دھرم کی تعلیمات کو سننا

مراقبہ سے کیا ہوتا ہے

مراقبہ ہماری زندگیوں میں بدلاؤ لانے اور انہیں بہتر بنانے کا ایک طریقہ ہے۔ مگر کیسے؟ تو ہماری زندگی پر ہماری شخصیت اور مزاج کا اثر ہوتا ہے، جو خود ہماری بود و باش، ہماری مالی صورت حال، اور وہ لوگ جن کے ساتھ ہم اپنا وقت گزارتے ہیں وغیرہ سے متاثر ہوتا ہے۔ اگر ہمیں زندگی کا کچھ تجربہ ہے تو ہم جانتے ہیں کہ بیرونی عناصر جیسے ہمارا کام، مالی حالت اور ہمارے دوست بدل دینے کے باوجود، اگر ہمارے اطوار اور من کی حالت نہ بدلے تو ہمارے مصائب کبھی دور نہیں ہوتے۔ خواہ ہمارے کتنے ہی دوست کیوں نہ ہوں، ہم پھر بھی عدم تحفظ کا شکار ہوتے ہیں۔ اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کہ ہمارے پاس کتنا مال و دولت ہے، ہم پھر بھی غصے میں آسکتے ہیں اور شکست خوردہ ہو سکتے ہیں۔ خارجی حالات کو بدلنے سے یہ چیزیں بدل نہیں جاتیں۔ 

یہاں مراقبہ کام آتا ہے،کیونکہ ہماری زندگی میں حقیقی مثبت تبدیلی لانے کے لئیے، ہمیں اپنے من پر کام کرنا ہے۔ اس سے مراد محض عاقلانہ صفات یا ارتکاز کی تشکیل اور اپنی کاہلی پر قابو پانا ہی نہیں ہے۔ یہ چیزیں بھی اہم ہیں مگر اپنی جذباتی حالت کے سلسلہ میں ہمیں مزید گہرائی میں جانا ہے: زندگی کے متعلق ہمارا بنیادی عدم تحفظ اور الجھن۔ 

بودھی تناظر میں مراقبہ

آج، مراقبہ نہ صرف بدھ مت مسلک میں نظر آتا ہے بلکہ کئی اور مسالک میں بھی ملتا ہے۔ بودھی تناظر میں، مراقبہ سے مراد تکرار کے توسط سے من کی ایک مثبت حالت استوار کرنا ہے۔ یہ بالکل جسمانی تربیت یا کوئی موسیقی کا ساز سیکھنے والی بات ہے جس میں ہم کسی چیز کو بار بار دوہراتے ہیں؛ لیکن مراقبہ میں ہم من کی ایک مثبت حالت استوار کر کے اس سے مانوس ہوتے ہیں۔ شروع میں یہ جبری اور مصنوعی محسوس ہو گا، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہم اس سے اس درجہ مانوس ہو جاتے ہیں کہ یہ ہماری زندگی کا قدرتی حصہ بن جاتا ہے۔  

کسی شے کو اس طرح تشکیل دینے کا یہ مطلب نہیں کہ یہ غیر موزوں ہو گی۔ اگر ہم من کی کوئی نئی حالت استوار کر رہے ہیں ، تو ہمیں اسے غیر قدرتی قرار نہیں دینا چاہئیے۔ بہت سارے لوگ یہ سوچتے ہیں کہ ہمیں اپنی قدرتی حالت میں ہی رہنا چاہئیے، ہمیں اپنے آپ کو بدلنے کی قطعی طور پر کوشش نہیں کرنی چاہئیے۔ لیکن اگر ہم اپنی قدرتی حالت میں ہی رہیں، تو ہم آج بھی اپنی پتلون میں ہی فارغ ہو رہے ہوں۔ لیکن ہم نے اپنی زندگی کو بہتر بنانے کے لئیے کئی قسم کی تربیت حاصل کی ہے۔ ہم یہ اپنے من کے ساتھ بھی کر سکتے ہیں اور ہمیں ایسا ضرور کرنا چاہئیے۔ 

ہم یہ دلیل استعمال نہیں کر سکتے کہ ہمیں بس قدرتی حالت میں ہی رہنا چاہئیے کیونکہ پھر تمام معاملات خود بخود سدھر جائں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قدرتی حالت ہمیشہ بہترین نتائج کی حامل نہیں ہوتی۔ اس کی مثال یہ ہے کہ اگر کوئی بچہ رو رہا ہے اور میں غصہ میں آ جاؤں اور بچے کو مارنا چاہوں تا کہ وہ خاموش ہو جائے؛ تو اس میں بھلا کیا اچھائی ہے، ہے نا؟ ہم جانتے ہیں کہ یہ کوئی مناسب رد عمل نہیں ہے، اگرچہ آدھی رات کو جب بچہ چلانا شروع کرتا ہے تو من میں سب سے پہلا خیال یہی آتا ہے۔

 پس ہمارے پاس مراقبہ ہے، جو بدھ مت کے مطالعہ اور پاٹھ میں نہائت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ بعض لوگ مطالعہ اور مراقبہ کو الگ الگ تصور کرتے ہیں، لیکن بدھ مت میں قطعی طور پر ایسا نہیں ہے۔

ویڈیو: گیشے لہاکدور — «تبتی کے مطالعہ کی کیا اہمیت ہے؟»
ذیلی سرورق کو سننے/دیکھنے کے لئیے ویڈیو سکرین پر دائں کونے میں نیچے ذیلی سرورق آئیکان پر کلک کریں۔ ذیلی سرورق کی زبان بدلنے کے لئیے "سیٹنگز" پر کلک کریں، پھر "ذیلی سرورق" پر کلک کریں اور اپنی من پسند زبان کا انتخاب کریں۔

سود مند عادات استوار کرنا

عمدہ عادتیں استوار کرنے کے لئیے، ہمیں پہلے ان کا مطالعہ کرنا چاہئیے، مگر ایسا مطالعہ ہی اس کا حتمی مدعا نہیں ہے۔ ہمیں اسے اپنی زندگی کا لازم حصہ بنانا ہے، اور مراقبہ یہی کام کرتا ہے۔ مثال کے طور پر جیسے ہم کسی چیز کو اپنے منہ میں ڈالے اور چبائے بغیر ہضم نہیں کر سکتے، اسی طرح جب تک ہم تعلیمات کو اپنے من میں شامل نہ کریں اور ان پر غور نہ کریں، تو ہم کسی صورت بھی مراقبہ کے ذریعہ انہیں ہضم نہیں کر پائں گے۔ اور خوراک کی مانند، محض چبا کر اسے تھوک دینے سے کچھ حاصل نہیں، خوراک سے فائدہ اٹھانے کے لئیے ہمیں اسے نگلنا اور ہضم کرنا ہو گا۔

ہم مراقبہ کیسے شروع کریں؟ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ مراقبہ سہ پہلو سلسلہ کا تیسرا مرحلہ ہے۔ اس قسم کا ڈھانچہ تمام ہندوستانی مسالک میں پایا جاتا ہے، جیسے ہندو مت میں اُپنشد میں۔ بہت سارے لوگ اس بات سے واقف نہیں ہیں کہ بدھ مت میں استعمال کئیے جانے والے بہت سارے طریقے ہندوستان کے روائیتی مسالک میں بھی موجود ہیں۔ لیکن خواہ یہ طریقے مشترک بھی ہوں، جو بات بدھ مت میں منفرد ہے وہ اس کا پس منظر ہے: ہمارا مدعا کیا ہے، ہماری حقیقت کے متعلق فہم کیا ہے اور ہمارا محرک کیا ہے۔ 

یہ تین حصے سننے، سوچنے یا غور و فکر اور مراقبہ پر مشتمل ہیں۔  اگر ہم مراقبہ بودھی نکتۂ نظر سے کر رہے ہیں، تو پھر ہم اسے بودھی تعلیمات کو سمجھنے کے لئیے کام میں لاتے ہیں۔

تعلیمات کو سننا

ہم پہلے حصہ کو "سننا" کیوں کہتے ہیں؟ پہلی بات تو یہ ہے کہ مہاتما بدھ کے زمانے میں کوئی بھی اسباق لکھے نہیں جاتے تھے، پس ان سے واقفیت کا ایک ہی طریقہ تھا اور وہ یہ کہ کسی ایسے شخص سے انہیں سننا جسے یہ یاد ہوں اور وہ ان کی شرح بیان کرے۔ آج کے دور میں ہم تمام تعلیمات کو پڑھ سکتے ہیں، تو کیا انہیں سننے کا کوئی فائدہ ہے؟ تو اس کا فائدہ یہ ہے کہ ہم ایک زندہ استاد سے براہ راست تعلق قائم کرتے ہیں جو کہ اپنے شاگردوں کو بات سمجھانے کا خواہش مند ہے۔ وہ بات کو کئی ایک انداز سے سمجھا سکتے ہیں، اور اگر آپ کے پاس کوئی سوال ہوتو آپ پوچھ سکتے ہیں، کتاب کی طرح نہیں۔ 

سننے کے عمل کا نقصان یہ ہے کہ اگر آپ توجہ کھو بیٹھیں، تو آپ خود بخود ہی پچھلے صفحہ پر نہیں جا سکتے یا ٹیپ کو واپس نہیں چلا سکتے۔ اگر آپ کسی بڑے گروہ میں ہوں تو یہ بہت شرمساری کی بات ہو گی اگر آپ استاد سے کہیں کہ وہ بات کو دوبارہ بیان کرے کیونکہ آپ متوجہ نہیں تھے۔ آپ کمرے کے پچھلے حصہ میں بیٹھے ہوں اور آپ تک آواز بخوبی نہ پہنچ رہی ہو۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کمرے کا درجہ حرارت زیادہ ہو اور آپ کو نیند آنے لگے۔ پس اس کے نقصان بھی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو مزید جہد کرنا ہو گی، یہ ایک ایسی صفت ہے جس کی آبیاری بودھی تعلیمات کے ذریعہ کرنے کی ضرورت ہے۔ بدھ مت کا طریقہ قطعی طور پر مجہول نہیں ہے۔ 

در اصل، استاد کے لئیے ہدایات یہ ہیں کہ شاگرد کے لئیے کام کو بہت آسان نہ بنائے، پہلی بار ہی اسباق کی مکمل وضاحت نہ کرے۔ بعض لوگ، جیسے میں، ایسا کرنا مشکل پاتے ہیں کیونکہ میں اپنی بات صاف صاف بیان کرنا چاہتا ہوں۔ کیونکہ اگر میں اپنے استاد سرکونگ رنپوچے کی ہدائت پر عمل کرتا، جس نے مجھے جب میں اس کا مترجم تھا شعوری طور پر درس دینا سکھایا، اس نے کہا،" شروع میں وضاحت سے کام نہ لو، کیونکہ تمہارا مقصد ان کے درمیان تمیز کرنا ہے جو واقعی دلچسپی رکھتے ہیں اور وہ جو کسی اور مقصد سے آئے ہیں۔ جو سچ مچ دلچسپی رکھتے ہیں وہ زیادہ سوال کریں گے، اور یہ بہت اہم ہے کہ طالب علم اپنے اندر مزید سیکھنے کا شوق بڑھائں۔" 

بطور ایک شاگرد کے، اگر آپ کو یہ شکائت ہو کہ استاد کی بات صاف نہیں تھی اس لئیے آپ واپس اس کے پاس نہیں جانا چاہتے، تو آپ کو استاد کی قابلیت کو جانچنا ہو گا۔ کیا استاد واقعی نا اہل ہے اور کھول کر بیان کرنا نہیں جانتا؟ ایسے بہت سارے استاد ہیں۔ یا یہ کہ استاد جان بوجھ کر تفصیل سے بیان نہیں کر رہا کیونکہ وہ چاہتا ہے کہ آپ صبر اور استقلال پیدا کریں؟ سننے کا اصل مقصد دوسرے مرحلہ کی تیاری ہے جو کہ تعلیمات پر غور کرنا ہے۔ اگر استاد فوراً ہی جواب مہیا نہ کرے تو یہ کہیں زیادہ مفید ہو گا کیونکہ اس سے آپ خود پہلے اس پر غور کریں گے، جس سے آپ کے اندر خود تعلیمات کا جائزہ لینے کی عادت استوار ہو گی۔

تعلیمات کا جائزہ لینا

تعلیمات کا معائینہ کرنا یہ دیکھنے کے لئیے کہ کیا وہ آپ کو معقول نظر آتی ہیں نہائت اہم ہے۔ یہ دیکھیں کہ ان کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے، اور پھر اس کے بارے میں دوسروں کا رد عمل معلوم کریں۔ ایسا کرنا ایک بڑے گروہ میں مشکل ہے اور خاص طور پر اگر آپ کی اپنے استاد سے ملاقات سال میں صرف ایک بار ہوتی ہے۔ یہاں میں بہترین صورت حال کی بات کر رہا ہوں۔ بہت سارے بودھی مراکز جہاں کوئی استاد ہر وقت موجود نہیں ہوتا، آپ کو پڑھنے اور سمع کے مواد پر بھروسہ کرنا پڑتا ہے، جن سے ہم بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ ہم انہیں کسی ناول یا ایسے مواد کے مترادف نہیں سمجھتے جسے آپ بیت الخلا میں پڑھتے ہیں؛ آپ انہیں من کی حرمت  بخش حالت سے پڑھتے ہیں۔ ہم انہیں دھیرے سے پڑھتے ہیں اور اہم نکات پر غور کرتے ہیں۔ اگر آپ کسی ایسے مرکز میں ہیں جہاں کوئی استاد نہیں ہے تو آپ پھر بھی پڑھ کر آپس میں تبادلہ خیال کر سکتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ بعض لوگ بات کو زیادہ اچھی طرح سمجھے ہوں اور وہ دوسروں کی راہنمائی کر سکیں۔ اگر ہم ایک طرح کے "بے گھر" دھرم اچاری ہیں جو کسی بودھی مرکز میں نہیں جاتے یا ان میں جو ہمارے قریب ہیں آسودگی محسوس نہیں کرتے، تو کسی آن لائن بودھی تبادلہ خیال کے گروہ میں شمولیت بہتر ہوگی بشرطیکہ ہمیں کوئی ایسا گروہ مل جائے۔ 

دوسرے لوگوں کے ساتھ اس قسم کا تعامل بہت مفید ہے، وگرنہ تعلیمات کے متعلق علم حاصل کرنا محض ایک عاقلانہ فعل ہو کر رہ جائے گا، جس کا عملی زندگی سے کوئی واسطہ نہ ہو۔ ہمیں اس کے متعلق سنجیدگی سے کام لینا چاہئیے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اکڑ کر بیٹھ جائں اور مسکرانے سے پرہیز کریں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دھرم کے متعلق بات کرتے وقت ہم بات کی گہرائی تک پہنچیں۔ ہم بے شک کسی لطیف بات پر یا کسی کی غلطی پر ہنس سکتے ہیں۔ 

بعض مغربی باشندوں کے لئیے بیک وقت لطافت اور نہائت سنجیدگی بہت مشکل ہے۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ آپ کس طرح تعلیمات کو اپنی زندگی کا حصہ بناتے ہیں۔ کیونکہ بہر حال اس کا ایک بنیادی مقصد آپ کی زندگی کو خوشگوار بنانا ہے۔ اگر ہم ابھی بھی ایسے ہی پرتکلف ہوں جیسا کہ ہم فوج میں شامل ہیں ، تو یہ من کی پر مسرت حالت نہیں ہے۔ ہمیں ڈر ہے کہ ہم کامل نہیں ہوں گے اور کوئی غلطی کر بیٹھیں گے جس کی ہمیں سزا ملے گی۔ یہ بدھ مت نہیں ہے! 

الٹا گل دان، گندا گل دان، ٹوٹا ہوا گل دان 

تو ہم سننے کی جانب لوٹتے ہیں۔ ہمیں ایک گل دان کی مثال سے تعلیمات کو سننے کا طریقہ بتایا جاتا ہے۔ اولاً، ہمیں کسی الٹے گل دان کی مانند نہیں ہونا ہے، کیونکہ اس طرح کچھ بھی ہمارے اندر نہیں جائے گا؛ ہمیں کشادہ دلی سے کام لینا ہو گا۔ ہمیں کسی ٹوٹے ہوئے گل دان کی مانند بھی نہیں ہونا، کیونکہ پھر جو بھی اندر داخل ہوگا وہ جلد ہی خارج ہو جائے گا۔ آخری بات یہ ہے کہ ہمیں ایک گندے گل دان کی مانند بھی نہیں ہونا، جس میں ہمارے اندر پہلے سے ہی کئی تصورات قائم ہوتے ہیں جو تعلیمات کو گڈ مڈ کر دیتے ہیں۔

جب آپ بودھی تعلیمات کو سنیں تو ان کا موازنہ کسی دوسرے مسلک سے نہ کریں۔ آپ یوں سوچ سکتے ہیں،"ہندو مت میں تو یہ کہتے ہیں، اور تاؤ مت وہ کہتا ہے۔" میرا ایک استاد کہا کرتا تھا کہ اگر آپ دو ایسی چیزوں کا موازنہ کریں جنہیں آپ ٹھیک طرح سے نہیں سمجھتے، تو اس سے کچھ حاصل نہ ہو گا۔ آپ محض الجھن کا شکار ہوں گے۔" اگر آپ دونوں مسالک کو بخوبی سمجھتے ہوں تو پھر موازنہ مفید ہو گا۔ اگر آپ بودھی اسباق کو نہیں سمجھتے تو اس قسم کے خیالات کو ایک طرف کر دیں "کیا یہ اس طرح ہے یا اس طرح" اور اسباق کو غور سے سننے پر توجہ دیں۔ وگرنہ آپ اس میں اپنے پہلے سے قائم شدہ تصورات کو شامل کر دیں گے جو کہ نہ صرف غلط ہو گا بلکہ بے محل بھی۔

جب یہ نصیحت ہمیں ٹوٹے ہوئے گل دان کی مانند نہ ہونے کو کہتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ جو ہم نے سیکھا ہے اسے یاد نہ رکھنا۔ بعض لوگ سبق کو لکھنا پسند کرتے ہیں، لیکن اگر آپ ایسا کریں تو بعد میں ان پر نظر ڈالنا ضروری ہے۔ بہر طور، ما سوا اس کے کہ ہماری یاد داشت عمدہ ہو، بہتر ہو گا اگر ہم اہم نکات کو لکھ لیں۔ 

یہاں مغرب کی نفسیات پر نظر ڈالنا دلچسپ ہو گا، جہاں جب تک کہ ہمارا امتحان سر پر نہ ہو، ہم عام طور پر کسی چیز کے بارے میں سیکھنے کی کوشش نہیں کرتے۔ ہم امتحان پاس کرنے کے لئیے پڑھتے ہیں اور اگر دھوکہ دہی سے کام چلتا ہے تو کیوں نہیں؟ پر یہاں یہ کار گر نہیں ہے۔ ہمیں کوئی امتحان نہیں دینا، اچھا گریڈ حاصل نہیں کرنا اور نہ ہی استاد کی خوشنودی حاصل کرنا ہے۔ یہاں اصل مقصد اپنے آپ کو بہتر بنانا ہے، اور جو کچھ بھی مہاتما بدھ نے سکھلایا – اگر ہم واقعی اس پر بھروسہ رکھتے ہیں – وہ دوسروں کی بھلائی کے لئیے تھا۔ یہاں کسی سے کوئی مقابلہ نہیں، ہمیں اسباق کے متعلق اپنے حساب سے سوچنا ہے،  ہم ایسے نہیں سوچتے، "وہ شخص غصیلا ہے، مگر میں نہیں۔" دھرم کے آئینہ کا رخ ہماری طرف ہونا چاہئیے، باہر کی طرف نہیں۔

دوائی کی مثال

سبق کو سننے کا ایک اور طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو ایک مریض تصور کریں، مہاتما بدھ اور گرووں کو بطور طبیب، اور اسباق کو دوائی۔ ہم نہائت پہنچے ہوئے بودھی لوگوں کو نرس تصور کریں جو ہماری مدد کرتے ہیں۔ سادہ الفاظ میں بھی، ہم بدھ مت کا پاٹھ اس لئیے شروع کرتے ہیں کہ "ہم مسائل سے دوچار ہیں۔" ہمیں کوئی مرض لاحق ہے، جو خود غرضی، غصہ یا اور کچھ ہو سکتا ہے، اور ہم اس کا علاج کروانا چاہتے ہیں۔ مہاتما بدھ ایک عمدہ طبیب ہے اور میں اس کی دوا استعمال کروں گا، اسے بھولوں گا نہیں بلکہ ہدایات کے مطابق اسے لوں گا۔ میں ایک دن بھی بغیر دوا کے جانے نہیں دوں گا، اور بے شک میں پوری بوتل ایک ہی دن میں خالی نہیں کر دوں گا۔ بدھ مت کا پاٹھ ایک طرح جراثیم کش ادویات لینے کے مترادف ہے، آپ مقررہ وقت پر مقررہ مقدار لیتے ہیں۔ اگر آپ بیچ میں دوا لینا بند کر دیں تو پھر فائدہ نہ ہوگا۔ بدھ مت کو طب کی طرح دیکھنے کا یہ ایک طریقہ ہے۔

ایک اور ہدائت یہ ہے کہ جب ہم سبق کو سنیں، تو یہ تصور کریں کہ ہم کسی پاک سر زمین میں ہیں اور ہمارا استاد مہاتما بدھ ہے اور ہمیں حقیقی درس مل رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم واقعی استاد کو سچ مچ کا مہاتما بدھ سمجھیں، بلکہ یہ کہ ہمیں ان کے لئیے اپنے لئیے اور درس کے لئیے احترام کا احساس ہے۔ ہم کوئی سنجیدہ کام کر رہے ہیں، جس سے مراد یہ نہیں کہ ہم غمگین صورت لئیے بیٹھے ہوں، بلکہ یہ کہ ہم اس گرم کمرے کی گھٹی فضا کو نظر انداز کر کے کشادہ دلی سے سبق پر توجہ دیں۔

ویڈیو: خاندرو رنپوچے — «بدھ مت کا مطالعہ کیوں کیا جاۓ؟»
ذیلی سرورق کو سننے/دیکھنے کے لئیے ویڈیو سکرین پر دائں کونے میں نیچے ذیلی سرورق آئیکان پر کلک کریں۔ ذیلی سرورق کی زبان بدلنے کے لئیے "سیٹنگز" پر کلک کریں، پھر "ذیلی سرورق" پر کلک کریں اور اپنی من پسند زبان کا انتخاب کریں۔

خلاصہ

بدھ مت کی کتابوں میں جو سبق ہمیں ملتا ہے وہ نہ صرف بدھ مت کے مطالعہ میں مفید ہے بلکہ ہماری روز مرہ زندگی میں بھی کار آمد ہے۔ ایک گندے یا ٹوٹے ہوئے گل دان کی مانند ہونا کبھی بھی ٹھیک نہیں ہے! بدھ مت کا اپنی زندگی میں اطلاق ایک پیش عمل سلسلہ ہے، جس کی شروعات سننے سے ہوتی ہیں۔ جب ہم یہ کر چکیں تو پھر ہم اسباق کو صحیح طور پرکھ سکتے ہیں، بالکل ایسے ہی جیسے کہ ہم کوئی ہیرے کی انگوٹھی خرید رہے ہوں، یعنی ان موضوعات کا کشادہ دلی کے ساتھ مطالعہ جنہیں ہم ابھی بخوبی نہیں سمجھتے۔

Top