ہم میں یا ہمارے جذبات میں کچھ بھی تو خاص نہیں

ابتدائیہ

ذہنی تربیت یا اطوار کی تربیت، جسے تبتی میں لوجونگ کہتے ہیں، ایک بڑا وسیع موضوع ہے جو بتاتا ہے کہ ہم اپنی زندگی سے کیسے گذرتے ہیں اور کیسے ہم ان تجربات سے متعلق اپنا رویہ بدل سکتے ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ زندگی نشیب و فراز سے بھرپور ہے اور عموماً اتنی آسان نہیں ہے۔ ہمیں مختلف واقعات سے ہمیشہ دوچار ہونا پڑتا ہے، جو مختلف النوع اسباب و حالات سے پیدا ہوتے ہیں۔

ایک آسان مثال کے طور پر، غور کیجئے جو آج ہم سب یہاں اس شام جمع ہوۓ ہیں۔ کون سی چیز ہمیں یہاں کھینچ لائی ہے۔ ایک تو طبعی رخ ہے، ٹریفک اور ذرائع نقل و حمل ہیں، یہ بات کہ آپ لوگ اس شہر میں رہتے ہیں، پھر آپ کی دلچسپیاں ہیں، ملازمت اور خاندان میں، اور عموماً زندگی میں  کیا چل رہا ہے ۔ بے شمار اسباب و علل کے نتیجہ میں، ہم یہاں جمع ہوۓ ہیں، ہر ایک کا ایک اپنا پس منظر ہے اور اپنی اپنی مختلف وجوہات و حالات ہیں۔

اب، جب ہم یہاں بیٹھے ہوۓ ہیں، آپ سب ہیں اور میں ہوں اور ایک مترجم ہے۔ ایک ویڈیو کیمرہ بھی ہے جو ہمیں ریکارڈ کر رہا ہے۔ کیا فرق ہے اس بات میں کہ آپ مجھے دیکھ رہے ہیں یا کیمرہ ؟ ہماری طرح، کیمرہ بھی مختلف وجوہات کی بنا پر یہاں ہے: کسی نے اسے بنایا ہے، کسی نے اسے خریدا ہے، اور کسی نے اسے یہاں نصب کیا ہے۔ کیمرہ اور ہم، دونوں معلومات اخذ کرتے ہیں۔ اصل فرق، تاہم، یہ ہے کہ ان معلومات کی بنا پر ہم میں محسوسات پیدا ہوتے ہیں، جیسے کسی قدر خوشی یا غم۔ کیمرہ اور کمپیوٹر میں ان معلومات سے کوئی تاثرات نہیں پیدا ہوتے۔

مسرت کیا چیز ہے؟

زندگی کا ایک بنیادی اصول یہ نظر آتا ہے کہ ہم سب خوشی پانا چاہتے ہیں، لیکن کبھی غم نہیں۔ یہ بات ہمیں یہ غور کرنے پر اکساتی ہے کہ آخر "مسرت کس چڑیا کا نام ہے، اور وہ کیا ہے جس کی ہم خواہش کرتے ہیں؟"

'بودھی نقطہ نظر سے، مسرت کی تعریف یہ ہے  کہ وہ ایک احساس ہے جسے پاکر ہم کھونا نہیں چاہتے۔ ہم اسے پسند کرتے ہیں اور جاری رہے تو مطمئن رہتے ہیں۔'

یہ ایک ذہنی تجربہ ہے جو کسی طبعی ادراک کے ساتھ ہوتا ہے جیسے کسی شے یا کسی شخص کو دیکھنا، یا کسی ذہنی ادراک کے ساتھ جیسے کسی شے یا کسی شخص کے بارے میں سوچنا۔ ایسا کچھ نہیں ہے کہ ہم جو دیکھ رہے ہوں، یا جو سوچ رہے ہوں،  اسے پسند بھی کرتے ہوں ۔ ہاں، یہ ضرور پسند ہوتا ہے کہ دیکھتے یا سوچتے وقت کیسا محسوس کرتے ہیں۔ لیکن، مسرت  اور طبعی احساس لطف اندوزی دونوں ایک نہیں ہیں: یہ ایک من کی کیفیت ہے۔ پھر یہ بھی ایک بات نہیں کہ کسی جذبہ کی پریشان کن گرفت میں رہ کر ہم کسی شے، جیسے چاکلیٹ، اپنے شباب یا مسرت نفسی وغیرہ، کی اچھی خصوصیات کی پسندیدگی میں حد سے زیادہ شدت رکھیں، اور اس سے گریز کرنا نہ چاہیں۔

کسی شے، مثلاً فلم وغیرہ، کو دیکھ کر ہمیں خوشی کا جو احساس ہوتا ہے، بھلے اس کا درجہ شروع میں کم ہو لیکن اگر کچھ منٹوں کے بعد بھی دیکھتے رہنے کو جی چاہے تو اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہم مطمئن ہیں اور اپنے احساسات کو ترک کرنا نہیں چاہتے۔ شائد ہم یہ کہیں، کہ اسے دیکھتے رہنے ہی کو دل کرتا ہے۔ اگر ہم غمزدہ ہوتے – غمزدگی کی تعریف یہ ہے کہ وہ ایک ایسا احساس ہے جس سے ہمیں سابقہ پڑے تو ہم دور ہونا چاہیں – تو عموماً ہم اس احساس میں تبدیلی کے لئے بے رخی اختیار کرلیتے ہیں۔ پھر یقیناً، کبھی کبھار ہمارے ملے جلے احساسات بھی ہوتے ہیں، جن میں نہ بے رخی کرنے کو جی چاہے اور نہ ہی رخ کرنے کو: ہم بس مجہول سے ہو جاتے ہیں۔

اکثر اوقات، جب ہم "مسرت" اور "عدم مسرت" کی اصطلاحات کے بارے میں سوچتے ہیں، تو ہماری سوچ  مبالغہ آمیز ہوتی ہے – اپنے چہرے پر ایک وسیع مسکراہٹ یا بالکل غمگینی اور اضمحلال و پژمردگی۔ مسرت اور عدم مسرت کو اتنا ڈرامائی نہیں ہونا چاہئے، کیونکہ اپنی زندگی کے ہر لمحہ میں ہم مسرت و عدم مسرت کے کسی درجہ سے ہمکنار ہوتے ہیں، اور سارے لمحات ڈرامائی نہیں ہوتے۔

زندگی کے نشیب و فراز

ہر لمحہ، ہم مختلف حالات و حوادث سے گذرتے ہیں، جیسے یہاں ہمارا وجود، جو لاکھوں اسباب و علل کے گٹھ جوڑ سے پیدا ہوتے ہیں۔ اپنے اطراف ہونے والے یا اپنے ذہن میں پیدا ہونے والے ان گنت واقعات سے ہم معلومات اخذ کرتے ہیں، اور ان سے گذرتے وقت مختلف سطح پر مسرت یا عدم مسرت کے احساسات سے دوچار ہوتے ہیں۔ اس حقیقت کا بیان ہم اپنے من کی حالت کی بنیاد پر کرتے ہیں – اچھا موڈ یا برا موڈ۔

زندگی کی نوعیت ہی ایسی ہے کہ وہ ہمیشہ اوپر نیچے ہوتی رہتی ہے۔ ہے نا؟ جس موڈ میں ہم ہوتے ہیں وہ اس سے مطابقت نہیں رکھتا کہ ہماری معلومات کیا ہیں، ہمارے اطراف کیا ہو رہا ہے، اور ہم خود کیا کر رہے ہوتے ہیں۔ مثلاً ہم کسی ایسے کام میں مصروف ہیں جو ہمیں پسند ہے، لیکن اگر ہمارا موڈ خراب ہے تو ہم خوش نہیں ہوتے اور اس سے لطف اندوز نہیں ہوتے۔ یا اگر ہم کچھ ایسا کر رہے ہیں جو کچھ دلچسپ نہیں ہے، جیسے سخت جسمانی کسرت، لیکن اگر موڈ ٹھیک ہے تو اسے جاری رکھتے ہیں۔ یہ بڑی مزے کی بات ہے کہ جو کچھ ہم کر رہے  ہوتے ہیں، ہمارا موڈ ہمیشہ اس سے ہم آہنگ نہیں ہوتا۔

ہر لمحہ جو ہم پر بیتتا ہے، ہم ہر بار ایک مختلف احساس سے گذرتے ہیں۔ ہم ایسے ہی احساس کی بات کر رہے ہیں۔ آخر وہ ہے کیا؟ مختصراً احساس یہ ہے کہ ہم کسی شے کی کیا قدر کرتے ہیں۔ ہمیں مختلف نوع کے احساسات  ہو سکتے ہیں، اور ہمارا موڈ ان میں سے کسی ایک احساس پر مبنی ہوتا ہے۔ عام حالات میں، ہمیں اپنی زندگی کے بدلتے ہوۓ نشیب و فراز پر کوئی اختیار نہیں ہوتا۔ اگر ہم بھلا محسوس کرنے کے لئے کسی قسم کی دوائی بھی لیتے ہیں، تب بھی ایک طویل مدت  میں نشیب و فراز تو آ ہی جاتے ہیں۔ ہے نا؟ تو جو بات ہمیں کام آسکتی ہے وہ یہی ہے کہ ہمارا رویہ درست ہو۔

اب، جب ہم اپنے رویہ کی تربیت کرنے کی بات کر رہے ہیں تو اس کے دو پہلو ہیں۔ ایک تو یہ ہے کہ  ہم تخریبی خیالات سے دور رہنے کی کوشش کریں۔  "تخریبی" لفظ ہو سکتا ہے کہ بہت سخت ہو، تو ہم ایک دوسرے لفظ کا استعمال کر سکتے ہیں یعنی"غیر کار آمد"۔ لیکن یہ احساس ایک طرح سے ہمارے اپنے لئے نقصان دہ ہے، کیونکہ یہ ہمیں مزید بدتر محسوس کراتا ہے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ ہم اپنے آپ میں ایک کارآمد نقطہ نظر پیدا کرنے کی تربیت کریں۔

یہاں غور کرنے کی ایک بات یہ ہے کہ  ہم اس کی بات نہیں کر رہے ہیں جسے عموماً لوگ "مثبت خیالات کی طاقت"  (Power of Positive Thinking)کہتے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ بہت زیادہ رجائیت پسند ہونا: "ہر بات بہت خوب، بہترین، اور عمدہ ہے!" اس رویہ سے مدد تو ملتی ہے لیکن اس میں تھوڑا بھولپن ہے۔ اپنے اسلوب سے نمٹنے کا ایک پُر اثر طریقہ یہ ہے کہ ہم کچھ اور گہرائی میں جا کر سوچیں۔

ویڈیو: گیشے لہاکدور — «بدھ مت کا مطالعہ کیوں کیا جاۓ؟»
ذیلی سرورق کو سننے/دیکھنے کے لئیے ویڈیو سکرین پر دائں کونے میں نیچے ذیلی سرورق آئیکان پر کلک کریں۔ ذیلی سرورق کی زبان بدلنے کے لئیے "سیٹنگز" پر کلک کریں، پھر "ذیلی سرورق" پر کلک کریں اور اپنی من پسند زبان کا انتخاب کریں۔

میں جو کچھ محسوس کرتا ہوں وہ کوئی بڑی بات نہیں

پہلے یوں کرتے ہیں کہ اپنے احساسات کے بارے میں ہمارا  نقطہ نظر کیا ہے، اس پر توجہ مرکوز کرتے ہیں، یعنی اپنی خوشگواری یا ناخوشگواری کی سطح کے بارے میں ہم کیا سوچتے ہیں۔ اس پر ہم ایک مسئلہ کے پس منظر میں دیکھیں گے جو اکثر لوگوں کو پیش آتا ہے – اپنے احساسات کی اہمیت پر مبالغہ آرائی۔

ہم اپنے آپ کو بڑی چیز سمجھتے ہیں – "میں" – اور یہ کہ میرے احساسات بڑی، بہت بڑی، چیز ہیں۔ ہم ہر چیز کو دوہرے انداز میں لیتے ہیں۔ مثلاً، "میں" ایک طرف اور میرا غم دوسری طرف۔ ہم اپنے غم سے خوفزدہ ہوتے ہیں اور اپنے آپ کو اس سے محفوظ رکھنے اور اس سے جان چھڑانے کی ممکنہ کوشش کرتے ہیں۔ ایسا رویہ ہمیں کیا محسوس کراتا ہے۔ بات اور خراب ہو جاتی ہے۔ ہے نا؟

ایک لمحہ کے لئے سوچئے: اگر آپ خراب موڈ میں ہیں اور غمزدہ ہیں تو آپ کا رویہ کیسا ہوتا ہے؟ میرا مطلب یہ نہیں کہ جب آپ آنسو بہا رہے ہوں اور غمزدہ ہوں، بلکہ  وہ لمحات جب آپ بیٹھے اپنا کام کر رہے ہوں یا ٹی وی دیکھ رہے ہوں وغیرہ، اور کہہ رہے ہوں "اف، کیا بری حالت ہے"۔ کیا ہم سوچتے ہیں کہ ہم یہاں بیٹھے ہیں اور ایک بڑا تاریک بادل ہم پر چھا گیا ہے تو کسی پناہ گاہ میں چھپ جائیں: "مجھے یہ نہیں چاہئے"۔ کیا آپ کو اس بات کا تجربہ ہے؟ اکثر ایسا لگتا ہے کہ خراب موڈ بس آ جاتا ہے اور ہم ایسا کبھی نہیں چاہتے۔ جتنا زیادہ ہم اس کے بارے میں سوچتے ہیں کہ وہ کتنا برا ہے، وہ اتنا ہی بدتر ہوتا چلا جاتا ہے۔ یہاں مسئلہ یہ ہے کہ جو کچھ بھی ہو رہا ہوتا ہے، ہم اس میں مبالغہ کرتے ہیں اور اس میں سے دو باتیں نکلتی ہیں – ایک طرف "میں" اور دوسری طرف میرا خراب موڈ۔

مسرت کے متعلق کیا خیال ہے؟ اس کے حصول کے بارے میں ہم دو طرح سوچتے ہیں، ایک طرف "میں" اور دوسری طرف "مسرت" – اور پھر ہم اسے کھو دینے سے خوف کھاتے ہیں، اور اس سے چمٹے رہنا چاہتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ اسے سمیٹے رہیں۔ ایک عدم تحفظ کا احساس ہوتا ہے کیونکہ ہم ڈر جاتے ہیں کہ یہ گذر جائے گی، ہم اسے کھو دینگے؛ ہم اچھا محسوس کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ اطمینان کی سانس لینا اور مسرت کے مزے لینا بہت مشکل ہوتا ہے، عدم تحفظ کا احساس اسے تباہ کر دیتا ہے۔ ہے نا؟ مزید بر آں، بہت ساری پیچیدگیاں بھی ہو سکتی ہیں، جیسے "میں مسرت کا مستحق نہیں ہوں" وغیرہ۔

اگر آپ اس کے متعلق سوچنا شروع کریں، تو مزے کی بات یہ ہے کہ ہم اکثر ایک حیوان کی طرح ہوتے ہیں۔ دیکھیں کہ ایک کتا کس طرح کھاتا ہے، لگتا ہے کہ جو کھا رہا ہے اس کا خوب مزہ لے رہا ہے، لیکن وہ ارد گرد نظریں بھی دوڑاتا ہے، تھوڑا تناؤ کہ کوئی چھین نہ لے۔ کیا آپ کبھی ایسا محسوس کرتے ہیں؟ ہم مسرور تو ہیں لیکن خوفزدہ بھی ہیں کہ کوئی آ جائے گا، بھانپ لے گا، اور ہماری خوشی چھین لے گا۔۔ کیا عجیب سی بات ہے۔

پھر ایک غیر متعین احساس ہے، دوہرا نقطہ نظر کہ  "میں" اور میرا غیر متعین احساس۔ ہم غیر متعین احساس کو گھٹا کر بالکل معدوم کر دیتے ہیں، جیسے کوئی احساس ہی نہیں۔ ایسا اکثر ہوتا ہے، کہ ہم کچھ محسوس ہی نہیں کرتے۔ جیسے ہم زندہ ہی نہ ہوں۔ یہ احساس حقیقت میں ہمیں رنجیدہ سا کر دیتا ہے۔ ہمیں یہ عدم احساس پسند نہیں آتا۔

مسرور، غیر مسرور، اور غیر متعین احساس کے ہر ممکنہ عالم میں جب ہم مبالغہ کرتے ہیں اور اسے ایک بڑی چیز بنا دیتے ہیں تو وہ ہمیں اور زیادہ رنجیدہ کر دیتا ہے۔ اپنے احساسات کے بارے میں ہمارا رویہ ہمارے تجربات پر بڑا فیصلہ کن ہوتا  ہے۔ مسرت، رنجیدگی، اور غیر متعین احساس کو ہم کچھ زیادہ ہی اہمیت دیتے ہیں، اور عموماً اسے اپنے آپ سے جدا سمجھتے ہیں۔

تصور کیجئے کہ آپ کے سامنے تین طرح کے کھانے رکھے ہیں۔ ایک بہت بے مزہ، ایک چٹخارہ دار، اور ایک روکھا پھیکا؛ یہ مسرت، رنجیدگی، اور غیر متعین احساس کی مانند ہیں۔ جب ہمیں ان کا احساس ہوتا ہے تو جیسے ہم انہیں اپنے اندر لیتے ہیں، ہم انہیں گویا "کھاتے" ہیں۔ ایک معنی میں، یہ ایسا ہے کہ ہم کھانا نہ چاہیں، لیکن ایسا کر نہ پائیں، احساسات کے معاملہ میں "میری خواہش ہے کہ مجھے کوئی احساس ہی نہ ہو"۔ لیکن تب ہم میں زندہ ہونے کا احساس ہی نہ ہو گا، اور وہ غیر اطمینان بخش ہے۔ ہم جانچ سکتے ہیں کہ آیا ہم میں دوہرا خیال یعنی یہاں "میں" اور میرا موڈ، میرا احساس اُدھر،  کیا ہم سے جدا ہیں۔

بس کر ڈالئیے

اپنے رویہ کی تربیت کرتے وقت سب سے پہلے ہمیں یہ سوچنا چاہئیے کہ "کچھ بھی مخصوص" نہیں ہے۔ یہ کوئی بڑی بات نہ لگے، لیکن ہے بہت گہری بات۔ "جو بھی میں محسوس کر رہا ہوں وہ کچھ غیر معمولی بات نہیں" – زندگی میں اونچ نیچ تو ہوتی ہی ہے، کبھی ہم اچھے موڈ میں ہوتے ہیں اور کبھی خراب موڈ میں، اور کبھی ایسا ویسا کچھ نہیں ہوتا۔ اس میں اچنبھے کی کوئی بات نہیں، اور ہم میں بھی کوئی غیر معمولی بات نہیں کہ ہم میں ایک طرح کے ہی احساس ہوں اور دوسرے نہیں۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ جیسے بھی احساسات ہوں زندگی گذر ہی  جاتی ہے۔

اگر آپ کو اپنے بچوں کا خیال رکھنا ہے، مثال کے طور پر، اس سے کوئی غرض نہیں کہ آپ اچھے موڈ میں ہیں یا برے، بس آپ کو یہ کرنا ہی ہے۔ اگر آپ کار چلاتے ہوئے ملازمت پر جا رہے ہیں، تو اس سے غرض نہیں کہ آپ کا موڈ اچھا یا برا ہے۔ جتنا زیادہ ہم اپنے آپ پر اور اپنے احساسات پر زور دیں گے، اتنا ہی ہم رنجیدہ ہوں گے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم محسوس کرنا ہی بند کر دیں، یہ نکتہ تو ہے ہی نہیں۔ ہمیں واقف ہونا چاہئیے کہ ہم کیا احساس رکھتے ہیں، لیکن ساتھ ساتھ اسے بڑا مسئلہ نہ بنائیں۔

کچھ لوگ رنجیدہ ہونے سے گھبراتے نظر آتے ہیں، کیونکہ وہ سمجھتے ہیں یہ ان پر پوری طرح غالب ہو جائے گی۔ جیسے جب کوئی مر جاتا ہے، یا کوئی برا واقعہ پیش آ جاتا ہے، تب آپ اس احساس رنجیدگی سے اپنے کو پرے رکھنا چاہتے ہیں کیونکہ وہ بہت بڑی بات ہو جاۓ گی۔ شائد یہ غیر شعوری ہو، لیکن ایسے احساس سے بُعد، شعوری ہونا ضروری نہیں۔ ہم اسے رد کرتے نظر آتے ہیں ، جیسے یہ کوئی خارجی عنصر ہے اور اندرون آنا چاہتا ہے۔ دوسری طرف، کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ مسرت کے مستحق ہی نہیں۔ سب کچھ ٹھیک ٹھاک جا رہا ہو تو بھی وہ سمجھتے ہیں کہ انہیں خوش نہیں ہونا چاہئیے کیونکہ وہ خود قطعی اچھے انسان نہیں ہیں۔ پھر کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنے آپ کو غیر جانبدار نہیں رکھ سکتے، انہیں ہر دم لطف اندوزی،  جیسے ہمیشہ موسیقی سننا چاہئیے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ  یہ حظ نفس انہیں خوش رکھتا اور سکوت کا غیر متعین احساس انہیں خوفزدہ کر دیتا ہے۔ ایک معنی میں ہم اکثر احساسات سے خوفزدہ رہتے ہیں۔ کیوں؟ صرف اس لئیے کہ ہم انہیں غیر معمولی بنا دیتے ہیں اور ان کی اہمیت میں مبالغہ کرتے ہیں۔ لیکن احساسات تو محض زندگی کا مکمل طور پرعمومی حصہ ہیں؛ اور فطری طور پر ہر لمحہ ہمیں پیش آتے ہیں۔۔ یہی بات ہے جو ہمیں ویڈیو کیمرہ سے منفرد بناتی ہے، بس کوئی اور خاص بات نہیں۔ یہ سننا سادہ لگتا ہے، لیکن یہ اتنا سادہ بھی نہیں۔

کھڑکی پر بیٹھی جنگلی چڑیا کی مثال

ہمیں بس ایک ہلکا پھلکا توازن چاہیئے۔ یہ ضرور ہے کہ خوش رہنا ہمیں بھلا لگتا ہے، لیکن اس کے ساتھ یہ بھی احساس ہوتا رہتا ہے کہ جو خوشی اب حاصل ہے اسے ہم کھو نہ دیں، اور ہم اس سے چمٹے رہنا چاہتے ہیں اور ہمیشہ غیر محفوظ خیال کرتے ہیں۔ اپنے ذاتی تجربہ سے ہم جانتے  ہیں کہ جو خوشی ہمیں اب حاصل ہے وہ ضرور کبھی بچھڑ جاۓ گی۔ وہ قائم نہیں رہتی کیوںکہ زندگی کی نوعیت ہی ایسی ہے کہ اس میں اتار چڑھاؤ آتا رہتا ہے۔ اگر ہم یہ جانتے ہیں تو اس میں پریشان ہونے والی بات ہی نہیں ہے۔ یہ نکتہ ہمیں آزاد کر دیتا ہے کہ خوشی سے اس وقت تک محظوظ ہوں جب تک وہ قائم ہے۔

اس کے لئے کبھی کبھار میں ایک خوبصورت مثال دیتا ہوں۔ تصور کیجئیے کہ ایک خوبصورت جنگلی چڑیا ہماری کھڑکی پر آتی ہے اور کچھ دیر وہاں ٹھہرتی ہے۔ اب یہ ہم پر ہے کہ ہم اس کی خوبصورتی سے لطف لیں، یہ جانتے ہوۓ بھی کہ وہ ایک جنگلی چڑیا ہے اور کچھ ہی دیر میں اڑ جائے گی۔ اگر ہم اسے پکڑنے اور ایک پنجرہ میں بند کرنے کی کوشش کریں تو وہ چڑیا بڑی غمزدہ ہوجاۓ گی۔ اسے پکڑنے کے دوران، چڑیا گھبرا جائے گی، اڑجانے کی کوشش کرے گی، اور کبھی واپس نہیں آۓ گی۔ لیکن اگر ہم خاطر جمع رکھیں، اور جب تک وہ پرندہ وہاں ہے اس کی خوبصورتی کا لطف اٹھائیں، تو کوئی خوفزدہ ہو گا اور نہ غمگین، اور شائد وہ دوبارہ واپس بھی آے۔

خوشی بھی بس اسی طرح ہے۔ ہے نا؟ یہی ان افراد کے ساتھ بھی ہے جنہیں ہم پسند کرتے ہیں۔ جب وہ ہم سے ملنے کے لئیے آتے ہیں تو ان کے کوٹ اتارنے سے پہلے ہی جی چاہتا ہے کہ ان سے کہیں "پلیز آپ زیادہ وقت کے لئے کیوں نہیں ٹھہرتے؟" یا "آپ پھر کب آئیں گے؟" اس قسم کی باتوں سے ہم اپنی خوشی برباد کر لیتے ہیں۔

کچھ خاص نہیں۔ کچھ بھی خاص بات نہیں۔ ایک چڑیا ہماری کھڑکی پر آتی ہے؛ ایک دوست ہم سے ملنے آتا ہے؛ ایک دوست کا فون آتا ہے – کچھ بھی خصوصی نہیں۔ لطف اٹھائیے، جب تک وہ ہے، کیونکہ وہ کبھی بھی ختم ہو جائیگی۔ تو کیا ہوا، آپ کیا توقع کرتے ہیں؟ جی ہاں، ہم خوش رہنا چاہتے ہیں۔ جب ہم غمگین ہوتے ہیں، تو اسے بھی اسی طرح قبول کیجئے جیسے اب کرتے ہیں۔ اس میں کوئی اچنبھے والی بات نہیں ہے۔ وہ غمگینی بھی بیت جائے گی۔ اگر آپ اسے پرے دھکیلنے کی کوشش کرتے ہیں، تو بات اور بگڑ جاتی ہے۔

تو ہم اپنے احساسات کا تجزیہ کریں اور جانچیں کہ ہمیں کس بات کا خوف ہے۔ کیا میں احساس غمگینی سے ڈرتا ہوں؟ کیا میں خوش ہونے سے ڈرتا ہوں  کہ میں اس کا مستحق نہیں؟ کیا میں غیر متعین احساس سے ڈرتا ہوں کہ پھر کچھ بھی نہیں؟ ہمیں کس بات کا خوف ہے؟

میں نے تربیتِ حسّیت کے لئے ایک طریقہ کار شروع کیا ہے، اور ایک مشق ہے جو لوگوں کو اپنے احساسات کے خوف پر قابو پانے میں مدد کرتی ہے۔ یہ بہت سادہ ہے؛ آپ اپنے ہاتھ کو گدگدائیں، پھر اس میں چٹکی لیں، اور پھر ویسے ہی تھامے رہیں۔ ایک حرکت تو ٹھیک لگے گی، دوسری اتنی ٹھیک نہیں، اور آخری غیر متعین۔ لیکن ان میں سے کوئی حرکت بھی بہت خاص نہیں، کیوں ہے کیا؟ یہ صرف احساسات ہیں۔ تو کیا؟ اس طرح کا رویہ ہمیں اپنانا چاہئے۔ میں اچھے موڈ میں نہیں ہوں – تو کیا ہوا؟ اس میں کوئی خاص بات نہیں۔ ہم قبول کرتے ہیں کہ ہمارا موڈ خراب ہے اور اگر اسے بہتر کرنے کے لئے ہم کچھ کر سکتے ہیں تو کیوں نہیں؟ اور اگر ایسا نہیں ہے، تو ویسے ہی قبول کریں۔ در اصل، آپ کو یہ بھی کرنے کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ جو کچھ آپ کرتے رہے ہوں، بس اسے جاری رکھیں۔ اگر ہم واقعی اس احساس کو بدلنا چاہتے ہیں جس میں وہ ہمیں ملتا ہے تو ہمیں اپنے رویہ کو بدلنے کے دوسرے طریقے ڈھونڈنے ہوں گے۔

یہ "کوئی خاص بات نہیں" پہلی سطح ہے۔ میں کیسا محسوس کرتا ہوں، اس میں کوئی خاص بات نہیں۔ "میں" اپنے احساسات سے جدا نہیں ہوں، اور اسی کو تحفظ دینے کی ضرورت ہے۔ اونچ نیچ تو ہوتی رہتی ہے، زندگی یوں ہی رواں ہے۔

مجھ سے متعلق کوئی خصوصی بات نہیں

"احساس میں کوئی خصوصی بات نہیں" سے منسلک یہ امر ہے کہ "مجھ سے متعلق کوئی خاص بات نہیں اور نہ یہ کہ اب میں کیا محسوس کرتا ہوں"۔ یہ امر وہ موضوع ہے جسے ہم بدھ مت میں "خوشنودیِ نفس" کہتے ہیں۔ ہم ہر بات کو خوشنودیِ نفس کی اصطلاح میں محسوس کرتے ہیں۔ اس کا مطلب کیا ہے؟ اس کا مطلب ہے کہ سب باتوں میں ہمیں بس اپنی ہی فکر ہے۔ ہماری توجہ بس اپنے آپ پر مرکوز ہے اور یہ کہ ہم فی الوقت کیسا محسوس کرتے ہیں، اور باقی چیزوں سے غافل ہو جاتے ہیں " مجھے اس سے مطلب نہیں کہ دوسرے کیا سوچتے ہیں۔ میں تو ناخوش ہوں"۔

تو بہر حال، گر کی بات یہ سوچنا ہے کہ نہ ہم میں کچھ زیادہ خاص بات ہے اور نہ ہمارے احساسات میں۔ جتنا زیادہ ہمارا ذہن "انا" سے چمٹے رہنے میں تنگ نظر ہوگا، اتنا ہی ہم ناخوش ہوتے جائیں گے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی پٹھا کھنچا ہوا اور تناؤ رکھتا ہو۔ ہمارا من ایسا ہی ہے کہ – "میں، میں، میں" – لیکن اگر ہم اس سیارہ پر رہنے والے سات ارب انسانوں اور بے شمار جانوروں کے بارے میں سوچیں، تو اس کی کوئی اہمیت نہیں کہ ہمارے احساسات کیا ہیں۔ ہر کوئی کچھ نہ کچھ تو احساس رکھتا ہے۔ کچھ خوش ہیں، کچھ رنجیدہ، اور کچھ غیر متعین (شائد نیند میں ہوں)، اور ہر فرد کے احساسات میں مستقلاً تغیر آتا رہتا ہے۔ اس طرح سوچتے ہوۓ، میری انا کی اور میرے موجودہ احساسات کی کیا اہمیت ہے؟

جب آپ کسی بُرے ٹریفک ہجوم میں پھنس جائیں، تو کیا آپ سوچتے ہیں کہ ہر کوئی دوسرا فرد انتہائی خوشگوار لمحوں سے گذر رہا ہوگا؟ جتنا زیادہ ہم سوچیں "میں، میں، میں – میں یہاں پھنس گیا ہوں اور نکل نہیں سکتا، کتنی پریشان کن بات ہے!" اتنا ہی زیادہ ہم  پریشان ہو جاتے ہیں۔ ہے نا؟ اگر دوسرے ٹریفک میں پھنسے ہوۓ لوگوں کے بارے میں سوچیں تو خود بخود ہمارا ذہن کھلا اور ہلکا محسوس کرے گا۔

مجھے یاد پڑتا ہے کہ جب آج ہم یہاں آ رہے تھے، ٹریفک بالکل آگے نہیں بڑھ رہی تھی، اور دوسری گاڑیاں بازو والی سڑک سے ہماری سڑک میں داخل ہونا چاہ رہی تھیں۔ یہ گاڑیاں چاہتی تھیں کہ ہماری پتی سے نکل کر مقابل سے آنے والی سمت کی سڑک، جو بالکل رکی ہوئی تھی، میں داخل ہوں اور وہاں سے ہماری سمت کی ساری لین پار کر کے  کسی طرح آگے نکل جائیں۔ یقیناً، لوگوں نے انہیں آنے نہیں دیا، اور آپ سوچتے ہونگے، " میرے خدا، وہ کیسے آگے نکل پائیں گے؟" وہ انچ بہ انچ آگے بڑھ کر اپنی کار کی اگلی نوک گھسانے کی کوشش کر رہے تھے، اور سارا منظر لطف انگیز ہوتا جا رہا تھا۔ پھر ہم سے آگے والا شخص، جو آگے بڑھ سکتا تھا لیکن توجہ کئے بغیر سیل فون پر باتیں کئیے جا رہا تھا، وہ آگے نہیں بڑھ رہا تھا اور پیچھے کی گاڑی والے بگڑ رہے تھے۔

جب یہ سب ہو رہا تھا، پھر یکایک آپ نے ایسے سوچنا بند کر دیا: "بیچارہ میں، میں یہاں ٹریفک میں پھنس گیا ہوں۔" یہ ایک پورا ڈرامہ بن گیا تھا جسے آپ دیکھ رہے تھے۔ حیرت زدہ کہ "کیسے یہ نکل پائیں گے؟ کیسے یہ اپنا راستہ بنا پائیں گے؟" آپ صرف اپنے بارے ہی میں نہیں سوچ رہے ہیں۔ آپ نے اپنا رویہ ہی بدل دیا۔ آپ اپنی "انا" کا کوئی بڑا مسئلہ نہیں بنا رہے ہیں۔ اور جب ہم اپنی "انا" کو ایک بڑا مسئلہ بنانا بند کر دیتے ہیں – "میں بڑی چیز ہوں۔ میں اس ٹریفک میں ایک طرم خان ہوں" – تب وہ حالات کو سمجھنے کا سارا انداز بدل جاتا ہے۔ اس پر غور کیجئے۔

خوشنودیِ نفس کا مسئلہ

ایک عظیم تبتی استاد، کونو لاما، نے ایک مشق تجویز کی جو بہت کارآمد ہے۔ اس نے کہا تصور کرو کہ تم ایک طرف ہو اور دیگر سارے دوسری طرف، اور ایک الگ تماشائی کی طرح ان پر نظر ڈالو۔ "میں" اس تصویر کی ایک طرف اداس ہوں، اور دوسری طرف سارے دیگر بھی۔ یا آپ ٹریفک میں پھنسے ہوۓ ہیں، اور اسی طرح سارے دوسرے بھی۔ اب، ایک غیر متعلق تماشائی کی نظر میں، کون زیادہ اہم ہے؟ ایک فرد "میں"، جو دھکا دے کر سب سے آگے نکلنے کی کوشش میں لگا ہے، یا وہ سارا ہجوم جو ٹریفک میں پھنس گیا ہے۔ ذرا غور کریں۔

یقیناً، ایک بڑا مجمع ایک فرد کے مقابلہ میں زیادہ اہم ہے۔ ٹھیک؟ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم کچھ حیثیت نہیں رکھتے۔ در اصل، اگر ہمیں سب کی پرواہ ہو اور ان کی فکر ہو، تو ہم خود بھی ان "سب" میں شامل ہیں۔ بات صرف اتنی ہے کہ ہم دوسرے فرد سے کچھ زیادہ اہم نہیں ہیں، خصوصاً اپنے احساسات کے معاملہ میں۔

تو خوشنودیِ نفس ہی مسئلہ ہے، یہ مستقل "میں، میں، میں۔ میں ہی بڑا اہم ہوں۔" ہم جب ناخوش ہوتے ہیں، یہ سوچ کر کہ یہ بادل ہم پر چھایا ہوا ہے اور ایک "میں" ہے جو اس سے الگ ہے، تو یہ "میں" کی اہمیتِ نفسی ہے۔ اور جب ہم خوش ہوتے ہیں، تو یہ بھی "میں، میں، میں" ہی ہوتا ہے۔ ہم نہیں چاہتے کہ کوئی بڑا کتا آۓ اور ہماری ہڈی لے جاۓ۔ تب کچھ بار ہمیں خیال آتا ہے، "میں، میں، میں۔ مجھے کچھ محسوس نہیں ہوتا۔ مجھے کوئی محظوظ نہیں کرتا۔ مجھے محظوظ کیا جانا چاہئے۔"

خوشنودیِٔ دیگراں کی طرف پہل

یہ خود کی طرف انہماک، "میں" پر اور اپنے احساس پر ارتکاز کا محدود انداز، ہی مسئلہ ہے۔ ہمیں یہ نکتہ نظر بدلنا چاہئے، ہر ایک کے بارے میں نہ صرف سوچنا بلکہ اس کی رغبت بھی رکھنا چاہئے: "کاش سبھی اس ٹریفک سے نکل پائیں۔" اگر ہم غور کریں، صرف ہم ہی کیسے اس ٹریفک سے نکل سکتے ہیں؟ ٹریفک کو ختم کرنا ہے تو اس میں سب کو شامل کرنا ہو گا۔ اگر آپ  کی پرواہ کے وسیع دائرہ میں سارے ہی افراد شامل ہوں تو ہم خود کو بہت مطمئن محسوس کریں گے، ہم ٹریفک میں پھنس کر اتنے گھبراۓ ہوۓ اور پریشان نہیں ہونگے۔ اور جب بالآخر ٹریفک سے نکل آئیں، تو صرف یہ نہ سوچئے کہ "واہ، کمال ہے میں باہر نکل آیا!" بلکہ یہ سوچئے "اچھا ہوا کہ ہر کوئی جہاں جانا چاہتا تھا وہاں پہونچ پایا۔" تب ہم اس خوشی سے چمٹے نہیں رہیں گے جس میں یہ خیال ہو کہ کوئی اور ہڈی لے جائے گا۔

یہ وہ چیز ہے جسے ہم بنیادی طور پر درد مندی کہتے ہیں، جس کا مطلب ہے دوسروں کے درد کو سمجھنا، اس طرح اسے سمجھنا جیسے وہ ہمارا اپنا ہو، پھر اس تکلیف کو دور کرنے کی پوری ذمہ داری اٹھا لینا – اگرچہ وہ اتنی اہم نہ ہو۔ اس میں پریشان ہونے کی کوئی بات نہیں، کہ دنیا بھر میں کتنی دہشت جاری ہے۔ یہ فطری ہے اور ہمیشہ ہوتا رہتا ہے، لیکن پھر بھی، یہ بہتر ہے کہ ہر کوئی خوش ہو، ہے نا؟

جب آپ رضاکارانہ طور پر کسی طرح کی ذمہ داری لیتے ہیں، یہ سوچتے ہوۓ کہ " میں سب کے بارے میں فکرمند ہوں اور چاہتا ہوں کہ ہر کوئی مشکلات سے آزاد ہو" تو ہم ایک بڑی  ہمت اور خود اعتمادی کا احساس پاتے ہیں۔ یہ وہی کچھ ہے جس کے بارے میں تقدس مآب دلائی لاما اکثر فرماتے رہتے ہیں۔ اگر ہم اپنے ہی بارے میں سوچیں، تو یہ ہماری بڑی کمزوری ہے۔ لیکن خود اپنے طور پر دوسروں کے بارے میں اور ان کے دکھ درد کی فکر میں رہنے کے لئے بڑی ہمت چاہئے۔ یہ کمزوری کی کوئی علامت نہیں، بلکہ ایک طاقت کی علامت ہے جو ایک غیر معمولی خود اعتمادی کی طرف لے جاتی ہے۔ یہ مثبت اندازِ فکر خود بخود مسرت سے ہمکنار کرتا ہے۔ یہ پورا ایسے نہیں  کہ "اوہ بیچارہ میں، میں تو ٹریفک میں پھنسا ہوا ہوں۔" اس کے بجاۓ، ہم ہر اس فرد کے بارے میں سوچتے ہیں جو ٹریفک میں پھنسا ہوا ہے اور چاہتے ہیں کہ وہ اس سے آزاد ہوں۔ ہر ٹریفک میں پھنسے فرد کے بارے میں فکر کرنا بڑی ہمت کا کام ہے، جو ہمیں بھی اپنے آپ کے بارے  میں بڑا مثبت احساس عطا کرتا ہے۔ ہم کمزور نہیں ہیں، یا ٹریفک کے دباؤ میں نہیں  ہیں؛ بلکہ ہم طاقتور ہیں۔

اگر ہم ٹریفک میں پھنسے دوسرے افراد کی فکر کر رہے ہیں اور محض اپنی ہی نہیں، تو یہ فکر بالواسطہ دوسروں کی مدد کرتی ہے۔ مثلاً، ہم ہیکڑی باز ہوں گے اور نہ شیخی بگھارنے والے (جو قطعاً بے معنی ہے کیونکہ کوئی نکل ہی نہیں پا رہا)۔ جب بازو والی سڑک سے کوئی کار آہستہ آہستہ ہمارا راستہ کاٹ کر آگے نکلنے کی کوشش کرتی ہے تو ہم اپنی کار کا شیشہ کھول کر مغلظات نہیں بکتے۔ تب ہم دونوں مطمئن ہوتے ہیں۔ ہم بہت زیادہ اثرانداز نہیں ہوسکتے۔

یہ ایک سادہ مثال ہے کہ ہم اپنا رویہ کیسے تبدیل کر سکتے ہیں، زندگی کے فطری اتار چڑھاؤ سے نمٹنے کے طور طریق بدل کر۔ بس اس کی مشق چاہئے، اور تھوڑی سی ہمت، اس احساس پر غالب آنے کے لئے کہ ہم اور ہمارے احساسات بہت اہم ہیں، اور ہر صورتحال کو بہتر نتیجہ خیز بنانے کے لئے۔

غصہ سے نمٹنا

اگر ہم ٹریفک میں پھنس جائیں اور کوئی ہمارا راستہ کاٹ دے، تو ہو سکتا ہے کہ ہم غیر اختیاری طور پر غصہ کی لہر میں آ جائیں۔ ایک دوسرا طریقہ ہمارے رویہ کو بدلنے کا یہ سوچنا ہے کہ اس صورتحال کے وقوع کے اسباب کیا ہیں، جیسے شائد اس ڈرائیور کا بچہ بیمار ہے اور وہ دوا خانہ پہونچنے کی کوشش کر رہا ہو۔ اس طرح ہمیں پرسکون ہونے میں بڑی مدد مل سکتی ہے۔

لیکن واقعہ یہ ہے  کہ غصہ کی یہ ابتدائی لہریں ہمیشہ جاری رہتی ہیں۔ دراصل غصہ کے رجحانات اور عادات پر غالب آنے کا ایک طویل تدریجی عمل ہے۔ اپنا رویہ بدلنا، جیسے اس مثال میں ہے، یہ سوچنا کہ جو شخص عجلت میں ہے اس کی حرکت کا کوئی معقول سبب ہو گا، غصہ سے نمٹنے کا بس ایک عارضی عمل ہے۔ ہمیں بہت گہرائی میں جا کر غصہ کی جڑوں کو اکھیڑنا ہو گا، جو اس بات سے مربوط ہے کہ ہم اپنا اور دوسروں کا کتنا عرفان رکھتے ہیں۔

ہم اپنے آپ کو اور دوسروں کو زندگی میں پیش آنے والے کسی چھوٹے واقعہ سے شناخت کرنے کا رجحان رکھتے ہیں۔ مثلاً، ٹریفک کے اس شخص کو ہم ایک برا آدمی سمجھتے ہیں جو میرا راستہ کاٹنے کی کوشش کر رہا ہے، اور اس شخص کے بارے میں بس یہی ہمارا تاثر ہے۔ تو ایک تنہا واقعہ جس میں کسی طرح ہم بھی شامل ہیں، ان کی شناخت بن جاتا ہے۔ انہیں ہم ایک پکی شناخت دے دیتے ہیں، جیسے ہم اپنے آپ کے بارے میں رکھتے ہیں۔ پھر یہ ایک پختہ "میں" ہے جو غصہ میں ہے۔

ہمیں کوشش کرنی اور اسے ڈھیل دینی چاہئے، اس مقام تک جہاں ان کی یا میری اس طرح کی کوئی پہچان نہ ہو۔ لیکن یہ ایک گہرا اور طویل تدریجی عمل ہے۔ کسی فرد کی ساکت تصویر کو ذہن میں لائیے۔ وہ اس شخص کا ایک واحد لمحہ ہے، لیکن ان کے بارے میں سب کچھ بالکل نہیں ہے۔ ہمیں اپنے آپ کو، اپنی زندگی کو، اور دوسروں کو ساکت تصویر کے آئینہ میں دیکھنا بند کرنا ہو گا۔ ہر شے ہر لمحہ بدل رہی ہے۔ اور ایک بار اپنی گمراہ کن فکر کو ڈھیل دے کر ہمیں اس کا عادی ہونا ہو گا، کیونکہ اکثر جمود کا رجحان ہے۔ بالآخر یہ پوری طرح ممکن ہے کہ غصہ یا حسد یا کچھ اور کا وہ جمود طاری نہ ہو۔

خوش رہنے میں کوئی قباحت نہیں

اپنے احساسات اور اپنے آپ کو غیر معمولی اہمیت نہ دینے کی مشق، اور کسی پر، منجملہ اپنے آپ کے، متعین محدود شناخت کا ٹھپہ نہ لگانے سے اپنی زندگیوں کے معیار کو اونچا کرنے میں مدد ملتی ہے۔ مشکل حالات سے نمٹنا آسان ہو جاتا ہے، اور اس طرح زندگی کشمکش نہیں رہتی۔ ہم جذباتی اعتبار سے متوازن اور پر مسرت ہو جاتے ہیں۔

ایک اعلٰی مقصد یہ ہے کہ دوسروں کا خیال کریں اور کیسے ان کے ساتھ پیش آئیں۔ اگر ہم ایک خاندان میں رہتے ہوں اور ہمارے بچے بھی ساتھ ہوں، اور اگر ہمارے احباب اور ساتھی ملازم ہوں، تب اگر ہم ہمیشہ خراب موڈ میں ہوں اور مسلسل سوچیں "بیچارہ میں" وغیرہ، تو ہم ان کی کسی مدد کرنے کے اہل نہ ہوں گے، بلکہ وہ الٹے ناخوش رہیں گے۔ تو ہمیں چاہئے کہ کسی طرح اپنے موڈ  کو کارآمد طریقے سے سنبھالے رکھیں کیونکہ اس کا اثر دوسروں پر پڑتا ہے، خاندان پر پڑتا ہے وغیرہ، اور ہم ان کے بارے میں فکرمند ہوتے ہیں۔ یہ ایک اور وجہ ہے کہ ہم اپنے آپ پر توجہ دیں۔

مسرت کی طلب تقریباً طبیعی چیز ہے اور خوش رہنے میں کوئی قباحت نہیں، اور ہمیں مسرت کے حصول کی کوشش کرتے رہنی چاہئے۔ لیکن جب وہ مل جائے، تو ہمیں اس کی حقیقت کا پتہ ہونا چاہئے، جو یہ ہے کہ یہ گذر جائیگی، تو تبھی کے تبھی اس کا مزہ اٹھا لیں۔ جتنا زیادہ ہم اس کے متعلق طمانیت پسند ہوں گے، اتنا ہی زیادہ ہم پُر مسرت ہوں گے۔ اور کبھی کبھار ہم رنجیدہ ہوں بھی تو کیا ہوا؟ ہم کیا توقع رکھتے ہیں؟ کوئی بڑی بات نہیں۔ کچھ زیادہ خاص نہیں۔

جب ہم سوچتے ہیں کہ جو بھی ہورہا ہے اس میں کوئی خاص بات نہیں، تو خود یہ بات بامسرت ہونے کا ایک نرم و لچکدار طریقہ ہے۔ نکتہ یہ ہے کہ ہم پریشان نہیں ہیں،ایک مستقل اعصابی تشنج نہیں ہے: "مجھے ہمیشہ خوش رہنا چاہئے، مجھے ہر دم لطف اندوزی چاہئے، ہمیشہ میری مرضی چلے گی"۔ اس طرح کی سوچ حقیقتاً ناگوار ہوتی ہے۔ یاد رکھیں ہم نے کیا کہا، جس کام میں بھی آپ مصروف ہیں ضروری نہیں کہ مسرت اس سے ہمیشہ ہم آہنگ ہو۔ مختلف دنوں میں آپ وہی کام کرتے ہوۓ خوش بھی رہ سکتے ہیں ، رنجیدہ بھی یا غیر جانبدار۔ بات صرف اس پر منحصر ہے کہ آپ کس پر توجہ مرکوز کرتے ہیں۔

میں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں۔ مجھے دندانساز کے پاس جانے میں مزہ آتا ہے، کیونکہ وہ ایک دلچسپ آدمی ہے، اور ہمارے بڑے خوشگوار تعلقات ہیں، ہمیشہ ہنسی مذاق چلتا رہتا ہے۔ اس کے پاس جانے میں مزہ اس لئے آتا ہے کہ میں یہ نہیں سوچتا کہ "میں بڑا پریشان ہوں کہ وہ چھید کرے گا یا کچھ اور وغیرہ"۔ وہاں ایسی کوئی پریشانی نہیں۔ میں خوشی سے سوچتا ہوں "اوہ خوب، کل میں اپنے دوست سے ملوں گا"۔

آپ سوچتے ہونگے میں عجیب آدمی ہوں، میں ایک دفعہ root canal)) دانت کی سوراخ دار جڑ میں برما لگا کر آیا اور پوری طرح لطف اندوز ہوا۔  یہ دلچسپ تھا کیونکہ میرا منہ پوری طرح کھلا ہوا تھا اور وہ ایک کے بعد ایک آلات اس میں گھساتے جا رہے تھے، اور میں نے ہنسنا شروع کر دیا کیونکہ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ کتنے اور اوزار وہ گھسا سکیں گے۔ یاد رہے کہ میں پوری طرح بے حسNovocained)] کردیا گیا تھا اور مجھے کوئی تکلیف محسوس نہیں ہورہی تھی!

میرا مطلب ہے نوووکین کے ٹیکے سے تکلیف تو ہوئی تھی، تو پھر کیا ہوا؟ کیا یہ بہتر ہوتا کہ ٹیکہ نہ لگواؤں اور root canal  کے دوران ۳۰ منٹ تک درد سے تڑپتا رہوں، یا چند سیکنڈ کی تکلیف ٹیکے سے برداشت کر لوں؟ اگر کچھ تکلیف ہو بھی تو آپ وہ ٹیکہ لگوانا بہتر سمجھیں گے، کیونکہ وہ تکلیف ایک مختصر وقفہ کے لئے ہی ہے۔

ہر بات ہمارے رویہ پر منحصر ہے۔ یہ رویہ کی تربیت ہے۔ یہ کام کرتی ہے اور ہماری زندگی کے معیار کو بلند کرتی ہے۔ اگر ہمیں دانت میں برما لگوانے root canal کی ضرورت پڑے تو کیا ہم اس کو تکلیف زدہ بنائیں گے یا غیر تکلیف زدہ؟ ہمیں اس سے گذرنا ہی ہو گا، کوئی مَفر نہیں، تو اس تجربہ کو جتنا خوشگوار بنا سکتے ہوں بنا لیں۔ اس کے پیچھے یہی اصول ہے۔

خلاصہ

کوئی اپنی نیند سے مسائل یا تکالیف کی خواہش لئے ہوۓ بیدار نہیں ہوتا ؛ ہم جو کرتے ہیں اس کا مقصد حالات کو بہتر بنانا ہوتا ہے۔ تاہم، یہ گریزپا مقصد کبھی نزدیک تر ہوتا نظر نہیں آتا۔ اپنے آپ پر توجہ مرکوز کرتے ہوۓ، اور خود کی اہمیت میں مبالغہ کرنے سے، جو کچھ بھی ہم کرتے ہیں، جو بھی ہم محسوس کرتے ہیں، اس کی بدولت ہم یا تو اس مسرت کا لطف اٹھانے میں ناکام ہو جاتے ہیں جو ہمیں حاصل ہے یا پیش آنے والی مشکلات کے تصور میں غلطاں ہو جاتے ہیں۔ اپنے رویہ کی مشق کے ذریعہ، کہ دوسرے افراد اور ان کے احساسات کو بھی اپنے ساتھ شامل کریں، ہم  مطمئن اور پر مسرت تجربہ کا ایک دروازہ کھولتے ہیں ان سارے نشیب و فراز کیلئے جن سے ہمیں گذرنا پڑتا ہے۔

Top