گیشے نگوانگ درگھئیے سے وابسطہ میری یادیں

گیشے نگوانگ درگھئیے سے میری پہلی ملاقات ۱۹۷۰ میں ڈلہوزی، بھارت میں ہوئی جب میں نے ان کے ساتھ درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا۔ میں اس سے ایک سال قبل فلبرائیٹ فیلوشپ پر اپنے پی ایچ ڈی کے مقالہ پر تحقیق کرنے بھارت آیا تھا۔ ہارورڈ میں تبتی زبان سیکھنے کے دوران میری ملاقات گیشے ونگیال سے نیوجرسی میں ہو چکی تھی، اور بھارت آنے پر میں نے مدد کے لئیے شرپا اور خملنگ رنپوچے سے رجوع کیا، یہ دو نوجوان پنر جنمے لاما (تلکو) تھے جنہوں نے امریکہ میں گیشے ونگیال کے زیر نگرانی انگریزی کی تعلیم حاصل کی تھی۔ 

اس امر کا احساس ہونے پر کہ میرے مقالہ کے لئیے 'گوہیا سماج تنتر' پر تصنیف میری بساط سے کہیں باہر ہو گی، تقدس مآب دلائی لاما کے نائب اتالیق کیابجے تری جنگ رنپوچے نے مشورہ دیا کہ اس کی بجاۓ میں لم-رم یعنی روشن ضمیری کے درجہ بہ درجہ مراحل کا مطالعہ کروں۔ گیشے نگوانگ درگھئیے شرپا اور خملنگ رنپوچے کا استاد تھا، انہوں نے میری طرف سے اس سے پوچھا کہ کیا وہ مجھے لم-رم کی تعلیم دے گا، جس پر وہ راضی ہو گیا۔ میں اس کا پہلا مغربی شاگرد تھا۔

گیشے درگھئیے گارے اور گوبر کے ایک متروک طویلے کے ایک کمرے میں رہائش پذیر تھا جس میں ایک بستر اور اس بستر کی بغل میں اس کے شاگردوں کے زمین پر بیٹھنے کے لئیے بہ مشکل جگہ تھی۔ اس کا بے دانت سدا خوش باش باورچی خیدپ ترچن اس سے بھی چھوٹے باورچی خانہ میں رہتا تھا۔  گیشے نگوانگ درگھئیے جسے ہم جن رنپوچے یعنی  "قیمتی بزرگ" کہتے تھے نوجوان تلکو کے استاد کے طور پر مشہور تھا – اس وقت ۹ تلکو اس کے زیر سایہ تھے – وہ بطور ایک عالم باحث اور دھرم اچاری کے مشہور و معروف تھا۔ پس مجھے اطمینان تھا کہ وہ بخوبی قابلیت و صلاحیت کا مالک تھا۔ 

میرا درس ہفتہ میں چھ دن ہوتا تھا، شرپا اور خملنگ میرے لئیے ترجمان کا کام کرتے تھے، کیونکہ جن رنپوچے ایک دقیق خمپا بولی میں بات کرتا تھا جو اس وقت قطعی طور پر میری سمجھ سے باہر تھی۔ ایک اور نوجوان تلکو جھادو رنپوچے بھی میرے درس کے دوران موجود رہتا۔ بعد میں وہ دلائی لاما کے نمگیال آشرم کا صدر بنا اور آجکل گیتو تنتری آشرم کا صدر ہے۔ ہم سب جن رنپوچے کے بستر کی بغل میں تنگ سی جگہ میں گھس کر بیٹھ جاتے۔ 

اس جھونپڑے میں ہر وقت مکھیوں کا ہجوم رہتا۔ اس سے میرے سوا کسی کو پریشانی نہ ہوتی۔ خملنگ رنپوچے مکھیوں کے کھیل کھیلتا، وہ انہیں ہاتھ سے پکڑ لیتا – اسے اس میں زبردست مہارت حاصل تھی – پہلے انہیں جنجھوڑتا اور پھر چھوڑ دیتا۔ وہ چکراتی ہوئی اڑ جاتیں اور وہ سب ہنس دیتے۔ مجھے اس سے کوئی راحت نہ ملتی۔ میری پریشانی کو بھانپتے ہوۓ ایک روز جن رنپوچے اپنے بستر پر کھڑا ہوا اور اس نے مکھیوں کو بھگانے کی خاطر اپنے چوغہ کو زور سے ہوا میں گھمایا، اور پھر میری طرف دیکھ کر ہنسا۔ اس کے بعد سے میں نے اپنے سبق پر زیادہ توجہ دینا شروع کر دی اور مکھیوں کو نظر انداز کرنا سیکھ لیا۔ 

کچھ عرصہ بعد میں نے جن رنپوچے کو کچھ پیسے دئیے تا کہ وہ کسی بہتر جگہ منتقل ہو جاۓ۔ اس نے یہ پیشکش قبول کر لی، مگر راز داری اور مزاح قائم رکھنے کی خاطر اس نے ہم میں سے کسی کو بھی نہیں بتایا کہ وہ کہاں منتقل ہوا۔ وہ اس چیز کا منتظر رہا کہ ہم اسے تلاش کریں اور دریافت کریں۔ جب ہم نے اسے ڈھونڈ نکالا تو وہ بہت زور سے ہنسا۔ وہ گیوم تنتری آشرم کے قریب ٹین کی ایک جھونپڑی میں منتقل ہوا تھا جو کہ بہت بڑی ترقی تھی۔ میں نے وہاں اپنی تعلیم جاری رکھی، اور گاہے بگاہے نوجوان تلکووں کے ہمراہ ہم دلکش پہاڑی چراگاہوں میں لمبی سیر اور پکنک منانے چلے جاتے۔ جن رنپوچے کو پکنک بہت پسند تھی۔

تقدس مآب دلائی لاما ہماری تعلیم و تدریس سے واقف تھے اور انہوں نے ہمیں چھوٹے چھوٹے تبتی صحیفے انگریزی میں ترجمہ کرنے کے لئیے، تا کہ ان کی اشاعت ہو سکے، دینا شروع کئیے۔ پھر ۱۹۷۱ میں تقدس مآب نے دھرم شالا میں تبتی مجموعوں اور ذخائر کی لائبریری قائم کی۔ اس موسم خزاں میں ہم سب دھرم شالا میں تقدس مآب سے کچھ گوہیا سماج درس لے رہے تھے کہ تقدس مآب نے جن رنپوچے سے کہا کہ وہ لائبریری میں مغربی زائرین کو درس دیں اور شرپا اور خملنگ رنپوچے کو مترجم مقرر کیا۔ میں نے پوچھا کہ کیا میں اس سلسلہ میں کوئی مدد کر سکتا ہوں، جس پر تقدس مآب رضا مند ہو گئے، مگر ساتھ ہی یہ مشورہ دیا کہ میں ہارورڈ واپس جاؤں، اپنا مقالہ پیش کروں اور ڈاکٹری کی سند لینے کے بعد واپس لوٹوں۔ میں نے ایسا ہی کیا اور اگلے سال واپس آ کر جن رنپوچے اور اس کے دونوں تلکووں سے دھرم شالا میں آن ملا۔ ہم سب نے مل کر لائبریری میں ترجمہ کا ادارہ قائم کیا۔

اگلے بارہ برس جن رنپوچے نے، سواۓ ایک لمبے چوڑے درسی عالمی دورے کے، لائبریری میں ہفتہ میں چھ دن درس دیا۔ میں نے اس کی تقریباً تمام جماعتوں میں شرکت کی اور اس کے ہر سبق کے مفصل نوٹ بناۓ۔ اس زمانے میں دولت مشترکہ کے شہری بغیر ویزا کے بھارت میں رہ سکتے تھے، تو کئی طالب علم دھرم شالا میں برسوں رہتے رہے۔ اس کی بدولت جن رنپوچے نے خاص بودھی علمی مقالوں پر پورا پورا سال لمبے کورس پڑھاۓ، اور ہمیں جاری مراقبہ کی شکشا میں راہنمائی مہیا کی۔ اس نے تنتری بیعت بھی عطا کی اور مختلف مشقوں پر لمبے چوڑے درس بھی دئیے۔ ہر چند ہفتوں کے بعد ہم اس کے ساتھ مل کر گورو پوجا کرتے تھے جو اس نے ہمیں کرنا سکھائی تھی۔ یہ ایک لاجواب وقت تھا؛ ہم نہائت خوش قسمت تھے کہ ہمیں یہ سنہری موقع ملا تھا۔

یہ اس لئیے بھی یادگار تھا کیونکہ جن رنپوچے نہائت شوق اور ولولے سے پڑھاتا، اور وہ اپنی مفصل تشریح میں مزاح کا عنصر بھی شامل کر دیتا تھا۔ اگر ہم اس کا دیا ہوا درس بھول جاتے تو وہ کبھی بھی اسے بار بار سمجھانے میں دقت محسوس نہ کرتا – یہ درد مندی اور صبر کی ایک ترغیب دہ مثال تھی۔ وہ نظم و ضبط اور اپنے بھکشو کے عہد و پیمان کے متعلق بھی نہائت دقیقہ رس تھا۔ اگر وہ رات کو بیت الخلا جانے کے لئیے اٹھتا، تو وہ اپنی بھکشو والی چادر اوڑھ لیتا۔ 

جن رنپوچے نے مشکل وقتوں میں میری مدد کی۔ جب سپیتی میں تزنژاب سرکونگ رنپوچے کا اچانک انتقال ہوا، تو میں یہ خبر سنتے ہی جن رنپوچے کے کمرے میں گیا۔ سرکونگ رنپوچے جن رنپوچے کا بھی استاد رہ چکا تھا۔ میں اندر داخل ہوا اور میں نے دیکھا کہ جن رنپوچے اپنے چند تبتی دوستوں کے ساتھ بیٹھا چاۓ پی رہا اور گپ شپ لگا رہا تھا۔ اس نے مجھے بیٹھنے اور ان کے جانے تک انتظار کرنے کو کہا۔ جب وہ چلے گئے تو میں نے بتایا کہ میں نے ابھی ابھی سرکونگ رنپوچے کی فوتیدگی کی خبر سنی، اس نے کہا کہ اس نے بھی یہ خبر سنی تھی۔ پھر اس نے اپنی تسبیح پر اس کے تمام اساتذہ کی گنتی کرنا شروع کر دی جن کا انتقال پہلے ہی ہو چکا تھا۔ اس نے کہا کہ موت سب کو آتی ہے: یہ کوئی حیرانگی کی بات نہیں۔ لیکن اگر ہم اپنے استادوں کی یاد اور ان کی نصیحت کو اپنے دلوں میں رکھیں، تو پھر ان کا جسمانی انتقال بے معنی ہے، کیونکہ وہ ہمیشہ ہمارے ساتھ ہیں۔ زندگی کا کاروبار تو چلتا ہی رہتا ہے۔ اس بات سے مجھے بہت مدد ملی۔

جن رنپوچے نے ۱۹۸۴ میں ڈیونڈن، نیوزی لینڈ میں آنے اور وہاں مستقل قیام اور درس دینے کی پیشکش قبول کی اور لائبریری کو خیرباد کہا۔ اس کا کسی ایسی دور دراز جگہ جانا، یورپ اور شمالی امریکہ سے اس قدر دور، مناسب لگا۔ وہ ہمیشہ قدرے پر اسرار رہتا اور اپنے شاگردوں کو اسے ڈھونڈنے اور اس سے درس لینے میں جتن کرنے کا چیلنج کرتا۔

جن رنپوچے اپنی وفات تک جو کہ ۱۹۹۵ میں ہوئی نیوزی لینڈ میں ہی رہا۔ ذیابیطس کے باعث وہ اپنی نظر کھو چکا تھا، مگر آخری وقت تک یاد داشت کے توسط سے ہی پڑھاتا رہا اور اپنا روز مرہ کا پاٹھ کرتا رہا۔
 
اس کے  نیوزی لینڈ منتقل ہونے کے بعد میں اس سے صرف دو بار ملا۔ مگر میں تا دم حیات اس کا مشکور ہوں کہ اس نے مجھے بنیادی بودھی تعلیمات اور عبادات سکھائیں، اور عظیم ہندوستانی اور تبتی مقالے پڑھاۓ۔ اس کا پنر جنمے یانگسی رنپوچے ۱۹۹۶ میں پیدا ہوا اور وہ آجکل سیراجی آشرم جنوبی بھارت میں تعلیم حاصل کر رہا ہے۔

Top