بعض اوقات دوست احباب مجھ سے کسی مسٔلے کا "جادوئی" حل مانگتے ہیں۔ میں ہمیشہ انہیں کہتا ہوں کہ دلائی لاما کے پاس کوئی جادوئی طاقت نہیں ہے۔ اور اگر ہوتی، تو میری ٹانگوں میں درد نہ ہوتا اور نہ ہی میرا گلا خراب ہوتا۔ بطور انسان کے ہم سب ایک جیسے ہیں، اور ہم سب کے خوف، امیدیں اور عدم تیقّن یکساں ہے۔ بدھ مت کے نکتۂ نظر سے، ہر ذی حس مخلوق دکھ درد، بیماری، بڑھاپا اور موت سے آگاہ ہے۔ لیکن انسان ہونے کے ناطہ سے ہم اپنے من کے توسط سے غصہ، پریشانی اور حرص پر قابو پا سکتے ہیں۔ حالیہ برسوں میں میں "جذباتی تخفیف اسلحہ" پر زور دیتا رہا ہوں: معاملات کو حقیقت کی نظر سے شفاف آئینہ میں دیکھنا، بغیر الجھن، خوف یا غصہ کے۔ اگر کسی مسٔلے کا حل موجود ہے تو اسے تلاش کرو؛ اگر نہیں ہے تو اس کے متعلق سوچ سوچ کر اپنا وقت ضائع کرنے کی ضرورت نہیں۔
بدھ مت کے پیروکاروں کا یہ ماننا ہے کہ تمام دنیا باہمی طور پر ایک دوسرے کی محتاج ہے۔ اسی لئیے میں اکثر عالمگیر ذمہ داری کی بات کرتا ہوں۔ کورونا وائرس جیسی موذی بلا کا پھوٹ پڑنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ جو معاملہ کسی ایک انسان کے ساتھ پیش آتا ہے اس کی لپیٹ میں سب آ سکتے ہیں۔ لیکن اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ کوئی درد مندی کا یا کوئی تعمیری فعل – خواہ وہ ہسپتال میں خدمت کرنا ہو یا محض سماجی حد بندی پر عمل – اس سے بہتوں کا بھلا ہو سکتا ہے۔
جب سے ووہان سے کورونا وائرس کے متعلق خبریں آئی ہیں میں اپنے چینی بہن بھائیوں اور دیگر کے لئیے دعا مانگ رہا ہوں۔ ہم نے دیکھا ہے کہ اس بیماری سے کوئی بھی محفوظ نہیں ہے۔ ہم سب اپنے عزیز اقرباء، ہمارا مستقبل، عالمی معیشت اور ہمارے اپنے گھرانوں کے لئیے فکرمند ہیں۔ لیکن خالی دعا ہی کافی نہیں ہے۔
اس ہنگامی حالت سے پتہ چلتا ہے کہ ہم جہاں بھی ممکن ہو احساس ذمہ داری سے کام لیں۔ ہمیں ڈاکٹروں اور نرسوں کی دلیری کے ساتھ ساتھ تجرباتی سائنس کی مدد سے اس کا رخ موڑنا ہے اور مستقبل میں ایسے مزید خطروں سے اپنے آپ کو محفوظ کرنا ہے۔
اس خوف کے دور میں ہمیں دور رس خطرات کے بارے میں سوچنا چاہئیے – اور بہتر مواقع کے متعلق بھی – جو کہ پورے کرۂ ارض پر محیط ہوں۔ خلا سے لی گئی ہماری زمین کی تصاویر سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے نیلے سیارے پر کوئی حد بندی نہیں ہے۔ پس ہم سب کو مل کر اس کا خیال رکھنا ہے اور موسمی تغیّر اور دیگر تباہ کن طاقتوں سے بچانا ہے۔ یہ وباء اس خطرے کی جانب تنبیہ دلاتی ہے کہ ہمیں پیش آنے والے بیمثال عظیم خطرات سے نمٹنے کے لئیے باہمی، عالمی جد و جہد کو حرکت میں لانا ہو گا۔
ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئیے کہ کوئی شخص بھی دکھ سےآزاد نہیں ہے، اور ہمیں ان سب کی مدد کرنی چاہئیے جو گھر بار، خاندان اور وسائل سے محروم ہیں۔ اس بحران نے ہمیں یہ دکھایا ہے کہ ہم ایک دوسرے سے جدا نہیں ہیں- حتیٰ کہ جب ہم ایک دوسرے سے دور رہ رہے ہوں۔ اس لئیے درد مندی کا اظہار اور مدد ہم سب کا فرض ہے۔
ایک بودھی ہونے کے ناطے سے میں عدم استقلال کے اصول کو مانتا ہوں۔ یہ وباء دور ہو جائے گی، جیسا کہ میں نے اپنی زندگی میں جنگ اور ایسی خوفناک بلاؤں کو ٹلتے دیکھا ہے، اور ہمیں ایک بار پھر پہلے کی مانند اپنی عالمی برادری کی تعمیر نو کا موقع ملے گا۔ میں خلوص دل سے امید کرتا ہوں کہ ہر کوئی محفوظ اور پرسکون رہے۔ اس سراسیمگی کے دور میں، یہ امر اہم ہے کہ ہم ان کے لئیے جو اس سلسلہ میں تعمیری جد و جہد کر رہے ہیں امید اور اعتماد کا دامن نہ چھوڑیں۔