مسرت طبیعی بھی ہو سکتی ہے اور ذہنی بھی۔ ہمیشہ سے دکھ کی دو قسمیں رہی ہیں: جسمانی (طبیعی) اور ذہنی۔ ہم میں سے بہت سے لوگ، ا گرچہ خوشی حاصل کرنا چاہتے ہیں، لیکن وہ اسے حاصل کرنے کے طریقوں سے بے خبر رہتے ہیں۔ جو طریقے ہم اختیار کرتے ہیں وہ ہمیں دکھ کی طرف لے جاتے ہیں۔
کچھہ لوگ زندہ رہنے کے لیے ڈاکے ڈالتے ہیں اور قتل کرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اسی کے ذریعے وہ مسرت حاصل کر لیں گے۔ مگر ایسا نہیں ہے۔ دوسرے بہت سے ایسے لوگ ہیں جو تاجر بن کر، یا کسان بن کر، یا اسی طرح قانون کی حدوں میں رہتے ہوئے کسی دوسرے طریقے سے، مسرت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بہت سے لوگ ایسے ہی طریقوں کی مدد سے نہایت متمول اور مشہور ہو جاتے ہیں۔ اس طرح کی خوشی ایسی چیز نہیں ہے جو ہمیشہ باقی رہ سکے؛ یہ آخری مسرت نہیں ہے۔ ہم چاہے جس قدر مسرتوں اور مادی اشیا کے مالک ہو جائیں، ہمیں کبھی یہ اطمینان نہیں ہوتا کہ اب ہمارے پاس کافی کچھہ ہے۔ یہاں تک کہ اگر ہم ایک پورے ملک کے مالک بن جائیں، جب بھی ہمیں مزید کی طلب رہے گی۔
مسرت کی حصولیابی کے لیے ہم جو کام کرتے ہیں، اس کا خاتمہ کہیں نہیں ہے۔ ہم سب سے تیز رفتار ذریعہ، موٹر کار وغیرہ کی مدد سے اپنا سفر طے کرنا چاہتے ہیں۔ اس طرح کی جستجو کا کہیں خاتمہ نہیں ہے۔ اسی وجہ سے لوگ کہتے ہیں کہ دنیاوی وجود کا کہیں خاتمہ نہیں ہے۔ یہ تو بس مسلسل چکر کاٹتا رہتا ہے۔ ہم سب اس سے سمجھہ سکتے ہیں: دنیوی چیزوں کی تلاش کبھی ختم نہیں ہوتی۔
ایک پھول اس وقت شاداب ہوتا ہے جب نیا ہو، پرانا ہوتے ہی بے رنگ ہونے لگتا ہے۔ تم اس زندگی میں چاہے جو کچھہ حاصل کر لو، یہ کبھی نہ کبھی ختم ہو جائے گا۔ وقت جیسے جیسے آگے بڑھتا جاتا ہے اس کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ ہماری زندگیوں کے خاتمے کے ساتھہ جب ہمیں سب سے زیادہ دکھ کا سامنا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر آٹو موبائل کو دیکھہ لو، کبھی کباڑ بھرے ہوئے میدان کے سامنے سے گزرو جہاں پرانی کھٹارا کاریں ڈھیر کر دی گئی ہوں۔ یہی آخری اختتام ہے، وہ حالت جس میں ہر شے کباڑ بن چکی ہو۔ ہر چند کہ جب یہ کار اچھی حالت میں ہوتی ہے تو ہم اس کی طرف سے متفکر رہتے ہیں۔ ہمیں یہ فکر رہتی ہے کہ اس کا کوئی پرزہ خراب ہو جائے گا، ٹیکس چکانے ہوں گے اور بیمے کی رقم ادا کرنی ہوگی وغیرہ وغیرہ۔ اس مثال کو ہم اپنے تمام مادی اثاثوں پر پھیلا سکتے ہیں۔ ہمارے پاس جتنا زیادہ (اثاثہ) ہوگا، اس کی طرف سے ہمیں اتنی ہی زیادہ فکریں رہیں گی۔
دھرم اسے کہتے ہیں جو ہمیں ذہنی مسرت کی حصولیابی کے طریقے سکھاتا ہے۔ ذہنی خوشیوں کی کچھہ قسموں کو پانے کے لیے، ہم جسمانی مشقت نہیں کرتے؛ ہمیں اپنے دماغ سے کام لینا پڑتا ہے۔ ہمارا دماغ، بہر حال، تسلسل کی ایک لمبی ڈور سے بندھا ہوا ہے، یہ ڈور مستقبل کی زندگیوں تک جاتی ہے، اور ماضی کی زندگیوں سے مستقبل کی زندگیوں کی طرف جاتی ہے۔ ہر مدت حیات میں ہر زندگی میں ہمارا ایک نیا جسم ہوتا ہے اور اس جسم کے لیے ہم مسرتیں حاصل کرنا چاہتے ہیں، لیکن موت کے وقت بھی دماغ کا عمل جاری رہتا ہے۔ لہٰذا، اس کے لیے ہمیں جس مسرت کی ضرورت ہونی چاہیے، وہ ایسی مسرت نہیں جسے عظیم اور پائدار کہا جا سکے، بلکہ ایسی مسرت ہے جو ہماری آئندہ کی تمام زندگیوں کے لیے بھی باقی رہ سکے اور جس کا تسلسل کبھی ٹوٹنے نہ پائے۔
اگر ہم یکسر من مانے طریقے سے کسی قسم کا طرز عمل اختیار کرتے ہیں یہ سوچے بغیر کہ ہمارا عمل مثبت ہے کہ نہیں، یہ دھرم نہیں ہے؛ کیونکہ دھرم تو ان اعمال سے عبارت ہے جو مثبت ہوں اور ہماری مستقبل کی زندگیوں کی خاطر اختیار کیے جائیں!
خوشی اور ناخوشی، دونوں ہمارے اعمال سے پیدا ہوتی ہیں۔ ان کرمی اعمال کے سلسلے میں، ہمیں یہ جاننا چاہیے کہ منفی اعمال منفی نتیجے پیدا کرتے ہیں اور مثبت اعمال اپنے ساتھہ مثبت نتائج لاتے ہیں۔ کوئی بھی ایسا کام، جسے اس زندگی میں ہم سلیقے سے انجام دے سکیں، مثلاً کھیتوں میں پودے اگانا وغیرہ وغیرہ، یہ سب نتیجہ ہے ان مثبت اعمال کا جو ہم نے اپنی سابقہ زندگیوں میں انجام دیے تھے۔ اگر ہم بہت بیمار ہیں، یا اگر ہم ناخوش ہیں، یا ہماری زندگیاں مختصر ہوتی ہیں، تو یہ سب نتیجہ ہوگا ان منفی اعمال کا جو ہم نے اپنی سابقہ زندگیوں میں انجام دیے تھے۔
مثال کے طور پر، آپ کے سامنے دو سوداگر ہیں، ان میں سے ایک کامیاب ہے، دوسرا کامیاب نہیں ہے۔ ایسا پچھلے کرموں کی وجہ سے ہے۔ آپ دو تاجروں کو دیکھتے ہیں، ایک انتھک محنت کرتا ہے مگر کامیاب نہیں ہوتا، دوسرا زیادہ محنت نہیں کرتا، مگر کامیاب ہو جاتا ہے۔ ایک اور مثال دیکھیے- اگر آپ زندہ مخلوقات کی جان لیں گے، تو آپ کی زندگی مختصر ہوگی اور آپ کو بیماری گھیر لے گی۔ آپ یہاں اپنے گیشے۔لا سے، ان سب مسئلوں کے بارے میں دریافت کر سکتے ہیں۔
اگر آپ اس طرح کے منفی اعمال سے اپنے آپ کو دور رکھیں، تو آپ کسی پستی والے علاقے میں پیدا نہیں ہوں گے، بلکہ ایک انسان کے طور پر پیدا ہوں گے اور دیوتاوں کے علاقے میں پیدا ہوں گے لیکن، خواہ آپ انسان کے طور پر یا ایک دیوتا کے طور پر پیدا ہوں، اس سے آپ کو دائمی مسرت نہیں مل جاتی- یہ سب کچھہ دکھ کی سرشت کا حصہ ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ اگر آپ کسی بلند مرتبے تک پہنچتے ہیں، یا آپ کسی طرح کی پستی میں جا پڑتے ہیں؛ اگر آپ معمولی حیثیت میں ہوتے ہیں، پھر اس سے اٹھہ کر اونچی حیثیت اختیار کر لیتے ہیں۔ یہاں سے شدید دکھوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر، اگر آپ بھوکے ہیں، تو آپ کھانا کھاتے ہیں؛ لیکن اگر آپ بہت زیادہ کھالیں، تو آپ بیمار پڑ جاتے ہیں۔ اگر آپ ٹھنڈ محسوس کرتے ہیں، تو آپ گرمائش کی تلاش کرتے ہیں، لیکن گرمی حد سے زیادہ ہو جائے تو پھر آپ کو ٹھنڈک کی ضرورت پڑے گی۔ یہ سبھی دکھ کی مختلف قسمیں ہیں۔
سمسار (بار بار بے اختیارانہ طور پر جنم لینے والا وجود) انہی اقسام کے دکھوں پر مشتمل ہے۔ یہ کرم کا پھل ہے اور مختلف پریشان کن جذبوں اور رویوں کا نتیجہ۔ ہمیں ضرورت ہے اس دانش (تفریق پیدا کرنے والی آگہی) کو فروغ دینے کی، جو خالی پن (voidness [emptiness]) کا یا شخصیت کا ادراک کر سکے (جو 'انا' کے احساس سے یکسر عاری ہو)۔
ہم ایسے لوگوں کی مثالیں بھی دیکھہ سکتے جو اپنے سمساروں کی حد اختتام یعنی کہ سولہ ارہتوں اور دوسری مختلف آریاؤں تک پہنچ چکے ہین جنھوں نے اس کیفیت کو حاصل کر لیا ہو۔ اگرچہ، ہم خود اپنے دنیوی وجود کے سلسلے کو ختم کر سکتے ہیں، لیکن بس اتنا ہی کر لینا کافی نہیں ہے کیونکہ ہم پر کوئی بھی ان تمام محدود مخلوقات (حساس اور ذی شعور مخلوقات) سے زیادہ مہربان نہیں رہا ہے۔ دودھ سے پیدا ہونے والی چیزیں جانوروں کی مہربانی سے ہمیں ملتی ہیں۔ اگر ہمیں گوشت اچھا لگتا ہے، تو یہ ہمیں ان جانوروں سے ملتا ہے جو صحت مند ہوتے ہوئے بھی ذبح کر دیے جاتے ہیں۔ سردیوں میں ہم سمور کے بنے ہوئے کوٹ اور اونی کپڑے پہنتے ہیں جو جانوروں سے ہی ہمیں ملتے ہیں۔ یہ ان کہ نہایت مہربانی ہے کہ وہ ہمیں اتنا کچھہ دیتے ہیں۔ ہم تمام زندہ مخلوقات کی مہربانیوں کا بدلہ اپنے طور پر بدھیت کے مرتبے تک رسائی حاصل کر کے، چکا سکتے ہیں۔ تب ہم تمام محدود مخلوقات کے مقاصد کی تکمیل کر سکیں گے۔
شراوک اور ارہت محدود مخلوقات کے مقاصد کی تکمیل نہیں کر سکے۔ صرف بودھ کی اکیلی ہستی ہے جو یہ کام انجام دے سکتی ہے۔ اور اسی لیے حقیقت میں ان کی مدد کے لیے ہم یہ کر سکتے ہیں۔ ضرورت اس کی ہے کہ ہم خود بودھ بن جائیں۔
ہم یہ کس طرح کریں؟ دھرم کی پیروی کے ذریعے۔ ہندوستان میں نہایت مرد گار مہاسِدّھ ہوا کرتے تھے، ہمارے پاس ان میں سے اسّی کی جیون کتھائیں موجود ہیں، لیکن واقعہ یہ ہے کہ ان کی تعداد بے شمار ہے۔ وہ اپنی مدت حیات کے اندر ہی روشن ضمیری حاصل کر لیتے ہیں۔ تبت میں میلاریپا کی مثال موجود ہے، اس کے علاوہ کاگیو، نئنگما، ساکیہ اور گیلوگ مکاتب کے بہت سے دوسرے عظیم اساتذہ ہیں۔
ایک بار ہم بدّھ کی حالت تک پہنچ جائیں، تو پھر ہماری دھرم کی کوششیں ختم ہو جاتی ہیں۔ دھرم میں ہم جو کام کرتے ہیں، شروع میں بہت مشکل نظر آتا ہے، لیکن بتدریج یہ آسان سے آسان تر ہوتا جاتا ہے اور جیسے جیسے ہم آگے بڑھتے جاتے ہیں ہم زیادہ سے زیادہ مسرور ہوتے جاتے ہیں۔ ہم اپنے دھرم کے کام کی تکمیل مکمل مسرت کی حالت میں کرتے ہیں۔ دنیوی کام ہمارے لیے صرف پہلے سے زیادہ دکھ لے کر آتا ہے۔
مثال کے طور پر، لوگ جب مرتے ہیں، تو ان کی زندگیاں، موت میں اپنے انجام یا نقطئہ اختتام تک پہنچنے میں، صرف اذیت اور دکھ پیدا کرتے ہیں، صرف انہی کے لیے نہیں، ان کے پسماندگان کے لیے بھی۔ ہمیں اس کی بات سوچنا چاہیے اور دھرم سے متعلق کسی قسم کا کام انجام دینا چاہیے۔ دھرم کی تکمیل یا نقطئہ اختتام تک، روشن ضمیری کی حصولیابی کے ساتھہ رسائی ہی خوشیاں لے کر آتی ہے، صرف ہمارے لیے نہیں، دوسروں کے لیے بھی۔
ہمیں دس منفی اعمال کے ارتکاب سے بچنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم مثبت عمل اختیار کرتے ہیں، ہمیں خوشی کا تجربہ حاصل ہوتا ہے، اور اگر ہم منفی عمل انجام دیتے ہیں، تو ہمیں ناخوشی کا تجربہ ہوتا ہے۔ ہمیں اپنے اعمال کے نتائج کا جائزہ لینا چاہیے اور اپنے اعمال کے اسباب کے طور پر ہمیں خود اپنے ذہن کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ جس وقت ہم یہ جانچ پرکھہ کر رہے ہوتے ہیں، ہم دیکھتے ہیں کہ ہمیں تین زہریلے جذبوں اور رویوں نے گھیر رکھا ہے – خواہش، جارحیت اور بند ذہنی کی پیدا کردہ جہالت (بے خبری)۔
انہی کے واسطے سے ہم پریشان کن جذبوں اور رویوں کی چوراسی ہزار اقسام سے دوچار ہوتے ہیں۔ یہ چوراسی ہزار بہکاوے ہی ہمارے خالص دشمن ہیں، لہٰذا انہیں ہم اپنے اندر دیکھتے ہیں، اپنے اطراف میں نہیں، ان چوراسی ہزار بہکاووں میں خاص حیثیت تین زہروں کو حاصل ہے اور تینوں میں بھی بد ترین بند ذہنی کی پیدا کردہ وہ جہالت یا بے خبری ہے، جو ہماری اپنی ہی ذہنی رووں میں موجود ہوتی ہے۔
مختصر یہ کہ، ہمیں اپنے اندرون میں جھانکنا چاہیے اور اپنے ان اندرونی دشمنوں کو ہی ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی لیے تو بودھ دھرم کے پیروکاروں کو "اندر والوں" (ننگ پا) کا نام دیا جاتا ہے۔ کیونکہ وہ ہمیشہ اپنے اندر دیکھتے ہیں۔ اگر ہم اپنے دماغی سلسلوں میں چھپے ہوئے ان پریشان کن جذبوں اور رویوں کو ختم کر سکیں، تو ہم اپنے تمام دکھوں کو بھی ختم کرسیں گے۔ جو شخص اس کام کو انجام دینے کا بیڑا اٹھاتا ہے، اسی کو دھرم کے پیروکار کے طور پر جانا جاتا ہے۔
کسی بھی ایسے شخص کی، دھرم سے متعلق جستجو، جو اپنے اندر پیدا ہونے والے پریشان کن جذبوں اور رویوں کو جڑ سے ختم کرنے کا کام کرتا ہے وہ چاہے مرد ہو یا عورت ہینیان سلسلے کی دھرم سرگرمی ہے۔ اگر ہم صرف اپنے دکھوں سے نجات کے لیے، اپنے بہکاووں کو ختم کرنے کے درپے نہیں ہیں، بلکہ دوسروں کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں اور اپنے بہکاووں پر قابو اس لیے پانا چاہتے ہیں تاکہ دوسروں کو بھی ان کے ذہنوں میں پیدا ہونے والے پریشان کن جذبوں اور رویوں سے چھٹکارا پانے میں مدد دی جا سکے، تبھی ہم سچے مہایان پیروکار سمجھے جائیں گے۔ اس جسم کی کارکردگی کی بنیاد پر، ہمیں مہایانی بن سکنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اور اپنی اسی کوشش کے نتیجے میں، ہم بودھ کے عرفان کی سطح تک پہنچنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔
اصل نکتہ یہ ہے کہ ہمیشہ ہم ہر شخص کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کرتے رہیں اور ہماری ذات سے کسی کو بھی نقصان نہ پہنچے۔ اگر ہم "اوم منی پدمے ہم" کا جاپ کرتے رہیں، تو آپ کو یہ سوچنے کی ضرورت ہوگی کہ "کاش اس عمل کی مثبت طاقت تمام محدود ہستیوں کو فائدہ پہنچا سکے"۔
ہمارے یہ جسم، جنھیں ہم اپنی تمام سرگرمی کا بنیادی وسیلہ بناتے ہیں، مشکل سے ہاتھہ آتے ہیں؛ بحثیت انسان جنم لینا آسانی کے ساتھہ میسر نہیں آتا۔ مثال کے طور پر، کرہ ارض پر نظر ڈالیے۔ اس کی بیشتر حصہ سمندر پر مشتمل ہے، اور ذرا سوچیے کہ ان سمندروں میں کتنی بہت سی مچھلیاں ہوں گی۔ سب سے زیادہ کثیر تعداد میں زندگی کی شکلیں جانوروں اور کیڑوں مکوڑوں پر مشتمل ہیں۔ اگر ہم اس پورے سیارے پر نظر ڈالیں اور یہ دیکھیں کہ یہاں جانوروں اور کیڑوں مکوڑوں کی تعداد کتنی کثیر ہے، تب ہمیں اندازہ ہوگا کہ انسان کے طور پر پیدا ہونے کا تناسب کس قدر کم ہے۔
خلاصہ
دھرم میں، آگہی اور بصیرتیں بہت دھیرے دھیرے پیدا ہوتی ہیں۔ یہ مرحلہ بس چند دنوں، ہفتوں اور مہینوں میں طے نہیں ہوتا۔ بنی نوع انسان میں سے بس کچھہ لوگ ہی واقعتاً دھرم کے بارے میں غور کرتے ہیں یہاں تک کہ اس کی آگہی حاصل کر لیں۔ ہمیں کافی لمبے وقت تک، اس سلسلے میں لگاتار کام کرتے رہنے کی ضرورت ہے۔ یہاں آپ کے پاس ایک سند یافتہ گیشے موجود ہیں جو آپ کے تمام سوالوں کا جواب دے سکتے ہیں۔ ایک لمبی مدت میں، بودھ دھرم فروغ پاتا رہے گا اور دور تک پھیلتا جائے گا۔ ابھی بھی اس کا فروغ جاری ہے اور یہ پوری طرح زندہ ہے۔ بودھ نے جب پہلے پہل تعلیم دی تھی، ان کے صرف پانچ شاگرد تھے۔ انہی لوگوں کے واسطے سے یہ پھیلتا رہا، اور اب اس عظیم حد تک یہ دھرم موجود ہے۔
اس وقت ہمارے پاس ایک ایسی ہستی ہے جو شاکیہمُنی کے برابر ہے- تقدس مآب دلائی لامہ، جو اکتوبر میں یہاں آئیں گے۔ تقدس مآب آپ کو جو بھی تعلیمات دیں، انھیں دل میں بٹھا لیجیے اور خلوص کے ساتھہ ان کی پیروی کیجیے۔ ان تعلیمات کا لب لباب یہی رہا کہ کسی جاندار کو گزند نہ پہنچے اور ہمارے اندر نقصان پہنچانے والے خیالات پیدا نہ ہوں۔ یہی اصل نکتہ ہے۔ اگر آپ اسی طرح عمل کرتے رہے، تو اس سے مستقبل میں زبردست فائدہ حاصل ہوگا۔