جُزوقتی تنتری مراقبے کرنا
اگرچہ، ہمہ وقتی تانترک مراقبے سے متعلق اعتکاف جو طویل مدت کے لیے ہو، فائدہ مند ہوتا ہے، زیادہ تر لوگ انہیں اختیار کرنے کے عیش سے محروم ہوتے ہیں۔ اسی لیےرنپوچے کے نزدیک یہ سوچنا ایک طرح کی محدود ذہنی تھی کہ ہم اس طرح کا اعتکاف صرف اس صورت میں کرسکتے ہیں جب ہمارے پاس تین مہینے یا اس سے زیادہ کا خالی وقت ہو، اعتکاف میں جانے کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اپنے آپ کو دوسروں سے منقطع کرلیں، بلکہ اس سے مراد ایسے عرصہ وقت میں جانے کا ہے جب ہم ایک ریاضت کے ذریعے گہری مشقوں سے اپنے ذہنوں کو لچک دار بناسکیں۔ ہر صبح کو اور ہر رات (اس مشق کا) ایک اجلاس جب ہم دن کے بقیہ حصّے میں معمول کی زندگی گزار رہے ہوں، پوری طرح قابل قبول ہے۔ خود رنپوچے نے اپنے بیشتر اعتکافات میں یہی طریقہ اختیار کیا، بغیر کسی کے جانے کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔
مشق کے اس طریقے کے ساتھہ صرف ایک ہی پابندی ہے، اور وہ ہے اعتکاف کی پوری مدت میں ایک ہی بسترپر سونے اور ایک ہی اندازمیں مراقبہ کرنے کی۔ ورنہ روحانی توانائی کو ابھارنے کی رفتار سست ہوجاتی ہے۔ اس کے علاوہ، اعتکاف کے پہلے اجلاس میں طے شدہ اعداد کے مطابق ہر اجلاس میں ایک معینہ مقدار کے منتر، سجدے اور دیگر تکرار آمیز رسومات کو شامل کرنا ضروری ہوتا ہے۔ لہذا، رنپوچے نے اس بات کی ہدایت دی ہے کہ ابتدائی اجلاس میں مقررہ رسم کو بس تین بار ادا کیا جائے۔ اسی طرح، سخت بیماری کی حالت میں اعتکاف کا سلسلہ منقطع نہیں ہوگا اور ہمیں اس رسم کو دوبارہ بالکل ابتدا سے شروع سے ادا کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔
جب ضرورت چلّے کی پابندیوں پر غالب ہو
بہرحال، جیسا کہ بودھی نظم و ضبط کی تمام مشکلات کے ساتھہ ہوتا ہے، "ضرورت کبھی کبھی ممانعت پر غالب آجاتی ہے"، لیکن صرف کچھہ مخصوص حالات کے تحت- ایک بار دھرم شالہ میں مجھہ سے یہ کہا گیا کہ میں ایک ہمالیائی شہر منالی میں مترجم کا کام انجام دوں جہاں اس وقت تقدس مآب دلائی لامہ عطائے اختیار کی ایک تقریب کی قیادت کر رہے تھے اور درس دے رہے تھے ۔ میں نے رنپوچے سے مشورہ کیا۔ انھوں نے کہا کہ مجھے بلا کسی شک یا جھجک کے چلا جانا چاہے۔ تقدس مآب کی مدد کرنا میرے لیے کسی بھی اور کام سے زیادہ مفید ہوگا۔ مجھے اپنی مشق کی رفتار کو بھی منقطع نہیں کرنا پڑے گا، جب تک کہ میں دن میں مراقبے کا ایک اجلاس کرتا رہوں اور ایک مقررہ تعداد میں منتروں کا جاپ کرتا رہوں جس کا تعین میں نے اپنے لیے کیا تھا۔ میں نے اس طرز عمل کو اپنایا اور تقدس مآب کے ساتھہ دس دن گزارنے کے بعد دھرم شالہ واپس جا کر اعتکاف کو پورا کیا۔
رسومات کی مناسب پابندی
رنپوچے ہمیشہ اس بات پر زور دیتے تھے کہ رسومات کو صحیح طریقے سے اور سنجیدگی کےساتھہ ادا کیا جائے۔ مثال کے طور پر، تانترک اعتکاف کا تقاضہ یہ ہوتا ہے کہ کچھہ منتروں کا ورد ایک مخصوص تعداد کےمطابق کیا جائے اور اس کےبعد "آگ کی پوجا" کی جائے۔ آگ کی پوجا ایک پیچیدہ رسم ہے جس میں خاص اشیا کو آگ کی نذر کیا جاتا ہے۔ مشق کے دوران سرزد ہونے والی کسی کوتاہی کی تلافی کے لیے یا اپنے آپ کو کسی غلطی سے پاک کرنے کے لیے، اس رسم کو ادا کیا جاتا ہے۔
کچھ اعتکاف تو بہت زیادہ مشکل ہوتے ہیں۔ ایک جو میں نے کیا تھا، جس میں دس لاکھہ مرتبہ منتر کا ورد اور نہایت اہتمام سے کی گئی آگ کی پوچا کے دوران دس ہزار گھاس کے تنکے کے جوڑوں کو منتر کا جاپ کرتے ہوئے آگ کی نذر کرنا پڑتا ہے۔ پورے دس ہزار جوڑوں کو ایک ہی اجلاس میں بغیر کسی وقفہ کے آگ کی نذر کرنا ہوتا ہے۔ اس اعتکاف کے اختتام پر جب میں نے اپنی پوجا کا اہتمام کیا تو گھاس کے تنکے کم پڑ گئے۔ بہر حال، دوسری رسومات کو پورا کرنے کے بعد رنپوچے کو میں نے مطلع کر دیا۔ انھوں نےکچھہ دن بعد آگ کی پوجا مجھہ سے دوبارہ کروائی۔ اس مرتبہ میں نے پہلے سے اس بات کی تصدیق کر لی تھی کہ میرے پاس گھاس کے تنکوں کے پورے دس ہزار جوڑے موجود ہوں!
چونکہ رسومات کے ماہرین ہمیشہ دستیاب نہیں ہوتے ہیں، اسی لیے، رنپوچے اس پر اصرارکرتے تھے ہم خود کفیل ہوں۔ انھوں نے اپنے ترقی یافتہ مغربی شاگردوں کو یہ سکھایا کہ کس طرح وہ خود آگ کی پوجا کریں۔ کس طرح آگ کے لیےکھڈ بنائیں اور کس طرح رنگین پاؤڈر سے اس کےصحن پر مقررہ قسم کے منڈل کا نقش بنائیں۔ اگر مغربی لوگوں کو رسمی دعاؤں کی قرآت کے لیے کسی اور کی ضرورت ہو، جو ان کی زبان میں اب تک موجود نہ ہوں تو پھر رنپوچے ان کو یہ سمجھاتے تھے کہ ان کوکم ازکم اپنے ہاتھوں سے اشیا کو آگ کی نذر کرنا چاہیے۔ یہ طریقہ کسی مجموعی اعتکاف کے لیے بھی صحیح مانا جاتا ہے۔
رسومات کو صحیح طور پر ادا کرنے میں اور حقیقت پسند ہونے میں کوئی تضاد نہیں۔ مثال کےطور پر ، تانترک اعتکاف کی شروعات کسی گھریلو قربان گاہ پر نذر گزاری کےساتھہ ہوتی ہے، اور پھر مشکلات کو دور کرنےکے لیے یہ نذر ہرروز پیش کی جاتی ہے۔ مشکلات کو دخل اندازی کرنے والی روحوں کی شکل میں تصور کیا جاتا ہے۔ اور انھیں ہر روز نذر میں پیش کی گئی اشیا کو کھانے کے لیےمدعو کیا جاتا ہے۔ رنپوچے کی ہدایت یہ تھی کہ روایتی سامان آرائش سے مزین تورما کی جگہ کسی طرح کی مٹھائی یا بسکٹوں کے استعمال میں کوئی مضائقہ نہیں۔
نا اہل ہونے کی صورت میں ترقی یافتہ عبادات سے پرہیز
رنپوچے اس چیز سےناخوش تھے کہ ناقابل لوگ اعلٰی درجے کی مشق کرنے کی کوشش کر رہےہوں۔ مثال کےطور پر کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو آخری درجے کی مکمل مرحلوں کی مشق کی کوشش کرنےلگتے ہیں۔ جب کہ ان کو طویل مراقبے، سادھنا، سےکوئی دلچسپی ہی نہیں ہوتی اس پر عبور حاصل کرنا تو دور کی بات ہے۔ تنتر کے سب سے اعلٰی درجے یعنی انوتر یوگا کےدو مراحل ہوتے ہیں، پہلی نسل کا مرحلہ اور پھر مکمل مرحلوں کی مشقیں۔ اول الذکر مرحلہ سادھنا کی مشق کےذریعے تخیل کی طاقت اور ارتکاز کی تربیت کرتا ہے۔ بعد کا مرحلہ ذہن کی ترقی یافتہ طاقتوں کا استعمال جسم کی ناقابل تشریح توانائی کے نظام کےساتھہ ایسی حقیقی قلب ماہیت کی خاطر کرتا ہے۔ سادھنا کی مشق کے ذریعہ حاصل ہونے والی ہنر مندیوں کےبغیر اس ناقابل تشریح نظام کی چکروں، نہروں اور توانائی کی اندرونی لہروں کا تصور ایک فریب ہے۔
رنپوچے نےمتنبہ کیا تھا کہ ترقی یافتہ تنتر مشقیں نہایت مضر بھی ہو سکتی ہیں اگر انھیں کوئی نا اہل شخص غلط طریقے سے انجام دے۔ مثال کےطور پر، شعور کی منتقلی (پھووا) کی مشق جس کا مطلب ہے یہ فرض کر لینا کہ ہم اپنے سر کے اوپر سے، اپنے شعور کو، موت کی توقع کےساتھہ، اپنا ہدف بنا رہے ہیں، زندگی کی مدت کو مختصر بھی کر سکتا ہے۔ علاج کی گولیوں کے جوہر کو لینا (چولن) جس کے دوران ہفتوں کا روزہ رکھا جاتا ہے اور صرف متبرک یادگار گولیوں پر زندگی گزارنی ہوتی ہے۔ بالخصوص اگر ایک گروہ کےساتھہ یہ مشق ادا کی جائے تو اِس کےباعث اس علاقے میں قحط بھی پڑ سکتا ہے۔ علاوہ ازیں، اس طرح کی مشق کرنے والا غذا اور پانی کی کمی کے باعث شدید طور پر بیمار بھی پڑ سکتا ہے۔ یہاں تک کہ مر بھی سکتا ہے۔
تانترک اعتکاف بجائے خود ایک اعلٰی درجے کی مشق ہے اور رنپوچے نے اس بات کی تنبیہہ کی ہےکہ مناسب وقت سے پہلے اس کو نہیں اپنانا چاہیے۔ مثلاً کبھی کبھی لوگ اعتکاف میں یہ سوچ کر شامل ہو جاتے ہیں کہ وہ اس کے دوران ایک لاکھہ منتروں کا ورد کر لیں گے، حالانکہ وہ مشق کے طریقے سے نابلد ہوتے ہیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ اعتکاف کے دوران ان کی رسائی تجربے تک ہو جائے گی۔ اگرچہ ایک مخصوص بات کے لیے گہرے مطالعے اور کسی خاص طریقے کی مشق سے مانوس ہونے کی کوشش اپنے آپ میں فائدہ مند ہے، لیکن یہ کام کسی باقاعدہ تانترک اعتکاف میں کرنے کا نہیں ہے۔ کوئی شخص جو تیرنا نہ جانتا ہو، دن میں بارہ گھنٹے تک تالاب میں مشق کے ساتھہ اپنی تربیت کا آغاز نہیں کرتا۔ اس طرح کی بیوقوفی سے بس جوڑوں کا درد اور تھکان ہی ہاتھہ آئے گی۔ گہری تربیت صرف تجربہ کار تیراکوں کے لیے ہوتی ہے جو چوٹی کے تیراک بننا چاہتے ہیں۔ یہی بات تانترک مراقباتی اعتکافات پر بھی صادق آتی ہے۔
اپنی عبادت کے بارے میں تعلّی سےگریز
مزید براں، تانترک مشق نجی طور پر ہی کرنی چاہیے، ورنہ اس میں خلل پیدا ہو سکتا ہے۔ رنپوچے نے یہ دیکھا تھا کہ بہت سے مغربی لوگ نہ صرف یہ کہ اپنی مشقوں اور کامرانیوں کو اپنے آپ تک محدود نہیں رکھتے، وہ ان پر ڈینگ بھی مارتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ بدھ کی کسی خاص شبیہہ کے مطابق اپنے آپ کو ایک عظیم یوگی مشق کرنے والا سمجھہ کر بڑ ہانکنا مہمل بات ہے جب کہ زیادہ سے زیادہ ہم یہی کر رہے ہوتے ہیں یا کر چکے ہوتے ہیں کہ مختصر اعتکاف کے دوران مروجہ منتروں کا لاکھہ دو لاکھہ مرتبہ جاپ کرلیں۔ اور یہ کہ اس کو لے کر ڈینگیں مارنا اور اترانا، جبکہ ہم روزانہ بدھ کی شبیہہ کے مطابق طویل سادھنا سے بھی قاصر ہیں، ایک زیادہ افسوسناک بات ہے۔ رنپوچے ہمیشہ اس بات کی وضاحت کرتے رہے کہ طویل سادھنا نو آموزوں کے لیے ہے۔ اکثر یہ سادھنا کسی لمبے اوپیرا کی تحریر کی طرح ایک سو سے زائد صفحوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ مختصر اور مخفف سادھنا صرف ترقی یافتہ مشاقوں کے لیے مخصوص ہے جو مشق کے پورے طرز عمل سے واقف ہوں اور جو چند لفظوں کی قرآت کے ذریعے مطلوبہ مشق کو متصور کر سکیں اور اس کےطریقے کو برت سکیں۔
دانستہ ابہام کے ذریعہ تعلیم دینے کے تنتری طریقے کا اعتراف
رنپوچے یہ ہدایت دیتے تھے کہ مغربی لوگ یہ توقع نہ کریں، خاص طور پر تنتر کے سلسلے میں، کہ ساری تعلیمات و احکامات شروع ہی سے ان کو ایک آسان اور منظم شکل میں مل جائیں گی۔ عظیم ہندوستانی اور تبتی گرو پوری طرح اس کے اہل تھے کہ متن کو شفاف طور پر لکھہ سکیں۔ اس کے باوجود انھوں نے جان بوجھہ کر ایک مبہم اسلوب اپنایا تھا۔ تانترک معلومات کو بالکل صاف اور آسان طریقے سے بیان کیا جا ئے تو اس میں مداخلت کی زیادہ گنجائش ہوتی ہے اور اس کے نتیجے میں مشق کی سطح میں گراوٹ آتی ہے۔ مثلاً لوگ تعلیمات کو طے شدہ مفہوم کا حامل سمجھہ لیتے ہیں اور ان کی باریکیوں تک پہنچنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کرتے۔
ایک اہم بودھی تعلیماتی طرز عمل یہ ہے کہ تفہیم کے سلسلے میں سننے والوں کو سوال کرنے کی ترغیب دی جائے۔ اگر طلبہ کو واقعی دلچسپی ہے تو وہ مزید وضاحت طلب کریں گے۔ اس طریقے سےوہ لوگ جو "روحانی سیاح" ہیں، وہ چھانٹ دیے جاتے ہیں، جو کہ روشن ضمیر بننے کے لیے جو ریاضت درکار ہوتی ہے اس کےمتحمل نہیں ہوسکتے۔ تقدس مآب دلائی لامہ نے آسان زبان میں تشریح کی اشاعت کی اجازت اُن معاملوں می دی ہے جہاں اس کا مقصد تنتر کے سلسلے میں لوگوں کےمسخ شدہ اور منفی تصورات کو دور کرنا ہو۔ بہر حال، یہ تشریحات صرف اصولی مسئلوں تک محدود ہیں اور ان کا اطلاق بودھ کی کسی شبیہہ کی مخصوص مشقوں پر نہیں ہوگا۔ کوئی آسان یا "اسے کس طرح سے کرنا ہے" قسم کا ہدایت نامہ اگر دستیاب ہو جائے تو لوگ کسی استاد کی نگرانی کے بغیر ترقی یافتہ مشقیں کرنے کی کوشش کریں گے، جو خطرناک بھی ہو سکتا ہے۔
دھرم کے محافظوں کو غیر اہم نہ جاننا
رنپوچے نے یہ تنبیہہ کی ہے کہ دھرم کے محافظوں کو بہت ہلکے پن کےساتھہ لینا ہی سب سےزیادہ خطرناک عمل ہے۔ دھرم کی محافظ وہ صاحب اقتدار طاقتیں ہوتی ہے، اکثر روحوں کی شکل میں، جنھیں عظیم گروؤں نے سدھا رکھا ہو۔ انہی نے بالعموم تشدد پر آمادہ رہنے والی ان ہستیوں کو اس عہد کا پابند کر رکھا ہوتا ہےکہ وہ بدھ کی تعلیمات )دھرم( اور ان پر خلوص کے ساتھہ عمل کرنے والوں کی حفاظت کریں گی اور ہر قسم کےنقصانات اورصعوبتوں سےبچائے رکھیں گی- صرف عظیم یوگی ہی انھیں اپنے قابو میں رکھہ سکتے ہیں۔
رنپوچےاکثر ایک محافظ کی مثال دیا کرتے تھے۔ جسے ایک خانقاہ میں بحث مباحثے کی روایت کو بچائے رکھنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ اس پر لازم آتا تھا کہ جب وہ لوگ بحث مباحثے کے بجائے خانقاہ کےحدود میں تنتر کی مشق شروع کر دیں، تو وہ ان کےاس کام میں بیماری یا کوئی حادثہ لا کر رکاوٹیں پیدا کردے۔ صرف ان راہبوں کو تنتر کی مشق کی اجازت دی جاتی تھی جنھوں نےاپنی جدلیاتی تربیت پوری کر لی ہو اور اس کےبعد ان تانترک کالجوں میں جہاں تنتر کی مشق کی اجازت تھی، ان میں سے ایک میں تعلیم حاصل کی ہو۔ لیکن اس حالت میں بھی خانقاہ کی دیواروں کےحدود میں اس کی اجازت نہیں تھی۔
ایک گیشے جو ابھی طالب علم تھا، خانقاہ کی زمین پر تنتر سے منسوب صنوبر کےپتے جلا کر نذر گزارا کرتا تھا۔ اس عمل میں اس کو ہمیشہ رکاوٹیں درپیش ہوتی تھیں۔ اس کے بعد، اس نے ایک تانترک کالج میں داخلہ لے لیا، اور گریجوئیشن کے بعد، خانقاہ کے باہر ایک پہاڑی کے پاس اسی طرح نذر گزارنے کا سلسلہ شروع کردیا۔ پھر کچھہ سال بعد، جب اس گیشے کو خالی پن کا براہ راست، غیر تصوراتی تجربہ ہوا، اس وقت وہ محافظ اس کے خواب میں نمودار ہوا۔ دیکھنے میں ڈراؤنی نظر آنے والی اس روح نے معافی مانگی اور کہا "مجھے افسوس ہے کہ اس سے پہلے مجھے آپ کو ستانا پڑا، لیکن وہ اس خانقاہ کے بانی کے ساتھہ میرے عہد کا حصہ تھا۔ اب جب کہ آپ نے خالی پن کے کھرے ادراک تک رسائی حاصل کر لی ہے، میں آپ کو اگر چاہوں بھی تو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی"۔
رنپوچے نے اس مثال کی اہمیت پر بہت زور دیا۔ ایسی ہستیوں کے ساتھہ کھیل کرنا جنھیں ہم قابو میں نہیں رکھہ سکتے، ہمیں آفت میں مبتلا کر سکتا ہے۔ وہ ہمیشہ تقدس مآب کے قول کا حوالہ دیتے تھے، جنھوں نے یہ کہا تھا کہ دھرم کے محافظ بدھ کی شبیہہ کے خادم ہیں۔ صرف وہ لوگ جو انوتّر یوگ تنتر کی جیسی تخلیقی طاقت کی سطح تک پہنچ چکے ہیں اور جو بدھ کی شبیہہ کے طور پر اپنا حکم چلانے کے اہل ہو چکے ہوں، صرف انھی کو اس عمل میں ہاتھہ ڈالنا چاہیے۔ بصورت دیگر قبل از وقت اس میں ملوث ہونا کسی بچے کا اپنی حفاظت کے لیے ایک بہت بڑے شیر کو بلانے کے مترادف ہوگا۔ ایسا ہو سکتا ہے کہ وہ شیر بچے کو نگل جائے۔ تقدس مآب کی یہ ہدایت ہے کہ ہمارا سب سے بڑا محافظ ہمار کرم ہے جو ہمارے اعمال سے پیدا ہوتا ہے۔ مزید برآں تین رتن کی پناہ میں جانے، یعنی بدھ، دھرم اور روحانیوں کے فرقے میں شمولیت کا نتیجہ کیا ہوا؟