ہمارے تمام پریشان کن جذبات اور اطوار کی بنیادی وجہ ہماری لا علمی ہے۔ اس لا علمی کا تعلق علت و معلول سے ہو سکتا ہے – ہمارے رویہ کے اثرات – یا حقیقت سے نا شناسی۔ رویہ کی بابت اسباب اور اثرات سے منسلک لا علمی کو عموماً نقصان دہ افعال اور غلط اعمال کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ حقیقت اور مختلف حالات سے عدم آگہی کسی بھی سمساری طور اطوار کے پسِ پشت کار فرما ہو سکتی ہے خواہ یہ اطوار تعمیری ہوں یا تخریبی۔ چنانچہ اگر ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ لا علمی کیسے ہمارے پریشان کن اطوار اور جذبات کی اساس ہوتی ہے، تو ہمیں حالات و واقعات اور حقیقت کے متعلق لا علمی کا جائزہ لینا چاہئیے۔
"حقیقت" در اصل ایک دلچسپ لفظ ہے۔ اس کی بے شمار تعبیرات ہو سکتی ہیں۔ عام طور پر جو لفظ استعمال کیا جاتا ہے وہ ہے "سچائی،" کسی چیز کے بارے میں سچائی۔ ہر شے کے متعلق دو سچائیاں ہوتی ہیں۔ ایک تو ہے اضافی یا روائتی سچائی، یا اوپری سچائی یعنی ایک تو وہ جو کسی شے کا ظاہری روپ ہے اور دوسری کسی شے کے وجود کی اصلی صورت۔ ایسا نہیں ہے کہ ایک سچائی دوسری کی نسبت زیادہ سچ ہے، جیسا کہ سچائی کے "درجات" جیسے لفظ سے شائبہ ہوتا ہے۔ وہ دونوں ہی سچ ہیں۔ میں ان سچائیوں میں سے دوسری کے متعلق "حتمی" کی اصطلاح کا دلدادہ نہیں ہوں۔ کیونکہ لفظ "حتمی" سے یہ تاثر ملتا ہے کہ ایک دوسرے کی نسبت زیادہ سچ ہے؛ تو میں "عمیق ترین" کی اصطلاح کو ترجیح دیتا ہوں۔ پس دو سچائیوں سے مراد ایک تو کسی شے کی ظاہری صورت ہے، اور دوسری عمیق یعنی کہ اس کا وجود کیسے ہے۔
لگاوٹ کیا چیز ہے؟
آئیے ہم پریشان کن جذبات کے حوالے سے موجود دو سچائیوں کا جائزہ لیتے ہیں؛ پھر شائد یہ نکتہ قدرے واضح ہو جاۓ۔ لگاوٹ یا موہ کیا چیز ہے؟ یہ من کی وہ آشفتہ حالت ہے جو کسی شے کی خوبیوں کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتی ہے اور دو واضح اشکال میں ظاہر کرتی ہے۔ کسی چیز کی شدید آرزو کا رخ اس شے کی جانب ہوتا ہے جو ہمارے پاس نہیں ہے اور اس کی بابت جذبہ یوں ہے "مجھے اسے ہر صورت پانا ہے، مجھے اسے حاصل کرنا ہی ہے!" لگاوٹ کسی ایسی چیز کے متعلق ہے جو پہلے سے ہمارے پاس ہے اور اس کے متعلق ہمارا یہ جذبہ ہوتا ہے " میں اسے کھونا نہیں چاہتا!" دونوں کی بنیاد کسی چیز کے اوصاف کی مبالغہ آرائی پر ہے، یا وہ جنہیں ہم اس شے کی خوبیاں گردانتے ہیں۔ اس کی ایک تیسری قسم حرص ہے، اس کا تعلق بھی کسی ایسی چیز سے ہے جو ہمارے پاس ہے، مگر کبھی بھی مطمٔن نہ ہونے کے باعث ہم اور کی تمنا کرتے ہیں۔
ان سب متغیّر اشکال کی بدولت، ہم اصل حقیقت سے نا بلد رہتے ہیں، کسی شے کا حقیقی روپ۔ دوسرے لفظوں میں، ہم کسی چیز کی محض عمدہ صفات کو ہی نہیں دیکھتے، بلکہ انہیں بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں اور اس میں بعض اور محاسن کو شامل کر دیتے ہیں جن کا سرے سے وجود ہی نہیں۔ اس کے ساتھ جو چیز عموماً شامل ہوتی ہے وہ یہ کہ ہم اس کی کمزوریوں یا منفی پہلووں کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیتے ہیں۔ لہٰذا ہم کسی چیز کے حقیقی عیوب و محاسن سے بے خبر رہتے ہیں۔ وہ "چیز" کوئی انسان بھی ہو سکتا ہے، کوئی ایسا انسان جسے ہم جانتے ہیں اور جو ہماری نظر میں بہت پر کشش اور لا جواب ہے، یا یہ کوئی مادی شے بھی ہو سکتی ہے جیسے کہ آئس کریم۔
کسی ایسے شخص کے متعلق سوچیں جس کو ہم پانے اور اس سے موہ لگانے کی شدید آرزو رکھتے ہیں۔ ہم اس شخص کے حسن کی تعریف یا کسی بھی اور صفت جسے ہم پُرکشش پاتے ہیں کے بارے میں مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ میں نے اس سے زیادہ حسین انسان آج تک نہیں دیکھا۔ ہم اس شخص کی کمزوریوں کو نظر انداز کرتے ہیں؛ بلکہ ہم ان کے متعلق سوچنا بھی نہیں چاہتے، مثلاً یہ کہ اسے نکتہ چینی کی عادت ہے، یا یہ کہ اس کا کھانے کا انداز مضحکہ خیز ہے یا اسے خراٹے لینے کی عادت ہے۔ تو یہ ہو سکتا ہے کہ وہ شخص نسبتاً پر کشش ہو لیکن ہمارے نزدیک وہ بہت زیادہ حسین ہو۔ ہمیں اس سے انکار نہیں، مگر اس پہلو میں مبالغہ آرائی برتنے سے شدید آرزو اور لگاوٹ پیدا ہوتی ہے، اور اس میں کمزوریوں کو نظر انداز کرنا بھی شامل ہے۔ من کی ایسی حالت آخر کار مصیبت کا باعث ہوگی، کیونکہ اس قسم کی عارضی فریفتگی بالآخر کمزور پڑ جاۓ گی۔ تب جب اس شخص کی کمزوریاں اجاگر ہوں گی تو ہمارا پیار اور ہماری لگاوٹ خفگی اور ناراضگی میں بدل جاۓ گی۔
غصہ یا ناراضگی اس کی عین تنقیض ہے۔ ہم کسی شخص یا کسی شے کی برائیوں اور کمزوریوں کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں اور اس کی خوبیوں کو نظر انداز کرتے ہیں۔ مثلاً ہم اس بات کا بتنگڑ بنا لیتے ہیں کہ وہ شخص اپنے کمرے کو صاف ستھرا نہیں رکھتا، یا یہ کہ وہ بے ڈھب انسان ہے، یا یہ کہ وہ برتن دھونے یا کسی اور کام میں خاص ہاتھ نہیں بٹاتا۔ ہم اس پر بہت شور مچاتے ہیں؛ ہم اس کے متعلق حد سے کہیں بڑھ کر مبالغہ آرائی کرتے ہیں اور غصہ اور ناراضگی دکھاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ہم اس شخص کی خوبیوں کو نظر انداز کرتے ہیں، مثلاً یہ کہ وہ ایک نہائت نیک دل، ذمہ دار اور مستقل مزاج انسان ہے۔ صرف ایک ہی بات ابھر کر سامنے آتی ہے کہ "میں یہ برداشت نہیں کر سکتی کہ وہ اپنی گندی جرابیں فرش پر چھوڑ دیتا ہے۔" پس ہم غصہ میں آ جاتے ہیں۔
غائرانہ سچائی
ان مثالوں سے ظاہر ہے کہ کسی شخص کی ضمنی، سطحی حقیقت کے متعلق ہماری لا علمی – کہ ان کے مثبت اور منفی، یا مضبوط اور کمزور خصائص کیا ہیں – اس کے پس پشت ہماری لگاوٹ اور ہمارا غصہ ہوتا ہے۔ یا تو ہم ان سے نا بلد ہوتے ہیں، یا ہم انہیں نظر انداز کرتے ہیں یا ان پر مبالغہ آرائی کرتے ہیں یا یہ کہ انہیں ٹھیک سے سمجھ نہیں پاتے۔ لیکن گہری سطح پر، ہماری لگاوٹ اور غصہ کے پیچھے، ان کے وجود کے متعلق عمیق حقیقت سے لا علمی پائی جاتی ہے۔
اگرچہ اس موضوع پر ہم نہائت لطیف اور دقیق سطح پر بحث کر سکتے ہیں، لیکن بہتر ہو گا کہ آج شام ہم اس پر آسان پیرایہ میں بات کریں۔ ہمیں یوں لگتا ہے کہ اس شخص کا وجود ایک ٹھوس، موٹی لکیر کے بیچ محصور ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ وہ پلاسٹک یا ایسی کسی چیز میں لپٹا ہوا ہے، اور وہ یہاں ہمارے سامنے موجود ہے، بالکل ویسے ہی جیسے وہ نظر آتا ہے، ایک تصویر کی مانند منجمد۔ یہ اس غلط تصور کی بدولت ہے کہ ہم اسے کوئی ٹھوس وستو سمجھتے ہیں جو خود کار و خود مختار ہے، علل، حالات اور اثرات سے بے نیاز ہے، بیگانۂ تغیّر ہے اور اسے دوام حاصل ہے۔ یہ نہائت پیچیدہ ہے؛ یہ غلط ہے کیونکہ، در حقیقت، ان کے مزاج میں ہر دم تبدیلی آ رہی ہے؛ ان کا شریر رو بہ تغیّر ہے؛ ان کی جذباتی حالت ہر لمحہ بدل رہی ہے۔ ایسی کسی ٹھوس شے کا وجود نہیں جو کہ پلاسٹک میں لپٹی ہمیشہ کے لئیے محفوظ پڑی ہو۔
اس "آپ" کے بارے میں غلط فہم کی بنیاد پر بطور ایک ٹھوس، دائم وستو کے، ہم سوچتے ہیں، مثلاً، " تم ہمیشہ سےایسے ہی ہو؛ تم ہمیشہ اپنی جرابیں فرش پر پھینک کر چل دیتے ہو!" اس غلط تصور اور ہماری اس کے متعلق لا علمی کہ اس کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں کی بنا پر ہم اس "چیز" کی منفی صفات، جو کہ بستر کی دوسری اور پڑی ہے اور ہمیں تنگ کر رہی ہے، کے بیان میں مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہیں۔ ان کے وجود کی حالت کے بارے میں ہماری لا علمی کے سبب ہم اس شخص کی عمدہ صفات کو بطور ایک بظاہر اعلیٰ "شے" کے بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں۔ پھر ہماری الجھن ہمیں اضطراری طور پر اس شخص کو چھونے پر مائل کرتی ہے۔ ہم انہیں نہائت پر کشش پاتے ہیں اس لئیے دست کشی سے مجبور ہیں۔ ہمارا موہ اس قدر شدید ہے کہ ہم اس شخص کا پیچھا نہیں چھوڑتے کہ اسے سونے دیں۔
پس اگر ہم لا علمی کے ان دو پہلووں سے نجات حاصل کر لیں جن سے ہم کسی شخص کو ایک ٹھوس اور دائمی چیز تصور کرتے ہیں، پھر یہ پریشان کن جذبات نہیں ابھریں گے۔ ہم محسوس کریں گے کہ یہ شخص ہر لمحہ رو بہ تغیّر ہے، مائل تغیّر ہے، اور قطعی طور پر پلاسٹک میں لپٹی کوئی ٹھوس شے نہیں ہے۔ جب ہمیں یہ بات سمجھ آ جاۓ تو پھر ہم اس کو وہاں پڑی کوئی ایسی شے جس میں دیرپا خوبیاں پائی جاتی ہوں نہیں مانتے، ایسی خوبیاں جن کے بارے میں ہم مبالغہ آرائی یا تصنّع کے مرتکب ہوں۔ ہم ان کی اچھی اور بری صفات کی پہچان کے قابل ہو جائں گے اور یہ بھی جان لیں گے کہ ہر انسان میں مثبت اور منفی باتیں ہوتی ہیں۔ ہم نہ تو ان کے بیان میں مبالغہ آرائی سے کام لیں گے اور نہ ہی ان سے انکار کریں گے۔ اس بنیاد پر، ہم ایک سنجیدہ، مہربان اور پیار بھرے انداز سے جس میں برداشت، صبر اور مفاہمت وغیرہ شامل ہوں تعلق استوار کر سکتے ہیں۔ ہم نہ تو کسی سے چمٹ رہے ہوں گے اور نہ ہی کسی سے ناراض ہوں گے۔
مشینوں سے لگاؤ اور ان پر غصہ
ٹیپ ریکارڈر کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے، بالکل ویسے ہی۔ اس سے دل لگانے یا اس پر ناراض ہونے کے پس پشت کونسا جذبہ کار فرما ہے؟ سب سے اول، ہم اس کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں، یہ سوچ کر، "میں نے اس پر بہت سا پیسہ خرچ کیا" اور یہ رہی وہ، وہ شے جس کے گرد موٹی ٹھوس لکیر ہے۔ پھر ہم اس کی بڑھا چڑھا کر تعریف کرتے ہیں، " یہ درس کو ریکارڈ کرنے کے لئیے مکمل طور پر قابلِ بھروسہ ہے،" اور اس طرح ہم اس کے معتمد ہو جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ ہم درس پر پوری توجہ ہی نہیں دیتے اور نہ ہی نوٹس لیتے ہیں، کیونکہ ہم ریکارڈر کو نقص سے مبرّا اور پائدار سمجھتے ہیں کہ یہ ہمیشہ صحیح کام کرے گا۔ اور اگر یہ ایسا نہ کرے تو ہم اس پر سخت ناراض ہوتے ہیں۔
لیکن بالآخر یہ ایک مشین ہی تو ہے۔ یہ مختلف پرزوں سے بنی ہے اور پرزے گھس بھی جاتے ہیں؛ کوئی شے دائم نہیں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ بخوبی ریکارڈ کر سکتی ہے، لیکن کبھی کبھار یہ کام نہیں کرتی۔ یہ محض ایک مشین ہے۔ بیٹری ختم ہو سکتی ہے، وغیرہ وغیرہ۔ اگر ہم اس بات کو سمجھتے ہیں تو بیٹری کے ختم ہو جانے پر ہم کوئی طوفان کھڑا نہیں کر دیں گے۔ ہم اسے استعمال کرنے سے پہلے معقول اقدامات اٹھائں گے کہ مشین ٹھیک کام کر رہی ہے، بیٹریاں چارج کی ہوئی ہیں، وغیرہ۔ لیکن اگر کسی وجہ سے یہ کام نہ کرے تو ہم غصہ میں نہیں آ جاتے۔ ہم نوٹس لیتے ہیں: ہم پوری طرح اس مشین کے غلام نہیں بن جاتے۔
یہ خاصا دلچسپ امر ہے کہ ہم مشینوں کے متعلق ایسے پریشان کن جذبات رکھتے ہیں، جیسا کہ یہ ٹیپ ریکارڈر، اور خاص طور پر ہمارے جدید دور میں، کمپیوٹروں کے متعلق بھی۔ اگر یہ ہمارا مطلوبہ کام نہ کرے تو ہم سخت ناراض ہوتے ہیں۔ ہم سوچتے ہیں کہ "یہ اپنی مرضی کا مالک ہے۔" چھوڑو، احمقوں جیسی بات نہ کرو۔ ہم سوچتے ہیں، "یہ یہاں موجود ہے اور اسے کام کرنا چاہئیے،" بہر حال، اسے بے عیب ہونا چاہئیے۔ لیکن یہ محض ایک مشین ہے اور پرزوں سے بنی ہے؛ اور اسے انسانوں نے بنایا ہے جو غلطی کر سکتے ہیں، اور جو ہر کام بالکل صحیح کرنا نہیں جانتے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم کمپیوٹر یا ٹیپ ریکارڈر کو استعمال نہ کریں۔ ہم اسے اس کی حد درجہ افادیت کی بنا پر استعمال میں لاتے ہیں، مگر اگر یہ درست کام کرے تو ہم اس سے دل نہیں لگا بیٹھتے؛ اور اگر یہ ہمارے حسبِ منشا کام نہ کرے تو ہم اس پر ناراض نہیں ہوتے۔ یوں ہمارا اس کے متعلق رویہ متوازن اور صحتمند رہتا ہے۔ یہ آسان کام نہیں ہے خاص طور پر جب مشین کافی قیمتی ہو۔
کسی کی آرزو اور اس سے موہ سے نبرد آزمائی کے عارضی طریقے
بدھ مت میں ہمارے پریشان کن جذبات سے نمٹنے کے طریقوں کے دو درجے ہیں۔ ایک تو وہ وقتی اور عارضی طریقے ہیں جو ہمیں بجا طور پر چیزوں کے متعلق ان کی ضمنی حقیقت سے آگاہ کرتے ہیں، اور دوسرے وہ حتمی یا غائرانہ طریقے ہیں جن کے لئیے اس شے کے متعلق عمیق ترین فہم درکار ہوتی ہے جس کی جانب پریشان کن جذبے کا رخ ہوتا ہے۔ غائرانہ طریقوں سے واقفیت کی خاطر بہت سا مطالعہ اور تفکر درکار ہے، لیکن چونکہ عارضی طریقوں کو سمجھنا اور ان کا اطلاق آسان ہے، تو ہم پہلے ان کی تربیت لیتے ہیں اور انہیں کام میں لاتے ہیں۔ آئیے ہم ان عارضی طریقوں کی چند مثالوں کا جائزہ لیتے ہیں۔
جسم کے اندر جو ہے اس پر غور کرنا
اگر ہم کسی سے موہ لگاۓ بیٹھے ہیں اور اس کے شیدائی ہیں اور خاص طور پر اگر ہم اس پر فریفتہ ہیں اور اس انسان کے جسم کے حسن کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں، یا یہ کہ ہم اپنے ہی شریر پر عاشق ہیں، تو ہم جس چیز پر مراقبہ کرتے ہیں اسے عموماً "جسم کی بد صورتی" کہا جاتا ہے۔ لفظ "بد صورتی" ویسے ہی نا گوار لفظ ہے۔ یہ کوئی اچھا لفظ نہیں ہے۔ تو میرے خیال میں ہم یہاں لفظ "بد صورتی" کے بغیر ہی کام چلا سکتے ہیں، بلکہ لفظ "کثافت" کے بغیر بھی جو کہ کبھی کبھار اس ضمن میں استعمال ہوتا ہے۔ یہ دونوں الفاظ دور حاضر کے معاشروں میں خاصا غیر صحتمند تصور پیش کرتے ہیں جہاں کمتر عزت نفس کی اصطلاح بھی مقبول عام ہے۔ اس کے بجاۓ، آئیے ہم انسانی شریر کا مطالعہ کرتے ہیں، کسی کے شریر کا یا ہمارے اپنے شریر کا، اس نکتۂ نظر سے جس پر ہم بات کر رہے ہیں، تا کہ اس کی ضمنی حقیقت کو جان سکیں۔
ہم یہاں ایک بستے کی مثال لیتے ہیں۔ ایک بستہ یا پارسل کسی چیز میں لپٹا ہوتا ہے، فرض کیجئیے کوئی تحفہ جو تحفہ کے کاغذ میں لپیٹا گیا ہو۔ اور پھر اس کے اندر جو کچھ موجود ہے۔ اسی طرح ہمارا جسم یا کسی اور کا جسم جلد کے پردے میں ملبوس ہے، اور یہی ہمیں باہر سے نظر آتی ہے۔ پس ہماری جلد خوبصورت پیکیجنگ کی مانند ہے۔ جس طرح ایک تحفہ کو نفیس، قیمتی کاغذ میں ربن وغیرہ لگا کر لپیٹا جا سکتا ہے، اسی طرح جسم کو بھی زیادہ جاذب نظر بنانے کے لئیے خوبصورت اور قیمتی لباس پہنایا جا سکتا ہے۔ مگر لباس بھی پیکیجنگ ہی ہے۔ دکان میں کسی شے کو پر کشش بنانے کی خاطر اس کے صنعت کار اس شے کے پیکیج کے ڈیزائن پر بہت محنت کرتے ہیں اور جاذب نظر اشتہار بھی شامل کرتے ہیں۔ اسی طرح بہت سارے لوگ میک اپ، بالوں کے عمدہ انداز اور خوشبو سے اپنی جلد کو مزید تر پر کشش بنانے کی کوشش کرتے ہیں، یا جسم پر نقش و نگار بنا کر اور اسے چھید کر جاذب نظر بناتے ہیں۔
لیکن کوئی پیکیج محض ایک لپیٹنی کاغذ ہی نہیں ہوتا؛ اس کے اندر اشیا، مال بھی ہوتا ہے۔ کسی جسم کے پیکیج کے اندر ایک ڈھانچہ، عضلات اور انگ وغیرہ بھی ہوتے ہیں۔ اگر معدے کے مشمولات باہر واپس آ جائں تو انہیں ہم قے کہیں گے۔ انتڑیوں کے اندر فضلہ ہوتا ہے، مثانے میں پیشاب، اور تمام رگوں اور شریانوں میں خون پایا جاتا ہے۔ یہ حقیقت ہے؛ یہ اس جلد کے اندر مشمولات کی حقیقت ہے۔ ہم اس سے انکار نہیں کر سکتے۔ اگر ہم معدے سے تمام قے، منہ سے تمام تھوک، ناک سے تمام مخاط، انتڑیوں سے تمام فضلہ، مثانے سے سارا پیشاب، اور شریانوں اور رگوں سے تمام خون نکال لیں اور ہمارے پاس محض جِلد رہ جاۓ، تو یہ ہمارے محبوب کا ہمارا من پسند روپ نہیں ہو گا، ہے نا؟ ہمارے محبوب کا حقیقی روپ مکمل پیکیج پر مبنی ہے۔ ہم اپنے محبوب کی جِلد، جس میں کپاس یا اور کوئی ایسی چیز بھری ہو، قدرت کی تاریخ کے کسی عجائب گھر میں کسی شے کی مانند، کے طلب گار نہیں ہیں۔ ہم اس شخص کو زندہ دیکھنا چاہتے ہیں، لہٰذا جو کچھ پیکیج کے اندر ہے یہ اس کی حقیقت ہے، خواہ ہمیں پسند ہو یا نہ ہو۔
تو اب یہ بات بہت دلچسپ ہو گئی ہے کہ ہم خوبصورت کسے کہتے ہیں اور بد صورت کیا ہے؟ ہمارے نزدیک لطیف کیا ہے اور کثیف کیا ہے؟ بعض کے نزدیک جِلد بہت سندر ہے اور قالب بھدا ہے، لیکن قالب میں بھدا پن کیا ہے؟ یہ محض ایک ڈھانچہ ہے۔ اور اگر ہم کسی ہسپتال میں کسی عمل جراحت کو دیکھیں اور جسم کے اندرونی مشمولات کو دیکھیں، تو اس میں بد صورتی یا نا گواری کس بات کی ہے؟ یہ محض ہمارا رویہ ہے، ہے نا؟ بے شک جو ڈاکٹر اس پر جراحی کرتے ہیں انہیں یہ بد صورت اور نا روا نہیں لگتا۔ یہ محض وہ کچھ ہے جو جسم کے اندر ہے۔
عمدہ صفات جیسے حُسن کی مبالغہ آرائی سے پرہیز
مقصد تو یہ ہے کہ عمدہ صفات کی مبالغہ آرائی نہ کی جاۓ، بلکہ عمدہ صفات تو ویسے بھی ضمنی اور جانبدارانہ ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر، کوئی شخص جو میرے نزدیک بہت حسین ہے وہ آپ کے نزدیک بالکل ایسا نہیں ہے۔ یا کوئی انسان جسے میں بد صورت گردانتا ہوں، آپ کے نزدیک وہ بہت سندر ہو سکتا ہے۔ یہ قطعاً جانب دارانہ بات ہے۔ پس اگر ہم کسی کی جلد اور ان کےجسم کی وضع قطع کو پر کشش پاتے ہیں، تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ اصل بات اس کی مبالغہ آرائی سے پرہیز ہے۔ اس شخص کو دیکھ کر ہمارے مسرور محسوس کرنے میں کوئی خرابی نہیں ہے۔ ہم ان کی وضع قطع کو پسند کرتے ہیں؛ انہیں دیکھ کر ہمیں خوشی محسوس ہوتی ہے۔ مشکل تب پیدا ہوتی ہے جب ہم اس کے متعلق مبالغہ آرائی کرتے ہیں، اور پھر یہ محسوس کرتے ہیں، "مجھے ان کے جسم کو ہر دم چھوتے رہنا ہے؛ میں جب بھی ان سے ملوں مجھے ہر بار ان سے بغل گیر ہونا ہے؛ اسے ہر وقت میرے پہلو میں ہونا لازم ہے۔" یہ اصل مسٔلہ ہے۔ اگر کوئی اور اس شخص کو چاہت بھرے انداز سے دیکھے، تو ہم بہت ناراض ہوتے ہیں: "یہ انسان اور اس کا شریر میری ملکیت ہے۔" ہمیں سڑک پر کئی نہائت خوب رو لوگ نظر آتے ہیں۔ یہ محض تب پریشانی کا سبب ہوتا ہے جب ہم اضطراری طور پر سوچنے لگتے ہیں، "کاش میں اس شخص کو چھو سکتا، یا اس کے ساتھ یہ یا وہ کام کر سکتا۔" اس سے ہم جذباتی طور پر بہت پریشان ہوتے ہیں۔
اگر ہم سچ مچ پیکیجنگ کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملانا شروع کر دیں – وہ شخص دیکھنے میں کیسا لگتا ہے – تو پھر ایک ایکسرے جیسی نظر استوار کرنا اور اس شخص کے قالب کو تصور میں لانا نہائت کار آمد ہو گا۔ ایسا کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے خاص طور پر اگر ہم یہ جانتے ہوں کہ کوئی ڈھانچہ دیکھنے میں کیسا لگتا ہے۔ یہ کوئی علم تشریح الاعضا کا سبق نہیں ہے؛ اس کا کامل ہونا ضروری نہیں۔ لیکن ہم کھوپڑی جو کہ چہرے اور سر کی جلد کے نیچے ہوتی ہے کا تصور تو کر سکتے ہیں۔ اس سے ہمیں متانت پانے میں مدد ملتی ہے۔ یا اگر ہم کسی کے پیٹ پر پیار سے ہاتھ پھیر رہے ہیں یہ سوچتے ہوۓ، "یہ کتنا شاندار ہے،" تو ذرا غور کریں کہ اگر ہم تین یا چار سینٹی میٹر جلد کے نیچے جائیں تو ہم کس شے پر ہاتھ پھیر رہے ہوں گے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ پھر ہم اظہارِ نفرت کریں گے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب ہم کسی کے جسم پر ہاتھ پھیر کر لطف اندوز ہوں تو ہمیں اسے کوئی بڑی بات نہیں سمجھنا چاہئیے۔ ایسے طریقے استعمال میں لانے سے ہمارا جذباتی توازن قائم رہتا ہے۔
یہ بیان کردہ طریقے محض عارضی حل ہیں؛ ان کی مدد سے ہم آرزو یا لگاوٹ سے جان نہیں چھڑا سکتے۔ البتہ وقتی طور پر یہ ان پریشان کن جذبات کو ہلکا کر دیتے ہیں جو بعض حالات میں ابھرتے ہیں۔ ان سے سچ مچ جان چھڑانے کے لئیے، ہمیں یہ جاننا ضروری ہے کہ انسان کا وجود کیسے وقوع پذیر ہے اور یہ کہ انسان کو کوئی "چیز" تصور نہ کیا جاۓ۔ لیکن یہ بہت مشکل اور ترقی یافتہ مرحلہ ہے۔ لہٰذا ہم پہلے یہ عارضی طریقے آزماتے ہیں۔ اُس کے لئیے ہمیں سہ درجاتی سلسلہ جس میں سننا، سوچنا اور مراقبہ کرنا شامل ہیں اپنانا ہے۔
طرزِ عمل کو سننا اور اس پر غور کرنا
سب سے اول ہمیں طریق کار کے بارے میں سن کر جانکاری لینا ہو گی۔ اگر ہم کسی شخص سے ان کے شریر اور ان کی شکل و صورت کی بنا پر موہ لگاۓ بیٹھے ہیں، تو اس طریق کار میں اس بات کو دھیان میں رکھنا شامل ہو گا کہ جِلد کے نیچے کیا ہے، مثلاً ڈھانچہ اور جو کچھ معدے کے اندر ہے۔ اس طریقے کو جان لینے کے بعد، ہمیں اس کو سمجھنے کی خاطر اس پر غور کرنا ہے اس بات کا یقین کرنے کے لئیے کہ اگر ہم پیکیج ہی نہیں بلکہ اس کے اندر بھی جو کچھ ہے کو دھیان میں رکھیں تو پھر ہم اس شخص کی آرزو اور اس سے چمٹے رہنے کو زیادہ اہمیت نہیں دیں گے۔ ہمارے اس شخص کے ساتھ تعلق میں اور خود ہمارے جذباتی ڈھانچے میں کم مسائل پیش آئں گے۔
چار مسلمہ اصولوں کا اطلاق
یہ جو نقاط ہم نے ابھی سنے، ان پر غور کرنے کے لئیے ہمیں ان کا "چار اصولوں" کے پس منظر میں جائزہ لینا ہو گا۔ یہ کسی چیز کا تیقن حاصل کرنے کے چار طریقے ہیں۔
دلیل سے ثابت کرنے کا اصول
پہلے اصول کے تحت ہم تعلیمات کا جائزہ لیتے ہیں یہ دیکھنے کی خاطر کہ آیا وہ معقول اور منطقی ہیں۔ یہاں یہ بات عیاں ہے کہ انسان محض جِلد پر ہی مشتمل نہیں ہے۔ ہمیں یہ بات ثابت کرنے کی ضرورت نہیں۔ لیکن اگر ہم اسے منطق کی رو سے ثابت کرنا چاہیں تو یہ صاف ظاہر ہے کہ ایک جِلد کا تھیلا بغیر ڈھانچے کے کھڑا نہیں ہو سکتا۔ اگر ہم غذا کھاتے ہیں تو ہمارے معدے اور انتڑیوں کے اندر کچھ مواد کا ہونا قدرتی امر ہے۔ لہٰذا یہ تصور کہ انسان کا جسم محض جِلد ہی نہیں ہے استدلالی ہے، کیونکہ جلد کے نیچے کچھ نہ کچھ تو ہے۔
اصولِ تفاعل
پھر ہم یہ دیکھتے ہیں کہ کوئی شکشا اپنے مطلوبہ نتائج پیدا کرنے کے لئیے کیسے کام کرتی ہے۔ مثال کے طور پر، اگر ہم اس شخص کے جسم کے اندر اور باہر کے متعلق برابر علم رکھتے ہوں، تو اس جانکاری کی بدولت ہم ایک کی حد سے زیادہ تعریف اور دوسرے کی مذمت سے گریز کریں گے۔
ہم اس بات کا بھی جائزہ لے سکتے ہیں، کہ اگر کوئی اس قدر حسین اور دلکش ہے تو ہم محض اس کی جِلد کو ہی اتنا سندر کیوں محسوس کرتے ہیں؟ ہم ان کے معدے میں پائی جانے والی قے کو پر کشش کیوں نہیں مانتے؟ صاف ظاہر ہے کہ ہم ایسا نہیں کرتے۔ چنانچہ ان کے جسم کے دونوں پہلو، باہر اور اندر، کے بارے میں جانکاری کا حالتِ تفاعل میں ہونا ضروری نہیں کہ یہ ہمیں بیرون کو حسین پانے سے روکے یا ان کے حسن سے لطف اندوز ہونے کو برباد کرے۔ یہ محض لطف اندوزی کو صحیح پس منظر میں پیش کرتا ہے۔ یہ تو درست ہے کہ اس شخص کا جسم باہر سے خوبصورت ہے، لیکن اس کے اندر بھی بہت کچھ ہے اور ہر انسان ایسا ہی ہے۔
جب ہم ان باتوں پر غور کریں تو یہ کافی دلچسپ معاملہ ہے، ان پر یقین کرنے کے لئیے ان کے بارے میں سوچنا، کیونکہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ہم اس کو ماننا نہیں چاہتے۔ یہ سوچنا کہ اس شخص کے معدے اور انتڑیوں کے اندر کیا ہے اس کی ہم جذباتی طور پر مزاحمت کرتے ہیں۔ اسے دیکھنا بہت دلچسپ ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ حقیقت ہے؛ یہ سچائی ہے۔ تبتی لوگ نہائت صریح اور واضح اشکال پسند کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر آپ کسی فضلہ کے بڑے ڈھیر میں سے ایک خوبصورت، برہنہ انسانی مجسمہ تراشیں اور اس پر انسانی جلد کا رنگ پھیریں، تو خواہ یہ کتنا ہی سندر کیوں نہ ہو، ہے تو یہ گوبر کا ڈھیر ہی!
اس سمجھ کا تفاعل بھی یہی ہے کہ اگر میں کسی شخص کے جسم کے اندر اور باہر سے واقف ہوں تو یہ مجھے اس کے جسم کی آرزو اور لگاوٹ سے دور رکھے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ میں ایک سے منکر اور دوسرے کی مبالغہ آرائی کا مرتکب نہیں ہوں۔ پس یہ فہم کسی پر فریفتہ ہونے کے متماثل ہے۔ یہ فہم اس چیز کے مترادف ہے کہ کسی انسان کے ساتھ مستحکم، دیر پا تعلق قائم کرنا، جس میں پُر خلوص پیار اور صبر کے جذبات شامل ہوں، اس بات کا لحاظ کرتے ہوۓ کہ عمر رسیدگی کے ساتھ تبدیلیاں تو آتی ہی ہیں۔ اگر ہم ان کی موجودہ خوبصورتی کو حد سے زیادہ سراہیں، تو پھر جب وہ بوڑھے ہونے لگیں یا بیمار پڑ جائں اور ان کا حسن ماند پڑ جاۓ، تو ہم شائد کسی زیادہ حسین شخص کی تلاش شروع کر دیں۔ لیکن اگر ہم سوجھ بوجھ رکھتے ہیں اور اندر اور باہر کے حسن میں تبدیلی کی حقیقت کو سمجھتے ہیں، تو ایسی فہم و فراست اس شخص کے ساتھ ایک مستحکم، پیار بھرا تعلق قائم رکھنے کے مترادف ہو گی۔
چیزوں کی فطرت کا اصول
یہ کیسے ہوا کہ بعض لوگ دیکھنے میں تو خوبصورت ہیں، لیکن پھر بھی ان کے اندر ایک ڈھانچہ، فضلہ اور قے پائی جاتی ہے؟ یہ ان چیزوں کی فطرت ہے؛ ہم جان دار ہیں اور ہمارا جسم ان سب سے مل کر بنا ہے۔ ہمارے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ ہم اسے بطور حقیقت تسلیم کر لیں۔ جسم ایسے ہی کام کرتا ہے۔
محتاجی کا اصول
آخر میں ہم اس چیز کا جائزہ لیں گے کہ من کی اس حالت، اس ادراک کو استوار کرنے کا انحصار کس چیز پر ہے تا کہ ہم اسے پا سکیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہمیں کچھ ضبط نفس کی ضرورت ہے۔ جب ہم اس شخص کو دیکھیں تو ہمیں اس کے سارے جسم پر ہاتھ پھیرنے کی اضطراری احتیاج کو قابو میں رکھنا ہے۔ ہمیں ایسا ضبط نفس درکار ہے جس سے ہم ذرا تھم جائں اور تجزیہ اور دروں بینی کو کام میں لائں۔ اس ضبط نفس کی بدولت ہم زیادہ گہرائی میں اور شفاف طور پر دیکھ سکیں گے۔
مزید بر آں، ہمارے اندر ایسا کرنے کی خواہش اور وسعت نظر ہونی چاہئیے اور اس بات کا خوف نہیں ہونا چاہئیے کہ ہم اس شخص کو دیکھ کر اس قدر وحشت زدہ ہوں کہ ہم ان سے معاملہ ہی نہیں کر پائں۔ اس طریقہ کے درست اطلاق کے لئیے ان سب باتوں کا ہونا ضروری ہے۔ اگر ہمیں پہلے سے اس بات کا اندازہ ہو، تو ہم جانتے ہیں کہ ہم نے کیا تیاری کرنی ہے۔
مراقبہ
ایک بار جب ہم سوچ بچار کے اس سلسلہ سے گزر جائں، جس کا مطلب اس سبق کو سمجھنا اور اس امر کا تیقن حاصل کرنا ہے کہ اسے استوار کرنا فائدہ مند ہے، اور یہ ایک ایسی چیز ہے جسے ہم پروان چڑھانا چاہتے ہیں، تو پھر ہم اس پر "مراقبہ" کرتے ہیں۔ مراقبہ وہ طریقہ ہے جس سے ہم سیکھی ہوئی تعلیمات جنہیں ہم نے سمجھا ہے اور جن پر ہم یقین رکھتے ہیں کو اپنی زندگی میں ضم کرتے ہیں۔ ہم اس پر سوچنے کی عادت ڈال کر اور اس کی نصیحت پر عمل کر کے اس کو ایک سود مند عادت کی شکل میں استوار کر کے اپنی زندگی کا حصہ بنا لیتے ہیں۔
یہ ایک دوہرا سلسلہ ہے۔ پہلے ہم 'بصیرت افروز' مراقبہ کرتے ہیں، جسے بعض اوقات "تجزیاتی مراقبہ" بھی کہتے ہیں۔ ایک با ضابطہ حالت میں، دوسرے لفظوں میں، ہم اکیلے نشست زدہ، ہمارے سامنے والے شخص سے نہیں، بلکہ ایسے انسان سے جس سے ہمیں لگاوٹ ہے، مثلاً ان کی ظاہری شکل و صورت سے، معاملہ کرتے ہیں۔ ہم اس شخص کی تصویر یا محض ان کے تصور سے معاملہ کرتے ہیں، اور پھر ہم تفتیش کرتے ہیں، "ہاں، اس کا ایک ڈھانچہ ہے، اور ہاں، اس کے معدے میں بھی کچھ ہے." ہم ان کے جسم کو شفاف دیکھتے ہیں، اور ان کے قالب، معدے کے مشمولات وغیرہ جو بھی ان کی جلد کے نیچے ہے کا تصور کر کے ہم ان کے جسم کا ادراک کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس میں یہ سب کچھ موجود ہے۔ اس طرح ہم اپنے آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ یہ تصور سچ ہے۔ یہ ایک طرح کا ایکسرے دیکھنے والی بات ہے، مگر اس میں اس شخص کا بیرونی حلیہ بھی شامل ہے، جو کہ در حقیقت سندر ہو سکتا ہے۔ ان کے جسم کے اندر جھانکنے سے ان کی روائتی، ظاہری خوبصورتی میں کوئی کمی نہیں آ جاتی۔
اس بصیرت افروز مراقبہ کے دورانیہ کے بعد، جس کے دوران ہماری شکتی کا رخ اس شخص کے شریر کی جانب تھا جو ہماری توجہ کا مرکز ہے، ہم 'استقامت بخش' مراقبہ کی جانب رُخ کرتے ہیں۔ اس دوسرے مرحلہ میں ہمارے من کی شکتی کا رخ اندر کی جانب ہوتا ہے، جب کہ ہم اس بصیرت کو جو ہم نے کوشش سے حاصل کی ہے بخوبی اپنے اندر بٹھاتے ہیں۔ ہم سچ مچ ایسا محسوس کرتے ہیں، "ہاں یہی حقیقت ہے؛ اس شخص کے جسم کے اندر اور باہر کے متعلق یہی سچائی ہے۔ ہاں، یہ سچ ہے۔" اور اگر ہم اس شخص کو محض اس کے جسم کے حوالے سے پہچانتے ہیں، ہم اپنے آپ کو یاد دہانی کراتے ہیں کہ اس شخص کا بھی من ہے، جذبات ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ لیکن یہ مراقبہ کا ایک اگلا موضوع ہے۔
روز مرہ زندگی میں اس طریقہ کا استعمال
ایک بار جب ہم اس طریقہ کے اطلاق سے شدید آرزو اور لگاوٹ سے نبرد آزمائی سے مانوس ہو جائں، ایک بار جب یہ ہماری عادت بننا شروع ہو جاۓ، تو پھر ہم یہ گر اپنی روز مرہ زندگی میں آزمانا شروع کر دیں گے۔ ہم ان کا استعمال بوقتِ ضرورت کریں گے، اس وقت جب ہمارے دل میں ان کے لئیے شدید آرزو پیدا ہو، یا ان کے جسم کو پیار سے تھپتھپانے کی خواہش جنم لے۔ جب ہم اپنے محرکات کا جائزہ لیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ ہم اس شخص کے جسم کو اس لئیے نہیں چھوتے کہ انہیں کس قسم کی آسودگی یا مالش یا ایسی کسی چیز کی ضرورت ہے، بلکہ اس لئیے کہ ہم بذات خود بہت چمٹنے کے عادی ہیں۔ اس موقع پر ہم وہی جسم کے متعلق بصیرت افروز طریقہ استعمال کرتے ہیں جس کی ہم نے مراقبہ میں مشق کی ہے۔ ہم اس بات کا ادراک کرتے ہیں کہ ان کا ایک ڈھانچہ ہے اور ان کے معدے میں قے ہے اور یہی ان کا صحیح قالب ہے، اور ہم اسے بطور ایک حقیقت کے محسوس کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اس کے نتیجہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارا من اس معاملہ میں زیادہ صاف ہے کہ کیا مناسب ہے اور کیا نہیں ہے۔ مگر پھر بھی، بہر حال ہم یہاں ایک عارضی طریقہ استعمال کر رہے ہیں۔ تو اگر پھر بھی ہم اس شخص کو چھونے کی تمنا کرتے ہیں، اس کا ہاتھ ہاتھ میں لینا چاہتے ہیں، تو ہم محسوس کرتے ہیں کہ ہم یہ کام اس لئیے کر رہے ہیں کیونکہ اس سے ہمیں راحت ملتی ہے۔ ایسا نہیں کہ اس شخص کو ان چیزوں کی ضرورت ہے۔ البتہ اس مراقبہ کو اس وقت کام میں لانے سے ہم اپنے فعل کی مبالغہ آرائی سے بچ جاتے ہیں۔ اس سے ہمیں اس بات کا بھی پتہ چلتا ہے کہ آیا اس سے اُس شخص کو بھی راحت ملے گی یا نہیں، کیا انہیں ہمارا یہ فعل پسند ہے؟ اور اگر ایسا نہیں ہے تو ہم انہیں چھونے سے گریز کے معاملہ میں بہتر طور پر ضبط نفس کو کام میں لانے کو تیار ہیں۔
آخر کار، ہماری اس متوازن اور احساس مند انداز میں عمل کاری فطری اور اضطراری ہو گی: ہم مبالغہ آرائی نہیں کر رہے، ہم کسی سے چِمٹے ہوۓ نہیں ہیں، وغیرہ۔ اس کے نتیجہ میں، دوسرا شخص بھی اسے محسوس کرے گا، بشرطیکہ وہ ہمارے لئیے کچھ احساس رکھتے ہوں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر ہم ہمیشہ ان کا ہاتھ پکڑیں کیونکہ ہم خود عدم تحفظ اور تنہائی کا شکار ہیں، اور ہم یہ سوچتے ہوں کہ ان کا ہاتھ ہاتھ میں لینے سے ہم راحت محسوس کریں گے، کہ اس سے ہمارے مسائل حل ہو جائں گے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اس پریشان کن ارتعاش اور اس لگاوٹ کا شکار ہیں۔ یہ دوسرے انسان کے لئیے آسودگی کا باعث نہیں ہے۔ اگر ان کے اندر ذرا سا بھی احساس ہے تو وہ اسے محسوس کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر ہم جسمانی لمس کی لذت کو مبالغہ سے نہ بیان کریں، تب ہم محسوس کرتے ہیں، "اچھا تو یہ کسی کا ہاتھ پکڑنا؛ یہ احساسِ لمس خوش کن ہے؛ میں جانتا ہوں کہ ان کے ہاتھ کے اندر کیا ہے، ہڈیاں وغیرہ،" تو یہ ایسے نہیں ہے "اُوو! یہ کیسی زبردست بات ہے!" اس کی بجاۓ، اگر ہم یہ محسوس کریں، "یہ بڑھیا بات ہے اور اس سے مجھے کچھ راحت ملتی ہے، مگر اس سے میرے سارے دنیوی مسائل حل نہیں ہوں گے،" تو پھر ہم اس کے متعلق پر سکون ہوں گے۔ یہ رویہ بے ساختہ ہے، فطری ہے، اور دوسرا شخص اس میں تصنّع محسوس نہیں کرتا؛ وہ بھی اس سے پر سکون محسوس کرتے ہیں۔ اور یہی ہمارا مدعا ہے۔ ہمارا مدعا یہ نہیں ہے کہ "کسی کو ہاتھ مت لگاؤ کیونکہ ہر کوئی فضلہ سے بھرا ہوا ہے،" یہ ہمارا مقصد نہیں ہے۔ یہاں ہم توازن کی تلاش میں ہیں، تا کہ پھر ہم سچ مچ لوگوں کے بھلے کے لئیے کام کر سکیں۔
جب ہم اس طرح کے طریقوں کے بارے میں اعلیٰ بودھی صحیفوں میں پڑھتے ہیں، جیسا کہ شانتی دیو کے 'بودھی ستوا اطوار کو اپنانا' تو ہمیں اس پس منظر کو سمجھنا اور اسے پیش نظر رکھنا چاہئِے جس میں شانتی دیو اس موضوع کو زیر بحث لاتا ہے۔ یہ من کا استحکام اور ارتکاز حاصل کرنے کے سلسلہ میں ہے۔ مراقبہ میں سب سے بڑا خلفشار یہی ہے کہ انسان مستقل اس شخص کے متعلق سوچتا رہے جس کے لئیے اس کے دل میں شدید آرزو اور لگاوٹ پائی جاتی ہے۔ یہ ارتکاز میں حائل سب سے بڑا عنصر ہے۔ لہٰذا من کی استقامت اور ارتکاز حاصل کرنے کی خاطر، خاص طور پر کسی مراقبہ میں، ہمیں اس طریقہ کو استعمال میں لانا چاہئیے، خواہ ہم اس شخص کے ساتھ نہ بھی ہوں جس کے لئیے ہم ایسی کشش محسوس کرتے ہیں۔ صحائف میں ان طریقوں کا ذکر اس پس منظر میں کیا گیا ہے۔
لیکن ان طریقوں کا اطلاق اس دائرہ کار جس میں ہم مراقبہ کے ذریعہ ارتکاز حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں سے باہر بھی ہوتا ہے۔ ان کا اطلاق دوسرے لوگوں کے ساتھ ہمارے روز مرہ معاملات میں بھی ہوتا ہے۔ جب ہم شدید آرزو اور لگاوٹ سے نبرد آزمائی کے طریقوں کے متعلق صحیفوں میں پڑھتے ہیں، تو ہمیں ان کے وسیع تر اطلاق کے متعلق سوچنا چاہئیے نہ کہ محض ان کے استعمال کو ارتکاز کے مراقبہ میں خلفشار سے نمٹنے تک محدود رکھا جاۓ۔
صحیفوں میں دوسرے پریشان کن جذبات مثلاً غصہ، حسد وغیرہ سے نبرد آزمائی کے طریقوں کے مفصل تجزیہ اور بیان کا ذکر بھی شامل ہے، مگر یہاں ہمارے پاس اتنا وقت نہیں کہ ہم ان پر بات کر سکیں۔ لیکن میرے خیال میں یہ مثال کہ کسی شخص کے ظاہری حلیہ اور شکل صورت کی بنا پر ان سے لگاوٹ اور ان کی شدید آرزو سے نبرد آزمائی سے ہمیں اس میں شامل طریق کار کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔
عدم تحفظ سے نبرد آزمائی
اگر ہم ذرا غور سے دیکھیں تو ہمیں پتہ چلے گا کہ کسی شخص کے لئیے ہماری لگاوٹ اور شدید آرزو کے پس پشت ہمارا اپنا احساس عدم تحفظ ہے۔ تحفظ کی تلاش میں ہم امید کرتے ہیں کہ یہ ہمیں اس شخص کے ساتھ تعلق استوار کرنے سے مل جاۓ گا۔ عدم تحفظ، بطور ایک شدید پریشان کن جذبہ کے، خوف، تنہائی وغیرہ سے جِلا پاتا ہے۔ ہم اس سے کیسے چھٹکارا پائں؟
اس کے لئیے ہمیں عمیق ترین حقیقت کو سمجھنا ضروری ہے، "میں" کے متعلق عمیق حقیقت کو – یعنی کہ "میں" نام کی کوئی ٹھوس شے موجود نہیں ہے جو پلاسٹک میں لپٹی ہوئی ہو، ہر شے اور ہر انسان سے الگ تھلگ، جسے تحفظ دیا جا سکتا ہے۔ ایسی کسی شے کا وجود نہیں جسے محفوظ بنایا جا سکے۔ ہم کسی ایسی چیز کو محفوظ کرنا چاہ رہے ہیں جو کہ ہمارے اصلی وجود کا مبالغہ آمیز روپ ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہم ہر دم رُو بہ تغیّر ہیں؛ ہمارے من کی حالت ہر وقت بدل رہی ہے، ہمارا جسم مستقل تبدیل ہو رہا ہے، ہمارے جذبات بھی ہر دم بدل رہے ہیں۔ روائتی طور پر ہم اس سب پر "میں" کا لیبل چسپاں کرتے ہیں، لیکن یہاں کوئی ٹھوس "میں" نہیں ہے جو کہ ان سب سے الگ وجود رکھتی ہو، اور جسے محفوظ بنانے کی ضرورت ہے۔ یہ سب کچھ ہر لمحہ رُو بہ تغیّر ہے۔
اگر ہر وہ شے جس پر روائتی طور پر "میں" کا لیبل لگا ہوا ہے ہر دم رُو بہ تغیّر ہے، تو ہم اتنا ہی کر سکتے ہیں کہ ایک واضح اور محفوظ راہ اختیار کریں – جس کو پناہ کہا جاتا ہے – اور جس سمت ہم جا رہے ہیں۔ اس محفوظ راہ کو استوار کرنے کا حقیقی مطلب ہے کہ مزید مثبت اطوار پروان چڑھانا، اپنے آپ کو بہتر بنانا وغیرہ۔ لیکن اس میں کوئی ایسی شے نہیں جسے محفوظ بنانا ہے؛ کوئی ایسی شے نہیں جس کا دفاع کرنا ہے۔ کسی چیز کا وجود آزادانہ، سب سے الگ تھلگ اور کسی اور چیز سے غیر متاثر نہیں ہے۔ اگر ہم اس بات کو اچھی طرح سمجھیں اور اس پر یقین رکھتے ہوں، تو پھر عدم تحفظ اور تنہائی کے مسائل دھیرے دھیرے دھیمے پڑ جائں گے اور حتٰی کہ غائب ہو جائں گے۔ سچ تو یہ ہے کہ ڈرنے کی کوئی بات نہیں۔ لیکن ایک ٹھوس، پائدار "میں" کا تنقیدی تجزیہ کرتے وقت اس بات کی احتیاط کرنا اہم ہے کہ ہم عدمیت کے افکار کا شکار ہو کر یہ نہ سوچنے لگ جائں کہ ہمارا کوئی وجود ہی نہیں ہے اس لئیے ہمیں اپنے اعمال کی ذمہ داری لینا واجب نہیں۔ ہم اپنے اعمال کے نتائج کے متعلق وثوق سے تو کچھ نہیں کہہ سکتے مگر پھر بھی ہم اپنی پوری کوشش سے کام کرتے ہیں۔
یہ تو جذباتی عدم تحفظ سے نمٹنے کا معاملہ ہے، ویسے عدم تحفظ کی اور صورتیں بھی ہیں – مالی عدم تحفظ، وغیرہ۔ ان معاملات میں بھی ہمیں "میں" اور میری ذمہ داریوں کے متعلق ضمنی سچائی کو پہچاننا چاہئیے۔ ہمیں معاشی مسائل اور جو کچھ بھی اور مسائل در پیش ہوں کا ہر صورت تدارک کرنا چاہئیے تا کہ ہمیں روائتی معنوں میں تحفظ کا احساس ہو۔ لیکن ایسا کرتے وقت، جذباتی صورت حال کی مانند، ہمیں حالات کی حقیقت کو بڑھا چڑھا کر بیان کرنے سے گریز کرنا چاہئیے۔ ہماری معاشی حالت کی حقیقت یہ ہے کہ یہ مکمل طور پر ہمارے بس میں نہیں ہوتی۔ دنیا کے معاشی حالات کا ہماری مالی حالت، ہماری معاشرت، وغیرہ پر اثر پڑتا ہے۔ مثلاً اگر اشتراکی نظام ناکام ہو جاۓ اور نئی قسم کی حکومت بر سرِ اقتدار آ جاۓ اور نیا معاشرتی نظام تشکیل پاۓ، تو حالات بدل جائں گے۔ تو ایسی صورت میں جو چیز ہمیں استقامت اور تحفظ بخشتی ہے وہ محفوظ راہ ہے جس پر ہم گامزن ہیں اور مزید تر اوزار اکٹھے کر رہے ہیں جن سے ہم کسی بھی در پیش مشکل اور جو بھی مد مقابل آۓ اس سے نمٹ سکیں۔ ہم صرف ایک ہی صورت میں محفوظ محسوس کر سکتے ہیں اگر زندگی ساکت ہو اور کبھی نہ بدلے، کیونکہ تب ہم مستقبل سے با خبر ہوں گے، جو کہ ناممکن ہے۔
اس کے علاوہ ہمیں قانع ہونا چاہئیے، اس بات کی جانکاری رکھنا کہ کب اور کتنا کافی ہے۔ میں ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو لکھ پتی ہیں مگر پھر بھی عدم تحفظ کا شکار ہیں، ان کا کہنا ہے، "میرے پاس دس ملین ڈالر نہیں ہیں۔ اگر میرے پاس دس ملین ڈالر ہوتے تو میں محفوظ محسوس کرتا۔" ایسا مت بنیں۔ یہ من کی نہائت ناخوش حالت ہے۔
کیا لا علمی سے نجات ہمارے بس سے باہر ہے؟
آپ سوال اٹھا سکتے ہیں اور کہتے ہیں، "ہم محدود صلاحیتوں کے مالک لوگ ہیں؛ ہم مہاتما بدھ نہیں ہیں۔ لہٰذا ہم اپنے اعمال کے تمام اثرات اور نتائج سے با خبر نہیں ہو سکتے، اور نہ ہی ہم اپنے اور دوسروں کے متعلق حقیقت کو جان سکتے ہیں۔ تو کیا ہماری قسمت میں دکھ جھیلنا اور غمگین رہنا لکھا ہوا ہے؟ کیا ہم کبھی اپنی لا علمی اور الجھن سے نجات پا سکیں گے؟"
نہیں، یقیناً ہماری قسمت کا ستارہ ڈوبا ہوا نہیں ہے، کیونکہ لا علمی سے نجات ممکن ہے۔ یہ آسان کام نہیں ہے اور یہ کام طویل بھی ہے، لیکن من کی قوت ادراک باتوں کو سمجھنے اور انہیں یکجا اکٹھا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ تو ہم اپنی فہم و فراست کو وسعت دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم زیادہ سے زیادہ چیزوں کے بارے میں زیادہ سے زیادہ بصیرت حاصل کرنے کی جہد کرتے ہیں، تو اگرچہ ہم بالکل ٹھیک ٹھیک نہیں جانتے کہ ہمارے رویہ کا اثر کیا ہو گا، کیونکہ ہم تمام متعلقہ عناصر سے واقف نہیں ہیں، لیکن ہمارے علم میں مزید تر افزائش ہوتی چلی جاتی ہے۔ اس کی بنا پر، ہم کسی بھی صورت حال سے نمٹنے کے لئیے ایک ماہرانہ سوجھ بوجھ پر مبنی لائحہ عمل تشکیل دے سکتے ہیں جس کی بنیاد امکان اور تجربہ پر ہو، اور پھر اپنے آپ کو بہتر بنانے پر کام جاری رکھ سکتے ہیں۔
دوسرے لوگوں کے ساتھ معاملہ کرنے کی صلاحیت کو بہتر بنانے کی خاطر، ہم ان کے متعلق اور حالات کے متعلق زیادہ سے زیادہ معلومات اکٹھی کرتے ہیں۔ ہم ان کی عادات و اطوار کا مطالعہ کرتے ہیں؛ کہ اس شخص کا بطور عادت عام طور پر رد عمل وغیرہ کیا ہوتا ہے، اور اس صورت حال کی انفرادیت اور اس شخص کے انفرادی رویہ کا بھی جائزہ لیتے ہیں۔ اس بنیاد پر ہمیں کچھ اندازہ ہو جاتا ہے کہ اس شخص سے معاملہ کرنے میں کیا تدبیر اختیار کی جاۓ اور کیا کیا جاۓ۔
ہم سب کے اندر یہ صفات موجود ہیں، کیونکہ یہی من کی کاروائی کا اصول ہے۔ فطرتاً ہم اپنے گرد سے محسوسات سے ملنے والی تمام معلومات جمع کر لیتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ہم اس بارے میں با خبر نہ ہوں، ہو سکتا ہے کہ ہمیں اس میں دلچسپی نہ ہو، مگر حواس سے منسلک تمام معلومات موجود ہیں؛ اور یہ چلی آ رہی ہیں۔ ہم اس وضع اور ترتیب کو دیکھنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔ مثلاً ہم دیکھ سکتے ہیں کہ یہ تین انسان کون ہیں اور یہ کہ یہ خواتین ہیں، اور اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ مختلف چیزیں آپس میں کیسے منسلک ہوتی ہیں۔ ہم معلومات کو ترتیب دے کر اسے بہتر سمجھ سکتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ میرا دایاں ہاتھ میرا بایاں ہاتھ نہیں ہے، لہٰذا ہم چیزوں کی انفرادی حیثیت کو پہچانتے ہیں۔ مختلف چیزوں کے متعلق مختلف احساس بھی ہماری صلاحیت میں شامل ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ کسی طفل سے کیسے بات کرنی ہے اور کسی بالغ سے کیسے بات کرنی ہے، اور ہم دونوں سے ایک ہی انداز میں بات نہیں کرتے۔ ما سوا اس کے کہ ہم مکمل طور پر بے حس ہوں، ہمارے اندر یہ لچک پائی جاتی ہے۔ پس تمام بنیادی سامان موجود ہے۔
من کی کاروائی کے یہ مختلف طریقے، بر سبیل تذکرہ، ایسے عناصر ہیں جو "بدھا-فطرت" کا حصہ ہیں۔ ہم سب کے اندر یہ بدھا-فطرت خصوصیات پائی جاتی ہیں جو کہ ہمیں روشن ضمیر مہاتما بدھ بننے میں معاون ہوں گی۔ یہ محض ان کی نشاندہی کرنے اور ان کی عادت ڈالنے کی بات ہے۔
خلاصہ
مختصراً، ماہرانہ طریقوں کے استعمال کی تربیت لے کر ہم پریشان کن جذبات سے نبرد آزما ہوتے ہیں۔ ہر ایک پریشان کن جذبہ سے نمٹنے کے کئی ایک طریقے ہیں اور انہیں سیکھنا، ان کی مشق کرنا اور مختلف النّوع طریقوں کو آزمانا نہائت مفید ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہو سکتا ہے کہ بعض حالات میں کوئی ایک طریقہ اتنا موثر نہ ہو یا ہم خود اس کے استعمال کے بخوبی قابل نہ ہوں۔ لیکن اگر کچھ نعم البدل طریقے میسر ہیں، تو اس خاص صورت حال میں وہ زیادہ موثر ہو سکتے ہیں۔ یا جیسا کہ بعض اوقات کسی مرض کے علاج کے لئیے ہم مختلف ادویات بیک وقت استعمال کرتے ہیں، اسی طرح کسی شدید پریشان کن جذبہ سے نمٹنے کی خاطر ہمیں کئی ایک طریقے کام میں لانا پڑیں۔ لہٰذا ہم جتنی زیادہ تعلیم اور تربیت حاصل کریں، ہم اتنا ہی زیادہ مشکل اور دشوار حالات سے نبرد آزمائی اور ان سے بچنے کے اہل ہوں گے۔
اس کے لئیے شانتی دیو کی کتاب 'بودھی ستوا رویہ اختیار کرنا' نہائت مفید ہے، کیونکہ اس کا سارا بیان اس سوال پر مرتکز ہے، " میں کیوں پریشان کن جذبات کے تلے دبا ہوا ہوں؟ میں کیوں انہیں اپنے من میں اتنی آسانی سے بسا لیتا ہوں؟ یہ اصل دشمن ہے اور در حقیقت یہ بے جان ہے۔ اگر میں ان سے نجات پا لوں، انہیں اپنے من سے نکال دوں، تو وہ کہاں جائں گے؟ وہ یہ تو نہیں کر سکتے کہ وہاں کہیں کھڑے رہیں اور کسی عام دشمن کی مانند پھر مجھ پر حملہ کر دیں؛ ان کی کوئی ٹھوس حیثیت نہیں ہے۔" اس طرح سوچنا اور اس کے سچ ہونے پر یقین کامل رکھنا نہائت فائدہ مند ہے۔ اس سے ہمیں ان جذبات سے نجات حاصل کرنے کی ٹھوس بنیاد ملتی ہے۔ ان کے اثر تلے نہ آنے سے ہمیں اپنی زندگی کو بہتر بنانے کی ذمہ داری قبول کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔