مہاتما بدھ کی تعلیمات برّ صغیر ہند اور پھر وہاں سے ایشیا کے طول و عرض میں پر امن طور سے پوہنچیں۔ یہ جب کبھی کسی نئی تہذیب سے متعارف ہوئیں، تو بدھ مت کے اطور اور اسالیب کو آسانی سے، بغیر بنیادی تصورات یعنی حکمت اور درد مندی میں رد و بدل کئیے، مقامی لوگوں کے نظریات سے انطباق کی خاطر ڈھال لیا گیا۔ بدھ مت نے کبھی بھی مذہبی حکمرانی کا ایسا نظام جس میں کوئی اعلیٰ منصب دار ہو نہیں اپنایا۔ اس کی بجاۓ، ہر وہ دیس جہاں جہاں بدھ مت پوہنچا نے اپنی اپنی شکل و صورت، اپنا دھرمی ڈھانچہ تشکیل دیا اور اپنا روحانی پیشوا منتخب کیا۔ آج کل، ان با اختیار ہستیوں میں سب سے زیادہ مشہور اور عالمی سطح پر قابل تحریم ہستی تبت کے تقدس مآب دلائی لاما ہیں۔
مختصر تاریخ
بدھ مت کے دو بڑے مسالک ہیں۔ اول، ہنایان یعنی (چھوٹا حلقہ) جس میں ذاتی مُکش پر زور دیا جاتا ہے اور دوسرا مسلک ہے مہایان یعنی (وسیع حلقہ) جس میں اس بات پر زور دیا جاتا ہے کہ انسان ایک مکمل اور روشن ضمیر بدھ بننے کی کوشش کرے تاکہ وہ دوسروں کی مدد کر سکے- ان دو مسالک کے مزید ذیلی حصے ہیں۔ حالیہ دور میں بدھ مت کی تین اہم قسمیں پائی جاتی ہیں۔ ہنایان جسے تھیرواد کے طور پر جانا جاتا ہے اورجو جنوب مشرقی ایشیا میں پھیلا ہے اور دو مہایان مسالک جو چینی اور تبتی روایات پر مشتمل ہے۔
- تھیرواد روایات ہندوستان سے سری لنکا اور برما (میئنمار) میں تیسری صدی قبل مسیح کے دوران پہنچی۔ وہاں سے یہ جنوب مشرقی ایشیا (تھائی لینڈ، لاؤس، کمبوڈیا، جنوبی ویتنام) اور انڈونیشیا تک پہنچیں۔
- دوسرے ہنایان نظریات عصرِ حاضر کے پاکستان، افغانستان، مشرقی اور ساحلی ایران، اور وسطی ایشیا تک جا پہنچے۔ دوسری صدی عیسوی میں یہ چین پہنچ گئے۔ بعد ازآں ہنایان کی یہ اشکال مہایان کے ان پہلووں سے جو کہ اسی راستے بھارت سے آۓ تھے، مخلوط ہو گئے، نتیجہ یہ ہوا کہ چین اور بیشتر وسطی ایشیا میں مہایان روپ حاوی ہو گیا۔ بعد میں مہایان کا چینی روپ کوریا، جاپان اور شمالی ویت نام تک پھیل گیا
- تبتی مہایان مسلک جس میں بھارتی بدھ مت کا تاریخی پس منظر مکمل طور پر شامل تھا ساتویں صدی عیسوی میں ظہور پذیر ہوا۔ تبت سے یہ سارے ہمالی علاقے اور پھر منگولیا، وسطی ایشیا، اور روس کے کئی علاقوں (بریاتیا، کلمیکیا، اور تووا) میں پھیل گیا۔
علاوہ از ایں، دوسری صدی عیسوی سے لے کر، مہایان بدھ مت کے ہندوستانی مسلک ہندوستان سے جنوبی چین کے سمندری تجارتی راستے کے ساتھ ساتھ ویت نام، کیمبوڈیا، ملیشیا، سماٹرا اور جاوا تک پہنچے۔ آج ان میں سے کوئی بھی موجود نہیں ہے۔
بدھ مت نے کس طریقے سے فروغ پایا
ایشیا کے بیشتر حصوں میں شروع سے آخر تک بدھ مت کا فروغ ایک پُر امن سطح پر ہوا اور اس کے طریقے مختلف رہے۔ شاکیہ مُنی بدھ نے اس کی مثال قائم کی تھی۔ بنیادی طور پر ایک معلم ہونے کی حیثیت سے انہوں نے آس پاس کے ملکوں کا دورہ کیا اور وہ لوگ جنہوں نے ان کے پیغام میں دلچسپی دکھائی، ان کے ساتھہ اپنے بصیرت کو آگے بڑھاتے رہے۔ اسی طرح انہوں نے اپنے راہبوں کو یہ ہدایت دی کہ وہ باہر کی دنیا میں جائیں اور بدھ کی تعلیمات کو لوگوں تک پہنچائیں۔ انہوں نے کبھی یہ نہيں کہا کہ دوسرے مذاہب کی مذمّت کی جائے یا لوگوں سے یہ کہا جائے کہ وہ اپنا مذہب چھوڑ کر ایک نیا مذہب صرف اس لیے قبول کر لیں کہ وہ ایک نیا مذہب قائم کرنا چاہتے تھے۔ وہ تو بس لوگوں کو اس دکھہ اور ناخوشی پر قابو پانے میں مدد کرنا چاہتے تھے جو ان کی ناسمجھی کی وجہ پیدا کردہ تھیں۔ ان کی آنے والی نسلوں کے پیروکار بدھ کی مثال سے بے حد متاثر ہوئے اور دوسروں کو اس طریقئہ کار کے بارے میں بتایا جو ان کی اپنی زندگی میں معاون اور مفید ثابت ہوئے تھے۔ یہی طریقہ اس وقت "بدھ مت" کے طور پر دور دور تک پھیلا ہوا ہے۔
کبھی کبھار یہ سلسلہ فطری طور پر ارتقا پذیر ہوا۔ مثلا جب بدھ مت کے تاجر دوسرے ممالک میں جا کر بس گئے، اس وقت مقامی لوگوں میں سے کچھہ لوگ ان اجنبی لوگوں کے عقیدے میں دلچسپی لینے لگے، جیسا کہ انڈونیشیا اور ملیشیا میں اسلام کے ساتھہ ہوا۔ یہی سلسلہ بدھ مت کی ان ریگستانی ریاستوں کے ساتھہ بھی رہا جو وسطی ایشیا کی شاہ راہ ریشم پر واقع ہیں۔ دوسری صدی قبل مسیح سے لے کر دوسری صدی عیسوی تک، جیسے جیسے مقامی حکمران اور عوام کو اس ہندوستانی مذہب کے بارے میں واقفیت حاصل ہوتی گئی، وہ تاجروں کے اپنے ملکوں سے بہ طور مشیر یا معلم راہبوں کو مدعو کرنے لگے اور اسی طرح آخر کار بدھ مت اختیار کر لیا۔ ایک اور فطری طریقہ یہ تھا کہ فاتح قوم کے لوگ بالآخر ثقافتی طور پر مقامی لوگوں میں ضم ہو جائیں۔ یہ سلسلہ موجودہ پاکستان کے مرکزی علاقے میں یونانی لوگوں کے گندھاراکے بدھ مت کے لوگوں میں ضم ہو نے پر دوسری صدی قبل مسیح کے بعد ظہور میں آيا۔
اکثر یہ بھی ہوا کہ مذہب کا فروغ کسی ایسے حکمران کی کوششوں سے ہوا جس نے خود اس بدھ مت کو اپنا لیا تھا اور اس کی حمایت کرنے لگا تھا۔ مثال کے طور پر، تیسری صدی قبل مسیح کے وسط میں، راجہ اشوک کی حمایت کے باعث، بدھ مت پورے شمالی ہند میں پھیل گیا۔ اس عظیم حکمران نے اپنی رعایا کو مجبور نہيں کیا کہ وہ بدھ مت اپنا لیں، بلکہ انہوں نے ہر جگہ لوہے کے ستونوں پر بدھ کی تعلیمات کو کندہ کروایا تاکہ لوگ انہی احکاموں کے مطابق اخلاقی طور پر ایک درست زندگی گزار سکیں۔ انہوں نے خود بھی انہی اصولوں کی روشنی میں اپنی زندگی بسر کر کے دوسروں کے لیے بدھ مت کی ایک مثال قائم کر دی۔
راجہ اشوک نے نہایت پرجوش طریقے سے اپنی ریاست کے باہر مبلغوں کی جماعتیں بھیج کر لوگوں کو بدھ مت کی طرف مائل کیا۔ کبھی کبھی غیر ملکی حکمرانوں کے اصرار پر بھی انہوں نے ایسا کیا، جیسا کہ سری لنکا کے راجہ تشیا کے معاملے میں، جس نے ان کو مدعو کیا تھا۔ اس کے علاوہ، انہوں نے خود اپنی تحریک پر، دوسرے ملکوں میں راہب اور سفیر بھیجے۔ لیکن ان راہبوں نے کبھی کسی کو جبراً مذہب بدلنے کی ترغیب نہيں دی۔ ان کا مقصد بس یہی تھا کہ لوگوں تک بدھ کی تعلیمات کو پہنچا دیں اور اس کے بعد لوگ اس کا فیصلہ خود کریں کہ یہ مذہب انہيں راس آتا ہے کہ نہيں۔ یہ حقیقت اس بات سے بھی عیاں ہوتی ہے کہ جنوبی ہندوستان اور جنوبی برما میں تو بدھ مت نے جلد ہی جڑ پکڑ لی لیکن ایسی کوئی دستاویز نہيں ملتی جس کی بنا پر ہم یہ کہہ سکیں کہ وسطی ایشیا کی یونانی آبادیوں میں فوری طور پر اس کا کوئی اثر ہوا۔
پھر دوسرے ایسے مذہبی حکمراں بھی تھے، مثلاً سولہویں صدی کا منگول تانا شاہ التن خان، جنہوں نے بدھ معلموں کو اپنے ملک میں مدعو کیا اور بدھ مت کو سرکاری مذہب کے طور پر اس غرض سے اپنا لیا کہ رعایا کے مابین ایک وحدت کا احساس پیدا ہو اور وہ اپنی حکومت کو مستحکم بنا سکیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس عمل کے دوران انہوں نے پہلے سے رائج کچھہ مقامی مذاہب یا غیر بدھ طور طریقوں کو ممنوع قرار دے دیا ہو، یہاں تک کہ اس عقیدے کے ماننے والوں پر ظلم بھی کیا ہو۔ لیکن ایسے جابرانہ اقدامات بنیادی طور پر، سیاست سے وابستہ تھے۔ اس قسم کے مہم جو حکمرانوں نے کبھی بھی اپنی رعایا کو اس بات پر مجبور نہيں کیا کہ وہ بدھ مت کے عقیدے اور طریق عبادات کو اپنا لیں۔ کسی طرح کا جبر اس مذہب کے عقیدے کا حصہ نہيں ہے۔
خلاصہ
شکیامونی مہاتما بدھ نے لوگوں کو تلقین کی کہ اس کی تعلیمات پر آنکھیں بند کرکے عمل نہ کریں، بلکہ پہلے انہیں غور سے جانچیں پرکھیں۔ تو اس کا صاف صاف مطلب یہ ہوا کہ لوگوں کو مہاتما بدھ کی تعلیمات کو کسی جوشیلے مبلّغ کے جبر تلے آ کر یا کسی شاہی حکم نامے کے تحت قبول نہیں کرنا چاہئیے۔ ستارھویں صدی عیسوی کے شروع میں نیجی ٹوئن نے بدھ مت کو پھیلانے کی خاطرمشرقی منگول خانہ بدوشوں کو بطور رشوت یہ پیشکش کی کہ انہیں ہر ایک اشلوک حفظ کرنے پر ایک مویشی دیا جاۓ گا۔ خانہ بدوشوں نے حکام سے شکائت کی تو اس جابر استاد کو سزا دی گئی اور ملک بدر کر دیا گیا۔
مختلف وسیلوں سے، بدھ مت ایشیا کے بیشتر حصے میں پرامن طریقے سے پھیلا، اپنا محبت، درد مندی اور دانائی کا پیغام لئیے، مختلف لوگوں کی ضروریات اور مزاج کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوۓ۔