آٹھ دنیاوی تفکرات
اپنے ذہنوں میں تجربات و احساسات سے الگ، ہماری زندگی کے مشمولات بھی ہیں۔ یہاں یہ وہی بات ہے کہ ہم کوشش کریں کہ اسے کوئی بڑا مسئلہ نہ بنائیں۔ بدھسٹ تعلیمات زندگی میں آٹھ عارضی باتوں کی فہرست پر زور دیتی ہیں – عرف عام میں "آٹھ دنیاوی تفکرات" یا "آٹھ دنیاوی دھرم" – اسی اصول کی پیروی کرتے ہوے کہ ہر چیز جو حرکت میں ہے، اسےاوپر یا نیچے جانا ہی ہے۔
سود و زیاں
کبھی کبھار ہمیں فائدہ ہوتا ہے، اور کبھی نقصان۔ مالی طور پر، ہم کبھی پونجی بناتے ہیں تو کبھی گنوا بیٹھتے ہیں۔ کبھی ہم کوئی شے خریدتے ہیں اور وہ اچھی ثابت ہوتی ہے (وہ فائدہ ہے)، لیکن کبھی وہ جلد ہی ٹوٹ جاتی ہے (وہ نقصان ہے)۔ تو پھر، اس میں کوئی خاص بات نہیں ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے تاش کھیل رہے ہوں یا کوئی بچوں کا کھیل ہو؛ کبھی ہم جیت جاتے ہیں تو کبھی ہار جاتے ہیں۔ تو کیا ہوا؟ کوئی غیر معمولی بات نہیں۔
دراصل، ہمیں اپنے آپ کو یہ یاد دہانی کرانے کی ضرورت ہے کہ ہم اس کمسن بچے کی طرح نہ بنیں جو جب ہارتے ہیں تو چلا اٹھتے ہیں "میں جیتنا چاہتا ہوں!" آپ کو ہمیشہ جیت کیوں ملے؟ یہ اس امید کی طرح ہے کہ ہرکس مجھے پسند کرے گا۔ بدھ مت میں ایک کام کی کہاوت ہے، "جب ہر کسی نے مہاتما بدھا کو پسند نہیں کیا، تو ہم اپنے لئے کیا توقع کرسکتے ہیں۔ سبھی ہمیں پسند کریں گے؟" یقیناً نہیں۔ ہر فرد ہمارے فیس بک صفحہ پر پسند (like) کا بٹن نہیں دباۓ گا۔ کچھ لوگ ہمیں تو پسند ہی نہیں کرتے۔ کیا کِیا جاۓ؟ یہ عین معمول کی بات ہے۔
یہ سب فائدہ نقصان کی بات ہے۔ جب ہمارا کسی کے ساتھ تعلق قائم ہوتا ہے، تو بالآخر وہ رشتہ ٹوٹ جاتا ہے۔ پہلے ہم نے کھڑکی پر بیٹھی ایک جنگلی چڑیا کی مثال دی تھی، جہاں وہ کچھ دیر کے لئے آتی ہے لیکن چونکہ وہ آزاد ہے، وہ پُھر سے اڑ جاۓ گی۔ تعلقات کا بھی یہی حال ہے۔ جس قدر آپ کہیں، "مجھے کبھی چھوڑ نہ جانا، میں تمہارے بغیر جی نہیں سکتا"، اور اگر آپ ساری زندگی باہم ساتھ رہیں تب بھی آپ میں سے کوئی ایک دوسرے سے پہلے بےشک مرجاۓ گا۔ ہم ایک دوست بناتے ہیں، ہم ایک دوست کھو بیٹھتے ہیں، اس میں کوئی خاص بات نہیں۔ زندگی بس یوں ہی ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ جب دوست بنائیں تو ہم خوش نہ ہوں اور جب دوست کھودیں تو غمزدہ نہ ہوں – ایسے عدم احساس کا نام ہے "خواہ کچھ ہوجاے"، اور یہ بالکل ایسی بات نہیں جیسے "کچھ خاص نہیں" – لیکن ہم انتہا پسندی سے کام نہیں لیتے اور ہم بات کا بتنگڑ نہیں بناتے۔
یہ دلچسپ ہوگا اگر ہم اپنے آپ پر نظر ڈالیں اور دیکھیں کہ فائدہ و نقصان کی صورت میں ہمارا کیا تاثر ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر، میں اپنی ذات پر نظر ڈالتا ہوں کیونکہ میں اپنی ویب سائٹ (web site) پر کھویا رہتا ہوں؛ میرے خیالات اور سارے شغل سارا دن اسی میں گم رہتے ہیں۔ ہمارے پاس شماریات (statistics) کا ایک پروگرام ہے اور مجھے علم ہوتا ہے کہ روزانہ کتنے آدمی اسے پڑھتے ہیں۔ اگر کسی دن تعداد بڑھ جاۓ، تو بہت بھلا لگتا ہے، لیکن اگر یہ مخصوص تعداد تک نہ پہونچے یا وہاں تک نہ جاۓ جو میری خواہش ہے، تو یہ اتنا اچھا نہیں لگتا۔ تو یہ فائدہ اور نقصان ہے۔
ایک معنی میں مجھے کم درجہ کی خوشی ہوتی ہے۔ یہ کوئی ڈرامائی بات نہیں۔ چند ہفتوں پہلے، ایک دن یہ تعداد چھ ہزار تک پہونچی جو ایسے تھی "واہ، چھ ہزار، یہ تو بہت زیادہ ہیں!" لیکن اس بات کی مسرت تھوڑی سی ہے۔ یہ کوئی بڑی بات نہیں کیونکہ اس نے درحقیقت کچھ نہیں کیا۔ احساس یہ تھا "چلو ٹھیک ہے۔ اب آگے کیا؟ نئی بات کیا؟" پھر دوسرے دن یہ تعداد ۴۵۰۰ تک گر گئی، اور میں قدرے نا امید سا ہو چلا، "اوہ، آج کچھ زیادہ لوگوں نے نہیں دیکھا"۔ لیکن جو بات زیادہ نمایاں لگتی ہے وہ ہے خود غلطانی، جس کا مجھے اقرار ہے، کہ ہر لمحہ اس شماریات پر نظر رکھنا چاہتا ہوں۔ بدھ مت کہتا ہے کہ یہ احساس نفس پرستی، دوسری چیزوں کی والہانہ چاہت کے مقابلہ میں، بہت قوی ہے، کیونکہ "میں" کی فکر سب سے زیادہ جبلّی ہے۔ خود کے بارے میں یہ سوچ کہ میں ایک حیرت انگیز یا عظیم ہستی ہوں یا یہ کہ کسی کو ہم سے محبت نہیں، اگرچہ اس کے اظہار کی ضرورت تو نہیں، لیکن پھر بھی ہمیشہ زیریں تہہ میں یہ قیاس قائم رہتا ہے۔
آپ سب اپنی اپنی مثال پر غور کر سکتے ہیں، شائد فیس بک یا پیغام رسانی کے متعلق۔ آج مجھے کتنے پیغامات ملے؟ کس کس نے میرے پوسٹ پسند کئے؟ کتنی بار ہم فیس بک پر نظر ڈالتے ہیں یا اپنی جیبوں سے فون نکال کر دیکھتے ہیں کی کچھ آیا تو نہیں؟ پچھلے زمانہ میں یہ انٹرنیٹ وغیرہ کے جھمیلے نہیں تھے، لیکن لوگ یہی ڈاکیہ کے ساتھ کیا کرتے تھے۔ "کیا آج میرے لئے کوئی خط ہے؟" کوئی خط نہ ہوتا تو "اوہ، کوئی مجھے پسند نہیں کرتا"۔ یا یہ سارے اشتہار ہوتے ہیں اور ہم انہیں نہیں چاہتے۔ "کچھ بھی خاص نہیں" کا یہ انداز ہمارے جذباتی اتار چڑھاو کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے، کیونکہ جو کچھ بھی ہوتا ہے اس کے بارے میں ہمارا جذباتی توازن اور خاطرجمعی بہتر ہوتا ہے۔ جو بات شدید مشکل ہے وہ اپنی اس علت کو سنبھالنا ہے جس میں ہمیشہ چیک کرتے رہنے کی خواہش ہوتی ہے کہ کیا آیا ہے ۔
اپنے رویہ کو بدلنا ایک سست رو اور طویل طریقِ عمل ہے۔ چیزیں یونہی فوری تبدیل نہیں ہوجاتیں بلکہ تدریج چاہتی ہیں۔ ایسا کرنا دلچسپ ہو گا جب آپ اپنے کو زیادہ حقیقت پسندانہ طریقہ پر دیکھنا شروع کر دیں، جہاں آپ دیکھتے ہیں، "میں کمپیوٹر اور سیل فون کا غلام بن چکا ہوں، کیونکہ مجھے انہیں بار بار دیکھنا پڑتا ہے۔ میں یہ بار بار چیک کرنا چاہتا ہوں کہ کتنے لوگوں نے میرا جواب دیا ہے۔ میں کیوں غلام بن گیا؟" زمین دوز ریل میں تمام مسافروں کو دیکھیں کہ کتنوں کے ہاتھ میں سیل فون ہیں۔ کیوں؟ یہ خود پسندی ہے اور عدم تحفظ ہے، اس ذہنیت کے ساتھ کہ "میں کسی بات سے محروم رہنا نہیں چاہتا"۔ کیوں؟ اتنا اہم کیا ہے؟ کچھ چیزیں تو اہم ہو سکتی ہیں، ہم نہیں کہہ رہے ہیں کہ کچھ بھی اہم نہیں، لیکن ہم مستقلاً رابطہ قائم رکھنے اور مسقتلاً آن لائن رہنے کی اہمیت کو بہت بڑھا چڑھا دیتے ہیں۔ اپنے جذباتی توازن کی روشنی میں اس کا تجزیہ کرنا بہتر ہوگا۔
کبھی ہم جیت جاتے ہیں، اور کبھی ہارجاتے ہیں۔ یہ ایک محکم اصول ہے۔
چیزیں ٹھیک ٹھاک جا رہی ہیں یا چیزیں بگڑ رہی ہیں
دوسرا محکم اصول یہ ہے کہ کبھی کبھار چیزیں ٹھیک جاتی ہیں اور کبھی بگڑجاتی ہیں۔ ہم اسے مختلف سطح پر سمجھ سکتے ہیں لیکن جواب یہی ہے کہ "کچھ بھی خاص نہیں"۔ ہمارا ایک دن ٹھیک جارہا ہوتا ہے، اور دوسرا مشکلات سے پُر، لوگ ہمارے لئیے مسائل کھڑے کرتے ہیں اور ہر بات بگڑتی لگتی ہے۔ یہ عام بات ہے۔ صبح میں ہماری توانائی بہت اونچی ہوسکتی ہے، اور دوسرے پہر بالکل گری ہوئی۔ کبھی ہم صحتمند ہوتے ہیں، اور کبھی ہمیں نزلہ ہو جاتا ہے۔ کچھ بھی خاص نہیں۔
تعریف و تنقید
اگلا محکم اصول تعریف و تنقید سے متعلق ہے۔ کچھ لوگ ہماری تعریف کرتے ہیں، تو دوسرے تنقید۔ ہم کیسے پیش آئیں؟ ہر کسی نے مہاتما بدھ کی تعریف نہیں کی؛ کچھ لوگ، خصوصاً ان کے ہم نژاد چچیرے، ممیرے بھائی، ان کے بڑے نقاد تھے۔ تو ہم کیوں توقع رکھیں کہ ہر کوئی ہماری تعریف کرے گا؟
میں یہاں پھر اپنی مثال دوں گا۔ مجھے اپنی ویب سائٹ کے بارے میں کئی ای میل موصول ہوتی ہیں، جن میں سے اکثر یہ کہتے ہیں کہ یہ ویب سائٹ ان کے لئے کتنی مددگار ثابت ہوئی ہے، لیکن کبھی کبھار تنقید بھی ملتی ہے۔ یقیناً تعریف وصول کرنا تو آسان ہوتا ہے؛ لیکن تنقید ہمارے ذہنوں کیلئے پریشان کن ہوسکتی ہے۔
تنقید سن کر، اس انتہا تک نہ جائیں کہ ہم بڑے عظیم ہیں یا اس کے متضاد، "میں اس کا مستحق نہیں ہوں۔ اگر وہ میری اصلیت کو واقعی جانتے تو وہ مجھے پسند نہ کرتے"۔ لیکن تعریف کو قبول کرنا بہت آسان ہے۔ تنقید کیوں اتنی زیادہ مشکل ہے؟ کیونکہ ہم خود پسند ہیں۔ من کی تربیت کے ساتھ، ہم اپنے آپ کے بجاۓ اوروں کے بارے میں سوچتے ہیں، کہ ہم نے ایسا کیا کِیا جس کی وجہ سے انہوں نے ہم پر تنقید کی۔ اگر ہم ان کی کچھ مدد کرسکیں، اگرچہ وہ معذرت ہی ہو، "میں تسلیم کرتا ہوں کہ میں نے آپ کو کسی مشکل میں ڈال دیا، میں بہت معذرت خواہ ہوں، یہ میرا عندیہ ہرگز نہ تھا"۔ دھیرے دھیرے اس طرح خود پسندی سے توجہ ہٹا کر پسندیدگیٔ دیگراں کی جانب اس کا رخ موڑ دیتے ہیں۔
ہم یہی اپنی معمول کی روزمرہ کی زندگی میں دوسروں سے معاملات میں بھی کرسکتے ہیں۔ کبھی وہ ہم سے رضامند ہوں گے تو کبھی ناراض۔ جب لوگ ہم سے خوش ہوں، تو یہ آسان ہے۔ پھر ہماری زندگیوں میں کچھ ایسے بھی لوگ ہوتے ہیں جن سے معاملت مشکل ہوتی ہے اور جو ہمیشہ تنقید ہی کرتے ہیں یا منفی رویہ رکھتے ہیں۔ ہمارا ان کے ساتھ کیا سلوک ہو؟ کیا ہم انہیں مشکل اور ناگوار ہی سمجھتے ہیں؟ مجھے یقین ہے کہ آپ کی زندگی میں بھی کچھ ایسے لوگ ضرور ہونگے۔ وہ کال کریں گے یا ملاقات کرنا چاہیں گے اور لنچ کرنا چاہیں گے، اور بس سو فیصد اپنے ہی بارے میں بات کرتے اور شکائیتیں کرتے رہیں گے۔ آپ شائد سوچیں، "اف، پھر یہی شخص "۔ لیکن آپ ہمیشہ یہ بہانہ نہیں بنا سکتے کہ آپ مصروف ہیں!
اگر ہمارا جواب یہ سوچ ہو کہ میرے لئے ان کے ساتھ وقت گزارنا اور ان کی شکائیتیں سننا کتنا ناگوار ہوگا، تو ہمیں اپنا نکتہ نظر بدلنا ہوگا: یہ شخص ہمیشہ شاکی ہے کیونکہ دراصل وہ بہت ناخوش ہے، اور تنہا بھی۔ لوگ جو شکایٔتیں کرتے ہیں عموماً ایسے ہوتے ہیں، کیونکہ کوئی ان کی صحبت گوارا نہیں کرتا۔ تو اگر ہمیں ان کے ساتھ کچھ وقت گذارنے کا موقع آجاۓ، ہم کچھ ہمدردی پیدا کرسکتے ہیں، اور یہ اتنا خوفناک تجربہ بھی نہیں ہوگا کیونکہ ہم ان سے متعلق سوچ رکھتے ہیں، "میں" سے متعلق نہیں۔
اچھی اور بری خبر سننا
چوتھا محکم اصول اچھی اور بری خبر سننا ہے۔ یہ پچھلی بات جیسی ہے: ہر شے اوپر نیچے جاتی ہے۔ یقیناً، یہ چار محکمات ایک دوسرے پر منطبق ہوتے ہیں اور "کچھ خاص نہیں" کا اصول ان آٹھ میں سے ہر ایک پر لاگو ہوتا ہے۔ اچھی یا بری خبر سننا کچھ خصوصی نہیں، یہ سب کی زندگی میں پیش آتا ہے۔
اب، کچھ لوگ اس اندازِ تربیت پر اعتراض کرتے ہیں، یہ دعوٰی کرتے ہوۓ کہ انہیں یہ جذباتی اتار چڑھاؤ اچھا لگتا ہے کیونکہ اگر یہ اونچ نیچ نہ ہو تو آپ زندہ ہی نہیں ہیں۔ لیکن ہمیں یہ پرکھنا ہو گا کہ یہ نکتہ نظر مفید بھی ہے کہ نہیں۔
پہلے پہل، ہم کسی جذباتی اتار چڑھاؤ پر ہوں یا نہ ہوں، ہم پھر بھی زندہ تو ہیں۔ یہ قدرے ایک احمقانہ اعتراض ہے۔ تو جب ہم جذباتی اتار چڑھاؤ پر ہوتے ہیں تو کیا ہوتا ہے؟ ہم اس عالم میں دانشمندانہ فکر نہیں رکھتے کیونکہ ہم جذبات سے مغلوب ہو جاتے ہیں۔ اگر ہم زیادہ پُرسکون ہوں، تو ہماری زندگی اتنی ڈرامائی نہ ہو، اور ان حالات سے بہتر انداز میں نبرد آزما ہونے کے قابل ہونگے۔ اگر آپ سلجھے انداز میں نہیں سوچ رہے ہیں اور طیش میں آ جائیں، تو آپ ایسی باتیں کہہ جاتے ہیں جن پر آپ کو بعد میں افسوس ہوتا ہے۔ اپنے جذبات میں ایک متوازن ذہن رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اس طرح کے کام نہ کریں۔ اور اس معاملہ میں کہ ہر شخص مسرت کی طلب رکھتا ہے، اس طرح کی پُرسکون، پُر امن مسرت بہت پائیدار ہوتی ہے بہ نسبت ڈرامائی "دھما چوکڑی" قسم کی مسرت کے۔
"کچھ خاص نہیں" کا تصوراتی ڈھانچہ
آئیے جس اندازِ فکر کی ہم بات کر رہے ہیں اس کی بنیاد، یا اس کے تصوراتی ڈھانچہ پر نظر ڈالیں۔ یہاں تصوراتی نظریات کو سمجھنا بہت اہم ہے۔ ایک تصوراتی نظریہ کیا ہے؟ ایک تصوراتی نظریہ، کسی زمرہ کےذریعہ جو مثلاً "کچھ خاص ہے"، چیزوں پر نظر ڈالنا یا ان کے تجربہ سے گذرنا ہے۔ یہ ایک ذہنی خانہ رکھنا جیسا ہے، اور جب ہم کو کسی چیز کا تجربہ ہوتا ہے اور ہم اسے اُس "کچھ خاص ہے" کے ذہنی خانہ میں ڈال دیتے ہیں۔
ہم یہ ہر دم کرتے ہیں، کیونکہ اسی طرح ہم سمجھتے اور تجزیہ کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔ "عورت" نامی ایک ذہنی خانہ ہے۔ میں ایک فرد کو دیکھتا ہوں اور اسے "عورت" کے خانہ میں ڈال دیتا ہوں۔ اسی طرح، مختلف چیزوں اور تجربات کو مختلف ذہنی خانوں میں ڈالتے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر، وہی انسان جسے ہم "مرد" یا "عورت" کے خانہ میں رکھتے ہیں، اسی کو "نوجوان شخص" یا "عمر رسیدہ شخص" یا "بھورے بال" یا "کالے بال" کے خانہ میں بھی ڈال سکتے ہیں۔ اسی طرح کے کئی خانے ہو سکتے ہیں۔
حقیقت میں چیزیں خانوں میں بٹی نہیں ہوتیں۔ یہ بات بالکل عیاں لگتی تو ہے، پھر بھی اسے سمجھنا اور ذہن نشین کرنا بڑا مشکل کام ہے۔ مثال کے طور پر، ہم کسی کو "خوفناک شخص" کے خانہ میں ڈالیں، لیکن کوئی آدمی محض خوفناک رہ کر نہیں جیتا، کیونکہ اگر واقعی ایسا ہوتا تو وہ ہر ایک کو ایسا ہی لگتا، اور وہ بچپن ہی سے ویسا ہوتا۔
یہ ذہنی خانے چیزوں کو سمجھنے میں ہماری مدد کرتے ہیں، اور دوسروں کے بارے میں ہمارا نکتہ نظر بنتا ہے اس ذہنی خانہ کی قسم سے جس میں ہم چیزوں کو رکھتے ہیں۔ ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ یہ خانے صرف ذہن ہی میں بنے ہوتے ہیں اور حقیقت پر مبنی نہیں ہوتے – کہیں کوئی خانے نہیں ہوتے، ہیں کیا؟
ہم ان خانوں کو کیسے بناتے ہیں؟
آئیے دیکھتے ہیں کہ ہم کیسے چیزوں کو اِس خانہ میں ڈالتے ہیں، بمقابل اُس خانہ کے۔ ہم یہ کسی چیز کے نمایاں وصف کی بنا پرکرتے ہیں جو اسے دوسری چیزوں سے حقیقتاً ممیز کرتا ہے۔ اسے ہم "توصیفی خصوصیت" کی اصطلاح دے سکتے ہیں۔ ایک سادہ مثال یہ دیکھنا ہے کہ جب ہم چیزوں کو ایسے خانہ میں رکھنا چاہیں جسے "مربع " کہتے ہوں تو ان کی توصیفی خصوصیت کیا ہونی چاہئے۔ خصوصیت یہ ہونی ہے کہ چار مساوی اطراف ہوں – تو جن میں یہ خصوصیت ہو انہیں ہم "مربع " کے خانہ میں رکھ دیتے ہیں۔
یہ ایک سادہ صفت تھی، لیکن "پریشان کُن شخص" کی صفت کے بارے میں کیا خیال ہے؟ایسے شخص کی کیا صفات ہونی چاہئیں جسے دیکھ کر ہم کہیں "تم ایک پریشان کُن شخص ہو"؟ یہ کوشش کرنا اور دیکھنا دلچسپ ہو گا کہ وہ کیا بات ہے جو پریشانی پیدا کرتی ہے۔۔ آپ کے سر کے اطراف بھنبھناتی ہوئی مکھی اور اِس شخص میں کیا بات مشترک ہے جو دونوں کو "پریشان کُن" کے خانہ میں ڈالنے پر مجبور کرتی ہے؟
میں تو یہ کہوں گا کہ دونوں کچھ ایسا کرتے ہیں کہ میں اپنا جذباتی توازن اور ذہن کا سکون کھو بیٹھتا ہوں۔ تو، ہم اس ذہنی خانہ کی تعریف واقعی اپنے حوالہ سے کرتے ہیں، نہ کہ ان کے حوالہ سے، کیونکہ جو بات مجھے پریشان کرتی ہے ہوسکتا ہے وہ آپ کو نہ کرتی ہو۔ اور جہاں تک وہ باتیں جو میرا ذہنی سکون برباد کرتی ہیں، ہوسکتا ہے کہ وہی ایسی ہوں جو میرے لئے مکمل کشش رکھتی ہیں، کہ میں دیوانہ ہوجاتا ہوں۔ تو دلچسپ بات یہ ہے کہ کس طرح میں چیزوں کی تعریف کرتا اور انہیں خانوں میں رکھتا ہوں، دراصل وہ ہمارے ہی حوالہ سے ہیں۔
پھر ہمارے وہ سارے احساسات ہیں۔ اب یہ دلچسپ ہونا شروع ہو رہا ہے (یا شائد پہلے سے ہی دلچسپ تھا)۔ ہمارا ایک ذہنی خانہ "مسرور" ہے۔ آپ کیسے چیزوں کو "مسرور" خانہ میں رکھیں؟ یہ کہنا مشکل ہے۔ کوئی ہم سے پوچھتا ہے، "کیا تم خوش ہو؟" اور ہم نہیں جانتے کہ کیا جواب دیں۔ اگر ہم خود سے پوچھیں، "کیا میں خوش ہوں؟" – اور مجھے پتہ ہی نہ ہو کہ اس کا مطلب کیا ہے۔ تو آخر وہ صفت کیا ہے جو مسرت کی تعریف کرتی ہے؟ ہم بہت خوش تو رہنا چاہتے ہیں، لیکن یہ نہیں جانتے کہ مسرت کیا ہے۔ نرالی بات ہے نا؟ تعریف یہ ہے کہ یہ ایسی بات ہے کہ جب آپ اس سے دوچار ہوں تو آپ اس سے علیحدہ ہونا پسند نہیں کرتے؛ اور چاہتے ہیں کہ وہ چلتی رہے۔ بدھسٹ تعلیمات میں ہمیں یہ تعریف ملتی ہے، تو بس اس سے تھوڑی مدد مل جاتی ہے۔
فیس بک کے بارے میں کیا خیال ہے؟ اسے "پسند" کرنے کی کیا تعریف کریں؟ یہ کچھ ایسی بات ہے جو ہمیں مسکراہٹ دیتی ہے اور خوشی کا احساس دلاتی ہے۔ لیکن سوچئے کہ آپ اسی کو دیکھیں، سارا دن کچھ اور نہ دیکھیں، تو ہمیں یہ بھلا نہیں لگے گا، ہے نا؟ عجیب بات ہے۔ ہے نا؟
جب آپ کے پاس تصوراتی نظریہ ہو، تو ہمیشہ ایک ذہنی نقشہ ہوتا ہے کہ یہ صفت کیا ظاہر کرتی ہے۔ تو جب آپ سوچیں "کتّا" تو آپ کے ذہن میں کتے کی ایک طرح کی تصویر آجاتی ہے، جو مجھے یقین ہے کہ ہر ایک کے لئے الگ ہوتی ہو گی۔۔ جنسی لحاظ سے پر کشش شخص یا پریشان کن شخص کی ذہنی تصویر کے بارے میں بھی ایسا ہی ہے۔
تو مجھے جو پسند ہے اس کا اظہار کیسے ہو؟ اس کا بیان بہت مشکل ہے۔ ہماری گفتگو کا یہ انداز ہے، ہے نا، کہ "مجھے یہ سٹائل پسند ہے، مجھے اس طرح کی غذا پسند ہے، مجھے اس طرح کی فلم پسند ہے، وہ لڑکی میرے مزاج کی نہیں ہے، وہ آدمی میرے طور اطوار جیسا ہے"۔ میری پسند کو کیا چیز ظاہر کرتی ہے۔ فیس بک پر کسی تصویر کو دیکھ کر، کیا ہم اس کا کسی ایسے تجربہ سے تقابل کرتے ہیں جو ہمیں پسند آیا اور اسے ہم "پسندیدگی" کے خانہ میں ڈال دیتے ہیں؟ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ یہ سب ہمارے دماغ کی طرف سے آرہا ہے، اس شے کی طرف سے نہیں۔ اگر کچھ اس شے کی طرف سے آتا ہوتا، جیسے اس شے کی کوئی اندرونی خصوصیت ہو، تو ہر کوئی اسے پسند کرتا۔ پس یہ سب جانبداری ہے۔
"مخصوص" کی تعریف
اگلا قدم یہ دیکھنا ہے کہ کیا عناصر ہیں جو کسی کو خصوصی بناتے ہیں۔ کیا اس شے ہی میں کوئی خاص بات ہے یا پھر "کچھ خاص" کا ذہنی خانہ ہے، جسے ہم ہی نے فرض کرلیا ہے؟ اگر ہم غور کریں کہ کسی شے کو کیا خصوصی بناتا ہے، تو "کچھ بھی خاص نہیں" کی نظریاتی اساس سمجھ میں آنے لگتی ہے۔ اس شے میں اپنی کوئی خاص بات نہیں ہوتی۔ کسی "خاص" کا خیال مکمل ہمارے تصورات ہی سے پیدا ہوتا ہے، ہمارے اپنے ذہنی خانہ "خاص" سے۔ اسی سے نتھار کر ہم چیزوں کو دیکھتے ہیں: یہ خاص ہے اور وہ خاص نہیں ہے۔
پھر ہم اپنے آپ سے پوچھ سکتے ہیں، ہم کیسے غیرمعمولی کی تعریف کریں؟ کچھ لوگ کہیں گے کہ جب کچھ چیز نادر ہو: "یہ ایک غیرمعمولی پینٹنگ ہے" یا "یہ ایک خاص کھانا ہے"۔ لیکن کیا ہر چیز یکتا نہیں۔ دو چیزیں بالکل یکساں نہیں ہوتیں۔ پتہ گوبھی کے ڈھیر میں ہر پتہ گوبھی یکتا ہوتا ہے۔
پھر آپ سوچتے ہونگے، "چیزیں الگ الگ ہونگی۔ خاص ہونے کے لئے انہیں سب سے الگ ہونا پڑتا ہے"۔ لیکن انہیں کتنا مختلف ہونا ہے؟ کیسے اور کہاں ہم معمولی اور غیر معمولی کے درمیان امتیاز کریں؟ ہم یہ کیسے طے کریں؟
پھر آپ کہہ سکتے ہیں کہ خاص چیز کچھ نئی ہونی چاہئے۔ لیکن یہ کیا میرے لئے نئی ہے یا ساری دنیا کے لئے؟ ہم ہر چیز کو بس اپنے ہی حوالہ سے دیکھتے ہیں، اور ہر تجربہ جو ہمیں پیش آتا ہے وہ نیا ہی ہوتا ہے، ہے نا؟ مجھے آج وہ پیش نہیں آرہا ہے جو کل آچکا۔ آج گذرا ہوا کل نہیں ہے۔ اس اعتبار سے، ہر چیز خاص ہے، جس کا اصل مطلب ہے کہ کچھ بھی خاص نہیں۔ ہر چیز یکتا ہے، ہر چیز جدا، اور ہر چیز منفرد، تو کچھ بھی ایسا نہیں ہے جسے ہم کہہ سکیں کہ وہ خاص ہے۔ اگر ہم کہیں کہ کوئی چیز خاص ہے کیونکہ ہم اسے پسند کرتے ہیں، تو ہم جانتے ہیں کہ ہماری پسند ہمیشہ بدلتی رہتی ہے؛ اگر ہمیں وہ کثرت سے مل جاۓ تو پسند آنا ختم ہوجاتا ہے، اور اگر کچھ طویل عرصہ تک ملتی رہے تو ہم بیزار آجاتے ہیں۔
اس طرح کی باتیں ہیں جن پر ہم کام کرتے ہیں تا کہ چیزوں کو "خاص" خانہ میں ڈالتے رہنے کی لت سے چھٹکارا پا سکیں۔ "میرے موجودہ احساسات بہت اہم ہیں"۔ کیوں؟ یہ کیوں "اہم" کے خانہ میں ہے؟ ہم یہ کوشش کرتے ہیں کہ کسی چیز کو غیر ضروری ذہنی خانوں میں ڈالنے کی نظر سے دیکھیں۔ یقیناً کچھ ضروری اور کارآمد خانے ہیں؛ ہم ان کے بغیر زبان سمجھنے کے قابل نہیں ہوسکتے۔ لوگ ایک ہی لفظ کی ادائیگی کے لئے مختلف لہجوں میں، ہلکی اونچی آوازیں نکالتے ہیں، جسے ہم اس لفظ کے ذہنی خانہ ہی کی وجہ سے سمجھ سکتے ہیں۔
اس طرح ہم سارے خانے نظرانداز نہیں کرسکتے۔ کچھ ذہنی خانے زیادہ مددگار نہیں ہوتے، کیونکہ وہ پوری طرح سے ذاتی ہوتے ہیں، جیسے "کچھ خاص"۔ جب آپ تجزیہ کرنا شروع کریں ، وہ ہمارے اپنے ہی نکتہ نظر میں ہوتا ہے: جسے ہم خاص تصور کرتے ہیں، گو کہ ہم اس خاص کی کوئی تعریف نہیں کرسکتے۔
اس طرح، ہم نہ صرف ذاتی کنٹرول اور نظم و ضبط برتتے ہیں، "میں چیزوں کو کسی خصوصیت کی نظر سے نہیں دیکھتا"، کیونکہ اس پر عمل درآمد بڑا مشکل کام ہے۔ لیکن ادراک کے ذریعہ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ چونکہ یہ سب ذہنی ڈھانچہ ہے، درحقیقت کچھ بھی خاص نہیں۔
تصوراتی تخیل کے عرفان کے ذریعہ من کی تربیت
کئی درجات ہیں جن کے سہارے ہم اپنے نکات نظر پر من کی تربیت کے ذریعہ کام کرسکتے ہیں۔ مختلف ذہنی خانوں کے ذریعہ ہم چیزوں کا مطالعہ کرسکتے ہیں، اور ہم زیرِ مطالعہ اشیاء کو ایک خانہ سے دوسرے خانہ میں منتقل کرسکتے ہیں۔ کسی کو "پریشان کن اور شکائیتی شخص" کے خانہ میں رکھنے کے بجاۓ انہیں ہم "ناخوش، تنہا شخص" کے خانہ میں رکھتے ہیں، جو اُس شخص کے ساتھ ہمارے سلوک کو بالکل بدل دیتا ہے۔ ہمیں معلوم ہوتا ہے اس شخص کے اندر ایسا کچھ نہیں جو اسے ایسا یا ویسا بنادے، بلکہ وہ ہمارا نکتہ نظر ہے جو ہمارے ان کے ساتھ سلوک اور معاملہ پر اثر انداز ہوتا ہے۔
کچھ ذہنی اقسام، جیسے "خاص،" بالکل مددگار نہیں۔ خاص افراد اور خاص مواقع وغیرہ ہوتے ہیں۔ لیکن کیا آپ نے سوچا کہ سالگرہ اور سالِ نو کے خاص ہونے کے بارے میں جب ہم سوچتے ہیں تو وہ کتنا فرضی اور عارضی معلوم ہوتا ہے۔ انہیں کیا بات خصوصی بناتی ہے؟ صرف یہ بات کہ کچھ لوگوں نے ایسا طے کرلیا ہے۔ یکم جنوری کے دن میں کوئی خاص بات نہیں اور نہ یہ تاریخ فلکیات کے کسی واقعہ سے مطابقت رکھتی ہے۔ زمین سورج کے اطراف گردش کرتی رہتی ہے، اور آپ کسی ابتدا کو فرض نہیں کر سکتے "یہ سال کا پہلا دن ہے۔" کوئی پہلا نہیں، اور یہی وجہ ہے کہ ہر کلچر کا اپنا سالِ نو ہے۔ اس کی کوئی خصوصیت نہیں ہے۔ اگر آپ کسی ایک کلچر میں ہوں جو نیا سال منا رہا ہو، تو شاکی ہونے کی ضرورت نہیں یا اسے لایعنی سمجھنے کی ضرورت نہیں، اور نہ ہی زیادہ گرمجوش ہونے یا بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی ضرورت ہے۔
جب ہم اس بنیادی نوعیت کو سمجھ جائیں کہ کیسے تصوراتی تخیل کام کرتا ہے، ذہنی خانے اور اقسام اور ان کی تعارفی خصوصیات، تو ہم ان کا استعمال کرسکتے ہیں جب وہ مفید ہوں اور ترک کردیں جب وہ مفید نہ ہوں۔
آخر میں، جب ہم اپنے نکات نظر کو تبدیل کریں اور بہتر کریں، کچھ ترغیب و تحریص، اور کسی قدر صبر، کی ضرورت ہے۔ جتنا زیادہ ہم مسلسل مشق کے ساتھ تبدیلی سے مانوس ہونگے، اتنا ہی ہماری روزمرہ زندگی فطری ہوتی چلی جائے گی۔ جب ہم مغموم ہوں تو بس اتنا کریں کہ اپنے کو یاد دہانی کرائیں "میں تو صرف اپنے ہی بارے میں سوچ رہا ہوں"۔
من کی تربیت ایک طویل طریقِ عمل ہے، لیکن قابلِ قدر ہے۔
خلاصہ
ہم اسی مقصد کو سامنے رکھ کر روز سویرے بیدار ہوتے ہیں: ہم ایک بہتر اور زیادہ خوشحال مستقبل چاہتے ہیں۔ اس معاملہ میں ہم سب برابر ہیں۔ ہم یہ سوچنے میں بھی یکساں ہیں کہ "میں" مرکزِ کائنات ہوں، ایک ایسی صورت جو ہمیں ناقابلِ ذکر مسائل سے دوچار کرتی ہے۔ خود پسندی کی وجہ سے، جو بڑی پُرکشش دکھائی دیتی ہے، کیونکہ وہ "میرا" خیال رکھتی ہے، ہم درحقیقت ناخوشی کی طرف دوڑتے ہیں، خوشی سے دور ہوتے جاتے ہیں جس کی ہمیں اتنی خواہش ہوتی ہے۔ جب ہمیں حقیقت کا شعور ہونے لگے، کہ کس طرح دنیا چلتی ہے، تو یہ سب الٹا ہوجاتا ہے۔ زندگی اوپر نیچے ہوتی رہتی ہے، اور ایسا ہی ہمیشہ ہوتا رہے گا: ہمارا اس پر کوئی اختیار نہیں، لیکن ہمارے بس میں ہمارا اپنا نکتہ نظر ہے: کیسے ہم ہر لمحہ ان واقعات سے نمٹتے ہیں جو ہمیں پیش آتے ہیں۔ اپنی کوششوں سے، ہم اپنی زندگیوں کو خوشگوار بناسکتے ہیں، جہاں ہم اپنے ساتھ دوسروں کا بھی خیال رکھیں، بلا لحاظ اس کے کہ خارجی حالات کیسے ہیں۔