سماجی چوپالیں اور پیغام رسانی کی لت

جائزہ

ہم دیکھ چکے ہیں کہ رویہ اور ذہنی تربیت میں ہمیں کن چیزوں سے واسطہ پڑتا ہے، جو ہمارا روزمرہ کی زندگی کا تجربہ ہے۔ ہم اپنی زندگی جیتے ہیں، اور خود ہر لمحہ گذارتے ہیں۔ اگر ہم فیس بک اور ٹوئٹر پر اپنی ہر بات مشتہر کریں بھی، تب بھی وہ ہم  ہی تو ہیں جو اس زندگی سے گذر رہے ہیں۔

آج کل، ایسا لگتا ہے کہ کئی لوگوں کو تقریباً لت لگ چکی ہے لفظی پیغام رسانی (text messaging) کی  اور اپنے احساسات و حرکات کو فیس بک اور ٹوئٹر پر ڈالنے کی۔ کیا فرق ہے کسی دوسرے کی زندگی کے روزمرہ معاملات کے متعلق پڑھنے میں، اور خود اپنی روزانہ کی زندگی میں؟ کچھ نہ کچھ تو فرق ہے خود اپنی زندگی کے تجربات میں، اور دوسروں کے اپنی زندگی کے تجربات میں، خصوصاً جب انہیں مختصر الفاظ میں بیان کیا جاۓ۔

ہمیں دوسروں سے اور ان کی زندگی میں گذرتے واقعات سے ذہنی ہمدردی ہوتے ہوۓ بھی ایسا احساس نہیں ہوسکتا جو ہمیں اپنی خوشی، ناخوشی اور اپنی زندگی کے تجربات سے  گذر کر ہوسکتا ہے۔ بالکل بنیادی سطح پر ہمیں اس سے روزمرہ کی زندگی میں سابقہ پڑتا ہے؛ کبھی ہم خوش ہوتے ہیں، اور کبھی رنجیدہ۔ کبھی کبھار ایسے بھی ہوتا ہے جیسے احساسات بالکل مفقود ہیں۔ اس امر کے باوجود کہ ہمیں ہر لمحہ خوش رہنا اچھا لگتا ہے، ہمارے موڈ میں ہمیشہ اتار چڑھاؤ آتا رہتا ہے اور یہ اس بات پر منحصر نہیں ہوتا کہ ہم کیا کررہے ہوتے ہیں۔ اکثر ایسا لگتا ہے جیسے ہمیں اپنے موڈ پر کوئی قابو ہی نہیں ہے۔ من کی تربیت کے ساتھ، ہم دیکھتے ہیں کہ جوں جوں اپنی زندگی کے لمحات و تجربات سے ہم گذرتے ہیں، اور جو ہورہا ہے یا کر رہے ہیں، ان سب صورتوں میں  کس طرح بہترین طریقہ پر نمٹ سکتے ہیں۔

ہم نے دو خاص نکات پر غور کیا ہے جو بہت اہم ہیں کہ ہم زندگی کے ساتھ کیسے پیش آتے ہیں: ہم اپنے احساسات کی اہمیت میں اور خود اپنی ذات کی اہمیت میں بڑا مبالغہ کرتے ہیں۔ مثلاً جب ناخوش ہوتے ہیں تو اسے ایک بڑی بات بنا دیتے  ہیں، جو اسے مزید بدتر بنا دیتا ہے۔ جب ہم خوش ہوتے ہیں تو اسے غیر یقینی سمجھتے ہیں، اور وہ بھی اسے مزید بدتر بنا دیتا ہے۔ جب ہم غیر متعین احساس رکھتے ہیں، تو پریشان خیال ہوجاتے ہیں کہ ہمیں ہر دم لطف اندوزی کی خواہش ہے۔ با سکون رہنے سے ہم مطمئن نہیں ہوتے، بلکہ چاہتے ہیں کہ ہر دم کچھ نہ کچھ چلتا رہے، چاہے ٹیلیویژن ہو یا موسیقی وغیرہ۔ کسی طرح کا ہیجان ہوتے رہنا چاہئے، جس سے زندہ ہونے کا پتہ لگتا رہے۔

میری ایک خالہ ہیں جو ہمیشہ ٹیلیویژن چلتا ہوا رکھ کرسوتی ہیں۔ واقعتاً وہ اسے چوبیس گھنٹے چلتا رکھتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں انہیں یہ اس لئے پسند ہے کہ اگر وہ دورانِ شب کچھ ہی دیر کے لئے جاگ پڑیں تو ٹیلیویژن کو چلتا پائیں۔ وہ سناٹے سے بہت خوفزدہ ہوتی ہیں۔ یہ کچھ عجیب و غریب ہی نہیں، بلکہ مجھے بالکل افسوسناک لگتا ہے۔

میں کیسے محسوس کرتا ہوں، یہ کچھ اہم نہیں

پہلی بات تو یہ دیکھنے کی ضرورت ہے، زندگی کے اتار چڑھاؤ پر اپنا نقطہ نظر بہتر کرنے کے لئے، کہ یہ بالکل اہم نہیں۔ اس میں کوئی خاص بات نہیں کہ ہم کسی بار خوش محسوس نہیں کرتے، تو کبھی بس ٹھیک ٹھاک محسوس کرتے ہیں، اور کبھی کبھار پُرسکون و پُرسکوت۔ یہ بالکل نارمل بات ہے۔ یہ سمندر کی لہروں کی طرح ہے، کبھی لہر اونچی ہو جاتی ہے، کبھی آپ لہروں کے درمیانی نشیب میں ہوتے ہیں، اور کبھی سمندر بالکل پُرسکون ہوتا ہے۔ یہ تو سمندر کی فطرت ہے، ہے نا، اور یہ کوئی بڑی بات نہیں۔ کبھی کوئی بڑا طوفان، اونچی اور متلاطم لہروں کے ساتھ، آیا ہوا ہو؛ لیکن جب آپ سارے سمندر پر، اس کی گہرائیوں سے اس کی بالائی سطح تک، غور کریں، تو دیکھیں گے کہ اس کی گہرائیوں پر کوئی فرق نہیں پڑا، پڑا کیا؟ یہ تو بس کچھ ایسا ہے جو سطح پر مختلف اسباب و حالات، جیسے موسم، کی بنا پر پیش آتا ہے۔ یہ کوئی حیرت انگیز بات نہیں۔

ہمارا ذہن بھی اس سمندر کی طرح ہے۔ ایسا سوچنا مفید ہے، یہ دیکھنا کہ بالائی سطح پر مسرت، غم، اِس جذبہ، اُس جذبہ کی اونچی نیچی لہریں تو ہیں، لیکن  نچلی گہرائیوں میں کوئی تلاطم نہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہمیں زیادہ باسکون اور زیادہ بامسرت ذہنی کیفیت حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے، کیونکہ طوفان سے تو یہ بہتر ہے۔ لیکن جب شدید جذبات و احساسات کا طوفان آ ہی جاتا ہے، تو ہمیں اسے مہیب طوفانِ باد و باراں نہیں بنانا چاہئے۔ ہمیں اس سے ویسا ہی برتاؤ کرنا چاہئے جس کا وہ مستحق ہے۔

بہت سے لوگ بودھی طور طریق کی پیروی کرتے ہیں اور سالوں بعد صحیح نتائج پاتے ہیں، طیش اور حسد میں نہ آنا، غیروں سے درشتی نہ برتنا، وغیرہ۔ پھر کئی برس بعد کوئی ایسا واقعہ پیش آجاتا ہے کہ وہ طیش میں آجائیں یا محبت میں گرفتار ہوجائیں کہ کسی جذباتی اتھل پتھل میں پڑجائیں، اور ان کی ہمت ٹوٹ جائے۔ اس کم ہمتی کا ماخذ یہ ہے کہ وہ "کچھ اہم نہیں" کے سارے سبق کو بھلا بیٹھتے ہیں، کیونکہ ہماری عادتیں اور رجحانات گہری جڑوں میں پیوست ہیں اور ان پر قابو پانے کے لئے بہت زیادہ وقت اور محنت درکار ہے۔ ہم عارضی طور پر تو اسے سنبھال سکتے ہیں، لیکن جب تک ہم اس بات کی تہہ تک نہ پہونچیں کہ ہمیں طیش کیوں آتا ہے تو وقتاً فوقتاً اس کی تکرار ہوتی رہے گی۔ جب اس کی تکرار ہو، تو ہم یقینی "کچھ اہم نہیں" پر غور کریں۔ ہم ابھی اتنے آزاد انفاس نہیں ہوۓ ہیں، تو لگاوٹ اور طیش دوبارہ بھی آسکتے ہیں۔ اسے ہم اگر بڑی بات بنالیں، تو ہم اسی میں پھنسے رہیں گے۔

تصور یہ ہے کہ اگر ہم یہ سمجھ لیں اور قائل ہوجائیں کہ ہمیں جو تجربات و احساسات ہوتے ہیں ان میں کوئی خاص بات نہیں، تو جو کچھ بھی ہو، کوئی غیر معمولی دروں بینی ہو بھی تو اس کا مقابلہ کریں گے۔ جب تاریکی ہو اور آپ کے پیر کا انگوٹھا میز کے پاۓ سے ٹکرا جاۓ، تو اس سے تکلیف تو ہوگی۔ آپ اور کیا توقع کرتے ہیں؟ یقیناً اس سے آپ کو تکلیف ہوگی جب آپ کا انگوٹھا میز سے ٹکراۓ۔ ہم جانچ کرواسکتے ہیں کہ کوئی ہڈی تو نہیں ٹوٹی، لیکن پھر اپنے معمول پر آجاتے ہیں۔ کوئی بڑی بات نہیں۔ اوپر نیچے اچھلنے اور یہ  توقع کرنے کی ضرورت نہیں کہ اماں آئیں اور اس جگہ بوسہ دے کر ٹھیک کردیں۔ تو ہم اپنی زندگی اس سادہ اور آسان طریقہ پر گذارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ چاہے کچھ ہوجاۓ یا کچھ بھی محسوس ہوتا ہو، چپ چاپ رہنا ہی مفید ہوتا ہے۔

میرے بارے میں کچھ بھی اہم نہیں

دوسرا نکتہ، دوبارہ،  مبالغہ بھی تھا۔ اس بار، اپنے احساسات کے بجاۓ، ہم اپنی ذات کی اہمیت پر زور دیتے ہیں۔ من کی تربیت کی تعلیمات کا اصل مرکزی موضوع یہ ہے، کیونکہ ہمارے مسائل اور مشکلات وغیرہ ایک وجہ سے پیدا ہوتے ہیں: خود پسندی۔ اس کا مطلب ہے کہ ہم ہمیشہ اپنے ہی میں غلطاں ہوتے اور اپنی "انا" پر ہی ساری توجہ مرکوز رکھتے ہیں، اور ہمیں بس اپنی ہی فکر ہے۔ اس میں خود پرستی کا ایک پہلو ہے، اور ساتھ ساتھ خودغرضی کا بھی۔ اس رویہ کو، اور دیگر باتوں کو جو ان سے منسلک ہیں، بیان کرنے کے بہت سے طریقے ہیں۔

جب ہم اپنے آپ کو  اہم قرار دے لیتے ہیں، تو یہی ہمارے مسائل کا منبع بن جاتا ہے۔ ہم سوچتے ہیں کہ "میں بہت اہم ہوں۔ اس لئے یہ بھی اہم ہے کہ میرا احساس کیا ہے"۔ اگر ہم بس "میں، میں، میں" ہی کے بارے میں متفکر ہوں تو پھر اس "میں" کی خوشی یا ناخوشی یا اس کے عدم احساس کے بارے میں ہی پریشان ہونگے۔

ہم اپنے احساسات سماجی چوپالوں پر کیوں ظاہر کرتے ہیں؟

بدھ مت ہمیشہ دو حد سے متجاوز صورتوں سے پرہیز کرنے کی بات کرتا ہے، یہ کہتے ہوۓ کہ درمیانی راستہ اختیار کرنا ہی بہتر ہے۔ ایک انتہا اس "میں" کو پیش آنے والے واقعات کو بڑھا چڑھا کر لینا ہے، یہ سمجھتے ہوۓ کہ اس کا ساری دنیا پر ڈھنڈورا پیٹنا ضروری ہے کیونکہ ہر فرد کو اس کی فکر ہے۔ دراصل، کسی کو اس کی پرواہ نہیں کہ میں نے آج سویرے ناشتہ میں کیا کھایا ہے، یا مجھے وہ پسند بھی آیا کہ نہیں۔ لیکن کسی طرح، ہم پھر بھی سمجھتے ہیں کہ یہ بہت اہم ہے۔ پھر لوگ ہمارے لکھے کو پسند کرتے ہیں۔ لیکن ہم کیوں  اس کی پرواہ کریں  کہ کتنے یہ جاننا چاہتے ہیں کہ میں نے ناشتے میں کیا کھایا ہے؟ یہ کیا ثابت کرتا ہے؟ اس پر غور کرنا ایک دلچسپ بات ہے۔

شائد لوگوں کے پاس زندگی کے اصل معاملات پر کسی گفتگو کا فقدان ہے اور وہ محض دوسروں کو شامل کرنا چاہتے ہیں؟ جی ہاں، میں سمجھتا ہوں کہ شائد ایک احساس تنہائی ہے۔ لیکن ایک طرح وہ آپ کو مزید دور کر دیتا ہے کیونکہ دوسروں سے دوبدو روابط برقرار رکھنے کے بجاۓ آپ کمپیوٹر یا سیل فون پر ربط قائم رکھنا زیادہ محفوظ تصور کرتے ہیں۔

دراصل میں یہ غور کرنے کا مشورہ دے رہا ہوں کہ ہم کیوں اپنے احساسات میں کسی کو شامل کرنا ضروری سمجھتے ہیں؟ ایک طرف، یہ اس لئے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ سب کو فکر ہے اور ان کے لئے یہ جاننا اہم ہے  کہ ہم نے ناشتہ میں  کیا کھایا ہے اور وہ ہمیں پسند آیا کہ نہیں۔ یہ احمقانہ مثال تو ہے، لیکن پھر بھی اگر کم تعداد میں لوگوں نے ہماری پوسٹ کو پسند کیا تو اسے ہم اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ ہم اسے بہت زیادہ اہم بنا دیتے ہیں – "میں"، میری مشغولیات، میرے محسوسات – اور خصوصاً دوسروں کی نظر میں ان کا درجہ کیا ہے۔ خود اعتماد ہونے اور اپنی زندگی پر گامزن رہنے کے بجاۓ، ایسا لگتا ہے کہ ساری دنیا پر اس کا اعلان کرنا چاہتے ہیں، جیسے ہم اتنے اہم ہیں کہ وہ سارے کام چھوڑ چھاڑ کر ہمارے پیغامات ہی پڑھنے میں لگ جائیں گے۔ کیا اس میں اپنی اہمیت کا مبالغہ نہیں ہے؟ اس پر مستزاد، ہم عدم تحفظ کا شکار ہیں، جو ایک پرسکون ذہنی کیفیت نہیں ہے۔ اور ہم مستقلاً دوسروں پر نظر رکھتے  ہیں، کہ کہیں کوئی بات نظر سے بچ نہ نکلے۔

بہر حال، ہمیں جن دو حد سے متجاوز صورتوں سے بچنا چاہئے وہ یہ کہ ہم ہی سب سے اہم ہیں یا یہ کہ ہماری کوئی حیثیت ہی نہیں۔ یا تو ہر ایک کو ہمارے احساسات کا پتہ ہونا چاہئے، خوہ انہیں پرواہ ہو یا نہ ہو، یا ہم اپنے احساسات  سے بالکل غافل ہو جائیں۔

ایسے حالات بھی ہو سکتے ہیں جن میں ہمیں اپنے احساسات کو ظاہر کرنا اہم ہو، جیسے کسی سے ہمارا میل جول ہو اور ہم اس میں رنجیدہ ہوں۔ اس صورتحال میں یہ بہتر ہے کہ اس کا اظہار کر دیا جاۓ  اور ہم اسے دل  ہی میں نہ رکھ چھوڑیں، جب اس کی ضرورت ہو کہ کسی کو ہمارے احساسات کا پتہ چل جانا چاہئیے۔ "آپ نے جو فرمایا اُس سے مجھے تکلیف پہونچی،" وغیرہ۔ لیکن اسے ہم ایک متوازن انداز میں بتا سکتے ہیں جس میں مبالغہ شامل نہ ہو، لیکن اس کا انکار بھی نہ ہو۔ یقیناً اگر میل جول کی بات ہو رہی ہو تو اس میں دو فریق ہوتے ہیں، اور اس بات کی مساوی اہمیت ہے (مگر یہ بھی کوئی بڑی بات نہیں)  کہ دوسرے کے کیا احساسات ہیں۔

جب ہم من کی تربیت کی بات کرتے ہیں، تو اس میں میرا رویہ ہی نہیں بلکہ ہر اس شخص کا بھی ہے جو اس صورتحال میں شامل ہے۔ دوسرے الفاظ میں، میرا نظریہ ہی واحد نقطہ نظر نہیں۔ ٹھیک؟ خاندانی مشاورت کے بنیادی اصولوں میں سے ایک یہ ہے کہ ہر رکن کو یہ حق حاصل ہے کہ درون خانہ کے معاملات کا اظہار کرے۔ اگر والدین کا آپس میں  جھگڑا چل رہا ہو، تو اولاد سے پتہ چلتا ہے کہ اس کا اثر ان پر کیا ہو رہا ہے۔ ورنہ انہیں واقفیت نہیں ہو گی۔ خاندان میں کسی کا اپنا نقطہ نظر ہی تنہا قابل غور نہیں۔

خود پسندی پر قابو پانے کے طریقے

تو رویہ کی روایتی تربیت یا من کی تربیت کا خصوصی زور اس غلطانیِ نفس کو مغلوب کرنے پر ہے جسے ہم عموماً "خود پسندی" کہتے ہیں، اور اپنے آپ میں فکرِ دیگراں کے لئے کشادگی پر ہے۔ ہم نے کچھ طریقوں کا پہلے ذکر کیا ہے جن سے یہ کیا جا سکتا ہے، جیسے اپنے آپ کو ایک طرف تصور کریں اور سب دیگران کو دوسری طرف، پھر سوچیں کہ "کون زیادہ اہم ہے؟ میں ایک فرد یا جملہ دیگران؟" اور ہم نے ٹریفک کی مثال بھی استعمال کی ہے، "کیا میں سب دوسروں سے زیادہ اہم ہوں جو ٹریفک میں پھنسے ہوئے ہیں، کہ مجھے تو اپنی منزل کی طرف جانے کا موقع مل جائے اور مجھے دوسروں کی پرواہ نہ ہو؟"

اہم بات یہ ہے کہ جب ہم ٹریفک میں پھنسے دوسروں کی فکر کرنے لگیں، تو وہ دراصل مبنی بر حقیقت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر کوئی ٹریفک میں پھنسا ہوا ہے، صرف ہم ہی نہیں۔ ٹھیک؟ تو جب ہم اپنے رویہ کو بہتر بنانے  کا ذکر کریں، تو ہم حقیقت کی بنیاد پر کرتے ہیں؛ ہم دیکھتے ہیں کہ حقیقت کیا ہے، اور اپنے رویہ کو اس کے مطابق ڈھالتے ہیں۔ میرے ایک دوست، ایک بدھسٹ گرو، نے کہا کہ اس بدھسٹ انداز نظر کو ایک لفظ میں سمیٹا جا سکتا ہے: "حقیقت پسندی"۔

جس طرح بدھ مت کو کبھی کبھار پیش کیا جاتا ہے، اس سے لوگ اکثر یہ سمجھتے ہیں کہ یہ محض تصوراتی عرفان اور رسومات کا مجموعہ ہے، جیسے یہ ایک طرح کا بودھی ڈزنی لینڈ (Disneyland) ہو۔ لیکن در حقیقت یہ بدھ مت کا مرکزی  موضوع بالکل نہیں ہے۔ وہ باتیں تو ہیں، اس سے انکار نہیں، لیکن وہ حقیقت پسندی سے قریب تر ہونے کی کوشش کا ایک ذریعہ ہیں۔ جب آپ یہ طریقے آزماتے ہیں، تو حقیقت اور غیر حقیقت کا فرق سمجھ میں آتا ہے، اور قوت متخیّلہ بھی۔

ہم انسانی مخلوق ہیں،  تو کیا چیز ہمیں حیوانات سے ممیّز کرتی ہی؟ ہم بہت سی چیزوں کی طرف اشارہ کر سکتے ہیں، لیکن جو خاص بات ہے وہ یہ کہ ہمیں دانائی اور قوتِ تخیل حاصل ہے۔ ہم دونوں کو استعمال کرنا سیکھ سکتے ہیں۔ ایک مثال یہ ہو سکتی ہے کہ جب آپ کو کسی کے ساتھ  شدت سے جنسی تلذذ کی خواہش ہو۔ یہ پریشان کن بھی ہوسکتی ہے۔ تو ہم اسے، اپنی دانائی اور تخیل کی مدد سے، بدل سکتے ہیں۔

بڑے ہندوستانی بدھسٹ گرو آریہ دیو نے اپنے چار سو اشعار والے مقالہ میں لکھا ہے (سنسکرت: کاٹوشتک- شاستر- کاریک) (۴۔۱۱۱):

کوئی بھی کسی کو پرکشش پا سکتا ہے اور ان کا گرویدہ ہو سکتا ہے اور ان کے حسن میں شاد ہو سکتا ہے۔ لیکن جیسے یہ کتوں وغیرہ میں بھی عام ہے، ارے او احمق، تم اپنے والے سے کیوں اتنے چمٹے ہوۓ ہو؟

دوسرے الفاظ میں، اگر کوئی کتا یا سؤر اپنے جنسی شریک کو اتنا  پرکشش پا سکتا ہے، تو ہماری کشش میں کیا خاص بات ہے؟ جنسی کشش کی خصوصیت پوری طرح فرد کے ذہن کی پیداوار ہے؛ مرکزِ کشش میں بدیعی نہیں۔

ورنہ ایک خنزیر کو ہمارا پارٹنر بڑا خوبصورت اور پرکشش لگتا اور ہمیں خنزیر کا پارٹنر پرکشش نظر آتا۔ عقلاً، یہ بالکل درست ہے۔ ہمارے تخیل کے ساتھ، ہمیں مذکورہ خنازیر کا خیال آتا ہے، اور بات سمجھ آنے میں  مدد ملتی ہے۔ کسی فرد کو اگر ہم پُرکشش پاتے ہیں تو اس فرد میں کوئی خاص بات نہیں۔ مجھے یہ فرد پُرکشش لگتا ہے، اور اس فرد کو کوئی اور پُرکشش لگتا ہے۔ یہ ایک طعام گھر کی مانند ہے: ایک شخص مینو میں ایک چیز پسند کرتا ہے، اور دوسرا کوئی اور۔ پھر کیا؟ کچھ بھی خاص نہیں۔

اگر اسی طرح کی سوچ کو آپ بڑھاوا دے سکیں، تو یہ بات بہت دلچسپ ہو جاتی ہے۔ کیوں ہر ایک کو وہی بات پسند آۓ جیسے میں کرتا ہوں؟ اس سوچ کے پیچھے یقیناً خود پسندی ہے: "جس طرح میں کرتا ہوں، وہی درست ہے"۔ پھر ہم بگڑ جاتے ہیں جب کوئی اور اپنے ڈیسک یا کمپیوٹر فولڈر مختلف انداز میں جماۓ: "یہ کتنا غلط ہے!"۔ یہ قبول کرنا بہتر ہے کہ کسی کام کو کرنے کے کئی طریقے ہو سکتے ہیں، بالکل ایسے ہی جیسے جنسی کشش کی مختلف چیزیں ہو سکتی ہیں۔

جب ہم اس قسم کے رویہ کی مشق کے بارے میں سنتے یا پڑھتے ہیں جس میں خود پسندی کی ممانعت اور دیگر لوگوں کی فکر کا آغاز کرتے ہیں، تو ہمیں اسے تمام دنیا کے لوگوں کی بھلائی کے لئیے کام کرنے کی حدود تک نہیں پھیلانا چاہئیے۔ بے شک ہم اس طرح کر سکتے ہیں جس کی پہلے بات کر رہے تھے، کہ "میں اس کرہ ارض پر سات ارب انسانوں اور ان گنت جانوروں اور حشرات میں سے ایک ہوں۔ ہر کوئی خوش، ناخوش یا غیر متعیِن حالت میں ہے، لہٰذا میری کوئی خاص اہمیت نہیں ہے۔" جب ہم دوسرے لوگوں کو مد نظر رکھ کر اپنے محسوسات کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمارا من حسب معمول  "میں، میں، میں" کرنے کی بجاۓ بہت کشادہ ہوتا ہے۔ یہ کرہ ارض کی افزوں پذیر حرارت کی مانند ہے، جس میں آپ یہ دیکھتے ہیں کہ محض ایک انسان پر اس کے اثرات مرتب ہونے کی بجاۓ سب لوگوں پر اس کا اثر کیا ہو گا۔

 بہر حال، ہمیں سود مند تبدیلی کے لئے، خود پسندی سے دیگر پسندی کی طرف، ابھی اتنی دور بھی جانے کی ضرورت نہیں۔ ہم اسے آہستہ آہستہ اپنا سکتے ہیں، اپنے قریبی ماحول کو دیکھتے ہوۓ – "اس تعلق میں میں تنہا نہیں ہوں"، یا "اس خاندان میں میں تنہا نہیں ہوں"۔ اس طرح ہم دھیرے دھیرے وسیع تر گروپ کے بارے میں فکرمند ہو سکتے ہیں۔ ہو سکتا ہے ہم ابھی کائنات کے ہر فرد کو شامل نہ کر پائیں، لیکن ہم اس طرح کے انداز میں شروع تو کر سکتے ہیں، فیس بک کے "مجھے پسند ہے" کی طرح کی مصنوعی سطح پر نہیں بلکہ دوسرے افراد کے ساتھ حقیقی شخصی میل جول کر کے۔

ہاں یہ محدود  تو ہے، کیونکہ ایک سماجی چوپال پر ہم کئی گنا زیادہ افراد تک پہونچ سکتے ہیں بمقابلہ اپنی روزمرہ کی زندگی میں۔ لیکن جب ایک مجازی سماجی چوپال، کسی حقیقی بین الافرادی ربط و تعلق باہمی، کی جگہ لے لیتی ہے تو تب ہی مسئلہ شروع ہوتا ہے۔ آپ کسی کے ساتھ ہوں، لیکن عملاً وہاں نہ ہوں، کیونکہ  دوسرے افراد کو پیغام رسانی کر رہے ہوں۔ یہ ایک عام بات ہو گئی ہے، کم عمر افراد ہی میں نہیں بلکہ چھوٹے بچے بھی جو عدم توجہی کی شکایت کرتے ہیں، کہ ان کے والدین مسلسل پیغام رسانی میں مصروف ہیں اور ان کو توجہ نہیں دے رہے ہیں۔

من کی تربیت آزمانے کے مختلف طریقے

من کی تربیت مختلف سطحوں پر آزمائی جا سکتی ہے۔ اس میں کوئی مجرب نسخہ نہیں لگتا؛ بس اس میں اپنی عقل کا استعمال کرنا ہے کہ جو بھی عملی لگے۔  اور عملی کیا ہے، وہ یہ  کہ کائنات میں بس ہم ہی تنہا فرد نہیں، اور کائنات میں ہماری ذات سب سے اہم نہیں، لیکن ہماری حیثیت اتنی معدوم بھی نہیں۔ ہم دنیا کی کثیر آبادی میں سے ایک فرد ہیں، اور ہم اس کا ایک حصہ ہیں۔۔ ہم تعلق خاطر کے لئے اپنے تخیل کا استعمال کر سکتے ہیں، یہ سمجھنے کی کوشش میں کہ دوسرے افراد کے حالات و احساسات کیا ہیں اور کس طرح وہ ان سے نمٹتے ہیں۔

ہماری عقل اور تخیل دو بڑے اوزار ہیں جنہیں ہم استعمال کر سکتے ہیں۔ منطق کی مدد سے ہم اپنی عقل کی تربیت کرتے ہیں، اور تخیل کی تربیت کے لئے استبصار جیسی چیزوں کا، اپنی دانائی سے ایک کمپیوٹر جیسا نہ بن کر، یا عجیب و غریب تفصیلات کا استبصار کرتے ہوۓ ایک طلائی تمغہ جیت کر، بلکہ اپنی ہی زندگی کی مشکلات و مسائل پر قابو پاتے  ہوے۔ ایک وسیع تر پیمانہ پر، ہم یہی کرتے ہیں تاکہ ایسا کرنے میں اوروں کی بھی مدد کر سکیں۔ ایسی وسیع نظری رکھنا اچھی بات ہے، جہاں ہر کسی کو جو کچھ پیش آ چکا ہے، یا پیش آ رہا ہے، یا ممکنہ طور پر مستقبل میں پیش آنے والا ہے، ان سب کے پس منظر میں ہمیں فہم اور تعلق خاطر حاصل ہو۔ اس میں فہم اور تخیل دونوں کا بڑا دخل ہے!

ہم اسے اپنی روزمرہ کی زندگی میں مختلف طریقوں سے شامل کر سکتے ہیں۔ آسان ترین سطح یہ ہے کہ "کچھ خاص نہِیں" کا احساس رہے، جو یہ سمجھنا ہے کہ جو کچھ بھی ہوتا ہے، اچھا یا برا، وہ کچھ انوکھا نہیں ہوتا۔ ساری تاریخ کے دوران، کم از کم قدیم یونان سے آج تک، ہر شخص یہ کہتا رہا ہے، "یہ سب سے برا وقت ہے: نوجوان نسل بالکل بگڑی ہوئی، ناگوار، اور بد چلن ہے۔"  اگر آپ ایک طویل عرصہ کے ادب پر نظر ڈالیں، ہر کوئی یہی کہتا آ رہا ہے لیکن یہ پوری طرح سچ نہیں ہے۔ جو کچھ بھی وقوع پذیر ہو رہا ہے اس میں کچھ خصوصیت (انوکھا پن) نہیں، مجھ میں کوئی خاص بات نہیں، اور نہ میرے احساسات میں ایسی بات ہے۔ یہ سب بس رواں دواں ہے، بے شمار عوامل و اسباب کے آپس میں تعامل سے۔ اپنے آپ سے اور دوسروں سے جذبہ ہمدردی رکھنے کی خاطر، اپنی فہم اور تخیل کا استعمال کرتے ہوۓ، بس ہمیں ان سے ممکنہ کارآمد طریقہ پر نمٹنا ہے۔

خلاصہ

ہم میں سے ہر فرد اس زمین پر رہنے والے سات ارب انسانوں میں سے بس ایک ہے، لیکن کوئی بھی کسی اور سے اتنا مختلف نہیں۔ جب ہم اپنے خود پسند رویہ پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہیں، تو خود بخود زیادہ حقیقت پسند ہو جاتے ہیں: ہم دیکھتے ہیں کہ  سب ایک دوسرے کے شریک ہیں، اور کوئی دوسرا ہمارا مخالف نہیں۔  ہم میں کچھ ایسی خاص بات نہیں، یہ ایک احساس حقیقت ہے جو ہماری جذباتی صحت اور دوسروں کے ساتھ ہمارے معاملات میں بڑی ترقی لاتا ہے۔

Top