مراقبہ کے لئیے درکار من کے عناصر

بصیرت افروز مراقبہ

عمومی طور پر، مراقبہ کے دو مراحل ہیں: بصیرت افروز مراقبہ اور استقامت پذیر مراقبہ۔ بصیرت افروز مراقبہ میں ہم یا تو بتدریج مراحل طے کرتے ہیں یا کسی منطقی دلیل پر کام کرتے ہیں، جیسا کہ ہم نے تفکر کے سلسلہ میں کیا، من کی ایک ایسی حالت استوار کرنا جس سے ہم مانوس ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ درد مندی کے معاملہ میں ہم اپنے مسائل پر توجہ دینے سے شروعات کرتے ہیں اور ان سے نجات پانے کا مصمم ارادہ کرتے ہیں۔ پھر اس کو بنیاد بنا کر، ہم اپنے گرد ہستیوں کا ایک بہت بڑا ہجوم تصور میں لاتے ہیں اور سب سے پہلے ان سب کے لئیے اپنے من اور دل کو کھول دیتے ہیں، بغیر لگاوٹ، کراہت اور لا تعلقی کے۔ پھر ان سب ہستیوں کو دھیان میں رکھتے ہوئے، اور ان کے ساتھ باہمی تعلق اور باہمی محتاجی کو یاد کرتے ہوئے ہم اس سلسلہ پر کام کرتے ہیں۔ 

تو ان ہستیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے، ہم وہ تمام مصائب تصور میں لاتے ہیں جن سے ان کا پالا پڑتا ہے۔ بیشتر اوقات وہ ناخوش اور شکست خوردہ ہوتے ہیں، اور ان کی کوئی بھی خوشی دیرپا اور تسکین بخش نہیں ہوتی۔ وہ مسرت پانے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن اس کی خاطر وہ جو کچھ بھی کریں، جیسے اپنی ظاہری شکل و صورت کی نمائش کو اپنے اوپر طاری کر لینا یا ڈھیروں اشیاء جمع کرنا، یہ کبھی بھی کار گر نہیں ہوتا؛ بلکہ وہ اپنے لئیے مزید مسائل پیدا کر لیتے ہیں۔ ہم اپنے آپ کو اس امر کی بھی یاد دہانی کرواتے ہیں کہ یہ ہم سب کا مشترک معاملہ ہے اور ہمیں باہمی مدد درکار ہے، کیونکہ اگر سب لوگ خودغرضی سے کام لیں تو نقصان سب کا ہو گا۔۔

اس طرح ہم اپنے اندر درد مندی کا احساس پیدا کرتے ہیں، جس سے ہم ان بے شمار ہستیوں پر توجہ مبذول کرتے ہیں اس خواہش کے ساتھ کہ وہ سب اپنے دکھ سے نجات پائں، اور مزید یہ کہ ہم بذات خود ان کے مسائل کم کرنے کی خاطر کچھ کریں گے۔ 

بصیرت افروز مراقبہ سے، ہم درد مندی کے جذبہ کے ساتھ ان تمام ہستیوں پر توجہ قائم رکھتے ہیں، اور ساتھ ہی، ہم بصیرت سے کام لیتے ہیں، یعنی کہ ہم ان تمام باتوں اور معاملات کا تصور کرتے ہیں اور ان کی پہچان کرتے ہیں جن سے ہمیں درد مندی کا احساس پیدا کرنے کے لئیے گزرنا پڑا۔ اس کے لئیے ہماری درد مند من کی حالت کثیف کھوج اور  "لطیف بصیرت" کی حامل ہوتی ہے۔ پہلے والی سے ہم کھوج نکالتے ہیں، محض مشاہدہ کی صورت میں، اپنے مفعول کے متعلق ان معمولی نکات کو، یہاں جس سے مراد ان کی دکھ بھری صورت حال ہے۔ دوسرے والے کے ساتھ، ہم ان تمام دکھوں کی تفصیلی تمیز کرتے ہیں جن سے انہیں پالا پڑا ہے۔ ان دونوں کے امتزاج سے ہم مفعول کے متعلق ان کا مشاہدہ اور ان کی شناخت کرتے ہیں، جنہیں من کی ایک حالت میں یکجا کر دیا گیا ہو، کسی مفصّل، عمیق بصیرت کی مانند، لیکن بغیر ایک ایک نکتہ کی تشریح کئیے، یا انہیں اپنے من میں دوہرائے بغیر۔ اگر ہماری کھوج اور بصیرت ان تفاصیل کے بارے میں کمزور پڑنے لگے، تو ہم ایک ایک کر کے پھر سے تمام نکات کو دوہرائں گے، اور ایک بار پھر کثیف کھوج اور لطیف بصیرت اور ارتکاز سے بھر پور درد مندی پیدا کریں گے۔ 

مراقبے کا استحکام

بصیرت افروز مراقبہ کے بعد ہم استحکام پذیر مراقبہ کرتے ہیں۔ ہم انہی ہستیوں کو درد مندی کے ساتھ نظر میں رکھتے ہیں، لیکن اس بار ان کے دکھ کی کثیف کھوج اور لطیف بصیرت کے بغیر، لیکن پھر بھی اس شعور اور من کی آگہی کے ہمراہ کہ وہ دکھ جھیلتے ہیں۔ 

یہ ہے مراقبہ کا طریقہ؛ آپ کیسے کسی چیز کو یکجا کرتے ہیں، اور اسے اپنی عادت بنا لیتے ہیں۔ خواہ ہم کسی ایسے مراقبہ کی بات کر رہے ہوں جس میں ہم ایک چیز پر ارتکاز کرتے ہیں، یا ایسا مراقبہ جس میں آپ من کی ایک مخصوص حالت میں رہتے ہیں، یا کوئی ایسا جس میں دونوں کو یکجا کیا جاتا ہے، جہاں تک ان طور طریقوں اور تفاصیل کا تعلق ہے یہ سب من و عن یکساں ہیں۔ 

بصیرت افروز اور استحکام پذیر مراقبوں کے مابین امتیاز کرنا

تقدس مآب دلائی لاما بصیرت افروز اور استحکام پذیر مراقبوں کے مابین امتیاز کی وضاحت من کی حرکت کی شکتی کے حوالے سے کرتے ہیں۔ یہ ان دونوں کے درمیان فرق کو بیان کرنے کا نہائت لطیف اور نفیس  طریقہ ہے۔ بصیرت افروز مراقبہ میں آپ کے نکتہ ارتکاز کی شکتی باہر کی جانب رُخ کرتی ہے، اس لحاظ سے کہ یہ کسی شے کا ہر پہلو سے ادراک کر رہی ہے۔ استحکام پذیر مراقبہ میں آپ کے نکتہ ارتکاز کی شکتی کا رُخ اندر کی جانب ہوتا ہےاس لحاظ سے کہ توجہ جذبہ یا درک کی فہم و فراست پر ہوتی ہے، جس کی بنیاد چیدہ نکات کی آگہی پر ہوتی ہے جسے بصیرت افروز مراقبے نے وا کیا ہے۔ یہاں شکتی تمام پہلووں کا ادراک نہیں کرتی جیسا کہ بصیرت افروز مراقبہ میں ہوتا ہے، بلکہ دقیق تر ہوتی ہے جس کی تمام توجہ مرکزی نکتہ پر ہو۔ 

کسی کے ساتھ اظہار درد مندی میں بصیرت سے پیش آنا  - یعنی شکتی کا مکمل طور پر رُخ باہر کی جانب ہو – اور اس درد مندی میں استحکام پیدا کرنا، جس میں شکتی مزید مرتکز حالت میں ہو کے درمیان فرق کی تمیز نہائت ترقی یافتہ عمل ہے۔ یہ من کو خاموش کرنے کے فوائد میں سے ایک فائدہ ہے۔ اگر آپ تمام خارجی شور جو آپ کے سر میں ہو رہا ہے کو کم کرنے میں کامیاب ہوں، خواہ تھوڑا ہی سہی، (لگاتار بات چیت، لگاتار تبصرہ، آپ کے آئی پاڈ پر لگا تار موسیقی)، پھر آپ کو اپنی توانائی کا احساس ہونا شروع ہو گا، اور آپ اس قابل ہوں گے کہ یہ بتا سکیں کہ آپ کے من کی شکتی کس حالت میں ہے۔ 

اپنی شکتی کے بارے میں حساس بننے کی شروعات اس بات پر ارتکاز سے کرنی چاہئیے کہ کیا ہماری شکتی منتشر ہے یا پر سکون ہے۔ مثال کے طور پر، یہ جاننے کے لئیے کہ آیا آپ کسی پریشان کن جذبے مثلاً  غصہ، خوف، پریشانی، طمع یا تعلّی سے مغلوب ہیں آپ کی شکتی پر سکون نہیں ہو گی۔ جب کسی سے بات کرتے وقت آپ اپنے پیٹ میں تناؤ محسوس کریں، جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ آپ کی شکتی قدرے منتشر ہے، یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ کوئی پریشان کن جذبہ موجود ہے۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کسی کو مرعوب کرنے کی کوشش کر رہے ہوں، یا انہیں کسی بات پر قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، یا آپ کے رویہ سے جارحیت کا شائبہ ہوتا ہے – ان میں سے کسی ایک کی موجودگی یہ ظاہر کرے گی کہ آپ کے من میں کوئی پریشانی ہے۔ جب آپ کو اس بات کا احساس ہو جائے کہ کچھ گڑ بڑ ہے، تو آپ نئے سرے سے سوچ کا تانا بانا قائم کر سکتے ہیں – اپنے من کو پھر سے چالو کریں، اس طرح کہ آپ کے تعامل کے پس پشت جو جذبہ ہے اسے بدل ڈالیں اور اس کی جگہ مزید بھر پور جذبات کے لئیے جگہ بنائں۔ خاص طور پر کسی کے ساتھ تبادلہ خیال کے دوران، یہاں آپ کو ان پریشان کن جذبات کی شناخت کا اہل ہونا ضروری ہے۔

وقت گزرنے کے ساتھ، اور مشق کی بدولت، آخر کار آپ اتنے حساس ہو جاتے ہیں کہ ان دو چیزوں کے درمیان امتیاز کر سکیں – ایک تو وہ بصیرت افروز مراقبہ کی شکتی جس کا پھیلاؤ اور رخ باہر کی جانب ہے، اور دوسری استحکام پذیر مراقبہ کی اندر کی جانب رواں مزید تر مرتکز شکتی۔ 

ارتکاز کے حصول کے عناصر

ارتکاز کے حصول کے عناصر دونوں ہی مراقبوں یعنی بصیرت افروز مراقبہ اور استحکام پذیر مراقبہ میں مشترک ہیں۔ شانتی دیو اپنی کتاب 'بودھی ستوا رویہ اختیار کرنا' میں انہیں اخلاقی ضبط نفس استوار کرنے کے ضمن میں زیر بحث لاتا ہے۔  تو پہلے ہمیں ان طریقوں کو اپنے کثیف رویہ میں استوار کرنا ہے کہ ہمارا قول اور فعل کیسا ہو اور پھر اس کا اپنے من پر اطلاق کریں۔ 

ان دونوں معاملوں میں جو عنصر مشترک ہے وہ من کی آگہی ہے، جو کہ من کی گوند کی مانند ہے جو من کی کسی حالت یا طور طریقہ سے پیوستہ رہتی ہے۔ یہ وہی لفظ ہے جسے ہم "یاد رکھنا" کہتے ہیں، لیکن ہم یاد رکھنے کا مطلب یہ نہیں لے رہے کہ اپنی یاد میں سے کسی چیز کو نکالنا اور اسے دھیان میں لانا۔ یہ ایسا نہیں ہے۔ یہ کسی چیز سے متواتر آگاہی ہے؛ یاد داشت۔ وہ شے جس پر ہم متوجہ ہیں اس کے لئیے ہمارے پاس من کی گوند ہونا ضروری ہے اس طرح جیسے کہ من اس کو سمجھتا ہے۔ 

من کی آگہی کے ساتھ مراقبہ کرتے وقت ہم اپنے من پر نظر رکھتے ہیں۔ تسانگ خاپا کا کہنا ہے کہ یہاں ہم کثیف کھوج کا عنصر استعمال میں لاتے ہیں یہ دیکھنے کی خاطر کہ کیا ایک عمومی حالت میں ہمارا من پریشان کن جذبات، من کی آوارگی یا کثافت کے زیر اثر تو نہیں آ رہا ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ وہ کثیف کھوج بہ نسبت لطیف بصیرت کا ذکر کرتا ہے۔ لطیف بصیرت کا کام بہت باریک بین تفصیل میں جانا ہے، تا کہ ہماری توجہ بنیادی طور پر ہمارے نکتہ ارتکاز پر نہ رہے۔ مراقبہ میں یہ ایک بہت بڑا خطرہ ہے کہ ہم اس خوف میں مبتلا ہوں کہ کہیں ہم اپنی مرتکز شے کو کھو تو نہیں دیں گے کہ پھر ہم آوارگی کا شکار ہو جائں، تو ہم تناؤ تلے آ جاتے ہیں۔ یہ بہت بڑا مسٔلہ ہے۔ دوسری جانب، آپ بہت زیادہ آرام پسندی اور لا پرواہی بھی نہیں چاہتے؛ وہ قطعی طور پر سود مند نہیں ہے۔

تب ہمیں ہوشیاری کی ضرورت ہے، جو کہ ایک خطرے کی گھنٹی کی مانند ہے۔ جب ہمیں یہ محسوس ہو کہ ہم اپنے نکتہ ارتکاز سے ہٹ رہے ہیں، تو ہوشیاری الارم بجا دیتی ہے – کسی شے کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔ پھر ہم اپنی توجہ واپس لے آتے ہیں، توجہ کے ساتھ۔ 

وہ خرابیاں جن کی تصحیح کی ضرورت ہے

دو خرابیاں جن سے ہم نجات پانے کی کوشش کر رہے ہیں وہ دو زمروں میں آتی ہیں: "من کی آوارگی" اور "من کی کثافت ۔" من کی آوارگی کا تعلق من کے بھٹکنے سے ہے جس کا سبب لگاوٹ یا آرزو ہے۔ یہ من کی سوچ یا من کی متحرک تصاویر کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے۔ زیادہ تر مذہبی کتب من کی آوارگی کو جنسی لگاوٹ کے ضمن میں دیکھتی ہیں، کیونکہ اس زمانے میں متعلقہ لوگ مجرد بھکشو مرد یا بھکشو خواتین تھیں، جن کے لئیے جنسی لگاوٹ پر قابو پانا بہت بڑا مسٔلہ ہے۔ لیکن یہ لگاوٹ غذا یا موسیقی یا کسی اور شے سے بھی ہو سکتی ہے۔ اس کے بالمقابل من کی آوارگی کسی پریشان کن جذبہ، خیال یا محض شور یا کسی حسی مداخلت کے سبب ہو سکتی ہے۔ ایک عام اصطلاح کے طور پر من کی آوارگی کو "بھٹکاوا" بھی کہا جا سکتا ہے۔ 

من کی آوارگی کے کئی درجات ہیں، جن کا تعلق شے یا احساس پر ہماری توجہ مرکوز کرنے سے ہے۔

  • کثیف آوارگی – آپ اپنی متوجہ شے پر سے مکمل طور پر دست بردار ہو جاتے ہیں اور طرح طرح کی چیزوں کے متعلق سوچنے لگتے ہیں۔ من کی آگہی، من کی گوند، اس قدر کمزور ہوتی ہے کہ آپ اصل بات کو مکمل طور پر بھول جاتے ہیں۔ 
  • لطیف آوارگی – آپ اپنی متوجہ شے سے مکمل طور پر دست بردار نہیں ہوتے، لیکن شے کو پکڑے ہوئے، آپ تحت الشعور میں کسی اور شے کے متعلق سوچتے ہیں۔ 
  • لطیف ترین آوارگی – آپ کے زیر خیال بھی کچھ نہیں ہوتا، لیکن ایک طرح کی مرکوز شے کو چھوڑنے اور کسی اور چیز کے بارے میں سوچنے کی خواہش ابھرتی ہے۔ ایسا اس وقت ہو سکتا ہے جب من کی پکڑ شکنجہ جیسی ہو جائے۔
  •  من کی کثافت مرتکز شے کی شفافیت سے معاملہ کرتی ہے، جو کہ اس کا ظاہری وجود ہو سکتا ہے خواہ یہ کوئی تصور ہو، یا احساس یا یہ کوئی من کی حالت جیسے درد مندی ہو۔
  • بھاری کثافت – آپ کے من کی "تصور قائم کرنے" کی صلاحیت اس قدر کمزور ہے کہ یہ کسی قسم کا تصور یا احساس پیدا کرنے سے قاصر ہے۔ اس کے ہمراہ دو اور عناصر ہو سکتے ہیں، جنہیں "من کا دھندلا پن" کہتے ہیں جو کہ جسم اور دماغ کے بھاری ہونے کا احساس ہے، یا غنودگی، اور حتیٰ کہ نیند۔ 
  • لطیف کثافت – اس میں ایک صورت موجود ہے، مگر یہ پوری طرح قابو میں نہیں ہے لہٰذا اس میں شفافیت نہیں ہے۔ ہم یہاں محض کسی تصور کی تفاصیل پر واضح ارتکاز کی بات نہیں کر رہے ہیں، لیکن کوئی جذبہ بھی دھندلا ہو سکتا ہے، جیسے کہ درد مندی۔ یہ محض ایک مبہم سا احساس ہو گا، "محبت، شانتی، میں سب سے پیار کرتا ہوں" – آپ ایک احساس پیدا کر رہے ہیں، مگر یہ مخصوص ہدف سے عاری ہے جو ہر کسی کے دکھ سے اور دکھ کی وجوہات سے نجات پانے کی تمنا ہے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہئیے کہ ہر پہلو، من کی جو حالت ہم استوار کرنا چاہتے ہیں اس کا ہر روپ نہائت مخصوص ہے – اسے مبہم نہیں ہونا چاہئیے۔ 
  • لطیف تر کثافت – جب آپ کا من کسی شے کا تصور کرتا ہے تو آپ کا ارتکاز واضح ہوتا ہے، لیکن اس کو قائم رکھنے کا تانا بانا بہت مضبوط نہیں ہے تو یہ بشاش، صاف اور زندہ نہیں ہو گا۔ اسے ہر لمحہ تازہ بہ تازہ ہو نا چاہئیے، نہ کہ باسی روٹی کی مانند جو پرانی اور سخت ہو چکی ہے اور اچھی نہیں ہے۔

جب ہم "کھوئے کھوئے سے" ہونے کی بات کرتے ہیں، تو اس کا اشارہ مذکورہ بالا خرابیوں میں سے کسی ایک کی طرف ہو سکتا ہے، لہٰذا ہمیں اس قابل ہونا چاہئیے کہ جب ان میں سے کوئی بھی سر اٹھائے تو اسے پہچان سکیں۔ پہلے آپ اپنے مدعا یا من کی حالت پر من کی گرفت قائم کرتے ہیں۔ پھر من کی آگہی، یعنی من کی گوند سے، اسے جانے نہیں دیتے۔ 

کامیاب مراقبہ کے لئیے یہ عنصر سب سے اہم ہے۔ یعنی پکڑے رکھنا مگر نہ تو بہت زور سے اور نہ ہی ڈھیلا سا۔ مثال کے طور پر، اگر آپ ہاتھ روک کر کھا پی رہے ہیں اور بیکری کے پاس سے گزرتے ہیں جہاں شیشے میں طرح طرح کے خوبصورت کیک سجا کر رکھے ہوئے ہیں، مگر آپ کو اپنے مسلک پر قائم رہنا ہے، اسے ہاتھ سے جانے نہیں دینا، لہٰذا آپ دوکان کے اندر جا کر چاکلیٹ کیک خریدنے سے پرہیز کرتے ہیں۔ یا میز پر بیٹھے تمام لوگوں کو آئس کریم پیش کی جا رہی ہے مگر آپ اپنی قوت ارادی سے کام لیکر بد پرہیزی نہیں کرتے، "بہت شکریہ، میں ذرا کم کھا رہا ہوں۔" 

پس ہمیں ایک کھوجی کی مانند ہونا چاہئیے، یہ دیکھنے کے لئیے کہ ہم کہیں بھٹک تو نہیں رہے۔ کیا اس شے کو من میں بسائے رکھنے کے سلسلہ میں میرے اندر کوئی خرابی ہے؟ اس تصور یا احساس کو پیدا کرنے کے معاملہ میں کیا میرے من میں کوئی نقص ہے؟ اگر ہمیں کوئی خرابی نظر آئے، ہوشیاری داخلی الارم بجاتی ہے اور توجہ واپس نکتہ ارتکاز پر لے آتی ہے۔ اس کے دوران ہمیں خوف زدہ سپاہی کا روپ نہیں دھارنا چاہئیے، جس میں اس قسم کی دوئی پائی جاتی ہے کہ ایک طرف تو سپاہی والا "میں" ہوں اور دوسری جانب وہ "میں" جو مراقبہ میں ہے۔ اس قسم کے دوئی زدہ مراقبہ سے بچنے کے لئیے ہمیں اپنے نفس کے خالی پن کی کچھ سوجھ بوجھ ہونی چاہئیے – وہ یہ کہ ہم اس قسم کے نا ممکن دوئی کے انداز میں وجود سے قطعی طور پر محروم ہیں۔

مراقبہ میں سیکھے ہوئے ہنر کا عملی اطلاق

من کی آگہی اور ارتکاز کے ساتھ کسی شے پر توجہ قائم رکھنا ایک ایسا ہنر ہے جس کی ہمیں روز مرہ زندگی میں ضرورت ہے۔ اسی لئیے ہم مراقبہ کی مشق کرتے ہیں: تا کہ سود مند عادات جو ہم نے استوار کی ہیں انہیں اپنی زندگی میں کام میں لا سکیں۔ مثال کے طور پر، جب ہم کسی سے بات کر رہے ہوں یا ان کی بات سن رہے ہوں، ہمیں پوری توجہ دینی چاہئیے۔ ہمیں مرتکز رہنا چاہئیے، اور دوپہر کے کھانے کے بارے میں نہیں سوچنا چاہئیے یا من ہی من میں ایسے نہیں کہنا چاہئیے، "اب بکواس بند کرو اور دفع ہو جاؤ۔" پس ارتکاز کی مشق کے لئیے ذاتی تعامل، ہمارا کام، ہمارا مطالعہ وغیرہ بہترین مواقع فراہم کرتے ہیں۔ 

چار معاون عناصر

مراقبہ میں ارتکاز قائم کرنے کے لئیے دو چیزیں جن کی ہمیں ضرورت ہوتی ہے وہ ہیں قوت (جسے اکثر "استقامت" بھی کہتے ہیں) اور صبر۔ قوت وہ مضبوط، قریب قریب دلیرانہ حوصلہ اور جتن ہے جو کسی مثبت شے کو پانے میں کام آتی ہے؛ جبکہ صبر مصائب اور مشکلات کو جھیلنے کی، بغیر حوصکہ شکنی یا غصہ میں آنے کے، صلاحیت ہے۔ شانتی دیو، اپنی کتاب 'بودھی ستوا رویہ اختیار کرنا' میں چھ عناصر کا ذکر کرتا ہے جو ہمیں طاقت استوار کرنےمیں مدد گار ہو سکتے ہیں۔ انہیں چار معاون عناصر اور دو قوتیں کہا جاتا ہے، ان کی جانکاری اور ان سے معاملہ فائدہ مند ہے۔ 

پہلے والے کو یقین کامل یا شدید امنگ کہتے ہیں۔ "امنگ" خواہش کے لئیے بڑا زور دار لفظ ہے اور کسی ہدف کو پانے کے فوائد پر یقین کامل کو بیان کرتا ہے اور نہ پانے کے نقصانات کو بھی بیان کرتا ہے، تا کہ اس ہدف کو پانے کی امنگ متزلزل یا منسوخ نہ ہو۔ جب ہم بدھ مت کے پاٹھ سے من کی مختلف حالتیں استوار کرنے کے بارے میں پڑھتے ہیں، تو اس میں تقریباً ہمیشہ پہلے اس کے حصول کے فوائد اور نہ پا سکنے کے نقصانات کا ذکر ہو گا۔ یہ مطالعہ کے لئیے اہم ہیں۔ شانتی دیو اپنی کتاب میں اس ترتیب کو استعمال کرتا ہے، جس کا پہلا باب بودھی چت کے متعلق ہے۔ ہم من کی اس خاص حالت کے فوائد کے متعلق پورا بھروسہ رکھتے ہیں، اس سے ہمیں شکتی ملتی ہے اور ہم اس پر خوشی خوشی کام کرتے ہیں۔ جب کبھی ہم حوصلہ شکنی کے شکار ہوں تو ہمیں اپنے ہدف  کے فوائد کے بارے میں یاد دہانی کرانی چاہئیے۔

اگلی چیز استقامت یا خود اعتمادی ہے۔ "استقامت" سے مراد مراقبہ میں مستقل مزاجی اور استقلال سے کام لینا ہے، جو اس چیز سے آتی ہے کہ ہم یہ معائنہ کریں کہ کیا ہم اپنے ہدف کو پانےکے اہل ہیں، اور اس تیقن سے کہ ہم واقعی یہ کام کر سکتے ہیں۔ پھر خود اعتمادی کے ساتھ ہم اپنا پاٹھ دھیرج سے کرتے ہیں، خواہ کامیابی میں نشیب و فراز ہو، جو کہ واردات کی حقیقت کی عکاسی ہے۔ بعض دن بہترین ہوں گے اور بعض نہائت خراب۔ بعض دنوں میں ہم پُ ر جوش ہوں گے اور بعض دنوں میں ہم بالکل مراقبہ نہیں کرنا چاہیں گے۔ لیکن اگر ہمیں فوائد پر یقین کامل ہو، اور ہمارے اندر استقامت ہو، جسے کہ ایک زرہ بکتر سے تشبیہ دی جاتی ہے، تب ہم سوچتے ہیں، " اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ اس میں اگر اونچ نیچ ہوتی ہے تو مجھے اس کی پرواہ نہیں۔ میں اپنا کام روزانہ باقاعدگی سے کرتا رہوں گا۔ میں جانتا ہوں کہ بالآخر میں اپنا مدعا پا لوں گا۔"

ایک لمبے عرصہ کے دوران ہم اپنے آپ میں مزید ارتکاز کا میلان محسوس کریں گے، اور ہم اگلا معاون عنصر، یعنی مسرت، استوار کریں گے۔ ہم تھوڑی سی کامیابی سے مطمٔن نہیں ہوں گے، لہٰذا ہم مزید تر ترقی کرتے جانے میں بے حد خوشی محسوس کریں گے، جس میں خود اطمینانی کا احساس شامل ہو۔ اس کا نتیجہ بے شک ہمارا  بڑھتا ہوا احساس مسرت ہو گا، کیونکہ اصل مقصد دکھ کو دور کرنا ہے۔ جیسے جیسے ہمارے من میں انتشار کی کمی آتی ہے، ہماری پریشانی کم ہوتی ہے، تو بے شک ہم خوش تر ہوں گے۔ یہ دیکھ کر ہم مزید ترقی پانے میں جوش و خروش سے کام لیتے ہیں۔ 

چوتھا معاون عنصر آرام کا وقفہ ہے، جس سے مراد تھک جانے پر تھوڑی دیر کے لئیے سستانا ہے۔ یہ کاہلی کا مظاہرہ نہیں ہے بلکہ اپنے آپ کو ہشاش بشاش کرنا ہے۔ کوئی شے اتنی نقصان دہ نہیں ہوتی جتنا کہ اپنے آپ پر حد سے زیادہ بوجھ ڈالنا جس سے کہ انسان دل برداشتہ ہو جائے۔ حد سے زیادہ بوجھ ڈالنے سے جسم کی شکتی منتشر ہوتی ہے – جیسے کسی غبارے کو اس قدر زور سے دبانا کہ وہ پھٹ جائے۔ ہمیں اپنا جائزہ لے کر اس بات کا تعین کرنا چاہئیے کہ ہمیں کب آرام کی ضرورت ہے – اور اس میں اپنے آپ کو مجرم نہ ٹھہرائں! کسی ایسی چیز کا انتخاب جو ہمیں سکون بخشے لیکن ہمارے پریشان کن جذبات میں اضافہ نہ کرے۔ ظاہر ہے کہ یہ ہر شخص کے لئیے مختلف ہو گا۔ تو یہ قوت کے چار معاون عناصر ہیں۔ 

دو شکتیاں

اب دو شکتیوں کی باری آتی ہے۔ پہلی فطری قبولیت ہے، جس کا مطلب ہے کہ اپنے ہدف کو پانے کے لئیے ہمیں کیا پاٹھ کرنا ہے اور کس چیز سے جان چھڑانی ہے۔ ہم اپنی صورت حال کا جائزہ لیتے ہیں اور ان چیزوں سے چھٹکارا پانے کی مشکلات کو فطری طور پر قبول کرتے ہیں، مثلاً، پریشان کن جذبات سے۔ ہمیں شروع سے ہی حقیقت پسند ہونا چاہئیے تا کہ بعد میں حیران و پریشان نہ ہوں، کہ یہ اتنا مشکل بھی ہو سکتا ہے۔ 

جیسا کہ تقدس مآب دلائی لاما اکثر کہتے ہیں کہ "اگر کوئی بودھی استاد یا دھرم اچاری کہتا ہے کہ بدھ مت آسان اور ترنت ہے تو ایسے شخص کو اور اس کے محرک کو شک کی نظر سے دیکھو کیونکہ یہ نہ تو آسان ہے اور نہ ہی ترنت۔ ہم پریشان کن جذبات سے اس درجہ مانوس ہو چکے ہیں کہ ان سے چھٹکارا پانے کا کوئی آسان طریقہ نہیں ہے جیسے کوئی گولی لینا۔" میرا ایک استاد گیشے درگھئیے ہمیشہ کہا کرتا تھا، "جو کوئی بدھ مت میں آسان اور ترنت راہ کا متلاشی ہے وہ بنیادی طور پر کاہل ہے۔ وہ اس کام میں درکار جفا کشی کرنا نہیں چاہتا۔"  

دوسری شکتی زیرِ اختیار لانا ہے، جس سے مراد اختیار تلے لانا اور اپنے آپ کو اپنا مدعا پانے کے لئیے مصروف کار کرنا ہے۔ بجائے اس کے کہ کاہلی یا کوئی اور پریشان کن جذبہ حاوی ہو، ہماری اپنے ہدف کو پانے کی تمنا معاملہ اپنے اختیار میں لے لیتی ہے۔ ہم اپنے آپ سے کہتے ہیں، "بچوں جیسی حرکتیں نہ کرو۔ بات کو سمجھو اور اپنا کام کرو۔"

تھکن یا سستی؟

یہ سوال اٹھتا ہے کہ ہم تھکن اور سستی کے درمیان کیسے تمیز کریں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ سستی کی کئی قِسمیں ہیں، جیسے بعض اوقات معمولی بات پر ہماری توجہ بٹ جاتی ہے۔ ہم سستی کے باعث مراقبہ یا مطالعہ یا اور کچھ میں حصہ لینے کی بجائے کسی ٹیلیوژن پروگرام یا انٹرنیٹ پر موج رانی میں لگ جاتے ہیں۔ پھر سستی کی ایک اور قسم آج کا کام کل پر ڈالنے کا میلان ہے، جس میں آپ ہر دم کام کو التوا میں ڈالنے کی سوچ رہے ہوتے ہیں۔ پھر سستی کی ایک اور قسم بھی ہے جس میں آپ بہانے تراشتے ہیں، جیسے "میں یہ کام نہیں کر سکتا۔"

جب ہم تھکے ہوئے ہوں تو ہم اپنا کام کرنے کی خواہش تو رکھتے ہیں: "میں اسے کرنا تو چاہتا ہوں مگر اس وقت مجھے سخت نیند آ رہی ہے، پس میں تھوڑی دیر سَستا لوں پھر میں اسے پوری دلجمعی سے کروں گا۔" یہ بہانہ سازی نہیں ہے اور نہ ہی لا پرواہی۔ کاہلی میں کام کو جاری رکھنے کا عنصر غائب ہوتا ہے۔ 

خلاصہ 

مراقبہ آسان کام نہیں ہے، اور اگر کوئی ہمیں یہ کہے کہ اعلیٰ کمالات پانے کے آسان طریقے موجود ہیں تو ہمیں چاہئیے کہ ہم محتاط رہیں کیونکہ عمومی طور پر ایسا ہر گز نہیں ہے۔ 

ہمارا مراقبہ ایک فعال اور مستعد عمل ہے، نہ کہ بے لطف یا بیزار کن، جس میں ہم اس درس کو جو ہم نے سنا اور اس پر غور کیا گہرائی تک سمجھتے ہیں۔ اگر ہم یہ کام ہر روز، سال بہ سال کرتے رہیں تو بے شک یہ تعلیم ہمارے من میں پیوست ہو جائے گی اور جب مسائل یا منفی جذبات ابھریں ، جیسا کہ ہو گا، تو ہم آسانی سے ان سے نمٹ سکیں گے

Top