت ہے جو اس نے خالی پن، حقیقت، اور جینے کے ناممکن طریقوں کی عدم موجودگی پر کہے ہیں۔ ان کو صحیح تسلیم کرلینے کے بعد، ہمیں مہاتما بدھ کے دوسرے بیانات پر غور کرنے کی ضرورت ہے: کہ تعمیری کام کا نتیجہ سُکھ ہے، اور تخریبی و منفی کام کا نتیجہ دُکھ ہے۔ تب ہمیں ایک پرُ اعتماد یقین حاصل ہوتا ہے کہ یہ بات بالکل صحیح ہے، اور ہم اپنے عمل کو بدلنے کا پکا فیصلہ کرتے ہیں۔ اگر ہم خوشی چاہتے ہیں، تو ہمیں اس کے مطابق ہی زندگی گذارنی ہوگی۔ یعنی ہمیں ضرورت ہے کہ ہم تعمیری اور مثبت کام کریں۔

تیاگ ۔۔ سارے مسائل سے خود کو آزاد کرنے کے مصمم ارادے

بہتر ہوگا اگر ہم یہ بھی سوچیں کہ بہترین انسانی پنرجنم کی موجودہ عملی بنیاد۔۔ سارے روحانی ارتقا کے مواقع کے ساتھ۔۔ کہیں خلا سے یکایک ظہور پذیر نہیں ہوگئی ہے۔ بلکہ یہ نتیجہ ہے پچھلی زندگیوں میں کثیر مثبت اہلیت کو جمع کرنے کا۔ ہم نے بہت تعمیری اور مثبت طریقہ پر کام کیا ہوگا، اور اسی نے پنر جنم اور موجودہ مواقع کی صورت پیدا کی ہوگی۔ ہم کو یہ موقع ضائع نہیں کرنا چاہئے۔ اگر ہم اپنے آپ کو صرف موجودہ زندگی کے مسائل ہی میں الجھائے رکھیں، جیسے غذا و لباس، شہرت و عزت وغیرہ تو یہ اس زندگی کا ضیاع ہے۔اگر یہی ہماری توجہ کا محور ہے تو محض ان کی بنا پر ہم موجودہ زندگی کے جال سے کنارہ کش نہیں ہوسکیں گے۔

اس کے برخلاف، اگر ہم ساری توانائی اگلی زندگی کی خوشیوں (کہ اندر دیوتا جیسا پنرجنم) کے لئے وقف کردیں، تو یہ بھی ایک مسئلہ ہے۔ دیکھئے کہ ایسے دیوتا کی زندگی کیسی ہوتی ہے۔ یہ دیوتا بے انتہا مسرت تو رکھتا ہے لیکن کوئی عارضی مصنوعی مسائل نہیں رکھتا۔ موت کے وقت ایسا دیوتا بے انتہا افسوس اور ندامت میں مبتلا ہوتا ہے، کہ اس کی ساری پُر مسرّت زندگی محض ایک خواب لگتی ہے جہاں موت کے بعد پریشانیاں اور دکھ ہی ہیں۔ تو ایسے پنرجنم کی تمنا ہمارے مسائل کا حل نہیں ہے۔

مزید، ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے قیمتی جسم کا پورا استعمال کریں، کیونکہ یہ ناپید ہونے والا ہے۔ کوئی ایسا نفس نہیں جسے پیدائش کے بعد موت سے فرار ہو۔ موت ایسی چیز ہے جو ہم سب کو یقیناً آتی ہے، بس وقت کا ہیر پھیر ہے۔ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اس کا وقت کب آنے والا ہے۔ ان حقائق پر غور کرکے خواہش ہوتی ہے کہ جب تک ہم زندہ اور صحتمند ہیں موجودہ مواقع سے بھرپور استفادہ کریں۔

ہمیں اسی زندگی کی اشیاء کے حصول میں استغراق سے روگردانی کرلینی چاہئے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہم سوچیں کہ اس زندگی کی فانی چیزیں کوئی پائیدار جوہر نہیں رکھتیں۔ اس طرح جب ہم اس زندگی کی اشیاء سے منہ موڑ لیتے ہیں، اور ممکنہ پیدا شدہ مسائل سے نجات پانے کا مصمم ارادے کرتے ہیں تو یہی خود کو آزاد کرنے کے مصمم ارادے " تیاگ" کہلاتا ہے۔

اسی طرح، ہمیں اگلی زندگیوں پر بھی نظر ڈالنی چاہئے، اور ان تمام ممکنہ صورت حال پر بھی جن میں ہم دوبارہ پیدا ہونگے۔ جب ہم ان خوشیوں اور عیش کے بارے میں سوچتے ہیں جو دوسرے جنم میں (انسان یا دیوتا کی شکل میں) ہمیں نصیب ہونگی، تو ہمیں یاد کرنا ہوگا کہ ان سے بھی مسئلہ ہے۔ ہم کتنے ہی خوشحال ہوں، مسائل بے اختیار انداز سے پلٹ کر آتے ہیں۔ چنانچہ، اگلی زندگیوں میں بھی ان چیزوں میں استغراق سے ہمیں پرہیز کرنا چاہئے۔ اس کے لئے ہمیں ایک دوسری قسم کے خود کو آزاد کرنے کے مصمم ارادے کی ضرورت ہے۔ یعنی، ان مسائل سے آزادی کا مصمم ارادے جو اگلی زندگیوں میں ان چیزوں کو اپنے پر مسلط کرنے سے پیدا ہوتی ہیں۔

تو آزاد ہونے کے لئے دو طرح کے عزم ہوتے ہیں: اِس زندگی کے مسائل سے آزادی کا مصمم ارادے ، اور اگلی زندگیوں کے مسائل سے آزادی کا مصمم ارادے ۔

ناپائیداری

روحانیت کا ایک پیرو وہ ہے جو اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ کوئی صورتحال زندگی میں قائم و دائم نہیں؛ جو فنا اور موت سے بھی آگاہ ہے؛ اور جو خود کے مسائل کے علاوہ زندگی کے سارے مسائل سے بھی واقف ہے۔ یہ جانکاری اسے اکساتی ہے کہ ان مسائل سے نمٹنے کے لئے قدم اٹھاۓ۔ اگر محض ناپائیداری، مسائل اور موت کو بھلا دینے سے پریشانیاں دور ہو جائیں تو یہ بہت اچھا ہو۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم ایسا نہیں کرسکتے۔ اگر ہم اس بات سے غافل ہوجائیں کہ موت آنی ہے، اگر یہ بھول جائیں کہ زندگی میں مسائل بھی ہوتے ہیں، تو حقیقت بدل تو نہیں جائیگی۔ اس لئے بہتر ہے کہ ہم اپنے مسائل سے واقف ہوں اور ان سے نبردآزما ہوں، اور وہ ساری تدبیریں اختیار کریں جو انہیں حل کردیں۔ یہی روحانیت کی پیروی ہے۔

خود مہاتما بدھ نے، جب پہلی بار ان اقدامات کی تبلیغ شروع کی، تو ناپائیداری اور غیر دائمیت کی تعلیم کے ذریعہ یہ کام کیا۔ اس کی ساری روحانی تلاش اسی ناپائیداری کی آگاہی سے شروع ہوئی۔ اور اسی طرح، جب اس کی زندگی تمام ہوئی اور اس نے انتقال کیا، تواسے بھی ناپائیداری ہی کے سلسلہ کو بتاتے ہوۓ کیا۔

چار بلند و بالا (آریہ) سچائیاں

مزید، مسائل کہیں خلا سے نہیں آتے۔ اور وہ بغیر کسی وجہ کے ہمیں پیش نہیں آتے۔ بلکہ، سارے حقیقی مسائل اور دکھ جائز وجوہات سے ظہور پذیر ہوتے ہیں – یعنی ہمارے من موجی عمل، پریشان کن جذبات، اور رویہ کی بدولت۔ دوسرے الفاظ میں ہمارے کرم اور ہمارے وساوس۔ یہ ہماری وقتی تحریک اور پریشان کن جذبات ہیں جو تمام مسائل کا موجب ہے۔

اب اگر ہم اپنے مسائل کی ان دو وجوہات کو لیں تو ہم دیکھیں گے کہ ہماری وقتی تحریک کی بنیاد پریشان کن جذبات اور رویّے ہیں۔ اگر ہم ان مختلف نوع کے ۸۴۰۰۰ پریشان کن جذبات اور رویوں کا جائزہ لیں جن کا ذکر بدھ مت کے صحائف میں آیا ہے تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ان سب کا ایک ہی منبہ ہے جس کا نام ہے: لاعلمی یا عدم آگہی جو حقیقی پکی وجود اور حقیقی پکی شناخت پر اصرار کی جانب ہماری راہنمائی کرتی ہے۔

تاہم حقیقی پکی شناخت کی طرح کی کوئی چیز نہیں ہوتی – نہ ہمارے لئے، نہ کسی اور چیز کے لئے – پھر بھی ہم ان باتوں پر اصرار ہیں جیسے وہ حقیقی پکی شناخت یا وجود رکھتی ہوں۔ لہٰذا، اگر ہم یہ سمجھنے اور تمیز کرنے کے قابل ہوں کہ ایسی کوئی بات ناممکن ہے جسے حقیقی پکی شناخت کہا جاسکے، توایسی شناخت پر اصرار سے بچانے میں وہ تریاق کی طرح کام کرتی ہے۔

جب ہم یہ سجھ لیتے ہیں کہ ایسی کوئی بات نہیں جسے حقیقی پکی وجود کہا جاسکے – کہ کوئی حقیقی پکی شناخت نہیں – تو یہ فہم " من کی سچی راہ"، "ایک سچی راہ" کہلاتی ہے – چار بھلی سچائیوں میں سے ایک۔ یہ من کا وہ سچا راستہ ہے جو اعلیٰ مقام ہستیوں ("آریہ") کو سچا اور صحیح نظر آتا ہے، جو مکش اور روشن ضمیری کی طرف لے جاتا ہے۔

جب ہمارے پاس من کا ایک سچا راستہ ہو – یعنی ایک ذی امتیازی آگاہی کہ ایسی کوئی چیز نہیں جسے حقیقی پکی شناخت کا نام دے سکیں – تب ہمارے کوئی پریشان کن جذبات اور اعمال نہیں ہوتے، کیونکہ ایسے توہمات مبنی ہوتے ہیں زندگی کے ناممکن طور طریقوں پر۔ جب پریشان کن جذبات اور نقطہ نگاہ ہی نہ ہو، تو ہم من موجی حرکتیں نہیں کریں گے۔ اور جب ہم من موجی حرکت نہیں کریں گے تو ہم اپنے لئے مسائل نہیں کھڑے کریں گے۔ وہ کیفیت جس میں مسائل پیدا ہی نہیں ہوتے، اسے ہم "اختتام بالخیر" کہتے ہیں۔

یہ مظہر ہے ان چار حقیقتوں کا جو آریاوں (اعلیٰ مقام ہستیوں) کو سچے نظر آتے ہیں۔ یہ چار بلند و بالا سچائیوں ہیں۔ پہلی دو سچائیاں بتاتی ہیں کہ کیا پریشان کن ہے، یعنی حقیقی مسائل اور ان کی حقیقی وجوہات: من موجی حرکت اور پریشان کن جذبات و اعمال۔ جب ہم ان اگلی دو حقیقتوں کی طرف رخ کرتے ہیں، جو بتاتی ہیں کہ مکش کن چیزوں سے ملتا ہے تو ہماری خواہش ہوتی ہے کہ سارے مسائل کو ہمیشہ کے لئے ختم کردیں، اُن کی وجوہات کا قلع قمع کر کے۔ ایسا کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ من کے سچے راستے کھول دئے جائیں۔ اس طرح ہم ان چار حقیقتوں کو پہچانتے اور سمجھتے ہیں جو اعلیٰ مقام ہستیوں کو نظر آئی تھیں۔

اپنی قیمتی پنرجنم کے لئےایک بہترین قابلِ عمل بنیاد پر ہمیں اپنی ساری کوششیں ان چار بلند و بالا سچائیاں کے حصول میں لگا دینی چاہئیں۔ جب ہم ایسا کرلیں تو اس پنرجنم میں حاصل شدہ سارے مواقع کا صحیح استعمال کرسکیں گے۔ جب یہ کرتے جائیں، من کی ایک مفید عادت کی طرح، ایک دائمی مستحکم آگاہی کہ کوئی حقیقی پکی وجود نہیں ہے، تب ہم مکمل طور پر ہمیشہ کے لئے سارے مسائل کا خاتمہ کردیںگے۔

دردمندی پیدا کرنا

اپنے سارے مسائل سے چھٹکارا پانا خوب ہے، لیکن یہ کافی نہیں۔ یہ اس لئے کہ ہم ایک فرد ہیں، جبکہ دوسرے لاتعداد ہیں۔ ہم کبھی شمار نہیں کرسکتے کہ کتنی ہستیا ں اور ہیں اور ان میں سے ہر ایک کو کوئی نہ کوئی مسئلہ ہے، کسی نہ کسی طرح سب پریشان ہیں۔ لہٰذا یہ کافی نہیں کہ ہم اپنے لئے ہی سوچیں: ہمیں سب کے لئے حل تلاش کرنا ہوگا۔

غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ ساری دوسری ہستیاں اپنے محدود من کے باوجود ہم پر بڑی مہربان رہی ہیں – دراصل، دوسروں سے بڑھ کر کوئی اور مہربان نہیں۔ جب ہم مہاتما بدھ کی مہربانی اور محدود ہستیوں کی مہربانی پر غور کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ سب یکساں ہیں۔ مثلاً، اگر ہمیں شہد پسند ہے، تو ہمیں سوچنا چاہئے کہ شہد کہاں سے آتا ہے۔ یہ بہت ساری مکھیوں سے آتا ہے، اور ان سب کو بڑی محنت سے اسے بنانا پڑتا ہے: کئی پھولوں پر اڑتے پھریں، زرِ گُل جمع کریں، اور شہد ایک چھتہ میں جمع کریں۔ اگر ہمیں کوئی امید ہے کہ شہد کی لذت لیں، تو ہمیں ان چھوٹے چھوٹے کیڑوں کا کام اور مہربانی پر بھروسہ کرنا پڑے گا۔ اسی طرح، گوشت جو ہم میں سے کچھ لوگ کھاتے ہیں، غذا جو بیماری اور کمزوری کی حالت میں تقویت کے لئے ہمیں چاہئے، یہ سب کہاں سے آتا ہے؟ یہ ان جانوروں سے آتا ہے جنہیں ہماری طاقت اور خوراک کے لئے اپنی جان قربان کرنی پڑتی ہے۔

لہٰذا، جب ہم ایک دفعہ مصمم ارادہ کرلیں کہ اپنے سارے مسائل سے چھٹکارا پائیں، تو یہی جذبہ دوسروں کو بھی منتقل کرنا ہوگا۔ بالکل جس طرح ہم اپنے مسائل سے چھٹکارا پانے کا ارادہ رکھتے ہیں، اسی طرح ہماری خواہش ہو کہ دوسرے بھی اپنے مسائل سے آزاد ہوں۔ اسی جذبہ کا نام "دردمندی" ہے۔

اگر ہم سنجیدہ ہوکر اپنے مسائل پر غور نہ کریں اور نہ چاہیں کہ وہ ہوں – اور ہم ان سے چھٹکارا پانے کا ارادہ ہی نہ کریں – تو یہ بڑا مشکل ہوگا کہ ہم دوسروں کے مسائل کو سنجیدگی سے لیں گے۔ ہم اس قابل نہیں ہونگے کہ دوسروں کی پریشانی سے آزادی کے مسئلہ پر دردمندی پیدا کرسکیں گے۔ مثلاً اگر کوئی عہدہ دار اپنی ملازمت کے دوران بڑی ٹھوکروں کے بعد اعلیٰ مقام تک پہونچا ہو، تو اس شخص کے دل میں دوسروں کی جدوجہد کے لئے رحم اور درد مندی ہوگی۔ ایسا شخص بہت بہتر سوجھ بوجھ کا مالک ہوگا دوسروں کی مدد کے لئے، بہ نسبت اس شخص کے جس نے اپنی ساری زندگی بغیر کسی پریشانی کے بڑے آرام سے گذاری ہو۔

بودھی چت

وہ جذبہ جس میں ہم چایہں کہ دوسرے مصائب سے دور رہیں، "دردمندی" کہلاتا ہے۔ وہ جذبہ جس میں ہم چاہیں کہ ہر ایک خوش رہے "محبت" کہلاتا ہے۔اگر ہم سوچیں کہ ہر ایک خوش اور مسائل سے آزاد ہو، اور اگر ہم یہ فیصلہ کریں کہ، چونکہ ہر ایک ہم پر مہربان رہا ہے اس لئے، ہمیں اس کے متعلق کچھ کرنا چاہئے، صرف سطحی طور پر نہیں بلکہ حقیقتاً سب کو انکے مسائل سے نجات دلائ یں – تو اس ذمہ داری اٹھانے کو "اعلی مصمم عزم" کہیں گے۔

اگر ہم محض اپنے خود غرضانہ افکار ہی میں غلطاں ہوں، تو مہاتما بدھ کے اچھے اوصاف پیدا نہیں کرسکیں گے۔ اگر ہم خودغرضی سے اجتناب کریں اور دوسروں کے معاملات پر متفکر ہوں، تو اس کی بنا پر روشن ضمیر مہاتما بدھ بن سکتے ہیں۔ اپنی خودغرضانہ خواہشات ہی کی بنا پر ہم ملوث ہوتے ہیں قتل اور چوری وغیرہ میں کہ اپنے لئے وسائل اکٹھا کریں۔ایسے اطوار مزید مسائل پیدا کرتے ہیں، ان کی جڑ خودغرضی ہے۔

مہاتما بدھ شاکیہمُنی نے دوسروں کی بھلائی میں ڈوب کر روشن ضمیری کی یہ سطح حاصل کرلی تھی، ایک شفاف اور پورا ترقی یافتہ من۔ دراصل، سبھی ادوار کے سارے مہاتما بدھوں نے اپنی اہلیت کے اعلیٰ ترین مقام کا حصول اسی بنیاد پر کیا تھا۔ اگر ہم حقیقت پسند ہیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ "دوسروں کو خوشی مہیا کرنے اور ان کے مسائل حل کرنے" کے اعلی مصمم عزم کے باوجود ہم میں ایسا کرنے کی سکت نہیں ہے، خواہ ہم کتنا ہی چاہیں۔ صرف مہاتما بدھ میں یہ صلاحیت ہے کہ ان کے مسائل حل کرنے اور انہیں خوشی پہنچانے میں سب کی مدد کرے۔

اس لئے، یہ ضروری ہے کہ دوسروں کے فائدے کے لئے اپنے دلوں کو وقف کردیں، اور مہاتما بدھ کے اعلیٰ ترین مقام کے حصول کے لئے ممکنہ کوشش کریں۔ اسے "بودھی چت نصب العین" کہتے ہیں۔

ایسے وقف شدہ دل کے ساتھ، جس میں بودھی چت نصب العین ہو، فرض کیجئے کہ ہم ایک سادہ سی بھینٹ چڑھائیں، جیسے ایک پھول کی۔ اگر اس سے مطلوب سب کا بھلا کرنا ہو، اور روشن ضمیری حاصل کرنا ہو جسقدر بھی ممکن ہو، تو اس سادہ سے کام میں ایک بڑا مقصد پوشیدہ ہے۔ در اصل، اگر ہمارا مقصد سب کا بھلا کرنا ہے، تو اس کا فائدہ بھی اس کے بقدر ہوگا۔ وہ اتنا ہی وسیع ہوگا جسقدر انسان ہیں۔ اپنے دلوں کو پرخلوص اور بے لوث جذبہ کے ساتھ اس طرح وقف کردینے کا فائدہ، ساری دنیا کی طرف سے مہاتما بدھ کو سونے اور جواہر کی مہاتما بدھ کو بھینٹ چڑھانے سے بڑھ کر ہے۔ ہمیں دنیا بھر کو کھانا کھلا کر جو ثواب مل سکتا ہے، اس سے کہیں زیادہ ایک لمحہ کے لئے ایسا دل چاہئے جس میں بودھی چت نصب العین ہو۔

اس کی منطق یہ ہے کہ ایک وقت کا کھانا صرف ایک وقت کی بھوک مٹا سکتا ہے۔ آدمی پھر دوبارہ بھوکا ہوسکتا ہے، اور یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔ لیکن اگر ہم چاہیں، بودھی چت نصب العین کے ساتھ، کہ سب کی پریشانیاں ہمیشہ کے لئے دور ہوجائیں، اور ہم اپنے آپ کو اس روشن ضمیری کے کام کے لئے وقف کردیں تو نہ صرف ہر ایک کی بھوک مٹادیں گے بلکہ مکمل طور پر پریشانیاں بھی ختم کردینے کے قابل ہوجائیں گے۔

آخری گذارشات

اس لئے بودھی چت نصب العین کی طرف ایک قدم کے طور پر ہمیں مضبوط عہد کرنا ہوگا کہ ہم کسی جاندار کو نقصان نہیں پہونچائیں گے۔ جب ہم دوسروں کو، خواہ وہ کوئی ہوں، نقصان پہونچانے کا انجام دیکھتے ہیں اور عہد کرتے ہیں کہ ایسا نہیں کرینگے، تو اس کے بڑے فائدے ہیں۔ ایک مضبوط عہد، کہ ہم کسی کی دل آزاری نہیں کریں گے، ایک روحانی اقدام ہے جو ہم ابھی اسی وقت اٹھا سکتے ہیں۔ ہمیں کوئی روحانی قدم اٹھانے کو بہت بلند اور بعید از قیاس عمل نہیں سمجھنا چا ہیے۔

مختصراً، ایک روحانیت کے پیرو کو غیر دنیاوی زندگی گذارنے کی ضرورت نہیں ہے۔ تاریخ میں ایسے کئی روحانی مقلدین کی مثالیں ملتی ہیں جو صاحبِ خانہ انسان تھے۔ جب ہم قدیم ہندوستان کے چوراسی (۸۴) پہونچے ہوئے مہا سدھ افراد کی سوانح کا مطالعہ کرتے ہیں، تو پتہ چلتا ہے کہ ان میں سے اکثر صاحبِ خانہ تھے۔

اگر ہم ضعیف ہیں تو ہمیں معذور نہیں محسوس کرنا چاہئے، اور نہ یہ سوچنا چاہئے کہ ضعیف افراد روحانیت کی پیروی نہیں کرسکتے۔ اگر ہم ماضی کا مطالعہ کریں تو ہمیں ایک صاحبِ خانہ شری جاتی کی مثال ملتی ہے جسکی عمر روحانیت کی پیروی شروع کرتے وقت اسّی (۸۰) سال تھی۔ اس نے اپنی زندگی میں مکش یا ارہاٹ کا مقام حاصل کیا تھا۔ ہم کبھی اتنے بوڑھے نہیں ہوتے (کہ کچھ کر نہ سکیں)۔

اس کے برخلاف، اگر ہم جوان ہیں تو ہمیں غیر سنجیدہ نہیں ہونا چاہئے، بلکہ روحانیت کی پیروی کے لئے اپنی ساری توانائیوں کا فائدہ اٹھانا چاہئے۔ ہمیں یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ ہمیں روحانی اقدامات ضعیف ہونے تک ٹالنے ہیں، کیونکہ ہمیں یہ پتہ نہیں کہ ہماری موت کب واقع ہوگی۔ مزید، ضعیفی جب آنی ہوتی ہے تو ایسا لگتا ہے کہ اس کا حملہ فوری ہوتا ہے۔ تب یہ احساس ہوتا ہے کہ زندگی یونہی نکل گئی۔

ہم بہت سے سادہ مثبت کام کرسکتے ہیں۔ میں دوسرے ممالک میں چند لوگوں کو جانتا ہوں جو پرندوں کو دانہ ڈالنے میں خوب وقت اور پیسہ لگاتے ہیں۔ اپنے گھروں کے باہر فیڈر (دانہ کا شیشہ) لگاتے ہیں اور دانوں پر ہزاروں خرچ کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ، وہ اپنی چھٹیاں بھی ضائع کردیتے ہیں کہ ناحق پرندے بھوکے نہ رہ جائیں۔ یہ بہت اچھی عادت ہے؛ مجھے اسے دیکھ کر بہت مسرت ہوتی ہے، کیونکہ در حقیقت یہ بودھی ستوا کا عمل ہے۔ تبت کے لوگوں کی کئی مثالیں ہیں جو زائرین کے طور پر ہندوستان گئے اور کبوتروں کے لئے روٹی کے ٹکڑے اور دوسرے پرندوں کے لئے چاول بکھیرتے ہیں۔ لمبی عمر پانے کے لئے یہ ایک بہترین عمل ہے۔

اگر ہم اپنی آج شام کی گفتگو کو سمیٹنا چاہیں تو مرکزی نکات یہ ہیں:

  • ایک نرم خو اور گرم مزاج دل پیدا کریں جو مستقل مزاجی کے ساتھ ہر ایک کی بھلائی کیلئے کام کرے۔
  • کبھی کسی کی دل آزاری نہ کریں، نہ کسی کو نقصان پہونچائیں، نہ مسائل پیدا کریں

یہ مرکزی نکات ہیں ایک بہترین روحانیت کی پیروی کے لئے۔ انسانی پنرجنم میں جو بنیادی عملی خاکہ ہم کو ملتا ہے اس کا پورا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے دلوں کو وقف کردیں، بودھچت نصب العین کے ساتھ، دوسروں کے لئے اور روشن ضمیری حاصل کرنے کے لئے۔ اس طرح ہم یقیناً ایک شفاف ذہن اور پوری طرح پروان چڑھا ہوا مقام حاصل کرسکیں گے جو ہمیں روشن ضمیر مہاتما بدھ کی سطح تک لے جائے۔

Top