بدھ مت کے متعلق عام غلط فہمیاں

بدھ مت کے متعلق بہت سی مختلف غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں اور ان کی وجوہات الگ الگ ہیں۔ بعض کا تعلق کسی خاص ثقافت سے ہے، یا تو مغربی ثقافت سے، یا پھر ایشیائی یا دوسری ثقافتیں جن پر مغربی ثقافت کا اثر ہوا ہے۔ بعض کا تعلق دوسری علاقائی تہذیبوں سے ہے، جیسے روائیتی چینی انداز فکر۔ کوئی ایسی غلط فہمی بھی ہو سکتی ہے جو لوگوں کے پریشان کن جذبات سے پیدا ہوتی ہے۔ اور کچھ غلط فہمی محض اس بات سے آتی ہے کہ مواد زود فہم نہیں ہے۔ بعض اوقات غلط فہمی اساتذہ کے باتوں کو کھول کر نہ بیان کرنے یا انہیں ادھورا چھوڑ دینے سے بھی پیدا ہوتی ہے، اور ہم ان کا وہ مطلب نکال لیتے ہیں جو ہم مناسب سمجھتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ اساتذہ کا معانی سے نا بلد ہونا بھی ہو سکتا ہے، کیونکہ تمام استاد کامل نہیں ہوتے: کئی اساتذہ کو تعلیم و تربیت مکمل ہونے سے پہلے ہی پڑھانے پر معمور کر دیا جاتا ہے۔ اوریہ بھی ممکن ہے کہ استاد تو بات کو کھول کر بیان کر دیں مگر ہم ان کی بات دھیان سے نہ سنیں، یا وقت گزر جانے کے بعد ہم ان کی بات کو صحیح طور یاد نہ رکھیں۔ یا ہم مناسب نوٹس نہ لیں اور دوبارہ انہیں کبھی نہ پڑھیں۔ اگرچہ اس طرح پیدا ہونے والے بے شمار غلط تصورات ہیں، آئیے ہم عمومی موضوعات پر کچھ عام قسم کے غلط تصورات کی وضاحت کی کوشش کرتے ہیں، اگرچہ اس موضوع پر بہت کچھ کہا جا سکتا ہے۔

بدھ مت کے متعلق عمومی غلط فہمیاں

یہ سوچ کہ بدھ مت یاس پسند ہے

مہاتما بدھ کا پہلا سبق چار بلند و بالا سچائیوں کے متعلق تھا، اور ان میں سب سے پہلی سچائی "حقیقی دکھ" تھی۔ ہم خواہ عدم مسرت کی بات کریں، یا ہمای مسرت کی عمومی صورتوں کی، یا اضطراری پنر جنم کا سب پر محیط واقعہ، یہ سب آزار کی شکلیں ہیں۔ "دکھ" انگریزی زبان میں قدرے سخت لفظ ہے۔ یہاں اس سے مراد یہ ہے کہ یہ سب حالتیں غیر تسلی بخش ہیں اور مسائلِ زندگی ہیں، اور چونکہ ہر کوئی خوشی کا تمنائی ہے، اور کوئی بھی عدم مسرت نہیں چاہتا، اس لئیے ہمیں اپنے مسائل پر قابو پانا ہے۔
یہ ایک غلط تصور ہے کہ بدھ مت کے نزدیک خوشی محسوس کرنے میں کوئی خرابی ہے۔ لیکن ہماری چھوٹی موٹی خوشیوں میں کمزوری پائی جاتی ہے – وہ کبھی بھی دیرپا نہیں ہوتیں، وہ کبھی بھی تسکین بخش نہیں ہوتیں، اور جب وہ اختتام کو پہنچیں تو ہم ہمیشہ اور کی تمنا کرتے ہیں۔ اگر ہمیں ہماری کوئی من پسند چیز وافر مقدار میں ملے، مثلاً ہماری من پسند غذا، تو ہمارا دل اس سے بھر جاتا ہے اور اگر اور کھائں گے تو ناخوش ہوں گے۔ پس بدھ مت ہمیں ایسی خوشی کی تلاش سکھاتا ہے جو اس قسم کے غیر تسلی بخش حالات سے مبرّا ہو۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہمارا اعلیٰ ترین ہدف بے حسی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مسرت کی کئی قسمیں ہیں، لیکن جس چیز کا ہم مزہ چکھتے ہیں، اگرچہ وہ عدم مسرت سے بہتر ہے، پر یہ خوشی کی وہ اعلیٰ ترین شکل نہیں ہے جس کا ہم مزہ لے سکتے ہیں۔

یہ سوچ کہ عدم استقلال کی تعبیر صرف منفی ہی ہے

ععدم استقلال کو ہماری عمومی خوشی کے آئینہ میں دیکھنا غلط ہے: یہ اختتام کو پہنچے گی اور عدم تسکین اور عدم مسرت کا باعث ہو گی۔ عدم استقلال سے مراد یہ بھی ہے کہ ہماری زندگی کا کوئی ناخوشگوار دور آخر کو ختم ہو جاۓ گا۔ اس سے بازیابی اور نئے مواقع سے فائدہ اٹھا کر اپنی زندگی کو بہتر بنانے کے امکانات جنم لیتے ہیں۔ پس، بدھ مت ہمیں ہماری زندگی کے متعلق رویہ اور انداز فکر کو تبدیل کرنے کے بے شمار طریقے پیش کرتا ہے، تا کہ باالآخر، مکش اور روشن ضمیری حاصل کی جا سکے۔ ان تمام تبدیلیوں کا منبع عدم استقلال کا اصول ہے۔

یہ سوچ کہ بدھ مت ایک قسم کی لا وجودیت ہے

مہاتما بدھ نے فرمایا کہ ہم سب کے مسائل کا سبب حقیقت سے لا علمی ہے – وہ، دوسرے اور ہر کوئی شے کیسے وجود رکھتی ہے۔ اس نے خالی پن کو اس الجھن کا تریاق بتایا۔ یہ سوچنا کہ خالی پن عدم وجودیت کی ایک قسم ہے یہ غلط فہمی ہے اور مزید یہ کہ مہاتما بدھ نے کہا کہ ہر شے وجود سے عاری ہے – تمہارا کوئی وجود نہیں، دوسروں کا کوئی وجود نہیں، تمہارے مسائل کا کوئی وجود نہیں، تو تمہارے مسائل کا حل یہ ہے کہ کسی چیز کا کوئی وجود نہیں ہے، یہ بھی غلط فہمی ہے۔
خالی پن کا قطعی یہ مطلب نہیں ہے۔ ہم اشیاء کے وجود کی مختلف النّوع غیر ممکنہ اشکال کو حقیقت کا روپ دیتے ہیں – مثلاً، ہر غیر شے سے الگ آزادانہ وجود۔ ہم اس حقیقت سے نابلد ہیں کہ ہر شے ایک دوسرے سے بھر پور، فطری انداز میں منسلک اور ایک دوسرے پر منحصر ہے۔ اس کے متعلق ہماری عادی الجھن اشیاء کے وجود کو غیر ممکن طور پر دیکھتی ہے، جیسے یہ ویب سائٹ، اس کا وجود آزادانہ نظر آۓ حالانکہ اسے بنانے میں ایک سو سے زائد لوگوں نے ہزاروں گھنٹے صرف کئیے ہیں۔ وجود کا یہ ناممکن طریقہ حقیقت کے کسی بھی پہلو سے مطابقت نہیں رکھتا۔ خالی پن سے مراد کسی بھی ایسے حوالے کی عدم موجودگی ہے جو ہمارے وجودیت کے نا ممکنہ طریقوں کی عکاسی کرتا ہو۔ کوئی شے بھی آزادانہ وجود کی حامل نہیں؛ اس کا مطلب یہ نہیں کہ کسے چیز کا کوئی وجود ہی نہیں۔

یہ سوچ کہ ہم برے ہیں اور اپنے منفی کرمائی امکانات کی پختگی کے سزا وار ہیں

کرم اور پنر جنم کے متعلق ایک اور بات یہ ہے کہ اگر ہم یہ مان بھی لیں کہ ہمارے دکھ درد کا سبب ہمارے پچھلے جنم کے منفی کرمائی امکانات کی پختگی ہے، تو ہم یوں سوچ سکتے ہیں، "میں اگر دکھ جھیلوں، اگر میرے ساتھ کچھ برا پیش آتا ہے، تو میں اس کا سزا وار ہوں۔" یا اگر یہ تمہیں پیش آۓ تو تم اس کے سزا وار ہو۔ یہاں غلط فہمی کا پہلو یہ ہے کہ ہم ایک ٹھوس "میں" کے وجود کو فرض کر لیتے ہیں جس نے قانون کی خلاف ورزی کی، جو بد ہے اور قصور وار ہے، اور اب میں وہ سزا پا رہا ہوں جس کا میں مستحق ہوں۔ پس ہم "میں" پر الزام دھرتے ہیں – یہ ٹھوس "میں" جو بہت بری ہے اور اب اپنے کئیے کی سزا بھگت رہی ہے – اس کی وجہ ہماری کرم کے قوانین کی نا سمجھی ہے، علت و معلول کے قوانین کی۔

یہ سوچ کہ ہم دوسروں کے کرم کی پختگی کے ذمہ دار ہیں

پھر ہم اس احساس جرم کا دوسروں کے کرم کی پختگی پر اطلاق کرتے ہیں۔ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ کرم کی پختگی کے پس پشت بے شمار حالات و معاملات ہوتے ہیں اور ہر ایک کے اپنے اپنے اسباب ہوتے ہیں۔ یہ سوچ سراسر غلط ہے کہ میں دوسرے لوگوں کے کرم کی پختگی کا ذمہ دار ہوں۔ انہیں جو بھی درپیش ہے وہ ان سب عناصر کا مرہونِ منت ہے، نہ کہ محض میری وجہ سے۔

میں ایک مثال پیش کرتا ہوں۔ فرض کیجئیے کہ کوئی گاڑی مجھ سے ٹکرا جاتی ہے۔ اس کا سبب میری کسی گزشتہ زندگی کا کوئی فعل نہیں جو اس شخص کے لئیے مجھے مارنے کا سبب بنا۔ اگر میں یہ سوچوں، " اس شخص کے مجھے مارنے کا میں کرمائی طور پر ذمہ دار ہوں،" تو یہ درست نہیں ہے۔ جس چیز کے ہم کرمائی لحاظ سے ذمہ دار ہیں وہ ہمیں اس چوٹ کا لگنا ہے۔ ہمیں کار سے چوٹ لگنے کا عمل اس شخص کے کرم کی وجہ سے ہے۔ اسی طرح، ہمیں جو ہوتا ہے یہ بے شمار مختلف النوع کرمائی عناصر کے باہمی تعامل کا نتیجہ ہے، جس میں پریشان کن جذبات اور کئی عمومی عناصر بھی شامل ہیں – جیسے موسم: بارش ہو رہی تھی، سڑک پھسلنی تھی، وغیرہ، وغیرہ۔ یہ تمام عناصر مل کر ایسے حالات پیدا کرتے ہیں جو ہمارے لئیے آزار اور مسائل کا سبب بنتے ہیں۔

Top