دلائی لاما اور صوفی علماء کا باہمی مکالمہ

والس لو (صدر، جامعہ میری لینڈ): السلام علیکم، میرا نام والس لو ہے اور میں جامعہ میری لینڈ کا صدر ہوں۔ میں آپ سب کو، معزز مہمانوں کو، خوا تین و حضرات کو اس انتہائی خصوصی دن خوش آمدید کہتا ہوں۔ دنیاوی مذاہب کی مانند سمندر بھی ایک ایسا ہی منبۂ حیات ہے جو روح کو تقویت بخشتا ہے؛ اور جب طوفان زدہ ہو تو سمندر مذہبی جذبات کے متماثل ہوتا ہے۔ آج یہاں ہم دو سمندروں یعنی بدھ مت اور صوفی مسلک کا لطیف اتصال پیش کریں گے۔ یہ ایک نادر سنہری موقع ہے اور ہم اپنے مہمانوں کے بیحد مشکور ہیں۔ آج تقدس مآب چودھویں دلائی لاما نے ہمارے کیمپس کو بیحد متاثر کیا ہے۔ وہ یہاں موجود ہیں، ان کے وجود سے سادگی، کرم فرمائی اور بذلہ سنجی پھوٹتی ہے، ہم ان کے بیحد ممنون ہیں۔

آج پچھلے پہر ہم تقدس مآب کے ساتھ ایک اور مسلک کے علماء کے تحائف بانٹیں گے۔ ہمارے روشن مرکز براۓ فارسی علوم سے شرکاء نہائت لائق اور قابلِ تعظیم ہیں۔ ان سے ہمیں صدیوں کی روایات، علمی فضیلت اور ایمان ملتا ہے۔ میں فنونِ لطیفہ اور عمرانیات کے کالج کی ڈین بانی تھارنٹن ڈِل کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ انہوں نے ہمیں یہ عمدہ موقعہ مہیا کیا۔ ڈین ڈِل پوری دنیا میں نسل، جنس، کام کار، خاندان اور غربت سے منسلک مسائل پر علمی عبور رکھنے پر شہرت کی حامل ہیں۔ وہ تۂ دل سے انسان کی مکمل تعلیم پر یقین رکھتی ہیں۔ براۓ کرم ڈین بانی تھارنٹن ڈِل کا خیر مقدم کیجئے۔

فنونِ لطیفہ اور عمرانیات کے کالج کی ڈین بانی تھارنٹن ڈِل: السلام علیکم۔ میں جناب صدر لو کے ہمراہ اپنی طرف سے بھی اس خاص تقریب میں شمولیت پر آپ سب کی مشکور ہوں۔ ہم نہائت خضوع و خشوع اور تشکّر کے ساتھ اس امر کا اظہار کرتے ہیں کہ ہمیں آج کے اس پروگرام "دو قلزموں کا اتصال: صوفی مسلک اور بدھ مت پر محاکات" کے لئے تقدس مآب چودھویں دلائی لاما کی میزبانی نصیب ہوئی۔

فنونِ لطیفہ اور عمرانیات کے کالج کا رہنما اصول "عالمی حکمت" ہے، اور ابھی جو ہم کرنے، کہنے والے ہیں اس کے لئے نہائت موزوں لیبل۔ "عالمی حکمت" سے مراد پوری دنیا کو یکجہت قوم ماننا ہے، اور لوگوں کی اور نظریات کی حرکت و ہجرت کو سمجھنے کی کوشش کرنا ہے، اور وطن کے اندر اور باہر تفریق و تنوّع سے بغل گیر ہونا ہے۔ اس طریق سے حکمت کا حصول ایک بہت بڑا چیلنج ہے کیونکہ حکمت کا یہ تقاضا ہے کہ ہم نے جو علم جمع کیا ہے اسے نہ صرف ذہنی بلکہ جذباتی اور روحانی پرداخت کے لئے بھی استعمال کریں۔ اور جیسا کہ آج پہلے تقدس مآب نے اپنی تقریر میں بتایا کہ یہ سمجھنا لازم ہے کہ اس قدر تنوّع کے باوجود کُل انسانیت ایک ہے، اور جب ہمیں یہ ادراک حاصل ہو جاۓ تو اس (نظریہ) کا اطلاق بطور ایک قوت کے کریں تا کہ دنیا میں بھلائی ہو۔

ایک عظیم عالم اور تجربہ کار انسان ہونے کے ناطے سے جو امن، باہمی ربط اور ہم آہنگی کو فروغ دینے کی خاطر ان دونوں سے استفادہ کرتا ہے، جناب تقدّس مآب آپ ہمارے اس تصور "عالمی حکمت" کا مثالی نمونہ ہیں۔ لہٰذا یہ ہمارے لئے نہائت عمدہ بات ہے اور ہم آج کے اس مکالمہ سے بہت کچھ سیکھنے کی توقع رکھتے ہیں۔ تقدّس مآب کے علاوہ ہمارے آج کے شرکا میں الٰہی امیدیار میر جلالی، روشن کلچرل ہیریٹیج انسٹیٹیوٹ کے بانی اور صدر؛ فاطمہ کشارورز، روشن مرکز برائے فارسی علوم کی صدر اور جامعہ میری لینڈ میں روشن انسٹیٹیوٹ براۓ فارسی علوم کی منتظمِ اعلیٰ، موسیقار حسین عمومی، جو کہ 'نے' یعنی الغوزہ کے ماہر استاد ہیں؛ گلو کارہ جیسیکا کینی جو ان کے ساتھ تشریف فرما ہیں؛ احمد ٹی کرامصطفےٰ، جامعہ میری لینڈ میں تاریخ کے پروفیسر اور روشن انسٹیٹیوٹ براۓ فارسی علوم میں کیمپس پر اکیڈیمک ڈیولپمنٹ آفیسر؛ اور کارل ڈبلیو ارنسٹ، جامعہ شمالی کیرولائنا، چیپل ہِل میں کینن ممتاز پروفیسر اور کیرو لائنا مرکز براۓ مطالعہ مشرقِ وسطیٰ اور مسلم تہذیب کے شریک منتظمِ اعلیٰ بھی شامل ہیں۔

قبل از ایں کہ ہم آج کے پروگرام کا آغاز کریں میں، بخوشی، عزت مآب لاما تنزین ڈھونڈن کے بہت سارے احسانات کو سراہنا چاہوں گی۔ لاما تنزین تقدّس مآب کے ذاتی امن پیامبر ہیں، جن کی حکمت اور ماہرانہ منصوبہ بندی نے آج کے پروگرام کو تشکیل دینے میں ہر مرحلہ پر ہمارے ہمہ تن مشغول عملہ کی راہنمائی کی ہے۔ ان کے بغیر یہ کام ناممکن ہوتا، اور لوگ اکثر ایسا محاورتاً کہتے ہیں مگر میں یہ بات پورے پورے خلوصِ دل سے کہ رہی ہوں۔

یہ میرے لئے بہت قابلِ عزت بات ہے کہ اب میں الٰہی امیدیار میر جلالی کا تعارف کرواتی ہوں جنہوں نے صوفی مسلک اور بدھ مت پر ایک انوکھا مکالمہ پیش کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ روشن کلچرل ہیریٹیج انسٹیٹیوٹ کی بانی اور صدر ڈاکٹر میر جلالی فارسی تہذیب کے تحفظ اور ترقی کی تا عمر استقلالی تائید دار ہیں۔ ان کے زیر قیادت روشن کلچرل ہیریٹیج انسٹیٹیوٹ فارسی تہذیب اور علوم کے تحفظ، ترسیل اور تعلیم کے لئے دنیا بھر میں ممتاز ادارہ بن گیا ہے، اور یہ امریکہ، یورپ اور ایشیا میں ایسی ہی کاوشوں کا معاون ہے۔ سن ۲۰۰۷ میں انسٹیٹیوٹ نے اس جامعہ میں فارسی علوم پروگرام کی حمائت میں قیادت کا تحفہ دیا، اس سے تعلیمی پروگرام کو روشن انسٹیٹیوٹ چیٔر براۓ فارسی علوم، گریجوایٹ فیلوشپ، انڈر گریجوایٹ وظائف اور فارسی پروگراموں کے لئے عطیہ سے تقویت ملی۔ اس جودو سخا کی بدولت مرکز براۓ فارسی علوم کو لسانیات، ادب اور ثقافت کے سکول میں اب روشن انسٹیٹیوٹ براۓ فارسی علوم، جامعہ میری لینڈ کہا جاتا ہے۔

گذشتہ دو برس میں مجھے ڈاکٹر میر جلالی کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا ہے اور میں نے انہیں نہائت بلند اخلاق انسان پایا ہے۔ وہ ذہین اور مہربان ہیں، عجز و عزم سے لبریز ہیں، یہ ایسے الفاظ ہیں جنہیں میں یونہی استعمال نہیں کرتی، اور میں انہیں اپنا دوست کہنے میں فخر محسوس کرتی ہوں۔ اپنے کام کو وسعت دینے اور اپنے متنوّع ثقافتی پس منظر کی روشنی میں، ڈاکٹر جلالی ثقافتوں کے باہمی میل جول کو فروغ دینے کے کاموں کی دلجمعی سے حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔ وہ ایران میں پیدا ہوئیں، مگر انہوں نے اپنی تعلیم فرانس اور امریکہ میں حاصل کی، سوربان اور جارج ٹاؤن جامعہ سے ایم اے کی اسناد حاصل کیں اور سوربان سے لسانیات میں امتیاز کے ساتھ ڈاکٹریٹ حاصل کی۔ وہ ایک باکمال مصنف ہیں اور انہوں نے فرانسیسی، انگریزی اور فارسی میں جن پر انہیں عبور حاصل ہے، اپنی تصنیفات شائع کی ہیں۔ اپنی تصنیفات کے علاوہ انہوں نے رضاکارانہ طور پر بیحد وقت اور توانائی خرچ کر کے صوفی کلام کا فرانسیسی اور انگریزی زبانوں میں ترجمہ کیا ہے۔ اس پہلو کے مد نظر وہ تقدس مآب چودھویں دلائی لاما اور ان کے مشترک انسانی اقدار کے وقف کی بہت بڑی مداح بن گئی ہیں۔ میں ڈاکٹر الٰہی امیدیار میر جلالی کو آپ کے سامنے دعوت دینے میں مسرت محسوس کرتی ہوں۔

ڈاکٹر الٰہی امیدیار میر جلالی: بہت شکریہ ڈین تھارنٹن ڈِل۔ آپ کے الفاظ سے میں بہت عجز محسوس کرتی ہوں، میں نہیں جانتی کہ اس کا جواب کیسے دیا جاۓ۔ تقدس مآب، صدر والس لو اور معزز سامعین، روشن کلچرل ہیریٹیج انسٹیٹیوٹ کی جانب سے جس کا مدعا ہے "روشن ضمیری بذریعہ تعلیم"، ہم اس عظیم پروگرام، "دو قلزموں کا اتصال، صوفی مسلک اور بدھ مت میں محاکات" میں شمولیت پر خوشی اور تشکر کا اظہار کرتے ہیں۔ تقدس مآب چودھویں دلائی لاما کے حضور دست بستگی کا شرف حاصل ہونا، اور ان کا ہماری اس گفتگو کو مشعلِ راہ دکھانا بڑی قابل عزت بات ہے۔ تقدس مآب امن کے علمبردار ہیں؛ انہوں نے دنیا بھر میں انسانی مسائل کو حل کرنے کے لئے رحمدلی کا جذبہ پیدا کرنے، درد مندی کو عالمی آشتی کی بنیاد بنانے، اور تمام بڑے مذاہب میں ان کے ہدف اور اخلاقیات میں مشترک اقدار کا ادراک کرنے کی تعلیم دی ہے۔ اس امر کو تسلیم کرتے ہوۓ کہ ہماری دنیا سکڑ گئی ہے اور تمام انسانیت ایک بڑا کنبہ بن چکی ہے، تقدس مآب ایک عالمگیر ذمہ داری کا مزید احساس پیدا کرنے کی انتھک کوشش کرتے چلے آ رہے ہیں تا کہ ہمارے دور کے عمومی خطرات، تحفط اور ماحولیاتی مسائل سے نمٹا جا سکے۔ ان کی ایثار پسندی، محبت، اور درد مندی کو فروغ دینے کی عمر بھر کی کاوش اور خاص طور پر چینیوں کے ہاتھوں ان کے وطن کے استبداد کے خلاف عدم تشدد کی مہم، ان پر انہیں ۱۹۸۹ میں امن کا نوبل انعام ملا تھا۔ ذاتی تجربہ کے حوالے سے میں یہ کہ سکتی ہوں کہ جب میں تقدس مآب سے پہلی بار دھرم شالہ، بھارت میں ملی، تو نہ صرف ان کے امن اور عالمی یکجہتی کے پیغام سے متاثر ہوئی بلکہ ان کی گرمجوشی اور طمانیت خاطر وجود نے بھی مجھے متاثر کیا۔ بعد ازآں میں نے تلوس، فرانس اور کئی دیگر موقعوں پر ان کے القائی پیغام اور تصنیفات کا مطالعہ کیا ہے اور ان کے لیکچر اور تعلیمات کو سنا ہے۔ تقدس مآب کی تعلیمات ہمیشہ مجھے صوفی مسلک کی بنیادی اقدار، اعلیٰ اخلاقی اصول و عادات و اطوار کی یاد دہانی کراتی ہیں جن سے میں اپنی جوانی کے ایام سے آشنا ہوں۔ میں کوئی ماہر صوفی نہیں ہوں، بلکہ ایک سالک ہوں، اس مدرسہ کی ایک طالب علم جس نے گمنامی میں برسوں صوفی تصنیفات کو فرانسیسی اور انگریزی زبان کے قالب میں ڈھالا ہے، تا کہ اسے اوروں تک پہنچایا جا سکے۔

جیسا کہ صوفی اساتذہ کہتے ہیں، "علیک بقلبک" – "تم اپنے دل کی آواز ہو۔" صوفی مسلک روحانی دروں بینی کو بیدار کرنے کی آواز ہے جو تمام بڑے مذاہب کے اخلاقی اصولوں کا احاطہ کئیے ہوۓ ہے۔ "صوفی ازم" ایک مغربی اصطلاح ہے؛ یہ فارسی کی اصطلاح "عرفان،" جو "عارف،" سے ماخوذ ہے جس کے معانی علم، "ادراک" اور "روشن ضمیری" کے ہیں، کے پورے مطالب پیش کرنے سے قاصر ہے۔ یہ دروں بینی کا پیغام اور ہم سب کے اندر موجود جذبۂ ایثار وہ عناصر ہیں جو تقدس مآب کی تعلیمات میں مجھے پوری قوت سے اجاگر نظر آتے ہیں۔ اس مشترک اقدار کے جذبہ کے ساتھ میں تقدس مآب کی بیحد ممنون ہوں کہ انہوں نے صوفی مسلک اور بدھ مت پر اس گفت و شنید میں حصہ لینے پر رضا مندی ظاہر کی۔ جامعہ میری لیند، صدر لو ، ان کی قیادت اور وہ سب لوگ جنہوں نے اس تقریب کا اہتمام کیا بھی صد تشکر کے مستحق ہیں۔

میں ڈاکٹر فاطمہ کشاورز کا تعارف کروانے میں بھی خاص خوشی محسوس کرتی ہوں۔ گذشتہ برس سے انہوں نے روشن انسٹیٹیوٹ براۓ فارسی علوم، جامعہ میری لینڈ میں ڈائریکٹر کے فرائض سر انجام دئے ہیں اور روشن انسٹیٹیوٹ میں فارسی زبان اور ادب کے شعبہ کی صدارت بھی کی ہے، اور اس سے قبل وہ جامعہ واشنگٹن، سینٹ لوئیس میں بیس برس سے زائد عرصہ تک درس و تدریس میں نہاں تھیں، جہاں وہ ۲۰۰۴ سے ۲۰۱۱ تک ایشیائی اور مشرق وسطیٰ کے زبان اور ادب کے شعبہ کی صدر رہیں۔ وہ شیراز، ایران میں پیدا ہوئیں اور انہوں نے اپنی تعلیم جامعہ شیراز اور جامعہ لندن سے حاصل کی۔ انہوں نے انعام یافتہ کتب لکھی ہیں، رسالوں کے لئے کئی مضامین لکھے ہیں اور الہامی شاعری بھی کی ہے۔ ڈاکٹر کشاورز صوفی عبادات میں شاعری اور موسیقی کی جو اہمیت ہے بطور اظہار روحانیت کے، اس پر چند خیالات کا اظہار کریں گی۔ تقدس مآب کو خوش آمدید کہنے کے لئے انہیں ایک روحانی تحفہ پیش کرنے میں حصہ لیں گی، جس میں صوفی تعلیم کو انسانی سانس، دل کی دھڑکن اور نَے، جو دنیا کا سادہ ترین اور قدیم ترین موسیقی کا ساز ہے، کو یکجا کیا جاتا ہے۔ خدا کرے کہ یہ وقیع موقع تمام مذاہب کے درمیان یکجہتی کا پیش خیمہ ہو جس کی بنیاد وہ تمام مشترک اقدار ہیں جو ہم سب کو قطع نظر نسل، جنس اور رتبے کے آپس میں ملاتی ہیں۔ ڈاکٹر کشاورز، آپ کا شکریہ۔

ڈاکٹر فاطمہ کشاورز: ڈاکٹر میر جلالی، آپ کے اس فراخدلانہ تعارف کا شکریہ۔ تقدس مآب، صوفی مسلک اور بدھ مت پر اس مکالمہ میں میری آپ کے ساتھ شرکت باعثِ عزت ہے۔ ہم نے اس محاکات کو "دو سمندروں کا ملاپ" کا نام اس لئے دیا ہے کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ صوفی مسلک اور بدھ مت دو ایسے وسیع سمندر ہیں جو مشترک خزانوں سے بھر پور ہیں۔ اگر ہم ایک گہرا غوطہ لگائں تو ہمیں یقین ہے کہ ہم اس سمنر میں متماثل موتی پائں گے۔ جناب تقدس مآب، یہ صوفی شاعری کی باقاعدہ تعلیم حاصل کرنے سے بہت پہلے کی بات ہے کہ میرے گھر والوں نے مجھے صوفی شاعری سے متعارف کروایا جو کہ بیک وقت کھیل، تعلیم، مراقبہ اور عبادت تھی۔ میں یہ کہہ رہی تھی جیسا آپ نے آج صبح بتایا کہ تعلیم کی اہمیت، تو میری صوفی شاعری کی تعلیم کا بڑا حصہ مجھے اپنے گھر سے ملا اور یہاں میرے دوست اور ہمکار استاد حسین عمومی سے بھی، جو موسیقی کے مشّاق بھی ہیں اور استاد بھی؛ انہیں موسیقی کا یہ تحفہ اولاً اپنے خاندان سے ملا پیشتر اس کے کہ وہ باقاعدہ تعلیم حاصل کرتے۔ استاد عمومی نے موسیقی کے اس ساز نَے یعنی ایرانی بانسری کے اسرار و رموز کا اکتشاف کرنے کے لئے وقف کر رکھی ہے، جس کے بارے میں ہم تھوڑی سی بات کریں گے، لیکن ان کا یہ ایک خیال بھی ہے کہ آپ کا اپنے شاگرد کے ساتھ گہرا علمی رشتہ بھی ہونا چاہئے، محض تکنیکی مشق ہی کافی نہیں، اس رشتے کو استوار کرنا لازم ہے۔

اور ہمارے ساتھ یہاں مِس جیسیکا کینی بھی موجود ہیں جو ایک موسیقار اور گلو کارہ ہیں، جو بذاتِ خود کئی ایک روحانی مسلکوں کی پیروکار ہیں جن میں جاوا کی گیملان موسیقی بھی شامل ہے۔ نَو سال قبل جیسیکا نے استاد عمومی کو سنا اور وہ فارسی صوفی موسیقی سے اسقدر مسحور ہوئیں کہ انہوں نے استاد عمومی کا شاگرد بننے کی خواہش کا اظہار کیا۔ گذشتہ نَو برس سے وہ اس کام میں مشغول ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان نو سالوں میں ان کا آوازوں کا تصور بدل گیا ہے، صوتی اثرات کے ذریعہ وہ اپنے عمیق احساسات کا اظہار کرتی ہیں، یہ محض آوازیں ہی نہیں۔ جیسا کہ صوفی صدیوں سے کہتے چلے آۓ ہیں کہ الفاظ اور دھنوں کا اختلاط کئی مختلف روپ دھار سکتا ہے، جیسے عبادت کی طرف کھلنے والا ایک باب؛ جیسے ہمارے لئے عبادت کا ایک موقع، ہمارے گہرے خیالات کی بیداری یا جیسے ڈاکٹر میر جلالی نے کہا "دل کی آواز" جو خواب میں چلی جاتی ہے اور اسے بیدار کرنے کے لئے موسیقی استعمال کرتے ہیں۔ اور یہ اس کی بھی پرورش کی خاطر استعمال ہوتا ہے جسے آپ نے خود "دل کے اوصاف" کا نام دیا ہے۔

انسانی سانس اور دل کی دھڑکن کی مانند یہ (موسیقی) بھی عالمی زبان رکھتی ہے۔ یہ کسی ترجمہ کی مرہونِ منت نہیں، لہٰذا صوفی حضرات اسے ایسی زبان تصور کرتے ہیں جس سے وہ تمام دنیا سے ہمکلام ہو سکتے ہیں۔ فارسی دان ہر دم اس کے ساتھ رہتے ہیں، وہ اس کا اظہار خوشخطی میں کرتے ہیں جیسا کہ آپ اس تحفے میں دیکھیں گے جو ہم آپ کو پیش کرنے جا رہے ہیں؛ وہ اس کی مثالیں دیتے ہیں، اسے گاتے ہیں، دوسروں کو سکھاتے ہیں، یعنی یہ ان کی زندگی کا جزوِ لا ینفک ہے۔ اور اس شاعری سے جو محاکات نکلتی ہیں وہ ان کی زندگی کا حصہ بن جاتی ہیں، اور ایک نہائت اہم شبیہ نَے یا بانسری کی شبیہ ہے۔ (بانسری موسیقی کا وقفہ)

تیرھویں صدی کے عظیم صوفی شاعر جلال الدین رومی کا کہنا ہے کہ بانسری ایک انسان، ایک عاشق، ایک سالک کی مانند ہے جو اپنے وطن سے دور ہے، ایسے ہی جیسے کوئی سرکنڈہ اپنی کھیتی سے بچھڑ گیا ہو تا کہ وہ بانسری میں ڈھل سکے۔ اور جیسا کہ آپ نے خود فرمایا کہ بدھ متی روایات کے مطابق ہم ایسے نور کے مجسمے ہیں جو بچھڑ گئے ہیں، اب ہم عالمِ تمنا میں ہیں، تو عین ممکن ہے کہ ہم اپنے فلکی یا نورانی نسب کو بھول گئے ہیں، رومی بھی یہی کہتا ہے کہ ہم اپنے مخرج کو بھلا دیتے ہیں؛ ہم اس درجہ بھٹک جاتے ہیں کہ ہم بھول جاتے ہیں کہ ہماری نسبت ایک عالمِ ارفع سے ہے اور اسے یاد رکھنے کا طریقہ یہ ہے کہ ہم سنیں، اپنے دل کی آواز سنیں، لہٰذا وہ اپنے سب سے اہم صوفی کار کا آغاز لفظ "سمع" سے کرتا ہے۔ ( صوفی موسیقی بشمول فارسی نظم کا وقفہ)۔

پس وہ کہتا ہے: "بانسری کی دل سوز، دکھ بھری کہانی سنو کیونکہ یہ ہر جدائی کے قصے کی ترجمان ہے۔ چونکہ انہوں نے مجھے میرے وطن سرکنڈے کی کھیتی سے اکھاڑ ڈالا، تو اب لوگ اپنے دکھ کا اظہار میرے توسط سے کرتے ہیں۔"

[مزید موسیقی اور شعر گوئی]۔

پس اس کا کہنا ہے:" اس جدائی کو میرے دل کو چکنا چور کرنے دو تا کہ میں اپنے دردِ تمنا کو الفاظ کا جامہ پہنا سکوں، کیونکہ جو کوئی بھی اپنے مخرج سے، وطن سے گم گشتہ ہوتا ہے وہ اپنی نسبت کی جانب ضرور مراجعت کرے گا۔"

صوفی حضرات کے لئے اس تمنا کا ذریعہ، اس منبع تک پہنچ، محبت کی راہ ہے؛ "وہ طاقت، وہ آتش جو میری آواز کو گرماتی ہے،" رومی کہتا ہے،"وہ محبت ہے۔" اور صوفیوں کے ہاں محبت کوئی تصوراتی جنس نہیں۔ بے شک وہ اس کے بارے میں بہت کچھ کہہ سن سکتے ہیں مگر جو چیز وقیع ہے وہ ہے تجربہ۔ ان کا خیال ہے کہ ہم سب کو محبت کا مزہ چکھنا چاہئے۔ محبت کا تصور ایک اہم تصور ہے، اور تبھی ہم محبت کے منقلب اوصاف کو پہچانتے ہیں، اسی لئے رومی کہتا ہے "محبت کا پرتو دل کی آشفتگی سےہے"؛ پس یہ اس طور اپنی جلوہ گری کرتا ہے نہ کہ بیان، یا بجاۓ اس کے کہ ہم اس کو بیان کریں۔ یہ تمنا سالک کو پیش رفتگی کی قوت عطا کرتی ہے، مگر اس تمنا کو الفاظ کے قالب میں ڈھالا نہیں جا سکتا کیونکہ اس کی کوئی شکل و صورت نہیں۔

رومی کہتا ہے،" میں نے محبت کو بیان کرنے اور اس کی توضیح کرنے کی بہت کوشش کی، مگر جب مجھے محبت سے واسطہ پڑا تو مجھے احساس ہوا کہ میں تو یونہی جھک مار رہا تھا کیونکہ اسے بیان نہیں کیا جا سکتا؛ لیکن جب ہم اس کا مزہ چکھتے ہیں تو محبت دل پر نقش ہو جاتی ہے۔" لہٰذا یہ صوفی موسیقی اور شاعری کا کام ہے کہ وہ سالک کے لئے یہ لذّت پیدا کرے، اس عدم شکل و صورت کی حالت کی لذّت، یعنی وہ بے شکل حُسن۔

[مزید موسیقی اور شعر گوئی]۔

جناب تقدس مآب، اب میں آپ سے پروفیسر احمد کرمصطفےٰ کا تعارف کرواتی ہوں جو کہ صوفی مسلک کے مانے ہوۓ استاد اور جامعہ میری لینڈ میں تاریخ کے پروفیسر ہیں۔ وہ صوفی مسلک کے چیدہ نکات پر روشنی ڈالیں گے۔

پروفیسر احمد کرمصطفےٰ: شکریہ ڈاکٹر کشاورز۔ جناب تقدس مآب، معزز ہمکار اور مہمانو، تقدس مآب کے حضور صوفی مسلک کی چیدہ تعلیمات کو پیش کرنا ایک نادر اعزاز ہے، آپ کے مشاہدہ کی خاطر، اور مجھے یہ شرف حاصل ہوا ہے۔ بے شک بدھ مت اور صوفی مسلک دو وسیع و عمیق سمندر ہیں، اور چونکہ اس قلیل وقت میں جو مجھے دیا گیا ہے صوفی مسلک کے تمام اہم پہلوؤں پر بات کرنا ممکن نہیں، اس لئے میں آپ کی توجہ صوفی مسلک کے صرف ان نظریات اور عبادات کی جانب مبذول کرانا چاہوں گا جن کا تصور بدھ مت میں بھی موجود ہے۔ سب سے پہلے میں صوفی مسلک میں نفس کے نظریہ پر بات کروں گا۔ یہ کہنا مبالغہ آرائی نہ ہو گی کہ صوفی مسلک میں تمام کاوشوں کا مدعا فرد کو قابو میں رکھنا اور سدھارنا ہے۔ صوفیوں کے مطابق ہر انسان کو ایک روحانی عنصر ودیعت ہوتا ہے، مگر وہ روحانی عنصر روزمرہ زندگی کے معمولی علائق کی نذر ہو جاتا ہے اور یوں یہ (عنصر) خوابیدہ پڑا رہتا ہے۔ انسان اپنی سماجی زندگی میں محو بالذات اور خود غرض ہوتا ہے، مگر روحانی عنصر کو الوہی اشاروں (قوتوں) سے جو ہمارے اندر اور ارد گرد موجود رہتے ہیں، بیدار کیا جا سکتا ہے، اور جیسا کہ ہم نے دیکھا کہ صوفی لوگ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اس معاملہ میں موسیقی اور شاعری نہائت موثر ہیں۔ اور اگر ایک بار یہ (روحانی دل) بیدار ہو جاۓ تو پھر یہ نمو پذیر بھی ہو سکتا ہے اور دھیرے دھیرے اس کم اور کمتر نفس کی جگہ لے لیتا ہے جس نے اسے اولاً دبا رکھا تھا۔ یہ ںیچ نفس پر قابو پانے اور اس کی جگہ روحانی نفس کو مقدم کرنے کا عمل ایک طویل اور کٹھن مرحلہ ہے جس کے دوران احتیاط اور صبر کے ساتھ دل کی پرورش کرنا ہوتی ہے۔

اس سفر میں صوفی اپنے روزمرہ کے سماجی نفس کا خاتمہ کرنے کی کوشش کرتا ہے، تہ در تہ اس کی تہ ریزی کرتا ہے تا کہ (روحانی) دل کو آشکار کر سکے، اور پھر اپنے روحانی دل کی پرورش شروع کر دیتا ہے تا کہ اس کے ساتھ یکجان ہو جاۓ۔ خود غرضی سے بے غرضی، کمتر نفس سے اعلیٰ نفس کا یہ سفر، اصلاح شدہ روحانی انسان کا یہ تصور تمام صوفی نظریات و عبادات میں بنیادی حیثیت کا حامل ہے۔ یہ بات بڑی دلچسپ ہے کہ جیسے جیسے صوفی ایک منزل سے دوسری کی طرف ترقی کرتا ہے، تو وہ تمام ذی حس مخلوق سے عمیق خضوع و خشوع اور استقلالی جذبۂ ایثار سے پیش آتا ہے۔ روحانی نفس کی پرورش کے سبب محو بالذات کے تمام نشانات کو مٹا کر صوفی اپنے نفس کو ایک ایسے آئینہ میں تبدیل کر دیتا ہے جس میں تمام کائنات بخوبی نظر آتی ہے: ہمہ اوست، سب ایک دوسرے سے متصل ہیں؛ ہم سب زندگی کے اس "سفر" میں ساتھ ہیں۔ اس احساس کے ساتھ صوفی ایک ایسے بے لوث خادم کے روپ میں ڈھل جاتا ہے جو دوسروں کی تقدیر سنوارنے کی انتھک کوشش کرتا ہے۔ وہ لوگوں کو خودغرضی کی گہرائیوں سے نکالتا ہے اور انہیں یکجہتی کی بلندی کی راہ دکھاتا ہے۔ صوفی نقطۂ اتصال بن جاتا ہے؛ سچ تو یہ ہے کہ صوفی ایک ایسا آئینہ بن جاتا ہے جس میں تمام موجودات کی یکجہتی کا عکس نظر آتا ہے۔ خودغرضی کے اتلاف سے روحانی نفس کے باب کھل جاتے ہیں، جن میں محبت، درد مندی اور جذبۂ ایثار شامل ہیں؛ اور صوفی ان خزانوں کو سب پر بےدریغ لٹاتا ہے۔

خدمتِ خلق کا جذبہ ایک ایسا تعلق ہے جو تمام ذی حس مخلوق کو جوڑتا ہے، اور صوفی معاشرے کے اندر رہتا ہے۔ یہاں معاشرے سے ویرانے میں فرار، یا کسی خانقاہ میں پناہ گیری ممکن نہیں۔ حتیٰ کہ جب صوفی کو اپنے دل کی صفائی کی خاطر تنہائی اختیار کرنا پڑتی ہے تو تب بھی وہ شاذ و نادر ہی سماجی زندگی سے مکمل کنارہ کشی کرتا ہے۔ معاشرے کے ساتھ یہ گہرا رشتہ صوفی مسلک کا ممتاز عنصر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صوفی حضرات نامور صوفی مرشدوں کے گرد اکٹھے ہوتے ہیں، مگر خود کو امتیازی گروہوں کی صورت میں معاشرہ سے الگ نہیں کر لیتے۔ وہ اپنے بڑے گروہ میں، دیہاتی ہو یا شہری، عام لوگوں کی طرح زندگی بسر کرتے ہیں۔ ان کی خانقاہیں اکثر ایسے سماجی مرکز کا کام دیتی ہیں جو گردونواح کے لوگوں کو مختلف سہولتیں مثلاً خوراک، رہائش، روحانی اور مالی امداد، مذہبی راہنمائی، علاج معالجہ، میل جول، تعلیم اور صحت مند تفریح مہیا کرتے ہیں۔

صوفیوں کا معاشرے میں یوں گھل مل جانا، یہ عمرانی فطرت، یہ سماجی فاعل روپ، یہ تمام عناصر صوفی کے سفر کو تکمیل تک پہنچاتے ہیں۔ صوفی نے اپنے کمتر نفس کو قابو میں کر لیا ہے، اسے سدھا لیا ہے، اور اس کی جگہ اعلیٰ، روحانی نفس کو فائز کر دیا ہے اور اس روحانی انسان کے قلب سے محبت اور درد مندی کے چشمے پھوٹ رہے ہیں جو تمام ذی حس مخلوق کے بے لوث خدمت گزار ہیں۔

میرے خیال میں صوفی مسلک کے یہ اوصاف بدھ مت کی چیدہ چیدہ تعلیمات سے مشابہ ہیں جن کا شستہ اور پر زور اظہار تقدس مآب کے کارہاۓ حیات سے ظاہر ہے، اور میں آپ کے خیالات سننے کے لئے بے چین ہوں۔ مگر اس سے پہلے میں اگلے مقرر کا تعارف کروانا چاہوں گا، میرے ممتاز ہمکار اور دوست، کارل ارنسٹ۔ ہماری ڈین نے آپ کو بتایا کہ ان کا تعلق جامعہ شمالی کیرولائنا سے ہے۔ یہ اسلام کے بارے میں جانکاری، خصوصاً مغربی اور جنوبی ایشیا سے وابسطہ معاملات، کے ماہر ہیں۔ ان کے شائع شدہ تحقیقی مقالے خصوصاً تین موضوعات پر ہیں: اسلامی علوم کے عمومی اور خصوصی شعبے، صوفی مسلک اور ہندی-مسلم تہذیب۔ کارل کی ہمارے درمیان یہاں موجودگی ہمارے لئے قابلِ فخر ہے، کارل، یہ لیجئے۔

کارل ارنسٹ: احمد، آپ کا بہت بہت شکریہ، تقدس مآب دلائی لاما کے سامنے ہندوؤں، بدھ متوں اور صوفیوں کے درمیان ماضی اور مستقبل کے تعلقات پر کچھ خیالات پیش کرنے کا سنہری موقع یقیناً بہت قابلِ عزت بات ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض لوگ ان روحانی مسلکوں کے درمیان پر خلوص مکالمہ کو شک کی نظر سے دیکھیں گے، خصوصاً ان تنگ نظریات کی روشنی میں جن کا تعلق اسلامی ماحول سے ہے جس میں صوفی مسلک پروان چڑھا۔ حالیہ دور میں بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش میں جو ہندو مسلم فسادات ہوۓ ہیں اس سے یقیناً لوگ پریشان ہوں گے۔ اور وہ مزید اس رخنے سے بھی پریشان ہوں گے جو تھائی لینڈ، سری لنکا اور برما کے مسلمانوں اور بدھ متوں کے درمیان موجود ہے؛ اور مذہبی اختلافات سے ماوراء خصوصی لگاؤ کا عنصر ایک زندہ حقیقت ہے؛ یعنی ہندو مت، بدھ مت اور اسلام کے تاریخی پس منظر میں مخصوص اساتذہ کے مسلک اور مقامی روحانی مرکزوں کے ساتھ لوگوں کا لگاؤ اور وفاداریاں نہائت گہری ہیں جو مل کر لاکھوں سالکوں کے روحانی تناظر کا تعین کرتی ہیں۔

گو کہ شروع کے یورپی علماء کا یہ خیال تھا کہ صوفی مسلک ہندو مت یا بدھ مت سے ماخوذ ہے، مگر اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ مرشد – مرید کے بیچ رشتہ کے تعلق سے صوفی مسلک بیشتر حد تک پیغمبر محمد﷽ سے اور قران سے منسلک ہے جسے صوفی لوگ دل کی کتاب کی مانند بار بار پڑھتے ہیں۔ بہر حال یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ غیر مسلم لوگ بھی صوفی تعلیمات سے بیحد متاثر ہوۓ ہیں جو انسانی روح کی عالمگیر تمناؤں اور خواہشات کا احاطہ کرتی ہیں۔ تیرھویں صدی کے ایک مفکّر رمون لل نے عربی سیکھی اور صوفیوں کے انداز میں محبت پر تصنیفات مرتب کیں۔ اسی طرح ابراہیم میمونائڈز نے، جو معروف یہودی فلسفہ دان کا پوتا تھا، صوفی کے اندرونی (روحانی) سفر یا 'طریقہ' پر بہت کچھ لکھا، کیونکہ اسے یہ یہودیت سے بیحد متماثل لگا۔

وسیع پیمانے پر، صدیوں سے، فارسی دان ہندو علماء نسل در نسل مغل بادشاہوں کے دربار میں ملازم رہے اور انہوں نے کلاسیکی فارسی شاعری پڑھنے کا فن سیکھا۔ چونکہ بیشمار فارسی ادب صوفی نظریات سے بھر پور ہے، تو یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں کہ بہت سے ہندو علماء رومی، حافظ اور دیگر (صوفی شعرا) کی متصوفانہ بصیرت سے متاثر ہوۓ۔ ہندو اور صوفی علماء کے درمیان تبادلہ خیال، جس میں بہت سے سنسکرت سے فارسی تراجم بھی شامل ہیں، دورِ جدید کے سیاسی تنازعوں کی نذر ہو گئے ہیں؛ لیکن مجھے یہ کہتے ہوۓ خوشی ہوتی ہے کہ علماء ذوق شوق سے ان مسحورکن واقعات کے بارے میں جانکاری حاصل کر رہے ہیں تا کہ یہ دیکھا جا سکے کہ یہ گمبھیر ثقافتی اور روحانی تبادلے کس طور پیش آۓ۔

بدھ مت کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ صوفی مسلک کے ساتھ معاملہ ایک ایسا خوشگوار واقعہ ہے جو پیش آنے والا ہے۔ ماضی میں چند ایسے مواقع آۓ جب صوفی مسلک اور بدھ مت کے درمیان مکالمہ ہوتے ہوتے رہ گیا۔ وسط ایشیا کے صوفی استاد علاالدولہ سمنانی کو منگول حاکم ارغون نے بدھ راہبوں کے ساتھ بحث مباحثہ کرنے پر مجبور کیا – یہ ایسی بات تھی جو انہیں پسند نہ تھی؛ لیکن یہ ایک قابلِ ذکر بات ہے کہ مراقبے کا جو طریقہ انہوں نے تشکیل دیا، جس میں سابقہ پیغمبروں کا وجود جسم کے اندر بطور روشنی کے مجسموں کے محسوس کیا جاتا ہے بھی شامل ہے، یہ مہائن بدھ مت کے روحانی اطوار سے مطابقت رکھتا ہے۔

اسلامی تعلیمات نے بت پرستی کو ہمیشہ منع کیا ہے، جسے فارسی میں 'بھوت' کی پوجا کہا جاتا تھا، یہ لفظ بدھا سے نکلا ہے؛ مگر صوفی تصنیفات پر باطنی تبصرے بت پرستی کو سراہتے ہیں جس میں "حقیقی محبوب" خواہ وہ ذات حق ہو یا صوفی مرشد کی پرستش شامل ہے۔ اس ایک لمحے میں ان خیالات و جذبات کا ذکر جو ہندوؤں، بدھ متوں اور صوفیوں کے روحانی نظریات میں مشترک ہیں مشکل ہے، البتہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس تعلق میں، جیسا کہ ڈاکٹر میر جلالی نے کہا، اور جیسا تقدس مآب آپ نے خود فرمایا، اندرونی روح کی مکمل پہچان، تعلق خاطری، اور دوسروں میں انسانیت کی پہچان شامل ہیں۔ ایسا موقعہ جس پر ہم یہ دیکھ سکیں کہ یہ روحانی مباحثے کیا روپ دھاریں گے ایک اہم تاریخی لمحہ ہے۔ میں تقدس مآب کے خیالات سننے کا منتظر ہوں۔ شکریہ۔

تقدس مآب دلائی لاما: میں ایک صوفی مرشد کو جانتا ہوں۔ مجھے یہ تو نہیں معلوم کہ وہ کہاں کا رہنے والا ہے، مگر وہ پیرس میں مقیم ہے، اور میں اسے وہاں مختلف مذاہب کے درمیان بات چیت کے اجلاس میں کئی بار ملا۔ وہ ایک عمدہ، عمر رسیدہ، باریش انسان ہے۔ ایک عجیب بات یہ تھی کہ اس کا ایک نوجوان بیٹا تھا جو تعلیم کا متمنی تھا اور اسے بدھ مت کی تعلیم کے لئے چند ماہ کے لئے بھارت بھیجا گیا۔ یہ بڑی غیر معمولی بات ہے، وہ بوڑھا استاد بدھ مت کے بارے میں مزید کچھ جاننے کا خواہشمند تھا۔ صوفیوں کے ساتھ میرا ذاتی تعلق اتنا ہی ہے۔

ہماری ملاقاتوں کے بعد لوگ کہتے کہ بدھ مت اور صوفی مسلک کی بعض عبادات بہت ملتی جلتی ہیں، مگر مجھے صوفی مسلک کے بارے میں خاص علم یا تجربہ نہیں تھا۔ تو جب یہ بتایا گیا کہ فارسی میں لفظ "صوفی" کے معانی "علم" یا "ادراک" کے ہیں، تو اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حکمت اور تجزیہ کی کتنی اہمیت ہے۔ یہ ایک بدھ متی عنصر سے متشابہ ہے، خصوصاً سنسکرتی روائت میں، جس میں تجزیہ اور تحقیق سے معاملات واضح تر ہوتے چلے جاتے ہیں۔ پس حکمت کی یہ اہمیت، محض اعتقاد کی ہی نہیں، ایک مشترک صنف ہے۔ اور پھر آپ کی باتوں میں چند مختلف درجات نظر آتے ہیں۔ گہرائی (روحانی سطح پر) میں کچھ خالص، ایثار پسند فطرت ہے، اور گھٹیا سطح پر تباہ کن جذبات ہیں۔

پس اس سے تحقیق کا پہلو جنم لیتا ہے، اور پھر ان منفی جذبات کو تلف کرنے کا معاملہ۔ اگر منفی جذبات ہماری فطرت میں ہوتے تو پھر ہم ان سے الگ اپنے وجود کا تصور نہیں کر سکتے تھے۔ یہ بڑی مشکل ہوتی۔ پس آپ گہرے (روحانی) اور گھٹیا درجات میں انفکاک کرتے ہیں، ایک گہری فہم اور ایک گہری "میں" کے ساتھ، تو اس طرح گھٹیا درجہ کے تباہ کن جذبات کو کم کیا جا سکتا ہے یا ان کا مکمل خاتمہ۔ یہ بھِی بدھ متی سوچ سے متماثل ہے۔ آپ نے خیال اور تصور کا ذکر بھی کیا جو ہم بدھ مت میں بھی استعمال کرتے ہیں۔

جب میں نے اس پروگرام کے بارے میں سنا، تو مجھے مزید جاننے کی خواہش ہوئی۔ صوفی مسلک کے متعلق میرا علم صفر کے برابر ہے اور آج میں نے کچھ نئی باتیں سیکھیں۔ لیکن پھر بھی، بہر حال، میرا علم بہت محدود ہے، تو مجھے معلوم نہیں کہ اور کیا کہوں۔ ایک بنیادی بات میں یہ سمجھتا ہوں کہ تمام مذاہب مختلف طریقے استعمال کرتے ہیں۔ تو بیشتر الوہی مذاہب خدا پر مکمل اعتقاد اور مکمل بندگی کی تلقین کرتے ہیں۔ اس اعتقاد کو پختہ کرنے کے لئے خدا کا تصور بطور خالق کے سامنے آیا، جس میں تم خدا کی مخلوق کا ایک ٹکڑا ہو۔ اس قسم کا قوی اعتقاد بہر صورت ایک محوبالذات رویہ پیدا کرتا ہے۔ بدھ مت میں اس محوبالذات رویہ کو ختم کرنے کے لئے ہم یہ کہتے ہیں کہ آزاد نفس نام کی کوئی شے نہیں۔ یہ اگرچہ مختلف طریقے ہیں مگر ان سب کا کم و بیش مقصد محوبالذات رویہ کو ختم کرنا ہے، جو غصہ، حسد، شک اور دوسرے منفی جذبات کی بنیاد ہے۔ چونکہ انتہائی خودغرضانہ جذبات مسائل کا سبب ہوتے ہیں، لہٰذا تمام بڑے مذاہب محبت، درد مندی، برداشت، عفو، وغیرہ کا سبق دیتے ہیں۔ تمام وہ مذاہب جو خدا پر یقین رکھتے ہیں وہ خدا کو محبت کا مجسمہ بتاتے ہیں، اور اس محبت کی عظمت میں یقین کامل کی بدولت وہ جوش و خروش پیدا ہوتا ہے جس سے محبت اور درد مندی کی مشق کی جا سکے۔

اس اگلی کہانی میں حکمت پر بہت زور معلوم ہوتا ہے۔ اتھاکا میں ایک چھوٹے سے گروہ کا ایک سربراہ تھا، ایک بڑا ہی نفیس شخص جس کا خیال تھا کہ تمام مذاہب، خصوصاً تمام ہندوستانی مذاہب، یکساں ہیں۔ اس کا خیال تھا کہ تمام اہم حصے یقیناً ایک جیسے ہیں اور اس احساس کے ساتھ اس نے تمام مذاہب کی یکسانیت کی وضاحت کی کوشش کی، مگر ایسا کرنے میں، اس نے مجھے بتایا، اسے بہت دقّت پیش آئی۔ چونکہ ہم قریبی دوست تھے، ایک بار اس نے مختلف افکار کے درمیان متناقضات اور تفرقات کو سلجھانے میں دقّت کی شکائت کی، میں نے اسے کہا کہ میرے خیال میں جو وہ کر رہا تھا غالباً غیر ضروری، فالتو کام تھا۔

تمام عظیم بدھ متی علماء نے دوسرے قدیم بھارتی مذاہب کے ساتھ بہت سارے سوالات اور دلائل اٹھاۓ ہیں۔ ایک عالم، دھرم کرتی، حقیقتاً ان نظریات کے بارے میں سیکھنا چاہتا تھا جن کے خلاف وہ دلائل دیتا تھا، مگر مشکل یہ تھی کہ گہرے تصورات پر اسباق گورو صرف ایک یا دو معتبر شاگردوں کو زبانی دیتا تھا، (یہ اسباق) کبھی بھی لکھے نہ ہوتے اور نہ ہی عوام کے سامنے دئے جاتے۔ اگرچہ ایک قلیل عرصہ کے لئے وہ ایک ہندو استاد کا شاگرد بننے میں کامیاب ہو گیا، مگر پھر بھی یہ خفیہ تعلیمات حاصل کرنا بہت مشکل تھا۔ پھر اس نے گورو کی بیوی سے بات کی، جس نے گورو کو بتایا کہ ان کا ملازم نہائت معتقد اور مزید علم حاصل کرنے کا متمنی تھا، مگر پھر بھی بات نہ بنی۔ پھر گورو کی بیوی کو ایک ترکیب سوجھی، جو یہ تھی کہ دھرم کرتی بستر کے نیچے چھپ جاۓ اور بیوی گورو سے سوال پوچھے اور دھرم کرتی سنے۔ تو ان عظیم بدھ متی فلسفہ دانوں نے پہلے مکمل تعلیم حاصل کی، اور پھر مذہبی مباحثوں میں سوال اٹھاۓ۔ حتیٰ کہ بدھ مت کے اندر بھی وہ کئی سوال اٹھاتے ہیں اور بحث کرتے ہیں، تو اب ہمارے ہاں چار بڑے افکار ہیں، جنہیں مزید تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح، بحث مباحثے سے، مختلف نظریات جنم لیتے ہیں۔ تو میں نے اپنے دوست سے کہا کہ یہ ٹیڑھا مسٔلہ ہے کیونکہ ان تمام عظیم بدھ علماء نے مختلف مذاہب کے درمیان تفریق کو تسلیم کیا۔

اگر آپ قدیم بھارتی تصنیفات کو دیکھیں، بہت سے اساتذہ جو دوسرے مذاہب کے ساتھ بحث مباحثہ کے فن میں ماہر تھے، ان کا یہ مانا ہوا اصول تھا کہ آپ کسی مٹی کے پتلے کو مد مقابل کھڑا کر کے اسے آسانی سے گرا کر نصرت کا ڈنکا نہیں بجائں گے۔ زیر بحث موضوع پر وہ مکمل مطالعہ کرتے، تا کہ بحث میں اس کے ساتھ انصاف کیا جا سکے۔ ان اساتذہ کا یہ فعل کہ وہ اپنے مدمقابل کے نقطۂ نظر کو سمجھنے پر اس قدر وقت اور محنت صرف کرتے اس بات کا اظہار ہے کہ وہ باہمی اختلافات اور امتیازات کو بہت سنجیدہ معاملہ تصور کرتے تھے۔ پس تفریق موجود ہے اور ہر شے کو یکساں بنانا ضروری نہیں۔

میں نے پہلے بھی ذکر کیا تھا کہ بدھ مت کے اندر ہی مختلف فلسفیانہ نظریات موجود ہیں، جن میں سے بعض کا درس مہاتما بدھ نے خود دیا – مختلف نظریات مگر وہی استاد، یعنی مہاتما بدھ۔۔ میں لوگوں سے کہتا ہوں کہ ان متناقض نظریات کا مطلب یہ نہیں کہ مہاتما بدھ عدم تیقن کا شکار تھا، آج کچھ بتا رہا ہے تو کل کچھ، نہیں یقیناً ایسا نہیں۔ اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ مہاتما بدھ کسی الجھن میں مبتلا تھا یا اس نے اپنے چیلوں میں الجھن پیدا کرنے کی خاطر انہیں مختلف نظریات کا سبق دیا، ایسا بالکل نہیں! اس کا جواب یہ ہے کہ ایسا کرنا لازم ہے۔ مہاتما بدھ کے اپنے چیلوں کے درمیان کئی ایک اندازِ فکر تھے، لہٰذا مختلف لائحہ عمل کی ضرورت تھی۔ روحانیت میں مختلف لائحہ عمل سے مراد ہے مختلف فلسفیانہ نظریات، سب کے سب اہم جن سب کا ایک ہی اعلیٰ و ارفع ہدف ہے: کل نوعِ انسانی کو ذی شعور اور درد مند بنانا۔ تو یہ ہے میری حکمت عملی اور میری سوچ، بجاۓ اس کے کہ ہر شے کو یک یا یکساں بنایا جاۓ۔

تو جیسا ان صوفی ماہرین نے بتایا کہ صوفی اور بدھ مت مسلکوں کے درمیان متشابہات پائی جاتی ہیں۔ مگر پھر بھی بدھ مت میں، جین مت اور قدیم بھارتی فلسفی فکر جسے سمکھیا فلسفہ کہتے ہیں، ان تینوں میں کسی خارجی قوت بطور خالق کا کوئی تصور نہیں – ہم خود ہی تخلیق کار ہیں۔ واقعات ہمارے اعمال اور محرکات کے سبب پیش آتے ہیں۔ لیکن ہمیں امتیاز بہر حال کرنا ہے۔ بدھ مت میں چونکہ علت و معلول اور اسباب کے اصول کا بیان نہائت ضروری ہے تا کہ ہر شے کی بنیاد (ماخوذ) کو سمجھا جا سکے، تو ذی شعور لوگوں اور غیر ذی شعور اشیا، یعنی گوشت پوست سے عاری اشیا کی علّتی آفرینش کے درمیان تمیز کا لحاظ رکھا جاتا ہے۔ اگرچہ دونوں کی اپنی اپنی وجوہات ہوتی ہیں، قانونِ علت و معلول کے دائرے کے اندر، غم اور خوشی سے واسطہ صرف ان ہستیوں کو پڑتا ہے جنہیں شعور حاصل ہو۔

بے شک، گانے بجانے کی ریت تمام مذاہب میں مشترک ہے۔ ہم تجربہ کی بنا پر یہ جانتے ہیں کہ الفاظ خواہ ایک جیسے ہوں مگر جیسے ہم انہیں ادا کرتے ہیں یا انہیں موسیقی میں ڈھالتے ہیں اس کا اثر سامع پر مختلف ہو سکتا ہے۔ یہ بھی ایک متماثلت ہے، لیکن بعض اوقات لوگ موسیقی اور چنگ و رباب میں اس قدر محو ہوجاتے ہیں کہ وہ اصل بات کو بھلا دیتے ہیں۔ کئی ایک تبتی خانقاہیں رسوم کو بہت عزیز جانتی ہیں، کیونکہ اس سے انہیں سازوں کو استعمال کرنے کا موقع ملتا ہے، لیکن وہ تعلیم پر پوری توجہ نہیں دیتے۔ ایسے حالات میں، یہ ایسا ہے جس کے بارے میں کسی تبتی عالم نے ایک بار کہا تھا "لوگ شاخوں کو چمٹے ہوۓ ہیں اور جڑوں کو بھلا بیٹھے ہیں۔"

ڈاکٹر فاطمہ کشاورز: تقدس مآب، جیسا کہ غالباً آپ نے نہائت حکمت کے ساتھ، اس حقیقت کی طرف توجہ دلائی کہ جہاں بیحد مماثلت ہے وہاں انفکاک بھی ہے اور ان پر نظر ڈالنا بھی دلچسپ امر ہے، مثال کے طور پر موسیقی کو جڑوں تک پہنچنے کے لئے سمجھا جاتا ہے، نہ کہ آپ کا تعلق توڑنے کے لئے۔ تو بالفاظ دگر، یہ ایک ایسا واسطہ ہے جو آپ کے دل کو وسعت دیتا ہے تا کہ آپ مراقبہ کر سکیں۔ شائد مراقبہ بھی اس جیسا ہی ہے، نہ کہ تفننِ طبع، نہ کہ وقت گزاری کا بہانہ، یعنی یہ ایک قسم کی عبادت ہے۔ لیکن میں آپ سے یہ استفہام کرنا چاہتی ہوں، کہ بطور ایک صوفی طالب علم کے میں نے ہمیشہ یہ جانا کہ خدا ہم سب کا حصہ ہے، یعنی یہاں کوئی حدبندی نہیں۔ یہ کوئی خالق نہیں جو مجھ سے الگ ہے؛ یہ میرے اندر ایک ایسا قوی نور ہے کہ اگر میں اس کو پالوں پوسوں، تو پھر میرے اور خدا کے درمیان کوئی دیوار نہیں ہو گی۔ اور میرے خیال میں یہ کوئی مبالغہ آرائی نہ ہو گی کہ بیشتر صوفی آپ کو یہ بتائں گے کہ، اگرچہ ہم اس انسانی خاکستر میں رہتے ہیں مگر ہمارے اندر باب کشادہ کرنے کی صلاحیت موجود ہے، اس قطرے کی مانند جو سمندر میں گر جاتا ہے؛ یہ قطرہ نہیں رہتا بلکہ سمندر بن جاتا ہے۔ تو میرا خیال ہے۔۔۔۔۔۔۔۔

تقدس مآب دلائی لاما: میرے خیال میں آپ نے "نفس" کے ایک مختلف درجہ کا ذکر کیا ہے – ایسا گہرا درجہ جسے بعض اوقات بدھ مت میں "بدھا-فطرت" کہتے ہیں، جس کا تعلق ہمارے ایک مہاتما بدھ، یا ہم "خدا" بھی کہ سکتے ہیں، بننے کے امکان (صلاحیت) پر ہے۔ حال ہی میں بھارت میں میرے عیسائی دوستوں کے ساتھ مجلسوں میں، ایک شخص کا موقف قدرے مختلف تھا، کہ خدا ہمارے اندر موجود ہے، اور یہ کہ ہماری عبادت اسے بیدار کرتی ہے۔ یہ میرے لئے نئی بات تھی، اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ صوفی مسلک کا بھی یہی خیال ہے کہ خدا پر ایمان اور عبادت سے اسے بیدار کیا جا سکتا ہے، جو کہ بدھ مت طریقہ سے بہت متشابہ ہے۔

پروفیسر احمد کرمصطفےٰ: میں بھی بعینہ یہی کہنا چاہ رہا تھا، کہ یہ ان پردوں کو اتارنے کی سعی ہے جو ہم اپنے آپ سے پوشیدہ رکھتے ہیں، جسے آپ "عمیق نفس" کہتے ہیں، اور یہ عمیق نفس اس امر کا اکتشاف ہے ک "یہ سب ایک ہی ہے"؛ کہ ہم سب ایک دوسرے سے وابسطہ ہیں اور پھر اس وجہ سے محبت، درد مندی اور بےغرضی نمو پاتی ہے۔ لیکن اس کے لئے محنت درکار ہے؛ اور عبادت، گیت، موسیقی، جی ہاں، یہ چھلکے اتارنے والی بات ہے۔

تقدس مآب دلائی لاما کا مترجم: چھلکا اتارنے کی تشبیہ بہت متشابہ ہے؛ بدھ مت کی تصنیفات میں بھی ہمیں ایسی ہی تشبیہ ملتی ہے۔

پروفیسر احمد کرمصطفےٰ: اور صوفی مسلک میں بھی، درحقیقت ( ایک نسوانی آوز:"جیسے آپ پیاز کو چھیلتے ہیں") بعض اوقات لوگوں کو تعداد بتائی جاتی ہے تا کہ اس کی مشکل کا اندازہ ہو سکے، "ان پردوں کی تعداد ۷۰ ہزار ہے" جو ڈھانپے ہوۓ ہیں، ۷۰ ہزار پردے اس پر چڑھے ہوۓ ہیں اور آپ کو انہیں ایک ایک کر کے اتارنا ہے، ایک ایک کر کے، حتیٰ کہ آپ عمیق، مستور حقیقت کو پا لیں۔

تقدس مآب دلائی لاما کا مترجم: بدھ مت کی قدیم تصنیفات میں ۸۴،۰۰۰ آزار کا ذکر ہے۔

پروفیسر احمد کرمصطفےٰ: آپ کے ہاں زیادہ ہیں۔ (ہنسی کی آواز)

تقدس مآب دلائی لاما: تو تعداد میں بھی مماثلت ہے۔ سچ تو یہ ہے، اگرچہ متن میں ۸۴،۰۰۰ آزار کا ذکر ہے، جب آپ ذرا تفصیل میں جائں، تو ان باتوں کا ذکر بہت عمومی ہے، جیسے ۲۱،۰۰۰ اِس طبقہ میں، ۲۱،۰۰۰ اُس طبقہ میں (ہنسی کی آواز)۔

پروفیسر احمد کرمصطفےٰ: صوفی طریقت میں بھی یہ بالکل ایسے ہی ہے، جسے پھر وسیع تر درجات اور مقامات میں تقسیم کیا جاتا ہے اور ہر راہ میں کئی ایک رکاوٹیں حائل ہوتی ہیں اور آپ ان مشکلات کو دور کرتے ہیں، اس امید پر کہ آخر کار آپ کو روحانی دل تک رسائی حاصل ہو گی۔ اور جب آپ ایک بار ایسا کر لیں ، تو پھر نفس، محو بالذات نفس، معدوم ہو جاتا ہے، اس کا نام و نشان مٹ جاتا ہے: اور یہ ہے وہ قطرہ، اس مقام پر آ کر قطرہ سمندر میں مل کر اس سے یکجان ہو جاتا ہے، میرے خیال میں یہ ہے اس کا تصور، اور یہ ہے وہ۔۔۔۔

تقدس مآب دلائی لاما: ہم پھر مماثلات کی بات کر رہے ہیں تو، بدھ مت کی تحریروں میں ہم "قطروں" سے تشبیہ کی اتنی بات نہیں کرتے جتنی مختلف ندیوں کے ایک ہی سمندر میں مل جانے کی بات کرتے ہیں۔

پروفیسر احمد کرمصطفےٰ: جی ہاں، جی ہاں، یقیناً۔

ڈاکٹر فاطمہ کشاورز: جناب تقدس مآب، آپ اپنی کتابوں میں شعرو شاعری اور چھوٹی تحریروں کا حوالہ دیتے ہیں؛ میں سوچ رہی تھی کہ کیا آپ الہام اور مراقبہ کے لئے اشعار کا استعمال کرتے ہیں، کیا یہ آپ کے مذہب میں شامل ہے؟

تقدس مآب دلائی لاما: عموماً، وہ تمام تحریریں اور اشعار جو قدیم بھارتی علماء نے رقم کئے، ہمیں ان تحریروں کو بچپن سے ہی ازبر کرنا پڑتا ہے۔ آجکل جب میں مراقبہ کرتا ہوں تو میں ان میں سے چند اشعار کو پڑھتا ہوں اور پھر ان کے معانی پر غور کرتا ہوں۔ یہ نہائت مفید ہے۔ بدھ متی عابدوں میں بعض زیادہ الہامی اشعار کے ساتھ ورد کے لئے موسیقی کا استعمال بھی کرتے ہیں، مگر میرے نزدیک یہ خاص اہم نہیں۔

ایک عبادت گذار جو چند اور درویشوں کے ہمراہ درویشانہ زندگی گذار رہا تھا کے بارے میں مشہور ہے کہ ان میں سے ہر ایک الگ الگ رہتا، اور کوئی ایک درویش کوئی دعا یا شعر گاتا، اور آواز بتدریج ہلکی پڑ جاتی اور حتیٰ کہ رک جاتی۔ ایک درویش نے سوچا کہ شائد اسے (گانے والے کو) نیند آ گئی ، اس نے دھیرے سے جائزہ لیا تو درویش کو گہرے مراقبے میں پایا۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ درویش لحن سنجی اور گائکی کی باہمی دھن کاری کے ذریعہ من کی ایک خاص کیفیت پیدا کر رہا تھا۔ جب وہ وہاں جا پہنچتا تو آواز دھیمی پڑ جاتی، حتیٰ کہ مکمل طور پر ختم ہو جاتی جب وہ ایک یک طرفہ حالت میں ٹِک جاتا، جو ایک "آواز سے بالا تر" کیفیت ہے۔ جب کوئی سُر سنائی دیتا ہے، تو قوت سماع ابھی کارفرما ہوتی ہے، اور جب حقیقی مراقبہ طاری ہو جاۓ، تو حواس خمسہ ناکارہ ہو جاتے ہیں۔

پروفیسر احمد کرمصطفےٰ: تقدس مآب، صوفی عبادت میں بھی یہی معاملہ پیش آتا ہے، جسے ہم "ذکر" کہتے ہیں، جو کہ ورد ہوتا ہے، ایسے کلمات کا جنہیں ہم بار بار دوہراتے ہیں، یا تو گا کر یا پھر ویسے ہی بول کر۔ بہت سے صوفیوں کا خیال ہے کہ خواہ آپ اسے گائں یا اونچی آواز میں پڑھیں، اس سے حسی کیفیت پیدا ہوتی ہے، لیکن اسے در حقیقت باطنیت کے روپ میں ڈھالنے کی ضرورت ہوتی ہے، تا کہ جس قدر آپ اسے دوہرائں، تو یہ بالآخر آپ کے من اور قلب میں سما جاۓ، پھر اگر آپ رُک بھی جائں، اور آپ پر خاموشی طاری ہو، تو 'ذکر'، یاد داشت، لحن سنجی، سب آپ کے اندر رواں ہوں۔ اور یوں اس خیال کا اظہار کیا جاتا ہے، اور بعض اوقات یہ آپ کے خون میں رچ بس جاتا ہے، آپ کی روح میں شامل ہو جاتا ہے، اس کی حسی صورت ختم ہو جاتی ہے، یہ کوئی قابلِ سمع و بصارت شے نہیں رہتی، بلکہ وہ شخص بذات خود لحن بن جاتا ہے، یہ ہے اس کا تصور۔

تقدس مآب دلائی لاما: بھارتی تبتی مذاہب میں ورد کی کئی قسمیں ہیں، بعض اونچی آواز میں اور بعض نہائت دھیمی آواز میں، اور بعض میں محض من کے اندر ہی اندر ورد ہوتا ہے، بغیر کسی آواز کے۔

کارل ارنسٹ: میں یہ کہنا چاہوں گا کہ بعض صوفیوں کے ہاں جنہوں نے یوگا کا مطالعہ کیا ہے، اور وہ سنسکرت کے منتر جپنے اور 'ذکر' کے عربی ناموں کے ورد کے درمیان گہری مماثلت پاتے ہیں، تو ان الفاظ کے پڑھنے سے ہم کسی طرح اپنے اندر سے متصل ہو کر ہمارے اوپر آگہی کے نئے درجات وا ہو جاتے ہیں۔

ڈاکٹر الٰہی امیدیار میر جلالی: تقدس مآب، میں جانتی ہوں کہ وقت کم ہے، مگر جب آپ راہب اور مراقبہ اور ورد اور پھر اس پر خاموشی طاری ہونے کی بات کر رہے تھے، تو اس سے مجھے رومی کی ایک بات یاد آ گئی جو یہ ہے:"الفاظ کو گنا جا سکتا ہے، مگر خامشی لا انتہا ہے،" تو بالآخر آپ اس مقام پر پہنچ جاتے ہیں۔

تقدس مآب دلائی لاما: حال ہی میں میں ایک ہندو مت کے پیروکار سے ملا۔ وہ انگریزی زبان بولتا اور سمجھتا تھا مگر اس کے ایک چیلے نے مجھے بتایا کہ اس شخص نے گذشتہ ۲۲ برس سے چپ سادھ رکھی ہے۔ ۲۲ سال! مشکل ہے۔ ہماری بعض عبادات ایسی ہیں جس میں ہم ایک مخصوص مدت کے لئے مکمل خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔ میں بھی اس کی مشق کرتا ہوں، لیکن ایک ہفتہ کے لئے بھی خاموش رہنا بہت مشکل ہے۔ اس میں من پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، وگرنہ الفاظ تو ہمیشہ چلے آتے ہیں۔

ڈاکٹر الٰہی امیدیار میر جلالی: تقدس مآب، اب اس محفل کو انجام تک لانا میرا کام ہے۔ وہ مجھے یاد دلا رہے ہیں کہ وقت ہو گیا، اگرچہ ہم اس تقابلی مطالعہ کے بارے میں مزید سے مزید تر جاننے کے بھوکے ہیں، مگر ہم آپ کو تھکانا نہیں چاہتے۔ چونکہ آپ بھارت سے سولہ گھنٹے کا لمبا سفر کر کے آۓ ہیں، ہم آپ کو مزید تھکانا نہیں چاہتے اور اب اس محفل کو برخاست کرنے کا وقت ہو رہا ہے، اگر آپ کی اجازت ہو تو۔

تقدس مآب دلائی لاما: اس قسم کی گفتگو حقیقتاً نہائت عمدہ ہے۔ ہم سنجیدگی سے متشابہات پر بات کر سکتے ہیں اور ان مختلف انداز فکر کی اصلی وجوہات کو سمجھنے کی کوشش ایک مفید امر ہے۔ تو ہم دیکھیں گے، جیسا کہ میں نے پہلے بھی ذکر کیا، کہ سب کا مقصد ایک ہی ہے۔ ہمیں ایسی اور محفلیں منعقد کرنی چاہئیں، اولاً عالمانہ سطح پر، یہ بات زیر بحث لانے کے لئے کہ ان میں مماثلت کیا ہے اور کیا تفریق، اور یہ جاننے کے لئے کہ اس کا مقصد کیا ہے۔ پھر سنجیدہ عُمّال کے ساتھ، اگرچہ اس عالم کے یہاں آنے سے کوئی فائدہ نہ ہو گا جو ۲۲ برس تک خاموش رہا۔ ( ہنسی کی آواز)

تبتی اور چینی لوگ بڑے بڑے بُت بنانے کے شوقین ہیں، مہاتما بدھ کے بُت یا کوئی اور بڑی ہستیوں کے۔ گذشتہ برس ایک تبتی گروہ نے ایک بڑا مجسمہ تعمیر کیا اور مجھے اسکی تقدیس کے لئے مدعو کیا۔ میں اس تقریب میں شامل ہوا اور میں نے بدھ مت پر لیکچر دیا۔ میں چونکہ بدھ مت کا پیروکار ہوں اس لئے اس بڑے بُت کی عزت کرتا ہوں، مگر اس کے ساتھ یہ بات بھی ہے کہ وہ ٹھوس بُت وہاں ایک ہزار برس تک قائم رہے، مگر ان ہزار برس میں وہ بُت کبھی کچھ نہیں بولے گا (ہنسی اور تالیوں کی آواز)! لہٰذا ایسے انسان جو خاموشی اختیار کرتے ہیں ، ان کی شمولیت بیکار ہے، ماسوا اس کے کہ وہ کوئی معجزہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ بہر حال سچّے، سنجیدہ عُمّال جو سالہا سال سے عبادت کر رہے ہوں انہیں ایک جگہ جمع ہو کر ایک دوسرے کے ساتھ اپنے تجربات کا اظہار کرنا چاہئے۔ میرے نزدیک ایسا کرنا بہت ضروری ہے یہ دکھانے کے لئے کہ ان سب میں یکساں صلاحیت اور اس کے یکساں اثرات موجود ہیں۔

ڈاکٹر الٰہی امیدیار میر جلالی: تقدس مآب، وہ یہ کام تنہائی میں کرتے ہیں، وہ عوام کے سامنے اس کا مظاہرہ نہیں کرتے، ان ہی وجوہات کی بنا پر جس کا آپ نے ذکر کیا، کہ جو کچھ کہا جا رہا ہے اس کے ادراک اور تصریح کے کئی ایک درجات ہیں، کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ بیشتر لوگ انہیں غلط سمجھیں، تو وہ سنجیدہ عبادت گذار خاموش رہتے ہیں اور محض آپس میں فکر اور خیالات کا تبادلہ کرتے ہیں ۔ رومی اور شمس تبریزی اس کی عمدہ مثال ہیں، معہ کئی اور کے – بہت سارے سچّے عابد عوام کے سامنے اپنی بات کا اظہار نہیں کرتے۔ وہ عوام کو نقیض لغت میں تعلیم دیتے ہیں، جیسا کہ آپ نے مہاتما بدھ کے متعلق بتایا، کہ اس کی بعض تعلیمات متناقض ہوتی تھیں ۔ صوفی اساتذہ بھی ایسے ہی کرتے ہیں کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ کسی بڑے مجمع میں لوگ وہی کچھ سمجھیں گے جو وہ سمجھنے کی اہلیت رکھتے ہیں، جو وہ چاہتے ہیں اور/یا درس سے پانے کے اہل ہیں۔ لہٰذا پیچیدہ اور دقیق نظریات پر مخمصے سے بچنے کی خاطر، وہ آپس میں ہی بات کرتے ہیں، کیونکہ وہ ایسے مقام پر پہنچ چکے ہیں جہاں غلط فہمی کا امکان کم ہوتا ہے۔

تقدس مآب دلائی لاما: پھر بھی، اس کے متعلق لوگوں کے سامنے بات کرنے کی ضرورت نہیں، صرف دس یا بیس عُمّال کافی ہیں جو اپنے گہرے، حقیقی تجربات کا بیان کر سکیں۔ اس سے مختلف مذاہب کے طریقوں کی قدروقیمت جاننے میں بیحد مدد ملے گی، جو کہ نہائت ہی اہم ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دینے کی کوشش کریں تا کہ سچی مطابقت پیدا ہو۔ ہمیں باہمی تکریم اور فہم استوار کرنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے – عالمانہ الفاظ سے نہیں اور نہ ہی خوبصورت مقالے پڑھنے سے، بلکہ حقیقی روحانی تجربہ سے۔

حال ہی میں مجھے چند ہندومت کے پیروکاروں سے گفتگو کا موقع ملا۔ دوماہ قبل کنبھ کا میلہ لگا، ایک بہت بڑا میلہ جس میں ہر ۱۲ سال کے بعد سات کروڑ زائر آتے ہیں، اور میں بھی گذشتہ تین بار گیا ہوں۔ پچھلی بار بھی میں جانا چاہتا تھا مگر موسم کی خرابی کے باعث میرا مختص ہوائی جہاز دھرمشالہ سے پرواز نہ کر سکا۔ یعنی خدا کی مرضی شامل نہ تھی (ہنسی کی آواز)! میں نے وہاں پیغام بھجوایا کہ میں ان یاتریوں سے ملنا چاہتا ہوں جو میلے میں الف ننگے آتے ہیں۔ مجھے پتہ چلا ہے کہ کچھ لوگ برفانی پہاڑوں میں برسوں بغیر کسی لباس کے رہتے ہیں، تو یقیناً انہیں کوئی گیان حاصل ہو گا۔ ہمارے ہاں حرارت پیدا کرنے کی ایک خاص عبادت ہے، اس کے بغیر آپ برف میں زندہ نہیں رہ سکتے۔ میں ان لوگوں سے ملنے کا بیحد متمنی تھا مگر موسم نے ساتھ نہ دیا!

میں آپ کی اس محفل کے انعقاد کا بیحد ممنون ہوں، اور میں اس قسم کی مزید ملاقاتوں کا متمنی ہوں، اشتہار بازی کے لئے نہیں بلکہ مختلف مذاہب کی اصل تعلیمات اور ان کے اثرات کا گہرا مطالعہ کرنے کی خاطر۔

ڈاکٹر الٰہی امیدیار میر جلالی: آج کی یہ تقریب تاریخی حیثیت رکھتی ہے، امید ہے کہ یہ تقدس مآب کی راہنمائی میں منعقد ہونے والی کئی ملاقاتوں میں سے اولین ہے۔ امید ہے کہ یہ تمام مذاہب کے مابین پرخلوص تبادلہ خیال کے سلسلہ کی محض شروعات ہے۔ ہم تقدس مآب کی دلآویز شمولیت کی قدر کرتے ہیں اور جامعہ میری لینڈ اور تمام شرکاء کے ممنون ہیں ؛ میں سب حاظرین کی یہاں آنے، تقدس مآب کی راہنمائی سے مستفید ہونے اور اس معنی خیز تبادلہ خیال سے محظوظ ہونے پر مشکور ہوں۔

روشن انسٹِٹیوٹ نے جناب تقس مآب کے لئے بدھ مت اور صوفی مسلک کی اس پہلی ملاقات کی یاد میں ایک تحفہ تیار کیا ہے۔ یہ فارسی میں ہاتھ سے لکھی ہوئی (خوشخط) نظم ہے، جو یہ ہے، کیا میں اسے پڑھ کر سنا سکتی ہوں؟ (فارسی میں پڑھتی ہے)۔

اس کا ترجمہ ہے:

الفاظ، حوالہ جات اور دلائل کے علاوہ دل بات کرنے کے لاکھ طریقے جانتا ہے۔ 

یہ سب دل کی بات ہے۔

Top