تعارف
ہم ایسی قیمتی انسانی زندگیوں سے مستفیض ہیں جو ایسے مواقع اور لوازمات سے مالا مال ہیں جن کی بدولت ہم دھرم کی راہ پر چل سکتے ہیں۔ تاہم یہ مواقع دائمی نہیں ہیں۔ لہٰذا ہمیں ان اچھے مواقع سے بھرپور فائدہ اٹھا نا چاہئے۔
اپنی قیمتی انسانی زندگی سے مستفید ہونے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہم ایک بودھی چت نصب العین استوار کریں۔ بودھی چت نصب العین ایک ایسا من اور قلب ہے جو مستقبل میں ملنے والی روشن ضمیری پر مرتکز ہے جسے ہم بعد میں کبھی اپنے من کے سلسلوں میں حاصل کر پائیں گے۔ یہ دو ارادوں پر مشتمل ہے: جلد از جلد روشن ضمیری حاصل کرنا، اور اس کے ذریعہ تمام ہستیوں کا بھلا کرنا۔
بودھی چت پروان چڑھاتے وقت ہم ان دو عنوانات کو متضاد سمت میں تشکیل دیتے ہیں۔ اولاً، ہم سب محدود مخلوق کو بھر پور فائدہ پہنچانا چاہتے ہیں، محض انسانوں کو ہی نہیں۔ اس کے لئے محبت، دردمندی، اور غیر معمولی قوت ارادی چاہئے جس پر ہم بعد میں اس لیکچر میں بات کریں گے۔ لہٰذا انہیں بھرپور فائدہ پہنچانے کی خاطر ہم روشن ضمیری حاصل کرنے اور مہاتما بدھ بننے کے مکمل طور پر خواہاں ہیں۔ ہمیں روشن ضمیری اس لئے درکار ہے تا کہ ہم اپنی کمزوریوں سے نجات پا سکیں کیونکہ یہ ہمیں اوروں کی مدد سے باز رکھتی ہیں۔ مثال کے طور پر اگر ہم کسی سے ناراض ہوں تو ہم اس لمحہ کیسے ان کی مدد کر سکتے ہیں۔ ہمیں اس لئے بھی روشن ضمیری حاصل کرنا ہے تا کہ ہم اپنی تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لا سکیں۔ ہمیں انہیں بھر پور انداز میں بروئے کار لانا ہے تا کہ ان کی مدد سے ہم دوسروں کا بھلا کر سکیں۔ پس بودھی چت نصب ا لعین استوار کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ پہلے ہم مہاتما بدھ بنیں کیونکہ یہ اعلیٰ ترین مقام ہے، اور پھر ہم دوسروں کی مدد کریں جیسے کہ ہم کوئی ناروا لگان ادا کر رہے ہیں۔
بودھی چت نصب العین استوار کرنے کے دو بڑے طریقے ہیں۔ ایک تو سات حصوں پر مشتمل علت و معلولی اعلیٰ ترین تعلیمات کے ذریعہ، دوسرا یہ کہ ہم اپنے اور دوسروں کے متعلق اپنے رویہ میں تبادلہ اور توازن پیدا کریں۔ یہاں ہم ان دو میں سے پہلے پر بات کریں گے۔
تشکیل طمانیت
سات حصوں پر مشتمل علت و معلولی اعلیٰ تعلیمات میں چھ اقدام ایسے ہیں جو ساتویں کی وجوہات ہیں، جو بودھی چت نصب العین کی اصل تشکیل ہے۔ یہ ایک ایسے ابتدائی مرحلے سے شروع ہوتا ہے جو ان سات حصوں میں شامل نہیں۔ یہ طمانیت کی تشکیل ہے جس کی مدد سے ہم بعض ہستیوں سے زود متاثر ہونے یا ان سے چپکنے پر قابو پاتے ہیں، بعض سے دور بھاگتے ہیں، اور چند ایک اور سے لاتعلقی برتتے ہیں۔ اس ابتدائی مرحلے کا مقصد ہر ایک سے مساوی سلوک کرنا ہے۔
یہ احساس کہ ہم سب برابر ہیں، جو کہ سب سے یکساں فراخدلی کے لئے لازم ہے، اس سوچ سے پیدا ہوتا ہے کہ من کے سلاسل کی نہ تو کوئی ابتدا ہے اور نہ ہی کوئی انتہا۔ لہٰذا ہر شخص کبھی نہ کبھی ہمارا دوست رہا ہے، کبھی دشمن رہا ہے، اور کبھی ہم سے بیگانہ رہا ہے، اور یہ کیفیت ہر دم رو بہ تغیّر ہے۔ اس لحاظ سے سب یکساں ہیں۔
اس سوچ کے پس پشت اہم بات جو سمجھنے کی ہے وہ ہے من کی عدم ابتدائیت۔ یہ بدھ مت کا ایک بنیادی تصور ہے۔ پنر جنم کا تعلق تجربات کے تسلسل سے ہے۔ من کے سلاسل تجربات کی لڑیاں ہیں۔ یہ منفرد ہیں اور انسانی، حیوانی، مردانی یا نسوانی فطری شناختوں سے مبرّا۔ من کا کوئی سلسلہ کسی ایک خاص پنر جنم میں جو شکل اور جنس اختیار کرتا ہے اس کا انحصار گذشتہ اعمال یعنی کرموں پر ہوتا ہے۔
بودھی چت استوار کرنے کے لئے یہ تصور بنیادی اور لازمی ہے، کیونکہ اس سوچ کی اساس پر ہر ایک کے لئے دردمندانہ محبت پیدا کرنا ممکن ہو جاتا ہے۔ ہم دوسری مخلوق جیسے ایک مچھر کو محض مچھر نہیں گردانتے۔ بلکہ ہم اسے من کا ایک طویل، لاانتہا منفرد سلسلہ جانتے ہیں جو اس جنم میں اپنے کرم کی بنا پر مچھر کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ یہ فطرتاً مچھر نہیں ہے۔ اس طرح ہمارے دل میں ایک مچھر کے لئے بھی اتنی ہی محبت پیدا ہو جاتی ہے جتنی ایک انسان کے لئے۔ بودھی چت کی قوت کا راز اس بات میں مضمر ہے کہ اس میں ہم ہر ایک کو، بلا استثنا، فائدہ پہنچانا چاہتے ہیں۔ بیشک یہ آسان کام نہیں۔
اس بات کا احساس کہ ہر کوئی ہماری ماں رہ چکا ہے
ایک بار جب ہمیں اس بات کا اطمینان ہو جائے کہ تمام مخلوق من کے منفرد سلسلے ہیں – اس سے ان کے موجودہ وجود زندگی کی نفی نہیں ہوتی – تو ہم سات حصوں پر مشتمل علت و معلولی مراقبہ کی جانب پہلا قدم اٹھانے کو تیار ہیں۔ یہ اس بات کا ادراک ہے کہ ہر ہستی، کسی نہ کسی وقت، ہماری ماں رہ چکی ہے۔ اس پر استدلال یہ ہے کہ جس طرح اس جنم میں ہماری کوئی ماں ہے، ایسے ہی ہر اس دم جب ہم نے کسی کوکھ یا انڈے سے جنم لیا تو ہماری کوئی نہ کوئی ماں تو تھی۔ پنر جنم کی عدم ابتدائیت کے منطق سے ہم یہ استنباط کرتے ہیں کہ ہر کوئی لا انتہا بار ہماری ماں رہ چکا ہے – اور ہم ان کی۔ وہ ہمارے باپ بھی تھے، ہمارے قریبی دوست بھی، وغیرہ وغیرہ۔
ہر ایک کو اپنی ماں مانتے ہوئے ہمیں اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ ہماری ماں ہونا ہر شخص کی فطری صفت نہیں، کیونکہ اس سے بھی تھوڑی سی مشکل پیدا ہو سکتی ہے۔ ہمیں خالی پن، یعنی فطری شناختوں کی عدم موجودگی، کو کبھی نہیں بھلانا چاہئے۔
یہ احساس کہ ہر کوئی ہماری ماں ہوا کرتی تھی، ہمارے دوسروں کے ساتھ رویہ میں انقلابی تبدیلی پیدا کر دیتا ہے۔ اس مرحلہ پر ہم دوسروں کی جانب محض طمانیت سے بہت آگے نکل جاتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے دوسروں کے ساتھ گہرے مراسم تھے – اور یہ کہ اب بھی ہم سب سے نہائیت قریبی، اور محبت بھرے تعلقات استوار کر سکتے ہیں۔
مادری محبت و شفقت کی یاد دہانی
ان سات اقدام میں سے دوسرا قدم یہ ہے کہ ماں کی محبت اور شفقت کو یاد رکھا جائے۔ بعض مغرب کے باسیوں کے لئے مراقبہ کی راہ میں یہ ایک مشکل مرحلہ ہے کیونکہ ہندوستانی اور تبتی لوگ ہمیشہ اس وقفہ زندگی میں اپنی ماں کی مثال لیتے ہیں۔ ایسے معلوم ہوتا ہے کہ اُن معاشروں میں مغربی معاشروں کی نسبت بیشتر لوگوں کے اپنی ماؤں سے تعلقات کم پریشان کن اور کم نیوراتی ہوتے ہیں۔ آیا یہ بات سچ ہے یا جھوٹ اس کا انحصار ہر شخص پر الگ الگ ہے۔ لیکن میں نے جو انتیس برس تبتی اور ہندوستانی معاشروں میں گزارے ہیں، تو میں اپنے مشاہدہ کی بنا پر یہ کہہ سکتا ہوں کہ مغرب کی نسبت یہاں جوان بچوں اور ماؤں کے درمیان تعلق بہت کم نیوراتی شکل اختیار کرتا ہے۔
مراقبے کا یہ مرحلہ جس میں ہم اس بات کا اعادہ کرتے ہیں کہ ہماری ماں کس قدر شفیق ہے – یا تھی، اگر وہ فوت ہو چکی ہے – یہ ہمیں واپس اس مقام تک لیجاتا ہے جب اس نے ہمیں اپنی کوکھ میں پالا تھا۔ پھر ہم اس سوچ کا سب پر اطلاق کرتے ہیں کہ وہ کیسے ہماری گذشتہ زندگیوں کے دوران ہم سے شفقت سے پیش آۓ۔
بہت سے لوگ جب یہ تعلیم مغربی لوگوں کو دیتے ہیں تو یوں کہتے ہیں کہ چلو مانا کہ تمہارے تعلقات اپنی ماں کے ساتھ اچھے نہیں تو تم اس کے بجاۓ اپنے باپ یا کوئی قریبی دوست یا کوئی بھی شخص جو تمہارے ساتھ نہائیت شفقت سے پیش آیا، اس کے بارے میں سوچو۔ اس طرح تم یہ مراقبہ کرتے وقت مشکل میں نہیں پڑو گے۔ میرے خیال میں یہ طریقہ فائدہ مند ہے۔ تاہم، میں یہ سمجھتا ہوں کہ اگر ہمارے تعلقات ہماری ماؤں کے ساتھ اچھے نہیں تو ہمیں اسے نظر انداز کرنے کے بجاۓ اس مسٔلے کو حل کرنا چاہئے۔ اگر ہمارے اپنی ماں کے ساتھ تعلقات صحت مند بنیادوں پر قائم نہیں ہوتے، تو کسی اور کے ساتھ محبت بھرے، صحت مند تعلقات استوار کرنا نہائت مشکل ہو گا۔ ایسی صورت میں ہمیشہ کوئی نہ کوئی مشکل کھڑی ہو گی۔ اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں اپنی ماں کے ساتھ تعلقات کا جائزہ لینا ضروری ہے اور اس کی شفقت کی پہچان لازم ہے، خواہ یہ تعلق کتنا ہی خراب رہا ہو یا اب بھی ہو۔
پہلے ہمیں ماں کی مثالی محبت پر ایک نظر ڈالنی چاہئے۔ قدیم تحریروں میں اس کا بیشتر ذکر ہے: آپ کو اس کا مظہر اکثر جانوروں میں نظر آۓ گا۔ ایک پرندہ ماں انڈوں پر مستقل بیٹھی رہتی ہے خواہ اسے کتنی ہی سردی لگے یا وہ بھیگ جاۓ۔ اور جب انڈوں میں سے بچے نکلتے ہیں تو وہ کیڑے پکڑ کر انہیں چباتی ہے مگر نگلتی نہیں اور اپنے چوزوں کو کھانا دیتی ہے۔ یہ بڑی حیرت انگیز بات ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ جانوروں اور کیڑے مکوڑوں میں اس بات کی مثالیں بھی ملتی ہیں جہاں مائیں اپنے نوزائیدہ بچوں کو کھا جاتی ہیں، مگر بہر حال انہوں نے زچگی کی صعوبت تو برداشت کی۔ اور خواہ یہ ہماری اصلی ماں ہو یا سروگیٹ ماں، کسی نہ کسی نے ہمیں اپنی کوکھ میں پالا۔ اگر ہم نے کسی ٹیسٹ ٹیوب میں جنم لیا تو کسی نہ کسی نے اس ٹیسٹ ٹیوب پر نظر رکھی اور اس کے درجہ حرارت کو مناسب سطح پر قائم رکھا۔ خواہ ہماری ماں ہمیں اٹھاۓ رکھنا پسند کرتی تھی یا نہیں، یہ بے معنی بات ہے۔ ہمیں اپنی کوکھ میں اٹھاۓ پھرنا اور حمل کا نہ گرانا، ایک بہت بڑی محبت بھری بات ہے۔ یہ کوئی آسان کام نہ تھا۔ ہمیں جنم دیتے وقت اس نے بہت تکلیف اٹھائی۔ مزید بر آں، جب ہم شیر خوار بچے تھے تو کوئی تو آدھی رات کو اٹھ کر ہمیں دودھ پلاتا، ہمارا خیال کرتا تھا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو آج ہم زندہ نہ ہوتے۔ قدیم تحریروں میں ایسی باتوں پر زور دیا گیا ہے۔
اگر ہمیں اپنی ماؤں کے ساتھ مسائل درپیش تھے، تو میرے خیال میں ہم گُرو مراقبہ سے راہنمائی لے سکتے ہیں جس کا ذکر پانچویں دلائی لاما کی لم-رم تحریر میں ہے۔ بہت سی پرانی تحریروں میں یہ لکھا ہے کہ ایسا روحانی مرشد ملنا قریب قریب ناممکن ہے جس میں صرف عمدہ اوصاف ہی ہوں۔ کوئی روحانی مرشد بھی کامل نہیں ہوتا؛ ہر ایک میں کچھ خوبیاں ہوں گی تو کچھ کمزوریاں۔ روحانی مرشد پر مراقبہ میں ہمیں اپنی توجہ اس کی خوبیوں اور اس کی شفقت پر مرکور کرنا ہے تا کہ ہم اس کے لئے بیحد عزت و احترام، الہامی قوت، اور اس کی قدر و قیمت استوار کر سکیں۔ اس طرح ہمیں خود یہ صفات اور شفقت اپنے اندر پیدا کرنے کی ترغیب ملے گی۔
پانچویں دلائی لاما نے اس کی وضاحت یوں کی ہے کہ اس سلسلہ کے دوران ہمیں اپنے مرشد کی کمزوریوں سے منکر نہیں ہونا چاہئے۔ ایسا کرنا سادہ لوحی ہو گی۔ ہم ان کمزوریوں کا اعتراف کرتے ہیں، لیکن فی الحال انہیں نظرانداز کرتے ہیں، کیونکہ مرشد کی کمزوریوں پر ارتکاز محض شکوہ شکائت اور منفی رویہ کو فروغ دے گا۔ یہ قطعاً الہامی نہیں ہو گا۔ الہامی کیفیت صرف صفات اور شفقت پر توجہ مرکوز کرنے سے پیدا ہوتی ہے۔
لہٰذا پہلے ہم خامیوں کو تسلیم کرتے ہیں۔ لیکن ہمیں دیانتداری سے اس بات کا جائزہ لینا چاہئے کہ کیا واقعی یہ حقیقی خامیاں ہیں یا محض ہماری سوچ کا پرتو۔ اگر یہ کمزوریاں محض خیالی ہیں، حقیقی نہیں، تو ہم انہیں فوراً رد کر دیتے ہیں۔ پھر ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ یہ غیر تصوراتی خامیاں حالیہ ہیں یا کوئی پرانی بات جسے ہم بھلانا نہیں چاہتے۔ اگر یہ ماضی کے قصے ہیں تو ہمیں ان پر تکیہ نہیں کرنا چاہئے: یہ اب بے معنی ہو چکے ہیں۔ جب ہم اس بات کا واضح تعیّن کر لیں کہ حالیہ خامیاں کونسی ہیں، تو ہم کہتے ہیں کہ اچھا یہ اس کی موجودہ کمزوریاں ہیں۔ پھر ہم انہیں وقتی طور پر ایک طرف رکھ دیتے ہیں، اور صرف ان کی خوبیوں پر توجہ مرکوز کرتے ہیں۔
میرے خیال میں اپنی ماؤں کی شفقت کا جائزہ لیتے وقت ایسا ہی طریق کار معقول اور کارگر ہو گا۔ کسی کی ماں بھی مثالی ماں نہیں ہوتی۔ اگر ہم خود والدین ہیں تو ہم جانتے ہیں کہ ایک مثالی والد/والدہ ہونا کس قدر مشکل ہے، لہٰذا ہمیں اپنے والدین سے بھی مثالی ہونے کی توقع نہیں کرنی چاہئے۔ پھر ہمیں اپنی ماں کی موجودہ یا گذشتہ کمزوریوں پر نظر ڈالنی ہے، اور ان حالات و محرکات کو سمجھنا ہے جو ان کمزوریوں کا باعث ہوۓ۔ وہ فطری طور پر بری نہیں، ایسے ہی جیسے من کا کوئی تسلسل فطری طور پر مچھر نہیں (جو کہ فطرتاً کوئی تنگ کرنے والی چیز نہیں)۔ ہمیں اس بات کی تسلی کر لینی چاہئے کہ ہم خواہ مخواہ ان خامیوں کو اپنی ماؤں سے منسوب تو نہیں کر رہے یا محض پرانی باتوں کو لئے بیٹھے ہیں۔ اور پھر ہم تمام خیالی خامیوں کو، نئی اور پرانی، سب کو فی الحال نظر انداذ کر دیتے ہیں۔ تب ہم یہ سوچتے ہیں کہ مانا کہ اس میں یہ کمزوریاں تھیں، لیکن وہ بھی آخر ایک انسان ہے: ہم سب میں خامیاں ہوتی ہیں۔ پھر ہم اس کی صفات اور اس کی شفقت پر نظر ڈالتے ہیں۔
ایک مغربی دھرم کے استاد – جس کا نام اس وقت مجھے یاد نہیں – نے مراقبہ کا ایک نہائت موثّر طریقہ بتایا ہے۔ اس مقام پر، اپنی ماؤں کی کمزوریوں کو پس پشت ڈال کر، ہم اپنی زندگی کا پانچ اور دس سال کے وقفوں میں جائزہ لیتے ہیں۔ ان پانچ یا دس سال کے وقفوں میں ہماری ماؤں نے جو اور جس طرح ہمارے اوپر اپنی محبت و شفقت نچھاور کی ہم اس پر پانچ منٹ، دس منٹ، آدھا گھنٹہ، پورا گھنٹہ، یا جتنا بھی عرصہ ہم چاہیں، ہم اسے یاد کرتے ہیں۔ پہلے مرحلہ میں ماں کی کوکھ سے لیکر پانچ سال کی عمر تک، ہم یہ بات یاد کرتے ہیں کہ اس نے ہمارے گندے پوتلے بدلے، ہمیں کھلایا پلایا، نہلایا، اور اس طرح کے سب کام کئے۔ پھر ہم پانچ سے دس سال کی عمر کا سوچتے ہیں، علیٰ ہٰذ القیاس۔ وہ ہمیں سکول لیکر جاتی تھی- ہو سکتا ہے کہ اس نے ہوم ورک میں ہماری مدد نہ کی ہو، شائد کی بھی ہو، لیکن ممکن ہے کہ وہ ہمارے لئے کھانا بناتی تھی اور ہمارے کپڑے دھوتی تھی۔ جب ہم کم سن نوجوان تھے تو ہماری ماں شائد ہمیں کچھ جیب خرچ دیا کرتی تھی۔ ہماری مائیں خواہ کتنی ہی بری کیوں نہ ہوں، مگر انہوں نے زندگی کے ہر دور میں یقیناً ہمارے اوپر بیشمار عنایات نچھاور کیں۔
اس انداز فکر کا اطلاق ہم اپنے باپ، عزیزواقارب، احباب، وغیرہ سب پر کر سکتے ہیں۔ یہ اس مراقبے کے لئے نہائت سود مند ہے۔ یہ اس وقت خاص طور پر قوی تریاق کا کام دیتا ہے جب ہم یاس و حسرت کا شکار ہوں اور یوں سوچ رہے ہوں،"مجھ سے کوئی پیار نہیں کرتا۔" اس طرح اگر ہم اپنی ماؤں کی محبت اس زندگی کے وقفہ میں محسوس کر سکیں، تو اس سے ہمیں یہ سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ سبھی لوگ ہمارے ساتھ شفقت سےپیش آۓ ہیں۔ کوئی بھی مثالی ماں نہیں بن سکا/سکی – بے شک، ہو سکتا ہے اس نے ہمیں کسی وقت نگل لیا ہو، مگر اس نے ہمارے اوپر کرم فرمائیاں بھی کی ہیں۔
ماں کے احسانات کی باز ادائگی
سات حصوں پر مشتمل جوہری تعلیمات کا تیسرا مرحلہ ماں کی محبت کے احسانات چکانے کی خواہش سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کے لئے ہم اس مراقبہ میں مزید ردوبدل کر سکتے ہیں جس میں ہم نے ماں کی محبت، جو اس نے ہمیں دی، کا ذکر کیا ہے۔ یہاں پھر سے ہم ان پانچ اور دس سال کے وقفوں کا اعادہ کرتے ہیں اور اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ ہم نے کیسے اپنی ماں کی شفقت کو لوٹایا۔ اس طریقہ کا ہم اپنے باپ، احباب اور عزیزواقارب وغیرہ پر اطلاق کرتے ہیں۔
اگر ہم اس بات کا جائزہ لیں کہ ہمیں کس قدر محبت اور اعانت ملی ہے، اور ہم نے بدلے میں کیا کچھ دیا ہے تو ہم میں سے اکثر دیکھیں گے کہ ہم نے جو دیا ہے اس سے کہیں زیادہ وصول کیا ہے۔ اس کا مدعا احساس جرم میں مبتلا ہونا نہیں جو کہ مغربی معاشرہ کا ایک مخصوص نیوراتی ردعمل ہو گا۔ اس کا مقصد اگلے بودھی چت مراقبہ کی تیاری ہے، جس سے مراد ہے کہ یہ احساس پیدا ہونے کے بعد کہ ہمیں بہت محبت و شفقت ملی ہے، ان عنایات کی باز ادائگی کا اہتمام کرنا۔
میں نے دیکھا ہے کہ مراقبہ میں یہ ردوبدل اور تشکیل نو جس کا ابھی ذکر ہوا ہمارے دلوں میں ایک احساس پیدا کرنے میں بہت مددگار ہے۔ میرے نزدیک یہ بہت اہم بات ہے۔ میں ایسے کئی مغربی بدھ متیوں کو جانتا ہوں جنہوں نے محبت اور دردمندی پر مراقبے کئے اور پھر دوسروں کی مدد بھی کی، مگر ان کے اپنے والدین کے ساتھ تعلقات نہائت کشیدہ ہیں اور وہ اسی میں جکڑے ہوۓ ہیں۔ میرے خیال میں اس تعلق پر توجہ نہائت سودمند ہے، اور اس سے اس لئے گریز مناسب نہیں کیونکہ یہ ایک مشکل کام ہے۔
مشق کے اطلاق کا متجوّز طریقہ
ان سب مراحل میں ایک اہم بات یہ ہے کہ ہم اپنی عبادت میں تمام ہستیوں کو شامل کریں۔ بیشک ہم ہر مرحلہ چھوٹے پیمانے پر شروع کر سکتے ہیں، مگر پھر دھیرے دھیرے اس کا دائرہ وسیع کرنا ہو گا۔ اس کی بنیاد ہم دلی طمانیت پر استوار کرتے ہیں، یعنی ہر فرد کو من کا ایک منفرد سلسلہ مانتے ہوۓ۔ اس کا موثر طریقہ، جیسا کہ میں نے دیکھا ہے، یہ نہیں کہ بیٹھ کر آنکھیں موند لیں اور "تمام ذی شعور لوگوں" کے بارے میں تجریدی انداز میں سوچنا شروع کر دیا۔ زیادہ موثر طریقہ، میرے خیال میں، وہ ہو گا جس کا ذکر میں نے حسی تربیت میں کیا ہے۔
بہ الفاظ دگر، مختلف لوگوں کے لئے اپنے اندر مثبت خیالات کو جنم دیں، ان لوگوں کی تصاویر پر توجہ مرکوز کرتے ہوۓ – دوستوں، ناپسندیدہ لوگوں، اور اجنبیوں پر۔ پھر ان (مثبت افکار) کو استوار کرنے کی کوشش کریں، گوشت پوست کے انسانوں پر نظر ڈالتے ہوۓ جو کہ مراقبہ کے دوران ہمارے ہمراہ ایک دائرے کی شکل میں بیٹھے ہیں۔ پھر اس کا اطلاق زیر زمین ریل یا بس کے مسافروں پر کریں۔ اس طرح ہم ان مثبت رویوں کا اطلاق، جنہیں ہم پروان چڑھا رہے ہیں، حقیقتاً لوگوں پر کرتے ہیں۔
ہم اس کا اطلاق جانوروں، کیڑے مکوڑوں، وغیرہ پر بھی کرتے ہیں – محض اپنے من میں تصور کے طور پر ہی نہیں بلکہ سچ مچ جب ہم انہیں دیکھتے ہیں۔ ایسا کرتے وقت ہمیں انتہا پسندی سے گریز کرنا چاہئے جس کی مثال بعض اوقات تبتی لوگوں میں ملتی ہے – مثلاً یہ کہ کسی کیڑے پر مہربان ہونا کسی انسان پر مہربان ہونے سے آسان ہے۔ اگر مندر کے بیچ ایک چیونٹی ہے تو ہر کوئی حتی المقدور کوشش کرتا ہے کہ اسے (چیونٹی کو) کوئی ضرر نہ پہنچے۔ لیکن بیشتر اوقات وہ انسانوں کے بارے میں اس قسم کی رحمدلی نہیں دکھاتے؛ مثلاً جب کوئی ہندوستانی یا غیر ملکی لوگ ان کے مندر میں آئیں اور وہاں کسی چیز کے بارے میں کچھ جاننا چاہیں۔ ہمیں ان معاملات میں ایک معقول رویہ اختیار کرنا چاہئے۔
کچھ لوگ یہ کہیں گے کہ ایک چیونٹی کی مدد کرنا ایک انسان کی مدد کرنے کی نسبت آسان کام ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ چیونٹی آپ سے بدکلامی نہیں کرے گی اور آپ کو پریشان نہیں کرے گی، جبکہ انسان اکثر ایسا کرتے ہیں۔ چیونٹی کو آپ اٹھا کر باہر لیجا سکتے ہیں، لیکن اگر انسان آپ کو تنگ کرنے لگیں تو آپ ان سے ایسا برتاؤ نہیں کر سکتے۔ بہر حال، میرا کہنے کا مقصد یہ ہے کہ بہت سے لوگ یہ مراقبے بڑے تجریدی انداز میں کرتے ہیں – "تمام ذی شعور لوگ" – مگر اس کا اطلاق کبھی بھی "ہنستی بستی دنیا" میں سچ مچ کے انسانوں پر نہیں ہوتا۔ اس سے اس راہ میں پیش رفتگی میں بڑا مسٔلہ پیدا ہوتا ہے۔
عظیم محبت
جب ہم یہ مان لیں کہ ہر شخص ہماری ماں رہ چکا ہے، ماں کی شفقت کا اعادہ کر چکیں، اور اس مہربانی کا بدلہ چکانے کا سوچ لیں، تو اس سے ہمارے اندر گرم جوش محبت کا احساس پیدا ہو گا۔ یہ قربت اور گرمائی کا ایک ایسا احساس ہے جو ہر اس شخص کے لئے پیدا ہو گا جسے ہم ملیں۔ اس احساس کو پیدا کرنے کے لئے کسی الگ مراقبہ کی ضرورت نہیں۔ اسے پذیرائی اور درد مند محبت کہتے ہیں، ایسی محبت جس سے ہم کسی کی پذیرائی کرتے ہیں، ان کی فلاح و بہبود کا خیال کرتے ہیں، اور اگر انہیں کچھ ہو جاۓ تو سخت رنجیدہ ہوتے ہیں۔
اس گرمجوش محبت کے ساتھ ہم چوتھی منزل یعنی عظیم محبت پر قدم رکھتے ہیں۔ محبت کا مطلب ہے کسی ایسے شخص کو خوش و خرم دیکھنا جسے ہم پسند کرتے ہیں۔ جبکہ عظیم محبت سے مراد سب کو خوش دیکھنے اور ان کی خوشی کے لئے سازگار حالات کی تمنا ہے۔ خوشی اور اس کے محرکات دونوں کا ہونا لازم ہے۔ اس سے مراد اس بات کا مکمل ادراک ہے کہ خوشی کی مخصوص وجوہات ہوتی ہیں، یہ دیوتاؤں کی مہربانی یا محض خوش قسمتی کا نتیجہ نہیں ہوتا – اور میں اس کی وجہ نہیں ہوں۔
مسرت کے محرکات کا ذکر کرم کی تعلیمات میں آیا ہے: اگر لوگوں کا رویہ مثبت ہو، اور کسی تعلق یا غصہ وغیرہ سے پاک، تو وہ مسرت سے ہمکنار ہوں گے۔ لہٰذا ہمیں یہاں یوں سوچنا ہے،"کاش تم خوشی اور اس کے محرکات سے مالا مال ہو۔ کاش تمہارا رویہ مثبت اور صحتمند ہو تا کہ تم مسرت سے ہمکنار ہو۔"
اس مرحلہ سے یہ بات عیاں ہے کہ ہم بودھی چت مراقبہ کے ذریعہ مہاتما بدھ بننے کی کوشش کر رہے ہیں تا کہ سب کی مدد کر سکیں، مگر ہم ان کی مدد کرنے میں جو کردار ادا کرتے ہیں اس میں کسی قسم کی مبالغہ آرائی نہیں ہونی چاہئے۔ ہم اوروں کی راہنمائی تو کر سکتے ہیں مگر خوشی کے لئے سازگار حالات انہیں خود پیدا کرنا ہوں گے۔
عظیم دردمندی
پھر پانچواں مرحلہ آتا ہے، عظیم دردمندی کا: یہ خواہش کہ سب لوگ دکھ اور اس کی وجوہات سے نجات پائیں۔ اس میں بھی اس بات کا مکمل ادراک لازم ہے کہ ان کے دکھ کے کچھ محرکات ہوتے ہیں، اور دکھ سے نجات حاصل کرنے کے لئے ان محرکات کا تدارک ضروری ہے۔ یہ بڑا حقیقت پسندانہ نظریہ ہے۔ عظیم محبت اور عظیم دردمندی خالی ایسے جذبات نہیں ہیں جیسے ،" اوہ، مجھے بہت افسوس ہے کہ سب لوگ دکھ جھیل رہے ہیں۔" بلکہ اس میں رویہ کی بابت اسباب اور اثرات کی فہم و فراست شامل ہے۔
عظیم دردمندی عام دردمندی سے کئی پہلوؤں میں مختلف ہے۔
- اس کا ہدف تمام محدود لوگ ہیں، نہ کہ صرف چند ایک۔
- عظیم محبت کی مانند، اس میں ہر کسی کے لئیے پذیرائی اور احساس شامل ہے جیسے کوئی پیار بھری ماں اپنے اکلوتے بچے سے پیش آتی ہے، اور انہیں تحفظ دینے کی خواہش بھی۔
- یہ اس خواہش پر مبنی ہے کہ یہ لوگ اس دکھ سے جو زندگی کے ہر شعبہ پر محیط ہے، نجات پائیں جو اضطراری تکراری پنر جنموں پر مشتمل ہے جن میں الجھاؤ، مزید الجھاؤ کی افزائش، اور الجھاؤ کی استقلالی کیفیت شامل ہے۔ پس یہ محض اس خواہش پر مشتمل نہیں کہ دوسرے لوگ درد اور تغیّر کے دکھ سے مکش پائیں۔ تغیّر کے دکھ سے مراد دنیاوی عارضی مسرت ہے جو کبھی بھی دیرپا نہیں ہوتی اور نہ ہی تسکین بخش۔ عظیم دردمندی سے مراد یہ خواہش نہیں کہ سب لوگ اس مسٔلہ سے بچنے کے لئے جنت میں جا بسیں۔
- عظیم دردمندی سے مراد اس بات کا یقین کامل ہے کہ تمام محدود لوگوں کے لئے جاری و ساری دکھ سے مکش حاصل کرنا ممکن ہے۔ یہ محض ایک دیوانے کا خواب نہیں۔
دردمندی کو ہمیشہ بطور ایک تیاگ کے بیان کیا جاتا ہے۔ تیاگ سے مراد ہمارے اپنے دکھ درد اور اس کی وجوہات پر توجہ، اور ان سے نجات کی خواہش ہے۔ تیاگ کی بنیاد پر ہم دوسروں سے تعلق خاطر استوار کرتے ہیں۔ ہم کرتے یہ ہیں کہ اسی سوچ اور رویہ کو بدل کر دوسروں پر اس کا اطلاق کرتے ہیں، ان کے دکھ اور اس کی وجوہات پر، اس تمنا کے ساتھ کہ وہ ان سے نجات پائیں۔
یہ خیال عام ہے کہ اس وقت تک کسی کے دکھ درد کو پہچاننا مشکل ہے جب تک کہ ہم خود اپنے دکھ درد کا احاطہ نہ کریں اور اس سے نجات کی خواہش نہ رکھیں۔ ہمیں یہ بات اچھی طرح سمجھنی چاہئے کہ اوروں کو ان کے دکھ سے واقعی تکلیف پہنچتی ہے، اور انہیں بھی ویسے ہی دکھ ستاتا ہے جس طرح ہمیں ستاتا ہے۔ اس بات کی فہم کی بنیاد اس امر کو تسلیم کرنے پر ہے کہ ہمارے دکھ ہمیں تکلیف پہنچاتے ہیں۔ وگرنہ ہم دوسروں کے دکھ درد کو اہمیت نہیں دیں گے۔ یاد رکھو کہ ہم اپنی ماؤں کے لئے خوشی، اور دکھ سے نجات کی تمنا کر رہے ہیں، وہ مائں جنہوں نے ہمارے اوپر بہت کرم کیا۔ ہم یہ مراقبہ اپنی ماؤں سے شروع کرتے ہیں تا کہ اس میں سچ مچ کوئی جذبہ ہو، کوئی احساس ہو۔
اس طرز عمل سے احساس کمتری کا مداوا
جیسا کہ تحریروں میں مذکور ہے کہ سچی دردمندی صرف اس صورت میں پیدا ہوتی ہے جب ہم خود اپنے آپ کو دکھ اور اس کی وجوہات سے نجات دلانے کی تمنا رکھتے ہوں، میرے خیال میں ہم محبت پر بھی اسی اصول کا اطلاق کر سکتے ہیں۔ اس کا اطلاق ہم میں سے خصوصاً ان پر ہوتا ہے جو احساس کمتری کا شکار ہوں۔ احساس کمتری ایک مغربی عنصر ہے ، یہ تبتی یا ہندوستانی لوگوں میں اتنا عام نہیں۔ قبل اس کے کہ ہم دوسروں کے لئے مسرت اور اس کی وجوہات کی تمنا رکھیں، ہمیں خود اپنے لئے مسرت اور اس کی وجوہات کی تمنا کرنا ہو گی۔ اگر ہم اپنے آپ کو ہی مسرت کا مستحق نہیں سمجھتے، تو پھر کسی اور کو خوش رہنے کا حق کیوں ہو؟
پس میں یہ سمجھتا ہوں کہ اگر ہم احساس کمتری کا شکار ہوں تو خود کی خوشی کی تمنا کو مراقبہ میں شامل کرنا اچھی بات ہے۔ میرے خیال میں یہ نہائت اہم ہے۔ یہ انداز فکر استوار کرنے کے لئے کہ ہر کوئی مسرت کا مستحق ہے، مہاتما بدھ والی فطرت کا اعادہ فائدہ مند ہے۔ ہم میں صرف برائیاں ہی نہیں؛ کوئی شخص بھی مطلقاً برا نہیں۔ ہم سب میں مہاتما بدھ بننے کی صلاحیت موجود ہے، دوسروں کا بھلا کرنے کی، خوش رہنے کی، وغیرہ وغیرہ۔
ایک اور بات: محبت اور دردمندی تراوادا اور ہنائین مکاتب میں بھی پروان چڑھاۓ جاتے ہیں۔ مگر وہاں انہیں اس طرح سات بتدریج مرحلوں میں استوار نہیں کیا جاتا جیسے یہاں ہم محبت اور دردمندی کے جذبات کو عقل کی بنیاد پر، ماں کے پیار کی یاد دہانی کرتے ہوۓ، پروان چڑھاتے ہیں۔ اس سے ہمیں یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ تراوادا اسلوب میں محبت اور دردمندی پر مراقبہ معدوم ہے۔ البتہ بودھی چت مراقبہ کے اگلے مراحل اس میں موجود نہیں۔
غیر معمولی عزم
مختلف مترجم چھٹے مرحلہ کو مختلف انداز میں پیش کرتے ہیں۔ بعض اسے "خالص بے غرض تمنا" کہتے ہیں۔ تقدس مآب دلائی لاما اسے "عالمگیر ذمہ داری " کا نام دیتے ہیں۔ میں نے اگرچہ خود اس کا ترجمہ مختلف مختلف الفاظ میں کیا ہے، مگر اس وقت میں اسے "غیر معمولی عزم" کہنا پسند کروں گا۔ اس کا مطلب ہے کہ دوسروں کے دکھ درد کا مداوا کرنے کی خود ذمہ داری قبول کرنا۔ اگر کوئی شخص جھیل میں ڈوب رہا ہو تو ہم کنارے پر کھڑے یہ نہیں کہتے،"تت تت، کاش ایسا نہ ہوتا۔" ہم پانی میں کود پڑتے ہیں اور ڈوبتے ہوۓ شخص کی مدد کرتے ہیں۔ اسی طرح بودھی چت مراقبہ میں ہم زیادہ سے زیادہ مدد فراہم کرنے کی ذمہ داری اٹھاتے ہیں۔
بودھی چت مقصد
اس چھ نکاتی لائحہ عمل کو بطور سبب کے تشکیل دینے پر ساتواں مرحلہ بودھی چت مقصد کا بطور نتیجہ کے استواری ہے۔ جب ہمیں اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ ہم اپنی موجودہ کمزوریوں، پریشان کن جذبات اور رویوں سے کیونکر دوسروں کی مدد کر سکتے ہیں، تو ہمیں یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ہم کچھ خاص مدد نہیں کر پائں گے۔ اگر میں ایک خود غرض اور بے صبرا انسان ہوں، بعض لوگوں کو پر کشش پاتا ہوں جبکہ دوسروں سے ناراض ہو جاتا ہوں اور میں سست مزاج ہوں، اگر میں ہر وقت تھکا تھکا سا رہتا ہوں، اگر میں لوگوں کو سمجھنے کی صلاحیت سے عاری ہوں، اور اگر میں مناسب طور سے بات چیت نہیں کر سکتا، اگر میں لوگوں سے ڈرتا ہوں، ڈرتا ہوں کہ لوگ مجھے ناپسندیدگی کی نظر سے نہ دیکھیں یا مجھے نظرانداز نہ کر دیں – یہ تمام عناصر میری دوسروں کی حتی المقدور مدد کرنے میں حائل ہوں گے۔ پس اگر میں واقعی مدد کرنا چاہتا ہوں تو مجھے ان باتوں سے چھٹکارا پانا ہو گا۔ مجھے اپنے اوپر توجہ دے کر ان چیزوں سے جان چھڑانی ہے تا کہ میں سچ مچ اپنی صلاحیتوں اور مہاتما بدھ والی فطرت کی صفات کو کام میں لا کر دوسروں کو فائدہ پہنچا سکوں۔ ہم یہ بات ہمیشہ ذہن میں رکھتے ہیں،" جس حد تک ممکن ہو" – ہم قادر مطلق خدا بننے والے نہیں۔ اس انداز فکر کی بنیاد پر ہم اپنے دل اور من کو مہاتما بدھ بننے پر لگا دیتے ہیں تا کہ ہر ایک کی زیادہ سے زیادہ مدد کر سکیں۔ اسے بودھی چت مقصد استوار کرنا کہتے ہیں۔
بودھی ستوا کردار
ایک بار جب ہم بودھی چت استوار کر لیں، تو ہم اپنی کمزوریوں کے باوجود دوسروں کی زیادہ سے زیادہ مدد کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے مدد کرنے کا مصمم عزم کر رکھا ہے، جو کہ سات حصوں پر مشتمل گذشتہ علت و معلولی بودھی چت مراقبہ کے مرحلوں سے پیدا ہوا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ جب ہم کسی شخص کو کسی مشکل میں مبتلا پائیں، مثلاً اگر کوئی بے گھر ہو، تو ہم انہیں محض ایک بے گھر انسان کے طور پر نہیں دیکھتے۔ جب ہم انہیں دیکھتے ہیں تو ہم ان کے بارے میں کوئی راۓ قائم نہیں کرتے مثلاً کہ وہ شخص غریب ہے، سست مزاج ہے، یا ایسی ہی کوئی اور موضوعی، خودسرانہ راۓ۔ بلکہ ہم یوں سوچتے ہیں کہ اس وقفہ حیات میں، اس مقام پر ان کی یہ حالت ہے۔ اور ان کے من کے سلسلہ جات کا کوئی اول ترین سرا نہیں، اور کسی نہ کسی وقت انہوں نے ہماری ماں کا کردار ادا کیا ہے اور ہمارے اوپر اپنی شفقت نچھاور کی ہے۔ انہوں نے اپنی کوکھ میں ہمیں پالا ہے، ہمارے گندے پوتڑے بدلے ہیں، وغیرہ وغیرہ، اور میں بہر طور اس احسان کا بدلہ چکانا چاہتا ہوں۔ ہم چاہتے ہیں کہ وہ خوش ہوں اور خوشی پیدا کرنے والے اسباب سے بہرہ ور، اور وہ مسائل اور ان کے اسباب سے چھٹکارا حاصل کر لیں۔ ہم اس کام کو کرنے کی ذمہ داری اٹھاتے ہیں۔
تو ہم کیا کریں؟ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم گھر جا کر اپنی کمزوریوں پر قابو پانے کے لئے مراقبہ شروع کر دیں، اور ایسے لوگوں کی مدد کے لئے کچھ نہ کریں۔ بے شک ہمیں اور زیادہ مراقبہ کرنا چاہئے، مگر اس وقت یہ ہمیں جس کام کی ترغیب دیتا ہے وہ یہ کہ ہم اپنی جھجک اور خسّت کو دور کریں اور انہیں کچھ دیں، اور کچھ نہیں تو ایک مسکراہٹ ہی سہی – کچھ تو کریں۔
با لفاظ دگر، ہم اپنے غیر معمولی ارادے سے فوری طور پر، جس حد تک ممکن ہو، اپنی کمزوریوں پر قابو پاتے ہیں ، اور اپنی صلاحیتوں کو حتی المقدور کام میں لا کر مدد فراہم کرتے ہیں۔ بے شک گھر جا کر ہمیں اپنے اوپر کام کرنا ہے، مگر ہمیں بے گھر لوگوں کو نہیں بھلانا، اور صرف گھر جا کر مراقبہ کرنے کو ہی ذہن میں نہیں رکھنا۔ اگر ہمارا ارادہ پکا ہو تو یہ ہمیں ہوشیار رکھتا ہے۔
ہر مرحلے میں اپنے اوپر کام کرنے کی سب سے زیادہ زوردار ترغیب اس وقت پیدا ہوتی ہے جب ہم ایسی ہستیوں سے دوچار ہوتے ہیں جنہیں مدد کی ضرورت ہو۔ ہم ایک بوڑھی عورت دیکھتے ہیں جو زمین دوز ریل کے سٹیشن میں ٹھنڈی زمین پر بیٹھی بھیک مانگ رہی ہے، اور سوچتے ہیں کہ فرض کرو کہ اگر یہ میری ماں ہوتی تو پھر؟ اگر وہ واقعی اس وقفہ حیات میں ہماری ماں ہوتی اور وہاں ٹھنڈی زمین پر بیٹھی بھیک مانگ رہی ہوتی، تو کیا ہم اسے نظر انداز کر کے آگے نکل لیتے؟ یا وہ نوجوان جو زمین دوز ریل کے سٹیشن پر بےگھر لوگوں کے کام چلاؤ اخبار بیچ رہا ہے، اگر وہ ہمارا بیٹا ہوتا تو ہمیں کیسا لگتا؟ اس بچے کے بھی ماں باپ ہیں۔ یہ بات بہت اہم ہے۔ ہندوستان میں ہمیں کوڑھ کے مریض اور دیگر بد شکل افراد نظر آتے ہیں اور ہمیں اکثر اس بات کا احساس نہیں ہوتا کہ ان کے بھی کوئی خاندان ہیں۔ ان کے بھی خاندان والے موجود ہیں۔ انہیں بھی انسان سمجھو۔
یہاں ہمیں اس چیز کا اطلاق کرنا ہے جسے بدھ مت "ماہرانہ طریقے" کہتا ہے۔ ہم مدد کرنے کی خواہش رکھتے ہیں، ہمیں ان کے دکھ درد کی وجوہات کا کسی حد تک اندازہ ہے، اور یہ کہ ان کے لئے کونسی شے خوشی کا باعث ہو گی۔ پھر ہم وہ کچھ کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو ان کے لئے فائدہ مند ہو۔ ہوسکتا ہے کہ انہیں روپیہ پیسہ دینا ان کے لئے قطعی سود مند نہ ہو، جسے وہ محض مزید منشیات اور شراب پر خرچ کر ڈالیں گے۔ تو ہم انہیں پیسے نہیں دیتے۔ اگر ہمارے پاس کچھ کھانے پینے کا سامان ہو تو وہ ہم انہیں دے سکتے ہیں۔ بہر صورت اگر ہم انہیں بھیانک قسم کے نفرت انگیز نشئی اور شرابی نہ سمجھیں تو اس طرح ہم ان کے لئے عزت اور احساس مندی کا جذبہ دکھا سکتے ہیں۔ وہ بھی انسان ہیں، ایسے انسان جو دکھ درد میں مبتلا ہیں۔
اس بات کا تعیّن کہ کسی شخص کی مدد کی بہترین صورت کیا ہو گی آسان کام نہیں۔ ہم اس وقت اپنے آپ کو کمزور محسوس کرتے ہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ بہترین لائحہ عمل کیا ہے۔ یہ جاننے کے لئے ہمیں مہاتما بدھ بننے کی ضرورت ہے، لیکن ہم اپنی سی پوری کوشش کرتے ہیں اس احساس کے ساتھ کہ بعض اوقات ہم سے غلطیاں سرزد ہوں گی۔ پر ہم کوشش تو کرتے ہیں۔
خلاصہ
جب ہم سات حصوں پر مشتمل علت و معلول کے طریقہ سے اپنی تربیت کر کے بودھی چت ہدف پا لیتے ہیں، ہمارا مقصد یعنی بدھیت حاصل کرنا، تا کہ سب کی بہترین طور پر مدد کر سکیں تو اس کے پیچھے ایک طاقتور جذباتی حالت ہوتی ہے جس میں کئی ایک انفرادی محسوسات ہوتے ہیں۔ اس میں ہر ایک سے برابر کی قربت اور تعلق کا احساس موجود ہوتا ہے، دوسروں نے جو مِہر دکھائی ہے اس کی قدر اور اس کا تشکر، فکر، محبت اور درد مندی بمعہ اس بات کی ذمہ داری قبول کرنے کا پکا ارادہ کہ جہاں تک ممکن ہو سب کی زیادہ سے زیادہ مدد کی جاۓ۔ ہمارے بودھی چت ہدف کے پسِ پشت ایسے جذبہ سے ہمارا ہدف مضبوط، پرخلوص اور مستحکم ہو جاتا ہے۔