یانگڈزن لنگ رنپوچے سے وابسطہ میری یادیں

یانگڈزن لنگ رنپوچے سے میری پہلی ملاقات جنوری ۱۹۷۰ میں بودھ گیا میں ہوئی جہاں وہ باقاعدگی سے سردی کا موسم گزارتا اور تبتی مندر میں سالانہ درس دیتا تھا۔ اس وقت تک ابھی بودھ گیا نے ترقی نہیں کی تھی، اور وہاں بہت غربت تھی۔ کوڑھ کے مریضوں کا ایک بے قابو ہجوم سٹوپا کے سامنے کچی سڑک پر جمع ہوتا اور وہ اپنے شریر کے ناسور زدہ انگ یاتریوں کو دکھا دکھا کر بے کیف بین کرتے ہوۓ بھیک مانگتے۔ وہاں آنے والے چند ایک بدیسی لوگوں میں سے بطور ایک کے، میں جہاں بھی جاتا چیتھڑوں میں ملبوس بچوں کا ایک ہجوم مچھروں کے جھلڑ کی مانند میرے کپڑوں سے لٹک لٹک کر اونچی یک سر آواز میں "بخشیش، میم صاحب" پکار پکار کے چند ٹکوں کی بھیک مانگتے۔ جوش بھرے زائرین سٹوپا کا طواف کرتے اور سجدے کرتے، جبکہ آوارہ کتے اور قبل از تواریخ مانند سؤر اس کے پیچھے میدان میں خوراک کی تلاش میں آزادانہ گھومتے پھرتے، جو کہ کھلے آسمان کے نیچے بیت الخلا کا کام دیتا۔ یہ منظر میں کبھی نہیں بھول سکتا۔ 

اس موقع پر میں نے یانگڈزن لنگ رنپوچے سے اپنی پہلی چنرزگ بیعت لی اور پہلے بودھی ستوا عہد و پیمان باندھے۔ یانگڈزن لنگ رنپوچے کی غیر معمولی جلالت جس سے وقار اور شکتی ٹپکتی تھی وہ آشرم کے باہر کے آلودہ اور بے ہنگم ماحول کے عین متضاد تھا۔ بالخصوص درس دیتے وقت اس کی آواز بڑی رعب دار تھی۔ اس کا درس بے تکان اور ترنم بھرا تھا، ایک بہتی ندی کی مانند، ایسے لگتا تھا کہ اس میں سانس کا وقفہ تک موجود نہیں تھا۔

یانگڈزن لنگ رنپوچے سے میری اگلی ملاقات ستمبر ۱۹۷۱ میں دھرم شالا میں ہوئی۔ میرا استاد گیشے نگوانگ درگھئے مجھے، شرپا رنپوچے اور خملنگ رنپوچے کو ڈلہوزی سے کسی بڑی تقریب میں شرکت کرنے کے لئیے وہاں لے کر آیا تھا۔ تقدس مآب کے دو اتالیق انہیں اور جمع شدہ تنتری کالجوں کو گیلوگ پنتھ کے تین اہم اور اعلیٰ ترین تنتری اختیارات سے نوازنے والے تھے۔ یانگڈزن لنگ رنپوچے ۱۳ دیوتاؤں کا وجر بھیروا اور گوہیا سماج بیعت اور کیابجے تریجانگ رنپوچے چکر سموارا لویپا بیعت دینے والے تھے۔ جہاں تک مجھے علم ہے یہ آخری ایسی تقریب تھی جس میں تقدس مآب کو سب لوگوں کی موجودگی میں اپنے دو اتالیق سے منصب یابی ہوئی۔ سب سے بڑا چیلا ہونے کی حیثیت سے، تقدس مآب دلائی لاما کو ان کے اتالیق کے رو برو ذرا نیچی گدی پر بٹھایا گیا۔ میں اس تقریب میں شریک واحد غیر ملکی شخص تھا، مجھے تختوں کے اطراف میں بنے ہوۓ شہ نشین پر بٹھایا گیا جہاں آج گورو رنپوچے اور ایک ہزار مسلح چنرزگ بت کھڑے ہیں۔ یہاں سے میرا نظارہ بہترین تھا۔ تقدس مآب کا عجز و انکسار اور اپنے اساتذہ کے لئیے عزت و احترام اس امر کا ہمیشہ کے لئیے عمدہ نمونہ بن چکا ہے کہ اپنے روحانی استاد اور تنتری گورو کے ساتھ کیسے پیش آیا جاۓ۔ 

آنے والے کئی برسوں کے دوران میں نے یانگڈزن رنپوچے سے مزید تعلیم اور کئی منصب رسید کئیے۔ ان میں سب سے یادگار ایک بار پھر وجربھیروا کا منصب تھا جو بودھ گیا کے مندر میں ملا۔ اس کے دوران، یانگڈزن رنپوچے نے منڈل محل کا نقشہ اس کے ارد گرد جگہ میں اشاروں سے کھینچا۔ اس کا تصور اس درجہ واضح تھا کہ اس نے ہم سامعین کے لئیے اسے سچ مچ میں پیش کر دیا۔ 

یہ یانگڈزن لنگ رنپوچے کی خاص بات تھی کہ وہ اپنے ارد گرد لوگوں کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ میں اکثر بطور نام نہاد "افزائش کا القاء پیدا کرنے والا عمل" کے طور پر ان کی مثال دیا کرتا ہوں۔ اس سے پیشتر جب کہ مجھے تبتی زبان پر اتنا عبور ہوا کہ میں اپنے اساتذہ کے لئیے زبانی ترجمانی کے قابل ہوا، میں اس بات پر ہمیشہ حیران ہوتا کہ جب بھی میں یانگڈزن رنپوچے سے ملتا، اس کے لب و لہجہ کی صفائی اور القاء کی بدولت میں اس کی تبتی زبان میں بات کسی اور کی بات کی نسبت کہیں زیادہ آسانی سے سمجھ لیتا۔ ایسا لگتا جیسے وہ من کی بات وضاحت سے سیدھا میرے دماغ میں ڈال دیتا۔ 

جب مجھے تبتی زبان پر کچھ عبور حاصل ہوا تو میں نے یانگڈزن رنپوچے کے لئیے، جب وہ بدیسی لوگوں کو پرائیویٹ درس دیتا، کبھی کبھار ترجمانی کا کام کیا۔ وہ مختلف قسم کے پاٹھ کی وضاحت کی فرمائشین پوری کرنے کے معاملہ میں بے حد فیاض تھا، اور جب کبھی مجھے ضرورت پڑتی، دھرم کے بارے میں میرے سوالوں کا جواب دینے میں بھی خوش دلی سے رضا مندی کا اظہار کرتا۔ میں اس نایاب اور بیش قیمت رعائت کا ناجائز فائدہ اٹھانے کے متعلق بہت محتاط تھا۔

ایک بار جب میں ایک نہائت مشکل آوالوکیتشور پاٹھ جو اس نے کرایا کی شرح کا ترجمہ کر رہا تھا، تو طالب علم کے کمرے میں داخل ہونے سے قبل یانگڈزن رنپوچے نے مجھے کہا کہ اسے شک ہے کہ یہ شخص اس تعلیم پر عمل کرے گا بھی کہ نہیں۔ لیکن پھر بھی اس نے اسے کچھ سمجھانا مناسب خیال کیا۔ پھر یانگڈزن رنپوچے نے بغیر لمبی چوڑی تفصیل یا گہرائی میں جانے کے ایک کار آمد وضاحت بیان کی جس کا مقصد یہ تھا کہ اس سے شائد یہ شخص اتنی اکساوٹ اور ترغیب پکڑے کہ وہ اس پاٹھ کا مزید جائزہ لے۔ یہ واقعہ میرے لئیے ایک مثال کا کام دیتا ہے کہ درس دینے میں استاد کے لئیے سب سے اہم چیز ایک پر خلوص اور بے لوث تر غیب ہے۔ اس قسم کی ترغیب کے نتیجہ میں آپ درس کو شاگرد کی ضرورت اور درجہ پر قائم رکھیں گے۔ اب کوئی شاگرد ان تعلیمات پر عمل کرتا ہے یا نہیں یہ اس کی ذمہ داری ہے۔ ایک ایسا عمدہ استاد ہونے کے اعلیٰ معیار تک رسائی بہت مشکل کام ہے۔

یانگڈزن لنگ رنپوچے بطور وجربھیروا کے مقبول عام انسانی قالب کے، جو کہ منجوشری کی طاقتور شکل ہے، ایک ایسا بدھا مجسم ہے جو اپنے اندر تمام بدھوں کی صفائی، ذہانت اور حکمت کو اس طرح لئیے ہوۓ ہے کہ صفائی کی یہ طاقتور شکتی استقامت اور سہائیتا کی ٹھوس چٹان کی مانند اس کے ارد گرد ٹپکتی ہے۔ یہ اس قسم کی شکتی ہے جو، جبکہ آپ اس کے سامنے حاضر ہوں، آپ کو ایک الجھن اور غصے میں مبتلا چھوٹے بچے کی مانند سوچنے یا کچھ کرنے سے روکتی ہے، بلکہ آپ کے من کو صاف، پھرتیلا بناتی اور جذباتی و ذہنی اعتبار سے تدبّر اور استقامت بخشتی ہے۔ 

اس صفت کی ایک مثال یہ واقعہ ہے جب میں ایک بار دھرم شالا میں یانگڈزن رنپوچے کو ملنے اس کے گھر پر گیا۔ وہ کمرے کے ایک کونے میں ایک نیچے سے بستر پر براجمان تھا اور میں دوسرے کونے میں ایک دوسرے نیچے سے بستر پر بیٹھا تھا۔ مراقبے کے متعلق وہ میرے چند سوالوں کے جواب دے رہا تھا کہ اچانک کہیں سے ایک بہت بڑا بچھو ہمارے درمیان فرش پر نمودار ہوا۔  یانگڈزن رنپوچے، جو کہ ہمیشہ نہائت پر وقار سبھاؤ رکھتا تھا، نے جوش سے اپنے بازو ہوا میں بلند کئیے اور جذباتی، جوشیلی آواز میں بولا، "اوہ پیارے، بچھو!" پھر اس نے اپنی پوری کھلی آنکھوں سے میری طرف دیکھا اور کہا، "کیا تمہیں ڈر نہیں لگتا؟" میں نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالکر کہا، "مجھے وجر بھیروا کی موجودگی میں کیا ڈر ہو سکتا ہے؟" اور یہ بات سچ تھی، مجھے کوئی ڈر نہیں تھا۔ یانگڈزن رنپوچے ہنسا اور وہ میرے جواب پر بھی ہنسا۔ پھر اس کا خادم ایک پیالہ اور کاغذ کا ٹکڑا لئیے اندر آیا، کاغذ کو بچھو کے نیچے سرکایا، پیالہ اس کے اوپر رکھا اور بڑی شان سے اسے باہر لیجا کر میدان میں چھوڑ دیا۔ ایسے لگتا تھا کہ یانگڈزن رنپوچے نے مجھے سبق دینے کے لئیے یہ سارا تماشا رچایا تھا۔ 

اگرچہ بیشتر لوگ یانگڈزن لنگ رنپوچے کی ناقابل یقین طاقتور، چھا جانے والی وجر بھیروا شکتی کی بدولت اس سے حیرت اور شدید خوف کا اظہار کرتے،  یانگڈزن رنپوچے نے کبھی بھی اس ردعمل کو مناسب نہیں سمجھا۔ ایک بار جب میں بودھ گیا کے مندر میں اس کے ہمراہ اس کے کمرے میں تھا تو ایک نوجوان بھکشو چڑھاوے کی پلیٹ لئیے، جو "تسوگ" پوجا رسم جو کہ بھکشو نچلی منزل پر ادا کر رہے تھے سے آئی تھی، کمرے میں داخل ہوا، ۔ وہ لڑکا اتنے مہان گورو کے سامنے آتے ہوۓ بے شک گھبرایا ہوا اور خوف زدہ تھا۔ جب وہ چلا گیا، یانگڈزن رنپوچے زیرلب ہنسا اور مجھ سے مخاطب ہوا، " یہ سب مجھ سے بہت ڈرتے ہیں۔ حالانکہ ڈرنے کی کوئی بات نہیں، ہے نا؟" 

یانگڈزن لنگ رنپوچے، جہاں ایک جوشیلے وجر بھیروا کی مانند جس کے سینے میں شانت منجوشری کا دل ہو، بظاہر استقامت کا سنجیدہ مجسمہ تھا، وہیں اندر سے نرم دل اور حد درجہ دانا انسان تھا۔ میں اپنے آپ کو اس کا شاگرد اور جز وقتی مترجم ہونے کے باعث نہائت خوش قسمت تصور کرتا ہوں۔ 

Top