سماجی ذرائع ابلاغ کے دور میں بودھی اصولوں کا اطلاق

اطلاعات کا دور انٹرنیٹ وغیرہ کی شکل میں اب ۲۰۱۱ کے اوائل میں سماجی ذرائع ابلاغ کے دور جس میں فیس بک، ٹوِٹر اور سیل فون کے ذریعہ پیغام بھجوانے کا ہمہ جا دستیاب سلسلہ شامل ہیں میں داخل ہو چکا ہے۔ اس سے لوگوں کے باہمی تعلقات میں تبدیلی آئی ہے۔ اور اس میں اگر آئی پاڈ، تمام دن موسیقی سنتے رہنا، اور ویڈیو کھیلوں کی افزائش کو بھی شامل کریں، تو اب لوگ ہر وقت اور ہر جگہ، کیا دن کیا رات،  موسیقی، کھیل، پیغام رسانی اور سماجی رابطہ کی چوپالوں سے منسلک ہیں۔ اس سب تعمیر و ترقی سے فائدے بھی ہوۓ ہیں اور ضمنی نقصان بھی۔ بہر حال ان تبدیلیوں سے لوگوں کی زندگی پر گہرا اثر ہو رہا ہے۔ میں اس امر کا جائزہ لینا چاہوں گا کہ بدھ مت کس طرح اس سماجی تبدیلی سے وقوع پذیر فوائد کو بڑھانے اور نقصانات کو کم کرنے میں معاون ہو سکتا ہے۔ میں یہاں سماجی ذرائع ابلاغ کے چند فوائد کا ذکر کروں گا، اور پھر اس سے ہونے والے نقصانات کا بھی، اور یہ کہ ان نئے مظاہر کے پیش نظر بدھ مت کا کیا موقف ہے۔

ویڈیو: ڈاکٹر شونی ٹیلر — «سوشل میڈیا اور نرگسیت»
ذیلی سرورق کو سننے/دیکھنے کے لئیے ویڈیو سکرین پر دائں کونے میں نیچے ذیلی سرورق آئیکان پر کلک کریں۔ ذیلی سرورق کی زبان بدلنے کے لئیے "سیٹنگز" پر کلک کریں، پھر "ذیلی سرورق" پر کلک کریں اور اپنی من پسند زبان کا انتخاب کریں۔

اس امر کا احساس کہ ہم جو سوچتے ہیں وہ اثر رکھتا ہے

دہشت گردی، موسمی تغیّر، جوہری ہتھیاروں کی افزائش، عالمی معاشی بحران، بے روزگاری، وغیرہ کے خوفناک امکانات کے پیش نظر لوگ اکثر غیر اہم، بے بس اور تنہا محسوس کرتے ہیں۔ سماجی چوپالیں، جیسے فیس بک انہیں ان کے خیالات اور ان کی مصروفیات کی اہمیت کا احساس دلاتے ہیں – اس طرح کہ ان کے دوست ان کی شائع شدہ باتوں پر جو ان کی روز مرہ زندگی کے متعلق ہوتی ہیں اور ان کے خیالات پر جواباً پسندیدگی کا اظہار کرتے ہیں۔ اس طرح انہیں اپنی حیثیت کا احساس ہوتا ہے، اس دنیا میں جس میں وہ اس قدر بے بس محسوس کرتے ہیں انہیں اپنے وجود کی اہمیت کا احساس ہوتا ہے۔

یہ امر کہ "میں پسند کرتا/کرتی ہوں" جیسے پیغام کے حصول کا نقصان یہ ہے کہ اس سے اپنی ذات کی اہمیت کی خود فریبی پیدا ہوتی ہے، اور اس سے نرگسیت کو فروغ ملتا ہے۔ اس کے علاوہ "میں پسند کرتا/کرتی ہوں" بہت مصنوعی اور بے معنی بھی ہو سکتا ہے۔ مزید یہ کہ ایسا احساس بھی جنم لے سکتا ہے کہ فیس بک پر ملنے والے "میں پسند کرتا/کرتی ہوں" کی کثرت تعدد کے باعث یہ لوگ ان کے پر خلوص، عمدہ دوستوں کی نسبت زیادہ اہم ہیں،اور اگر انہیں کوئی "میں پسند کرتا/کرتی ہوں" نہ ملیں تو وہ سخت دل شکنی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اپنی زندگی میں ہونے والی نہائت معمولی باتیں، جیسے ابھی آپ نے دوپہر کے کھانے میں کیا کھایا اور یہ آپ کو پسند آیا، ان کو مشتہر کرنے سے آپ کا اور دوسروں کا قیمتی وقت ضائع ہوتا ہے۔ اور جیسا کہ بودھی تعلیمات میں بیان کیا گیا ہے کہ بیکار باتیں گفتار کے چار نقصان دہ اعمال میں سے ایک عنصر ہے – یعنی بے معنی باتوں کو با معنی گرداننا۔

تو اس معاملہ میں بدھ مت کیا مدد کر سکتا ہے؟  درد مندی پر بودھی مراقبوں میں سے ایک اس بات پر زور دیتا ہے کہ ہم کس طرح سب ہستیوں کی کرم فرمائی کے محتاج ہیں۔ ہر شے جو ہم کھاتے ہیں یا جس سے لطف اندوز ہوتے ہیں وہ دوسرے لوگوں کی کاوش کا نتیجہ ہے۔ پس ہم باہمی طور پر مربوط ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے۔ اور ہر شخص، ہمارے سمیت، جو کچھ کرتا ہے اس سے دوسرے لوگوں کی زندگی پر اثر پڑتا ہے۔ وہ لوگ جو غلہ اگاتے ہیں، وہ جو اس کی نقل و حمل کرتے ہیں، وہ لوگ جنہوں نے نقل و حمل کے لئیے سڑکیں تعمیر کیں، اور سامان بردار گاڑیاں بنائں، اور جو اسے بیچتے ہیں، وغیرہ – سب چیزیں آپس میں جڑی ہوئی ہیں۔ ہمیں اس بات کی ضرورت نہیں کہ ہمارے دوست "میں پسند کرتا/کرتی ہوں" کی گردان کریں کہ ہم اپنے کھانے سے محظوظ ہوۓ تا کہ ہم خوب محسوس کریں اور یوں ہمیں اپنے وجود کی اہمیت کا احساس ہو۔ ہم یقیناً ایک وجود کے حامل ہیں اور ہم آپس میں مربوط ہیں۔

بدھ فلسفہ کے اعتبار سے، روائتی "میں" اور جھوٹی "میں" کے درمیان فرق کی جانب توجہ مبذول کرنے سے ہم دوسروں کے ساتھ اپنے تعلق کو بطور ایک حقیقت دیکھ سکتے ہیں۔ روائتی "میں" محض یہ ہے – یہ میں ہوں؛ میں بیٹھا ہوا ہوں؛ میں بات کر رہا ہوں؛ میں کھا رہا ہوں؛ میں سو رہا ہوں؛ وغیرہ۔ فریبی "میں" یہ مغرور "میں" ہے کہ ہم اپنے آپ کو اس قدر اہم سمجھتے ہیں کہ سب کو پتہ ہونا چاہئیے کہ میں نے دوپہر کو کیا کھایا؛ یہ خود ستائی کی ایک قسم ہے، ایک بڑی اور ٹھوس خودی: "میں"۔ تو بدھ مت اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اگرچہ یہ رواجی "میں" ۔۔۔۔۔ کہ بے شک ہم وجود رکھتے ہیں، لیکن یہ "میں" کا مغرور روپ محض فریب نظر ہے۔ یہ محض ایک تصور ہے۔ لہٰذا اگر ہم تیقن سے کام لیں اور اس غیر اہم اہمیت سے دور ہو جائں، یہ نرگسی اہمیت کہ "ہر کام جو میں کرتا ہوں وہ نہائت اہم ہے اور دوسروں کے لئیے دلچسپی کا باعث ہے،" اور محض اس بات کا اعادہ کریں کہ "بے شک میں ایک وجود کا حامل ہوں،" تو اس طرح ہم دوسرے لوگوں سے منسلک ہونے کو بطور ایک حقیقت کے محسوس کریں گے اس جانکاری کے ہمراہ کہ یہ حقیقت ہمیں ایک ٹھوس وجود کی حامل مغرور خودی "میں" میں تبدیل نہیں کر دے گی – ایک ایسی ہستی کی مانند جس کا مطمح نظر اپنی ذات کی بڑائی اور خود پسندی ہو۔ ہم اپنی روائتی '"میں" کے بارے میں جتنا زیادہ تیقن محسوس کریں کہ ہم جانتے ہیں کہ اس کا اپنا وجود قائم ہے اور اسے کسی توثیق کی ضرورت نہیں، اتنا ہی ہم دوسروں سے تائید کی طلب کم کر دیں گے۔

اس کے علاوہ بدھ مت ہمیں مزید پرخلوص ہونے کی تعلیم دیتا ہے۔ ایک اوپری، بے معنی "میں پسند کرتا/کرتی ہوں" کی جگہ ہم دوسروں کو زیادہ با مقصد اور پر خلوص پیغام لکھ سکتے ہیں تا کہ ان کی بقدرِ ضرورت مدد کی جا سکے۔ میرے خیال میں یہ ہمارے طرزِ تکلم کے لئیے نہائت اہم ہے۔ ایک بے معنی "ہاں، ہاں، یہ بہت عمدہ ہے" – آپ واقف ہیں کہ ایک بٹن دبائں جو کہتا ہے "میں پسند کرتا/کرتی ہوں" یہ کسی اور سے رابطہ قائم نہیں کرتا۔ اس کو اس قدر اہمیت دینا کہ آج مجھے دس لوگوں نے میرے "آج میں نے دوپہر کو کیا کھایا" کے جواب میں پسندیدگی کا اظہار کیا – بالآخر انسان کو احساس ہوتا ہے کہ یہ بہت بے معنی اور نچلے درجہ کی حرکت ہے۔

احساسِ ارتباط

سماجی ذرائع ابلاغ ان لوگوں کے لئیے بھی مفید ہیں جو غیر وابستگی کی زندگی بسر کرتے ہیں – بس کام پر جانا اور گھر واپس آ جانا، اور تنہا رہنا۔ سماجی ذرائع ابلاغ انہیں برادری کا حصہ محسوس ہونے میں مدد گار ہو سکتے ہیں۔ اس سے ان کے اندر تعلق کا احساس پیدا ہوتا ہے جس سے خیر و عافیت استوار ہوتی ہے۔ بہر حال، بطور انسان ہم سماجی مخلوق ہیں؛ اور یہ بات نہائت اہم ہے کہ ہم اپنے آپ کو برادری کا انگ محسوس کریں۔ اس کا نقصان یہ ہے کہ ہمارا اپنے اس دوستوں کے گروہ سے جس کا ہم اپنے آپ کو ایک حصہ محسوس کرتے ہیں کوئی گہرا تعلق نہیں ہوتا، اور یہ گروپ کسی کچے دھاگے سے بندھا ہوا ہوتا ہے ۔

بدھ مت روحانی دوستوں کی اہمیت پر زور دیتا ہے۔ اور اپنے آپ کو کسی گروہ کا حصہ سمجھنا فائدہ مند ہے۔ یہ چیز آشرموں میں پائی جاتی ہے۔ ہم اسے دنیا بھر میں دھرم مراکز میں بھی دیکھتے ہیں۔ لیکن اس کا کوئی بودھی گروپ یا روحانی گروپ ہونا لازم نہیں ہے جس کے ہم رکن ہیں، بلکہ کوئی بھی ایسا گروپ جو مثبت اقدار اور دوسروں کی مدد کے اصول پر تشکیل پایا ہو۔ بالفاظ دگر: اگر ہم کسی سماجی چوپال کا رکن بننا چاہتے ہیں، تو یہ نہائت فائدہ مند ہو گا کہ اس کے ربط کی بنیاد کسی مثبت اور تعمیری شے پر ہو جس میں سب شامل ہوں۔

سماجی چوپالوں کا ایک اور فائدہ یہ ہے کہ ان کی بدولت ایک کنبہ کے تمام افراد ایک دوسرے کے بارے میں باخبر رہتے ہیں اور پتہ رکھتے ہیں کہ ہر کوئی کیا کر رہا ہے۔ یہ چیز خاص طور پر ایشیائی گھرانوں کے متعلق زیادہ فائدہ مند ہے جہاں لوگوں کی شناخت ان کے خاندان کے حوالے سے ہوتی ہے نہ کہ ان کی اپنی ذات سے،  وہاں خاندان کے بڑے بوڑھے نئی پود کو اپنا ہی حصہ سمجھتے ہیں۔ لہٰذا فیس بک یا کسی بھی اور ذریعہ سے خاندان کے ہر رکن کو ایک دوسرے کی مصروفیات کا علم رہتا ہے۔ یہ نہائت فائدہ مند ہے۔ مگر اس کا نقصان یہ ہے کہ ہم مداخلت بے جا کا شکار ہو سکتے ہیں۔ یہ ہو سکتا ہے کہ ہم فیس بک یا ای میل کے ذریعہ کسی ایک شخص سے رابطہ کریں، بعض اوقات ہم جو لکھتے ہیں – میرا مطلب ہے، یہ فیس بک کے معاملہ میں خصوصاً قابل ذکر ہے – ہم جو لکھتے ہیں، خواہ ہم اسے نجی شمار کریں بھی، اس کا امکان ہے کہ اسے پانے والا ہماری رضا مندی کے بغیر اس کی تشہیر عام کر دے۔ نجی پیغامات کے لئیے ای میل یا ٹیکسٹ پیغام رسانی زیادہ موزوں ہیں، مگر ٹیکسٹ پیغام رسانی جلد ہی بیکار گپ شپ میں ڈھل جاتی ہے: نہائت فضول لکھت پڑھت۔

بدھ مت ہمیں امتیازی آگہی استوار کرنا سکھاتا ہے۔ یہاں اس سے مراد نجی اور عوامی کے درمیان تفریق کرنا ہے۔ تنتر میں ہم بعض اسباق کو نجی یا خفیہ رکھنا سیکھتے ہیں، کیونکہ ہو سکتا ہے کہ دوسرے لوگ ہماری بات کو غلط سمجھ بیٹھیں یا اس کا غلط استعمال کریں۔ ایسی امتیازی آگہی کا اطلاق زندگی کے ہر شعبہ پر کیا جا سکتا ہے اگر ہم اپنی ہر بات کی ہر خاص و عام میں تشہیر نہیں چاہتے۔ یہ محض ضبط نفس کا معاملہ ہے۔ اگر آپ فیس بک پر کوئی چیز ڈالیں تو اس بات کے لئیے تیار رہیں کہ اس کا چرچا عام ہو گا، وگرنہ ای میل یا ٹیکسٹ پیغام رسانی زیادہ بہتر ہے۔

ترغیب پکڑنا

آئیے ہم ٹوِٹر کی بات کرتے ہیں – جس میں جیسا کہ آپ جانتے ہیں، نہائت مختصر پیغام دیا جاتا ہے۔ اس کا ایک فائدہ یہ ہے کہ ایسے لوگوں سے جنہیں آپ حوصلہ افزا سمجھتے ہیں روزانہ ٹوِٹر پر کوئی پیغام وصول کرنا ان لوگوں کے لئیے جو تنہائی کی زندگی بسر کرتے ہیں فائدہ مند ہو سکتا ہے یوں کہ وہ بغیر کسی سے رابطہ قائم کرنے کے ایک انسانی تعلق محسوس کرتے ہیں۔ اس کا نقصان یہ ہے کہ آپ پیغام دہندہ جس سے آپ کو ترغیب ملتی ہے کے نقشِ قدم پر چلے بغیر خود فریبی میں مبتلا ہو کر بھلا محسوس کر سکتے ہیں۔ بہت سارے لوگ تقدس مآب دلائی لاما یا اور کوئی عظیم گرووں سے روزانہ ٹوِٹر پیغام وصول کرتے ہیں۔

بدھ مت میں ایک شے ہے جسے ہم گرو-یوگا کہتے ہیں، جس میں آپ اپنے روحانی گرو سے ملنے والی ترغیب کو مزید تقویت پہنچاتے ہیں، اس مقصد کے تحت کہ یہ احساس پیدا ہو کہ آپ کا شریر، گفتار اور من آپ کے گرو کے شریر، گفتار اور من کے ساتھ مربوط ہو گئے ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نہ صرف تصور میں بلکہ حقیقت میں اپنے گرو کی طرح قول، فعل اور سوچ کو اپنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پس اس حکمت عملی کا روحانی ہستیوں سے ماوراء ان لوگوں پر بھی اطلاق کیا جا سکتا ہے جو ہمیں ترغیب دیتے ہیں اور جن سے ہم ٹٔوِٹر پر ملتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں اگر آپ کو یہ ٹوِٹر پیغامات روزانہ وصول ہو رہے ہیں جو آپ کو کسی قدرے اہم شے سے منسلک رہنے میں معاون ہیں، تو انہیں اپنی زندگی کا حصہ بنائں، نہ کہ محض انہیں اچھا محسوس کرنے کے لئِے استعمال کریں۔

ججھک پر قابو پانا

اس کا ایک اور فائدہ یہ ہے کہ شرمیلے لوگ جو عام حالات میں رو بہ رو کسی سے بات نہیں کرتے، کھل کر دوسروں سے بات کر سکتے ہیں، خاص طور پر جب دوسرے لوگ کسی اور دیس میں ہوں، یا ہم کسی ایسی زبان میں پیغام لکھ رہے ہیں جو ہماری مادری زبان نہیں ہے۔ اکثر حالات میں لوگ زبانی بیان کی نسبت لکھ کر کہیں بہتر اپنے خیالات کا اظہار کر سکتے ہیں۔ مگر اس کا نقصان یہ ہے کہ اس سے ہماری رو بہ رو بات کرنے کی صلاحیت پر برا اثر پڑ سکتا ہے۔ ہم دوسروں کے متعلق حسیت کو کھو سکتے ہیں جو کہ آمنے سامنے بات کرنے کا حصہ ہے؛ خاص طور پر، جیسا کہ بعض لوگ کرتے ہیں، اگر ہم چیٹ روم میں جعلی شناخت بنا رکھیں اور کوئی فضول پیغام موصول ہونے پر اپنی مشین کو بند کردیں یا یونہی جواب نہ دیں کیونکہ ہمارا من اس پر مائل نہیں ہے۔ یہ در حقیقت ایک بہت بڑا مسٔلہ ہے۔

دوسری جانب، بدھ مت ہمیں سبق دیتا ہے کہ ان صفات کے متعلق مبالغہ آرائی نہ کریں جو ہم میں نہیں ہیں اور اپنی کمزوریوں کو بھی چھپانے کی کوشش نہ کریں۔ اگر ہم اس سماجی ذرائع ابلاغ سے خود اعتمادی حاصل کر لیں – اور اپنے بارے میں ایمانداری سے کام لیتے ہوۓ - پھر ہمیں اس کا اطلاق روز مرہ زندگی میں پیش آنے والے حقیقی مسائل پر کرنا چاہئِے۔ لہٰذا یہ سماجی ذرائع ابلاغ والا معاملہ کافی مدد گار ہو سکتا ہے: یعنی اگر یہ ہمیں تبادلہ گفتار کرنے میں بہت خود اعتمادی بخشے، اور ہم باہر جا کر لوگوں سے رو بہ رو بات کریں؛ نہ کہ اپنے کمپیوٹر کی سکرین کے پیچھے چھپے رہیں۔

سرعت سے گفت و شنید

پیغام رسانی بذریعہ ٹیکسٹ اور ٹوٹر کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اس سے ہم اپنے خیالات کا اظہار سرعت اور ایجاز و اختصار سے کر سکتے ہیں تا کہ ہم انہیں دوسروں تک عجلت سے پہنچا سکیں۔ ہمیں ان خیالات کو فون یا ویڈیو سکائپ کے ذریعہ بھجوانے کی ضرورت نہیں ہو گی جس پر بہت زیادہ وقت لگتا ہے۔ یہ اس وقت خاص طور پر فائدہ مند ہے جب ہم سفر کر رہے ہوں یا کوئی ہنگامی صورت حال در پیش ہو۔ ہم دوسرے لوگوں سے ہنگامی حالت میں فوری پیغام وصول بھی کر سکتے ہیں۔ اس لحاظ سے یہ بے حد مفید ہے۔ لیکن اس اختصار سے بات کرنے اور اپنے خیال کا کھل کر اظہار نہ کرنے کا نقصان یہ ہے کہ ہم اپنی بات وضاحت سے اور اچھی طرح بیان کرنے کی صلاحیت کھو بیٹھتے ہیں، یا گفتگو کے قابل ہی نہیں رہتے۔ اس سے ہماری توجہ مرکوز اور قائم رکھنے کی صلاحیت بھی کم تر ہو سکتی ہے – جس میں ہم جلدی جلدی اور محض چند لمحوں کے لئیے کچھ کر رہے ہوں۔

بدھ مت اس بات پر زور دیتا ہے کہ دوسرے لوگوں کی مدد کی خاطر ان سے با مقصد اور بخوبی بات چیت کرنے کی صلاحیت کا ہونا ضروری ہے۔ لہٰذا ٹوٹر جیسی چیزیں جس میں ایک پیغام میں شامل حروف کی تعداد پر پابندی ہوتی ہے – اس سے ہمیں ذیلی الفاظ کو حذف کرنے کی تربیت مل سکتی ہے جب کہ ہم کسی رو بہ رو گفتگو میں کوئی معقول بات سمجھانے کی کوشش کر رہے ہوں: مطلب کی بات کرو؛ یہ باقی غیر متعلقہ باتیں چھوڑو۔ لیکن ہمیں احتیاط برتنا ہے – اور پھر ٹوٹر کے ساتھ بھی – کہ ہم مطلب کی بات کریں، مگر اس حد تک اختصار سے کام نہ لیں کہ بات ہی ہونے نہ پاۓ۔

پس بدھ مت کے ہاں ارتکاز قائم کرنے کے بے شمار طریقے ہیں، یہ دیکھنے کی خاطر کہ کسی بات کا اصل نکتہ کیا ہے، اور بے شک ارتکاز استوار کرنے کے بہت سارے مراقبے بھی موجود ہیں۔ میرے خیال میں یہ ایک بہت اہم معاملہ ہے جس میں مستقبل میں بدھ مت سے مدد لی جاۓ گی۔ اگر آپ خبریں دیکھیں، تو مثال کے طور پر، آپ دیکھتے ہیں کہ خبر گو کچھ کہ رہا ہے اور سکرین کے نیچے چلنے والی پٹی کچھ اور کہ رہی ہے، اور بعض اوقات سکرین پر دو یا تین چیزیں بیک وقت چل رہی ہوتی ہیں، تو ایسی صورت میں ناظرین کے لئیے توجہ مرکوز کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔  ان کی توجہ تھوڑی سی اِس پر ہے، تھوڑی سی اُس پر، اور چیزیں بہت تیزی سے بدل رہی ہیں۔ یہ ارتکاز کے لئیے نہائت مضر ہے۔ لیکن، جیسا کہ میں کہتا ہوں، کہ اگر لوگ واقعی اپنی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے میں بہت آگے بڑھنا چاہتے ہیں تو پھر توجہ مرکوز کرنے کے معاملہ میں بدھ مت بے حد کار آمد ہو گا۔ اور ہو سکتا ہے کہ در حقیقت لوگوں کو بہت ساری مشکلات کا سامنا کرنا پڑے جس کی وجہ ذرائع ابلاغ کا ان کی توجہ کے دورانیہ کو کم کرنا ہے؛ لیکن مجھے اس پر ابھی اور کام کرنا ہو گا۔

ہمہ وقت با خبر رہنا

ایک اور بات یہ ہے کہ ایسا سیل فون جس میں انٹرنیٹ کا رابطہ موجود ہو کے توسط سے ہم کسی جگہ کسی بھی وقت رابطہ کر سکتے ہیں اور ہم تک رسائی ہر جا اور ہر دم ممکن ہے۔ اس کا نقصان یہ ہے کہ ان برقی آلوں کی سکرین پر روشنی چمکانے کی اہلیت کے باعث، یہ ہماری توجہ اپنی جانب کھینچ لیتے ہیں اور ہمیں اس کا نشہ چڑھا دیتے ہیں۔ یہ قدرے مسحور کن لگتا ہے۔ یہ بہت مشکل ہے ۔۔۔ یہ برلن میں میٹرو (ہم اسے یو-باہن کہتے ہیں) پر سفر کے دوران بڑا دلچسپ امر ہے، انہوں نے ہر ڈبے میں ٹیلیوژن کی ایک سکرین آویزاں کر دی ہے ( در اصل ٹیلیوژن کی دو سکرین)، جو خبریں، اشتہار، موسم کا حال، وغیرہ نشر کرتا ہے۔ اور یہ بات حیران کن ہے کہ آپ کی توجہ، نہ چاہنے کے باوجود بھی، اس کی طرف چلی جاتی ہے؛ ایسے جیسے کہ ہم کوئی کیڑا مکوڑا، جانور یا ایسی کوئی چیز ہیں – ایک چمکدار روشنی، اور پھر اس سے منہ پھیرنا بہت مشکل ہے۔

تو اس طرح، سیل فون اور کمپیوٹر کی سکرین ہمارے لئیے بے حد دلکش ہیں، اور ہم ان کے عادی ہو جاتے ہیں۔ اور چونکہ یہ اس قدر نشہ آور ہیں کہ ہم محسوس کرتے ہیں کہ ہمیں اپنے پیغام لگاتار چیک کرنے چاہئیں تا کہ ہم کسی چیز سے محروم نہ رہ جائں۔ مزید یہ کہ آپ کو ہر وقت قدرے عدم تحفظ کا احساس رہتا ہے اور اپنے سیل فون کو سارا دن ہاتھ میں لئیے پھرتے ہیں جس سے آپ کو جھوٹا احساس تحفظ ہوتا ہے۔ اس سے مجھے ان سادھو لوگوں کا خیال آتا ہے جو ہر وقت ہاتھ میں چھوٹا سا لوٹا – گنگا کے پانی کا ڈبہ – لئیے پھرتے ہیں جو ان کا جزوِ لازم ہوتا ہے۔ اور پھر ٹیکسٹ پیغامات اور فیس بک کے پیغامات کو سارا دن چیک کرتے رہنا اور ان کے جواب دینا وقت کا بہت بڑا ضیاع ہے کیونکہ اکثر اوقات یہ غیر اہم باتیں ہوتی ہیں۔

اپنی ذات کی جھوٹی اہمیت کے احساس سے، ہم محسوس کرتے ہیں کہ ہم کسی کے کام میں کسی بھی وقت اپنے پیغام یا فون کال سے مخل ہو سکتے ہیں۔ اور ہمارا رویہ نا شائستہ اور درشت ہو سکتا ہے؛ کیونکہ جب ہم کسی کے ہمراہ ہوں تو بھی ہم ٹیکسٹ پیغام بھجوا رہے ہوں گے یا سیل فون پر کسی اور سے بات کر رہے ہوں گے۔ یہ بات نو جوانوں میں بہت عام ہے۔

یہاں بھی بدھ مت ہمیں لگاوٹ کو کم کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ لگاوٹ کیا ہے؟ لگاوٹ سے مراد کسی شے کی خوبیوں کے بارے میں مبالغہ آرائی ہے – اس چیز کے فوائد – بعض اوقات ایسی باتیں جن کا کوئی وجود نہیں، اور منفی عناصر کو مکمل طور پر نظر انداز کرنا۔ اور پھر آپ اسے چھوڑنا بھی نہیں چاہتے۔ یہ ہے لگاوٹ۔ اگر ہم سماجی ذرائع ابلاغ کے فوائد کے متعلق ذرا وسعت نظر سے کام لیں – اور یقیناً اس کے فوائد بھی ہیں – اور نقصانات کو بھی پیش نظر رکھیں، تو اس سے ہمیں کسی حد تک اپنی لگاوٹ اور احمقانہ رویہ جو ان آلات سے پیدا ہوتا ہے  پر قابو پانے میں مدد ملتی ہے۔

بدھ مت ہمیں دوسروں کے متعلق نیک دلی، دخل اندازی سے پرہیز اور فضول باتوں سے ان کا وقت ضائع نہ کرنے کا سبق دیتا ہے۔ جب آپ بے معنی باتوں کا نقصان دہ عمل دیکھتے ہیں – فضول باتیں – تو یہ نقصان دہ کیوں ہے؟ یہ محض یہاں تک ہی محدود نہیں کہ ہم بے معنی کو بہت با معنی خیال کرتے ہیں، بلکہ ہم دوسروں کی مصروفیت میں مخل ہوتے ہیں۔ ہم اپنا اور دوسروں کا وقت ضائع کرتے ہیں۔ خاص طور پر ایسے انسان کے کام میں اپنی بے معنی باتوں سے مخل ہونا نہائت منفی اور نقصان دہ ہے جو کوئی نہائت اہم اور فائدہ مند کام کر رہا ہو۔ پس اگر ہم بدھ مت سے یہ بات سیکھیں تو یہ نہائت کار آمد ہو گا۔

آج کی تناؤ بردار دنیا سے پرے محفوظ ماحول کی فراہمی

آج کے دور میں پیش نظر زبردست، گراں اور پیچیدہ مسائل کی موجودگی میں، سماجی ذرائع ابلاغ، آئی پاڈ، ویڈیو کھیل، وغیرہ لوگوں کو اپنی توجہ کو محدود کرنے اور تحرک اور مصروفیات کے مرتکز حلقہ میں پناہ لینے میں مدد دیتے ہیں۔ اس طرح یہ دنیاوی اور ذاتی مسائل کی بابت یاس بھری سوچ سے تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ یہ دنیا اور اس کے مسائل اس قدر پیچیدہ اور مشکل ہیں، اور پھر آپ کے اپنے مسائل خواہ بے روزگاری ہو یا کچھ اور – معاشی مشکلات – اس قدر بھاری ہیں کہ آپ اپنے آپ کو اپنے دوستوں یا ویڈیو کھیلوں میں سکرین پر ایک چھوٹی سی دنیا میں پناہ لینے پر مائل ہوتے ہو۔ یا اور جو کچھ بھی: موسیقی سننا – اس قسم کی باتیں۔ تو اس طرح آپ اپنے کو کسی حد تک ایک محفوظ علاقہ میں محسوس کرتے ہو۔  

تو، بہر حال، اس کا نقصان کیا ہے؟ نقصان یہ ہے کہ آپ اپنے مسائل کا سامنا نہیں کرتے۔ یہ حقیقت سے فرار ہے۔ اس کے لئیے بدھ مت چار بلند و بالا سچائیاں پیش کرتا ہے۔ یہ مہاتما بدھ کی اصل تعلیم ہے؛ مہاتما بدھ کا مرکزی پیغام ہمارے مسائل، ہماری مشکلات کے وجود کی حقیقت کو تسلیم کرنا اور ان سے نبرد آزمائی ہے، نہ کہ ان کی عدم موجودگی کا ڈھونگ رچانا ہے۔ یہ ہم کیسے کر سکتے ہیں؟ ہم ان کے علل کا جائزہ لیتے ہیں۔ پس آپ کو اس پر غور کرنا اور اس کی تفتیش کرنا ہے۔ اور غائرانہ تفکر سے اصلی سبب نہ کہ ظاہری اسباب کی شناخت کرنا ہے۔ اور اس کی محض کوئی ایک وجہ قرار نہیں دینا ہے بلکہ یہ جاننا ہے کہ مسائل کے پیچھے بے شمار اسباب اور حالات کا باہمی تعامل پایا جاتا ہے۔ اور پھر اس بات کا احساس استوار کرنا کہ ان مسائل کی روک تھام ممکن ہے، ان سے نجات پائی جا سکتی ہے تا کہ وہ دوبارہ کبھی سر نہ اٹھائں۔

ایک بات جو نہائت دقیق و عمیق ہے اور ایک اہم تر نکتہ ہے، بشرطیکہ ہم نے بدھ مت کے پاٹھ میں حصہ لینا ہے، وہ اس امر کا تیقن ہے کہ  - ان مسائل سے اس طرح  مکش ممکن ہے کہ یہ پھر کبھی رو بہ تکرار نہ ہوں۔ یعنی ہم بدھ مت کا کوئی معمولی پاٹھ نہیں کر رہے ہیں – محض اپنے مسائل کو کم کرنے کی کوشش، لیکن ہم سوچتے ہیں کہ ان مسائل کا لوٹ کر آنا نا گزیر ہے، لہٰذا میں حالات کو ٹھیک رکھنے کی اپنی سی کوشش کروں گا۔ یہ بدھ مت کا "حقیقی ہدف" نہیں ہے۔ لہٰذا ہم اس بات کی فہم استوار کرنے پر کام کرتے ہیں کہ ان مسائل کے وقوع پذیر ہونے کو واقعی روکا جا سکتا ہے تا کہ وہ دوبارہ جنم نہ لیں۔ اور پھر ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ اس سے کیا ہونے والا ہے۔ اس سے جو بات نکلے گی اسے ہم حقیقی راہ گردانتے ہیں۔ راہ سے یہاں مراد فکر، قول، اور فعل ہے، لیکن بنیادی طور پر ایسی فہم و فراست جو ہماری غلط فہمیوں اور الجھنوں کے عین متناقض ہو۔ تا کہ الجھن کی بنا پر اپنے لئیے مزید مسائل پیدا کرنے کی بجاۓ ہم اسے درست ادراک میں بدل دیں۔ اگر ہم ایسی سمجھ بوجھ ہمہ وقت قائم رکھیں تو یہ مسائل کبھی بھی لوٹ کر نہیں آئں گے۔

لہٰذا اپنے مسائل سے گریزاں ہونے کی خاطر بجاۓ ویڈیو کھیل یا فیس بک کی بات چیت میں پناہ لینے کے ہم ان کا سامنا کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم عارضی طور پر تھوڑے سے وقفہ کے لئیے ان کی جانب منہ نہیں موڑ سکتے۔ بودھی تعلیمات میں یہ بات دلچسپ ہے: اس کا کہنا ہے کہ اگر کوئی شخص دوسری چیزوں میں پناہ لیتا ہے – لیکن یہ صورت حال عارضی ہے؛ محض ایک سرسری شے۔ مگر ہمیں اسے اپنی حتمی پناہ گاہ نہیں بنانا چاہئیے۔ 'پناہ گاہ' سے یہاں مراد وہ راہ ہے جو ہم نے اپنی زندگی کے لئیے اختیار کی ہے اور در پیش مسائل پر قابو پانے کی صلاحیت پیدا کرنے کی خاطر ہم کیا کر رہے ہیں۔

معلومات کو آپس میں بانٹنا

اب اگر ہم مزید فوائد کی بات کریں: اگرچہ ایک طرف یہ ذرائع ابلاغ ہماری مختلف چیزوں میں شرکت کی صلاحیت کو کم کرتے ہیں، مگر دوسری طرف، فیس بک اور ٹوِٹر ناظرین کی ایک بہت بڑی تعداد تک رسائی اور معلومات کا اجرا آسان بناتے ہیں۔ مثلاً، اس کے توسط سے سیاسی اور روحانی پیغام پھیلاۓ جا سکتے ہیں۔ اس کے ذریعہ آپ ایسے ویب سائٹ  کے لنک کی تشہیر کر سکتے ہیں جو آپ کے دوستوں اور عام طور پر لوگوں کے لئیے دلچسپی کا باعث ہوں۔ پس اس سے ہمیں اپنے اور دوسرے لوگوں کے من کو وسعت دینے میں بھی مدد ملتی ہے۔ مگر اس کا نقصان یہ ہے کہ اسے پراپیگنڈا اور نفرت پھیلانے کے لئیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہ ایک سنگین معاملہ ہے جس کا تعلق محض ٹوِٹر اور سماجی ذرائع ابلاغ کی چوپالوں سے ہی نہیں، بلکہ عمومی طور پر انٹرنیٹ سے ہے۔  

میرے خیال میں یہ انٹرنیٹ کے سب سے بڑے مسائل میں سے ایک ہے – کہ اس قدر وافر معلومات موجود و میسر ہیں۔ ہم اس میں کیسے تمیز و تفریق کریں؟ جن لوگوں کی کوئی ویب سائٹ ہے اور جنہوں نے اس پر کچھ تحقیق کی ہے وہ جانتے ہیں کہ اگر کوئی شخص کوئی لفظ گوگل کرتا ہے تو اپنی ویب سائٹ کو گوگل کے پہلے صفحہ پر سرِ فہرست لانے  کے کیا گر ہیں۔ یہ محض ایک چال ہے جو آپ چلتے ہیں، تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ پہلے صفحہ پر جو مضمون آپ کو نظر آتا ہے وہ اس خاص موضوع پر بہترین مضمون ہے۔ پس یہ بڑی اہم بات ہے۔ اگر آپ گوگل یا کسی اور کھوجی واسطہ پر "بدھ مت" ٹائپ کرتے ہیں، تو خدا پناہ، کتنے لاکھوں کے حساب سے مضامین اور انٹرنیٹ کے صفحات اس موضوع پر میسر ہیں؟ تو ہم ان سب کے درمیان کیسے تمیز کر سکتے ہیں، کیونکہ اس میں سے بہت سا مواد مذموم ادب ہو سکتا ہے؟ بعض نہائت عمدہ ہیں اور بعض نہیں ہیں۔

تو سب سے پہلی بات یہ ہے کہ، بدھ مت کے نکتۂ نظر سے آپ جو کچھ ٹوِٹر اور فیس بک پر ڈالتے ہیں، بے شک بدھ مت ایک معقول محرک پر زور دیتا ہے۔ ہماری تحریک کیا ہے؟ بدھ مت میں نیت ایک دلچسپ عنصر ہے کیونکہ اس کے دو پہلو ہیں۔ ایک یہ کہ: ہمارا مدعا کیا ہے؟ کیا ہمارا نصب العین – جیسا کہ اصل لم-رم اسباق (بتدریج درجات) میں ہے – کیا آپ ایک بہتر پنر جنم کی تلاش میں ہیں، کیا آپ مکش کے تمنائی ہیں، یا کیا آپ روشن ضمیری پانے کا ہدف رکھتے ہیں؟ اور اس نیت کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ: کیوں؟ اس کے پیچھے وہ کونسا جذبہ ہے جو آپ کو اس مقصد کے حصول کی ترغیب دلاتا ہے؟ کیا یہ تیاگ ہے: کہ آپ دکھ اور پنر جنم سے تنگ آ چکے ہیں، لہٰذا آپ مکش کے تمنائی ہیں۔ کیا یہ پیار، درد مندی یا بودھی چت کے جذبات ہیں جو آپ کو روشن ضمیری پانے کی جانب اکساتے ہیں۔ کیا یہ نچلے درجہ کے جہانوں کا خوف ہے اور آپ کو اس سے نجات کا راستہ نظر آتا ہے لہٰذا آپ بہتر پنر جنم کی خاطر کام کر رہے ہیں؟ تو اس قسم کی چیزیں۔ پس اس کے یہ دو پہلو ہیں۔ اور پھر جو بات نہائت دلچسپ ہے (اس کا عموماً وہاں ذکر نہیں کیا جاتا) وہ یہ کہ جب آپ اپنی منزلِ مقصود پا لیں گے تو پھر آپ کیا کریں گے؟ میرے خیال میں یہ بھی نیت اور  ترغیب کا حصہ ہے۔ اگر ہم بودھی چت کا ہدف پا لیں تو ہم لوگوں کے بھلے کے لئیے کام کریں گے، یا انہیں فائدہ پہنچانے کی حتی المقدور کوشش کریں گے۔ روشن ضمیری پانے کے ہدف میں بودھی چت مدد کرتا ہے۔  

تو اگر ہم انٹرنیٹ پر کسی مواد کی تشہیر کرنا چاہتے ہیں، خواہ یہ ٹوِٹر ہو یا کوئی ویب سائٹ، جو کچھ بھی ہو – یا فیس بک پر اپنے حلقۂ احباب کے نام – میرے خیال میں نیت اور ارادہ بہت اہم ہیں۔ میں اسے یہاں کیوں ڈالنا چاہتا ہوں؟ میرے سب کو یہ بتانے سے کہ آج میں نے دوپہر کے کھانے میں کیا کھایا اور یہ مجھے اچھا لگا کیا حاصل ہونے والا ہے؟ یا میں نے ٹی وی کا کوئی پروگرام دیکھا جو اچھا نہیں تھا؛ یہ مجھے پسند نہیں آیا؟ آخر مقصد کیا ہے؟ ایسا کرنے سے آپ کیا پانا چاہتے ہیں؟ اور کیوں؟ آپ اس کی تشہیر کیوں کر رہے ہیں؟ اس خبر کے پھیلانے سے، کسی کو یہ جان کر کیا حاصل ہو گا؟ تو میرے خیال میں ان باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ اور اگر کوئی شخص ان معاملات میں بودھی تربیت یافتہ ہے تو وہ ان ذرائع ابلاغ کو نہائت احسن اور مفید انداز سے استعمال کر سکتا ہے – بہت زیادہ با مقصد طریقہ سے – محض اس بات کی تشہیر کرنے کی نسبت کہ آپ نے دوپہر کے کھانے میں کیا کھایا۔

اپنی راۓ کا اظہار کرنا

ٹوِٹر کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ لوگ اس بات کی پرواہ کئیے بغیر کہ کسی کو ان کی راۓ پسند آۓ یا نہ آَٔۓ، اپنے خیالات کا آزادانہ اظہار کر سکتے ہیں۔ فیس بک پر: لوگ کہتے ہیں "میں پسند کرتا/کرتی ہوں" یا نہیں۔ ٹوِٹر پر کوئی آپ کی بات کا جواب نہیں دیتا۔ یہ اچھی بات ہے، خاص طور پر اس صورت میں جب لوگ مسائل اور حالات پر شدید نالاں ہوں اور دنیا کے سامنے اپنے دبے ہوۓ احساسات کو ظاہر کرنا چاہیں، بغیر اس بات کی فکر کئیے کہ کوئی ان کے اظہار پر کیا سوچے گا۔ پر اس کا نقصان یہ ہے کہ اس سے لوگوں کو فضولیات کے اظہار کا موقع ملتا ہے، اور اس طرح نفرت اور تشدد میں اضافہ ہوتا ہے۔

پس، یہی بات ہے کہ ہر شے کا دار و مدار نیت پر ہے۔ بدھ مت ہمیں کچھ کہنے یا کرنے سے قبل اپنی نیت کا جائزہ لینے کا سبق دیتا ہے۔ اور گفت و شنید میں مہارت کے سلسلہ میں یہ ہمیں اپنے ناظرین کو جاننے اور ان سے خطاب کرنے کے ماہرانہ طریقوں کے استعمال کی ہدائت دیتا ہے۔ یہ ہے ماہرانہ طریقوں کا لب لباب۔ اس سے مراد ماہرانہ طریقوں پر دسترس ہے؛ بات چیت اور لوگوں کی مدد کرنے کے ماہرانہ طریقے۔ بہر حال، ناظرین بہت اہم ہیں۔ ہمارے الفاظ کا لوگوں پر کیا اثر ہو گا اگر میں محض یہ کہوں: "میں زندگی سے سخت نالاں ہوں۔ یہ نہائت ہولناک ہے،" اور ایسی ہی باتیں؟ ایسی بات کی تشہیر کرنے کا دوسروں پر کیا اثر ہو گا؟ اس سے شائد ہمیں تھوڑا سا سکون ملے کہ ہم اپنے غصہ اور پریشانی کا واقعی اظہار کر سکتے ہیں، لیکن یہ یقیناً دوسرے لوگوں کے لئیے مفید نہیں ہے۔ پس، بدھ مت کی تربیت کی بدولت ہمیں اس بات کا احساس رہتا ہے کہ دوسرے لوگوں کا رد عمل کیا ہو گا، نہ کہ ہم محض اپنے بارے میں اور اپنے احساسات کے اظہار کے متعلق سوچتے رہیں – خواہ کسی کو اس میں دلچسپی ہو یا نہ ہو، اور کوئی اس سے مستفید ہو یا نہ ہو۔

خبروں کی فوری ترسیل

ایک اور فائدہ: ٹوٹر کے توسط سے ہم اہم واقعات کے متعلق معلومات کو فوری طور پر لوگوں تک پہنچا سکتے ہیں جن کی دوسرے ذرائع سے ترسیل نہ کی گئی ہو۔ سیل فون، کیمرہ اور فیس بک کی مدد سے آپ واقعات جب کہ وہ وقوع پذیر ہوں کی تصاویر اور ویڈیو کی تشہیر کر سکتے ہیں۔ تو یہ نہائت مفید شے ہے، خاص طور پر ایسے علاقوں میں جہاں جنگ، ہنگامے وغیرہ ہو رہے ہوں۔ یا ایسی چیزوں کی تشہیر جن کا کبھی خبروں میں ذکر نہیں آتا – عام طور پر خوشگوار واقعات نہ کہ ہولناک۔

اس کا نقصان یہ ہے کہ آپ اس ذریعہ کو غیر اہم باتوں کی تشہیر کے لئیے بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ لوگ نہائت احمقانہ باتیں بھی نشر کرتے ہیں، اور اس کا رخ فحش نگاری کی جانب بھی مڑ سکتا ہے، وغیرہ، جیسے تشدد۔ بدھ مت ہمیں امتیازی آگہی کا سبق دیتا ہے، اور میرے خیال میں یہ بدھ تربیت کا نہائت اہم حصہ ہے۔ امتیازی آگہی کا مطلب محض گہرائی میں جا کر حقیقت اور افسانہ میں تفریق کرنا ہی نہیں ہے –دنیا کا نظام کیسے چلتا ہے، ہمارا وجود کیسے ہے – اپنی الجھن زدہ سوچ سے ہٹ کر ان میں تمیز و تفریق کرنا ہے، بلکہ یہ ہمیں روائتی سطح پر بھی با مقصد اور بے مقصد کے درمیان تمیز کا سبق دیتا ہے؛ مفید کیا اور کیا نقصان دہ ہے۔ یہ ایک نہائت اہم ہنر ہے جس کی ہم سب کو آبیاری کرنی ہے۔

موسیقی سے سکون یا ہیجان پیدا کرنا

آخری فائدہ جس کا میں ذکر کرنا چاہوں گا اس کا تعلق آئی پاڈ سے ہے؛ یہ ساری  موسیقی۔ یہ واقعی خوب بات ہے کہ یہاں برلن میں، جب میں زمین دوز ریل گاڑی میں سفر کرتا ہوں (یہ اسے یو-باہن کہتے ہیں) اور کم از کم ۸۰٪ لوگ کانوں میں اِیر فون لگاۓ موسیقی سن رہے ہوتے ہیں۔ یا جب وہ سڑک پر چل رہے ہوں تو بھی موسیقی سن رہے ہوتے ہیں۔ لہٰذا دن کا بیشتر حصہ آئی پاڈ پر موسیقی سننا، جو اس پر منحصر ہے کہ کوئی کیسی موسیقی سنتا ہے، لوگوں کو جو کہ کافی دباؤ تلے محسوس کرتے ہیں شانت رکھنے میں معاون ہو سکتا ہے۔ یا اگر وہ ٹیکنو موسیقی سن رہے ہیں – جو کہ بہت زوردار موسیقی ہے – اس سے انہیں کافی شکتی مل سکتی ہے اگر وہ تھکاوٹ محسوس کر رہے ہیں۔ لہٰذا یہ فائدہ تو ہے۔ مگر اس کا بڑا نقصان یہ ہے کہ یہ تفکر میں حائل ہوتا ہے، اور یہ من کو شانت کرنے میں خاصی رکاوٹ کا سبب ہو سکتا ہے۔

پس بہت سے لوگوں کو یہ مرض ہوتا ہے جسے جرمن زبان میں "کان کا کیڑا" کہتے ہیں، جو کسی گانے یا سر کا کان میں بار بار بجتے رہنا ہے جس سے چھٹکارا ممکن نہیں۔ تو لگا تار موسیقی سنتے رہنے سے آپ سوچ سے محروم ہو جاتے ہیں۔ اور اگر لوگ یوں محسوس کریں، "اگر میں کسی چیز کے متعلق سوچوں تو میں یاس زدہ ہو جاؤں گا۔ لہٰذا میں سوچنا ہی نہیں چاہتا۔" – اس سے کسی بھی قسم کی روحانی ترقی یا افزائش میں مدد نہیں ملتی۔ اور ان کے من کبھی شانت نہیں ہوتے۔ اپنے آپ کو بہتر بنانے کی خاطر، ہمیں اپنے سروں میں سے شور کو کم کرنا اور ان میں کوئی کار آمد بات ڈالنا ہے۔

پس بدھ مت ہمیں ضبط نفس استوار کرنے کے طریقے سکھاتا ہے۔ ضبط نفس کیسے استوار کیا جاۓ؟  اس کا طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنے رویہ کے فوائد اور نقصانات کا جائزہ لیں اور موسیقی صرف اس وقت سنیں جب ایسا کرنا ضروری ہو اور جب اسے من کو شانت کرنے کے لئیے مراقبہ کے معاون کے طور پر استعمال کیا جاۓ۔ پُر شوق استقامت – یعنی پُر مسرت استقامت – کو استوار کرنے کی تعلیمات کہتی ہیں کہ ہمیں جاننا چاہئیے کہ کب آرام کے لئیے وقفہ درکار ہے۔ اگر ہم حد سے زیادہ جفا کشی سے کام لیں، تو یہ بہت نقصان دہ بھی ہو سکتا ہے۔ تو آپ کو معلوم ہونا چاہئیے کہ کب آرام کا وقفہ مناسب ہے، لیکن آپ اس کا ناجائز استعمال نہیں کرتے۔ آپ اپنے آپ کو کوئی شیر خوار بچہ جان کر ہر دم آرام نہیں چاہتے۔ آپ ایک ضد کا استعمال کرتے ہیں – چھوٹا سا وقفہ لینا – مگر آپ جانتے ہیں کہ کب اس ضد کو استعمال میں نہیں لانا۔

حدود کا تعیّن

پس اس کا اطلاق نہ صرف موسیقی سننے پر ہے بلکہ ٹی وی دیکھنا، ڈی وی ڈی دیکھنا، اور دوسری ایسی چیزوں پر بھی ہے۔ یہ ذرائع ابلاغ نشہ کی مانند ہیں، جیسا کہ میں نے ذکر کیا – چمکتی ہوئی روشنیاں اور ایسی ہی دیگر اشیاء۔ ایک جانور کی مانند ہم اس سے مسحور ہوتے ہیں اور پھر اسے بند کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ لیکن اس کا کامیاب علاج یہی ہے کہ وقت کی ایک حد مقرر کر لی جاۓ: میں آدھا گھنٹہ یا جو بھی مقرر شدہ وقت ہو کے لئیے یہ سنوں گا یا ٹی وی دیکھوں گا، یا انٹرنیٹ پر موج رانی کروں گا۔ اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کہ اس وقفہ کا دورانیہ کیا ہے۔

یہ چیز اخلاقی ضبط نفس کی تعلیمات کے متعلق نہائت دلچسپ ہے۔ مجھے یاد ہے کہ میں نے گیشے وانگچن (جو کہ نوخیز لنگ رنپوچے کا استاد ہے) سے اس موضوع پر بات چیت کی، اور اس نے کہا کہ سب سے اہم چیز حدود کا تعیّن کرنا ہے۔ اگرچہ، بے شک، مختلف لوگوں کے لئیے حدود میں قدرے تفاوت ہو سکتا ہے۔ کیونکہ اگر آپ تباہ کن رویہ کے متعلق مختلف کتابوں میں مختلف مصنفوں کے بحث مباحثے پڑھیں، تو ان بیانات میں آپ باہمی قدرے فرق پائں گے؛ کیا تباہ کن ہے اور کیا تباہ کن نہیں ہے میں آپ کو قدرے تفریق ملے گی۔ مثال کے طور پر، نا منسب جنسی رویہ کے متعلق، اگر آپ اس کی تاریخ کا مطالعہ کریں، تو اس کا بیان مختلف کتابوں میں ایک دوسرے سے بہت فرق ہے۔ اور گیشے وانگچن جو کہ رہا تھا وہ یہ کہ ایک حد کا ہونا لازم ہے، جیسے یوں کہنا " میں اتنا تو کروں گا، مگر اس سے زیادہ نہیں۔ اس حد سے آگے میں کچھ نہیں کروں گا۔"

اصل مقصد ایسی امتیازی آگہی استوار کر نا ہے جس سے یہ احساس ہو کہ بعض حالات، بعض چیزیں نقصان دہ ہیں، تباہ کن ہیں۔ میں قطعی طور پر ان کا مرتکب نہیں ہوں گا، کیونکہ اس سے نقصان ہی نقصان ہے۔ اور اگر ہم ایسی حدود کا تعیّن کر سکیں، وہ حد خواہ کچھ ہی ہو، اور اس پر قائم رہیں  ۔۔۔  اور بے شک شروع میں ایسی معقول حدود قائم کریں جن کی ہم پابندی کر سکیں، اور اگر یہ ہمارے لئیے کوئی مشکل مسٔلہ ہے تو اسے مختصر عرصہ کے لئیے قائم کریں۔ جیسے: میں ایک ہفتہ کے لئیے انٹرنیٹ پر موج رانی نہیں کروں گا، یا کوئی اور چیز جو بھی۔ اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کہ ہم نے کس چیز کا انتخاب کیا۔ مقصد تو ضبط نفس پیدا کرنا ہے، انسان کی اپنی قائم شدہ حدود کے اندر زندگی بسر کرنا ہے۔ نہ کسی جانبداری کے تحت اور نہ ہی کسی با اختیار ہستی یا قانون کے زیر اثر، بلکہ ہماری اپنی سمجھ بوجھ سے ماخذ امتیاز کہ بعض چیزیں فطرتاً نقصان دہ ہیں – میرے لئیے بھی اور دوسروں کے لئیے بھی – اور میں یہ کام نہیں کرنا چاہتا: اس سے صرف مسائل اور مشکلات جنم لیتے ہیں۔ اگر ہم کوئی حدود مقرر کر سکیں تو پھر ہم اس کا شکنجہ کستے چلے جاتے ہیں، جس شے سے بھی ہم نبرد آزما ہوں، جس کسی مسٔلہ پر بھی ہمیں حدود کا تعیّن کرنا ہو۔

لہٰذا جب ہم ایسی چیزوں کو استعمال کر رہے ہوں جو شدید عادت ڈالنے والی ہوں جیسے آئی پاڈ، یا پیغام رسانی بذریعہ ٹیکسٹ اور ایسی ہی چیزیں، جن کے فوائد سے بھی انکار نہیں – تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ بُری ہیں یا ایسی کوئی بات، لیکن ہم ان کی حدود سے واقف ہیں۔ اور اگر ہم ان کی حدود کو پہچانتے ہیں اور ہم ان کے استعمال پر حد بندی کریں، تبھی استعمال کریں جب ایسا کرنا مفید ہو، کسی معقول مقصد کے لئیے استعمال کریں  ۔۔۔  جیسے آئی پاڈ کے معاملہ میں: روحانی اسباق، دھرم پر خطبات، اور ایسی ہی اور چیزیں، بجاۓ اس کے کہ ایک ہی موسیقی کو بار بار، بار بار سنتے چلے جائں، اور پھر مزید موسیقی تلاش کریں اور ایسی ہی اور باتیں۔ اسے کسی معقول مقصد کے لئِے کام میں لائں۔

تو میں آپ کے ساتھ اپنے یہ خیالات جو دنیا میں ہورہا ہے کے متعلق بانٹنا چاہتا تھا۔ کیونکہ اگر ہمارا بدھ مت کے ساتھ رشتہ ہے اور ہم اس کام میں مصروف ہیں کہ بدھ مت کی تعلیمات کو دوسروں کی دسترس میں لایا جاۓ - اور انہیں لوگوں کے لئیے مفید اور با معنی بنایا جاۓ - تو پھر اس پر غور کرنا چاہئیے کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔ ان سماجی ذرائع ابلاغ کی بدولت دنیا تیزی سے معنی خیز انداز میں بدل رہی ہے، اور یہ ایک ایسی چیز ہے جس کو ہم نے دھیان میں رکھنا اور یہ دیکھنا ہے کہ اس سماجی بدلاؤ کے پیش نظر بدھ مت کیا مدد فراہم کر سکتا ہے۔   

Top