اکیسویں صدی میں بدھ مت

اکیسویں صدی کا بدھ متی کیسے بنا جاۓ

میں ہر وقت تبتوں، چینیوں، جاپانیوں، لداخیوں اور ہمالیہ کے تمام بدھ متیوں کو کہتا رہتا ہوں کہ اب ہم اکیسویں صدی میں ہیں، اور ہمیں اکیسویں صدی کے بدھ متی بننا چاہئے۔ اس کا مطلب ہے جدید تعلیم، جدید سائینس اور ایسی ہی چیزوں کے بارے میں پوری جانکاری، اور جدید سہولتوں سے فائدہ اٹھانا، مگر اس کے ساتھ ساتھ مہاتما بدھ کی بے پایاں ایثار پسندی، بودھی چت اور باہمی وابستگی، پراتتیا سموتپادا [دست نگر نمو] کے بارے میں تعلیمات پر پورا یقین رکھنا۔ اس طرح سے تم ایک سچے بدھ متی بن سکتے ہو اور اکیسویں صدی کے تقاضوں کو بھی پورا کر سکتے ہو۔

حال ہی میں میں نوبرا [لداخ] میں تھا اور میں راستے میں کھانے کے لئے رکا۔ کچھ مقامی لوگ وہاں آۓ – ان میں سے بعض کو ہم بیس، تیس برس سے جانتے ہیں – تو ان سے میں نے بات چیت کی۔ میں نے ان سے کہا کہ ہمیں اکیسویں صدی کے بدھ متی بننا چاہئے اور یہ کہ یہ تعلیم نہائت اہم ہے۔ پھر میں نے ان سے پوچھا کہ "بدھ مت کیا ہے؟" وہ کہنے لگے،"بدھم سارانم گچامی۔ دھرم سارانم گچامی۔ سنگھم سارانم گچامی۔ [میں مہاتما بدھ، دھرم اور سنگھا میں پناہ لیتا ہوں] یہ ہے بدھ مت۔" یہ حد سے زیادہ سادہ بات ہے۔ پھر میں نے پوچھا کہ مہاتما بدھ، حضرت عیسیٰ اور محمدﷺ میں کیا فرق ہے؟ انہوں نے کہا،"کوئی فرق نہیں۔" یہ بات درست نہیں۔ جہاں تک ان کے انسانیت کے عظیم معلم ہونے کا تعلق ہے وہ سب ایک ہیں۔ مگر جہاں تک تعلیمات اور فلسفہ کا تعلق ہے تو یہاں بدھ مت اور دوسرے مذاہب کے درمیان بہت فرق ہے، مگر یہ دیہاتی لوگ انہیں ایک جیسا سمجھتے ہیں۔

اس سے مجھے یاد آیا کہ ایک بار تبت میں ایک لاما کوئی درس دے رہا تھا، اور لوگوں نے اسے پوچھا، " تین جواہر کہاں ہیں؟ مہاتما بدھ کہاں ہے؟" وہ کچھ دیر تو خاموش رہا، پھر اس نے آسمان کی طرف اشارہ کیا اور کہنے لگا،"مہاتما بدھ خلا میں ایک شیشے کے محل میں ہے جو کہ تیز روشنیوں سے گھرا ہوا ہے۔" یہ بات سچ نہیں۔ مہاتما بدھ دراصل یہاں ہمارے دلوں میں مقیم ہے – مہاتما بدھ کی فطرت۔

پس میں آپ سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہمیں مہاتما بدھ کے دھرم کی اصل بنیاد کو پہچاننا چاہئے (مہاتما بدھ کی تعلیمات)۔ جیسے آپ اپنا خاص کھانا کھاتے ہیں – چاول، روٹی یا تبت میں تسمپا – اور پھر کچھ سبزیاں بھی۔ خوبصورت سبزیاں؛ جو کہ بہت اچھی ہوتی ہیں۔ مگر خاص پکوان کے بغیر، خالی چند سبزیاں – محض چند اضافی کھانے – کافی نہیں۔ اور اس بات کا ادراک اہم ہے۔

انداز فکر کا تنہ اور اس کی شاخیں

میں عموماّ تبتی بدھ مت کو خالص نلندا انداز فکر کے طور پر بیان کرتا ہوں [مطلب یہ کہ یہ قدیم ہندوستان کی نالندہ راہب یونیورسٹی کے سترہ عظیم مفکروں کی تعلیمات کا وارث ہے] ۔ یہ تو ہے بنیادی بات۔ میں اپنی بدھ متی جماعتوں کو جن میں لداخ والی بھی شامل ہیں، درخت کے تنہ اور شاخوں کی مثال دے کر بھی سمجھاتا ہوں کہ نلندا سوچ درخت کے تنے کی مانند ہے، اور [تبتی سوچ کے انداز] نیئنگما، ساکیہ، کاگیو، گیلوگ، کدم، جونانگ – یہ سب شاخوں کی مانند ہیں۔

حال ہی میں میں دورزونگ مرکز میں تھا، جو کہ ایک ڈروگپا کاگیو مرکز ہے۔ ان کے رنپوچے کے ہاں درس کے بڑے اچھے پروگرام ہوتے ہیں، نہ صرف ان کے اپنے راہبوں کے لئے بلکہ عام نوجوان تبتی طالب علموں کے لئے بھی۔ میں نے دورزونگ رنپوچے سے ان کے پروگرام کے بارے میں پوچھا جو کہ ایک بہت اعلیٰ پروگرام ہے۔ تو میں نے وہاں انہیں تنہ اور شاخوں کی مثال دے کر وضاحت کی کہ جہاں تک وحدت کا تعلق ہے کس طرح ساکیہ، نیئنگما، کاگیو، گیلوگ، کدم اور جونانگ سب کی سب جڑیں ہیں۔ ان میں کوئی تفریق نہیں۔ مگر جب شاخوں کو بہت زیادہ اہمیت دی جاۓ تو پھر چھوٹے موٹے تفرقات بھی بڑے بن جاتے ہیں۔ یہ شاخیں اہم ہیں؛ ان میں کوئی خاص بات ہے، جیسے دذوگ چن [کامل تکمیل] اور مہا مُدرا [عظیم مہر]، اور ساکیہ لمدرے [طریقت معہ اس کے نتائج کے]، اور سلتونگ-زونگجوگ [روشن خیالی اور خالی پن کا جوڑ]۔ ان میں سے ہر ایک خوب ہے مگر یہ سب تنے سے مربوط ہیں۔ اس وقت یہ بڑی اچھی بات ہوتی ہے جب یہ خاص وصف تنے کی مکمل بنیادی تعلیمات میں اضافہ کرتے ہیں۔ پھر یہ تکمیل پاتا ہے۔ لیکن اگر آپ بنیادی تعلیمات کو نظر انداز کر دیں اور محض ان شاخوں پر بھروسہ کریں تو بات مکمل نہیں ہوتی، اور اس میں غلط فہمی کا اندیشہ رہتا ہے۔

تو یہ ہے تنہ، یعنی نلندا مفکرین۔ میں عموماّ سترہ نلندا مفکرین کا ذکر کرتا ہوں۔ ان کی تحریریں بنیادی بدھ متی افکار کی وضاحت کرتی ہیں۔ باقی ماندہ شاخیں ہیں۔

تشکک کی اہمیت

تنہ کے مطابق – یعنی بنیادی بدھ متی تعلیمات کے مطابق – تشکک نہائت اہم ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ میں ایک بدھ متی ہوں، مگر مجھے کوہ میرو کے بارے میں یقین نہیں۔ دو سچائیاں اور چار بلند و بالا سچائیاں ہی در اصل کائنات، کہکشاں اور بگ بینگ کی صحیح توضیح ہیں۔ یہی مہاتما بدھ اور بدھ مت کی اصل تعلیم ہے۔

قدیم مسودوں کی تشکیل چار چیزوں پر بھروسہ کرنے سے ہوئی ہے۔ [کسی شخص پر بھروسہ کرنے کی بجاۓ اس کی تعلیمات پر بھروسہ کرو؛ ان کے الفاظ پر بھروسہ کرنے کی بجاۓ ان کے معانی پر بھروسہ کرو؛ ان کی ممکن توضیحات پر بھروسہ کرنے کی بجاۓ ان کے حتمی معانی پر بھروسہ کرو؛ (انہیں سمجھنے کی خاطر) اپنے منقسم شعور پر بھروسہ کرنے کی بجاۓ اپنی گہری آگہی پر بھروسہ کرو۔] قدیم تحریریں یہ بتاتی ہیں کہ ان کتابوں کو پڑھنے والوں، ان کا سنجیدگی سے مطالعہ کرنے والوں کا انداز شک کا حامل ہونا چاہئے۔ انہیں اس امر کی تحقیق کرنا چاہئے کہ آیا اس کتاب کا متن ان کی زندگی سے کسی قسم کی مطابقت رکھتا ہے یا نہیں۔ کیا اس کا کوئی عارضی فائدہ ہے؟ اور مستقبل میں اس سے کیسے استفادہ کیا جا سکتا ہے؟ سنجیدہ سامعین (کتب بین) کو اس تحریر پر عمل کرنے سے قبل اس کے اطلاق کے بارے میں پوری تسلی کر لینی چاہئے۔

یہ ہے صحیح معنوں میں نلندا انداز فکر۔ سامعین کو شک کرنا چاہئے۔ تشکک استفسار پیدا کرتا ہے؛ استفسار سے تحقیق جنم لیتی ہے؛ تحقیق سے عُقدے کھلتے ہیں۔ یہی وہ انداز ہے جو منطقی ہے۔

کوہ میرو کے متعلق اعتقادات کی تنسیخ اور جہنمی جہانوں کی جاۓ وقوع

چالیس برس پہلے کی بات ہے میں سار آشرم میں تھا تو ایک موقع پر میں نے کہا، "مہاتما بدھ اس دنیا میں دنیا کا نقشہ بنانے نہیں آیا تھا، لہٰذا یہ بدھ مت کی فکر کا حصہ نہیں کہ کوہ میرو کا کوئی وجود ہے یا نہیں ہے۔ اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔" بالکل اسی طرح۔ لہٰذا ہمیں پورا اختیار ہے کہ اگر ہم چاہیں تو وسوباندھو کی بات کو رد کر دیں ["ابھیدھرمکوش" میں، "علم کے خصوصی موضوعات کا خزانہ"]۔ ہمیں لفظی معانی اور تشبیہاتی معانی میں تمیز کرنی چاہئے۔ کالچکر میں اس بات کا بیان ہے کہ کوہ میرو اور ایسی ہی چیزیں انسانی جسم کی، سر سے لے کر پاؤں کے تلووں تک، تشبیہات ہیں۔ ایسی اور بھی کئی تنتری شرح ہیں۔ تو ان تشبیہات کا ایک خاص مطلب اور مقصد ہے۔

اور اب جہنموں کے بارے میں، جہنموں کا تصور: مجھے وسوباندھو کی "ابھیدھرم کوش" میں بات ماننے میں بہت دقت پیش آ رہی ہے: کہ بیس لیگ (= ساٹھ میل) [تبتی زبان:پگتسے، سنسکرت: یوجانا] بودھ گیا کے نیچے آٹھ مختلف جہنم ہیں۔ ایک پگتسے ایک کلومیٹر سے کافی زیادہ لمبا ہے۔ تو اگر تم مزید سے مزید تر نیچے کی طرف جاتے جاؤ تو غالباّ یہ جہنم کہیں امریکہ میں ہیں۔ مگر یہ کہنا کہ امریکہ ایک جہنم ہے بڑی شرم کی بات ہے۔ پس ایسی باتوں کو جھٹلانا کوئی مشکل کام نہیں۔

بات کو سمجھنے کے تین طریقے ہوتے ہیں: حواس خمسہ کے ذریعہ، منطقی دلائل سے، اور آسمانی صحیفوں کو معتبر مان کر۔ اس کا مطلب ہے کہ [آسمانی صحیفوں کے معاملہ میں] کسی تیسرے انسان پر بھروسہ کرنا۔ میں اکثر لوگوں سے کہتا ہوں کہ یہ ہماری اپنی سالگرہ کی مانند ہے: ہمارے پاس اس بات کی تصدیق کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں کہ ہمارا صحیح جنم دن کیا ہے۔ ہمیں کسی تیسرے شخص کی بات پر بھروسہ کرنا پڑتا ہے؛ مثلاّ ہماری ماں۔ اور کسی تیسرے شخص کی بات کو ماننے کے لئے ہمیں پہلے اس بات کی تسلی کر لینی چاہئے کہ وہ شخص ایماندار ہے، قابل اعتبار ہے اور اس کا دماغی توازن درست ہے۔ تو ہمیں کسی اور بات کی جس کا ذکر تیسرے شخص نے کیا ہے، جانچ پڑتال کرنے کی ضرورت ہے، کوئی ایسی بات جس کی ہم تحقیق کر سکتے ہیں۔ اگر ہم تحقیق کریں اور اسے درست پائیں، تو ہم یہ جان لیتے ہیں کہ وہ شخص سچا ہے اور اس کے جھوٹ بولنے یا بات بنانے کی کوئی وجہ نہیں۔ تو پھر ہم اس شخص کی دوسری باتوں کو بھی قبول کر سکتے ہیں۔

تو اسی طرح ایسے پر اسرار قدرتی مظاہر ہو سکتے ہیں جو ہماری فہم اور مشاہدہ سے باہر ہیں۔ اگر کچھ لوگ یہ کہیں کہ یہ مظاہر ان کے مشاہدہ میں آۓ ہیں، تو ہم ان کی تصنیفات کا مطالعہ کر کے دیکھ سکتے ہیں کہ آیا وہ دوسرے معاملات میں قابل اعتبار ہیں۔ اگر ایسا ہے تو ہم اس تیسرے شخص کا بیان، ان چیزوں کے بارے میں جو ہماری استدلال کی دسترس سے باہر ہیں، قابل اعتبار جان کر قبول کر لیں۔ بعض بدھ متی تحریروں کی شرح کے بارے میں بھی ہمیں ایسی ہی حکمت عملی اختیار کرنا پرتی ہے۔

پرامان یعنی منطق اور علمیات کے مطابق [تصدیق اور تردید کی مختلف قسمیں ہیں۔ تردید کی ایک قسم وہ ہے جس کا تعلق ایسے مظہر سے ہے جو قابل مشاہدہ ہو، مگر ہےنہیں]۔ مثال کے طور پر "ابھیدھرم کوش" کے مطابق سورج اور چاند کا زمین سے فاصلہ برابر ہے، اور جیسے یہ کوہ میرو کے گرد گھومتے ہیں تو اس سے دن اور رات بنتے ہیں۔ بظاہر ہم (رات کو) کوہ میرو کا سایہ دیکھتے ہیں؛ تو اگر ہم اس کا سایہ دیکھتے ہیں تو ہمیں پہاڑی بھی نظر آنی چاہئے۔ پرانے زمانے میں ہندوستان میں وسوبندھو کے ہاں اس بات کا کوئی امکان نہیں تھا جس سے وہ کوہ میرو کے وجود کا تعین کر سکتا۔ مگر اب ہمارے پاس خلائی جہاز ہے جس کی مدد سے ہم دیکھ سکتے ہیں۔ اگر کوہ میرو کا وجود ہے تو ہمیں نظر آنی چاہئے۔۔ مگر چونکہ وہ ہمیں نظر نہیں آتی تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس کا کوئی وجود نہیں۔

لہٰذا ایسی تردیدات بھی ہیں جہاں آپ کو وہ مظاہر جنہیں آپ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہوں، نظر ہی نہ آئیں، یا اس کا الٹ نظر آۓ۔ ڈگناگہ اور دھرم کیرتی نے اپنی تحریروں میں ان کا صاف صاف ذکر کیا ہے۔ لہٰذا ہمارے بدھ متی علمیات کے مطابق یہ امر آسانی سے ثابت ہو جاتا ہے کہ کوہ میرو کا کوئی وجود نہیں۔ ایسی باتوں کی تردید کوئی مسٔلہ نہیں۔

ایک بار جنوبی ہند میں میرے خیال میں دس ہزار سے زیادہ ودیارتی راہبوں کا اکٹھ ہوا (تمام بڑی بڑی راہبوں کی خانقاہوں کے طلبا وہاں جمع تھے) – میں نے سائینس کی اہمیت کے متعلق اپنے نظریات کا اظہار کیا اور یہ کہ ہمیں سائینس ضرور سیکھنی چاہئے، جدید سائینس۔ اور پھر میں نے کہا کہ میں کوہ میرو اور ایسی چیزوں پر یقین نہیں رکھتا۔ اور پھر میں نے کہا،" مجھے آپ مذہب سے روگرداں مت گردانیں۔" پہلے روز میرا درس زیادہ تر بدھ متی سائینس اور مغربی سائینس کے باہمی تعلق پر تھا۔ دوسرے روز میں نے بدھ متی تعلیم کی وضاحت کی۔ تو پہلے روز میرا درس زیادہ جدت پسند تھا، دوسرے دن کا درس زیادہ روائتی، مذہبی انداز کا تھا۔ تو بات یہ ہے کہ ان چیزوں کی تردید کوئی مشکل کام نہیں۔

ویڈیو: منگیور رنپوچے — «بدھ مت اور سائینس»
ذیلی سرورق کو سننے/دیکھنے کے لئیے ویڈیو سکرین پر دائں کونے میں نیچے ذیلی سرورق آئیکان پر کلک کریں۔ ذیلی سرورق کی زبان بدلنے کے لئیے "سیٹنگز" پر کلک کریں، پھر "ذیلی سرورق" پر کلک کریں اور اپنی من پسند زبان کا انتخاب کریں۔

گرو سے عقیدت کے ممکنہ نقصانات

تو اب اگر ہم بنیاد کو دیکھیں تو اس میں عقیدت کی کوئی اہمیت نہیں۔ لیکن اگر آپ ان شاخوں جیسے مہا مُدرا یا دذوگ چن کو لیں تو ان میں گرو- یوگا بہت اہم ہے۔ یہ بعض لاما کو بگاڑنے والی بات ہے، کیونکہ اس طرح ان کے مرکز مسلکی فرقے بن سکتے ہیں۔ کیوں؟ کیونکہ اس طرح بنیادی بدھ متی تعلیمات کو نظر انداز کر کے ان شاخوں پر توجہ مرکوز ہو جاتی ہے

ناروپا کی مانند، جو مارپا کا بڑا استاد تھا، اور کاگیو خاندان کی اہم شخصیت۔ ناروپا نلندا تعلیمی مرکز کا ایک بہت بڑا عالم تھا۔ بعد میں اس نے تنتریانہ مسلک اختیار کر لیا، ایک بھکاری یا سادھو جیسا روپ۔ نروپا میں یہ سب کچھ کرنے کی صلاحیت اس لئے موجود تھی کیونکہ اس نے اس وقت کی تمام اہم نلندا تحریریں جو اس وقت دستیاب تھیں، پڑھ رکھی تھیں۔ مگر اب مغرب میں بعض پیروکار – اور بعض تبتی اور لداخی بھی – مہاتما بدھ کے دھرم کی اصلیت کو پہچانے بغیر – وہ کچھ کرتے ہیں جو ان کا لاما کہتا ہے۔ اگر ان کا لاما کہے،"مغرب مشرق ہے،" تو وہ اس پر یقین کر لیتے ہیں:"اوہ، تو یہ مشرق ہے۔" یہ نلندا انداز فکر کی نفی ہے۔

حقیقتاّ وہ شخص جو بدھ مت کی بنیادی تعلیمات پر مکمل عبور رکھتا ہے ایک لاما سے مختلف ہے جو ایک اونچی گدی پر جاگزیں ہے – جیسے میں ایک اونچی مسند پر – لیکن جس کا حقیقی تجربہ بہت محدود ہے۔ اب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ میں ان لاما پر قدرے رشک کرتا ہوں۔ مگر میرے تجربہ کے مطابق ان کے پاس صحیح اور مکمل علم نہیں ہوتا اور وہ محض ان شاخوں پر زور دیتے ہیں۔ اس سے بہت زیادہ غلط فہمی پیدا ہوتی ہے۔ یہ سمجھنا ضروری ہے۔

بدھ مت کو مغرب کے سانچے میں ڈھالنا

ایک مغربی بدھ مت کی تشکیل کا نظریہ بہت اچھا خیال ہے، بہت اچھا۔ یہ تو آپ جانتے ہیں کہ بدھ مت نے ہندوستان میں جنم لیا۔ لیکن جب یہ دوسرے خطوں میں پہنچا تو یہ مقامی تہذیب سے مل کر تبتی، چینی اور جاپانی بدھ مت بن گیا: اس طرح۔

ہماری تبتی خانقاہوں میں استعمال ہونے والے بعض موسیقی کے ساز نلندا ثقافت کی طرف سے نہیں بلکہ چین سے آۓ ہیں۔ ایک ساز ہے جس کا نام ہے گیالنگ [تبتی شام یا اوبو]، در اصل "چینی بانسری"۔ اور ان میں سے بعض خانقاہوں میں جو لوگ اسے بجاتے ہیں وہ لباس بھی چینی پہنتے ہیں۔ بیوقوف، ہے نا؟ یہ بدھ مت نہیں، یہ محض ایک ثقافتی پہلو ہے۔ اسی طرح مغربی بدھ متی جماعت میں آپ جدید ترین ساز استعمال کر سکتے ہیں اور کسی مغربی گانے کی دھن پر عبادت کر سکتے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے۔ اس میں کوئی مسٔلہ نہیں۔

لیکن جہاں تک چار بلند و بالا سچائیوں اور بہبود خلق کا تعلق ہے: آپ دیکھتے ہیں کہ بدھ مت انسانی جذبات کی بات کرتا ہے، اور آج کے انسانی جذبات اور ۲،۶۰۰ سال پرانے انسانی جذبات میں کوئی فرق نہیں۔ میرے خیال میں لوگوں کے جذبات گذشتہ تین، چار ہزار برس سے ویسے کے ویسے ہی ہیں، اور آئندہ چند ہزار برس تک ایسے ہی رہیں گے۔ آج سے دس، بیس ہزار سال بعد انسانی دماغ کی کوئی نئی شکل تشکیل پا چکی ہو گی، تو تب ہو سکتا ہے معاملہ قدرے مختلف ہو۔ لیکن یہ بہت دور کی بات ہے۔ لہٰذا ہماری نسل، اور اس سے اگلی نسل، اور اس سے اگلی نسل کے لئے تعلیمات میں ردوبدل کی ضرورت نہیں – یہ وہی انسانی دماغ ہے اور وہی انسانی جذبات۔ آپ سائنسدانوں سے اس کے بارے میں پوچھ سکتے ہیں، دماغ کے ماہرین سے، اور وہ آپ کو بتائیں گے،" اوہ، آئیندہ چند صدیوں تک یہی دماغ ہو گا۔ اس میں کوئی تبدیلی نہیں۔" اس طرح۔ لہٰذا بنیادی بدھ متی تعلیم مستند ہونی چاہئے۔

ایک بار فرانس میں میں نے 'نیو ایج' کا ذکر کیا – آپ نے کچھ یہاں سے لیا، کچھ وہاں سے، اور نتیجہ ناقابل اعتبار۔ یہ اچھی بات نہیں۔ میرے خیال میں ہمیں اصل نلندا انداز فکر کو قائم رکھنا چاہئے۔ یہ نہائت اہم ہے۔ اگرچہ ثقافتی پہلو تبدیل ہو سکتے ہیں۔

اعلیٰ تعلیمات کو غلط سمجھنے کا مسٔلہ

اب میرے خیال میں کچھ تعمیری تنقید کا وقت آ گیا ہے۔ میں مغرب میں کچھ لوگوں سے ملا ہوں جو تھوڑی سی جانکاری رکھتے ہیں، مگر وہ یہ محسوس کرتے ہیں:"اوہ، میں سب جانتا ہوں!" اور پھر اپنے محدود علم اور غلط تصورات کی بنیاد پر اسباق تیار کر لیتے ہیں۔ یقیناّ یہ تبتی لوگوں کے ہاں بھی ممکن ہے، خصوصاّ ان لوگوں میں جو ان بڑی بڑی فلسفیانہ کتابوں کو نہیں پڑھتے۔

ایک مثال ایسی ہے جو، میرے خیال میں، میں آپ کو بیان کر سکتا ہوں۔ ایک بڑے زلزلہ کے جلدی بعد میں سان فرانسسکو گیا۔ اس بار میرا ڈرائیور محکمہ خارجہ سے نہیں تھا۔ یہ ایک نجی گاڑی تھی، اور اس کا ڈرائیور دھرم مرکز کے ارکان میں سے تھا جو ڈزوگ چن پر عمل پیرا ہیں۔ میں نے سر راہے اس سے پوچھا ، "یہ بڑا زلزلہ کب آیا۔ تمہیں کیا محسوس ہوا؟" اور وہ کہنے لگا،"یہ ڈزوگ چن کی مشق کا بہترین موقع تھا، کیونکہ یہ ایک بڑا جھٹکا تھا، بہت بڑا۔" مگر کسی جھٹکے کو بغیر اس پر غوروفکر کئے محسوس کرنا – اگر اس نے محسوس کیا کہ یہ خالص ڈزوگ چن طریقت ہے، تومیرے خیال میں یہ نہائت آسان ہو گا: کسی چیز سے ٹکرا جاؤ اور ڈزوگ چن کی مشق ہو گئی! ڈزوگچن اتنا آسان نہیں۔ میں نے خود ڈزوگ چن کی مشق کی ہے۔ یہ بہت مشکل کام ہے، بہت مشکل۔

ایک کہاوت ہے،"نیم حکیم خطرہ جان۔" اس میں کچھ سچائی ہے۔ لہٰذا محتاط رہو۔ مطالعہ کرو۔ اور کسی لاما کی تعلیم پر بھروسہ نہ کرو؛ صرف مستند کتب پر بھروسہ کرو۔ یہ ہی اہم ہے۔ میری بات پر بھروسہ مت کرو۔ ان مستند تحریروں کا مطالعہ کرو جنہیں ناگارجن، آریادیو اور سب عظیم بدھ متی مفکروں نے رقم کیا۔ ان تعلیمات کو ان عالموں نے صدیوں کے عرصہ میں پرکھا ہے۔ آریہ اسانگ نے تصنیف کیا اور دوسرے فلسفہ دانوں سے کلام بھی کیا۔ مثال کے طور پر ناگارجن کی بعض تحریروں پر آریہ اسانگ نے معمولی سی تنقید بھی کی؛ اور پھر کسی اور مفکر نے آریہ اسانگ کے کام کا تجزیہ کیا اور اس پر تنقید کی۔ یہ اعلیٰ تحریریں جنہیں ان مفکروں نے تصنیف کیا کئی صدیوں کے عرصہ میں جانچی اور پرکھی گئیں، پس یہ قابل اعتبار ہیں۔

اور اب ہم دوہا کا ذکر کرتے ہیں، روحانی گیت [پہنچے ہوۓ عالموں کے اضطراری روحانی گیت]۔ ان مشاقوں نے، جیسے ناروپا یا تلوپا، غور سے نلندا انداز فکر کا مطالعہ کیا۔ پھر بذریعہ مشق تمام دنیاوی زندگی کو خیر باد کہ ڈالا، حتیٰ کہ راہبانہ زندگی کو بھی، اور مکمل طور پر فقیروں اور یوگیوں کی بود و باش اختیار کر لی۔ اور پھر اپنے تجربات کی بنا پر اپنی گہری فہم و فراست سے سادہ الفاظ میں یہ نظمیں تشکیل و ترکیب دیں۔ تو اگر کوئی شخص صرف بنیادی طریقت سے واقف ہے [اور اس سے زیادہ کچھ نہیں جانتا] تو اس میں غلط فہمی کا خطرہ ہے ۔

کیا ہمیں انسانیت کے نام پر کام کرنا چاہئے یا بدھ مت کے نام پر؟

حال ہی میں میں ریاست بہار کے شہر پٹنہ میں تھا۔ انہوں نے وہاں ایک بدھ متی وہارا، بدھ متی مندر، تعمیر کیا۔ انہوں نے کچھ قدیم چیزیں مختلف بدھ متی ممالک سے اکٹھی کیں، اور میں نے بھی اپنی طرف سے چند ایک کی پیشکش کی۔ اس موقع پر وزیر اعلیٰ نے کہا کہ مہاتما بدھ کی نظر کرم کی بدولت ریاست بہار تیزی سے ترقی کرے گی۔ تب میں نے اسے کہا – کیونکہ میں اسے جانتا ہوں، وہ میرا قریبی دوست ہے – کہ "اگر ریاست بہار کی ترقی مہاتما بدھ کی نظر کرم کی مرہون منت ہوتی تو ریاست بہار بہت پہلے ترقی کر چکی ہوتی، کیونکہ مہاتما بدھ کی عنائت تو پہلے سے ہی وہاں موجود ہے۔ ترقی اس وقت تک نہیں ہو گی جب تک کہ کوئی قابل وزیر اعلیٰ نہ آ جاۓ۔ مہاتما بدھ کی عنایات کسی انسان کے ہاتھ سے جلا پاتی ہیں۔"

دعا کا کوئی حقیقی اثر نہیں ہوتا۔ اگرچہ دعا ایک اچھی چیز ہے مگر عمل مختلف شے ہے، ہے نا؟ حقیقی نتائج پیدا کرنے کے لئے عمل کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی لئے بدھ مت پکارتا ہے،"کرم، کرم۔" کرم کا مطلب ہے "عمل"۔ پس ہمیں چوکس رہنا چاہئے۔

عمل اس یقین کے ساتھ کرنا چاہئے:"میں تقریباً سات ارب انسانوں میں سے ایک ہوں۔ یہ میری ذمہ داری ہے کہ میں ان قریب سات ارب انسانوں کی بہبود کو سنجیدگی سے ملحوظ خاطر رکھوں۔" اس طرح۔ جب ہم کوئی بدھ متی دعا مانگتے ہیں تو ہم ہمیشہ یہ کہتے ہیں کہ یہ (دعا) تمام ذی شعور لوگوں کے لئے ہے۔ کوئی بدھ متی صرف تبتی لوگوں کے لئے دعا نہیں مانگتا۔ کبھی ایسے دعا مت مانگو۔ یا محض اس دنیا کے لئے – لا محدود جہان ہیں اور لا محدود ذی شعور ہستیاں۔ اور پھر ہمیں اس پر عمل کرنا ہے؛ وگرنہ ہماری دعا مکاری بن جاۓ گی۔ کسی بڑے "ہم" کی بنیاد پر دعا مانگنا، لیکن اپنے کرم درست رکھنا – ہمارے اصلی "اعمال" – اگر اس کی بنیاد ایک زوردار "ہم" اور "وہ" پر ہو تو یہ ریا کاری ہو گی۔

تو کیا ہمارے اعمال کا محرک انسانیت ہونی چاہئے یا بدھ مت؟ اگر آپ بنیادی انسانی اقدار کو بدھ متی تعلیمات کی بنیاد پر بڑھاؤ دیں تو یہ محدود ہو جاتا ہے اور یہ عالمگیر نہیں ہو سکتا۔ ہندوستان کی ہزار برس پرانی روائت نے سب مذاہب کو شمولیت دی اور یہ مذہبی تخصیص سے آزاد تھی – کسی ایک مذہب کو دوسروں پر ترجیح نہیں دی گئی؛ تمام مذاہب کو عزت بخشو۔ دیسی مذاہب کے علاوہ دنیا کے دوسرے بڑے مذاہب بھی ہند میں آ بسے۔ تو گذشتہ کم از کم دو ہزار سال سے دنیا کے تمام بڑے مذاہب اس ملک میں باہم جا گزیں ہیں۔ چنانچہ، اس حقیقت کی بنیاد پر، قدرتاً ان میں مذہبی برداشت کا مادہ پیدا ہوا۔ یہ بڑی اچھی بات ہے۔ مذاہب تعداد میں اتنے زیادہ ہیں کہ ہم مذہبی عقیدے پر زور دے ہی نہیں سکتے۔ پس ایک قابل عمل اور حقیقت پسند طریقہ یہی ہے کہ ہم مذہب کو نہ چھیڑیں – صرف مزہبی تخصیص سے بے نیاز اقدار کی پیروی کریں۔

میں ایک پکا بدھ متی ہوں۔ اگر کوئی شخص بدھ مت میں دلچسپی کا اظہار کرتا ہے تو میں خوش ہوتا ہوں، مگر میں کبھی بدھ مت کے پرچار کی کوشش نہیں کرتا۔ مذہبی عقیدہ ہر انسان کا ذاتی معاملہ ہے۔ مذہبی تخصیص سے آزادی تمام انسانوں کا حق ہے۔ لہٰذا ہم تمام بدھ متی لوگوں کو – اپنی روزمرہ مشق کے علاوہ – اس انداز سے بھی سوچنا چاہئے۔

میں اپنے عیسائی بھائی بہنوں کے کام کی بہت قدر کرتا ہوں۔ میرے خیال میں اس کرہ ارض پر تعلیم کو فروغ دینے میں انہوں نے سب سے زیادہ کردار ادا کیا ہے۔ آپ کو اور کوئی مذہب یہ کام کرتا نظر نہیں آۓ گا۔ حال ہی میں رام کرشن تحریک کے لوگ [بڑے پیمانے پر تعلیم عام کرنے پر] بڑا کام کر رہے ہیں، مگر باقی تمام مذاہب کے لوگ اپنے مندروں میں بیٹھے پیسہ اکٹھا کر رہے ہیں۔ آپ دیکھئے کہ ہمیں ایک بہتر، صحت مند معاشرہ پروان چڑھانے کے لئے کوشاں رہنا چاہئے۔ اس سطح پر، میں سمجھتا ہوں، ہمارے عیسائی بھائی بہنوں نے انسانوں کی زبردست خدمت کی ہے۔

Top