توضیح
بودھی مراقبہ کا مقصد مسائل پر قابو پانا ہے۔ اسی لئیے مہاتما بدھ نے ہمیں چار بلند و بالا سچائیوں کا سبق دیا تا کہ ہم ان مسائل سے بہتر طور پر نمٹ سکیں۔ ہم سب کو زندگی میں مسائل پیش آتے ہیں۔ بعض دوسروں کی نسبت زیادہ شدید ہوتے ہیں۔ لیکن ان میں سے ایک جس سے ہم سب کا واسطہ پڑتا ہے وہ دوسرے لوگوں کے ساتھ تعلق کے بارے میں ہے۔
ان میں سے بعض تعلقات کافی دشوار اور صبر آزما ہو سکتے ہیں۔ لیکن مہاتما بدھ نے ہمیں ان سے نبرد آزما ہونے کا ایک اچھا طریقہ بتایا۔ مسائل کی وجوہات کو جاننے کے لئیے ہمیں اپنے اندر جھانک کر دیکھنا چاہئیے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دوسرے لوگ اس کے خواہ کتنے ہی ذمہ دار کیوں نہ ہوں، جو چیز ہمارے اختیار میں ہے وہ ان کے متعلق ہمارا رد عمل ہے۔ اس کا مطلب ہے ہم کس طرح کا رویہ اختیار کرتے ہیں اور کیسا برتاؤ کرتے ہیں۔
چونکہ ہمارے برتاؤ کی بنیاد ہمارے ذہنی رویہ پر ہے، اس لئیے اپنے ذہنی رویہ کو بہتر بنانے پر توجہ دینی چاہئیے۔ اگر ہم پریشان کن رویہ کی جگہ صحت بخش رویہ لے آئں جو حقیقت اور درد مندی پر مبنی ہو تو اس سے ہمارا دکھ درد جو ہم مشکل تعلقات سے پاتے ہیں وہ چاہے مکمل طور پر ختم ہو یا نہ ہو، لیکن کم ضرور ہو سکتا ہے۔
مراقبہ
- سانس پر ارتکاز کے ذریعہ پُر سکون ہو جائں۔
- اولین بلند و بالا سچائی کی ایک مثال یعنی حقیقی آلام کے طور پر کسی ایسے انسان کا تصور کریں جس سے آپ کے تعلقات کشیدہ ہیں۔
- ناراضگی کا احساس جنم لینے دیں۔
- اس بات کا معائنہ کریں کہ آپ کیوں اسے دوسری بلند و بالا سچائی یعنی آلام کی اصل وجوہات کی مثال تصور کرتے ہیں۔ شائد اس کی وجہ یہ ہو کہ ان کی صحبت ایک مشکل مرحلہ ہے اور وہ ہمیں پریشان کرتے ہیں، یا ہمیں ان کی کوئی بات پسند نہیں، یا جب ہم ان سے ملنا چاہیں تو وہ فارغ نہیں ہوتے یا ان کا مزاج ہر دم خوشگوار نہیں ہوتا۔
- جب ہم اور گہرائی میں جائں تو ہم دیکھتے ہیں کہ ہم انہیں محض ایک ہی پہلو سے نسبت دیتے ہیں اور انہیں ایسا انسان ماننے سے انکار کرتے ہیں جس کی زندگی میں اور بھی لوگ ہیں اور ہمارے سوا مزید وہ سب باتیں جو ان کی زندگی پر اثر کرتی ہیں، اور یہ کہ ان کے بھی ہماری طرح جذبات ہیں اور وہ بھی تعریف کے خواہاں ہیں، بالکل ہماری طرح۔
- ہر کوئی ان کے بارے میں ایسا محسوس نہیں کرتا، پس ان کی صحبت میں ناراضگی اور بے آرامی کا احساس جو کہ تیسری بلند و بالا سچائی یعنی آلام کا خاتمہ کی ایک مثال ہے کو ختم کر دینا ممکن ہے۔
- اس بے چینی کو ختم کرنے کے لئیے، ہمیں اس بات کا احساس ہونا ضروری ہے کہ، چوتھی بلند و بالا سچائی کی ایک مثال، یعنی من کا سچا رحجان جس سے درست فہم پیدا ہوتی ہے کے مطابق، کہ اگر وہ کوئی پریشان کن شخص ہوتا تو سبھی لوگ اسے اس کی پیدائش کے لمحہ سے ہی ایسا مانتے۔ لیکن یہ نا ممکن ہے۔
- ہم ان کے بارے میں یہ تصور کہ وہ ایک پریشان کن شخص ہے مٹا دیتے ہیں۔
- تب ہم انہیں بغیر ناراضگی کے دیکھتے ہیں۔ اب وہ صرف ہمیں ہی پریشان کن لگتے ہیں، لیکن یہ محض خام خیالی ہے۔
- پھر ہم ان کے لئیے مثبت رویہ تشکیل دیتے ہیں – وہ ایک انسان ہے جو پسند کیا جانا اور مسرت کا تمنائی ہے، اور نہیں چاہتا کہ لوگ اسے پسند نہ کریں۔ بالکل ایسے ہی جیسے میں یہ نہیں چاہتا کہ یہ شخص میرے ساتھ نا روائی کا رویہ رکھے، جیسے کہ کوئی مچھر – اس سے میرے جذبات مجروح ہوں گے - اسی طرح وہ بھی یہ پسند نہیں کرتے اور اس سے ان کے جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے۔
- اس شخص سے حسن سلوک کا مظاہرہ کریں۔
خلاصہ
مشکل لوگوں سے معاملہ کرنے کے سلسلہ میں، ملاقات کے وقت ہمیں پر سکون ہونا چاہئیے، یا ان سے ملنے سے قبل اگر موقع ملے تو۔ پھر جب ہم ان کے ہمراہ ہوں تو ہمیں انہیں بالکل ویسا ہی انسان تصور کرنا چاہئیے جو جذبات کا مالک ہو جیسے کہ ہم خود ہیں اور دل جوئی کا رویہ رکھنا چاہئیے۔ اس قسم کا رویہ اختیار کرنے میں ایک بڑی رکاوٹ ان کو زندگی کی وسیع تر حقیقت کے آئینہ میں نہ دیکھنا ہے۔ اگر ہم اپنے خام نظریات کو رد کر دیں اور انہیں حقیقت کے آئینہ میں دیکھیں، تو ایک کشادہ دل اور دل جو رویہ کے ساتھ، ہم ان سے زیادہ کامیابی سے معاملہ کر پائں گے۔