حیاتیات اور عقلِ سلیم کی بنیاد پر درد مندی

حتیٰ کہ جانور بھی اپنے نوزائیندہ کے ساتھ ایک ممتائی تعلق محسوس کرتے ہیں جس کا سبب آکسی ٹوسن ہارمون ہے۔ مزید برآں، تمام بچے، خواہ انسان کے ہوں یا جانور کے، پیار محبت کی ضرورت اور طلب میں برابر ہیں۔ لہٰذا درد مندی کے بیج - یعنی اوروں کو دکھ سے نجات دلانے کی خواہش - ہماری جبلّت میں پائی جاتی ہے اور اسے اس خیال سے مزید تقویت ملتی ہے کہ ہماری اپنی بقاء کا انحصار درد مندی پر ہے، اور اس میں ہم سب برابر ہیں۔

ہر عمل کے نتیجے کا انحصار اس عمل کی ترغیب پر ہوتا ہے۔ کسی عمل کے پس پشت ایک ابتری پیدا کرنے والا منفی جذبہ ہے یا ایک مثبت جذبہ ہے، اس فرق کے باعث ایک ہی عمل کے دو مختلف نتیجے ہو سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ اگر ایک ہی عام جذبہ، مثلاً درد مندی کا جذبہ، ہمیں کسی خاص عمل پر اکساتا ہے، تب بھی، اس جذبے کو سہارا دینے والے ذہنی اور جذباتی وسائل، اس عمل سے پیدا ہونے والے نتیجوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔

ویڈیو: چودھویں دلائی لاما — «حقیقی درد مندی»
ذیلی سرورق کو سننے/دیکھنے کے لئیے ویڈیو سکرین پر دائں کونے میں نیچے ذیلی سرورق آئیکان پر کلک کریں۔ ذیلی سرورق کی زبان بدلنے کے لئیے "سیٹنگز" پر کلک کریں، پھر "ذیلی سرورق" پر کلک کریں اور اپنی من پسند زبان کا انتخاب کریں۔

درد مندی کی تین قسمیں

مثال کے طور پر درد مندی یا ترحم کے جذبے پر نظر ڈالیے- اس جذبے کی تین قسمیں ہیں:

  • پہلی قسم کی درد مندی کا رخ رشتے داروں اور عزیزوں کی طرف ہوتا ہے۔ لیکن، ایک قسم کی شخصی وابستگی پر مبنی ہونے کی وجہ سے، اس کا دائرہ محدود ہوتا ہے۔ حالات میں خفیف سے اُتار چڑھاو پر، یہی جذبہ غصے میں، بلکہ نفرت تک میں تبدیل ہو سکتا ہے۔
  • دردمندی کے جذبے کی دوسری قسم کا رخ دکھہ درد سے دو چار مختلف مخلوقات کی طرف ہوتا ہے، اور اس کا انحصار، ان مخلوقات کے لیے ہمارے دل میں پیدا ہونے والے ترس کھانے کے احساس پر ہوتا ہے۔ یہ دونوں اقسام پریشان کن جذبات کی وجہ سے نکلتے ہیں اور, اس لئے وہ مشکل کا سب بنتے ہیں۔
  • درمندی کی تیسری قسم ہر تعصب اور مصلحت سے ماورا ہوتی ہے۔ اس کی اساس تفہیم اور احترام کے جذبے پر قائم ہوتی ہے۔ اس انداز کو اختیار کرنے کے ساتھہ، ہم یہ سمجھہ لیتے ہیں کہ دوسرے بھی ویسے ہی ہیں جیسے کہ ہم ہیں؛ انھیں بھی خوش رہنے اور دکھہ سے محفوظ رہنے کا اتنا ہی حق حاصل ہے جتنا کہ ہمیں۔ اس سوجھہ بوجھہ کے باعث ہم ان سب کے لیے محبت، درد مندی اور شفقت کا احساس کرنے لگتے ہیں۔ یہ تیسری قسم کی دردمندی مستحکم اور پائدار قسم کی ہوتی ہے۔ اسے تربیت، تعلیم اور تعقل سے فراغ ملتا ہے۔ یہ جذبہ جتنا مستحکم اور پائدار ہوتا جائے گا، اتنا ہی فائدہ مند ہوتا جائے گا۔

درد مندی کی یہ تینوں قسمیں دو عمومی زمروں میں رکھی جا سکتی ہیں۔ پہلی دونوں قسمیں ان جذبوں کی ہیں جو بے ساختہ طور پر پیدا ہوتے ہیں اور جن کا انحصار کسی نیوراتی تحریک پر ہے۔ تیسرا جذبہ تعقل پر مبنی ہے اور اسی کی سطح پر نمودار ہوتا ہے۔

ایک ماں کی اپنے نومولود کے لئیے فطری قرابت اور پیار

تعقل کی سطح سے پھونٹنے والی درد مندی جو کسی طرح کے تعصب کا شکار نہیں ہوتی، اسے فطرت کی طاقت اور تائید بھی حاصل ہوتی ہے۔ پیدائش کے وقت چاہے انسان ہو، چاہے دودھ پلانے والا جانور یا ایک پرندہ، البتہ میں کچھووں اور تتلیوں کے بارے میں کچھہ نہیں جانتا، لیکن باقی سبھی جانداراپنی ماں کے لیے ایک فطری کشش، قربت اور پیار محبت کا احساس رکھتے ہیں۔ ماں بھی اپنے نوزائیدہ بچے کے لیے، خود کار طریقے سے، ایک تعلق اور شفقت محسوس کرتی ہے۔ اسی تعلق کے باعث وہ اپنے نو مولود بچے کی دیکھہ بھال کرتی ہے اور اس کی پرورش کرتی ہے۔ یہی شفقت آمیز توجہ بچے کے صحت مند ارتقا کی بنیاد ہے۔

اس بات سے ہم یہ سمجھہ سکتے ہیں کہ حیاتیاتی اصولوں پر مبنی قربت اور شفقت میں درد مندی کا بیج چھپا ہوتا ہے۔ یہ ہماری ماوں کی طرف سے آنے والے اور ہمین ملنے والے عظیم ترین تحائف ہیں۔ جب ہم ان بیجوں کو تعقل اور تعلیم کے پانی سے سینچتے ہیں، تو یہ بیج بڑھ کر سچی درد مندی کی شکل اختیار کر لیتے ہیں، سب کی طرف بے لوثی کا اور براہ راست سب کی طرف یکساں جذبہ لیے ہوئے، جس کی بنیاد ہم سب کی سوجھہ بوجھہ اور برابری کے احساس پر قائم ہے۔

درد مندی کی بنیاد پر لا ادری اخلاقیات

بچے کے لیے، شفقت کا انحصار مذہب، قوانین، یا پولیس کی طرف سے عاید کیے جانے والے کسی جبر پر نہیں ہوتا۔ یہ تو اپنے آپ فطری انداز میں پیدا ہو جاتا ہے۔ لہٰذا، گرچہ مذہب کی طرف سے سکھائی جانے والی رحم دلی اور درد مندی بھی اچھی ہوتی ہے، مگر اس کا اصل بیج اور اس درد مندی کی اصل بنیاد تو حیاتیاتی ہوتی ہے۔ یہی وہ بنیاد ہے جسے میں "سیکولر اخلاقیات" سے تعبیر کرتا ہوں۔ مذہب کا کام تو صرف یہ کہ وہ اس بیج کے اندر نئی طاقت پیدا کر دے۔

کچھہ لوگ یہ سوچتے ہیں کہ اخلاقیات یا اخلاقی تصورات کو خصوصی طور پر مذہبی عقیدے کا پابند ہونا چاہیے۔ دوسروں کا خیال ہے کہ تربیت کے ذریعے ایک طرح کے اخلاقیات کے احساس کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔ کچھہ لوگوں کے نزدیک "سیکولر" کا مفہوم مذہب کو مسترد کر دینا ہے۔ دوسری طرف ایسے لوگ بھی ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ "سیکولر" کا مفہوم ہے تمام مذاہب کا احترام کرنا، بغیر کسی تعصب کے، بہ شمول اس کے کہ جو لوگ مذہب میں یقین نہیں رکھتے ان کا بھی احترام کیا جائے، جیسا کہ ہندوستان کے آئین میں کیا گیا ہے۔ اخلاقیات کی یہ آخری قسم، اور بالخصوص یہ بات کہ درد مندی کو اس کی بنیاد بنایا گیا ہو، ہماری جبلت میں پیوست ہے۔ جیسا کہ ماں اور اس کے نوزائیدہ بچے کے معاملے میں دیکھا جاتا ہے۔ ان میں یہ جذبہ اپنے آپ خود کار طریقے سے جنم لیتا ہے کیونکہ اس کے پس پشت بقا کی ضرورت کا احساس موجود ہے، اور چونکہ اس کی اساس ایک حیاتیاتی بنیاد پر قائم ہے اس لیے یہ بنیاد زیادہ مستحکم بھی ہے۔

جب ہم بہت درد مند ہوتے ہیں، تو ہمارے من اور دل وسیع تر ہو جاتے ہیں اور ہم زیادہ آسانی کے ساتھ گفتگو کر سکتے ہیں۔

بچے جس وقت کھیل رہے ہوتے ہیں، وہ مذہب، نسل، سیاست یا خاندانی پس منظر کے بارے میں نہیں سوچتے۔ وہ اپنے کھیل کے ساتھیوں کےہونٹوں پر مسکراہٹ دیکھتے ہیں تو خوش ہوتے ہیں، اس واقعے سے یکسر لا تعلق ہو کر کہ وہ ساتھی کون ہیں، اور جواباً خود ان کا برتاو بھی دوستانہ ہوتا ہے۔ ان کے دماغ اور دل کھلے ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس، بلوغ کی عمر کو پہنچے ہوئے لوگ، بالعموم، اس طرح کے دوسرے عوامل اور سیاسی اختلافات وغیرہ پر زور دیتے ہیں۔ اس کی وجہ سے ان کے دماغ اور دل سکڑ جاتے ہیں۔

ذرا ان دونوں کے فرق پر غور کرو، جب ہم زیادہ درد مند ہوتے ہیں، تو ہمارے دل و دماغ زیادہ کھل جاتے ہیں اور ہم زیادہ آسانی کے ساتھہ دوسروں سے مکالمہ قائم کر لیتے ہیں۔ غصہ اور اشتعال ہمارے نظام اعصاب کو کمزور کر دیتا ہے، جب کہ درد مندی کا جذبہ اور ایک مہربان دل اس نظام کو بہتر بناتے ہیں۔ غصے اور خوف کی حالت میں ہم سو نہیں سکتے، اور اگر ہم سو بھی جائیں تو ہمیں ڈراونے خواب دکھائی دیتے ہیں۔ اگر اس کے برعکس ہمارے دماغ پر سکون ہوں، تو نیند اچھی آتی ہے۔ ہمیں خواب آور دواوں کی ضرورت نہیں پڑتی۔ ہماری توانائی متوازن ہوتی ہے۔ تناو کی حالت میں، ہماری توانائی ہرطرف بھاگتی پھرتی ہے اور ہم گھبراہٹ سے دو چار ہو جاتے ہیں۔

درد مندی سے من کو سکون اور وسعت ملتی ہے

اس بات کو دیکھنے اور اچھی طرح سمجھنے کے لیے، ہمیں ایک ٹھنڈے دماغ کی ضرورت ہے۔ اگر ہم اشتعال اور غصے کی حالت میں ہوں تو ہم سچائی کو نہیں دیکھہ سکتے۔ اسی لیے، ہماری بیشتر پریشانیاں، عالمی پیمانے پر بھی، انسانوں کی اپنی پیدا کردہ پریشانیاں ہیں۔ یہ پریشانیاں رونما اسی لیے ہوتی ہیں کہ ہم اپنے صورت حال کو خراب طریقے سے نمٹاتے ہیں اور سچائی کو نہیں دیکھہ پاتے۔ ہمارے اعمال خوف، غصے اور تناو پر مبنی ہوتے ہیں۔ ہم بہت زیادہ ذہنی دباو میں رہتے ہیں۔ ہم معروضیت سے کام نہیں لیتے کیونکہ ہمارے ذہن بھٹکتے رہتے ہیں اور ہمیں سچائی کا راستہ دکھانے سے معذور رہتے ہیں۔ منفی جذبات ہمیں ذہن کی محدودیت کا راستہ دکھاتے ہیں جس کی وجہ سے نت نئی مشکلات پیدا ہوتی رہتی ہیں اور کبھی بھی ان سے اطمینان بخش نتائج بر آمد نہیں ہوتے۔

بر خلاف اس کے، درد مندی ایک کھلے ہوئے دماغ، ایک پُر سکون دماغ کی محرک ہوتی ہے۔ اس درد مندی کے ساتھہ ہم سچائی کو دیکھہ لیتے ہیں اور یہ بھی کہ ایسی باتوں کو ختم کرنے کا طریقہ کیا ہے جنھیں کوئی بھی پسند نہیں کرتا اور ایسا کرنا کیونکر ممکن ہے جو ہر ایک کی پسند کے مطابق ہو۔ یہ ایک اہم نکتہ ہے اور تعقل پر مبنی درد مندی کا یہ سب سے بڑا فائدہ ہے۔ اس لیے، انسانی قدروں کو فروغ دینے کےلیے، ان قدروں کو جو حیاتیاتی اصولوں پر مبنی ہوں اور جنھیں تعقل کی تائید حاصل ہو، ان کو فروغ دینے کے لیے مائیں، اور ماں بچے کی باہمی شفقت و محبت بہت اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔

Top