جب ہم بدھ مت کے تناظر میں مراقبہ کا ذکر کرتے ہیں، تو ہم کسی خاص بات کو بیان کر رہے ہیں۔ آجکل، لفظ "مراقبہ" کا ذکر کئی جگہوں میں سننے میں آتا ہے، کیونکہ اس کی عمدہ شہرت عام ہے اور بہت سے لوگ اسے آرام اور سکون پانے کے لئیے استعمال کر رہے ہیں۔ البتہ، جہاں تک مراقبہ کا اصل طور طریقہ ہے، بیشتر لوگ اس سے نابلد ہیں۔ ایک ایسا تصور عام ہے کہ ہمیں چپ چاپ بیٹھنا ہے؛ مگر پھر کیا کریں؟ محض سانس پر توجہ اور بھلے خیالات کے علاوہ ار بھی کچھ ہے؟
سنسکرت میں مراقبہ کے لئیے جو اصطلاح مروّج ہے اس کا مطلب کسی چیز کو در حقیقت بدلنا ہے۔ تبت کے لوگوں نے جس لفظ میں اس کا ترجمہ کیا اس کا مطلب کوئی خاص عادت استوار کرنا ہے۔ جب ہم کسی چیز کی عادت ڈال لیتے ہیں تو ہم اسے اپنی شخصیت کا حصہ بنا لیتے ہیں، اور مراقبہ کے ساتھ ہم بالکل یہی کرنا چاہ رہے ہیں۔ ہم اپنے آپ میں کوئی مفید تبدیلی لانا چاہتے ہیں۔ تو پہلا سوال ہم نے یہ پوچھنا ہے کہ ہم تبدیلی کیوں لانا چاہتے ہیں؟ عام طور پر اس کی وجوہات کچھ ایسی ہوتی ہیں کہ ہم اپنی زندگی کی گزر بسر سے مطمٔن نہیں ہیں، یا ہمارے محسوسات تسلی بخش نہیں، یا دوسرے لوگوں سے یا کام سے معاملہ تسلی بخش نہیں ہے۔ اس کی فہرست لمبی ہے مگر ہم میں سے بیشتر کا مقصد اپنی زندگی کو بہتر بنانا ہے۔
مسائل سے چشم پوشی کی بجائے ان سے نمٹنا
یہ ایک اہم بات ہے کہ: ہم تبدیلی اور بہتری کے خواہاں ہیں۔ یہ ایسا نہیں کہ مراقبہ کے ذریعہ ہم کسی افسانوی دنیا میں کھو جانا چاہتے ہیں؛ اس کے اور کئی طریقے ہیں جیسے منشیات اور شراب کے ذریعہ ہم اسے پا سکتے ہیں۔ ہم سارا دن موسیقی میں غرق رہ کر کسی اور خیال سے جان بچا سکتے ہیں، جب ہم ان منشیات کے زیر اثر ہوتے ہیں، تو ہمارے مسائل اتنے شدید یا حقیقی نظر نہیں آتے۔ لیکن یہ مسائل ہمیشہ عود آتے ہیں کیونکہ ہم نے ان سے نمٹنا نہیں سیکھا۔ بعض لوگ مراقبہ کو ایک مسکن دوا کی طرح استعمال کرتے ہیں، مگر اس سے کوئی پائدار فائدہ نہیں ہو گا۔ ہم گھنٹیاں اور ڈھول بجا سکتے ہیں – جیسا کہ کوئی بودھی ڈزنی لینڈ – مگر اس سے ہمارے اندر کوئی تبدیلی نہیں آئے گی: یہ محض فرار ہے۔
تاہم، اگر ہم بودھی طریقہ سے مراقبہ کا پاٹھ کریں تو ہم مسائل سے رو پوشی کی نسبت ان سے نبرد آزمائی کا جتن کر رہے ہوں گے۔ یہ بڑی دلیری کی بات ہے اور اس کے لئیے بہت محنت درکار ہے، کیونکہ یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔ ہمیں اس کے لئیے بھی تیار رہنا چاہئیے کہ یہ بلا شبہ کوئی تفریح کا کام نہیں ہے۔ اس کا موازنہ ہم جسمانی تربیت کے ساتھ کر سکتے ہیں، یہ مشکل کام ہے اور ہمارے عضلات میں درد ہو گا، مگر ہم طاقتور اور صحتمند بننے کی خاطر یہ تکلیف اٹھانے کو تیار ہیں۔
مراقبہ میں بھی یہی معاملہ ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ ہم جسم کی بجائے من پر کام کر رہے ہیں۔ بدھ مت کے بعض مسلک ایسے ہیں جن میں مراقبہ اور جسمانی ورزش کو یکجا کیا جاتا ہے، جیسے مارشل آرٹس، مگر تبتی مسلک میں ایسا نہیں ہے۔ جسمانی تربیت میں کوئی خرابی نہیں ہے، در حقیقت یہ بہت فائدہ مند ہے؛ لیکن یہاں ہماری توجہ کا مرکز من ہے نہ صرف ہماری بدھی بلکہ ہمارے جذبات اور دل بھی۔ عظیم بودھی گرووں نے اس پر زور دیا کہ جب ہم بودھی پاٹھ شروع کریں ، تو سب سے بنیادی اور اہم بات من کو سدھانا ہے، کیونکہ ہمارے فعل، اطوار اور دوسروں سے بات چیت یہ سب ہمارے من کی حالت کے طابع ہوتے ہیں۔
ایمانداری سے اپنا جائزہ لینا
ہم جانتے ہیں کہ ہماری زندگی میں مسائل ہیں، اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ان کا منبع ہمارے من کا اندرونی خلفشار ہے۔ اگر ہم پوری ایمانداری سے اپنا جائزہ لیں تو ہم دیکھیں گے کہ ہمارے اندر بہت سارے پریشان کن جذبات ہیں، غصہ سے لے کر طمع تک، خود غرضی، حسد، لگاوٹ، تکبر، ناسمجھی، وغیرہ وغیرہ۔ اگر ہم مزید ٹٹولیں تو ہمیں عدم تحفظ اور زندگی کے مقصد کے متعلق الجھن نظر آئے گی۔ ایسا اکثر محسوس ہوتا ہے کہ یہ پریشان کن جذبات ہمارے من پر حاوی رہتے ہیں اور ہمارا رویہ ایسا بن جاتا ہے کہ ہمارے فعل، دوسروں کے ساتھ بات چیت اور تعلق سے ہمارے لئیے اور ان کے لئیے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ بل کہ جب ہم تنہا بھی ہوں، ہمارے من بے چین ہوتے ہیں اور ہر طرح کے پریشان کن خیالات سے گھرے ہوتے ہیں۔ سادہ لفظوں میں، ہم سچ مچ خوش نہیں ہیں۔
مراقبہ کا مقصد صورت حال میں تبدیلی لانا ہے۔اس کا مطلب یہ نہیں جیسے ہم کوئی دوا لے لیں تا کہ ہم سوچنے سے قاصر ہو جائں۔ یہ کوئی حل نہیں ہے، اگرچہ بعض لوگ مراقبہ کو یوں تصور بھی کرتے ہوں۔ وہ سوچتے ہیں کہ اگر وہ بیٹھ کر اپنی آنکھیں اور سب کچھ بند کر لیں، تو کسی طرح تمام مسائل غائب ہو جائں گے۔ ایسے کام نہیں چلتا۔ بلکہ ہمیں اپنے مسائل سے مستعد انداز سے نمٹنا ہے۔
اصل دشمن کی تلاش
بودھی تصانیف میں ہمیں اس بات کا بیان نہائت پر زور الفاظ میں ملتا ہے کہ ہمارے اصلی دشمن ہمارے پریشان کن جذبات ہیں۔ اس کا مطلب انہیں بطور کوئی جن بھوت پیش کرنا نہیں ہے، جس سے ہمارے اندر ڈر خوف یا دماغی خلل پیدا ہو۔ بلکہ اس سے ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ یہ ہیں وہ مسائل جن پر ہم نے کام کرنا ہے۔ ہمارے پاس ایسی عمدہ بودھی تصانیف ہیں جو ان شر انگیز عناصر سے یوں مخاطب ہیں،" میں تم سے تنگ آ چکا ہوں، یہ جو تم میرے لئیے مصائب پیدا کرتے رہتے ہو۔ اب تمہاری باری ختم ہوتی ہے۔" پس ہم آستین چڑھا کر بیٹھ جاتے ہیں اور اپنے من میں تبدیلی لانے کی کوشش کرتے ہیں۔ تو یہ ہے مراقبہ کا اصل مقصد۔
سادہ الفاظ میں مراقبہ وہ طریق کار ہے جس سے ہم سود مند عادات استوار کرتے ہیں اور اپنی بری عادتوں کو بدل دیتے ہیں۔ ان عادتوں کا تعلق ہماری سوچ، ہمارے محسوسات، اور چیزوں سے متعلق ہمارے جذبات سے ہے۔ اس کے لئیے تربیت اور تکرار کی ضرورت ہے – یہ ایک سائینسی طریقہ ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے ہم کھیل کود کے لئیے اپنی جسمانی تربیت کرتے ہیں، یا کسی موسیقی کے ساز کو بجانے کی تربیت، یا رقص، شروع شروع میں یہ بہت مصنوعی محسوس ہوتا ہے۔ لیکن جب ہم کسی شے سے مانوس ہو جائیں تو یہ بہت قدرتی سی معلوم ہوتی ہے۔ تو ہمارے من، جذبات اور احساسات کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔
کیا بدلاؤ ممکن ہے؟
اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا بدلاؤ ممکن ہے؟ در اصل، اپنے آپ میں تبدیلی لانے سے قبل ہمیں اس بات کا یقین ہونا لازم ہے کہ ایسا ہونا ممکن ہے۔ ہم اکثر بعض لوگوں کو یہ کہتے پاتے ہیں، "میں تو ایسا ہی ہوں اور بس بات ختم؛ میں اس کو بدلنے کے لئیے کچھ نہیں کر سکتا لہٰذا مجھے اس کے ساتھ ہی گزارہ کرنا ہے،" ہر "میں ایک غصیلا انسان ہوں، میں بد مزاج ہوں اور بس۔" اگر ہم کسی شے سے اس قدر شدت سے چمٹے رہیں تو بے شک اس میں بدلاؤ لانا مشکل ہو گا۔
ہمیں ایمانداری سے اپنا جائزہ لینا ہو گا۔ ہم بعض چیزوں کو کیوں عزیز جانتے ہیں؟ اگر ہم واقعی غصیلے انسان ہیں تو کیا ہمیں ہر وقت غصے میں نہیں ہونا چاہئیے؟ ہو سکتا ہے کہ ہم دوسرے لوگوں کو الزام دیتے ہوں: میں غصہ میں ہوں کیونکہ میرے ماں باپ نے ایسا ویسا کچھ کیا۔ یہ بے شک فائدہ مند نہیں ہے۔ اگر ہم ذرا غور سے دیکھیں تو ہمیں پتہ چلے گا کہ جذبات کہاں سے آتے ہیں۔ خواہ ہم ہر روز اپنے آپ کو سمجھائں، "غصہ مت کرو، لالچ نہ کرو، خودغرضی سے کام نہ لو،" اس کا خاتمہ بہت مشکل ہے، ہے نا؟ لہٰذا ہمیں اپنے جذبات میں تبدیلی لانے کا کوئی موثر طریقہ ڈھونڈنا ہے۔
ہمارا رویہ ہر شے پر اثر کرتا ہے
بدھ مت کا کہنا ہے کہ ہمارے جذبات کے پس پشت ہمارا "رویہ" ہے۔ مطلب یہ کہ ہم چیزوں کو کیسے دیکھتے ہیں۔ فرض کرو کہ تمہاری ملازمت جاتی رہتی ہے۔ ہم اسے ایک بڑی تباہی سمجھ کر غصہ میں آ جاتے ہیں اور دل برداشتہ ہو جاتے ہیں۔ کیوں؟ اس لئیے کہ اُس دم ہم یہ سوچتے ہیں کہ یہ دنیا کا بد ترین واقعہ ہے۔
ہماری ملازمت جاتی رہی – یہ ایک حقیقت ہے۔ ہم اسے بدل نہیں سکتے مگرہم اس سانحہ کے متعلق اپنے رویہ کو بدل سکتے ہیں، اور یہی رویہ کا مطلب ہے۔ تو ہم اسے مختلف پہلو سے دیکھیں – اب ہم اپنے بچوں کے ساتھ زیادہ وقت گزار سکتے ہیں، یا پیشہ بدلنے کے بارے میں سوچ سکتے ہیں۔ مانا کہ اس سے ہمیں کوئی مالی مدد نہیں ملے گی، لیکن کم از کم ہم اس کے متعلق اتنا برا محسوس نہیں کریں گے۔ پس مراقبہ میں ہم اس پر توجہ مرکوز کر سکتے ہیں – کہ ہم چیزوں کو کس نظر سے دیکھتے ہیں، کیونکہ اس سے ہمارے احساس پر اثر پڑتا ہے۔
میرا عزیز ترین دوست پچھلے ہفتہ فوت ہو گیا۔ یہ دکھ کی بات ہے۔ میں اس پر ماتم کناں ہوں – یہ معقول رد عمل ہے؛ اس میں کوئی حرج نہیں۔ بے شک میں اس کی وفات پر خوش نہیں ہوں! مگر یہاں میں کس طرح اپنے من کی حالت سے معاملہ کروں؟ اس کی وفات سے ایک ہفتہ پہلے، مجھے اسے کال کرنے کی خواہش محسوس ہوئی مگر میں ایسا نہ کر پایا۔ وہ بالکل ٹھیک ٹھاک تھا، نہانے گیا، اسے دل کا دورہ پڑا اور غسل خانہ میں ہی گر کر چل بسا۔ یہ واقعہ انتہائی غیر متوقع اور اچانک پیش آیا۔ بے شک میں شدید پچھتاوے کا شکار ہو سکتا ہوں یہ سوچ کر کہ ایک ہفتہ قبل جب مجھے اسے کال کرنے کا خیال آیا تھا تو میں نے اس سے بات کیوں نہیں کی، یا میں اپنے اوپر سخت ناراض ہو سکتا ہوں، یہ سوچ کر کہ اگر مجھے اس بات کا پتہ ہوتا تو میں وہ تمام باتیں اس سے کرتا جو کہ کرنا چاہ رہا تھا۔ ایسا سوچنے سے میں اور بھی برا محسوس کرتا۔
اس کے بجائے میں نے وہ تمام خوشگوار واقعات یاد کئیے جو ہم نے اکٹھے گزارے تھے، اور کتنی بے شمار عمدہ باتیں ہمارے درمیان مشترک تھیں – ہماری دوستی ۳۵ برس پرانی تھی – اور یہ کہ میں کس قدر خوش قسمت تھا کہ میری ایسے عمدہ انسان سے گہری دوستی تھی۔ میرے خیال میں میری جان پہچان والے مغربی باشندوں میں سے وہ سب سے زیادہ حقیقی اور پرخلوص دھرم اچاری تھا۔ میرے لئیے میرا اپنا پاٹھ زور شور سے جاری رکھنے میں وہ زبردست مشعل راہ ثابت ہوا۔ وہ جس طرح اپنی بیوی کا خیال رکھتا تھا، مجھے معلوم ہے کہ اگر اسے پتہ ہوتا کہ اب میں اسی طرح اس کا خیال کرتا ہوں تو اسے بہت تسلی و تشفی ہوتی، تو اس لئیے میں یہ کام کر رہا ہوں۔
یہ میرے مراقبہ کی بدولت ہے۔ آپ کو کوئی مافوق الفطرت قوت نہیں مل جاتی یا نہ ہی کوئی انوکھی شے۔ آپ کو جو ملتا ہے وہ یہ کہ جب آپ کسی مشکل صورت حال سے دوچار ہوتے ہیں ، اور اپنے آپ کو کسی منفی، نا خوش من کی حالت میں گھرا ہوا پاتے ہیں، تو سب سے پہلی بات جو آپ سمجھتے ہیں کہ اسی طرح جاری رکھنے سے حالات مزید بگڑیں گے۔ ہم ان مشکل حالات کو سمجھنے کے بہتر طریقوں سے واقف ہو جاتے ہیں، اور مناسب تربیت سے، ہم چیزوں کے متعلق اپنا نظریہ مکمل طور پر بدل دینے کے اہل ہوتے ہیں۔ ہم پھر بھی غمگین ہو سکتے ہیں جیسا کہ میرے ساتھ میرے دوست کی وفات پر ہوا، لیکن ہم ایسے خیالات تصور میں لا سکتے ہیں جن میں قدرے مسرت کا پہلو موجود ہو، اور اس سے یاس میں کمی واقع ہو۔
اپنی صلاحیت کا تیقّن
پس ہمارے من میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا ہم چیزوں کے بارے میں اپنا نظریہ بدل سکتے ہیں؟ اور اس کا جواب ہاں میں ہے۔ اگر آپ ان چیزوں کے متعلق سوچیں جو بچپن میں بہت دلچسپ اور بڑھیا لگتی تھیں، اب وہ قدرے احمقانہ، اکتا دینے والی اور غیر دلچسپ لگتی ہیں۔ ہمارے بڑے ہونے کے ساتھ ساتھ ہمارے رویہ میں بہت تغیّر آ چکا ہے۔ ایک بار ہمیں اس بات کا یقین ہو جائے کہ مزید تبدیلی ممکن ہے، تو پھر ہمیں ایسا کرنے کے چند طریقے سیکھنا ہوں گے۔ اس کے تین مرحلے ہیں:
- درست معلومات حاصل کرنا – ہمیں یہ جاننا ہے کہ کونسی عادت زیادہ مفید ہو گی، ایسی فہم اس کے متعلق سننے، پڑھنے اور سیکھنے سے آتی ہے۔ اس مرحلہ پر اس کی پوری فہم لازم نہیں ہے، بلکہ محض یہ کہ ہم بطور ایک بودھی طریقہ کے اس کا امتیاز کر سکتے ہیں۔
- اس کے مطلب پر غور کرنا – جو معلومات ہم نے حاصل کی ہیں ہمیں ان پر غور و خوض اور مختلف پہلووں سے اس کا تجزیہ کرنا ہو گا تا کہ ہم اسے سمجھ سکیں۔ ہمارے اندر یہ احساس پیدا ہونا چاہئیے کہ جو ہم دیکھ رہے ہیں یہ سچ ہے نہ کہ کوئی بیکار سی شے۔ ہمیں اس کی افادیت کا بھی یقین ہونا چاہئیے، اور یہ کہ ہم اسے اپنی زندگی کا حصہ بنا سکیں گے۔
- مراقبہ – اب ہم اس پر مراقبہ کرنے کو تیار ہیں کہ جو ہم نے سیکھا اور سمجھا ہے اسے ایک سود مند عادت کی شکل میں استوار کر سکیں۔
درست معلومات اور مراقبہ
صحیح معلومات کا حصول اتنا آسان نہیں ہے جتنا کہ ہم سمجھتے ہیں۔ ایسے بےشمار لوگ موجود ہیں جو مستند بودھی طریقے سکھانے کا دعویٰ کرتے ہیں؛ لیکن کسی کے کوئی کتاب لکھ کر شائع کروا لینے کا مطلب یہ نہیں کہ اس کتاب کا مواد درست بھی ہے۔ اور کسی استاد کے مقبول یا پر کشش شخصیت ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ ان کی دی ہوئی تعلیم درست ہے۔ ہٹلر کی شخصیت نہائت پر کشش تھی اور وہ بہت مقبول بھی تھا، لیکن جو اس نے سکھلایا وہ بے شک درست نہ تھا۔
پس بدھ مت میں اس بات پر زور دیا جاتا ہے کہ ہم اپنی عقل استعمال کریں۔ ہم جانوروں سے کس طور مختلف ہیں؟ کسی جانور کو بھی بہت سارے کام کرنے کی تربیت دی جا سکتی ہے، مگر ہمیں ان پر عقل کی بدولت فوقیت حاصل ہے۔ ہم سود مند اور غیر سود مند کے درمیان تمیز کر سکتے ہیں۔ اگر پہلی بار ہمیں کوئی بات نہ بھی سمجھ آئے، لیکن ہم عقل کو استعمال کر کے معاملات کو سلجھا سکتے ہیں، اور ہمیں تعلیمات کو سنتے اور پڑھتے وقت بالکل یہی کرنا ہے۔
مہاتما بدھ کی تمام تعلیمات کا مقصد دوسروں کا بھلا کرنا تھا۔ لیکن ہم خود دیکھ سکتے ہیں، کہ جو اس نے سکھلایا وہ مفید ہے یا نہیں۔ اس کے لئیے ہمیں دور رس نتائج کا جائزہ لینا ہو گا، کیونکہ ممکن ہے کہ یہ مستقبل قریب میں اتنے عمدہ نہ ہوں۔ یہ بعض طبی علاج کی مانند ہے، جن سے گزرنا بے شک آسان نہ ہو گا مگر اس کے دور رس نتائج خوشگوار ہو سکتے ہیں، جیسے سرطان کے لئیے کیمو تھیراپی۔
اگر ہم نے یہ کام نہیں کئیے، تعلیمات کی جانچ پڑتال اور ان کے ہماری زندگی اور معاملات پر اثرات، تو ہم کیسے ان پر مراقبہ کر سکتے ہیں۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کسی چیز کو بغیر اس کی ضرورت اور افادیت کا جائزہ لئیے خرید لینا۔
باقاعدہ مراقبہ
بے شک تعلیمات کے متعلق سوچنے کا عمل نہائت مفید شے ہے، اور بعض لوگ اسے بھی مراقبہ کی ایک قسم تصور کرتے ہیں۔ لیکن جس چیز کو ہم باقاعدہ "مراقبہ" کا نام دے سکتے ہیں وہ ایک ایساعمل ہے جس کے ذریعہ ہم اس مزید مفید من کی حالت کو اپنی زندگی، اپنے وجود میں شامل کر لیتے ہیں۔ اس کے بھی دو مرحلے ہیں:
- زیرک مراقبہ – اس پہلے مرحلہ کو عموماً "تجزیاتی مراقبہ" کہتے ہیں جس میں ہم کسی شے پر بہتر طور سے ارتکاز کرتے ہیں، تمام تفصیلات اور ان کی تشریحات کی عمیق فہم استوار کرتے ہوئے۔
- استحکام پذیر مراقبہ – دوسرا مرحلہ وہ ہے جس میں ہم تمام تفصیلات پر مستعد طور پر گہرا غور نہیں کرتے بلکہ اپنے موضوع پر جامع انداز سے ارتکاز کرتے ہیں جس میں اس پر ہمارا مرکزی حاصل اس کے بارے میں ہمارا رویہ ہوتا ہے۔
بہت سے لوگ مراقبہ کی شروعات سانس پر توجہ مرکوز کرنے سے کرتے ہیں۔ ہم سانس کی آمد و رفت پر توجہ لگا کر اپنے من کو پر سکون حالت میں لاتے ہیں۔ یہ دیکھنے میں آسان لگتا ہے مگر در حقیقت ایسا کرنا بہت مشکل ہے۔ جب ہم سانس پر توجہ مرکوز کرتے ہیں تو ہم کیا پانے کی کوشش کرتے ہیں؟ سب سے اول، ہم اپنے اندر کی اس آواز کو خاموش کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو ہر طرح کے پریشان کن جذبات اور احساسات کو وجود میں لاتی ہے۔ یہ ایک طرح سے پس منظر کے شور سے نجات حاصل کرنا ہے۔ اور اس کے ساتھ ہی ہم سانس پر توجہ مرکوز کرتے ہیں ہمراہ اس کی فہم کے جو ہم نے سنا ہے، جس پر غور کیا ہے اور سمجھا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں زیرک اور مستحکم مراقبہ کام آتا ہے۔ مثلاً ہم سانس کو عدم استقلال کی ایک شکل تصور کر سکتے ہیں: یہ ہر لمحہ بدل رہا ہے۔ یا ہم اس حقیقت پر غور کر سکتے ہیں کہ میرے سانس سے الگ کوئی "میں" نہیں ہے – آخر کار سانس کون لے رہا ہے؟ لیکن ایسا تجزیہ نو آموز کے لئیے بہت پیچیدہ ہو سکتا ہے۔
شروع کرنے کا کوئی بہتر مقام ہماری اپنی ذات ہو سکتی ہے۔ ہم ہر وقت مختلف چیزوں جیسے ہمارا کام، خاندان، عمومی طور پر معاشرہ – سے بہت دباؤ تلے رہتے ہیں اور ہمارے من ہر وقت پریشانی میں گھرے ہوتے ہیں۔ پس شانت ہونا بہت مشکل ہے. پس ہمارے لئیے یہ بہت مفید ہو گا کہ ہم مزید سکون اور طمانیت حاصل کریں۔ اگرچہ اس سے مسائل تو حل نہیں ہوتے مگر یہ اول تعمیری قدم ہے۔ اپنے سانس پر ارتکاز سے ہم اپنے جسم کی حقیقت سے رشتہ جوڑتے ہیں – "میں زندہ ہوں!" تنفس کا عمل اس کا اچھا ثبوت ہے کیونکہ یہ ہماری موت تک جاری رہتا ہے۔ زندگی میں خواہ کتنی ہی مشکلات کیوں نہ ہوں، سانس ہمیشہ موجود ہوتا ہے۔ اگر ہم اس کے متعلق مزید آگہی پیدا کر لیں، تو اس سے ہمیں زندگی کے تواتر کا احساس رہتا ہے؛ کہ خواہ کچھ بھی ہو زندگی کا کاروبار تو چلتا ہی رہتا ہے۔ یہ یوں بھی مفید ہے، جیسا کہ میرا دوست فوت ہو گیا، کیونکہ میں اس بات کو سمجھتا ہوں کہ زندگی تو چلتی ہی رہتی ہے۔
پس ہمارے پاس یہ معلومات موجود ہیں، ہم نے اس پر غور کیا ہے اور ہم اسے سمجھتے ہیں، اس کی افادیت کے قائل ہیں۔ کیا زندگی کے جاری و ساری ہونے کو سمجھنے کی اہلیت، اور پھر اپنے شریر سے تعلق قائم رکھنا اور خوف اور دل برداشتگی جیسے تصورات میں نہ ڈوب جانا، کیا یہ سب کچھ فائدہ مند ہوگا؟ جی ہاں، یہ فائدہ مند ہو گا۔ کیا میں توجہ مرکوز کرنے اور اپنے سانس سے باخبر رہنے کی صلاحیت رکھتا ہوں؟ ہاں، حتیٰ کہ تب بھی جب ہم کسی دوسرے کام کو ایک یا دو سیکنڈ کے لئیے روک دیں، تو ہمیں سانس کی موجودگی کا احساس ہوگا: یہ ہر دم موجود ہے۔ پس، ہمیں کسی بہت عمیق فہم کی ضرورت نہیں ہے۔ بے شک، فہم جتنی گہری ہو اتنا ہی بہتر ہے، لیکن شروع میں اتنا ہی کافی ہے۔
مراقبہ کا عمل
ہمیں سانس پر توجہ مرکوز کرنے کی سمجھ تب آتی ہے جب ہم من کے دو عناصر سے بہرہ ور ہوں، جو کہ من کی وہ حالتیں ہیں جو ارتکاز کے ہمراہ موجود ہیں:
- غبی کھوج – غیر لطیف سطح پر کسی شے کا احساس
- لطیف بصیرت – کسی شے کو مفصل روپ میں سمجھنا۔
من کی ان دو حالتوں میں تفریق کو سمجھنے کے لئیے روائتی طور پر کسی مصوری کے نمونہ کو دیکھنے کی مثال پیش کی جاتی ہے۔ غبی کھوج سے ہم اسے ایک مصوری کا نمونہ جس میں شائد کچھ لوگ دکھائے گئے ہیں خیال کرتے ہیں۔ ایسا جاننے کی صورت میں، من اس کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہتا، اسے دیکھنے سے ہی یہ بات معلوم ہے۔ عام زبان میں ہم اسے "فہم" کہیں گے۔ لطیف بصیرت کے ساتھ ہم پینٹنگ کو مزید تفصیل کے ساتھ دیکھیں گے اور اس بات کی فہم استوار کریں گے کہ یہ اِس یا اُس شخص کی تصویر ہے جس میں کچھ خاص باتیں ہیں۔
تو سانس پر توجہ مرکوز کرنے سے ہم ایسا کرتے ہیں۔ ہم کھوج لگاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ سانس ایک ایسی شے ہے جو ہر دم رواں ہے، اور ہم اس بات کی فہم رکھتے ہیں کہ یہ ناک کے راستہ آتا جاتا ہے۔ یہ ہر حالت میں ہماری زندگی کے اختتام تک جاری رہے گا، پس اس لحاظ سے یہ متواتر، محفوظ اور قابلِ بھروسہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اسے "زیرک مراقبہ" کہتے ہیں کیونکہ یہ کوئی ایسی شے ہے جس سے ہم باخبر ہیں۔ ہم اس کا تجزیہ نہیں کرتے، لیکن محض ایک خاص نکتہ نظر سے اس کو جانتے اور سمجھتے ہیں۔
دوسرا مرحلہ، یعنی استحکام پذیر مراقبہ، جس میں ہمیں فعال انداز سے اس طرح سے بصیرت حاصل نہیں کرنی، ہم بس اس سے واقف ہیں۔ کسی چیز کے متعلق شعور کامل اور محض سرسری علم کے مابین یہ جو من کی حالت ہے یہ بہت مختلف ہے۔ ہم مراقبہ کرتے ہیں جس کے نتیجہ میں ہم کہیں زیادہ جامد، مستحکم اور محفوظ محسوس کرتے ہیں۔ یہ حالت بار بار اور ہر روز پاٹھ کرنے سے پیدا ہوتی ہے۔
اپنے پاٹھ کا روز مرہ زندگی پر اطلاق
خاص طور پر ہمیں اس پاٹھ کو اس وقت یاد رکھنا چاہئیے جب ہم پریشانی کا شکار ہوں۔ بے شک یہ مشکل کام ہے، اور ہم نے پہلے جسمانی تربیت کی مثال دی ہے، لیکن آخر کار یہ فہم اس قدر گہری ہو جاتی ہے کہ ہمیں اس کا ہر دم شعور رہتا ہے۔ ہم ہر دم یہ جانتے ہیں کہ زندگی کا کاروبار کبھی نہیں رکتا، اور دل کی گہرائیوں میں ہم سمجھتے ہیں کہ خواہ جو بھی ہو، یہ کوئی بڑا مسٔلہ نہیں۔ ہم اس کی اس درجہ عمیق فہم رکھتے ہیں کہ یہ ایک عادت بن جاتی ہے اور ہمارا نظریۂ حیات بدل دیتی ہے۔ یہ مراقبہ کا نتیجہ ہے۔ اگر ہم اسے بھول جائں تو سانس پر توجہ دے کر ہم اپنے آپ کو یاد دہانی کروا سکتے ہیں اور اپنا عزم تازہ کر سکتے ہیں۔ ہم روز مرہ زندگی کے معاملات سے نمٹنے کے سلسلہ میں اپنے من کی حالت میں حقیقی بدلاؤ لاتے ہیں۔ یہ کسی افسانوی دنیا میں جا کر اپنے مسائل سے فرار حاصل کرنے کی بات نہیں ہے، بلکہ یہ ایک فعال طریقہ ہے جس پر چل کر ہم اپنی من کی اور جذبات کی حالت کو بہتر بناتے ہیں، اور آخر کار ان حالات و واقعات کو بھی جن سے ہمیں واسطہ پڑتا ہے۔
ابھی ہم نے جس چیز کا جائزہ لیا اسے نفسیات کا نیا اور عمدہ طریقہ بھی سمجھا جا سکتا ہے۔ اس کو ایسے دیکھنے میں کوئی حرج نہیں، مگر ہمیں اس سلسلہ میں محتاط رہنا چاہئیے کہ ہم بدھ مت کو یہی کچھ نہ سمجھ بیٹھیں – یعنی نفسیات کی ایک اور شاخ۔ بدھ مت اس سے کہیں زیادہ کچھ ہے۔ بدھ مت میں ہمارا ہدف اس سے کہیں زیادہ دور کا ہے – روشن ضمیری، سب انسانوں کی مدد کرنا – لیکن ہمیں اس پہلے اہم مرحلہ سے گزرنا لازم ہے۔
خلاصہ
تمام دن موسیقی سنتے رہنا، یا اپنے آپ کو مستقل مصروف رکھنا، نشے میں ڈوبے رہنا یا شراب پی کر سب کچھ بھلانے کی کوشش کرنا، یہ مسائل سے فرار کے سادہ اور آسان طریقے ہیں۔ یہ عارضی طریقے کچھ خاص معاون نہیں ہوتے، اور مسٔلہ عود کر آتا ہے۔ دھرم پر غور و فکر اور مراقبہ کے توسط سے ، ہم مکمل طور پر اپنے متعلق تصور کو، دوسروں کے متعلق اور جن واقعات سے ہمیں واسطہ پڑتا ہے، ان سب کو مکمل طور پر بدل سکتے ہیں۔ اگرچہ ایسا کرنے سے ہمارے تمام مسائل یک لخت غائب تو نہیں ہو جائں گے، لیکن اس سے ہمیں یہ شکتی ملتی ہے کہ ہم ان سے دست بدست مقابلہ کرنے کی صلاحیت کی جانکاری رکھتے ہیں۔