سوال: میں اس "کوئی بڑی بات نہیں" کے شعار کو بہت پسند کرتا ہوں۔ لیکن جو بات میرے لئیے عجیب ہے وہ یہ کہ جب آپ باقی دنیا کو اس مزاج سے ملتے ہیں۔ مثال کے طور پر، فرض کیجئیے کہ آپ کسی منصوبہ پر دوسرے لوگوں کے ہمراہ کام کر رہے ہیں اور جب کوئی کام بگڑ جاتا ہے تو آپ کہتے ہیں، "اچھا، کوئی بڑی بات نہیں؟ ایسا ہوتا ہے۔" مجھے ڈر ہے کہ دوسرے لوگ سوچیں گے کہ میں اپنے کام کے بارے میں سنجیدہ نہیں ہوں۔
ڈاکٹربرزن: "کچھ خاص نہیں"کے شعار کو غلط فہی کا شکار نہیں ہونے دینا چاہئیے- اس کامطلب کچھ نہ کرنے کا نہیں ہے۔ اور نہ ہی یہ لاپرواہی یا لا تعلق رویے کی عکاسی ہے۔ "کچھ بھی" یا " کچھ خاص نہیں"کا مطلب ہے کہ ہم خوش یا ناخوش ہونے کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ ہم منطقی اور پر سکون انداز میں جو کچھ بھی کر رہے ہوتے ہیں نمٹا لیتے ہیں۔ ہمیں جو کچھ کرنا ہے وہ بغیر پریشان ہوۓ کر گزرتے ہیں۔
اگر دوسرے لوگ پریشان ہوجائیں تو کیا ہو گا؟
اگر دوسرے لوگ پریشان ہوں تو آپ کا پرسکون انداز اُن کو پرسکون ہونے میں مددگار ثابت ہو گا۔ ایک عمدہ مثال یہ ہے کہ: فرض کیجئیے ہم ایک مضمون کمپیوٹر پر تحریر کر رہے ہوں اور غلطی سے ایک بٹن کے دبنے سے وہ تمام کا تمام ہذف ہو جاۓ۔ ایسا تو ہوتا ہے۔ برہم ہونے سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ اور اگر غلطی سدھارنے والا کوئی بٹن نہ ہو تو کچھ نہیں ہو سکتا۔ یہ ضائع چلا گیا۔ اس پر رونے سے کچھ حاصل نہیں ہو گا اور نہ برہم یا خفا ہونے سے۔ یہ رویہ رکاوٹ ضرور بن سکتا ہے۔ ایسے میں ہم کہتے ہیں "چلو ٹھیک ہے" اور دوبارہ لکھ لیتے ہیں۔ اگر ہماری یاد داشت کی تربیت اچھی ہے تو ہم اسے دوبارہ لکھ سکتے ہیں اور ہو سکتا ہے کہ یہ پہلی بار سے بھی بہتر ہو۔ ۔ ہم حالات سے نمٹتے ہیں اور ڈراما کوین بننے سے گریز کرتے ہیں۔ اگر ہم ایک ٹیم کا حصہ ہیں اور یہ مضمون سب کا مشترکہ کام تھا تو ہمارا یہ پرسکون رویہ سب کو پرسکون کرنے میں معاون ہو گا۔
کیا ہم کسی ایک واقعہ کی وجہ سے خوش یا ناخوش محسوس کرنے کے بارے میں بات کر رہے ہیں یا یہ کوئی عمومی بات ہے؟
میں خود سے نمٹنے کے بارے میں بات کر رہا ہوں۔ اگر ہم ناخوش یا خوش محسوس کرتے ہیں تو ہم اپنے معاملات زندگی کو نباہتے چلے جاتے ہیں اور اسے بڑا مسٔلہ نہیں بناتے۔ لیکن جب کوئی دوسرا خوش یا ناخوش یا پریشان ہوتا ہے تو کیا ہوتا ہے؟ مثلاً اگر ایک بچہ رو رہا ہے تو ہم کیا توقع کرتے ہیں؟ وہ تو بچہ ہے ہم اس بات پر پریشان نہیں ہوتے۔" اوہ نہیں' بچہ رو رہا ہے!"ہم اس کو بڑی بات نہیں کہتے اور ہم بچے کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ "بچہ کیوں رو رہا تھا؟"جو کچھ بھی کیا جانا چاہئیے ہم وہ کرتے ہیں۔ بس یہ ایسا ہی ہے۔
شانتی دیو اسے بہت عمدہ انداز میں بیان کرتا ہے، وہ کہتا ہے، "لوگ بچوں کی طرح ہوتے ہیں" اس لئیے وہ پریشان ہوتے ہیں بلکل جیسے بچے کا رونا۔ ہم ایسے میں کیا توقع کرتے ہیں؟ ہم اسے بڑی بات نہیں کہتے ، اور انہیں پرسکون کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور معاملات کو مزید حقیقت کے آئینہ میں دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں.
پریشان ہونے سے کسی مسٔلے کے وجود میں اضافہ ہوتا ہے،اور اسے ایک بڑا مسٔلہ بنا دیتا ہے۔ یہی خالی پن کے احساس کی علامت ہے- کوئی مسٔلہ بھی بہت بڑا نہیں ہوتا- بڑے مسائل حقیقت سے مطابقت نہیں رکھتے- چیزیں ہو جاتی ہیں اور ہمیں ان سے نبرد آزما ہونا پڑتا ہے- کیا ہم جذبات رکھتے ہیں؟ یقیناً ہم جذبات رکھتے ہیں- محبت، درد مندی اور صبر جیسے مثبت جذبات عظیم ہیں- لیکن ہمیں منفی جذبات جیسے غصہ، بےصبری اور عدم برداشت کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ یہ بالکل فائدہ مند نہیں ہیں-
ایسا لگتا ہے کہ اگر ہم اسے ایک قدم آگے بڑھانا چاہیں تو یہ لوجونگ کی من کی تربیتی تعلیمات کی طرح ہوگی۔ ہم دراصل اپنے مسائل سے سیکھ سکتے ہیں اگر ہم انہیں مزید گہری بصیرت کے لئے بطور وسیلہ استعمال کریں۔
بلکل درست۔
آپ کے خیال میں کیا یہ من کی تربیت غیر حقیقی تو نہیں ہے؟ آپ کے خیال میں کیا لوگوں کے لئے یہ زیادہ حقیقت پسندانہ ہے کہ وہ کوئی خاص بات نہیں، کوئی بڑی بات نہیں کے مقولہ پر عمل کریں؟
ہمارے پاس ہمارے اسلوب کو تبدیل کرنے کی کوشش کے لئیے لوجونگ کا من کی تربیت کا طریق کار موجود ہے- مثال کے طور پر، ہم منفی حالات کو مثبت حالات کے طور پر دیکھ سکتے ہیں۔ یہ بہت اچھا طریقہ ہے، لیکن اس سے پہلے کہ ہم ایسا کر سکیں ہمیں اپنے منفی احساسات کو بڑہاوا دینے کے بجاۓ صورت حال کو حقیقت کی نظر سے دیکھنا ہو گا- لیکن ایسا کرنا مشکل ہے جبکہ ہم منفی حالات کو پہلے سے بڑہاوا دے کر انہیں ایک آفت کی شکل دے چکے ہوں- " اُف یہ کیا آفت ہے! بچے نے لنگوٹ کو پھر گندا کر دیا۔" ہمیں ایک زیادہ حقیقت پسندانہ نقطہ نظر کی ضرورت ہے اس سے پہلے کہ ہم یہ کہ سکیں " سب کے گندے لنگوٹ میرے پاس آ جائیں۔ میں سب کے گندے لنگوٹ بدلنے کو تیار ہوں۔"
ہمیں اقدامات کی ضرورت ہے: پہلے بچے نے اپنے آپ کو گندا کیا۔ تو کیا؟ وہ بچہ ہی تو ہے۔ ہم لنگوٹ بدل دیں گے۔ اب بدلنے کے دوران ہمیں اس ناپسندیدہ حقیقت سے واسطہ پڑتا ہے کہ وہ بدبو دار ہے، ایسے میں ہم لوجونگ کی اس مشق کا سوچ سکتے ہیں کہ "بچے کو صاف کرنے کے عمل سے میں سب کے داغ اور گندگی دور کر رہا ہوں۔ ایسا کرنے سےمیں سب کو صاف کرنے کے قابل ہونے کا سبب بن سکتا ہوں۔" لیکن سب سے پہلے ہمیں اسے ایک آفت کے طور پرسمجھنے کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسا ہمیں رفتہ رفتہ کرنا ہو گا-
میں صرف ان سب کے لنگوٹ تبدیل کرنے کے بارے میں سوچتا ہوں۔ کیسی گندگی۔
درست۔ کوئی بھی بدھ مت اختیار نہیں کرنا چاہے گا اگر اسے سارے زمانے کی گندگی کو اپنے اوپر تھوپنا پڑے، یہ ایک حقیقت ہے۔ ایک عام اصول کے طور پر مضحکہ خیز مثالیں گہرا اثر چھوڑتی ہیں بہ نسبت غیر دلچسپ مثالوں کے- درست؟
میں سوچ رہا تھا کہ روزمرہ زندگی میں جب ہمیں کوئی نا گوار تجربہ ہوتا ہے یا ایسی کوئی بات، جیسے تباہ کن تعلق تو اس سے ہم کس طرح نمٹتے ہیں؟
اگر ہم کسی تباہ کن رشتے سے منسلک ہیں اور حالات خراب ہو رہے ہیں تو ہم یہ تو نہیں کہیں گے " تو پھر کیا- یہ سمسار ہے۔" ہم جو استعمال کرنا چاہتے ہیں وہ ہماری امتیازی آگہی ہے جسے تقدس مآب دلائی لاما " شاندار انسانی ذہانت" کہتے ہیں۔ "ہمیں اس چیز میں امتیاز کرنا ہو گا کہ صورت حال ہمارے حق میں مددگار ہے یا نقصان دہ- کیا یہ تعلق ہمارے اور دوسرے انسان کے لئیے فائدہ مند ہے یا غیر فائدہ مند؟ اگر یہ فائدہ مند نہیں ہے بلکہ دونوں فریقین کے لئیے نقصان دہ ہے تو ہمیں اسے ختم کر دینا چاہئیے- مقصد تو واضح طور پر سوچنا ہے نہ کہ فیصلہ حالات کی مبالغہ آرائی اور تخمینوں کی بنیاد پر کیا جا رہا ہے جو حقیقت سے مطابقت نہیں رکھتے۔ کبھی کبھی ترکِ تعلق یقیناً بہتر ہے- لیکن یہ فیصلہ واضح سوچ اور واضح تجزیہ کے بعد کرنا چاہئیے-
کیا یہ ایک مثبت امر ہے کہ انسان اپنے لا شعوری احساسات سے آگاہ ہو اور ان کا اظہار بھی ایمانداری سے کر سکے؟
اکثر اوقات ہم جذبات کو محسوس کرتے ہیں، مغربی اصطلاح میں، 'ایک لاشعوری سطح پر'- سوال یہ ہے کہ بعض حالات میں کیا یہ بہتر نہ ہو گا کہ ان کا اظہار کھل کر کر سکیں؟ میں دو مختلف معاملات کے متعلق سوچ سکتا ہوں جن کا ہمیں مشاہدہ کرنا ہو گا، ایک تباہ کن جذبہ اور دوسرا تعمیری جذبہ۔ مثال کے طور پر ہم محبت اور غصہ کا تجزیہ کرتے ہیں- اگر ہمیں کسی سے لاشعوری طور پر دشمنی ہے تو ہمیں اس کا احساس ہونا چاہئیے- احساس ہونے کا مقصد ہرگز یہ نہیں کہ ہم اپنی عداوت کا اظہار بھی کریں- پھر بھی ہمیں کیا ہو رہا ہے کے مختلف پہلوؤں کا مختلف انداز سے تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے-
مثال کے طور پر، میرے کچھ دوست ہیں، جب بھی ان سے ملاقات ہوتی ہے میں ہمیشہ پوچھتا ہوں "تم کیسے ہو؟ کیا چل رہا ہے؟" لیکن وہ کبھی نہیں پوچھتے کہ میں کیسا ہوں یا میرا کیا حال ہے۔ وہ کبھی نہیں پوچھتے اور یہ کافی تکلیف دہ ہے کہ وہ خود پرستی میں اتنے مبتلا ہیں کہ انہیں میرا حال پوچھنے کا خیال تک نہیں آتا- اب یہاں ایک فرق ہے۔ کیا یہاں ان کے خلاف کوئی لاشعوری عداوت ہے؟ ہو سکتا ہے مگر اس بات کا اظہار کرنے سے یا اس پر ناراض ہونے سے مسئلہ حل نہیں ہو گا- ان کو کہنا کہ " تم انتہائی خود غرض ہو! تم ہولناک ہو" اضطراری طور پر تباہ کن رویہ ہو گا اور پھر ان پر چیخنا چلّانا۔ اس سے معاملہ سدھر نہیں سکتا۔ " تم مجھ سے کیوں نہیں پوچھتے کہ میں کیسا ہوں؟ تمہیں کیا ہوا ہے؟" یہ سوال مددگار ثابت نہیں ہوں گے- اگر ہم محسوس کرتے ہیں کہ ہمارے اندر کسی ایسی چیز کے لئیے عداوت ہے تو ہمیں خاص خیال رکھنا ہو گا کہ وہ ظاہر نہ ہو کیونکہ اگر وہ ظاہر ہو تو ہم اپنا ضبط نفس کھو بیٹھیں گے اور تباہ کن کاروائی کریں گے۔
تاہم جب مجھے اس دشمنی کا احساس ہو تو میں حالات کو بہتر کر سکتا ہوں بغیر غصہ کا اظہار کئیے- عام طور پر میں یہ کام مزاحیہ انداز میں کرتا ہوں- مجھے معلوم ہے کہ مزاح حالات کو بدلنے کے لئے ایک بہت مفید ذریعہ ہے- جب وہ اپنی ساری کتھا سنا چکتے ہیں کہ ان کے حالات کیسے ہیں اورموضوع بدلنا چاہتے ہیں بغیر مجھ سے میرے بارے میں پوچھے، تو میں کہتا ہوں " اور تم کیسے ہو الیکس؟" آہ، بہت شکریہ پوچھنے کا" یہ ایک مذاق سا بن جاتا ہے اور دوسرے انسان کو یہ احساس ہو جاتا ہے ان کو بھی جواباً میرا حال پوچھنا چاہئیے تھا- بلکل ایسے ہی بلا کسی عداوت کے-
یہ بہتر ہو گا کہ اگر ہمارے اندر کوئی پوشیدہ عداوت ہے تو ہم اس سے آگاہ ہوں- اگر اس نے مجھے پریشان نہیں کیا تو پھر کیا؟ مجھے پرواہ نہیں ہے کہ وہ مجھ سے پوچھیں یا نہ پوچھیں کہ میں کیسا ہوں، اس کی کوئی اہمیت نہیں- کیا مجھے انہیں بتانا ضروری ہے کہ میں کیا کر رہا ہوں، یا میں کیسا ہوں؟ واقعی نہیں- اگر میں سچ مچ ان کو بتانا چاہوں تو بتا سکتا ہوں- بلکل ایسے ہی جیسے آپ کے بالغ بچے یا ان کے بچے آپ کو کبھی فون نہ کریں اور آپ ان سے بات کرنا چاہتے ہیں تو خود فون کر کے بات کر لیجئیے- مگر آپ یہ کام بغیر کسی عداوت کے یا انہیں فون نہ کرنے پر مجرمانہ احساس دلاۓ بغیر کریں-
تعمیری جذبات کے متعلق کیا خیال ہے؟ اب ہمیں اس کا تجزیہ کرنا چاہئیے- میں فی البدیہ کہوں گا کیونکہ میں نے کبھی اس پر غور نہیں کیا- شاید ہمارے اندر ایسی کوئی محبت ہے جس کا اظہار نہ ہوا ہو- اس کا کیا مطلب ہے؟ ہم تباہ کن جذبات یا کسی کے لئیے مخفی اور پوشیدہ جنسی کشش رکھنے کی بات نہیں کر رہے- نہ ہم کسی سے ہمبستری کی خواہش کا اظہار کرنے کی بات کر رہے ہیں۔ ایسی کوئی بات نہیں ہے- اب ہمیں ایک مثبت جذبہ کی بات کرنا لازم ہے- مثال کے طور پر، ہمیں اپنے بچے سے محبت ہے، ہے نا؟ ہمیں اپنے بچے سے محبت ہے مگر ہم اس محبت کا اظہار کتنی بار کرتے ہیں؟ کیا ہم اسے مزید اظہاری سطح پر لانا چاہتے ہیں؟ ہاں، یہ مفید ثابت ہو گا-
پھر ہمیں ایسا کرنے کے لئیے امتیازی آگہی کو بیدار کرنا ہو گا کیونکہ ہم بچے کا محبت کے اظہار سے دم نہیں گھونٹنا چاہتے- مثال کے طور پر، ہمارا ایک نوجوان بچہ ہے جو اپنے دوستوں کے ساتھ ہے اور ہم اس کی ماں کے طور پر آ کر اس کو کہتے ہیں "اُف، مجھے تم سے شدید محبت ہے،" اور اسے گلے لگائیں اور بوسے دیں تو یہ اسکے دوستوں کے سامنے شرمندگی کا باعث ہو گا اور انتہائی غیر مناسب بھی- ایک اور مثال جو ہو سکتی ہے وہ یہ کہ ہم بار بار نوجوان بچے کو فون اور ٹکسٹ کریں جب وہ اپنے دوستوں کے ساتھ باہر گیا ہوا ہو- "ارے نہیں- یہ پھر میری ماں ہے جو پوچھ رہی ہے کہ میں ٹھیک تو ہوں؟"
ہمیں امتیازی آگہی سے کام لینا ہو گا اس بات کا تعیّن کرنے کے لئیے کہ اپنے مثبت جذبات کا اظہار کب اور کیسے کیا جاۓ- ایک دو سال کے بچے کے ساتھ اظہار کا طریقہ ایک پندرہ سالہ نوجوان سے مختلف ہونا چاہئیے- مثبت جذبات کا اظہار کرنے میں کوئی حرج نہیں لیکن اظہار کا انداز ڈرامائی نہیں ہونا چاہئیے- ذرا ہلکا پھلکا انداز بہتر ہے-
جذباتی روائج
یہاں سے ایک دوسرا موضوع شروع ہوتا ہے جو مجھے لگتا ہے بہت مددگار ہے- میرا ایک دوست جو ماہرِ نفسیات ہے اس نظریہ کو معاشی اصطلاح کے استعمال سے واضح کرتا ہے۔ ہمیں اس بات کو قبول کرنا سیکھ لینا چاہئیے کہ مختلف لوگ مختلف قسم کے سِکوں میں لین دین کرتے ہیں- ہمیں ان مختلف سِکوں کو قبول کرنا سیکھ لینا چاہئیے- مثال کے طور پر، کچھ لوگ اپنی محبت کا اظہار جسمانی طور پر بغلگیر ہو کر اور بوسہ لے کر کرتے ہیں- کچھ لوگ اپنی محبت اور پیار کا اظہار ہمارا خیال رکھ کر کرتے ہیں- وہ جسمانی طور پر پیار اور محبت کا اظہار نہیں کر پاتے- مگر وہ ہمدرد اور محافظ ہوتے ہیں۔
ایک عمدہ مثال پچھلی نسل سے لی جا سکتی ہے جب والد اپنے بچوں سے کھل کر محبت کا اظہار نہیں کرتے تھے- البتہ ان کی محبت کا اظہار اس بات میں تھا کہ وہ کام کرنے جاتے، پیسہ کماتے اور بچوں کی ہر ضرورت پوری کرتے تھے- یہ وہ سِکے تھے جن سے باپ اپنے فرائض کی ادائیگی کرتا تھا۔ - اِس چیز کا احساس ہمیں بچپن یا جوانی میں ہو جانا چاہئیے- "میرے والد مجھ سے محبت کرتے تھے اور اس کا اظہار دیکھ بھال اور کفالت سے کرتے تھے- ان کا لین دین ان سِکوں سے نہیں تھا جو میں چاہتا تھا یا پسند کرتا تھا جیسا کے لپٹانا یا کہنا کہ وہ مجھ سے کتنی محبت کرتے ہیں مگر اُنہوں نے اپنی محبت کا اظہار کیا ضرور تھا۔" ہم مختلف سِکوں میں لین دین کرنا سیکھ لیتے ہیں- یہ ایسا ہی ہو گا جیسے ڈنمارک میں یورو کے بجاۓ کرونا میں لین دین کرتے ہیں- پیسہ تو پیسہ ہی ہے- مختلف لوگوں کا اظہار محبت مختلف اطوار سے ہوتا ہے۔
جو کہانی آپ نے اپنے دوستوں کے متعلق سنائی جو آپ کا حال پوچھنے کے متعلق تھی وہاں اگر آپ غصے کا اظہار نہ کریں، مگر آپ کو چاہت یا ضرورت ہے کہ وہ آپکا احساس کریں یا آپکا حال پوچھیں- اسکا مطلب یہ نہیں کہ آپ غصہ میں ہیں مگر چیخنا نہیں چاہتے ہیں- پر آپ کچھ اُداس ہو جاتے ہیں- محبت کی کمی محسوس کرتے ہیں۔ آپ اپنے دل کی بات کہہ سکتے ہیں لیکن اگر وہ اپنا رویہ نہ بدلیں یا آپکی تجویز کو نہ اپنانا چاہیں، تو پھر آپ اس اداسی سے کیسے نبرد آزما ہوں گے؟ کیا اپنے اندر سے ان چیزوں کی لگاوٹ کو مٹا کر؟
اس صورت حال میں دو قسم کی اداسی موجود ہے- ایک اداسی کی وجہ اپنے نفس کی چاہت ہے- " میں اداس ہوں کیونکہ مجھے توجہ نہیں مل رہی- میں غصے میں نہیں ہوں پر کاش مجھے بھی کچھ توجہ ملے۔" یہ میرے اور صرف میرے اپنے متعلق سوچنے پر مبنی ہے- یہ ایک طرح کی اداسی ہوتی ہے- تاہم ہم اس وجہ سے بھی اداس ہو سکتے ہیں کہ یہ لوگ کس قدر اپنی ذات میں مگن ہیں- مگر ہم اسے ذاتی طور پر نہیں لیتے- اس معاملہ میں ہم اس لئیے اداس ہیں کہ ان کو ایسا مسئلہ در پیش ہے۔ اور ہمیں ان سے ہمدردی محسوس ہونے لگتی ہے۔ اور ہم ان کی مدد کرنے کی کوشش کےطریقے کے بارے میں سوچ سکتے ہیں-
اگر ہماری اداسی کا سبب صرف ہماری ذات ہے، " میں اداس ہوں کہ لوگ مجھے توجہ نہیں دیتے،" تو ہمیں اسکا تدارک کرنا ہو گا- اگر لوگ ہمیں توجہ دیں بھی، تو ہم کیا چاہتے ہیں؟ کیا ہم چاہتے ہیں کہ پیشہ ور فوٹوگرافر ہر وقت ہمارے اطراف میں پھرتے رہیں اور ہماری تصاویر بناتے رہیں؟ کیا ہمیں اتنی زیادہ توجہ کی ضرورت ہے؟ میرا مطلب ہے اس سے ہم مطمٔن نہیں ہوں گے- اگر لوگ ہمیں اتنی توجہ دے بھی دیں جتنی ہم چاہتے ہیں تو جو خوشی حاصل ہو گی وہ عام سی عارضی خوشی ہی ہو گی جو کہ دیرپا نہیں ہوتی۔ اور اس کے برعکس کوئی مثلاً غیر معمولی فکر مند والدین جو بہت زیادہ توجہ دیتے ہیں اورہر پانچ منٹ پر پوچھتے ہیں "تم کیسے ہو اور کیا محسوس کر رہے ہو؟" یا "کیا سب ٹھیک ہے نا؟"
میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے تعلقات میں سب کچھ ٹھیک ہے مگر دوسرا فریق ایسا نہیں سمجھتا- ہمیں سِکّوں کے متعلق بات کرنی چاہئیے۔ " میں ایسا ہوں اور تم ویسے ہو۔" اگر ہم ایک دوسرے سے واقف ہوں گے تو ہم ایک دوسرے کی پسند پر کام کر سکتے ہیں اور سیکھ سکتے ہیں۔ اس کے بارے میں بات کرنا اچھا ہے، تبادلہ خیال کرنا اچھا ہے اور ہمیں اس بارے میں با خبر ہونا چاہئیے۔
اگر یہ ایک مسلسل رابطہ ہے اور دوسرا انسان تاثر پذیر ہے تو اس کے بارے میں بات چیت ہو سکتی ہے- "مجھے اس طرح کا اظہار محبت پسند ہے۔" اور دوسرا انسان بھی بتا سکتا ہے کہ ان کو محبت کے اظہار کا کونسا طریقہ پسند ہے- یہ تعلق شراکت داری پر مبنی ہے- لیکن یہ طریقہ بچے اور والدین کے تعلق میں ٹھیک سے کام نہیں کرتا- اگر والد یا والدہ رحلت فرما چکے ہوں اور ہم اپنے بچپن کے متعلق سوچ رہے ہوں تو اس میں مذاکرات کی گنجائش نہیں ہو سکتی- یہ دیکھنا ضروری ہے کہ آیا دونوں مشمول افراد بنیادی طور پر برابر حیثیت کے مالک ہیں- کیا وہ تبدیل ہو کر باہمی بات چیت کر سکتے ہیں؟ ایسا بھی ہوتا ہے کہ مالک اپنے ماتحت لوگوں سے کبھی ان کا حال نہ پوچھتا ہو- ہم اس قسم کے معاملہ میں مالک کے ساتھ مذاکرات نہیں کر سکتے- مالک کے ساتھ ہم کام سے متعلقہ مسائل کے بارے میں بات کر سکتے ہیں جیسے کہ ”یہ جو کام مجھے دیا جا رہا ہے یہ بہت زیادہ ہے- میں اس بارے میں ناخوش ہوں۔" آپ کو اس صورت حال کا جائزہ لینا چاہئیے اور امتیازی آگہی کو کام میں لانا چاہئیے۔
چلو یہ کہتے ہیں کہ ہم خالی پن کے احساس کی آگہی تک نہیں پہنچے اور ہم ابھی بھی یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے پاس ناراضگی کی حقیقی اور غیر مبالغہ آمیز وجوہات موجود ہیں۔ ہم اس سے گریزکرتے ہیں اور اپنے غصہ کا اظہار نہیں کرتے۔ اس کو ایک بڑا مسٔلہ نہیں بناتے، لیکن کیا کوئی ایسی ترکیب ہے جس سے ہم اسے ایک غیر صحتمندانہ نفسیاتی مسٔلہ بننے سے روک سکیں؟
یہ اب ضبط و دباؤ کے مسئلہ کو اٹھانے والی بات ہے- جب تک ہمیں احساس نہ ہو اور نا ہی کسی بھی سطح کا خالی پن کا احساس ہو اور ہم محض اپنی عداوت کو دبا رہے ہوں تو اس کا رخ ہماری اپنی ذات کی طرف مڑ جاتا ہے- یہ بہت سی مشکلات پیدا کر سکتا ہے- اب ایسے میں کیا کیا جاۓ؟ اگر ہم نے اپنے غصہ یا ناراضگی کا اظہار کرنا ہے تو پھر ہمیں امتیازی آگہی کا استعمال کرتے ہوۓ مناسب وقت کا انتخاب کرنا ہو گا- اگر دوسرا شخص بھی بہت غصہ میں ہے یا بہت مصروف ہے تو وہ مناسب وقت نہیں ہو گا- مناسب وقت کے تعین کے لئیے اپنی عقل کو استعمال کریں- ایسے وقت جب غصہ بہت شدید ہو اس کے اظہار سے اجتناب کریں ورنہ معاملہ ہاتھ سے نکل سکتا ہے-
یہ سب عام سمجھ بوجھ اور ذہانت کے استعمال کرنے کی بات ہے- یہ کب مدد گار ثابت ہو گا؟ کونسا وقت موزوں ہو گا؟ اگر دوسرا انسان شدید تھکن کا شکار ہے اور سونا چاہتا ہے یا نیم بیداری کی حالت میں ہے تو وہ وقت اس کے ساتھ اس کی عدم حسیت کے بارے میں گہری اور بامعنی بات چیت کرنے کا نہیں ہے- یہ تب بھی لاگو ہوتا ہے جب وہ واقعی کام میں بہت مصروف ہوں۔ وہ بھی مناسب وقت نہیں ہے- ہے نا؟