تقدس مآب دلائی لاما کی زندگی کو ممکنہ خطرہ
سرکونگ رنپوچے کا انتقال ان کی زندگی سے کہیں زیادہ غیر معمولی تھا۔ سن ۱۹۸۳ء کے جولائی مہینے میں انھوں نے سپیتی کی تابو خانقاہ میں دلائی لامہ کے ذریعے کالچکر کی عطائے اختیار سے متعلق تقریب کا انعقاد کیا تھا۔ اس کے بعد انھوں نے ایک مقامی راہب کاچن ڈروبگیال کو یہ بتایا کہ تبتی نجوم کے مطابق تقدس مآب کے لیے وہ سال روکاوٹوں والا سال تھا۔ تقدس مآب کی زندگی خطرے میں تھی۔ یہ بہتر ہوگا کہ تقدس مآب پر آنے والے مصائب وہ اپنے اوپر لے لیں۔ انھوں نے اُس بوڑھے راہب کو یہ تاکید کی کہ وہ کسی سے یہ بات نہ بتائے۔
اس کے بعد رنپوچے تین ہفتے کے لئے سخت مراقباتی اعتکاف میں چلے گئے۔ اس کے بعد وہ پاس کے ایک تبتی فوجی کیمپ میں "بودھی ستوا رویہ اختیار کرنا" دینے کے لیےگئے۔ رنپوچے اس پورے متن کو ایک طویل مدت میں دھیمی رفتار سے پڑھانے والے تھے، لیکن انھوں نے بڑی تیزی سے اس کو ختم کر لیا۔ پہلے سے طے شدہ پروگرام کے برخلاف وہ کچھہ دن پہلے ہی کیمپ سے چلے گئے، یہ کہہ کر کہ انھیں کسی خاص مقام پر جانا تھا۔ یہ ۲۹ اگست ۱۹۸۳ء کا وہی دن تھا جس دن تقدس مآب جینیوا، سوئٹزرلینڈ کا ہوا ئی سفر کر رہے تھے۔ تنظیم آزادی فلسطین کے صدر یاسر عرفات بھی اُس وقت وہاں آنے والےتھے۔ پولیس کے عملوں کو یہ خدشہ تھا کہ عرفات کے خلاف کوئی ممکنہ دہشت گردانہ حملہ ہو سکتا ہے۔ ان لوگوں نے خبردار کر دیا کہ وہ تقدس مآب کی حفاظت کی ذمہ داری نہیں لے سکتے۔
تقدس مآب کی اپنی زندگی کے مصائب سے نمٹنے کی تیاری
رنپوچے اور نگاوانگ ایک جیپ پر تیزی سے نکل گئے۔ بس ذرا سی دیر کے لیے وہ تابو خانقاہ میں رک گئے تھے۔ جب رنپوچے نے کاچن ڈروبگیال سے کہا کہ وہ بھی ان کے ساتھہ چلیں تو اس بوڑھے راہب نے جواب دیا کہ اس نے اپنے لباس کو دھویا ہے۔ رنپوچے نے کہا "اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا" اور یہ کہ وہ اس زیرجامے میں بھی چل سکتے ہیں۔ بھیگے ہوئے لباس کو جیپ کے اوپر سُکھانے کے لیے باندھ دیا جائے گا – اُس بوڑھے راہب نے یہی کیا۔
جب وہ سپیتی وادی کے کافی اندر چل رہے تھے، رنپوچے نے نگاوانگ سے یہ کہا کہ وہ ہمیشہ ان کو درد مندی کا منتر "اوم منی پدمے ہوُم" کا ورد کرنے کی تلقین کرتے رہے لیکن انھوں نے کبھی بھی اس کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ یہ ان کی آخری تلقین ہوگی۔
اس کے بعد وہ کیئ خانقاہ میں رُک گئے۔ رنپوچے نذر گزارنا چاہتے تھے۔ نگاوانگ نے یہ کہا کہ دیر ہو چکی ہے اور وہ اگلے دن صبح اس کے لیے جا سکتے ہیں، لیکن رنپوچے نے اسی وقت جانے پر اصرار کیا۔ بیشتر وقت رنپوچے بہت دھیمی رفتار میں اور دقّت کے ساتھہ چلتے تھے۔ لیکن کبھی کبھی وہ دوڑ بھی لگا لیتے تھے۔ مثلاً، ایک بار ہوائی اڈے پر جب ہم اُڑان کے لیے تاخیر سے پہنچے تھے، رنپوچے نے اتنی تیز دوڑ لگائی تھی کہ ہم میں سے کوئی بھی ان کا مقابلہ نہیں کر سکا تھا۔ اسی طرح، ایک مرتبہ بودھ گیا میں، جہاں تقدس مآب ایک عام قرآت کے اجلاس میں جہاں بدھ کے لفظوں ("کانگیور") کی ایک سو جلدوں پر مشتمل تبت کے ترجمے کی قرآت ہو رہی تھی، اس تقریب میں شرکت کر رہے تھے۔ رنپوچے تقدس مآب کے بغل میں بیٹھے ہوئے تھے، اور میں ان کے عین پیچھے۔ جب تقدس مآب کے کےکھلے ہوئے متن کا ایک ورق ہوا اُڑا لےگئی تو رنپوچے نے اسی لمحہ لپک کر اُسے صحن میں سے اُٹھا لیا تھا۔ عام طور پر اپنی جگہ سے اُٹھنے کے لیے انھیں سہارے کی ضرورت ہوتی تھی۔ کیئ خانقاہ میں اس موقعے پر وہ کسی سہارے کےبغیر پہاڑی کی پگڈنڈی پر ڈھلان کی طرف تیزی سے جا رہےتھے۔
نذر گزارنے کے بعد کیئ کے راہبوں نےان کےوہاں رات گزارنے کی درخواست کی جسے انھوں نے ٹھکرادیا، یہ کہہ کر کہ اُس رات انہیں کیئبار گاوٴں پہنچنا تھا۔ اگر وہ اُن سے دوبارہ ملنا چاہتے ہوں تو انہیں وہیں اوپر جانا پڑے گا۔ آنے والے حادثے کے بارے میں یہ بالواسطہ پیغام دے کر وہ وہاں سے جلدی نکل گئے۔
جب رنپوچے اور ان کےساتھی اونچائی پر کیئبار گاؤں میں پہنچے تو وہ ایک کسان کےگھر گئے جس سےرنپوچے کی شناسائی تھی۔ وہ شخص اپنےکھیتوں پر تھا اور اُسے کسی مہمان کے آنے کی توقع نہیں تھی۔ رنپوچے نے اُس سے پوچھا کہ کیا اُسے آئندہ ہفتے کےدنوں میں کوئی خاص مصروفیت ہے۔ کسان نے کہا نہیں اور رنپوچے کو اپنےساتھہ ٹھہرنے کی دعوت دی۔
رنپوچے کے مراقبے میں وصال کی شام
رنپوچے نے ہاتھہ، منہ دھوئے، دہی کھایا اور پھر تسونگکھاپا کے "معنی ہے کہ تشریحات ضرورت اور معنی ہے کہ حتمی ہیں کی ایک بہترین تفسیر کا خلاصہ" سے ایک حصّے کی تلاوت کی، جس میں تقریباً دو گھنٹے صرف ہو گئے۔ تلاوت ختم کر کےانھوں نے نگاوانگ کو بلایا اور کہا کہ ان کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ اس کے بعد رنپوچے نے اپنا سر نگاوانگ کے کندھوں پر رکھہ دیا جو وہ عام طور پر کبھی نہیں کرتے تھے۔ اب جب ہم پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں تو لگتا ہے کہ وہ الوداع کہہ رہےتھے۔ اس کے پہلے انھوں نے چوندزیلا کو شملہ بھیج دیا تھا۔ چونکہ جو کچھہ ہونے والا تھا اُسے برداشت کرنا اس کے لیے بہت زیادہ مشکل ہوتا۔ چھہ سال کی عمر سے وہ چوندزیلا رنپوچے کےساتھہ رہتا آیا تھا۔ انھوں نے اُسے اپنے بیٹے کے طرح پالا تھا۔
نگاوانگ نے پوچھا کہ کیا وہ کسی ڈاکٹر کو بلائے یا دوا لے آئے، لیکن رنپوچے نے منع کر دیا۔ نگاوانگ نے پھر یہ پوچھا کہ کیا وہ ان کے لیے کچھہ اور کر سکتے ہیں، تو انھوں نے کہا کہ وہ حاجت خانے تک جانے میں ان کی مدد کریں۔ اس کے بعد رنپوچے نے نگاوانگ کو ان کا بستر لگانے کے لیے کہا۔ عام معمول کے مطابق پیلی چادر کے بجائے رنپوچے نے نگاوانگ سے یہ کہا کہ وہ بستر پر سفید چادر بچھائیں۔ تانترک مشقوں میں زرد رنگ کا استعمال کسی شخص کی دوسروں کو مدد دینے کی صلاحیت میں اضافے کے لیے کیا جاتا ہے۔ جب کہ سفید (رنگ) کا مقصد رکاوٹوں کو ٹھنڈا کرنا ہوتا ہے۔
اس کے بعد رنپوچے نے نگاوانگ اور کاچن ڈروبگیال کو اپنی خواب گاہ میں آنے کے لیے کہا۔ پھر رنپوچے دائیں کروٹ سے لیٹ گئے، بدھ کے نیند کے انداز میں- بجائے اس کے کہ وہ عام چلن کے مطابق اپنا بایاں بازو اپنے اوپر رکھہ لیتے اور دائیں بازو سے اپنے سر کو ٹیک لگاتے، انھوں نے تانترک معانقے کے انداز میں ایک بازو کو دوسرے بازو کےاوپر ڈال دیا۔ بہ ظاہر مراقبے کے اُس عمل کے دوران جسے "داد و دہش اور قبولیت" (تونگلن) کا نام دیا جاتا ہے۔ وہ انہتر سال کےتھے اور پوری طرح صحت مند۔ دو مہینے پہلے ہی میں ان کو مفصل طبی معاینے کے لیے دہلی لےگیا تھا۔
عین اسی وقت جب کہ تقدس مآب جینیوا جانے والے ہوائی جہاز پر سوار تھے صدر عرفات نے اپنا ذہن تبدیل کیا اور اپنا سوئٹزرلینڈ کا سفر ملتوی کردیا۔ اس طرح ہوائی اڈے پر دہشت گردی کے حملے کا خطرہ ٹال دیا گیا۔ اگرچہ تقدس مآب کی زندگی پر منڈلاتا ہوا خطرہ اب باقی نہیں رہ گیا تھا، لیکن ان کے ساتھہ کے لوگوں کا جلوس ہوائی اڈے اور ہوٹل کے بیچ کےراستےمیں کہیں گم ہوگیا۔ بہر حال، تقدس مآب کسی طرح کا نقصان اٹھانے سے بچ گئے۔ سرکونگ رنپوچے نے کامیابی کے ساتھہ تقدس مآب کی زندگی کو پیش آنے والی زحمتیں اپنے اوپر لے لی تھیں اور اس کے بدلے میں اپنی زندگی کی توانائی انھیں بخش دی تھی۔
مراقبے کا لین دین جسے رنپوچے نے مصائب سے نمٹنے کے لئے استعمال کیا
داد و دہش اور قبولیت ایک ترقی یافتہ بودھی ستوا تکنیک ہے جس کے ذریعے ہم دوسروں کےمصائب اپنے اوپر لے کر انھیں خوشیاں بخش دیتے ہیں۔ جب بھی رنپوچے اس مشق کو سکھاتے تھے، وہ یہ کہتے تھے کہ ہمیں دوسروں پر آنے والے مصائب اپنے اوپر لے لینے چاہیئیں، چاہے اس میں ہماری جان ہی کیوں نہ چلی جائے۔ وہ ہمیشہ کونو لامہ رنپوچے کی دی ہوئی ایک مثال دہراتے تھے جس میں ایک شخص نے ان کےوطن میں کسی اور شخص کے سر کی چوٹ اپنے سر پر لے لی تھی اور اس کے نتیجے خود اپنی جان سے گزر گیا تھا۔ جب ہم لوگوں نے ان سے پوچھا کہ اگر وہ خود ایسا کریں تو کیا یہ اپنی زندگی کو ضائع کرنا نہیں ہوگا، تو انھوں نے جواب دیا کہ نہیں۔ انھوں نے تشریح کی کہ یہ کسی خلاباز کی مہم جیسا ہے جو دنیا کی ترقی کے لیے اپنی زندگی قربان کر دے۔ جس طرح خلاباز کی شہرت اس کے خاندان کے لیے سرکاری پنشن لے آئے گی، اسی طرح لامہ کی قربانی کی یہ عظیم مثال، ان کے شاگردوں کو روحانی غذا فراہم کرے گی۔
موت سے قربت کی حالت میں تین دن کا مراقبہ
سرکونگ رنپوچے نے موت کے مرحلے میں اختیار کیے جانے والے مراقبے کے اسی انداز میں صاف روشنی کے ساتھہ تین دن گزار دیے۔ ایسے لوگ جو اپنے پنر جنم کا رخ متعین کرنے کے اہل ہوں، اس مراقبے کو بالعموم یا تو لاماؤں کے سلسلئہ تناسخ کو جاری رکھنے یا پھر اس سلسلے کو طاقت بہم پہنچانے کی غرض سے اختیار کرتے ہیں۔ اس مراقبے کے دوران ان کا دل گرم رہتا ہے اور ان کے جسم کا انحطاط شروع نہیں ہوتا گرچہ وہ سانس لینا بند کر چکے ہوتے ہیں۔ عام طور پر، بڑے لاما اس حالت میں کئی روز تک رہتے ہیں، جس کے بعد ان کا سر لڑھک جاتا ہے اور نتھنوں سے خون جاری ہو جاتا ہے، جس سے اس بات کا اشارہ ملتا ہے کہ ان کےجسم سےشعور رخصت ہو چکا ہے۔
جب سرکونگ رنپوچے کےسلسلے میں یہ نشانات نمودار ہوئے تو آسمان میں قوس قزح کی چمک پھیل گئی اور وہ بنجر پہاڑ جہاں اُنھیں نذرِ آتش کیا جانا تھا وہاں انوکھی قسم کی روشنیاں دکھائی دیں۔ اگر چہ لوگوں نے دھرم شالہ پر واقع تقدس مآب کی نمگیال خانقاہ میں موت کی خبر بھجوادی تاکہ راہب وہاں آخری رسوم کی ادایگی کے لیے آجائیں، لیکن ان کا گروہ وقت پر نہیں پہنچ سکا تھا۔ سپیتی کے راہبوں نے معمولی طریقے سے ان کی آخری رسومات ادا کردیں، جیسا کہ خود رنپوچے کی خواہش رہی ہوگی۔ کچھہ ہی عرصہ بعد چتا جلائے جانے والے مقام سے تازہ پانی کا ایک چشمہ پھوٹ نکلا جس کے پانی میں قوت شفا پائی جاتی تھی۔ وہ چشمہ آج بھی جاری ہے اور وہ جگہ ایک زیارت گاہ بن گئی ہے۔ ٹھیک نو مہینے کے بعد، ۲۹ مئی ۱۹۸۴ء کے دن سپیتی کے ایک معمولی خاندان میں رنپوچے نے دوبارہ جنم لیا۔
اپنے پنر جنم کی ہدایات
کچھہ سال پہلے، رنپوچے کی ملاقات ایک میاں بیوی سے ہوئی تھی جنھوں نے انہیں بہت متاثر کیا تھا۔ ان کے نام تھے تسیرِنگ چوڈرگ اور کونزانگ چوڈون۔ بڑی پابندی کے ساتھہ دھرم کی مشق کرنے والےاس جوڑے نے ان سے کہا تھا کہ وہ راہب اور راہبہ بننا چاہتے ہیں۔ مقامی گاؤں کے سرغنہ نے ان کی اس خواہش کو اس لیے ٹھکرا دیا تھا کہ خانقاہی زندگی کو بالغوں کےطور پر اختیار کرنے سے بہت سارے مسئلے پیدا ہوتے ہیں۔ انھیں تو سب سے پہلے اپنے بچوں کی دیکھہ بھال کرنی چاہیے۔ رنپوچے نے سرغنہ کے مشورے کی تائید کی۔ یہی وہ لوگ تھے جن کے گھر رنپوچے نے ان کے چوتھے بچے کے طور پر پنر جنم لیا تھا۔
موت کے مرحلے پر عبور رکھنے والے کسی عظیم لامہ کے پُنر جنم کا سراغ لگانے کےلیے شاگردوں میں مختلف النوع وسائل سے کام لینے کا چلن عام ہے۔ اس ضمن میں جو طریقے وہ اختیار کرتے ہیں ان میں غیبی اشارے یا استخارے کرنا اور عرفان کے بلند تر درجات تک رسائی حاصل کرنے والے گروؤں کے خواب شامل ہیں۔ پھر آخری مرحلے تک پہنچنے والے امیدوار کو، ایک جیسی چیزوں میں سے مرحوم لامہ کےترکے میں شامل اُن اشیا کی شناخت کرنی ہوتی ہے جن کا واقعی رابطہ اس لامہ کی ذات سے رہا ہو۔ اگرچہ تقدس مآب دلائی لامہ نے تنبیہہ کی ہےکہ ہم صرف اس طریقئہ عمل پر ہی اکتفا نہ کریں۔ کسی بچے میں جو مرحوم لامہ کے پنر جنم کا دعوا پیش کرے، ایسے واضح نشانات بھی ہونے چاہئیں جن کے بغیر ہم اُسے سنجیدہ امیدوار تسلیم نہیں کر سکتے۔
رنپوچے کے تناسخ کی پہچان
سپیتی کے لوگ سرکونگ رنپوچے کو ایک ولی کے برابر مانتے ہیں۔ تقریباً ہرگھر میں اُن کی تصویر پائی جاتی ہے۔ ننھے سرکونگ رنپوچے نےجب سے بولنا شروع کیا، انھوں نےگھر کے دیوار پر ٹنگی ہوئی تصویر کی طرف اشارہ کرتے ہوئےیہ کہنا شروع کیا کہ "یہ میں ہوں" بعد میں جب نگاوانگ اس بچے کو پرکھنے کے لیے اور اس کے دعوے کی تصدیق کےلیے وہاں گئے تو وہ بچہ دوڑ کر ان کی گود میں بیٹھہ گیا – وہ ان کےساتھہ ان کی خانقاہ میں واپس جانا چاہتا تھا۔
کسی کو اب ایسا کوئی شک نہیں تھا کہ وہ کون ہے۔ بہر حال، کچھہ ہی سال پہلے سپیتی کی معروف خواتین کے ایک گروہ نے ان سے یہ درخواست کی تھی کہ وہ ان کی وادی میں اپنا دوسرا جنم لیں۔ دور دراز کے سرحدی علاقے میں واقع اس مقام تک زیارت کی غرض سے جانا، اور اس کے لیے ہندوستانی حکومت سے اجازت نامہ حاصل کرنا ایک دشوار مرحلہ تھا۔ رنپوچے اگر وہیں اپنا دوسرا جنم لے لیں، تو یہ مسئلہ آسان ہوجائے گا۔ ان کے والدین، جن کے لیے یہ بہت بڑی قدر افزائی تھی، اس اعزاز پر نہایت مسرور ہوئے۔ اور انھوں نے اس وقت جب کہ رنپوچے ابھی چار سال کےتھے، ان کو دھرم شالہ لے جانے کی اجازت دے دی۔ گرچہ بچے کے والدین وقتاً فوقتاً ملنے کے لیے آجاتے ہیں، مگر خود اس بچے نے کبھی ان سے ملاقات کی خواہش کا اظہار نہیں کیا۔ شروع سے ہی وہ اپنے پرانے خاندان والوں کے ساتھہ اچھی طرح مانوس دکھائی دیتا تھا۔ وہی اس بچے کے قلبی اہلِ خانہ تھے۔
نوخیز پنرجنمے کا مجھے ہماری پہلی ملاقات پر پہچاننا
جب رنپوچے پہلی بار دھرم شالا میں آیا میں اس وقت ہندوستان سے باہر ایک لیکچر دورے پر تھا۔ واپسی کے چند ماہ بعد میں اس سے ملنے گیا، نہ تو کوئی بڑی امید لے کر اور نہ ہی کسی بد گمانی کے ساتھ۔۔ جب میں رنپوچے کے کمرے میں داخل ہوا، نگاوانگ نے لڑکے سے پوچھا کہ کیا اسے معلوم ہے کہ میں کون ہوں۔ بچے نے جواب میں کہا، "احمق مت بنو۔ بے شک، میں جانتا ہوں کہ یہ کون ہے!" چونکہ اس کی بیٹھک کی دیوار پر میری ایک تصویر نمایاں انداز میں ٹنگی ہوئی تھی جس میں میں ویٹیکن میں بوڑھے سرکونگ رنپوچے اور تقدس مآب پوپ کے درمیان ترجمان کے فرائض ادا کرتا دکھایا گیا ہوں، تو میں نے سوچا کہ شائد اس سے اُس نے مجھے پہچانا ہو گا۔ لیکن، جونہی ہم ملے، ننھے رنپوچے مجھے ایسی بے تکلفی سے ملا، جیسے کہ میں اس کے خاندان کا کوئی فرد ہوں۔ چار برس کا بچہ ایسی بناوٹ نہیں کر سکتا۔ اس بات نے، اور کسی بھی بات کی نسبت، مجھے اس کی شناخت کے متعلق قائل کیا ہے۔
چودہ برس کا رنپوچے ۱۹۹۸ میں
اب ۱۹۹۸ء میں، نئے سرکونگ رنپوچے چودہ سال کے ہو گئے ہیں۔ وہ زیادہ تر منڈ گڈ میں واقع اپنی خانقاہ میں رہتے ہیں اور وہیں تعلیم پا رہے ہیں۔ سال میں ایک یا دو مرتبہ دھرم شالہ آجاتے ہیں جب تقدس مآب کوئی اہم درس دے رہے ہوتے ہیں۔ چوندزیلا اور رنپوچے کے پرانا باورچی کا انتقال ہو چکا ہے اور نگاوانگ نے رہبانیت ترک کر کے شادی کر لی ہے اور اب نیپال میں رہتے ہیں۔ راہبوں کا ایک نیا گھرانہ، جس کے تمام افراد کا انتخاب انھوں نے اپنے پچھلے جنم میں خود کیا تھا، اب ان کی دیکھہ بھال کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر انھوں نےاپنی زندگی کے آخری کچھہ مہینوں کے دوران سپیتی اور کنّور سے دو دس سالہ لڑکوں کو اپنے خاندان میں شامل ہونے کے لیے خود منتخب کیا تھا۔
گرچہ ان کی حسِّْ مزاح بھی ان کے پیشرو جیسی ہے اور ان کا رویہ بھی انہی کے جیسا ارضی اور حقیقت پسندانہ ہے، تاہم، نو عمر سرکونگ رنپوچے کی ایک اپنی شخصیت ہے۔ ایک مدّت حیات سے دوسری تک، جو کچھہ منتقل ہوا، اس میں صلاحیتیں، رویے اور کرمک رابطے شامل ہیں۔ جہاں تک ان سے میرے اپنے رشتوں کا تعلق ہے، تو اس ضمن میں اپنے آپ کو میں کپتان کرک کے اصل "اسٹار ٹریک" ( Star Trek ) عملے کا ایک رکن تصور کرتا ہوں جس نے اب "اسٹار ٹریک: دوسری نسل" (Star Trek: Next Generation ) کے کپتان پیکارڈ کے عملے میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔سب کچھ بدل گیا ہے اور سلسلہ بھی جاری ہے۔
رنپوچے کی پرورش میں ثانوی کردار کی ادائگی
سرکونگ رنپوچےکی پرورش کےسلسلے میں اب تک میں نے اپنےآپ کو پیچھے ہی رکھا ہے۔ مجھےایسا لگتا تھا کہ سابق رنپوچے کی یہی خواہش رہی ہوگی کہ وہ خاص طور پر اپنے لوگوں کی خدمت کریں۔ بہت سےعظیم لاماؤں نے خود کو مغرب یا ایشیا کے مختلف علاقوں میں تعلیم دینے کے لیے وقف کر دیا جس سے تبتوں کو نقصان پہنچا۔ اگر تبتی بدھ مت کو اپنی مکمل ترین شکل میں زندہ رہنا ہے تو تبت کی آنے والی نسلوں کی تربیت ناگزیر ہوگی۔ یہ اس لیے کہ اس وقت بدھ مت کی مکمل تعلیمات صرف تبتی زبان میں دستیاب ہیں۔ رنپوچے نے میری تربیت اور ترقی کے لیے وہ تمام ممکنہ سہولتیں فراہم کر دی تھیں جن کا میں تصور کر سکتا تھا۔ ان کی اس مہربانی کے جواب میں خود میں نے بھی ان کے لیے یہی کچھ کرنا چاہا ہے۔
ثقافتی تصادم کو روکنے کی کوشش کے تحت، رنپوچے کی جدید تعلیم کے عمل میں، میں نے اپنے آپ کو شامل نہیں کیا۔ واقعہ یہ ہے کہ میں نے ان سے بہت زیادہ رابطہ بنائے رکھنے سے ارادتاً گریز کیا ہے، گرچہ ہم جب بھی ملتے ہیں ہمارا باہمی رشتہ کھل کر سامنے آجاتا ہے۔ میں نے ان کے مقامی تبتی استادوں کو ان کے لیے انگریزی، سائنس اور سماجی علوم کی تعلیم کا انتظام کرنے میں مدد دی ہے۔ اور انہی دراسات کی پابندی کی ہے جو ہندوستان کے تبتی اسکولوں میں مروّج ہیں۔ نتیجتاً، رنپوچے اپنے لوگوں سے پوری طرح خود کو مربوط کر سکتے ہیں۔ اسی طرح، میں نہ تو انھیں مغرب لے گیا، نہ ان کے لیے کسی کمپیوٹر یا ویڈیو پلیر کا انتظام کیا اور میں نے دوسروں کی بھی حوصلہ شکنی کی ہے کہ وہ انھیں ایسے نذرانے نہ پیش کریں۔ نیا جنم لینے والے لاماؤں کی بہت بڑی تعداد اس قسم کے کھیلوں اور ایکشن ویڈیوز کو، روایتی خانقاہی مطالعات کی بہ نسبت، اپنے لیے زیادہ پر کشش پاتی ہے۔
ایک بار پھر سے اس کا چیلا بننے کی التجا
مجھے معلوم نہیں کہ میرے اس رخ سے کتنا فائدہ پہنچا ہے، لیکن رنپوچے ایک گہرے احساس تحفظ کا اظہار کرتے ہیں اور آپ اپنی ثقافت میں پوری طرح مطمئن ہیں۔ بلوغ کی عمر تک پہنچنے کے بعد وہ مغرب کے بارے میں براہ راست سیکھ لیں گے۔ میں دعا کرتا ہوں کہ اگلی زندگی میں ایک بار پھر میں ان کا شاگرد بن جاؤں۔