صبر بطور ایک کمال: کشانتی پرمت

"کہتے ہیں کہ صبر ایک گن ہے۔" تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم سب کچھ ہنسی خوشی برداشت کر لیں؟ بدھ مت میں صبر ایک ایسی طاقتور عادت ہے جس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم بس حالات کو برداشت کر لیں، بلکہ یہ کہ اپنے من کو ایسے مستعد انداز سے استوار کریں کہ یہ پریشان کن جذبات کا شکار نہ ہونے پاۓ۔ صبر سے ہمیں اپنے اور دوسروں کے بھلے کی خاطر کام کرنے کی شکتی ملتی ہے، اور یہ ان عناصر میں سے ایک ہے جو ہماری مکش اور روشن ضمیری کی جانب حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔

تعارف

چھ دور رس اطوار (کمالات) میں تیسرے نمبر پر صبر ہے، یہ من کی ایک ایسی حالت ہے جس میں ہم غصہ کا اظہار نہیں کرتے، بلکہ بہت سے مصائب اور دکھ کو جھیلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ہمیں دوسروں سے بہت دکھ پہنچے مگر ہم اس سے پریشان نہیں ہوتے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اب ہمارا کوئی دشمن یا بد خواہ نہیں، لیکن اب ہم غصہ، شکست خوردگی اور حوصلہ شکنی کا شکار نہیں ہوتے اور نہ ہی ان کی مدد کرنے سے دست کشی کرتے ہیں۔ اگر ہم ہر دم غصہ میں ہوں تو ہم کیسے کسی کے کام آ سکتے ہیں؟ صبر کے رویہ کی تین قسمیں ہیں:

جو ہمیں نقصان پہنچائں ان سے ناراض نہ ہونا

صبر کی پہلی قسم وہ ہے جس میں ہم ان پر ناراض نہیں ہوتے جو ہمیں نقصان پہنچاتے ہیں۔ یہ محض وہ لوگ نہیں ہیں جن کا رویہ منفی ہے، بلکہ اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو ہمارے ساتھ بد تمیزی سے پیش آتے ہیں، ہم سے بد سلوکی کے مرتکب ہوتے ہیں، اور ہمیں جسمانی یا ذہنی نقصان پہنچاتے ہیں۔ اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو نہ تو ہمارے مشکور ہوتے ہیں اور نہ ہی ہماری قدر کرتے ہیں۔ خصوصاً اگر ہم کسی کی مدد کر رہے ہوں، تو اگر وہ ہماری نصیحت پر عمل نہ کریں یا یہ کار گر نہ ہو تو ہمیں بالکل ناراض نہیں ہونا چاہئیے۔ ایسے بےشمار لوگ ہیں جن کی مدد کرنا نہائت مشکل ہے، تو صبر کا دامن چھوڑنے کی بجاۓ ہمیں تمام مشکلات کو برداشت کرنا ہو گا۔

اگر ہم استاد ہیں تو ہمیں کبھی بھی اپنے شاگردوں کے ساتھ بے صبری سے پیش نہیں آنا چاہئیے خواہ وہ کتنے ہی سست یا کند ذہن کیوں نہ ہوں۔  بطور استاد کے یہ ہمارے اوپر مبنی ہے، خواہ ہم دھرم کی تعلیم دے رہے ہوں یا کسی اور چیز کی، کہ ہم صبر سے کام لیں اور شکست خوردہ نہ ہوں۔ یہ کسی چھوٹے بچے کو سکھانے کے مترادف ہے: ہمیں مہارت سے کام لینا ہے؛ ہم کسی نوزائیندہ سے یہ توقع نہیں کر سکتے کہ وہ ایک بالغ کی مانند جلد ہی سیکھ لے۔

تکلیف برداشت کرنا

صبر کی دوسری قسم اپنی تکلیف کو قبول کرنا اور اسے برداشت کرنا ہے، جس کے متعلق شانتی دیو بہت بات کرتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اگر ہمیں کوئی ایسا مسٔلہ درپیش ہے جس کا حل موجود ہے، تو ناراض، پریشان یا فکرمند ہونے کی  ضرورت نہیں۔ بس اسے حل کر ڈالو۔ لیکن اگر اس کا کوئی حل نہیں، تو پھر غصہ کرنے سے کیا حاصل؟ اس سے کچھ نہیں ملے گا۔ اس کی مثال یوں ہے کہ اگر ٹھنڈ ہو رہی ہے اور ہمارے پاس گرم کپڑے موجود ہیں تو پھر سردی کی شکائت اور غصہ کرنے سے کیا فائدہ جبکہ ہم مزید کپڑے پہن سکتے ہیں؟ لیکن اگر ہمارے پاس گرم کپڑے نہیں ہیں تو غصہ اور ناراضگی سے سردی دور نہیں ہو جاۓ گی۔

ہم اس تکلیف کو بھی سامنے رکھ سکتے ہیں جو ہم مشکلات کو دور کرنے میں اٹھاتے ہیں، اس احساس خوشی کے ساتھ ہمارا منفی کرم اب پختہ ہو رہا ہے بجاۓ مستقبل میں ہونے کے جب کہ یہ اور بھی برا ہو سکتا ہے۔ ایک طرح سے ہم سستے چھوٹ رہے ہیں۔ فرض کیجئیے کہ ہمارا پاؤں میز سے ٹکراتا ہے اور ہمیں خاصی چوٹ لگتی ہے – تو یہ اس سے تو بہتر ہے کہ ہماری ٹانگ نہیں ٹوٹی! ایسا سوچنے سے ہم غصہ سے بچ جاتے ہیں۔ بہر حال، پاؤں کو چوٹ لگنے پر اور اوپر نیچے کودنے سے اور بہت شور مچانے سے ذرہ برابر بھی فائدہ نہیں ہوگا۔ حتیٰ کہ اگر ہماری ماں آ کر اسے چومے تو بھی کچھ خاص افاقہ نہیں ہو گا!

ایک اور معاملہ وہ ہے جس میں ہم کوئی نہائت مثبت اور تعمیری کام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، مثلاً کوئی لمبا چلہ کاٹنے کی تیاری، یا لوگوں کی مدد کرنے کی خاطر کسی سفر پر جانا، یا دھرم کے کسی منصوبہ پر کام کرنا۔ اگر شروع میں بہت سی مشکلات پیش آئیں تو یہ عمدہ بات ہے۔ اس کا مطلب مسائل کا شروع میں ہی خاتمہ ہونا ہے تا کہ بعد کا کام آسان ہو۔ ہمیں ابھی اس کے خاتمہ پر خوش ہونا چاہئیے بجاۓ اس کے کہ یہ بعد میں کوئی بڑی مصیبت کھڑی کر دے۔

شانتی دیو کا کہنا ہے کہ آلام اور مصائب میں خوبیاں بھی پائی جاتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم مسائل کی تلاش میں نکل پڑیں تا کہ اپنے آپ کو آزار میں مبتلا کر سکیں، مگر جب ہم دکھ جھیل رہے ہوتے ہیں تو ایسی اچھی خوبیاں بھی سامنے آتی ہیں جنہیں ہم سراہ سکتے ہیں۔ مصیبت ہماری نخوّت کو کم کرتی ہے اور ہمیں عجز سکھاتی ہے۔ اس سے ہمارے اندر ان لوگوں کے لئیے درد مندی پیدا ہوتی ہے جو ہماری جیسی مشکلات سے دوچار ہیں۔ یہ ایسے ہی ہے کہ اگر ہمیں کوئی بیماری لگ جاۓ، تو ہمیں فطری طور پر ان لوگوں کے درد کا احساس ہوتا ہے جو اس مرض میں مبتلا ہیں، اور ہم ان کے لئیے درد مندی محسوس کرتے ہیں۔ ہم بڑھاپے کے دکھ کو تب ہی پہچانتے ہیں جب ہم خود عمر رسیدہ ہو جائں۔ ۱۶ برس کی عمر میں ہم بوڑھے لوگوں کے لئیے درد مندی کا جذبہ نہیں رکھتے، کیونکہ ہمیں اس بات کا اندازہ ہو ہی نہیں سکتا کہ ۷۰ برس کا ہونا کیسا ہوتا ہے۔ لیکن جب ہم خود بوڑھے ہو جائں اور ان تجربات سے دوچار ہوں، تب ہم عمر رسیدہ لوگوں کے لئیے احساس اور درد مندی استوار کر سکتے ہیں۔
اور اگر ہم رویہ کی بابت علت و معلول کی کچھ سوجھ بوجھ  - کرم – رکھتے ہیں تو دکھ کی صورت میں یہ ہمیں یاد دہانی کراتا ہے کہ ہم تباہ کن رویہ سے گریز کریں۔ کیوں؟ کیونکہ سیدھی سی بات ہے کہ منفی رویہ دکھ کا باعث ہوتا ہے۔ اس سے ہمیں تعمیری کاموں میں حصہ لینے کی مزید تقویت اور ترغیب ملے گی، جو کہ مسرت کا سبب ہے۔

دھرم کی خاطر دکھ جھیلنا

صبر کی تیسری قسم دھرم کے مطالعہ اور مشق میں شامل مشکلات کو برداشت کرنا ہے۔ روشن ضمیری کی راہ نہائت کٹھن ہے، اور اس بارے میں حقیقت پسندی سے کام لینا چاہئیے تا کہ ہم ہمت نہ ہار بیٹھیں: ہمیں اپنی ذات کے ساتھ صبر کا مظاہرہ کرنا چاہئیے۔

اس بات کا احساس لازم ہے کہ نشیب و فراز سمسار کی فطرت میں شامل ہے، نہ صرف بلند اور پست پنر جنموں کی شکل میں بلکہ عام طور پر بھی ، اور ہر لمحہ۔ ہم بعض اوقات پاٹھ پر مائل ہوں گے اور کبھی نہیں بھی۔ بعض اوقات ہمارا پاٹھ کامیاب ہو گا اور دیگر اوقات ایسا نہیں ہو گا۔ اور اس کے علاوہ ہم کیا توقع کر سکتے ہیں؟ یہ بہر حال سمسار ہے۔ یہ روز بہ روز ترقی پذیر نہیں ہے، لہٰذا ہمیں صبر سے کام لینا ہے اور اگر کوئی ایک دن ہمارے منصوبہ پر پورا نہیں اترتا تو ہمیں ہار نہیں مان لینی۔ ممکن ہے کہ ہم نے یہ سوچا ہو کہ ہم نے غصہ کو سِدھا لیا ہے اور اب ہمیں کبھی غصہ نہیں آۓ گا، لیکن اچانک کوئی ایسی بات ہو جاتی ہے کہ ہم غصہ میں آ جاتے ہیں۔ تو یہ تو ہوتا ہی ہے۔ ہم غصہ سے اس وقت تک پوری طرح چھٹکارا نہیں پا سکتے جب تک کہ ہم بطور ایک ارہت کے مکش حاصل نہ کر لیں۔ لہٰذا صبر ہی اس کی کلید ہے۔

صبر استوار کرنے پر شانتی دیو کے افکار

"بودھی ستوا رویہ میں مشغولیت' میں شانتی دیو صبر استوار کرنے کے کئی طریقے بتاتا ہے۔ آئیے ہم چند مثالوں کا جائزہ لیتے ہیں:

اگر ہمارا ہاتھ آگ میں یا چولھے پر جل جاۓ، تو ہم آگ پر اس کی حرارت کی خصوصیت پر ناراض نہیں ہوتے۔ یہ تو آگ کی فطرت ہے۔ اسی طرح، ہم سمسار سے کیا توقع رکھتے ہیں؟ بے شک لوگ ہمیں دھوکہ دیں گے، وہ ہمیں نقصان پہنچائں گے، اور حالات میں مشکلات ہوں گی۔ اگر ہم کسی سے کچھ کرنے کو کہیں تو ہمیں توقع کرنی چاہئیے کہ وہ یہ کام غلط طریقہ سے کریں گے۔ اگر وہ اسے ہماری مرضی کے مطابق نہیں کرتے تو اس میں قصور کس کا ہے؟ یہ ہمارا قصور ہے کہ ہم نے اپنی کاہلی کی بدولت اسے خود کرنے کی بجاۓ ان سے کرنے کو کہا۔ اگر ہمیں کسی پر ناراض ہونا ہے تو ہم اپنی کاہلی پر ناراض ہوں!

" ہم سمسار سے کیا توقع رکھتے ہیں" یہ ایک یاد رکھنے کے لائق کار آمد جملہ ہے جو ہمیں ہر طرح کے مطلوبہ صبر کو استوار کرنے میں معاون ہو سکتا ہے۔ کیا ہم یہ سوچتے ہیں کہ زندگی بِتانا آسان کام ہے اور یہ کہ سب کام ہمیشہ آسانی سے ہو جائں گے؟ ہماری زندگی کے ہر لمحہ کی فطرت سمساری ہے – جس کا مطلب ہے اضطراری، رو بہ تکرار آلام اور مصائب۔ لہٰذا جب کام ہمارے حسب منشا نہ ہوں یا لوگ ہمیں دکھ پہنچائں یا مایوس کریں تو حیران ہونے کی کوئی بات نہیں۔ ہم اس کے سوا اور کیا توقع کر سکتے ہیں؟ یہی وجہ ہے کہ ہم اس سے آزادی چاہتے ہیں۔

اس کی مثال یوں ہی ہے کہ ہم موسم سرما کے ٹھنڈا اور تاریک ہونے کی شکائت کریں۔ آخر موسم سرما سے ہماری توقع کیا ہے – کہ کیا یہ گرم اور سہانا ہو گا اور ہم اس میں سورج کی دھوپ سینک سکیں گے؟! جس طرح حرارت آگ کی فطرت ہے اور اگر ہم اپنا ہاتھ اس میں ڈالیں تو یہ جل جاۓ گا، ایسے ہی موسم سرما بھی ٹھنڈا اورتاریک ہو گا۔ غصہ کرنے کی کوئی بات نہیں۔

ایک اور طریقہ جو شانتی دیو بتاتا ہے وہ یہ کہ ہم لوگوں کو سر پھرے یا شیر خوار بچے تصور کریں۔ اگر کوئی احمق یا نشے میں مخمور شخص ہمارے اوپر چلاتا ہے، تو اگر ہم اس کو ویسے ہی جواب دیں تو یہ اس سے بھی بڑھ کر حماقت ہو گی، ہے نا؟ اگر ہمارا دو سال کا بچہ چلا کر ہمیں کہتا ہے "میں تم سے نفرت کرتا ہوں!" اس پر کہ جب ہم ٹیلیوژن بند کر دیں اور اسے سو جانے کو کہیں، تو کیا ہم اس کا سچ مچ برا مناتے ہیں اور اس بات پر غصہ کا اظہار کرتے ہیں کہ ہمارا بچہ ہم سے نفرت کرتا ہے؟ نہیں، کیونکہ یہ ایک نا سمجھ طفل ہے۔ اگر ہم دوسرے لوگوں کو بھی جن کا رویہ نہائت قبیح ہے احمق اور طفل شیر خوار تصور کریں، تو اس سے ہمیں شانت رہنے میں مدد ملتی ہے۔

مزید یہ کہ اگر کوئی شخص ہمیں پریشان کر رہا ہے تو اسے اپنا استاد ماننا بہت مفید ہو سکتا ہے۔ ہم سب کی جان پہچان میں ایک ایسا نا گوار شخص ضرور ہوتا ہے جس سے بچنا مشکل ہے۔ ہے نا؟ تو خیر، جب ہم ان کے ساتھ ہوں، ہمیں سوچنا چاہئیے،" یہ شخص میرا صبر کا استاد ہے۔" در حقیقت، اگر لوگ ہمیں تنگ یا پریشان نہ کریں، تو ہم کبھی بھی صبر پیدا نہیں کر سکیں گے۔ ہمیں کبھی بھی مشکل کا سامنا نہیں ہو گا، پس ہم دیکھ سکتے ہیں کہ یہ لوگ کس قدر مہربان ہیں جو ہمیں ایسے مواقع فراہم کرتے ہیں۔ تقدس مآب دلائی لاما ہمیشہ کہتے ہیں کہ چینی راہنما ان کے استاد ہیں، اور یہ کہ ماؤ زیڈنگ ان کا صبر کا سب سے بڑا معلم تھا۔

خلاصہ

ہمارا ہر وہ دن جو سمسار میں گزرتا ہے اس میں ہم مسائل اور مصائب سے دوچار ہوتے ہیں۔ بعض اوقات حالات نہائت سازگار ہوتے ہیں، مگر دیگر اوقات حالات قابو سے باہر نظر آتے ہیں۔ ہر وہ کام جو ہم کرتے ہیں اس میں ناکامی ممکن ہے، ہر وہ شخص جسے ہم دوست بناتے ہیں وہ ہمارا دشمن بن سکتا ہے۔ ہم نے اپنے بہترین دوست کی کتنی ہی مدد کی ہو، وہ ہمارے پیٹھ پیچھے بد گوئی کا مرتکب ہو سکتا ہے۔

ایسے حالات میں، غصہ میں آ جانا فطری امر ہے، جس سے ہمارے اندر یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ اگر ہم اپنے دشمن کو تباہ کر دیں تو اس سے ہمیں مطلوبہ من کا سکون مل جاۓ گا۔ بد قسمتی یہ ہے کہ اگر ہم اپنے جانی دشمن کو آج، کل اور پرسوں یعنی ہر روز تباہ کر بھی دیں تو کل کو نئے پیدا ہو جائں گے۔ شانتی دیو ہمیں تلقین کرتا ہے کہ ہم صرف اپنے پاؤں، بجاۓ تمام دنیا کے، چمڑے سے ڈھانپیں۔ دوسرے لفظوں میں اپنے تمام خارجی دشمنوں پر غلبہ پانے کی کوئی ضرورت نہیں، جبکہ اصل بات یہ ہے کہ ہم اپنے اندرونی دشمن یعنی غصہ پر قابو پائں۔ چمڑے سے مراد یہاں صبر ہے، وہ باب جس سے ہم صبر سے ان مسائل کو حل کرنے کی جانب قدم بڑھاتے ہیں جو لوگ ہمارے لئیے پیدا کرتے ہیں، اور جن سے ہمارا مکش کی راہ پر واسطہ پڑے گا۔ 

Top