میری کہانی

بدھ مت کا عالمانہ مطالعہ اور روز مرہ زندگی میں بودھی تعلیمات کا اطلاق دو مختلف باتیں ہیں۔ یہ بات اکثر کہی گئی ہے کہ بدھ مت کے محض دانش ورانہ مطالعہ سے آپ کی زندگی کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ ڈاکٹر الیگزینڈر برزن جو کہ ایک عالم بھی ہیں اور عامل بھی، اور دونوں پہلو یعنی علمی اور روحانی سے شناسا ہیں، اس سلسلہ میں اپنے تجربات بیان کرتے ہیں۔

سپتنک نسل

میں ۱۹۴۴ میں امریکہ میں ایک معمولی گھرانے میں پیدا ہوا۔ میرے گھر والے مالدار نہیں تھے، وہ محض محنت کش لوگ تھے، اور ان کی تعلیم بھی کچھ خاص نہیں تھی۔ مگر مجھے کم سنی سے ہی ایشیائی چیزوں میں دلچسپی تھی۔ میرے گھر والے اس معاملہ میں نہ تو میری حوصلہ افزائی کرتے اور نہ ہی حوصلہ شکنی۔ اور یوں بھی اس زمانے میں ایشیا کے متعلق زیادہ معلومات میسر نہیں تھیں۔ جب میں ۱۳ برس کا تھا تو میں نے ایک دوست کے ساتھ مل کر یوگا کرنا شروع کیا، اور بدھ مت، ہندی افکار اور چینی نظریات، وغیرہ کے متعلق جو کچھ ملا سب پڑھ ڈالا۔ 

میں اس دور کی پیداوار تھا جسے امریکی "سپتنک نسل" کہتے ہیں۔ جب سپتنک خلا رسید ہوا، تو امریکی سخت ناشاد ہوۓ کیونکہ ہم نے محسوس کیا کہ ہم روس سے بہت پیچھے رہ گئے تھے۔ سکول میں سب بچوں کو، میرے سمیت، سائنس کی تعلیم لینے کی حوصلہ افزائی کی گئی تا کہ ہم روس سے برابری کر سکیں۔ لہٰذا، ۱۶ برس کی عمر میں میں نے کیمیا پڑھنے کے لئیے جامع رٹگرز میں داخلہ لیا۔ جامع رٹگرز نیو جرسی میں واقع ہے، جہاں میں پلا بڑھا، اور اگرچہ گیشے وانگیال جو کہ ایک منگول بدھ گورو تھا، صرف ۵۰ کلومیٹر دور رہتا تھا، مجھے اس کے وجود کا کوئی علم نہ تھا۔ 

اپنی تعلیم کے دوران میں نے ایشیائی مطالعہ پر ایک کورس لیا جس میں یہ بتایا گیا تھا کہ بدھ مت کس طرح ایک تہذیب سے دوسری تک پہنچا، اور کیسے ہر تہذیب نے اسے مختلف انداز میں سمجھا۔ اگرچہ میں صرف ۱۷ سال کا تھا، مگر اس کا میرے اوپر اتنا گہرا اثر ہوا کہ میں نے سوچا، "یہی وہ بات ہے جسے میں سمجھنا چاہتا ہوں، بدھ مت کا ایک تہذیب و تمدن سے دوسرے میں انتقال۔" اور میں نے تمام عمر اسی نصب العین پر، بغیر کسی انحراف یا بدلاؤ کے، عمل کیا ہے۔ 

پرنسٹن: کیمیا سے چینی زبان، نظریہ اور فلسفہ تک

پرنسٹن میں نئے طلبا کو ایشیائی مطالعہ کے شعبہ کی جانب رغبت دلانے کی خاطر ایک نیا پروگرام شروع کیا گیا تھا۔ اس زمانے میں طلبا کی تعداد بہت کم تھی؛ یہ ویت نام کی جنگ کے اوائل کا دور تھا، اور بہت کم امریکی باشندے ایشیائی زبانیں جانتے تھے۔ میں بہت خوش تھا کیونکہ یہ چینی زبان سیکھنے کا سنہری موقع تھا، تو میں نے درخواست دی جو منظور ہو گئی۔ ۱۸ برس کی عمر میں میں پرنسٹن میں چینی زبان سیکھ رہا تھا، اور میں نے اپنی بی اے کی پڑھائی کے آخری دو سال وہاں مکمل کئیے۔
مجھے ہمیشہ سے اس امر میں دلچسپی تھی کہ جب بدھ مت چین میں آیا تو اسے سمجھنے میں چینی فلسفہ نے کیا کردار ادا کیا، اور بعد میں بدھ مت کس طرح چینی فلسفہ پر اثر انداز ہوا۔ لہٰذا میں نے چینی افکار، فلسفہ، تاریخ اور بدھ مت وغیرہ کا مطالعہ کیا۔ مجھے موسم گرما میں ہمہ وقت زبان سکھانے والے مدرسوں میں بھیجا گیا: ایک سال ہارورڈ کو، ایک سال سٹینفورڈ میں کلاسیکی چینی سیکھنے کے لئیے، اور سند حاصل کرنے کے بعد موسم گرما میں مجھے تائیوان بھیجا گیا۔ اپنی گریجویٹ تعلیم کے لئیے میں واپس ہارورڈ چلا آیا۔ میں نے اپنے چینی زبان سیکھنے کے پروگرام کے دوران پہلے سے ہی جاپانی زبان سیکھنا شروع کر دی تھی، اور جب تک میں نے مشرق بعید کی زبانوں میں ایم اے کی سند حاصل کی، تب تک میں چینی زبان کا جامع مطالعہ کر چکا تھا۔ 

چینی، سنسکرت اور تبتی زبان: تقابلی مطالعہ

میں جس قدر چینی پہلو کو جانتا تھا اتنا ہی ہندوستانی پہلو کو بھی جاننا چاہتا تھا، بدھ مت کی افزائش میں اثرات کو سمجھنے کی خاطر، چنانچہ میں نے سنسکرت کا مطالعہ شروع کر دیا۔ میں نے دو شعبوں سے مشترکہ ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی: سنسکرت اور ہندی مطالعہ، اور مشرق بعید کی زبانوں کے شعبوں سے۔ سنسکرت اور ہندوستانی مطالعہ سے تبتی زبان کی جانب راہنمائی ہوئی، اور یہاں بدھ مت کے فلسفہ اور تاریخ پر زور تھا۔ 

آپ کو تو معلوم ہی ہے کہ میں علم کا بےحد پیاسا ہوں، چنانچہ میں نے فلسفہ اور نفسیات میں بھی کورس لئیے اور اس دوران سائنس میں بھی دلچسپی قائم رکھی۔ اس طرح میں نے اپنی تعلیم مکمل کی اور مختلف تراجم کا تقابلی مطالعہ کرنے کے بودھی طریقے بھی سیکھے۔ ہم سنسکرت زبان میں بودھی صحیفوں کو دیکھتے اور پھر ان کا چینی اور تبتی متن دیکھتے، اور ساتھ ہی نظریات کی افزائش کی تاریخ کا مطالعہ کرتے، اور مزید یہ کہ ان کا عام تاریخ سے کیا رشتہ ہے۔ اس قسم کی تربیت میرے لئیے تمام عمر بہت کار آمد رہی ہے۔ 

ہارورڈ سے عملی زندگی کی جانب

اس سب کے دوران، میں ہمیشہ یہ جاننے میں دلچسپی رکھتا تھا کہ در حقیقت ایسا سوچنا کیسے محسوس ہو گا، ایشیا کے نظریات اور ادیان کے متعلق جن کا میں مطالعہ کر رہا تھا – بدھ مت اور ہندو مت کے مختلف روپ، داؤ مت اور کانگ فوزیت۔ مگر مستعمل روپ کے رو برو آنے کا کوئی موقع میسر نہ تھا؛ یہ ایسے ہی تھا جیسا کہ میں قدیم مصر کے مذاہب کا مطالعہ کر رہا تھا۔ تاہم، میرا شوق بہت بلند تھا۔ 

لیکن ۱۹۶۷ میں جب میں نے تبتی زبان پڑھنا شروع کی تو رابرٹ تھرمن واپس ہارورڈ آیا اور ہم دونوں ہم جماعت بنے۔ تھرمن گیشے وانگیال کے قریبی شاگردوں میں سے تھا اور وہ کئی برس اس کے ساتھ رہ چکا تھا۔ وہ ایک سال تک بھکشو بھی رہا تھا اور دھرم شالا میں پڑھنے کے لئیے ہندوستان جا چکا تھا۔ اس نے مجھے گیشے وانگیال کے متعلق اور دھرم شالا میں تعلیم حاصل کرنے کے امکان کے بارے میں بتایا۔ یہ وہ جگہ تھی جہاں تبتی لوگ اور تقدس مآب دلائی لاما پاۓ جاتے تھے۔ میں نے چھٹیوں میں گھر جانے کے دوران گیشے وانگیال کو نیو جرسی میں اس کے آشرم میں ملنا شروع کر دیا، اور بدھ مت کے عملی روپ سے واقفیت ہونا شروع ہوئی۔ اگرچہ میں گیشے وانگیال سے کئی بار ملا، مگر مجھے اس کے ساتھ رہنے اور مطالعہ کرنے کی سعادت کبھی نصیب نہ ہوئی۔ اس نے مجھے بھارت جانے اور وہاں جا کر اپنی تعلیم جاری رکھنے کی ترغیب دی، پس میں نے فلبرائیٹ فیلوشپ کے لئیے درخواست دی تا کہ میں ہند جا کر تبتیوں کے ساتھ اپنے مقالہ پر تحقیق کر سکوں۔ 

میں ۲۴ سال کی عمر میں بھارت پہنچا جہاں میری ملاقات تقدس مآب دلائی لاما سے ہوئی اور میں مکمل طور پر تبتی سماج میں سما گیا۔ مجھے ایسے محسوس ہوا کہ اب تک میری زندگی ایک کنویٔر بیلٹ کی مانند تھی جو مجھے اس سمت لے جا رہی تھی – نیو جرسی میں ایک معمولی گھرانے سے پرنسٹن اور ہارورڈ میں اعلیٰ تعلیم تک، اور اب دلائی لاما اور ان کے گرد مہان تبتی گورووں تک۔ میں نے دیکھا کہ جو کچھ میں نے تبتی بدھ مت کے متعلق پڑھا تھا وہ سب یہاں عملی شکل میں موجود تھا اور اس جگہ ایسے لوگ موجود تھے جو بودھی تعلیمات کی صحیح تعبیر سے آشنا تھے۔ ان سے سیکھنے کا یہ سنہری موقع تھا۔ 

ڈلہوزی میں تبتی زبان بولنے کی تربیت

جب میں بھارت گیا تو میں بولی جانے والی تبتی سے نابلد تھا۔ ہارورڈ میں میرا پروفیسر ناگاٹومی اس زبان کے تلفظ سے نا آشنا تھا۔ وہ جاپانی تھا اور ہم نے تبتی زبان جاپانی زبان کی گرامر کے اعتبار سے سیکھی، کیونکہ اس وقت جو کتاب میسر تھی اس میں تبتی گرامر کو لاطینی گرامر کے حوالے سے بیان کیا گیا تھا! حالانکہ لاطینی اور تبتی زبانوں میں کچھ بھی مشترک نہیں ہے، جبکہ جاپانی گرامر در حقیقت تبتی گرامر سے کافی ملتی جلتی ہے۔ 

مجھے بول چال کی تبتی سیکھنا تھی، مگر کوئی بھی کتاب یا مواد میسر نہ تھا۔ میرے گیشے وانگیال سے مراسم کی بدولت میری ملاقات دو نوجوان تلکووں (پنر جنمے لاما) سے ہوئی، شرپا رنپوچے اور خملنگ رنپوچے، جنہوں نے چند برس اس کے آشرم میں قیام کیا تھا اور وہ انگریزی سے بخوبی واقف تھے۔ وہ ڈلہوزی میں رہائش پذیر تھے، جہاں بہت سے تبتی مہاجرین آباد ہوۓ تھے۔ وہاں انہوں نے میری رہائش کا بندوبست پہاڑی کی ایک جانب ایک چھوٹے سے گھر میں ایک تبتی بھکشو سونم ناربو کے ساتھ کیا۔ اسے انگریزی نہیں آتی تھی اور میں تبتی بولنے سے قاصر تھا، مگر اکٹھے رہنے کی وجہ سے ہمیں کسی نہ کسی طرح آپس میں بات تو کرنا تھی۔ یہاں میری بدھیت کی اور دوسری تربیت کام آئی۔ میں نے اپنے آپ کو بورنیو یا افریقہ میں ایک ماہرِ عمرانیات کی مانند محسوس کیا جو کسی غیر زبان کو سمجھنے کی کوشش کر رہا ہو۔

جو ایشیائی زبانیں میں نے پڑھی تھیں ان سے مجھے تبتی زبان میں آوازوں کو سمجھنے میں بہت مدد ملی اور اس طرح کچھ کامیابی ہوئی۔ جب میں سونم سے کچھ کہنا چاہتا تو میں اسے لکھ دیتا (کیونکہ مجھے تبتی لکھنا تو آتی تھی)، اور وہ مجھے اس کا تلفظ بتا دیتا۔ ہم اس طرح اپنا کام چلاتے رہے، اور اس کے علاوہ میں نے کسی اور سے سبق بھی لئیے۔ آخر کار، ان دو نوجوان رنپوچوں نے مشورہ دیا کہ میں ان کے استاد گیشے نگاوانگ درگھئیے سے سبق لوں۔

گاۓ کے طویلے میں لم - رم کا مطالعہ

میں بھارت اپنا مقالہ لکھنے کے لئیے آیا تھا، اور اگرچہ میں نے گوہیا سماج جیسے وسیع و عریض تنتر موضوع پر تحقیق کرنے کا منصوبہ باندھا تھا، سرکونگ رنپوچے، جو کہ تقدس مآب دلائی لاما کے اساتذہ میں سے تھے اور جن کے پاس میں صلاح لینے کے لئیے گیا تھا، نے مجھے قائل کیا کہ یہ بالکل فضول بات تھی، اور یہ کہ میں اس کے لئیے قطعی طور پر تیار نہ تھا۔ تری جنگ رنپوچے جو کہ تقدس مآب کے نائب اتالیق تھے نے مشورہ دیا کہ میں اس کی بجاۓ لم-رم، راہ کی درجہ بدرجہ منزلوں کا پہلے مطالعہ کروں۔ اس وقت تک اس کا کوئی ترجمہ نہیں ہوا تھا، تو یہ میرے لئیے بالکل نئی بات تھی۔ اس زمانے میں تبتی بدھ مت پر جو کتب دستیاب تھیں وہ الیگزینڈرا ڈیوڈ-نیل، ایونز وینز، لاما گووند اور چند اور لوگوں کی لکھی ہوئی تھیں۔ میں نے لم-رم کے زبانی روپ کا گیشے نگاوانگ درگھئیے کے پاس مطالعہ کیا اور پھر اس پر اپنے مقالہ کی بنیاد رکھی۔

ڈلہوزی میں میرا طرز زندگی نہائت سادہ تھا، گھر میں نہ ہی پانی تھا اور نہ ہی بیت الخلا۔ گیشے درگھئے کا رہن سہن اور بھی قدامت پرست تھا، وہ ایک طویلے میں مقیم تھا جو اس سے پہلے ایک گاۓ کا ٹھکانہ تھا۔ اس میں بہ مشکل اس کے بستر کی جگہ تھی اور بستر کے سامنے تھوڑی سی خالی جگہ تھی جہاں اس کے تین نوجوان رنپوچے چیلے اور میں کچی زمین پر بیٹھتے جب وہ پڑھاتا۔ جھاڈو رنپوچے شرپا اور خملنگ رنپوچے اور مجھ سے آ ملا تھا؛ وہ بعد از آں تقدس مآب دلائی لاما کے نمگیال آشرم کا صدر مقرر ہوا۔ یہ گاۓ کا طویلہ جو مکھیوں اور ہر قسم کے حشرات سے اٹا پڑا تھا، یہاں ہم پڑھتے تھے۔ 

یہ ایک نہائت ولولہ انگیز دور تھا کیونکہ کئی نئی چیزوں کی شروعات ہو رہی تھی۔ تقدس مآب دلائی لاما نے ہمارے کام میں دلچسپی کا اظہار کیا، اور ہمیں چند چھوٹے چھوٹے مسودے ان کے لئیے ترجمہ کرنے کے لئیے دئیے۔ جب تقدس مآب نے دھرم شالا میں تبتی کتب اور ذخائر کی لائبریری تعمیر کی تو انہوں نے گیشے درگھئے کو وہاں مغرب کے لوگوں کے لئیے استاد مقرر کیا، اور شرپا اور خملنگ رنپوچے کو، جنہوں نے میری مدد کی تھی، ترجمہ کرنے کا کام سونپا۔ میں نے پوچھا کیا میں کسی طرح مدد کر سکتا ہوں تو تقدس مآب کہنے لگے، "ہاں، مگر پہلے امریکہ واپس جا کر اپنا مقالہ پیش کرو، اپنی سند لو، اور پھر واپس لوٹو۔"

تبتی سماج میں گھل مل جانا: ترجمان بننا

بھارت میں شروع کے اس دور میں میں نے تبتی سماج میں گھل مل جانے کی خاطر ایک ایسا روائتی روپ اپنایا جس سے وہ مانوس ہوں، پس میں ایک ترجمان بن گیا۔ میں اپنا ذاتی بودھی پاٹھ شروع کرنے کا زبردست خواہش مند تھا تو ۱۹۷۰ میں میں نے باقاعدہ طور پر بدھ مت اختیار کر لیا اور مراقبہ کی مشق کا آغاز کیا۔ تب سے میں ہر روز مراقبہ کرتا ہوں۔ 

بطور ایک ترجمان کے آپ کو نہ صرف زبان پر عبور ہونا چاہئیے بلکہ بدھ مت کی عمیق فہم بھی لازم ہے، جس کا مطلب ہے کہ نہ صرف مراقبہ بلکہ شکشا کا عملی زندگی میں اطلاق کرنا بھی ضروری ہے۔ وہ تیکنیکی اصطلاحات جو من کی مختلف حالتوں یا مراقبہ کے مختلف تجربات کو بیان کرتی ہیں ان کا ترجمہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ آپ کو خود ان کا ذاتی تجربہ نہ ہو۔ ترجمہ میں مستعمل اصطلاحات زیادہ تر ان عیسائی مبلٖغوں نے چنی تھیں جو بائیبل کا تبتی زبان میں ترجمہ کرنا چاہتے تھے، اور جنہیں بدھ مت میں ان الفاظ کے صحیح معنوں سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ پس، اس ابتدائی دور سے ہی میں نے اپنے بودھی پاٹھ کو اپنی بدھیت کی تربیت میں شامل کر لیا۔ 

۱۹۷۱ کے آخر میں میں واپس ہارورڈ کو لوٹا اور چند ماہ کے بعد میں نے اپنا مقالہ پیش کیا اور ڈاکٹریٹ کی سند ۱۹۷۲ کے موسم بہار میں وصول کر لی۔ میرے پروفیسر نے میرے لئیے کسی دوسری باوقار جامع میں عمدہ ملازمت بطور معلم کا بندوبست کر رکھا تھا، کیونکہ میں نے ہمیشہ یونیورسٹی پروفیسر بننے کی خواہش کا اظہار کیا تھا، مگر میں نے یہ پیشکش ٹھکرا دی۔ میں اپنی بقیہ عمر ایسے لوگوں کے ساتھ بِتانا نہیں چاہتا تھا جو بدھ مت کے متعلق محض قیاس آرائیاں کرتے رہیں۔ اس کی نسبت میں ان لوگوں کی صحبت چاہتا تھا جو اس کی تعبیر کو بخوبی سمجھتے ہیں، اور اپنی بدھیت کی تربیت کے وسیع النظر تناظر کو پیش نظر رکھتے ہوۓ مستند مسلک سے سیکھنا چاہتا تھا۔ بےشک، میرے پروفیسر نے مجھے دیوانہ گردانا، مگر بہر حال میں واپس بھارت کو لوٹا۔ وہاں رہنا بہت سستا تھا، اس لئیے ایسا ممکن ہوا۔

میری نئی ہندی زندگی

میں دھرم شالا میں منتقل ہو گیا اور میں نے گیشے نگوانگ درگھئے اور شرپا اور خملنگ رنپوچے جو کہ پہلے سے ہی وہاں کام کر رہے تھے کے ساتھ مل کر لائبریری میں کام شروع کر دیا۔ میرا جھونپڑہ ڈلہوزی والے جھونپڑے سے بھی چھوٹا تھا جس میں نہ پانی تھا اور نہ ہی ٹائلٹ، حتیٰ کہ اس کی واحد کھڑکی میں شیشہ تک نہ تھا۔ سونم نوربو، وہ تبتی بھکشو جس کے ساتھ میں رہ چکا تھا وہ بھی میرے ساتھ رہائش پذیر ہوا۔ سب ملا جلا کر میں ۲۹ برس اس سادہ سے جھونپڑے میں رہا۔ 

اس دوران میں نے تقدس مآب کے لئیے لائبریری میں ترجمہ کا شعبہ قائم کیا، اور اپنی تعلیم بھی جاری رکھی۔ میں نے دیکھا کہ میری بدھیت کی تربیت بدھ مت کی مزید تعلیم حاصل کرنے میں مفید ثابت ہوئی۔ میں مختلف مسودوں کی تاریخ اور ان کے ناموں سے واقف تھا، اور اصل بات کو میں نے لوگوں سے  سیکھا تھا، لہٰذا مجھے بات کو سمجھنے میں کوئی دقت نہ ہوتی۔ تقدس مآب نے چاروں تبتی مسالک کا مطالعہ کرنے میں میری حوصلہ افزائی کی، اگرچہ میں بنیادی طور پر گیلوگپا کا مطالعہ کرتا تھا، تا کہ میں تبتی بدھ مت کے تمام پہلووں کا احاطہ کر سکوں۔ یہ بڑا ولولہ انگیز دور تھا کیونہ اس زمانے میں کسی کو اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ تبتی بودھی تعلیمات میں کیا کچھ شامل ہے۔

سرکونگ رنپوچے کے ساتھ عجز اور حافظہ کی تربیت

۱۹۷۴ میں میں نے تقدس مآب دلائی لاما کے ایک استاد سرکونگ رنپوچے جسے میں ۱۹۶۹ میں پہلی بار تھوڑی دیر کے لئیے ملا تھا سے سبق لینا شروع کیا۔ دھرم شالا میں ہماری ملاقات کے شروع میں ہی اس نے محسوس کیا کہ میرا اس سے اور بعد میں تقدس مآب دلائی لاما سے بطور ترجمان کے کام کرنے کا کرمائی رشتہ تھا، لہٰذا اس نے مجھے اس فن میں تربیت دی۔ اگرچہ میں پہلے سے ہی کتابوں کے ترجمے کر رہا تھا مگر یہ تربیت زبانی ترجمہ اور تدریس میں تھی۔ وہ مجھے اپنے قریب بٹھاتا تا کہ میں دیکھ سکوں کہ وہ مختلف لوگوں سے کیسے پیش آتا تھا۔ وہ میرے حافظہ کی تربیت بھی کرتا: جب میں اس کے پاس ہوتا تو وہ کسی لمحہ اچانک رک جاتا اور کہتا، "جو میں نے ابھی کہا اسے لفظ بہ لفظ دوہراؤ،" یا، "جو تم نے ابھی کہا اسے لفظ بہ لفظ دوہراؤ۔"

اگلے برس جب اس نے مغربی لوگوں کو درس دینا شروع کیا تو میں نے اس کے لئیے ترجمہ کا کام شروع کر دیا۔ وہ مجھے کبھی بھی براہ راست کچھ نہ سکھاتا، یہ سب کسی اور کو دئیے جانے والے درس کے ترجمہ کرنے سے وقوع پذیر ہوتا – سواۓ کلچکر کے۔ کلچکر کی تعلیم وہ مجھے نجی طور پر دیتا؛ اس نے محسوس کیا کہ میرا کوئی گہرا تعلق تھا۔ درس کے دوران مجھے نوٹس لینے کی اجازت نہ تھی، بلکہ ہمیشہ سب کچھ یاد رکھنا پڑتا تھا جسے میں بعد میں لکھ لیتا۔ کچھ عرصہ گزر جانے کے بعد اس نے مجھے درس کے بعد بھی نوٹس لینے سے منع کر دیا۔ وہ مجھے مختلف کام سونپ دیتا، تو اس طرح مجھے رات دیر گئے ہی سب کچھ لکھنے کا موقع ملتا۔  

گیشے وانگیال کا اپنے قریبی شاگردوں سے جو رویہ تھا، ویسے ہی سرکونگ رنپوچے بھی مجھے ہر وقت برا بھلا کہتا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بار جب میں اس کے لئیے ترجمہ کر رہا تھا، میں نے اس سے کہا کہ ابھی ابھی ایک لفظ جو اس نے بولا میں اس کا مطلب نہیں جانتا تھا۔ اس پر وہ غصے سے بولا، "میں نے سات سال قبل اس لفظ کی وضاحت کی تھی۔ تمہیں یہ کیوں یاد نہیں؟ مجھے یاد ہے!"

اس کے نزدیک میرا پسندیدہ نام "احمق" تھا اور وہ کبھی بھی اسے استعمال کرنے سے نہ چوکتا جب میں کوئی احمقانہ حرکت کرتا، خصوصاً دوسرے لوگوں کی موجودگی میں۔ یہ نہائت عمدہ تربیت تھی۔ مجھے ایک واقعہ یاد ہے، ایک بار جب میں تقدس مآب دلائی لاما کے لئیے ترجمانی کر رہا تھا، وہاں دس ہزار کے قریب لوگ موجود تھے، تقدس مآب نے مجھے رکنے کو کہا،اور بولے، "اس نے ابھی ایک غلطی کی۔" میری ہمہ وقت احمق کہلانے کی تربیت میرے کام آئی، میں ترجمہ کا کام کرتا رہا اور مجھے قالین کے نیچے چھپنے کی نوبت نہ آئی۔ ترجمہ کرنے کے لئیے مکمل ارتکاز اور زبردست حافظہ درکار ہوتا ہے، پس میں بہت خوش قسمت تھا کہ میں نے نہ صرف بدھیت کی تربیت حاصل کی تھی بلکہ روائتی تبتی تربیت بھی لی تھی۔ 

میں نے سرکونگ رنپوچے سے ۹ برس تک بھرپور تربیت حاصل کی۔ اس کے لئیے ترجمہ کیا، اس کے سفر اور خطوط میں مدد کی، اور اس تمام عرصہ میں اس نے صرف دو بار "شکریہ" کا لفظ بولا۔ یہ بھی میرے لئیے بہت مفید ثابت ہوا کیونکہ، جیسا کہ وہ کہا کرتا تھا کہ تم کیا توقع کرتے ہو؟ کہ مجھے سر پر تھپکی ملے گی اور پھر میں کتے کی طرح اپنی دُم ہلاؤں گا؟ کسی شخص کے لئیے ترجمہ کرنے کا محرک لوگوں کا بھلا کرنا ہے نہ کہ "شکریہ" کا تعریفی کلمہ سننا۔ بےشک میرا تمام بودھی مراقبہ اور پاٹھ میری رسمی تربیت کی تکمیل کے لئیے بغیر غصہ کے اظہار یا ترک مسلک کے نہائت ضروری تھا۔ 

تہذیبوں کے بیچ پل باندھنے میں مدد کی فراہمی

سرکونگ رنپوچے ۱۹۸۳ میں چل بسا۔ اس کے بعد مجھے دنیا کے مختلف خطوں سے وہاں جا کر لیکچر دینے کی دعوتیں آنے لگیں، کیونکہ میں پہلے ہی ان میں سے کئی جگہوں کا بطور رنپوچے کے ترجمان دورہ کر چکا تھا۔ اس وقت تک میں تقدس مآب دلائی لاما کے لئیے بھی ترجمہ کی خدمات سر انجام دے رہا تھا۔ ترجمہ سے مراد محض الفاظ کا لفظی ترجمہ نہیں ہے، بلکہ یہ خیالات کی تشریح اور وضاحت پر مشتمل ہے۔ تقدس مآب کی مغربی ماہرین نفسیات، سائنسدانوں اور مذہبی پیشواؤں کے ساتھ ابتدائی ملاقاتوں کے دوران میرا کام ان کے نظریات نہ کہ الفاظ کی وضاحت کرنا تھا (کیونکہ تبتی زبان میں ان کے برابر بیشتر الفاظ موجود نہ تھے)، اور اس طرح تہذیبوں کے مابین ایک پل باندھنا  تھا۔ اور یہ وہ بات تھی جس میں مجھے ہمیشہ سے دلچسپی رہی تھی، کم سنی سے ہی، کہ بودھی تعلیمات کے حوالے سے مختلف تہذیبوں کے درمیان کس طرح ایک پل تعمیر کیا جاۓ۔ ایسا پل باندھنے کے لئیے آپ کو دونوں تہذیبوں سے گہری واقفیت لازم ہے، یہ جانکاری کہ لوگوں کے افکار کیا ہیں اور ان کا رہن سہن کیسا ہے۔ پس مجھے تبتی لوگوں کے ساتھ ایک لمبا عرصہ رہنے اور ان کے افکار اور طرز زندگی کی عمیق فہم حاصل کرنے کا عمدہ اور شاذ موقع ملا۔ یہ امر بدھ مت کی ترسیل میں نہائت اہم ثابت ہوا ہے۔ 

میں نے آغاز کر دیا اور مجھے تقدس مآب دلائی لاما کی جانب سے کئی بین الاقوامی منصوبوں پر کام کرنے کو بھی کہا گیا۔ ایک سب سے اہم کام یہ تھا کہ دنیا کو تقدس مآب اور تبتی لوگوں سے روشناس کرایا جاۓ۔ ان کے پاس پاسپورٹ نہیں تھے، محض مہاجروں کے کاغذات تھے، اس لئیے انہیں کسی ملک کا ویزا نہیں مل سکتا تھا ماسواۓ اس کے کہ انہیں کوئی دعوت نامہ آۓ۔  مگر ان کے تعلقات بہت محدود تھے۔ یہاں میری ہارورڈ کی پی ایچ ڈی بہت کام آئی، کیونکہ میں اس قابل تھا کہ مجھے تمام دنیا کی یونیورسٹیوں سے بطور مہمان لیکچر دینے کی دعوت آۓ۔ اس طرح میں نے تعلقات قائم کئیے جو بعد میں تبتی لوگوں اور پھر تقدس مآب کو غیر ممالک آنے کے دعوت ناموں کا باعث بنے، اور دنیا کے مختلف خطوں میں تقدس مآب کے دفاتر کھولنے کا سبب ہوۓ۔ ۱۹۸۵ میں میں نے تمام سابقہ اشتراکی ممالک، لاطینی امریکہ کے تقریباً تمام ممالک، اور افریقہ کے بڑے حصہ کا دورہ شروع کر دیا۔ پھر میں نے بدھ مت کے پیروکاروں اور مسلمانوں کے بیچ مکالمہ شروع کرنے کی خاطر مشرقِ وسطیٰ جانا شروع کیا۔

اس سب کے دوران میں نے تقدس مآب کو واپس رپورٹیں بھجوانے پر توجہ مرکوز رکھی، تا کہ انہیں ہر ملک جہاں جہاں میں گیا کی تاریخ اور تہذیب کے بارے میں کچھ اندازہ ہو۔ یہاں بھی میری ہارورڈ سے پہچان کام آئی اور میں ان ممالک کے دینی راہنماؤں سے ملا اور ان کے مذہب کے متعلق خود ان سے مزید معلومات حاصل کیں، تا کہ جب تقدس مآب ان ممالک کا دورہ کریں تو انہیں ان کے دینی اعتقادات کا بخوبی اندازہ ہو۔ میری تمام بدھیالوجی اور سائنس کی تربیت، یہ جاننے میں کہ کیا اہم ہے، اسے کیسے منظم کر کے پیش کرنا ہے کہ یہ مفید ثابت ہو، آڑے آئی۔

میں بہت سے منصوبوں پر کام کر رہا تھا۔ ان میں سے سب سے زیادہ دلچسپ پراجیکٹ جو کہ سوویت یونین کے محکمہ صحت کا تشکیل شدہ تھا، وہ چرنوبل کے متاثرین کا تبتی علاج کرنے سے تعلق رکھتا تھا۔ اگرچہ تبتی علاج بےحد مفید ثابت ہوا، جب سوویٹ یونین کے حصے بخرے ہوۓ تو روس، بلارس اور یوکرین نے اس پراجیکٹ پر تعاون سے انکار کر دیا، اور اصرار کیا کہ ہم تین الگ الگ پراجیکٹ چلائں جو کہ مادی اور مالی اعتبار سے ناممکن تھا۔ افسوس کہ وہ پراجیکٹ وہیں ختم ہو گیا۔

ایک اور دلچسپ پراجیکٹ بکولا رنپوچے کی کتابوں کا ماڈرن منگولی زبان میں ترجمہ اور ان کی اشاعت تھا تا کہ وہاں بدھ مت کا احیا ممکن ہو۔ بکولا رنپوچے اس زمانے میں منگولیا میں ہندوستانی سفیر تھا۔ 

مغرب کو واپسی

سب ملا جلا کر میں نے ۷۰ سے زائد ممالک کا سفر کیا اور وہاں درس دیا۔ اس تمام عرصہ کے دوران میں نے اپنا روز مرہ مراقبہ کا معمول جاری رکھا، جس سے مجھے اپنا کام جاری رکھنے میں بہت مدد ملی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مجھے اور زیادہ جگہوں سے درس اور لیکچر دینے کی دعوتیں ملتی رہیں۔ میرے لیکچر کے دورے طوالت پکڑتے گئے؛ سب سے لمبا دورہ پندرہ ماہ کا تھا – ہر ہفتے دو یا تین شہروں میں جگہ جگہ کا سفر کرتے ہوۓ۔ اس سب سفر کے دوران جس چیز نے مجھے اتنا کام کرنے کی استقامت بخشی وہ بودھی مراقبہ تھا، خصوصاً اس وجہ سے کہ میں ہمیشہ اکیلا سفر کرتا تھا۔ 

اس عرصہ میں میں نے کئی کتابیں لکھیں، اور ایک مقام پر پہنچ کر مجھے احساس ہوا کہ چونکہ میری رہائش ہندوستان میں تھی تو میرے لئیے میرے ناشر سنو لاین کے ساتھ وہاں سے کام کرنا آسان نہ تھا۔ علاوہ از ایں میں انٹرنیٹ کی جانب رجوع کرنا چاہتا تھا اور یہ کام بھارت سے کرنا بہت مشکل تھا۔ تو ۱۹۹۸ میں میں بھارت سے مغرب کو منتقل ہو گیا۔ ایک برس تک مختلف جگہوں کا، جنہوں نے مجھے مدعو کیا، جائزہ لینے کے بعد، میں نے برلن، جرمنی میں مستقل سکونت اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔ میں جرمن زبان جانتا تھا تو یہ کوئی مسٔلہ نہ تھا، اور یہاں مجھے سب سے زیادہ آزادی دی گئی۔ یہ میرے لئیے نہائت اہم بات تھی؛ میں کسی ادارے سے منسلک ہونا نہیں چاہتا تھا۔ برلن اس وجہ سے بھی موزوں جگہ تھی کیونکہ یہاں سے میں آسانی سے مشرقی یورپ کے ممالک، روس اور سابقہ سوویت ریاستوں کو سفر جاری رکھ سکتا تھا جہاں میں نے اکثر درس دئیے اور جن سے میں خاص قرابت محسوس کرتا تھا۔ 

میں تیس ہزار صفحات پر مشتمل غیر شائع شدہ مسودے – جن میں میری کئی تصنیف شدہ غیر مکمل کتب، ان کو پڑھنے کے نوٹس، ان متن کے تراجم جن کا میں نے مطالعہ کیا تھا، اور میرے اور میرے اساتذہ کے کئی لیکچر جن کا میں نے ترجمہ کیا تھا کے تحریری مسودے شامل تھے، لے کر مغرب کو واپس لوٹا۔ اس کے علاوہ تقدس مآب اور ان کے تین خاص استاد اور گیشے درگھئے کے درس کے ڈھیروں نوٹس جو میں نے لئیے تھے وہ بھی شامل تھے۔ مجھے اس بات کی بہت فکر تھی کہ میری وفات پر یہ سب کچھ کوڑے میں نہ پھینک دیا جاۓ۔ 

ذخیرہ برزن 

مجھے ایسی ناقابل یقین خصوصی شرف یافتہ اور منفرد حیثیت حاصل تھی کہ مجھے اتنے لمبے عرصہ تک سابقہ پشت کے عظیم لاما کے ساتھ مطالعہ کا موقع ملا۔ جو کچھ میں نے سیکھا اور ریکارڈ کیا وہ نہائت قیمتی تھا اور اسے دنیا کے ساتھ  بانٹنا بہت ضروری تھا۔ کتابیں ہاتھ میں پکڑی ہوئی تو بہت اچھی لگتی ہیں، مگر اس وقت تک بہت سارے لوگوں تک نہیں پہنچتیں جب تک کہ آپ کوئی بیسٹ سیلر نہ لکھیں، جب کہ میری کتابوں میں سے کوئی بھی ایسی نہ تھی۔ ویسے بھی کتاب کی تیاری مہنگا کام ہے؛ قیمت بھی کافی ہوتی ہے؛ انہیں بنانے میں بہت وقت لگتا ہے اور اگلی اشاعت تک آپ ان میں کوئی تبدیلی نہیں کر سکتے۔ میں اگرچہ تاریخ کے مطالعہ کا بہت شیدائی ہوں مگر میں مستقبل پر بھی نگاہ رکھتا ہوں، اور ہمارا مستقبل انٹرنیٹ ہے۔ در حقیقت عصر حاضر بھی انٹرنیٹ کا ہی ہے۔ اس امر کو مد نظر رکھتے ہوۓ میں نے فیصلہ کیا کہ اپنا تمام مواد ایک ویب سائٹ پر ڈال دوں، تو میں نے نومبر ۲۰۰۱ میں برزن آرکائیوز۔کام کی بنیاد رکھی۔

ایک اصول جس پر میں ہمیشہ کاربند رہا ہوں وہ یہ ہے کہ ویب سائٹ پر ہر شے مفت دستیاب ہو گی، نہ کوئی اشتہار بازی ہو گی اور نہ ہی کچھ بیچا جاۓ گا۔ ویب سائٹ پر دستیاب مواد میں تبتی بدھ مت کے مختلف پہلو، جس میں چاروں تبتی مسلک شامل ہیں اگرچہ زیادہ زور گیلوگ مسلک پر ہے، شامل ہیں۔ بہت سا تقابلی مواد بھی موجود ہے، اس میں تبتی طب، جوتش، بودھی تاریخ، ایشیا کی تاریخ، تبتی تاریخ، اور بدھ مت اور اسلام کے مابین تعلقات پر بہت سا مواد شامل ہے۔ میں مواد کو بہت سی دوسری زبانوں میں ترجمہ کرانے کی بھی پر زور حمائت کرتا ہوں۔

میں سوچتا ہوں کہ مسلم سیکشن کے ساتھ کام نہائت اہم ہے، اور تقدس مآب دلائی لاما اس کے پر زور حامی ہیں۔ مسلم ممالک میں میرے دوروں سے اور وہاں یونیورسٹیوں میں لیکچر دینے سے مجھے صاف پتہ چلا ہے کہ لوگ دنیا کے بارے میں علم کے پیاسے ہیں۔ عالمی ہم آہنگی کی خاطر یہ بات اہم ہے کہ انہیں اس سے خارج نہ کیا جاۓ، بلکہ تبت کا علم انہیں بھی مہیا کیا جاۓ، مگر اس بات کا ذرہ برابر بھی شائبہ نہ ہو کہ انہیں مذہب تبدیل کرنے پر آمادہ کیا جا رہا ہے۔ 

تتمّہ

۲۰۱۵ تک برزن آرکائیوز ویب سائٹ اکیس زبانوں میں میسر تھی اور سالانہ بیس لاکھ کے لگ بھگ لوگوں نے اسے کھولا اور دیکھا۔ یہ کام ۱۰۰ سے اوپر تنخواہ دار اور رضاکار افراد کی کاوشوں کا نتیجہ تھا۔ حالیہ برسوں میں تقدس مآب دلائی لاما نے بارہا اکیسویں صدی کے بدھ مت کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ اس سے متاثر ہو کر میں نے چند الف سعادت کے قائل حضرات کو بھرتی کرنے کا فیصلہ کیا جو کہ ویب سائٹ کی از سر نو تشکیل کرنے میں میری مدد کریں تا کہ مستقبل میں اس سے اور زیادہ لوگ استفادہ کر سکیں۔ اس سے سٹدی بدھزم۔کام نے جنم لیا ہے۔ 

نئی ویب سائٹ کا ڈیزائن فوری رد عمل کا مظہر ہے، اس لئیے ڈیسک ٹاپ اور دستی آلہ جات پر خوب نظر آتا ہے۔ صارفین کی پرکھ اور تجزیہ کاری کی بنیاد پر ہم نے ایسی ویب سائٹ بنائی ہے جو صارفین کی ضروریات کو پورا کرے۔ ہم نے سوشل میڈیا پر بھی اپنی حاضری بہت بڑھا دی ہے، اور عمدہ صوتی و بصری مواد شامل کیا ہے۔ اس کا مقصد ایسے لوگوں کے لئیے جو تبتی بدھ مت میں دلچسپی رکھتے ہیں ایک ایسا مرکزی مقام مہیا کرنا ہے جو آسانی سے دستیاب ہو اور جہاں سے انہیں شروع سے آخر درجات تک کے لئیے زود فہم علم مل سکے۔ ہم صارفین کی ایسی برادری بنانا چاہتے ہیں جو مل کر مطالعہ کریں، اور انہیں بہترین تعلیم کے لئیے ایک کشادہ پلیٹ فارم میسر ہو۔
اس وقت ہم اسے چند زبانوں میں اور پچھلے مواد میں سے محدود مواد کے ساتھ شروع کر رہے ہیں۔ بہت سارے نئے مضامین شامل کئیے گئے ہیں، جو کہ خصوصاً نو آموزوں کے لئیے ہیں۔ پرانی ویب سائٹ کا مواد نئی ویب سائٹ پر اس وقت تک مہیا ہو گا جب تک کہ ہم اس کا تمام مواد نئے روپ میں منتقل نہ کر دیں۔ 

اِختتامیّہ

تو یہ ہے میری مختصر کہانی۔ اس تمام عرصہ کے دوران میں نے بودھی پاٹھ کو پر زور طور سے قائم رکھا ہے۔  مثال کے طور پر، بیشتر سالوں کے دوران میں نے روزانہ تقریباً دو گھنٹے مراقبہ کیا ہے۔ میں نے مراقبہ کے کئی لمبے چلے بھی کاٹے ہیں۔ آجکل میں نے اپنا مراقبہ کا دورانیہ کم کر دیا ہے، لیکن میں روزانہ کم از کم تیس منٹ ضرور مراقبہ کرتا ہوں۔ اور یہ درد مندی، مناسب تحریک، انا پر قابو وغیرہ کی تعلیمات پر زور ہے، یہ وہ اہم پہلو ہے جس پر میں ہمیشہ زور دیتا ہوں۔ میرے اساتذہ کی ترغیب سے، جو گیشے ونگیال سے شروع ہوئی جس نے مجھے تقدس مآب دلائی لاما سے متعارف کرایا، اور پھر وہاں سے دلائی لاما کے اساتذہ تک، میں نے ایک با مقصد زندگی بسر کی ہے جو کہ مجھے امید ہے کہ دوسروں کے لئیے کار آمد اور فائدہ مند رہی ہو گی، یعنی بدھ مت کی مشق اور بدھیت کے امتزاج کو بدھ مت کے دونوں عملی اور نظریاتی پہلووں کے ساتھ ملانے کا کام۔ ہو سکتا ہے کہ میری کہانی آپ میں سے بعض کے لئیے مشعل راہ ثابت ہو۔ 

Top