خود ستائی پر قابو پانے کے بارے میں نصیحت

آپ خود اپنے اصول، قوانین اور آئین بناتے ہیں۔ اگر اور کوئی آپ کے قوانین کی خلاف ورزی کرے تو آپ انہیں پکڑتے ہیں اور سزا دیتے ہیں۔ لیکن اگر آپ خود ان کی خلاف ورزی کریں تو آپ اپنے آپ کو معاف کر دیتے ہیں۔ گیشے شارماوا نے کہا، "جب تک آپ کو اپنی خامیاں اور اپنے اندر کا دشمن نظر نہ آۓ آپ کسی قسم کی مدد قبول نہیں کریں گے۔" اگر آپ یہ سمجھیں کہ آپ کے جذبات سب سے اہم ہیں، آپ کسی کی بات نہیں سنیں گے۔ ایسا شخص جو اپنی ہی ذات میں مگن ہو اس کی مدد بڑے قابل لاما بھی نہیں کر سکتے، کیونکہ لاما کی نصیحت خود پرستی کے رویہ سے متصادم ہوتی ہے۔ اگر آپ اپنے گرو سے راہنمائی چاہتے ہیں تو آپ کو پہلے اپنے خودستائی کے رویہ کی غلطی کا احساس ہونا چاہئے۔ خودستائی کے رویہ کی موجودگی میں آپ میں برے اعمال کے ارتکاب کے تمام امکانات پاۓ جاتے ہیں۔ لہٰذا آپ کو اپنے اعمال کے محرکات کا جائزہ لینا چاہئے۔ نہ صرف یہ کہ گرو آپ کی مدد نہیں کر پائیں گے بلکہ آپ کے عام دوست احباب بھی آپ کی مدد نہیں کر سکیں گے کیونکہ آپ ان کی نصیحت سننے کو تیار ہی نہیں۔

ہم سب کو اس امر کو تسلیم کر لینا چاہئے کہ ہمارے اندر خود ستائی کی کمزوری پائی جاتی ہے – صرف مہاتما بدھ اس سے مبرّا ہے۔ ہمیں اپنے اندر اس خامی کی موجودگی کو محسوس کر کے اسے دور کرنا چاہئے۔ اگر ہم محض اتنا جان لیں کہ ہمارے اندر خود ستائی پائی جاتی ہے تو یہ بذات خود بہت بڑی بات ہو گی۔ جب کبھی آپ تنقید کا نشانہ بنیں تو آپ کو ہمیشہ یہ سمجھنا چاہئے کہ آپ نے اسے اپنے خود ستائی کے رویہ سے دعوت دی ہے۔ اگر آپ ایسا نہ سوچیں تو آپ غصہ میں آ جائیں گے۔ اگر آپ کو کانٹا چبھ جاۓ اور آپ غصے میں آ کر اس پر ضرب لگائیں تو نقصان کسے ہو گا؟ اگر ہم اب معمولی نکتہ چینی برداشت نہیں کر سکتے تو پھر ہم نچلے درجہ کے پنر جنم کے دکھ درد کو کیسے نباہ پائیں گے؟

گیشے چن-نگاوا نے کہا کہ ہمیں ہدف جیسا صبر پیدا کرنا چاہئے۔ اگر ہم پر تنقید ہو تو ہمیں سوچنا چاہئے کہ ہم نے خود نشانہ مہیا کیا ہے۔ اگر سرے سے کوئی نشانہ ہو ہی نہیں، تو کوئی تیر بھی نہیں پھینکے جائیں گے۔ ایک کہاوت ہے کہ،"انسان خود اپنے لئے پھانسی کا پھندا تیار کرتا ہے۔" اگر آپ نے کوئی غلط کام نہیں کیا اور پھر بھی آپ تنقید کا نشانہ بنتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ نے اپنی گذشتہ زندگیوں میں دوسروں کی بے عزتی کی ہے۔ مثلاً ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ مہاتما بدھ کا ایک چیلا تھا جو کہ ایک ارہت تھا جس نے تین طرح کے اخلاقی عہدو پیمان پر عمل کر کے پریشان کن جذبات اور طور طریقوں سے نجات حاصل کر لی تھی۔ مگر کچھ لوگوں نے یہ کہا کہ اس نے اپنا عہد توڑا، اور انہوں نے اس کے خلاف جھوٹی گواہی بھی پیش کی۔ مہاتما بدھ اس پر ناراض ہوۓ اور انہوں نے کہا کہ یہ ناممکن ہے کہ اس ارہت نے اپنا عہد توڑا ہو۔ مہاتما بدھ نے مزید یہ کہا کہ آج سے اگر کسی شخص نے کسی بہت پہنچے ہوۓ چیلے پر وعدہ شکنی کی الزام تراشی کی تو اسے بدھ مت سے خارج کر دیا جاۓ گا، اور اسے بدھ مت کے خلاف ایک نحوست سمجھا جاۓ گا۔ کچھ اور لوگوں نے پوچھا کہ ارہت پر تنقید کیوں ہوئی۔ مہاتما بدھ نے جواباً کہا کہ یہ ارہت اپنی گزشتہ زندگی میں دروغ گو اور بہتان باز تھا، اور اس نے ایک بادشاہ سے اس کی ملکہ کو ملک بدر کروا دیا۔ تو اب یہ اس کا نتیجہ ہے۔

تنقید، دروغ گوئی، اور الزام تراشی بڑے نقصان دہ اسلوب ہیں، کیونکہ ایک تو یہ نہ صرف ہماری مشق کو کوئی فائدہ نہیں پہنچاتے بلکہ اوروں کو نقصان پہنچاتے ہیں اور انتشار کا باعث بنتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ صرف دو روشن ضمیر ہی ایک دوسرے کو پہچان سکتے ہیں۔ جب ہم کسی پر تنقید کرتے ہیں، خواہ سچ ہو یا جھوٹ، تو ہم منفی کرم جمع کرتے ہیں۔ یا اگر ہم کسی بودھی ستوا کو کسی انوکھی بات پر، جس کا نتیجہ اچھا ہو، تنقید کا نشانہ بنائیں تو اس کا نتیجہ بھی منفی ہو گا۔

جو لوگ ہر وقت دوسروں پر نکتہ چینی کرتے ہیں ان کی روش گہری خودستائی جیسی ہوتی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بعض راہب بہت سی تعلیمات سنتے ہیں مگر ان پر عمل نہیں کرتے تو اس کی وجہ ان کی گذشتہ زندگیوں میں خود ستائی کی روش ہے۔ خود ستائی کا ایک نتیجہ ہمارے دشمنوں کو نقصان پہنچانا بھی ہے۔

مہاتما بدھ کے وقتوں میں ایک بار کوئی راہب اپنے چغے رنگ رہا تھا کہ اس دوران ایک بندر گم ہو گیا۔ جب راہب نے اپنا چغہ برتن میں سے نکالا تو اسے یوں لگا کہ یہ (چغہ) بندر کا گوشت بن چکا تھا۔ لوگوں نے راہب پر بندر چرانے اور اسے پکانے کا الزام لگایا۔ راہب کو عدالت میں پیش کیا گیا اور اسے سزا ہوئی۔ کچھ عرصہ بعد وہ بندر کہیں سے نکل آیا اور راہب بیگناہ قرار پایا۔ راہب نے مہاتما بدھ سے اس ماجرے کی وجہ پوچھی۔ مہاتما بدھ نے بتایا کہ کسی گذشتہ زندگی میں اس راہب نے کسی دوسرے راہب پر بندر چرانے کا الزام لگایا تھا۔

ہم اپنی خوشی اور آرام حاصل کرنے، اور خوب محنت کر کے پیسہ جمع کرنے میں اس قدر مصروف ہو جاتے ہیں کہ ہم اپنے آپ کو چوروں کے لئے نشانہ بنا لیتے ہیں۔ ایک شخص کا قصہ ہے کہ اُس نے اپنے تمام سکّے ایک تھیلے میں ڈالے اور اس تھیلے کو چھت سے باندھ دیا، کیونکہ اسے انہیں کھو دینے کا سخت اندیشہ تھا۔ ایک روز تھیلا اس شخص کے سر پر گرا اور وہ زخمی ہو گیا۔ اس قصے کا مطلب یہ ہے کہ خود پرستی ہمیں خوشی سے محروم رکھتی ہے، عارضی طور پر اور مستقلاً، دونوں طرح۔ چونکہ ہماری تمام گذشتہ زندگیوں میں ہمارا اسلوب خود پرستی کا رہا ہے تو ہم اس سے فوری طور پر چھٹکارا نہیں پا سکتے، خواہ ہمیں اس بات کا احساس ہو بھی کہ یہ ہمارا سب سے بڑا مسٔلہ ہے۔

لہٰذا ہمیں کسی بھی تنقید پر شدید ردعمل کا اظہار نہیں کرنا چاہئے، بلکہ یہ سوچنا چاہئے کہ اس میں اوروں کا قصور بھی ہے اور ہماری خود ستائی کی روش کا بھی۔ خود پرستی کے اسلوب کی معقول پہچان صبر پیدا کرنے میں معاون ہوتی ہے۔ یہ کہنا کہ "آگ گرم ہے" ایک قدرتی بات ہے۔ اس میں کوئی حیرانگی کی بات نہیں۔ اسی طرح اگر کوئی شخص آپ پر نکتہ چینی کرتا ہے تو آپ اسے اپنے اور اس شخص کے خود ستائی کے آئینے میں دیکھ سکتے ہیں – یہ بھی قدرتی امر ہے۔ اس قسم کی سوچ غصہ یا دیوانگی پیدا نہیں کرے گی کیونکہ اب اس بات کی ضرورت نہیں رہی کہ دوسرے شخص کو غلط ثابت کیا جاۓ یا مکمل طور پر قصوروار ٹھہرایا جاۓ۔ 'مہایائی سوتروں کی ایک زردوزی' میں یہ ہے،"خودپرستی خود کو اور دوسروں کو تباہ کر دیتی ہے، اور اخلاق کو بھی۔" جو بھی کام ہم خود ستائی کی بنیاد پر کریں گے وہ ہمارے لئے کمتر پنر جنم یا جہنم کی راہ ہموار کر دیں گے۔ مہاتما بدھ اور بودھی ستوا خودپرستی کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، اس لئے کہ اس سے بہت ناخوشگواری پیدا ہوتی ہے اور ایسے شخص کا پنر جنم کمتر درجہ کے جہانوں میں ہوتا ہے جس سے رہائی کا کوئی امکان نہیں۔

خودپرستی ہماری گذشتہ تمام نیکیوں کو برباد کر دیتی ہے اور ہماری ترقی کی راہ میں حائل ہوتی ہے۔ اسے ایک ایسا زہر سمجھنا چاہئے جو ہمیں زندگی کے جوہر سے محروم کر دیتا ہے۔ اس خود پرستی کے اسلوب کو سلب کرنے کی کوشش ہر دم جاری رکھو۔ ہماری جو بھی مشق ہو، ہمیں اسے خود پرستی کو ختم کرنے کے لئے استعمال کرنا چاہئے۔ ایک کدمپا گیشے نے یہ بات بتائی کہ جب بھی وہ کسی تحریر کا مطالعہ کرتا ہے تو اس میں بیان کردہ تمام برائیوں کو اپنی ذات سے منصوب کرتا ہے، اور تمام خوبیوں کو اوروں سے – اس طرح وہ خود پرستی کے خلاف جنگ کرتا ہے۔ کوئی شخص بھی بغیر خود ستائی کو کم کئے بودھی چت کی خصوصیت نہیں پا سکتا۔ بودھی چت اور دردمندی کے ہوتے ہوۓ خود ستائی کی مخالفت طاقتور ہو جاتی ہے، دردمندی غالب آ جاتی ہے اور ہمارے اندر ایک خواہشات کی تکمیل کرنے والا پودا اگا دیتی ہے۔ اگر آپ دردمندی کی مشق کریں تو اس کے مثبت اثرات خود پرستی کے دائمی منفی اثرات پر غالب آ جاتے ہیں۔

گیشے پوتووا نے کہا، "پھینپو کے ایک علاقے میں گیشے کھام لُنگ سے زیادہ خوش کوئی شخص نہیں تھا۔ اور ایک دوسرے علاقے میں یہی بات گیشے چن-نگاوا کے بارے میں سچ تھی۔ اور اس کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے خود پرستی کا خاتمہ کر دیا تھا۔" گیشے چن-نگاوا اتنا غریب تھا کہ اسے شاذونادر ہی کھانا نصیب ہوتا۔ اور پہننے کے لئے اس کے پاس ایک جوڑ لگا چمڑے کا تہ بند تھا۔ لیکن اس کے باوجود وہ اپنے کو متمول خیال کرتا، اور کہتا، "اب میں سارے عالم کی کفالت کر سکتا ہوں۔" خود پرستی حقیقی وجود پر اصرارسے پیدا ہوتی ہے اور بودھی چت استوار کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ ایک جگہ لکھا ہے،"تکمیل خواہش کا جوہر تمام ذی شعور لوگوں کے لئے دردمندی پیدا کرنا ہے۔ اس بات کا کبھی احساس نہ کرنے سے ہم راستے سے بھٹک گۓ ہیں۔ خود پرستی اور نفس پر اصرار کے خلاف دشمنی رکھنے کی بجاۓ ہم ذی شعور لوگوں کو اپنا دشمن بناتے ہیں، اور اپنے اصلی دشمنوں کو اپنا دوست سمجھتے ہیں۔" ایک اور جگہ لکھا ہے،"سب سے بڑا بھوت پریت باہر نہیں بستا، بلکہ ہمارے شریر کے آسیب زدہ گھر میں خودپرستی کی شکل میں رہتا ہے۔"

بودھی چت کی مدد سے ہم اپنی خود پرستی کی روش کو تباہ کر سکتے ہیں۔ یہ جو ہمیں بد روحوں سے نقصان پہنچتا ہے اس کی وجہ ہماری خود ستائی ہے – اپنے آپ کو تنقید اور بد سلوکی سے محفوظ رکھنا، اور اپنے آپ کو بد اخلاق بنانا۔ اپنی خواہشات کی تکمیل کی خاطر ہم خود پرستی کا رویہ اپناتے ہیں، اور اپنی خوشنودی کو اپنا مطمح نظر گردانتے ہیں۔

بعض اوقات دوسروں کو ناخوش کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ مگر خود پرستی کے ذریعہ ہم دوسروں کی توہین کرنے اور انہیں نقصان پہنچانے کو اپنا نصب العین بنا لیتے ہیں تا کہ اپنے نفس کو خوش رکھ سکیں۔ خود پرستی سے غرور اور حسد پیدا ہوتا ہے۔ اگر کسی کو کچھ ملتا ہے، تو ویسے تو آپ اسے مبارکباد دیتے ہیں مگر اندر سے جلتے ہیں کہ یہ چیز مجھے کیوں نہیں ملی۔ اگر خودپرستی کا عنصر موجود نہ ہو تو پھر حسد کرنے کی بجاۓ آپ دوسروں کی کامیابی پر خوشی منا کر اپنے لئے مثبت امکانات اکٹھےکرتے ہیں۔ زندگی میں انتشار کی وجہ خود پرستی ہے۔ اگر آپ کا اسلوب زبردست خود پرستی کا ہے تو آپ بہت مدافعت پسند ہوں گے، دوسروں سے الجھیں گے، صبر سے عاری ہوں گے، اور یہ محسوس کریں گے کہ لوگ جو بھی کرتے ہیں آپ اس سے تنگ ہوتے ہیں، ناراض ہو کر اینٹھتے ہیں۔ اس قسم کے مدافعت پسند رویہ سے شوہروں اور بیویوں، والدین اور بچوں کے درمیان بہت پھوٹ پائی جاتی ہے۔

ایک اور کدم گیشے چالیس برس کی عمر تک چوریاں کرتا رہا۔ اگرچہ اس کے پاس کھیتی باڑی کرنے کو کئی ایکڑ زمین تھی مگر اس نے چوری کا پیشہ اپنا لیا۔ دن کے وقت وہ مسافروں کو لوٹتا اور رات کو لوگوں کے گھروں کو۔ ایک روز اس نے اپنا طور اطوار بدلا، روحانیت اختیار کی اور اپنی خود پرستی کی روش کا قلع قمع کر دیا۔ اس نے کہا،"اب سے پہلے مجھے کھانا نہیں ملتا تھا، اور اب لوگ اتنے چڑھاوے چڑھاتے ہیں کہ کھانے کو میرا منہ نہیں ملتا۔"

بودھی چت استوار کرنے میں ان سب باتوں کو مد نظر رکھنا مدد گار ہوتا ہے۔ اگر آپ کوہ میرو جتنا بڑا خود پرستی کا رویہ لیکر کسی غار میں بند ہو رہیں تو یہ بیکار ہو گا۔ لیکن اگر آپ اپنا خود پرستی کا رویہ کم کر دیں تو پھر تنہائی اختیار کرنا نہائت سودمند ہو سکتا ہے۔

Top