دور حاضر میں دلائی لاما کی اہمیت

آئیے ہم جدید دنیا میں دلائی لاما کی اہمیت کا جائزہ لیتے ہیں۔ اگر وہ اس میں کچھ کردار ادا کرتے ہیں تو اس کو بامعنی اور جس حد تک ممکن ہو زیادہ سے زیادہ لوگوں کے لئیے فائدہ مند ہونا چاہئیے، نہ کہ محض تفریح مہیا کرنے یا تجسس کی تشفّی کی خاطر کیونکہ وہ ایک عظیم شخصیت ہیں۔ دلائی لاما کے وجود کا یہ مقصد نہیں۔ ان کا مقصدِ حیات دوسروں کے کام آنا ہے۔

خدمتِ خلق

اگرچہ دنیا میں ایسے اور لوگ بھی ہیں جو اس بات کا دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ محض دوسروں کی بھلائی کے لئیے زندہ ہیں، میرے خیال میں یہ تقدس مآب کی بڑی بات ہے – ہم اکثر انہیں یہ کہتے ہیں – کہ وہ پوری طرح، دل سے پر خلوص ہیں۔ یہ بات دوسرے لوگ بھی محسوس کرتے ہیں جب وہ ان کی محفل میں ہوں، ان کی بات سنیں، اور جب انہیں ان کے کام کا پتہ چلتا ہے کہ وہ کیا کرتے ہیں۔ وہ ہمیشہ تین اہم چیزوں کا ذکر کرتے ہیں جنہیں وہ اپنی زندگی میں افزوں پذیر دیکھنا چاہتے ہیں۔ پہلی چیز ایسا نظام اخلاق ہے جو مذہب پر مبنی نہیں ہے، دوسری چیز مذہبی ارتباط ہے، اور تیسری چیز تبت اور تبت کے لوگوں کی فلاح و بہبود کا خیال کرنا ہے کیونکہ یہ فریضہ ان کے ذمہ لگایا گیا ہے۔ 

اخلاقیات

تقدس مآب اکثر غیر مذہبی اخلاقیات اور مذہبی ایکتا کی بات کرتے ہیں کیونکہ آج کی دنیا کو اخلاقیات کی شدید ضرورت ہے۔ دنیا میں بے حد بد عنوانی، بے ایمانی، اور لوگوں کے مابین ہم آہنگی کا فقدان ہے، اور ان سب کا سبب اخلاقیات کی کمی ہے۔

دلائی لاما کی سوچ وسیع تر اور عالمگیر ہے، اور وہ ہمیشہ اس نظر سے سوچتے اور بات کرتے ہیں کہ ہماری اس دھرتی پر بسنے والے سات ارب سے متجاوز انسانوں کے لئیے کیا چیز فائدہ مند ہو گی۔  ان لوگوں میں سے بعض کسی قسم کے مذہب پر ایمان رکھتے ہیں اور بعض نہیں رکھتے۔ تو ضرورت اس بات کی ہے کہ کسی قسم کا اخلاقیات کا نظام ہو – اخلاقیات کی بنیاد پر – جو سب کو قابل قبول ہو۔ اسے تقدس مآب "غیر مذہبی اخلاقیات" کہتے ہیں جس سے مراد ہے کہ یہ کسی مذہب یا نظام کے متناقض نہیں ہے، بلکہ یہ تمام ادیان اور نظام اور غیر مذہبی لوگوں کی احتیاج کا احترام کرتا ہے۔ ان کے نزدیک اس کی بنیاد "بنیادی انسانی اقدار" ہیں، اور اس لئیے بعض اوقات اسے غیر مذہبی اخلاقیات کہنے کی بجاۓ وہ کہتے ہیں کہ اس کی بنیاد بنیادی انسانی اقدار ہیں جو حیاتیات پر مبنی ہیں۔ ماں کا نوزائیندہ بچے کے لئیے پیار فطری اور ازلی شے ہے، نہ صرف انسانوں میں بلکہ جانوروں میں بھی: دوسروں کا خیال رکھنا۔ اس کا مظہر ہمیں دلائی لاما کی زندگی میں نظر آتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ان کا پیغام اتنا پر اثر ہے۔ 

گوشوارہ

تقدس مآب جس کثرت سے تمام دنیا میں گھومتے پھرتے ہیں وہ ناقابل یقین ہے، خصوصاً اب جبکہ ۲۰۱۳ میں ان کی عمر ۷۸ برس ہے۔ وہ دنیا میں دور دراز کے اسفار پر نکل جاتے ہیں، اور بیشتر اوقات مختلف جگہوں پر ایک روز کا قیام کرتے ہیں۔ ان کے سفر کا گوشوارہ  بہت مصروف ہوتا ہے۔ میں نے ان کے ساتھ بطور مدد گار، ترجمان وغیرہ سفر کیا ہے، اس لئیے مجھے ان کی مصروفیت کا اندازہ ہے۔ ہر روز کئی لیکچر ہوتے ہیں، پھر اخباری نمائیندوں سے خطاب اور نجی ملاقاتیں ہوتی ہیں۔ انہیں کھانا کھانے کا وقت بھی بہ مشکل ملتا ہے۔ وہ قطع نظر ٹائم زون کے باعث وقت کی تبدیلی کے روزانہ صبح ساڑھے تین بجے اٹھ جاتے ہیں، اور چار گھنٹے گہرا مراقبہ کرتے ہیں۔ ان میں بہت شکتی ہے اور وہ ہر دم خوش و خرم، اور جس کسی سے ملتے ہیں اس کی بھلائی کے خواہاں، نظر آتے ہیں۔ اس امر کا مشاہدہ حیرت انگیز ہے کہ خواہ وہ کسی سے بھی ملیں وہ اس سے مل کر بے حد خوش ہوتے ہیں: "یہ رہا ایک اور انسان، کیا خوب بات ہے!

پیار محبت

بدھ مت میں پیار سے مراد ہم اس دل گرما دینے والے پیار کی بات کرتے ہیں کہ جب ہم کسی سے ملتے ہیں تو ہمارا دل گرم ہوتا ہے اور ہم انہیں مل کر بے حد خوش ہوتے ہیں اور ان کی بھلائی کی فکر کرتے ہیں۔ آپ اس چیز کا مشاہدہ دلائی لاما کے رویہ سے کر سکتے ہیں جو ان کے کسی سے ملنے، لوگوں کے ہجوم میں سے گزرنے  وغیرہ پر ظاہر ہوتا ہے کہ وہ جس نظر سے لوگوں کو دیکھتے ہیں اور جس طرح ہر ملاقاتی کو پوری توجہ دیتے ہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ واقعی دوسروں کی سب کے لئیے برابر کی بھلائی کے خواہاں ہیں۔ تو ان کا انسانی اقدار، غیر مذہبی اخلاقیات کو فروغ دینے کا یہ سلسلہ وہ امر ہے جس میں وہ ہر انسان کی بھلائی دیکھتے ہیں۔ وہ کسی تنگ نظر جیسے "محض بودھی" طور سے نہیں سوچتے۔ وہ کسی ایسے طریقہ کی پرداخت کے بارے میں سوچتے ہیں جس سے تمام دنیا کے تعلیمی اداروں میں غیر مذہبی سطح پر ایسی تعلیمات کو متعارف کرایا جاۓ جس سے بچے نہ صرف ایمانداری اور نرم دلی کے فوائد سے روشناس ہوں بلکہ ان تمام بنیادی انسانی اقدار سے بھی جو کہ دنیا کے لئیے بے حد مفید ہیں۔ 

مذہبی ارتباط

دنیا میں مختلف مذہبی گروہوں کے درمیان جھگڑوں سے بے حد مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔ ان کے مابین عدم اعتماد اور خوف پایا جاتا ہے، اور اس سے مسائل جنم لیتے ہیں۔ تقدس مآب کا کہنا ہے کہ مذہبی ایکتا کے سلسلہ میں ہمیں تعلیم کی ضرورت ہے، محض غیر مذہبی اخلاقیات میں ہی نہیں بلکہ ایک دوسرے کے متعلق بھی جانکاری لازم ہے۔ جس شے سے ہم ڈرتے ہیں وہ ہے لا علمی، اور ان گروہ اور مذاہب کے متعلق ہم کسی قسم کا افسانوی تصور قائم کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بہت سارے بین الفرقہ جاتی اجلاس جن میں وہ شریک ہوتے ہیں، وہاں لوگ اکٹھے ہوتے ہیں، مسکراتے ہیں، ایک دوسرے سے اچھی طرح پیش آتے ہیں، پھر کچھ عبادت، دعا یا خاموش مراقبہ کیا جاتا ہے، مگر اس سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ محض ایسا کہنے سے "ہم سب ایک ہی بات کر رہے ہیں،ہم سب ایک ہیں،" اور ہر وقت متماثل چیزوں کا حوالہ دینے سے ایک دوسرے کے متعلق سیکھنے میں کوئی مدد نہیں ملتی۔ 

اس سال جون کے مہینہ میں تقدس مآب کی چند صوفی علماء سے ملاقات ہوئی، اور تقدس مآب نے ان سے کہا کہ وہ تفریق نہ کہ تمثیل کے بارے میں جاننا چاہتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنے تفرقات کے متعلق شرمندہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں، بلکہ ہم ان سے کچھ ایسی باتیں سیکھ سکتے ہیں جو ہمیں اپنے آپ کو بہتر بنانے میں معاون ہو سکتی ہیں۔ تقدس مآب کا کہنا ہے کہ تمام مذاہب کا ایک ہی ہدف ہے اور وہ یہ کہ جو اس مذہب کی تعلیمات کی پیروی کریں ان کی زندگی کو خوشگوار بنایا جاۓ۔ اس مقصد کے حصول کے لئیے کئی ایک الگ الگ طریقے ہیں، اور وہ اس لئیے ضروری ہے کیوں کہ انسانوں میں بھی بہت تنوّع پایا جاتا ہے۔ 

وہ کہتے ہیں کہ "اگر ہم سب اپنے پیروکاروں کو پیار، نرم دلی وغیرہ استوار کرنے کی تعلیم دے رہے ہیں، تو آپ کیا طریقہ اختیار کرتے ہیں؟ ہم کونسا طریقہ اپناتے ہیں؟ یہ ایک ایسی بات ہے جو ہم آپ سے سیکھ سکتے ہیں، یعنی تفرقات کا جائزہ لینا اور انہیں کوئی نئی بات سیکھنے کا وسیلہ جان کر ان کی قدر کرنا۔ ہر مذہب کے سنجیدہ ترین پیروکاروں کے اجلاس منعقد کرنا تا کہ وہ اپنے تجربات ایک دوسرے کے ساتھ بانٹ سکیں، بہت بڑے عوامی جلسے میں نہیں، بلکہ آپس میں تا کہ ہم بہت سنجیدہ سطح پر بات چیت کر سکیں، تو یہ بہت فائدہ مند ہو گا۔ یہ نہائت مفید امر ہو گا۔"

سائینس

اگرچہ تقدس مآب کا بنیادی مقصد سب کی بھلائی ہے، خاص طور پر تبتی عوام اور بدھ مت کے تبتی مسلک کی، مگر یہ ان کے جملہ فکر نہیں ہیں۔ جواں عمری سے ہی تقدس مآب نے سائینس، میکانیات اور یہ کہ چیزیں کیسے کام کرتی ہیں میں گہری دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔ وہ ۸۰ کی دہائی کے اوائل سے ہی سائینسدانوں سے ملاقاتیں کر رہے ہیں اور وہ واقعتاّ ان سے کچھ  سیکھنا چاہتے ہیں۔ 

ان کا کہنا ہے کہ اگر سائینسدان بر لبِ دلیل و جواز کوئی ایسی چیز پیش کریں جو بودھی تعلیمات کے متناقض ہو، مثلاّ کائینات کی حقیقت، کہ کائینات کیسے شروع ہوئی، وغیرہ تو اسے بودھی تعلیم سے نکال دینا عین مناسب ہو گا۔ دماغ کی کار کردگی کے متعلق مغرب کی سائینسی دریافتیں، مختلف کیمیائی مادے وغیرہ، یہ سب بدھ مت کی تعلیم میں قابل قدر اضافہ ہو گا۔ 

اسی طرح بدھ مت کے ہاں بھی ایسا بہت سا علم ہے جو بودھی سائینس، بودھی گیان اور بودھی فلسفہ سے ماخوذ ہے جسے سائینسدانوں کے ساتھ بانٹا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر بدھ مت جذبات کی مفصل تصویر کشی کرتا ہے -  جذبات کی کل داخلی دنیا کی عمل کاری کیا ہے، ان جذبات سے کیسے نبرد آزما ہوا جاۓ، وغیرہ۔ بودھی تجزیہ ایک باقاعدہ منظم جائزہ پیش کرتا ہے۔ یہ بھی مغربی سائینسدانوں کے لئیے نہائت مفید ہو سکتا ہے۔ تقدس مآب نے دھرم شالہ میں بھکشو مردوں اور عورتوں کے لئیے سائینس کی تعلیم کو بھی نصاب میں شامل کر دیا ہے۔ سائینس کی کئی کتابوں کا انگریزی سے تبتی زبان میں ترجمہ کیا گیا ہے۔ ایسے طور اطوار کی بدولت وہ دنیا کے کسی بھی بڑے مذہب کے پیشوا کے لئیے انتہائی وسعت نظر کے حامل ہیں۔

دوسرے مذاہب سے تعلقات بڑھانا

تقدس مآب اسلامی دنیا سے تعلقات استوار کرنا چاہتے ہیں، تو اس سلسلہ میں وہ میرے بودھی ذخیرہ کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ بودھی تعلیمات، بنیادی انسانی اقدار اور اخلاقیات کے پیغام کا عربی اور دیگر اہم اسلامی زبانوں میں ترجمہ کیا جاۓ۔ یہ کام جاری ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں اسلام کی بہت طعن و تشنیع ہوئی ہے جو کہ بہت افسوسناک بات ہے۔ انہیں دنیا میں شامل کرنا لازم ہے بجاۓ اس کے کہ انہیں کوئی خطرہ جان کر خارج کر دیا جاۓ۔ ہمیں چاہئیے کہ ہم انہیں بودھی تعلیمات کی واضح تصویر پیش کریں، اس لئیے نہیں کہ انہیں مذہب تبدیل کرنے پر آمادہ کیا جاۓ یا ایسی ہی کوئی اور بات، مگر اس لئیے کہ بنیادی معلومات کو آپس میں بانٹا جا سکے، جیسا کہ وہ بھی یوں ہی کر سکتے ہیں۔ تو اصل بات یہ ہے کہ باہمی ارتباط اور دوستی بڑھانے کے لئیے تعلیم لازم ہے۔

 

بدھ مت کے اندر بھی ایک تو مہایان مسلک ہے جو تبت، چین اور جاپان وغیرہ میں مقبول ہے اور دوسرا ترواد مسلک ہے جو جنوب مشرقی ایشیا میں مروّج ہے۔ بد قسمتی سے بلکہ بعض کے لئیے یہ امر حیرت انگیز ہے کہ دونوں مسلک ایک دوسرے کے متعلق بہت کم معلومات رکھتے ہیں۔ انہوں نے ایک امریکی بھکشو خاتون کو اس کام پر مامور کیا ہے کہ وہ دونوں کا مفصل تقابلی جائزہ تیار کریں۔ دونوں مسالک کے بارے میں، مہایان کیا ہے، اور ترواد کیا ہے؟ اس قیمتی گیان کو لوگوں تک پہنچانے کے لئیے اس کا جنوب مشرقی ایشیا کی زبانوں میں ترجمہ کیا جاۓ گا۔ 

خواتین کو بھکشو بنانا

ویسے تو تبت میں مکمل منصب رسیدہ بھکشو موجود ہیں، مگر عورتوں کی بھکشو بننے کی رسم بھارت سے ہمالیہ کو پار کر کے آگے نہیں بڑھی۔ اس کی کئی وجوہات ہیں، سب سے بڑی جغرافیائی ہے؛ پرانے وقتوں میں بھارتی بھکشو خواتین کے گروہ کا تبت تک پیدل سفر نہائت مشکل کام تھا۔ تو اس طرح یہ لڑی ٹوٹ گئی کیونکہ اسے آگے بڑھانے کے لئیے دس مکمل طور پر منصب رسیدہ بھکشو عورتوں کی ضرورت ہوتی تھی۔
 

تو اس سلسلہ میں بھی دلائی لاما نے مختلف کاوشوں اور پراجیکٹ کی سر پرستی کی ہے یہ دیکھنے کے لئیے کہ اس کام کو کیسے دوبارہ شروع کیا جا سکتا ہے تا کہ وہ خواتین جو تبتی مسلک کے مطابق بھکشو بننا چاہتی ہیں وہ ایسا کر سکیں۔

"میں ایک سیدھا سادہ برہمچاری ہوں"

تقدس مآب کی سب سے بڑی منظور خاطر خوبی یہ ہے کہ وہ بغیر کسی تصنّع اور تکبّر کے کس قدر پر خلوص اور سادہ ہیں۔ وہ ہمیشہ یہ کہتے ہیں کہ وہ ایک سیدھے سادے بھکشو ہیں، دوسروں کی مانند ایک عام انسان۔ وہ کہتے ہیں، "میں جب کسی سے ملتا ہوں تو میں انہیں ایک انسان تصور کرتا ہوں۔ ہماری گفتگو دو انسانوں کے مابین ہوتی ہے نہ کہ دلائی لاما اور ایک عام انسان کے درمیان۔ نہ ہی ایک تبتی کی کسی غیر ملکی کے ساتھ ۔ ان اضافی تفرقات کی بنیاد پر بھی نہیں، بلکہ اس بنیادی سطح پر کہ: ہم سب انسان ہیں۔"

 

وہ جلد ہی کسی ایسے افسانوی تصور کو مٹانا چاہتے ہیں جو لوگوں کے ذہنوں میں ہو کہ وہ کوئی دیوتا، بادشاہ یا کوئی خاص قدرت رکھنے والا انسان ہیں۔ جب وہ کسی بہت بڑے ہجوم کے سامنے آتے ہیں تو وہ بڑے مطمٔن اور پر سکون ہوتے ہیں۔ جب انہیں کھجلی محسوس ہو تو وہ کسی عام انسان کی مانند کھجا لیتے ہیں۔ وہ قطعی طور پر محو بالذات نہیں ہیں اور نہ ہی کسی قسم کا دکھاوا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر وہ کسی ملک کے صدر سے ملاقات کرنے جا رہے ہیں اور انہوں نے ربڑ کا جوتا پہن رکھا ہے تو ان کے لئیے وہی کافی ہے۔ وہ کسی کو نہ ہی متاثر کرنا چاہتے ہیں اور نہ ہی ایسا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ 

طنز و مزاح

یہ امر خاصا حیران کن ہے کہ جس آسانی سے تقدس مآب مزاح کے رنگ میں بعض باتیں کہہ دیتے ہیں، جو کہ دوسرے لوگ نہ کر پائیں۔ ایک بار وہ کہیں لیکچر دے رہے تھے اور ان کی نشست جو کہ بازو والی کرسی تھی نہائت بے آرام تھی۔ لیکچر کے اختتام پر انہوں نے منتظمین اور حاضرین مجلس سے کہا کہ تمام انتظامات خوب تھے سواۓ اس کے کہ اگلی بار ذرا بہتر کرسی کا انتظام کریں کیونکہ یہ نہائت تکلیف دہ تھی! انہوں نے یہ بات ایسے ہلکے پھلکے انداز میں کہی کہ کسی نے ان کی بات کا برا نہیں منایا، بلکہ سب ہنسنے لگے۔ اسی طرح وہ لوگوں کو ڈانٹ بھی دیتے ہیں۔

ویکلیو حیول سے ایک ملاقات

ایک بار جب جمہوریہ چیک، جو ابھی تک چیکو سلوواکیہ تھا، کے پہلے صدر ویکلیو حیول نے تقدس مآب کو مدعو کیا تو میں ان کے ہمراہ تھا۔ سب سے پہلے جس شخص کو دعوت دی گئی وہ راک سٹار فرینک زیپا تھا، اور دوسرے تقدس مآب تھے۔ حیول کی یہ خواہش تھی کہ تقدس مآب اسے اور اس کی کابینہ کو مراقبہ کرنا سکھائیں، کیونکہ بقول اس کے، "ہم نا تجربہ کار ہیں، ہمیں حکومت چلانے کے متعلق کوئی علم نہیں۔ ہم سب پریشان اور سونے سے قاصر ہیں۔ کیا آپ ہمیں بتا سکتے ہیں کہ شانت ہونے کا گر کیا ہے؟ وگرنہ ہم کبھی بھی ایک نئے ملک کی حکومت چلا نہیں پائیں گے۔"

 

ویکلیو حیول نہائت سادہ انسان تھا، اس نے تقدس مآب اور تمام وزراء کو موسم گرما کے محل، جو کہ پراگ سے باہر ایک بہت بڑا قلعہ ہے، میں آنے کی دعوت دی۔ وہ خود بھی پہلے کبھی وہاں نہیں گیا تھا؛ یہ قلعہ بہت بڑا تھا اور سب لوگ اس کے ایوانوں میں گھومتے پھرتے گم ہو گئے۔ اس نے دلائی لاما سے یوں ہی ذکر کیا، "یہ اشتراکی لیڈروں کا قحبہ خانہ تھا۔" آپ دلائی لاما سے عام طور پر ایسے بات نہیں کرتے، مگر وہ مزاج کا بہت سادہ انسان تھا۔ پھر سب لوگ، بشمول دلائی لاما، ایک بڑے کمرے کے فرش پر بیٹھ گئے۔ حیول اور اس کے تمام وزیروں نے سویٹ سوٹ پہن رکھے تھے، اور تقدس مآب نے انہیں شانت ہونے کا سانس اور شکتی کا مراقبہ سکھایا۔

 

عام طور پر تقدس مآب رات کا کھانا نہیں کھاتے کیونکہ وہ اپنے بھکشو وچن کا سختی سے پاس کرتے ہیں۔ مگر ان کے رویہ میں لوچ بھی ہے، صدر حیول نے محل میں شام کے کھانے کا انتظام کر رکھا تھا۔ بات چیت انگریزی میں ہو رہی تھی، اور یہ امر قابل توجہ ہے کہ جس طرح دلائی لاما نے حیول کی، جو کہ لگاتار سگریٹ پئیے جاتا تھا، تمباکو نوشی پر سرزنش کی۔ وہ تقدس مآب کی بغل میں بیٹھا سگریٹ پئیے جا رہا تھا جو کہ کسی حد تک منع ہے۔ اگرچہ وہ ایک  ملک کا صدر تھا مگر تقدس مآب نے اسے بلا تکلف یوں کہا، "آپ بہت زیادہ تمباکو نوشی کرتے ہیں۔ یہ آپ کو بیمار کر دے گی اور آپ کو سرطان ہو سکتا ہے، تو اس لئیے آپ اسے کم کر دیں!" یہ در اصل تقدس مآب کی طرف سے بڑی نیک دلی تھی۔ حیول کو سچ مچ بعد میں پھیپھڑوں کا سرطان ہوا۔ یہ اس بات کی ایک مثال ہے کہ تقدس مآب کس طرح دوسروں کی بھلائی کا سوچتے ہیں، قطع نظر اس کے کہ لوگ ان کے بارے میں کیا کہیں گے۔ 

ذہانت اور یاد داشت

جن لوگوں سے میں ملا ہوں ان میں سے تقدس مآب سب سے زیادہ ذہین انسان ہیں۔ ان کی یاد داشت عکاس درجہ کی ہے۔ جب وہ درس دیتے ہیں، تو انہیں دوسرے مسالک کے کسی بھی شخص کی نسبت بودھی تعلیمات کے ایک بہت بڑے ذخیرہ پر عبور حاصل ہے۔ وہ کسی بھی متن سے کوئی حوالہ دے سکتے ہیں۔ تبتی لوگ اپنی تربیت کے دوران تمام مختلف صحیفے جو کہ ایک ہزار صفحوں کے لگ بھگ ہیں زبانی یاد کرتے ہیں، مگر دلائی لاما، یہ امر حیران کن ہے کہ جس قدر شروح انہوں نے یاد کر رکھی ہیں۔ جب وہ درس دے رہے ہوتے ہیں، وہ کسی ایک صحیفہ سے ایک متن پیش کریں گے، اور پھر دوسرا کسی اور صحیفے سے؛ یہ بڑا مشکل کام ہے۔ تو یوں ان کی یاد داشت کام کرتی ہے، اور یہ بڑی ذہانت کی علامت ہے؛ کہ آپ چیزوں کے باہمی ربط و رشتہ کو پہچان سکیں، تا کہ آپ قالب کو جان سکیں۔ آئین سٹائین جیسے لوگ کیسے جان لیتے ہیں کہ ای= ایم سی۲؟ یہ مختلف اشیا کو اکٹھا کرنے اور ان کی ترتیب و تنظیم کے مطالعہ سے ممکن ہوتا ہے۔ تقدس مآب یہ کام اپنے تبتی علوم کے وسیع ذخیرہ سے واقفیت کے سبب کر پاتے ہیں۔
 

ان کا عکاس حافظہ محض صحیفوں تک ہی محدود نہیں ہے، بلکہ لوگوں کے بارے میں ویسا ہی ہے، جیسا کہ میرے سامنے بارہا یہ واقعہ پیش آیا۔ ایک بار میری موجودگی میں تبت سے ایک بہت بوڑھا بھکشو دھرم شالہ آیا، تو اسے دیکھنے پر تقدس مآب نے کہا، "میں تمہیں پہچانتا ہوں۔ تیس برس ہوۓ جب ہم بھارت جاتے ہوۓ تمہاری دھرم شالہ میں ٹھہرے تھے اور وہاں کوئی تقریب ہو رہی تھی۔ تمہیں چڑھاووں کے لئیے پلیٹ اٹھانا پڑی تھی جو کہ بہت بھاری تھی مگر تمہیں اس تمام تقریب کے دوران اسے اٹھانا پڑا تھا۔ یاد ہے نا؟ یہ ناقابل یقین بات تھی۔ میرا خاص استاد سرکونگ رنپوچے تھا جو کہ تقدس مآب کے خاص استادوں میں سے ایک تھا، اس نے بتایا کہ بطور ایک بالک کے، انہیں کوئی سبق صرف ایک بار پڑھایا جاتا۔ وہ اسے سمجھ لیتے اور یاد بھی کر لیتے۔

کمالات

یہ ہمارے دور کے عظیم انسانوں میں سے ہیں، اور ان کی اہمیت کیا ہے؟ وہ یہ ہے: ذرا غور کیجئیے کہ بطور ایک انسان کے کیا کچھ کیا جا سکتا ہے۔ بے شک ان کا یہ کہنا ہے کہ انہیں اپنے آپ کو استوار کرنے کے لئیے بہت محنت کرنا پڑی، لیکن ہم سب بھی یہ کر سکتے ہیں۔ دیکھئیے وہ مسائل سے کیسے نبرد آزما ہوتے ہیں۔ ایک ارب سے زائد لوگوں کی طرف سے نمبر ایک عوام دشمن ہونے کا الزام اٹھانا۔ مگر وہ اسے ہنس کر ٹال دیتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ سچ نہیں ہے، ان کے سر پر سینگ نہیں ہیں۔ مگر جب آپ پر راہب کے چوغہ میں مستور شیطان کا الزام لگے تو آپ اس سے کیسے سمجھوتہ کرتے ہیں؟

 

وہ کبھی مایوس نہیں ہوتے، کبھی بھی نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں کبھی اس کا تجربہ نہیں ہوا، اور ان کے لئیے اسے سمجھنا بہت مشکل ہے۔ مجھے یا د ہے جب ایک بار انہوں نے کہا کہ انہوں نے کبھی ایسا سوچا یا سنا ہی نہیں کہ کوئی شخص کمتر عزت نفس یا خود تنفّر کا شکار ہو۔ انہیں خود کبھی اس سے واسطہ نہیں پڑا تھا اور نہ ہی اس کا کبھی کوئی تجربہ ہوا۔
 

وہ اس قدر رجائیت پسند ہیں، مگر اس کے ساتھ ساتھ حالات کی حقیقت سے بھی نمٹتے ہیں۔ موجودہ حالات کے متعلق ان کا کہنا ہے کہ، "دنیا کے مسائل انسان کے پیدا کردہ ہیں، اور انسان ہی ان کو حل کر سکتا ہے۔" وہ ان مسائل کو حل کرنے میں بنیادی انسانی حقوق کی افزائش، بچوں کی تعلیم میں اخلاقیات کا شمول، اور مختلف ادیان اور تہذیبوں کے مابین مذہبی ارتباط کے فروغ کے راستے شرکت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مکمل عجز اور خلوص کے ساتھ وہ پوری دنیا کی بھلائی کے لئیے مستعد ہو کر کام کر رہے ہیں۔ یہ وہ بات ہے جو حد درجہ منظور خاطر ہے۔ اس میں آپ ان کی خوش مزاجی اور لا انتہا شکتی کو شامل کیجئیے، تو یہ ناقابل یقین ہے۔

 

انکے سیکریٹری اور صلاح کار ہر وقت انہیں کم سفر کرنے اور آرام کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ جب وہ سفر کرتے ہیں تو ان کا ہر لمحہ دن میں کئی کئی ملاقاتوں سے بھرا ہوتا ہے، اور تقریباّ ہر روز کوئی ہوائی سفر درپیش ہوتا ہے۔ مگر وہ ہمیشہ کہتے ہیں، "نہیں۔ جب تک مجھ میں اس کام کو کرنے کی ہمت ہے، میں یوں ہی سفر کرتا رہوں گا، کیونکہ اس میں دوسروں کی بھلائی ہے۔"

 

وہ اس لئیے اہم ہیں کیونکہ وہ ہمیں امید دلاتے ہیں۔ وہ بے حد پر خلوص اور محنتی ہیں۔ جب وہ انسانیت کو بہتر بنانے کی بات کرتے ہیں، تو ان کی فکر مکمل طور پر حقیقت پر مبنی اور قابل حصول ہے: تعلیم، باہمی مفاہمت، اخلاقیات۔ یہ کوئی جادو کے ٹوٹکے نہیں ہیں؛ یہ ایسے کام ہیں جنہیں ہم واقعی کر سکتے ہیں۔ جب وہ ہمارے ملک یا شہر میں آتے ہیں، تو یہ بہت عمدہ بات ہے اور تقدس مآب دلائی لاما سے ملنے کا ایک سنہری موقعہ ہوتا ہے۔

ویڈیو: گیشے لہاکدور — «تقدس مآب دلائی لاما کی اہمیت»
ذیلی سرورق کو سننے/دیکھنے کے لئیے ویڈیو سکرین پر دائں کونے میں نیچے ذیلی سرورق آئیکان پر کلک کریں۔ ذیلی سرورق کی زبان بدلنے کے لئیے "سیٹنگز" پر کلک کریں، پھر "ذیلی سرورق" پر کلک کریں اور اپنی من پسند زبان کا انتخاب کریں۔

سوال جواب

تقدس مآب اپنے روحانی فرائض کی ادائیگی اور عملی کام جیسے مہاجرین کے مسائل حل کرنے کے درمیان کس طرح توازن برقرار رکھتے ہیں؟

وہ نہ صرف بہت سے مطالعہ اور مراقبہ میں مشغول رہتے ہیں بلکہ جلا وطن تبتی لوگوں کی مرکزی تبتی انتظامیہ کے سر براہ بھی رہے ہیں۔ ہمت اور عقل سے کام لیتے ہوۓ، خاصی دور اندیشی کے ساتھ، وہ اس عہدہ سے برخواست ہو گئے، اور سکیونگ نام کا ایک جمہوری انداز سے منتخب شدہ عہدیدار اس منصب پر بٹھا دیا۔ مگر اس سے قبل وہ کئی برس تک مہتمم رہے اور انہوں نے مہاجرین کی آبادکاری کا بند و بست اور اس کی نگرانی کی ذمہ داری نبھائی، اور یوں جلا وطنی میں کئی اداروں کی نئے سرے سے بنیاد ڈالی۔ ان کی اصل حکمت عملی یہ تھی کہ حقیقت پسندی سے کام لیا جاۓ، اور یوں نہ سوچا جاۓ، "اوہ، یہ کام بہت بھاری ہے، میرے بس سے باہر، یہ ناممکن ہے،" بلکہ اس پر نہائت منظم طریقے سے کام شروع کر دیا جاۓ۔ ان کی حیرت ناک ذہانت اور یاد داشت کی بدولت وہ ان کے زیر انتظام تمام منصوبوں کا پتہ رکھتے، اور دوسروں کو ذمہ داری سونپنے کا کام بھی کرتے تھے۔ جو بھی کام درپیش ہو وہ اسے کر لیتے ہیں؛ ان کے لئیے یہ کوئی بڑی بات نہیں۔

 

میں اکثر قدرے مزاح کے رنگ میں یہ کہتا ہوں کہ بے شمار کام کرنے کی تربیت میں کلچکر کا نظام کتنا مفید ہے۔ کلچکر منڈل میں آپ کو ۷۲۲ اشکال کا تصور کرنا ہوتا ہے، اور شائد وہ ان چند ایک لوگوں میں سے ہیں جو یہ کام کر سکتے ہیں۔ اپنے آپ کو اس وسیع اور پیچیدہ نظام کے حوالہ سے مشق کے طریقہ کے توسط سے سمجھنے سے یوں ہوتا ہے کہ پھر جب کوئی نیا کام یا مسٔلہ آن پڑے تو اسے معمولی امر تصور کیا جاتا ہے۔ آپ کسی بات سے نہیں ڈرتے، آپ کسی بات کا بتنگڑ نہیں بناتے۔
 

زندگی پُر پیچ ہے اور بعض لوگوں کی زندگیاں دوسروں کی نسبت زیادہ پیچیدہ ہوتی ہیں۔ لیکن اس سے ڈرنے کی بجاۓ اسے گلے لگانا بہتر نہیں؟ جتنا وافر ہو اتنا ہی اچھا ہے! میری ویب سائیٹ کی مانند، ہم ۲۱ زبانوں پر کام کرتے ہیں – کوئی بڑی بات نہیں، ہم یہ کر سکتے ہیں۔ اگر ضرورت پڑے تو ہم اور بھی شامل کر سکتے ہیں، کیوں نہیں؟ یہ اس کے مقابلہ میں جو دلائی لاما کرتے ہیں ایک چھوٹا پراجیکٹ ہے۔ مگر اس سے امکانات کھلتے ہیں۔ کوئی شکائت کی بات نہیں، "میں بیچارہ" والی کوئی بات نہیں۔ جیسا کہ میری ماں کہا کرتی تھی، "سیدھا اوپر اور نیچے۔" بس کر ڈالو!

کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ دلائی لاما کو تقدس مآب کیوں کہا جاتا ہے، جبکہ وہ خود اس بات پر زور دیتے ہیں کہ وہ ایک سادہ انسان ہیں؟

تو بات یہ ہے کہ دلائی لاما خود کو کبھی تقدس مآب نہیں کہتے۔ مجھے علم نہیں کہ یہ سلسلہ کیسے شروع ہوا؛ ہو سکتا ہے کہ یہ کسی قسم کے عیسائی لقب سے ماخوذ ہو، اور پھر یہ انگریزی میں مروّج ہو گیا۔ لوگ اسے محض عزت دینے کی خاطر استعمال کرتے ہیں، جیسے کسی بادشاہ کے لئیے "عزت مآب۔"  تبتی زبان میں اپنے روحانی گورو کو مخاطب کرنے کے کئی ایک کلمات حرمت ہیں، مگر کسی کا ترجمہ بھی عین "تقدس مآب" نہیں بنتا۔ یہ ایک قسم کی سادہ سی رسم ہے جو لوگوں میں پڑ گئی ہے، اور وہ لوگوں کو انہیں ایسے پکارنے سے منع نہیں کر سکتے۔ لیکن وہ یقیناً یہ نہیں چاہتے کہ لوگ ان کی کسی دیوتا کی مانند پوجا کریں۔ 

آپ چونکہ تبتی زبان سے واقف ہیں، تو کیا آپ ایسا کچھ سوچ سکتے ہیں جو انگریزی زبان میں زیادہ مناسب ہو؟

ان کے لئیے عموماً جو لقب استعمال کیا جاتا ہے وہ ہے "کندن' یعنی "عظیم ترین ذات اقدس۔"اس کا دوسری زبانوں میں ترجمہ کرنا مشکل ہے، مگر اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ سب سے بالا تر ہستیوں کی اعلیٰ صفات کی انسانی شکل میں نمائیندگی کرتے ہیں۔ آپ کسی برگزیدہ ہستی کی صحبت میں ہیں۔ میں نے اسے متعارف کرانے کی کوشش کی مگر کسی نے دلچسپی کا اظہار نہ کیا۔

بعض کے نزدیک وہ ایک روحانی گورو ہے، بعض کے ہاں ایک سپرسٹار۔ اور بعض ایسے بھی ہیں جو اسے "بھیڑ کی کھال میں بھیڑیا" خیال کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دلائی لاما سیکولر اخلاقیات اور مذہبی ارتباط کی افزائش کے حوالے سے لوگوں کی بھلائی اور عالمی امن کی خاطر انتھک کام کرتے ہیں۔ پیار، درد مندی اور دانش کے مجسمہ کے طور پر وہ ہمیں ترغیب دلاتے ہیں کہ ہم انسانوں کے لئیے کیا کچھ کرنا ممکن ہے۔

Top