تنگوت، تبت اور شمالی سونگ چین گیارھویں صدی میں

قاراخانی منصوبے کی مزید توسیع میں تنگوتوں کی رُکاوٹیں

ختن کے زوال کے بعد جنوبی تارم کے باقی ماندہ حصے پر قبضہ کرنے کی اپنی مہم میں قاراخانی مشرق کی طرف مزید دباؤ نہیں ڈال سکے۔ محمود غزنوی نے جنوب سے حملہ کردیا اور ۱۰۰۶ء سے ۱۰۰۸ء تک دو ترکیائی ﴿ترکی بولنے والے﴾ طاقتوں کے مابین جنگ چھڑی رہی۔ اس جنگ کو لڑنے کے لیے یوسف قادرخان ختن سے روانہ ہوا اور غزنویوں کو کامیابی کے ساتھ پچھاڑ دیا۔ اس کے بعد، ایک شورش کو دبانے کے لیے وہ واپس ختن چلا گیا۔ اس سے فراغت کے بعد اس نے فوراً ۱۰۰۹ء میں شمالی سونگ دربار کو اپنا خراج اور تجارتی وفود بھجوانا شروع کر دیا۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ جنوبی شاہراہ ریشم کے راستے کی تجارت پر کنٹرول حاصل کرنا اس کی اولین ترجیح تھی۔

بعد کے برسوں میں، جانشینی کے لیے داخلی انتشار نے قاراخانیوں کو الجھائے رکھا، بالآخر، ۱۰۲۴ء میں یوسف کو قاغان بننے میں کامیابی ملی۔ ہر چند کہ اس پورے دور میں قاراخانیوں کو یہ موقع نہیں ملا کہ ختن کے مشرق میں جنوبی تارم پر اپنا قبضہ جمالیں، مگر چین اور ختن کے مابین تجارت جس کی قیادت ترکیائی مسلم سوداگر کر رہے تھے، اس میں کبھی رکاوٹ نہیں آئی۔

ستائیسواں نقشہ: قاراخانی،غزنوی اورتنگوتسلطنتوں کاعروج،گیارہویں صدی کاپہلانصف
ستائیسواں نقشہ: قاراخانی،غزنوی اورتنگوتسلطنتوں کاعروج،گیارہویں صدی کاپہلانصف

دریں اثنا تنگوتوں نے خود اپنے توسیع کے فوجی منصوبوں کے ساتھ آگے بڑھنا شروع کردیا۔ ختن کی حکومت کا تختہ الٹنے کے دو سال بعد تنگوت بادشاہ ڈیمنگ ﴿دور:۱۰۰۴۔۱۰۳۱ء﴾ نے ۱۰۰۶ء میں شمالی سونگ چین کے ساتھ امن کی مفاہمت کرلی۔ اس کے بعد سے، تنگوت دربار اپنے شمالی سونگ مماثل دربار کی کنفیوشیائی مذہبی رسومات اور تقریبات کی پیروی کرنے لگا، جس سے ثانی الذکر کی تہذیبی نخوت اور احساس تفاخر کو تقویت ملی اور تنگوت دربار کی کارکردگی میں بھی زبردست اضافہ ہوا۔

اس وقت تک شمالی سونگ کے زرد اویغوروں اور سونگ کا، دونوں کےساتھ دوستانہ تعلق برقرار تھے۔ تاہم، شمالی سونگ کی طرف تنگوت ﴿دوستی اور﴾ امن کی پہل نے اس سیاسی جھکاؤ کو موثر طور پر بے اثر کردیا۔ اپنے فوجی منصوبوں میں شمالی سونگ کی مداخلت یا اپنے شمالی حصے کے بارے میں فکرمندی سے رہائی کے بعد تنگوتوں نے اب زرد اویغوروں کی مملکت پر حملہ کرنے اور انہیں فتح کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ ان کی یہ مہم ۱۰۲۸ء میں شروع ہوئی۔ وہاں رہنے والے تبتی سونگ کا کو فرار ہوگئے اور وہ بھی تنگوت حملے کی زد میں آگیا۔

اس وقت تک تنگوت اتنے مضبوط ہوچکے تھے کہ قاراخانیوں کے پاس انہیں مزید مشرق کی سمت تارم طاس میں دھکیلنے کا فوجی امکان اب نہیں تھا۔ عظیم ترین تنگوت راجہ یوآن ہاؤ ﴿یوان۔ہاؤ﴾ ﴿دور:۱۰۳۱۔۱۰۴۸ء﴾ کے تحت تنگوتوں نے نہ صرف زرد اویغوروں پر اپنی فتح کی تکمیل کی، بلکہ دُن ہوانگ ﴿دوان ہیوانگ﴾ سے ختن میں قاراخانی سرحد تک کا علاقہ بھی لے لیا۔ بہر حال، مقامی تبتوں سے تسونگ کا کو لینے میں وہ کبھی بھی کامیاب نہ ہو سکے۔

اگرچہ تنگوتوں نے شمالی سونگ دربار سے امن کی مفاہمت کرلی تھی، انہوں نے ہان چین تک کی جانے والی وسطی ایشیائی تجارت کا جو راستہ ان کے نئے توسیع شدہ علاقے سے گزرتا تھا، اس پر بھاری محصول عائد کردیے اور بندشیں قائم کردیں۔ تسونگ کا نے جلد ہی شمالی سونگ چین کے خاص ﴿اوربڑے﴾ تجارتی شریک کار کے طور پر وسطی ایشیا میں جگہ لے لی، نہ صرف انہیں اپنی سب سے اہم پیداوار، چائے مہیا کرنے کے سلسلے میں بلکہ گھوڑوں کی فراہمی کے معاملے میں بھی، جنہیں کسی بھی فوجی جدوجہد کے لیے، ناگزیر قدر و قیمت کا حامل سمجھا جاتا تھا۔

مزید برآں، غزنویوں کے متواتر حملوں اور ۱۰۰۱ء اور ۱۰۲۱ء کے درمیان گندھارا اور شمالی مغربی ہندوستان کی فتح، اور اسی کے ساتھ ساتھ وہاں کے ثروت مند ہندو منادر اور بودھی خانقاہوں کی لوٹ اور بربادی نے ہندوستان سے شاہراہ ریشم کے راستے مذہبی سفر کو موثر طور پر ختم کردیا، جو صدیوں تک وسطی ایشیا اور ہان چین کے زائرین ہندوستان کی خانقاہوں کا سفر بودھی علما اور اساتذہ کو مدعو کرنے اور مذہبی متون اور تبرکات لانے کی غرض سے استعمال کرتے رہے تھے، شمالی سونگ ماخذوں میں، بہر حال، اس قسم کے جس آخری سفر کا تذکرہ ملتا ہے، وہ دھرم شری کا تھا جو ۱۰۲۷ء میں ہان چین اور ۱۰۳۶ء میں سومانس پہنچا تھا، اس کے بعد ہندوستان تک یا ہندوستان سے کسی طرح کی مزید مذہبی مہمات ممکن نہیں رہ گئیں۔

ہان چینی بودھی صحائف کی تنگوت میں وصولیابی

ہان چینی بودھی ضوابط کی اشاعت ۹۷۲ء اور ۹۸۳ء کے درمیان شمالی سونگ خاندان کے پہلے دو بادشاہوں کی سرپرستی میں پہلی بار ہوئی تھی۔ اس سے پہلے یہ ضابطے یا قوانین شریعت صرف ہاتھ سے لکھے ہوئے مسودوں کی شکل میں تھے۔ ۱۰۲۹ء میں زرد اویغوروں پر ڈیمنگ کی فتح کے آغاز کے سال بھر بعد، تنگوت بادشاہ نے، جس نے بدھ مت کا مطالعہ ایک بچے کے طور پر کیا تھا، شمالی سونگ دربار کو ایک وفد بھیجا تھا جس کے ساتھ ستر گھوڑوں کا نذرانہ تھا اور ان ﴿شرعی﴾ ضوابط یا قوانین کی نقل کی درخواست کی گئی تھی۔ اب ہندوستان سے ان ﴿مطلوبہ﴾ متون کی حصولیابی ممکن نہیں رہی تھی۔ شمالی سونگ بادشاہ، رین زونگ ﴿جین۔ تسونگ﴾ ﴿دور:۱۰۲۳۔۱۰۶۴ء﴾ نے تنگوت حکمراں کے ساتھ طے کیے جانے والے اپنے پیش رو کے امن معاہدے کے جذبے ﴿یا اس معاہدے کی روح﴾ کے پیش نظر، اس درخواست کو منظوری دے دی۔

اس وقت کے بعد سے، آگے آنے والے ﴿متعدد﴾ تنگوت بادشاہوں نے بودھی متون کی مزید درخواست کے ساتھ ہان چین کو کئی وفود روانہ کیے۔ یہ صرف اس لیے نہیں تھا کہ بودھی لٹرلیچر کا مکمل ترین مجموعہ چینی زبان میں موجود تھا۔ یہ اس لیے بھی تھا کہ، ابتدا میں زرد اویغوروں سے تنگوتوں کی لڑائی تھی اور اب چونکہ ہندوستان سے مطلوبہ متون کی حصولیابی کا امکان باقی نہیں رہ گیا تھا تو اس کا سب سے بڑا متبادل تسونگ کا تبتی ہی رہ گئے تھے۔ ہر چند کہ تنگوتوں کی طرف سے ان درخواستوں کو شمالی سونگ بادشاہوں نے منظور کرنا جاری جو رکھا تو اس کی ترغیب انہیں مذہبی اسباب سے ہوئی ہوگی، لیکن، بلاشبہ، ان کے ذہن میں یہ امکان بھی ابھرا ہوگا کہ انہیں گھوڑوں کی شدید ضرورت ہے اور اس ضرورت کو پورا کرنے کا یہ ایک اور وسیلہ ہوسکتا ہے۔

تنگوت بدھ مت کے قیام میں ویغور اور یوغور تعاون

یوآن ہاؤ نے ۱۰۳۴ء میں زرد اویغوروں پر تنگوت فتح کی تکمیل کرلی، اس کے بعد سے ویغوروں اور یوغوروں پر تنگوتوں کا اثر بڑھنے لگا۔ تنگوتوں کے زیر حکومت زرد اویغور بودھی خانقاہوں کی فروغ پذیری جاری رہی۔ عالمانہ حیثیت رکھنے والے یوغور اور ویغور بھکشو تمام تنگوت علاقوں میں سفر کرتے رہے اور عوام میں بدھ مت کی ساکھ ڈرامائی انداز میں بڑھتی رہی۔ بہت سے تنگوت قوچو علاقے میں جابسے۔ ہر چند کہ تنگوتوں اور قوچو یوغوروں کے مابین کبھی کبھار سیاسی تصادم رونما ہوتا رہا، مگر دونوں قومیں بنیادی طور پر آپس میں پرامن تعلقات رکھتی تھیں، اس طرح کہ ویغوروں نے تنگوتوں کے مقابلے میں تابعدارانہ حیثیت قبول کرلی تھی، جیسا کہ منگولیا میں انہوں نے خیتانوں کے ساتھ کیا تھا۔

گو کہ تنگوتوں نے ہان چینی ثقافت کے بہت سے کاروباری پہلو ان سے مستعار لیے تھے، مگر وہ ان میں پوری طرح ضم نہیں ہونا چاہتے تھے۔ وہ اپنا تشخص قائم رکھنا چاہتے تھے، جیسا کہ شمالی چین کے کئی حصوں کے غیرہان حکمرانوں نے ان سے پہلے کیا تھا۔ قدیم ترکوں، ویغوروں اور خیتانوں کی طرح وہ چاہتے تھے کہ خود اپنے تحریری نظام اور اپنے تراجم کے ساتھ، وہ اپنے اور ان کے ﴿ہان چینیوں کے﴾ بیچ ایک فاصلہ پیدا کیے رہیں۔ اسی لیے، ۱۰۳۶ء میں، تنگوتوں نے اپنی زبان کے لیے ایک امتیازی رسم الخط اختیار کرلیا۔ خیتانی حروف اور امتیازات پر مبنی یہ رسم الخط انتہائی پیچیدہ تھا اور ایشیا میں ایسا ﴿رسم الخط﴾ پہلے ﴿شاید﴾ کبھی بھی وضع نہیں کیا گیا تھا۔

اس رسم الخط کا استعمال کرتے ہوئے، یوغوروں اور ویغوروں نے، خیتانوں کے ساتھ اپنے تجربے کی روشنی میں، تنگوتوں کو صرف ہان چینی بودھی ہی نہیں، بلکہ کنفیوشیائی متون کے ترجمے میں بھی مدد دی جو ﴿فن ملک داری یعنی﴾ حکومت چلانے کے کام میں کار آمد تھے۔ چوں کہ اس رسم الخط کا سیکھنا مشکل تھا، لہٰذا تنگوتوں نے پہلے اپنے بودھی دعائیہ متون کو تبتی حروف و ارکان تہجی میں منتقل کیا جیسا کہ ان سے قبل، اس علاقے میں مستعمل، ویغوروں اور ہان چینی عبارتوں کے معاملے میں کیا جاچکا تھا۔ اس طرح متذکرہ علاقے میں، تبتی ثقافت ابھی بھی موجود تھی۔

۱۰۳۸ء میں بادشاہ یوآن ہاؤ نے بدھ مت کو تنگوتوں کا ریاستی مذہب قرار دے دیا۔ چونکہ تنگوت شاہی خاندان خود کو شمالی چین کے توباوی حکمرانوں (۳۸۶۔۵۳۴ء) کی آل یا ان کا وارث تصور کرتا تھا، ﴿بدھ مت کے سرکاری مذہب ہونے کا﴾ یہ اعلان بدھ مت کے ریاستی قانون کو ازسرنو عائد کرنے کے لیے نہایت ضروری تھا۔ اس لیے ۱۰۴۷ء میں بادشاہ نے قانوناً دفتر شاہی اور عام آبادی پر بودھی مذہبی رسوم اور دعاؤں کی ادائیگی بطور فرض عائد کردی۔ اس طرح تنگوتوں کے درمیان بدھ مت کا نفاذ حکومت کے توسط سے ہوگیا۔ بہر حال، حکومت کی سخت بندش کے ساتھ، تنگوت خانقاہوں میں علمی اور ادبی سطحوں پر معیار ہمیشہ بلند اور کڑے رہے۔

بعد کے چینی تنگوت سیاسی اور مذہبی تعلقات

یو آن ہاؤ کے عہد حکومت کے اوآخر میں ۱۰۴۰ء اور ۱۰۴۴ء کے درمیان، تنگوت سلطنت اور شمالی سونگ چین کے مابین ایک چار سالہ جنگ چھڑ گئی۔ شمالی سونگ دربار کو، بلاشبہ، شاہراہ ریشم کے ممالک سے اور زیادہ وسیع سطح پر تجارت کی خواہش تھی، لیکن تنگوتوں پر برتری حاصل کرنے میں انہیں بڑی مشکل پیش آرہی تھی۔ ۱۰۴۸ء میں یو آن ہاؤ کے بیٹے نے اسے ہلاک کردیا جسے قوم پرستانہ تنگوت بودھی حمایت کے مقابلے میں ہان چینی داؤمت کی طرف اس کے جھکاؤ کے باعث، وہ پہلے معتوب کرچکا تھا۔ اس کے بعد، آدھی صدی تک، تنگوت تخت حکومت پر کمزور بادشاہوں کے آنے جانے کا سلسلہ چلتا رہا، جو اکثر اپنی ماں ملکاؤں کے ساتھ اقتدار کی باگ ڈور سنبھالتے نظر آتے تھے۔ تنگوت فوجی طاقت خاصی حد تک نیچے آگئی اور ہان چین کے ساتھ وسطی ایشیائی تجارت کم تر پابندیوں کے ساتھ جاری رہی۔

اس دوران تنگوت، خیتان اور شمالی سونگ چین کے لوگ متواتر ایک دوسرے سے برسرپیکار رہے۔ شمالی سونگ کبھی بھی ان پر سبقت حاصل کرنے کے لائق نہ ہوسکا اور ان تینوں میں کمزور ترین ہونے کی وجہ سے، ۱۰۸۲ء میں وہ اس پر راضی ہوگیا کہ تنگوتوں اور خیتانوں کو خوش کرنے کی غرض سے، وہ انہیں سالانہ خراج ادا کرتا رہے۔ اس معاہدے کے پہلے بھی اور اس کے بعد بھی تنگوتوں نے ہان چین کو اپنے وفود بھیجنا جاری رکھا تا کہ بودھی متون واپس لائے جاسکیں۔ کچھ تنگوت بادشاہوں اور ماں ملکاؤں نے ان کے ترجمے میں حصہ تک لیا۔ مذہبی معاملات میں یوغوروں اور ویغوروں کی مدد کا سلسلہ جاری رہا اور ساتھ ہی سنسکرت اور تبتی سے مزید بودھی متون بھی تنگوت میں ترجمہ کیے جاتے رہے، مگر بجائے خود ویغور سے بس کبھی کبھار ہی ایسا ہوا۔

وسطی تبت میں بدھ مت کی بحالی

پوری گیارہویں صدی کے دوران، بدھ مت کے مطالعے کے لیے تبتوں کے کشمیر اور شمالی ہندوستان جانے کا ایک اٹوٹ سلسلہ جاری رہا۔ بہت سے لوگ ان علاقوں سے واپسی میں اپنے ساتھ اساتذہ کو بھی لے آئے تا کہ ان کی اپنی سرزمین پر جو نئی خانقاہیں تعمیر کی گئی تھیں، وہاں بدھ مت کی بحالی میں ان سے مدد لی جاسکے۔ اس ضمن میں ابتدائی سرگرمی کا آغاز اگرچہ مغربی تبت کی نگاری مملکت سے ہوا، مگر جلد ہی یہ ﴿سرگرمی﴾ ملک کے وسطی حصوں میں بھی پھیل گئی، اس طرح کہ ۱۰۴۰ء میں، نار تانگ ﴿سنار۔ تھنگ﴾ خانقاہ کا سنگ بنیاد رکھتے ہوئے اس کی شروعات کردی گئی۔

ہر ہندوستانی استاد یا واپس آنے والا تبتی طالب علم جو تبت پہنچتا تھا، اپنے ساتھ بودھی عبادات ﴿مذہبی رسوم﴾ کے کسی خاص اسلوب کا ایک سلسلہ بھی لے آتا تھا۔ ان میں سے بہت ساروں نے خانقاہیں تعمیر کیں جن کے گرد صرف مذاہب نے نہیں بلکہ متشکک فرقوں نے بھی معین شکلیں اختیار کرلیں۔ باہر سے منتقل کیے جانے والے ان سلسلوں کے لیے باضابطہ مسالک کے طور پر اپنے آپ کو مستحکم کرنا، تیرہویں صدی سے پہلے ممکن نہ ہوسکا یہی مسالک تبتی بدھ مت کے نام نہاد“ نئے دور ”کے اسکولوں کدم ﴿بکا۔ گدامس﴾، ساکیہ ﴿سا۔ سکیہ﴾ اور کاگیو ﴿بکا۔ رگیود﴾ کی متعدد اور مختلف جہتوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔

گیارہویں صدی کے دوسرے تبتی اساتذہ نے ان متون کی بازیافت شروع کی جو محفوظ طریقے سے رکھے جانے کے لیے، آٹھویں صدی کے اواخر اور نویں صدی کے اوائل کے ہنگامہ خیز برسوں میں وسطی تبت اور بھوٹان میں چھپا دیے گئے تھے۔ ان میں جو بودھی ﴿متون﴾ پائے گئے وہ ”عہد قدیم” نیئنگما ﴿رنینگ۔ما﴾ اسکول کے لیے صحیفائی اساس بن گئے۔ جب کہ وہ ﴿متون﴾ جن کا تعلق دیسی روایت سے تھا اور جو ذرا پہلے دریافت کیے گئے تھے، انہوں نے منظم بون مذہب کے قیام کے لیے بنیاد کی شکل اختیار کی۔ کئی اساتذہ نے دونوں اقسام کے متن دریافت کیے، جو اکثر ایک دوسرے سے بہت مماثل تھے۔ منظم بون ﴿مذہب﴾ میں، دراصل ترجمے کے نئے اور پرانے بودھی اسکولوں ﴿مکاتب﴾ کے بہت سے عناصر مشترک تھے کہ ہر مذہب کے بعد کے اساتذہ نے یہ دعویٰ کیا کہ دوسرے نے یہ عناصر اس کے یہاں سے چوری کرلیے ہیں۔

نگاری شاہی خاندان نہ صرف یہ کہ کشمیر اور شمالی ہندوستان سے تازہ تازہ لائے جانے والے بودھی متون کے تراجم کی کفالت میں بدستور ایک اہم کردار ادا کرتا رہا، بلکہ سابقہ تراجم کی نظرثانی اور مذہب کے بعض نازک نکات کی بابت غلط فہمیوں کو رفع کرنے میں بھی اس کا اہم کردار اسی طرح جاری رہا۔ راجہ تسے دی ﴿رتسے۔ لدی﴾ کی طرف سے نگاری کی تولنگ خانقاہ کے مقام پر ۱۰۷۶ء میں بلائی جانے والی تولنگ ﴿تھو۔ لنگ﴾ مجلس میں تبت کے مغربی، وسطی اور مشرقی علاقوں کے مترجمین، اسی کے ساتھ ساتھ متعدد کشمیری اور شمالی ہندوستان کے اساتذہ ایک ساتھ جمع ہوئے اور سارے کام کو مربوط اور مرتب کرنے میں اس مجلس نے آلہٴ کار کا رول ادا کیا۔ شہزادے زھی وا۔ وو ﴿زھی۔ با اود﴾ کے ۱۰۹۲ء کے فرمان نے وہ معیار متعین کیے جن سے یہ طے کیا جاسکے کہ ان میں کون سے متون معتبر ہیں۔

ختن کے زوال کے بعد بودھوں سے قاراخانیوں کے تعلقات

اس پورے دور میں، قاراخانیوں نے ختن سے تنگوتوں کے مقبوضہ جنوبی تارم کے راستے، شمالی سونگ کے دارالسلطنت کو مسلمان سوداگروں کا بھجوانا جاری رکھا۔ ۱۰۶۸ء اور ۱۰۷۷ء کے درمیان، اتنے زیادہ وفود تھے، ہر سال کم سے کم دو وفود، شمالی سونگ ﴿حکومت﴾ کو ان کے حجم اور تواتر پر پابندیاں عائد کرنی پڑیں۔ یہ تجارت ۱۱۳۷ء میں قاراخانیوں کے زوال تک جاری رہی۔

ایسا لگتا ہے کہ تنگوتوں، تبتوں، قوچو ویغوروں اور ہان چینیوں کا مضبوط بودھی عقیدہ معاشی فائدے کے لیے قاراخانیوں کے جوش میں کبھی کمی نہ لاسکا۔ اگر ان کے بین الاقوامی تعلقات پوری طرح بے دینوں کو اسلام کی طرف لانے پر مرکوز ہوتے، تو انہوں نے یقیناً بودھی تجارت کا بائیکاٹ کیا ہوتا اور تنگوتوں، ویغوروں یا نگاری تبتوں پر اس وقت حملہ آور ہوئے ہوتے جب ان کی حالت کمزور پڑچکی تھی۔ مگر، وسطی ایشیا اور ہندوستانی برصغیر میں مسلم بودھی تعلقات کی تاریخ کا وہی ایک انداز بار بار رونما ہوتا رہا، کہ کسی علاقے پر مسلمانوں کی فتح کا اظہار مقامی مذاہب کے اداروں کے فوری انہدام سے ہوتا ہے، جب کہ اس کے برخلاف بعد کے ﴿مسلم﴾ اقتدار کی خصلت معاشی استحصال کے واسطے سے ظاہر ہوئی۔ ثانی الذکر کی طرف سے ہمیشہ مذہبی رواداری کی ایک خاص حد کا تقاضہ ہوتا ہے، اور ایک مرتبہ یہ رواداری قائم ہوجائے تو پھر سیاسی پالیسی کی تشکیل کے عمل میں یہ ہمیشہ پیش پیش رہتی ہے۔

Top