دھرم کے ذریعہ دکھ سے بچاؤ

سنسکرت زبان کا لفظ دھرم، تبتی زبان میں "چو"، کا مطلب ہے کسی چیز کو ماننا، اس پر یقین رکھنا۔ وہ کونسی شے ہے جس پر ہم یقین رکھتے ہیں، جسے برقرار رکھنے کی کوشش کرتے ہیں؟ وہ ہے دکھ سے نجات اور مسرت کا حصول۔ دھرم نہ صرف ہمارے لئے بلکہ سب کے لئے اس مقصد کو پورا کرتا ہے۔

دکھ کی پہچان

دکھ دو قسم کے ہیں۔ ایک تو وہ جو ہم پر بطور ایک انسان عیاں ہیں اور دوسرے وہ جنہیں پہچاننے کے لئے بالائے حس قوت کی ضرورت ہوتی ہے۔ پہلی قسم میں ایسے دکھ شامل ہیں جیسے زچگی کا درد، کبھی کبھار کی بیماری، عمر رسیدگی سے متعلقہ تکالیف، اور موت کا خوف۔

موت کے بعد وقوع پذیر دکھ درد عام انسان کے لئے غیرمرئی ہے۔ ہم یوں سوچ سکتے ہیں کہ موت کے بعد شائد ہم دوبارہ انسان کی شکل میں پیدا ہوں گے۔ مگر ایسا ہونا لازم نہیں۔ ایسے ارتقا کا تصور کسی عقلی بنیاد پر نہیں کیا جا سکتا، نہ ہی یہ کہ موت کے بعد ہم دوبارہ پیدا ہی نہیں ہوں گے۔

اس بات کا قیاس کہ ہمارا پنر جنم کس شکل میں ہو گا نہائت مشکل بات ہے۔ یہ ایسی بات ہے جو ہمارے (موجودہ) دائرہ علم سے باہر ہے۔ اس جنم میں اگر ہم مثبت اعمال کے مرتکب ہوں تو اس کا قدرتی نتیجہ یہ ہو گا کہ ہم مستقبل میں خوشگوار قسم کے پنر جنم کا مزہ چکھیں۔ اس کے برعکس اگر ہمارے کرم منفی ہوں تو ہمارا پنر جنم بھی خوشگوار نہ ہو گا، بلکہ ہم کم درجہ کی مخلوق کی شکل میں کئی پریشانیوں کا شکار ہوں گے۔ یہ امر یقینی ہے۔ پنر جنم کی ایسی ہی ریت ہے۔ اگر ہم گندم کا بیج بوتے ہیں تو گندم کا پودا اگتا ہے، اگر ہم چاول بوتے ہیں تو چاول ہی اگتے ہیں۔ یوں ہی برے کرموں سے ہم ایسے پنر جنم کا بیج بوتے ہیں جس سے مندرجہ ذیل میں سے کسی ایک کا مزہ چکھیں۔ مثلاً دوزخ کا باسی، بھوکا بھوت یا محض ایک جانور۔

دوزخ کی چار منازل ہیں (بے کیف منازل): گرم، ٹھنڈی، قریبی اور گاہ گاہی۔ ان کو اگر مزید تقسیم کیا جائے تو گرم جہنم آٹھ قسم کے ہیں۔ سب سے پہلی قسم کا نام تجدید لائق جہنم ہے۔ یہ نسبتأ سب سے کم تکلیف دہ ہے۔ اس کی شدت کا اندازہ یوں کیا جا سکتا ہے کہ ایک شخص جو آگ کے بہت بڑے الاؤ میں گھر گیا ہو اس کی پریشانی اس مخلوق کے مقابلے میں نہائت معمولی ہو گی جو اس جہنم میں ہیں۔ اس تجدید لائق جہنم کے نیچے ہر جہنم میں دکھ کی شدت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔

جہنم کے مکینوں اور بھوکے بھوتوں کا دکھ درد ہمیں خواہ نہ بھی نظر آئے مگر جانوروں کی تکلیف ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں۔ اگر ہمیں یہ تجسس ہے کہ اگر ہمارا پنر جنم جانوروں کی شکل میں ہو تو پھر کیا ہو گا، تو اس کے لئے ہمیں یہاں ہندوستان کے گلیوں میں آوارہ گھومنے والے اور باربردار جانوروں کو دیکھنا ہو گا۔ ہمارا حال ان جیسا ہو گا۔ مگر دھرم کے ذریعہ ہم پنر جنم کے ان دکھوں سے بچ سکتے ہیں۔

پنر جنم کا یہ چکر جو ہمارے اختیار سے باہر ہے (سنسار) دکھ کی اساس پر قائم ہے۔ دھرم ہی وہ عنصر ہے جو ہمیں اس دکھ سے محفوظ رکھتا ہے۔ علاوہ ازایں مہایانہ دھرم یعنی عظیم چکر کی تعلیمات نہ صرف ہماری بلکہ تمام ذی حس مخلوق کی حفاظت کرتی ہیں۔

محفوظ پناہ گاہ کی جانب سفر

بدھ مت میں ہم پناہ کے تین جواہر یعنی مہاتما بدھ، دھرم اور سنگھا کے متعلق بہت کچھ سنتے ہیں۔ ان میں سے سب سے پہلے والے میں وہ تمام روشن ضمیر ہستیاں شامل ہیں جو دھرم کی تعلیم دیتی ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ قابل تکریم مہاتما بدھ شکیامونی ہیں جنہوں نے چار بلند و بالا (آریہ) سچائیاں سکھا کر سب سے پہلے ورسانی میں دھرم کے پہی ئے کو جنبش دی۔ ان چار سچائیوں میں سے آخری سچ یعنی سچے راستے وہ دھرم ہے جس پر چل کر ہم نجات حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ محفوظ سمت کی وہ پناہ گاہ ہے جسے ہم دھرم کا جوہر کہتے ہیں۔

دھرم میں دو باتیں اہم ہیں: ایک تو سنسار کے دکھ کی جڑ کو پہچاننا اور دوسرے اس جڑ کو اکھاڑ پھینکنا۔ بار بار جنم لینے کی بنیادی وجہ کیا ہے؟ یہ نفس اور مظاہر قدرت کے حقیقی وجود پر اصرار ہے۔ یہ عنصر جو ہمارے دکھ درد کا منبع ہے ہمیں اسے سخت ناپسند گرداننا چاہئے۔ ہمیں اس حقیقی وجود پر اصرار کے تریاق پر غور کرنا چاہئے۔ یہ تریاق حکمت یا امتیازی آگاہی ہے کہ نفسِ کو ایک ناممکن قسم کی غیر موجودگی اور شناخت کو ایک ناممکن قسم کی غیر موجودگی سمجھتا ہے۔ یہ ہی وہ اپنے وجود سے بے نیازی کی فہم ہے جو ہمیں دکھ سے نجات دلائے گی۔

جو دکھ ہم سنسار میں اٹھاتے ہیں اس کی کوئی نہ کوئی وجہ ہوتی ہے۔ اس کی وجہ پریشان حال احساسات، طرز عمل (خام خیالی) اور ان سے پیداشدہ اعمال ہیں۔ تمام پریشان کن احساسات، طرز عمل اور اعمال کی وجہ نفس کی پہچان کی کوشش ہے۔ جب ہم یہ بات سمجھ لیتے ہیں تو پھر ہم نفس پر اصرار کے تریاق کو حاصل کرنے کی زبردست خواہش کرتے ہیں۔ آج تک آخر کیوں ہم اس تریاق کو اپنے ذہنی ارتقا میں پروان نہیں چڑھا پائے؟ ہم نفس سے بے نیازی کو کیوں نہیں سمجھتے؟ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہم موت اور ناپائداری سے بخوبی آگاہ نہیں۔

موت اور ناپائداری

پیدائش کا لازمی نتیجہ موت ہے۔ موت ناگزیر ہے۔ ایسا کوئی جاندار نہیں جس نے موت کا مزہ نہ چکھا ہو۔ لوگ موت سے بچنے کے لئے کئی حیلے کرتے ہیں مگر ایسا ہونا ناممکن ہے۔ موت کا کوئی علاج نہیں۔

محض یہ سوچنا کہ "میں ایک روز مر جاؤں گا" موت کے بارے میں سوچنے کا درست انداز نہیں۔ بے شک ہر بشر کو موت لازم ہے، مگر اس امر کے بارے میں محض یوں سوچنا کارگر نہیں۔ یہ طریقہ مناسب نہیں۔ اسی طرح یہ سوچنا کہ ہم سقوط و انحطاط کا شکار ہو جائیں گے، ہمارے جسم تحلیل ہو جائیں گے کافی نہیں۔ ہمیں یہ سوچنا چاہئے کہ ہم اپنے آپ کو تنزل سے کیسے بچائں۔

اگر ہم موت کے وقت طاری ہونے والے خوف اور اسے ختم کرنے کے بارے میں سوچیں تو پھر موت پر ہماری فکر موثر ثابت ہو گی۔ وہ لوگ جنہوں نے اپنی زندگی کے دوران بہت سارے منفی کرم جمع کر لئے ہوتے ہیں وہ بوقت وصال بیحد خوف زدہ ہو جاتے ہیں۔ وہ روتے ہیں، آنسو ان کے رخسار پر ڈھلکتے ہیں، ان کے منہ سے رال ٹپکتی ہے، وہ اپنے کپڑوں میں بول براز خارج کر دیتے ہیں، اور بری طرح (خوف سے) مغلوب ہو جاتے ہیں۔ یہ دنیاوی زندگی میں کئے ہوئے منفی اعمال کے نتیجہ میں دکھ جھیلنے کی واضح علامات ہیں۔

اس کے بر عکس اگر ہم اپنی زندگی کے دوران منفی اعمال کے مرتکب نہ ہوں تو نزع کا عالم آسان ہو جاتا ہے۔ یہ ایک خوشگوار تجربہ ہوتا ہے جیسے کہ کوئی بچہ اپنے والدین کے پاس گھر واپس جا رہا ہو۔ اگر ہم نے اپنے آپ کو (گناہوں سے) پاک کر لیا ہو تو موت آسان ہو جاتی ہے۔ دس منفی طریقوں سے پرہیز کر کے اور ان کی ضد یعنی دس مثبت طریقوں کی اپنے اندر پرورش کر کے ہم اپنی موت کو آسان بنا سکتے ہیں اور نتیجتہً ہمیں دکھ کی حالت میں دوبارہ جنم نہیں لینا پڑے گا۔ ہمیں اس بات کا اطمینان ہو گا کہ ہمارا دوسرا جنم خوشگوار ہو گا۔ دوائیاں بنانے والی جڑی بوٹیوں کے بیج بونے سے ہم ایسے پودے اگاتے ہیں جو شفا بخش ہوں، اور زہریلے پودوں کے بیج بونے سے ہم ضرر رساں پھل پیدا کرتے ہیں۔ اگر ہم مثبت اعمال کے بیج اپنے شعور میں بوئیں تو ہمیں دوسرے جنم میں خوشی نصیب ہو گی۔ جسمانی اور ذہنی دونوں لحاظ سے ہمارے حالات خوش آئند ہوں گے۔ دھرم کی یہ بنیادی تعلیم کہ تباہ کن اعمال سے بچو اور تعمیری اعمال کی آبیاری کرو، نہ صرف بدھ مت بلکہ عیسائیت سمیت اور کئی مذاہب نے بھی دی ہے۔

ہم موت اورناپائداری پر کیسے غور کریں؟ جیسا کہ پہلے ذکر ہوا ہے کہ محض یہ سوچنا کہ "میں مر جاؤں گا" خاص سود مند نہیں۔ ہمیں یوں سوچنا چاہئے کہ "اگر میں ان دس تباہ کن اعمال میں سے کسی ایک کا بھی مرتکب ہوا ہوں تو بوقت موت مجھے شدید خوف اور اذیت کا سامنا کرنا پڑے گا اور نتیجتہً میرا دوسرا جنم نہائت تکلیف دہ ہو گا۔ اس کے بر عکس اگر دوران حیات میں نے قابل ستائش کام کئے ہیں تو بوقت موت نہ مجھے کوئی ڈر ہو گا نہ ہی کوئی درد، اور میرا دوسرا جنم بھی خوشگوار ہو گا۔" ایسی سوچ موت کے بارے میں صحیح سوچ ہے۔

اس غوروفکر کو یاس اور قنوطیت پسند بنانے کی کوئی ضرورت نہیں،"میں نے ایک دن مر جانا ہے اور میں اس بارے میں کچھ نہیں کر سکتا"۔ بلکہ ہمیں یوں سوچنا چاہئے کہ موت کے بعد ہمارا انجام کیا ہو گا۔ "موت کے بعد میرا ٹھکانہ کہاں ہو گا؟ میرے اعمال کیسے تھے؟ کیا میری موت جشن مسرت بن سکتی ہے؟ یہ کیسے ممکن ہے؟ کیا میں اپنے پنر جنموں کو خوش آئیند بنا سکتا ہوں؟ اگر ہاں تو کیسے؟"

اپنے پنر جنموں کے بارے میں سوچتے وقت ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ سنسار میں کوئی بھی جگہ ایسی نہیں جو قابل اعتبار ہو۔ خواہ ہماری جسمانی شکل وصورت کیسی بھی ہو، ایک دن اسے ختم ہو جانا ہے۔ ہم تاریخ میں ایسے لوگوں کے بارے میں پڑھتے ہیں جو سو سال حتیٰ کہ ہزار سال جئے۔ یہ قصے کتنے ہی دلچسپ کیوں نہ ہوں مگر ایسا کوئی انسان آج تک نہیں گذرا جسے آخر موت نے نہ آگھیرا ہو۔ ہمارا سنساری جسم خواہ کیسا ہی ہو اسے ایک روز موت کا مزہ چکھنا ہے۔

نہ ہی کوئی ایسی جگہ ہے جہاں جا کر ہم موت سے پناہ لے لیں۔ ہم خواہ کہیں بھی ہوں جب وقت آ جاتا ہے توہم مر جاتے ہیں۔ اس وقت کوئی دوا، کوئی منتر یا کوئی وظیفہ کام نہیں آتا۔ جراحی کے ذریعہ ہم اپنی بعض جسمانی بیماریوں کا علاج تو کر سکتے ہیں مگر موت کو ٹال نہیں سکتے۔

ہمارا دوسرا جنم خواہ کسی شکل میں ہی ہو اسے ایک دن موت کا شکار ہونا ہے۔ یہ ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔ اگر ہم اپنے اعمال، پیدائش، زندگی، موت اور لاانتہا پنر جنم کے دوررس نتائج پر غور کریں تو ہمیں بہت زیادہ مثبت کرم پیدا کرنے میں مدد ملے گی۔

کئی بار ہم دھرم کی مشق کرنے کا ارادہ کرتے ہیں مگر یوں سوچتے ہیں کہ کل یا پرسوں سے یہ کام شروع کریں گے۔ لیکن ہم میں سے کسی کو بھی اپنی موت کے وقت کا اندازہ نہیں۔ اگر ہمیں اس بات کی ضمانت میسر ہو کہ ہماری زندگی کے سو سال ابھی باقی ہیں تو ہمیں یہ سہولت ہو گی کہ اپنی مرضی سے دھرم پر چلنے کی مشق کے وقت کا تعین کریں۔ مگر اس بات کا ذرہ برابربھی یقین نہیں کہ ہمیں موت کب آئے گی۔ لہٰذا اپنی مشق کو ملتوی کرنا بہت بڑی حماقت ہو گی۔ بعض بچے ماں کے پیٹ میں ہی مر جاتے ہیں، بعض چھوٹی عمر میں چلنا سیکھنے سے پہلے۔ اس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ ہم لمبا عرصہ جئیں گے۔

ہمارے جسم بڑے نازک ہیں۔ اگر یہ پتھر یا لوہے سے بنے ہوتے تو شائد ان کا کچھ بھروسہ ہوتا۔ لیکن ہماری تحقیق یہ بتاتی ہے کہ انسانی جسم بہت کمزور ہے۔ اس میں کسی خرابی کا امکان بہت آسان ہے۔ یہ کسی نازک کلائی کی گھڑی کی مانند ہے جو بے شمار چھوٹے چھوٹے پرزوں سے بنی ہو۔ اس پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ ہماری موت کسی بھی معمولی بات سے ہو سکتی ہے مثلاً سوء ہضمی، کسی ننھے کیڑے کا ڈنگ، حتیٰ کہ کسی زہریلے کانٹے کی چبھن۔ ایسے معمولی واقعات ہماری موت کا باعث بن سکتے ہیں۔ وہ غذا اور سیال مادے جنہیں ہم اپنی زندگی کوطول دینے کے لئے استعمال کرتے ہیں وہ ہی ہمارے لئے موت کا پیغام بھی بن سکتے ہیں۔ اس بات کا قطعی طور پر تعین نہیں کہ ہماری موت کب اور کن حالات میں آئے گی۔

اگر ہمیں اس بات کی تسلی ہو بھی کہ ہم سو سال تک جئیں گے تو اس کا بیشتر حصہ گزر چکا ہے اور ابھی تک ہم نے کوئی خاص معرکہ نہیں مارا۔ ہمیں موت کے بارے میں یوں سوچنا چاہئے جیسے کوئی مسافر ریل گاڑی میں سو رہا ہے اورہر لمحہ اپنی منزل سے قریب تر ہوتا جا رہا ہے مگر اس عمل سے نا آشنا ہے۔ ہم اس عمل کو روکنے کے لئے کچھ نہیں کر سکتے۔ ہم موت سے قریب تر ہوتے جا رہے ہیں۔

ہم نے اپنی دنیاوی زندگی کے دوران خواہ کتنا ہی مال و دولت، ہیرے جواہرات، مکان، کپڑے اکٹھے کئے ہوں بوقت موت اس سے کچھ فرق نہیں پڑے گا۔ بوقت مرگ ہم نے خالی ہاتھ جانا ہے۔ چھوٹی سے چھوٹی مالی شے بھی ہم اپنے ساتھ نہیں لےجا سکتے۔ ہمارا جسم بھی یہیں رہ جائے گا۔ جسم اور من الگ ہو جاتے ہیں اور من کا دھارا اکیلا ہی بہتا رہتا ہے۔ نہ صرف سازوسامان بلکہ ہم اپنا جسم بھی ساتھ نہیں لیجا سکتے۔

کرم

موت کے بعد ہمارے شعور میں کیا رہ جاتا ہے؟ اگر ہمیں اپنا جسم، اپنے دوست احباب، اور اپنا تمام مال ودولت یہیں چھوڑ کر جانا ہے توکیا پھر کوئی ایسا مددگار ہے جو اگلے جہان میں ہمارے شعور کا ساتھی بنے؟

ایک چیز ہے جو موت کے بعد ہمارے شعور کا ساتھ دیتی ہے، وہ ہے ہمارے اعمال کے بیج جو ہم نے اپنی اس زندگی کے دوران بوئے۔ اگر ہم نے دس منفی کرموں میں سے کسی ایک کا بھی ارتکاب کیا ہے تواس کرم کا بوجھ ہماری ذہنی حالت پر آنے والے جنموں میں اثر انداز ہو گا۔ اگر ہم نے کسی جاندار کو مارا ہے، لوگوں کا مال چرایا ہے یا جنسی بےراہروی اختیار کی ہے تو ان تباہ کن جسمانی اعمال کے اثرات ہمارے ذہن پر مرتب ہو جائیں گے۔ دروغ گوئ، بہتان بازی، شرپسندی، بدکلامی یا فضول گوئی، ان بدسخنی کے اعمال کا بوجھ بوقت مرگ ہمارے ساتھ ہو گا۔ اگر ہم نے دل میں لوبھ اور لالچ کو جگہ دی تا کہ دوسروں کے مال پر قبضہ کر سکیں، یا اگر ہم نے کسی کے متعٖق بد گمانی کو دل میں پالا کہ اس کو کوئی نقصان پہنچے، یا اگر ہم نے معاندانہ اندازفکر اختیار کیا مثلاً "ماضی یا مستقبل کی زندگی کا تصور خام خیالی ہے" یا "علت و معلول کا کوئی وجود نہیں" یا " محفوظ پناہ گاہ قسم کی کوئی چیز نہیں" توان تباہ کن خیالات سے پیدا شدہ منفی اثرات ہمارے من کے ساتھ رہتے ہیں اور آئندہ جنموں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔

اس کا الٹ بھی سچ ہے۔ اگر ہم نے مثبت اعمال کئے اور منفی اعمال سے پرہیز کیا تو ان مثبت اعمال کے اثرات ہمارے ذہنوں پر مرتب ہو جائیں گے اور آنے والی زندگیوں میں خوشگوار حالات کا باعث ہوں گے۔

جب ہمیں اپنی حالت کا صحیح اندازہ ہو جائے تو پھر ہم مثبت کرم پیدا کرنے اور منفی کرموں کو مٹانے کی بھرپور کوشش کریں گے۔ ہمیں اپنے آپ کو منفی پن سے جس حد تک ممکن ہو پاک کرنا چاہئے تا کہ آئندہ زندگی میں ذرہ برابر بھی کوئی قرض ادا نہ کرنا پڑے۔ ہمیں اس بات کا جائزہ لینا چاہئے کہ علت و اثر کے قانون کے تحت مختلف اعمال کا کیا ردعمل ہو گا۔ ایک شخص کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس میں بے شمار گن تھے مگر وہ زبان کا کڑوا تھا۔ اس نے ایک دفعہ کسی سے کہا"تم کتے کی طرح بھونکتے ہو"۔ نتیجتہً اس نے خود پانچ سو بار کتے کی شکل میں جنم لیا۔ ایک بظاہر معمولی عمل بہت بڑے نتائج پیدا کر سکتا ہے۔

اس طرح کسی معمولی مثبت عمل سے بہت اعلیٰ نتیجہ بر آمد ہو سکتا ہے۔ ایک چھوٹے بچے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے مہاتما بدھ کے نام پر چھوٹا سا چڑھاوا چڑھایا تو اس کے نتیجہ میں وہ اگلے جنم میں عظیم بادشاہ اشوک بن کر پیدا ہوا جس نے بدھ مت کی ہزاروں عمارتیں تعمیر کیں اور بےشمار عظیم الشان کارنامے سر انجام دئے۔

ترک، تیاگ اور درد مندی

مختلف نقصان دہ اعمال جن کے ہم مرتکب ہوئے ہیں اور ان کے اثرات پر غوروخوض اپنی فلاح اور مسرت کو یقینی بنانے کا نہائت موثر طریقہ ہے۔ اگر ہم اس بات پر غور کریں کہ منفی اعمال کی وجہ سے ہمیں کسقدر دکھ اٹھانا پڑے گا اور اپنے اندر اس بات کی زبردست خواہش پیدا کریں کہ ہم نے اس دکھ سے بچنا ہے تو ایسا کرنے سے ہم نے اپنے اندر ترک تیاگ کو جنم دیا ہے۔

اس قسم کی سوچ دل میں پیدا کرنا بذات خود ایک طرح کا دھیان ہے۔ پہلے ہمیں اپنے دکھ درد کے بارے میں حس بیدار کرنی چاہئے پھر اس احساس کا دوسرے جانداروں پر اطلاق کرنا چاہئے۔ ذرا سوچئے کہ کس طرح تمام مخلوق دکھ سے دور بھاگتی ہے مگر پھر بھی اس مخمصے میں گرفتار ہے۔ اس قسم کی سوچ ہمیں درد مندی پر راغب کرتی ہے۔ اگر ہم خود ہی اپنے دکھ درد سے چھٹکارا حاصل کرنے کے بارے میں نہ سوچیں تو ہم دوسروں کے بارے میں ایسا کیسے سوچیں گے؟ ہم اپنا تمام دکھ درد دور کر سکتے ہیں مگر ایسا کرنا حتمی طور پر سود مند نہ ہو گا۔ ہمیں اس جذبے کو اس تمام مخلوق کی جانب بڑھانا ہے جو مسرت کی خواہاں ہے۔ ہم اپنے من کی ایسی تربیت کر سکتے ہیں جس سے کہ ہم دوسروں کے لئے بھی دکھ سے نجات کے متمنی ہوں۔ یہ اندازفکر وسیع تر اور سود مند ہے۔

ہمیں دوسری مخلوق کے بارے میں کیوں فکر مند ہونا چاہئے؟ اس لئے کہ ہم دوسروں سے بہت کچھ حاصل کرتے ہیں۔ مثلاً جو دودھ ہم پیتے ہیں یہ گائیوں بھینسوں کی مہربانی کا نتیجہ ہے، وہ گرم کپڑے جو ہمیں سردی اور ہوا سے بچاتے ہیں بھیڑ بکریوں کی اون سے بنتے ہیں، اور ایسی ہی کئی اور اشیا۔ یہ چند مثالیں یہ ثابت کرتی ہیں کہ ہمیں کیوں ان کی اذیت ختم کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔

بلا تمیز اس امر کے کہ ہم کس قسم کی عبادت کرتے ہیں، خواہ منتر کا ورد یا کسی قسم کا مراقبہ- ہمارے دل میں یہ خیال ہمیشہ اجاگر رہنا چاہئے "اس سے تمام مخلوق کو فائدہ پہنچے"۔ اس سے یقیناً ہمیں بھی فائدہ ہو گا۔ ہمارے روزمرہ واقعات ہمیں اس کی قدروقیمت کا احساس دلا سکتے ہیں۔ مثلاً اگر کوئی شخص نہائت خودغرض ہے اور ہمیشہ اپنی بھلائی کو مدنظر رکھتا ہے تو اسے لوگ پسند نہیں کریں گے۔ اس کے بر عکس کوئی ایسا شخص جو مہربان ہے اور ہمیشہ دوسروں کی مدد کرنے کی فکر کرتا ہے اسے عموماً سب اچھا جانتے ہیں۔

ہمیں یہ بات اپنے فکر کا حصہ بنا لینی چاہئے"کاش سب مسرت سے ہمکنار ہوں اور کسی پر کوئی آفت نہ آئے"۔ ہمیں بار بار اس بات کا اعادہ کر کے اسے اپنی سوچ میں شامل کر لینا چاہئے۔ یہ رویہ بیحد سود مند ہو سکتا ہے۔ ماضی میں جن لوگوں نے ایسی سوچ کو پروان چڑھایا وہ آج عظیم مہاتما بدھ، بودھی ستوا یا سادھو ہیں۔ دنیا کے تمام عظیم مردوں اور عورتوں نے اسی سوچ کو بنیاد بنایا ہے۔ کیا ہی خوب ہو اگر ہم اسے اپنے طور پر پروان چڑھائیں!

اپنے عزیزوں کے تحفظ کی خاطر دوسروں کو نقصان پہنچانا

کیا ہمیں یہ ہدائت دی گئ ہے کہ جب کوئی ہمارے اوپر حملہ آور ہو تو ہم اپنا دفاع نہ کریں؟

یہ سوال ایک بہت وسیع موضوع کی جانب توجہ مبذول کراتا ہے۔ اگر کوئی شخص تمہارے سر پرچھڑی مارتا ہے تو اس کا بہترین حل یہ ہوگا کہ سوچو کہ تم یہ تکلیف اپنے گذشتہ منفی اعمال کی وجہ سے اٹھا رہے ہو۔ یوں سوچو کہ یہ شخص تمہارے پچھلے جنم کے اعمال کو اب، بجائے آگے ملتوی کرنے کے، ان کے منطقی انجام تک پہنچا رہا ہے۔ تمہیں اس کا مشکور ہونا چاہئے کہ اس نے تمہارے سر کا بوجھ ہلکا کر دیا۔

اگر کوئی میری بیوی یا بچے پر حملہ کرے جو کہ میرے زیر نگرانی ہیں تو کیا ان کا بچاؤ میرا فرض ہے؟ کیا ایسا کرنا ایک منفی عمل ہو گا؟

چونکہ تمہاری بیوی اور بچے کی حفاظت تمہارا فرض ہے تو تمہیں ان کی حفاظت نہائت ہوشیاری سے کرنی چاہئے۔ تمہیں چالاکی کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ بہترین لائحہ عمل یہ ہوگا کہ حملہ آور کو نقصان پہنچائے بغیر انہیں محفوظ رکھا جائے۔ بہ الفاظ دیگر تمہیں تحفظ کا ایسا راستہ تلاش کرنا ہو گا جس میں تم (کسی کو) کوئی تکلیف نہ پہنچاؤ۔

وہ میرے بچوں کو نقصان پہنچائے اور میں اسے کچھ نہ کہوں؟ کیا یہ ہمارا فرض نہیں کہ ہم وحشیانہ اور ظالمانہ اقدام سے اپنے بچوں کو بچائیں؟ کیا ہم بس اپنی جانیں قربان کر دیں؟

اس صورت حال سے بخوبی نمٹنے کیلئے تمہیں بہت حوصلے کی ضرورت ہو گی۔ مہاتما بدھ کی گزشتہ زندگی کے بارے میں ایک کہانی ہے جس کے مطابق وہ پانچ سو لوگوں کے ہمراہ بطور ایک ملاح کے سمندر میں کسی خزانے کی تلاش میں گیا۔ اس کی جماعت میں ایک نہائت لالچی شخص بھی تھا جو تمام جواہرات پر قبضہ کرنے کی خاطر یہ سوچنے لگا کہ کس طرح پانچ سو لوگوں کا خون کیا جائے۔ بودھی ستوا (شکیامونی مہاتما بدھ کسی گذشتہ زندگی میں) اس بات سے واقف تھا، اس نے سوچا کہ ایسا نہیں ہونے دینا چاہئے، یعنی ایک انسان پانچ سوانسانوں کا ناحق خون کرے۔ لہٰذا اس نے فیصلہ کیا کہ وہ پانچ سو جانیں بچانے کی خاطر اس شخص کو مار ڈالے گا اور اس فعل کی پوری ذمہ داری اپنے سر لے لے گا۔ اگر تم دوسروں کی جان بچانے کی خاطر اپنا اگلا جنم جہنم میں گذارنا چاہتے ہو تو تمہارا یہ خیال بہت بہادرانہ ہے۔ اس صورت میں تم ایسا کر سکتے ہو جیسا کہ مہاتما بدھ نے بذات خود کیا۔

کیا ان حالات میں بھی قتل کو منفی عمل سمجھا جائے گا؟

ناگارجون نے اپنے "ایک دوست کو خط" میں لکھا کہ اگر کوئی شخص اپنے والدین، اپنے بچے، بدھ مت یا تین جواہر کی حفاظت کے نام پر کسی منفی عمل کا مرتکب ہو تو اسے اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ آیا تم نتائج سے باخبر ہو اور اپنے بیوی بچے کے تحفظ کی خاطر ان کی ذمہ داری قبول کرتے ہو۔ اگر تم دشمن کو نقصان پہنچاؤ تو تمہارا دوسرا جنم دکھ بھرا ہو گا۔ بہرحال تمہیں اس کے انجام کو بھگتنے کے لئے یہ سوچ کر تیار رہنا چاہئے کہ "میں یہ دکھ جھیلوں گا تا کہ میرے بیوی بچے دکھی نہ ہوں"۔

تو بدھ مت کے مطابق پھر بھی یہ ایک منفی عمل ہی ہو گا؟

اپنے بیوی بچے کا تحفظ ایک مثبت،تعمیری فعل ہے جبکہ دشمن کو نقصان پہنچانا ایک منفی، تخریبی فعل ہو گا۔ تمہیں دونوں کے نتائج کا سامنا کرنے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔

سوال: آپ نے فرمایا کہ اگر کوئی شخص منفی کرم کرتا ہے تو اسے مستقبل میں دکھ اٹھانا پڑے گا، لیکن اگر اس کے اعمال اچھے ہیں تو وہ خوشی سے ہمکنار ہو گا۔ کیا یہ نیک اعمال دائم نجات کا باعث بن سکتے ہیں تا کہ پنر جنم سے نجات مل جائے؟

رنپوچے: اگر آپ (مکمل) نجات کے متمنی ہیں تو آپ کو مکمل طور پر اور من وعن (بدھ مت کی) تعلیمات کو اپنانا ہو گا۔ مثال کے طور پر اگر آپ عیسائیت کے پیروکار ہیں تو آپ کو حضرت عیسیٰ کی تعلیمات پر صحیح صحیح عمل کرنا ہو گا۔ مسیحی نجات تبھی ممکن ہو گی۔ حضرت عیسیٰ بذات خود ہمیں ہمارے گناہوں سے نہیں بچا سکتے؛ ہمیں خود بھی کچھ کرنا ہو گا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو پھر حضرت عیسیٰ گناہ سے منع کیوں کرتے؟ اگر ہم حضرت عیسیٰ کے بتائے ہوئے راستے پر چلیں تو مسیحی نجات ممکن ہے۔ اگر ہم مہاتما بدھ کے بتائے ہوئے راستے پر چلیں تو بدھ متی "نجات" یعنی مکش ممکن ہے۔

Top