مراقبہ کے اہم نکات

مراقبہ کئی ایک مسالک میں پایا جاتا ہے، محض بدھ مت میں ہی نہیں؛ لیکن اگرچہ مراقبہ کے کئی ایک پہلو بھارت کے تمام مسالک میں موجود ہیں، یہاں ہم اپنی بات چیت کی حدود کا تعیّن بدھ مت کے حوالے سے کریں گے۔ مراقبہ کی کئی ایک عمومی اشکال ہیں۔

ویڈیو: خاندرو رنپوچے ـ «کیا مراقبہ وقت کا ضیاع ہے؟»
ذیلی سرورق کو سننے/دیکھنے کے لئیے ویڈیو سکرین پر دائں کونے میں نیچے ذیلی سرورق آئیکان پر کلک کریں۔ ذیلی سرورق کی زبان بدلنے کے لئیے "سیٹنگز" پر کلک کریں، پھر "ذیلی سرورق" پر کلک کریں اور اپنی من پسند زبان کا انتخاب کریں۔

مراقبہ کیا چیز ہے؟

لفظ "مراقبہ" سے مراد اپنے آپ کو کسی چیز کی عادت ڈالنا ہے۔ اس کے لئیے تبتی لفظ "گوم" سے مراد کوئی سود مند عادت ڈالنا ہے۔ سنسکرت کا بنیادی لفظ "بھاونا" کا مطلب زیادہ تر کسی چیز کو وقوع میں لانا ہے۔ ہمارے من کی کسی قسم کی مفید حالت یا سبھاؤ ہے، اور ہم اسے عملی شکل دینا چاہتے ہیں، دوسرے لفظوں میں، من کی اس حالت کو اپنی سوچ اور رہن سہن کا حصہ بنانا ہے۔ مراقبہ کو جس کسی مسلک کے تحت استعمال میں لایا جا رہا ہے، ہدایات اس بات کا تعیّن کریں گی کہ مفید عادات کونسی ہیں اور انہیں عملی جامہ پہنانے کا سبب اور ہدف کیا ہے۔ تمام ہندوستانی مسلکوں میں یہ سہ درجہ نظام ہے: اول، سننا، پھر سوچنا، اور پھر مراقبہ کرنا (دیکھئیے: مراقبہ کیا چیز ہے؟) 

درس کو سننا

فرض کیجئیے کہ ہم درد مندی کی مفید عادت استوار کرنا چاہتے ہیں۔ درد مندی پیدا کرنے کی خاطر یا اگر ہم پہلے سے درد مند ہیں تو اس کا درجہ بڑھانے کی خاطر، پہلے ہمیں اس موضوع پر کچھ ودیا لینی ہو گی۔ قدیم بھارت میں کوئی بھی درس لکھا نہیں جاتا تھا۔ ان سب کی ترسیل زبانی ہوتی تھی۔ اس وجہ سے جو کوئی مراقبہ سیکھتا اسے پہلے 'درس' کو سننا پڑتا۔ اس وجہ سے پہلے مرحلہ کو "سننا" کہتے ہیں۔ 

آج کے دور میں، بے شک، ہم مختلف چیزوں کے بارے میں پڑھ سکتے ہیں – اس کے لئیے کسی کو ہمیں ذاتی طور پر بتانا ضروری نہیں ہے – لیکن اس کے پس پشت جو اصول کار فرما ہے وہ بہت معقول ہے۔ پرانے وقتوں میں، ہر چیز یاد رکھنا پڑتی تھی اور سامع کو اس بات کو دھیان میں رکھنا پڑتا تھا کہ جو کچھ اسے بتایا جا رہا ہے وہ درست ہے۔ اپنی یاد داشت سے کام لے کر بتانے والا قاری کبھی غلط بھی ہو سکتا ہے۔ بعض غلطیاں سرزد ہوئی ہوں گی اور یہ ایک بڑا مسٔلہ بن سکتا ہے۔  

امتیازی آگہی

درس سنتے وقت ہمیں وہ شے جسے "سماعت سے پیدا ہونے والی امتیازی آگہی" کہتے ہیں کو استوار کرنے کی ضرورت ہے۔ تبتی لفظ "شِراب" (سنسکرت پراجنا) کا ترجمہ اکثر "دانائی" کیا جاتا ہے، مگر "دانائی" کا لفظ استعمال کرنا بہت مبہم ہے؛ اس کے کوئی واضح معانی نہیں ہیں۔ اگر لوگوں کا ایک گروہ "دانائی" کا لفظ سنے تو ہر شخص اس کے مختلف معانی سمجھے گا، لہٰذا "دانائی" کی اصطلاح ہمیں "شِراب" کے معنی ٹھیک سے سمجھنے میں مدد نہیں کرتی۔ اس لئیے میں "شِراب" کا ترجمہ "امتیازی آگہی" کرتا ہوں۔
 
امتیازی آگہی من کے ایک پچھلے عنصر پر مبنی ہے جس کا ترجمہ میں "امتیاز" کرتا ہوں۔  بیشتر لوگ اس کا ترجمہ "شناخت" کرتے ہیں مگر "شناخت" بھی عین درست نہیں ہے۔ "شناخت" کا مطلب ہے کہ آپ کسی شے کو پہلے سے جانتے ہیں؛ اور پھر آپ اس کی پھر سے شناخت کرتے ہیں؛ یہ عین درست نہیں ہے۔ "امتیاز" سے مراد کسی چیز کے بارے میں یوں کہنا ہے کہ "یہ" چیز بالمقابل تمام دوسری چیزوں کے جو "یہ نہیں" ہیں، یا "یہ" بالمقابل "وہ" کیونکہ ہر شے خاص، منفرد اصناف کی حامل ہوتی ہے جنہیں ہم اس شے کو دیکھنے پر پہچانتے ہیں۔ اس کی ایک سادہ سی مثال یہ ہے کہ شیر خوار "اشتہا" اور "عدم اشتہا" کی پہچان رکھتے ہیں۔ شیر خوار بچوں کو ان حالتوں کا اظہار کرنے کے لئیے الفاظ کی ضرورت نہیں ہوتی، اور نہ ہی انہیں "اشتہا" اور "عدم اشتہا" کے تصورات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ تاہم وہ ان دو حالتوں کے درمیان فرق کو بخوبی پہچانتے ہیں کیونکہ ان دونوں کی منفرد، واضح امتیازی علامات ہیں، یعنی جسم کی ایک خصوصی حالت۔
 
امتیازی آگہی اس پہچان کو ایک خاص تیقّن عطا کرتی ہے: "یہ یقیناً یہ ہے نہ کہ وہ۔" جب ہم درس کو سن رہے ہوں یا اسے پڑھیں تو ہمیں یہ تیقن درکار ہے۔ ہمیں اس امر کا اعتماد ہونا لازم ہے: " یہ اصل تعلیم ہے؛ یہ جھوٹی تعلیم نہیں ہے۔" یہ جاننا نہائت مشکل ہے کہ "یہ واقعی درست تعلیم ہے،" کیونکہ صحیفوں کو خود پڑھ کر سمجھنا آسان نہیں ہے۔ عام طور پر ہمیں کسی کتاب یا استاد کی ضرورت پڑتی ہے جو ان کی وضاحت کر سکے۔ مگر ہم یہ کیسے جانیں کہ کوئی شخص قابل اعتبا اور مستند استاد ہے؟ کوئی شخص بدھ مت یا پیار اور درد مندی کا سبق پڑھا رہا ہے اور ہو سکتا ہے کہ وہ جو کہہ رہا ہے وہ بدھ مت کی تعلیمات سے متناقض ہو۔ ہمیں پورا یقین ہونا چاہئیے، امتیازی آگہی کے استعمال سے، کہ یہ درس جو ہم سن یا پڑھ رہے ہیں یہ بالکل درست ہے؛ ہمیں اس کے مستند ہونے کے متعلق پورا وثوق ہونا چاہئیے۔

کسی درس کو مستند طور پر بودھی مانا جانے کی خاطر چند ایک مخصوص عناصر کی موجودگی لازم ہے۔ جو شخص یہ درس دے رہا ہے یا جو اس کا مصنف ہے اس کے قابل استاد ہونے کا تعین کرنے کا، بذریعہ تفتیش، امکان ہونا چاہئیے۔ اس بات کا تعین کرنے کے لئیے ہم دوسرے لوگوں سے پوچھ سکتے ہیں، "مثلاً، کیا اس شخص کا اپنا کوئی قابل استاد ہے اور ان دونوں کا باہمی تعلق کیسا ہے؟ کیا اس شخص کا استاد قابل اساتذہ کی لمبی لڑی سے تعلق رکھتا ہے؟" یہ اہم سوالات ہیں جن کی تفتیش ضروری ہے۔ ہمیں یوں ہی کوئی کتاب نہیں پکڑ لینی چاہئیے، اور چونکہ اس کا مصنف کوئی مشہور انسان ہے، یہ نہیں فرض کر لینا چاہئیے کہ یہ قابل اعتبار سوتا ہے۔ جب ہم کسی کا لیکچر سن رہے ہوں تو بھی یہی اصول مد نظر رکھنا چاہئیے۔  

درس کے پس منظر کو پرکھنے کے لئیے امتیاز سے کام لینا

مزید بر آں، بدھ مت کے ہر سبق کا ایک پس منظر ہے، ایک مکتب فکر جہاں سے کوئی سبق ماخوذ ہے۔ کسی درس کے پس منظر کو جاننا بہت اہم ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بدھ مت کے مختلف مسالک کے ہاں کسی ایک ہی اصطلاح کے مختلف معانی ہو سکتے ہیں، جیسے کہ "کرم۔" مزید یہ کہ کرم پر یہ تعلیمات کسی ایک مخصوص مسلک میں دھرم پر دوسرے متعلقہ موضوعات پر دئیے گئے بیانات سے مطابقت رکھتی ہیں، مثلاً نظریہ ادراک۔ ہمیں اس بات کا پکا یقین ہونا چاہئیے کہ یہ تعلیمات کس نظام سے ماخوذ ہیں، تا کہ ہم انہیں دوسرے درس جو ہم نے سنے ہیں کے ساتھ ہم آہنگ کر سکیں۔

الفاظ جس پس منظر میں استعمال ہوتے ہیں اسے جاننا ضروری ہے خواہ یہ عام گفتگو ہی کیوں نہ ہو۔ مثال کے طور پر آپ نے "بان" کا لفظ سنا ہو گا، یہ تبت میں بدھ مت کے ظہور سے پہلے والے مسلک کا نام تھا۔ مگر فرانسیسی زبان میں "بان" سے مراد "اچھا" ہے۔ پس اگر آپ زبان کے اس پہلو سے ناواقف ہیں تو لفظ "بان"  سننے پر آپ کو کچھ غلط فہمی ہو سکتی ہے۔ کیا یہ شخص فرانسیسی 'بان' کی بات کر رہا ہے یا تبتی 'بان' کی؟ کسی لفظ کی آواز کی ادائیگی پر بھروسہ کرنا، بغیر یہ جانے کہ یہ کس زبان کا لفظ ہے، آپ کو گمراہ کر سکتا ہے۔

جب آپ بدھ مت کی تیکنیکی اصطلاحات استعمال کر رہے ہوں تو ایسی صورت میں پس منظر سے واقفیت اور بھی ضروری ہے۔ مثلاً اگر آپ خالی پن کے متعلق سیکھ رہے ہیں، جو کہ ایک بھارتی بودھی مکتب فکر میں ایک طرح سے بیان کی گئی ہے، مگر کسی دوسرے بھارتی بودھی مکتب میں اس کا بیان مختلف ہے۔ حد یہ کہ ایک بھارتی بودھی مکتب فکر کے اندر مختلف بودھی تبتی مسالک میں خالی پن کا بیان ایک دوسرے سے فرق ہے۔

یہ حقیقت کہ بدھ مت میں ایک ہی موضوع کے اتنے بے شمار مختلف بیانات پاۓ جاتے ہیں مغرب کے بدھ مت کی تعلیم لینے والوں کے لئیے نہائت غلطاں پہلو ہے۔ یہ امر بذات خود کافی غلط فہمی کا باعث ہے کہ آج کل کے دور میں، خصوصاً انٹر نیٹ کی بدولت، بدھ مت کے تمام ایشیائی مسلک ہماری دسترس میں ہیں۔ لیکن کسی ایک ملک میں، جیسے تبت، بدھ مت کے اندر بھی کئی مختلف روپ اور شروح موجود ہیں۔

میں اس نکتہ کی وضاحت یوں کرتا ہوں۔ فرض کیجئیے کہ ہم کسی استاد سے کرم کے اوپر مفصل سبق لے رہے ہیں۔ کسی قسم کی غلط فہمی سے بچنے کی خاطر ہمیں وہ تمام بیانات جو ہم نے اس موضوع پر دوسرے مسالک سے سنے ہیں، سواۓ اس مسلک کے، انہیں نظر انداز کر دینا چاہئیے۔ مثلاً ہمیں بودھی وضاحت نہ کہ ہندو شرح پر توجہ مرکوز کرنی ہے۔ اور بودھی شروح میں سے بھی ہم ہندوستانی سنسکرت مسلک پر درس لے رہے ہیں، نہ کہ پالی تھروادا مسلک سے۔ ہندوستانی سنسکرت مسلک میں ہم ویبھاشک نکتہ نظر پر درس لے رہے ہیں۔ مزید یہ کہ ہم ویبھاشک مکتب فکر میں گیلوگ شرح پڑھ رہے ہیں نہ کہ کیگیو شرح۔ ہمیں پس منظر کا ٹھیک ٹھیک اندازہ ہونا چاہئیے کیونکہ کرم کے بیانات فلسفیانہ پس منظر کے لحاظ سے آپس میں بہت تفریق رکھتے ہیں۔ اگر ہم دھرم کے کسی موضوع کا گیلوگ بیان کیگیو مسلک کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کریں تو ہم بہت الجھن کا شکار ہو جائیں گے۔ اور اگر ہم تمام شروح کو ایک ہی پیالے میں گھول دیں تو ہم بہت زیادہ غلط فہمی کا شکار ہوں گے۔

میرے ایک استاد گیشے نگاوانگ درگئے نے مغربی لوگوں کے متعلق ایک گہرے مشاہدہ کی بات کہی۔ اس نے کہا: "تم پچھمی لوگ ہر وقت دو چیزوں کا باہمی مقابلہ کرنے کی کوشش کرتے ہو جبکہ تم دونوں میں سے کسی ایک کو بھی بخوبی نہیں سمجھتے۔ اس کے نتیجہ میں تم الجھن میں پڑ جاتے ہو۔" اس سے ہم یہ سبق سیکھتے ہیں کہ دو مسالک کا باہمی موازنہ کرنا ٹھیک ہے، بشرطیکہ ہم کسی ایک کو بخوبی سمجھتے ہوں۔ ایک بار آپ کسی ایک نظام کو اچھی طرح جان لیں، پھر آپ دوسرے مسالک کو دیکھ سکتے ہیں اور ان کے باہمی فرق کو سمجھ سکتے ہیں، اس سے پہلے نہیں۔

پس اگر ہم کرم یا خالی پن، یا بدھ مت کے کسی بھی اور موضوع پر مراقبہ کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں سماعت سے امتیازی آگہی پیدا کرنا ہو گی۔ اس سے مراد صحیح طور پر، تیقن کے ساتھ:

  • یہ ہیں وہ الفاظ جو کہے گئے، نہ کہ اور کوئی الفاظ
  • جس شخص نے یہ بات کہی وہ اس موضوع پر درست جانکاری کا حامل ہے، نہ کہ کوئی غیر معتمد منبع۔
  • یہ وہ فلسفیانہ نظام ہے جس سے یہ بیان آیا، نہ کہ کسی اور نظام سے۔

ایک بار ہم سماعت سے پیدا ہونے والی امتیازی آگہی حاصل کر لیں، پھر ہم اگلے مرحلہ کے لئیے تیار ہیں۔

جو ہم نے سنا اس پر غور 

اگلا مرحلہ سوچ بچار سے پیدا ہونے والی امتیازی آگہی کا حصول ہے۔ "سوچ بچار" سے کیا مراد ہے؟ فکر سے مراد یہاں کسی چیز کے معانی کو سمجھنے کی کوشش ہے۔ لیکن، بہر حال، کسی بات کو "سمجھنے" سے کیا مراد ہے؟ تبتی اصطلاح جس کا مطلب "سمجھنا" یا "ادراک" لیا جاتا ہے اس کی تعریف ہے: "کسی شے کی درست اور حتمی فہم۔"
 
اتفاقاً، بہت سارے تبتی اور سنسکرتی الفاظ جو من اور من کی حرکات کے لئیے استعمال ہوتے ہیں، وہ ابتدائی زبان میں مغربی زبانوں میں استعمال ہونے والے الفاظ کی نسبت بہت مختلف معانی کے حامل ہیں۔ اس لئیے ایشیائی زبانوں کا مطالعہ اور ان کے مطالب ان زبانوں کے پس منظر میں جاننا نہائت فائدہ مند ہے۔ اس کا مطلب محض لغت کا مطالعہ ہی نہیں ہے بلکہ زبان کا استعمال ہے تا کہ ان کے معانی کو سمجھا جا سکے۔ اگر آپ ایسا کریں تو آپ کو ایک نہائت طاقتور تجزیاتی آلہ ہاتھ لگ جاتا ہے جس سے آپ بودھی تعلیمات کو سمجھ سکتے ہیں۔  

بولے ہوۓ الفاظ کو سمجھنا

یہ لفظ "سمجھنا" اسے درس کو سننے کے لئیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس صورت میں یہ کسی فقرے میں یوں ظاہر ہو گا: "میں سمجھتا ہوں کہ آپ نے وہ الفاظ کہے۔" اگر اس فقرے میں زور لفظ "آپ" پر ہے، تو اس سے ہم یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ ہمیں آپ کے ان الفاظ کی ادائیگی کے بارے میں کوئی شک نہیں ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ آپ نے یہ الفاظ نہیں کہے یا کہ کسی اور نے یہ الفاظ کہے۔ ہم نے انہیں آپ کی زبانی سنا اور ہماری سماعت میں کوئی نقص نہیں ہے۔

اگر زور "ان الفاظ" پر ہو تو "میں یہ سمجھتا ہوں کہ آپ نے وہ الفاظ کہے" کا مطلب مختلف ہو سکتا ہے: " آپ نے جو الفاظ کہے میں فرداً فرداً ان کا مطلب سمجھتا ہوں۔ یہ ممکن ہے کہ میں ان الفاظ اور فقروں کے معنی پوری طرح نہ سمجھ پاؤں – وہ ایک دوسرا معاملہ ہے؛ مگر میں یہ بخوبی سمجھتا ہوں کہ آپ نے یہ 'لفظ' اور یہ 'فقرے' کہے۔" ہمیں اس امر کو یقینی بنانا ہے کہ ہم نے بولے گئے الفاظ کو ٹھیک ٹھیک سنا۔ ہم دوسرے لوگوں سے پوچھ سکتے ہیں کہ آیا انہوں نے بھی وہی سنا جو ہم نے سنا۔ اگر اس کی کوئی ریکارڈنگ ہے تو ہم اسے سن سکتے ہیں۔ اگر قاری کی آواز اور ریکارڈنگ صاف ہے تو ہمیں بھروسہ ہے کہ ہم نے الفاظ کو صحیح سنا۔ اگر یہ اتنا صاف نہیں تھا تو ہم دوسرے لوگوں سے پوچھ سکتے ہیں کہ انہوں نے کیا سنا اور اس کا اپنی بات سے موازنہ کر سکتے ہیں جو ہم نے سنی۔ یہ بات اس وقت نہائت اہم ہوتی ہے جب ہم درس کی ریکارڈنگ پر تکیہ کئیے ہوۓ ہوں۔ پس سماعت سے آنے والی امتیازی آگہی کی بدولت ہم اس بات کا تعین کرتے ہیں کہ ہم نے سنے ہوۓ الفاظ کو حتمی طور پر درست سمجھا۔

الفاظ کے معانی کو سمجھنا

اب یہ سوچتے ہوۓ - کہ تین حصوں پر مشتمل فہم کا سلسلہ – اس کا مطلب الفاظ کے معانی کو سمجھنا ہے، جو کہ بے شک نہائت ضروری ہے۔ ہم اگر کوئی فائدہ مند عادت استوار کرنا چاہتے ہیں، تو ہمیں محض الفاظ سے ہی واقفیت کافی نہیں، ہمیں ان کے معانی بھی آنے چاہئیں۔ مثال کے طور پر، بعض لوگ آیات کو تبتی زبان میں پڑھتے ہیں لیکن ان کے معانی سے قطعی طور پر نابلد ہیں۔ اگر آپ الفاظ کے معانی کو ہی نہیں سمجھتے تو آپ کیسے کوئی مفید عادت استوار کر سکتے ہیں؟

آپ دیکھیں گے کہ کئی تبتی بودھی اساتذہ دعاؤں اور مختلف عبادات کی ادائیگی تبتی زبان میں کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ بے شک  کسی صدیوں پرانی رسم میں شمولیت فائدہ مند شے ہے؛ آپ خود کو اس مسلک کا حصہ محسوس کرتے ہیں، اور یہ جان کر خوشی ہوتی ہے کہ مختلف ممالک سے اور مختلف زبانیں بولنے والے لوگ ایک ہی چیز کا ورد کر رہے ہیں۔ مگر تبتی زبان میں بولنے سے ہمارے کہے ہوۓ الفاظ کسی مفید عادت کو تشکیل دینے میں معاون نہیں ہو سکتے، ما سواۓ اس کے کہ ہم تبتی زبان سمجھتے ہوں۔ پس ہمارے لئیے معانی کا جاننا ضروری ہے اور یہ معانی درست اور حتمی ہونے چاہئیں۔ اس سے مراد درست اور غلط معانی کو بذریعہ امتیازی آگہی الگ الگ کرنا ہے۔ اس کے لئیے ہم تجزیہ اور منطق استعمال کرتے ہیں تا کہ الفاظ کے درست معانی کی حتمی فہم استوار کر سکیں۔  

کسی درس کے الفاظ کے معانی کا حتمی تیقن 

یہ نکتہ کہ معانی کی فہم کا حتمی تیقن ایک اور نہائت دقیق موضوع کی طرف اشارہ کرتا ہے: ہم کسی چیز کے بارے میں تیقن کیسے حاصل کرتے ہیں؟ کسی چیز کے بارے میں یقین قائم کرنے کے لئیے جو ظاہر بھی نہ ہو اور جسے حواس خمسہ کے ذریہ نہ جانا جا سکے، ہمیں منطق کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ لیکن بعض ایسے لوگ بھی ہیں جن کے سامنے جب کوئی منطقی دلیل پیش کی جاۓ، وہ پھر بھی دلیل کے ثبوت کو سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ بعض اوقات وہ دلیل سے ماخوذ نتیجہ کو جان بوجھ کر نہیں مانتے، خواہ وہ منطق پر ہی مبنی کیوں نہ ہو۔ اگر ہم اس قسم کے انسان ہیں تو ہمیں دھرم کے مطالعہ میں بہت سی مشکلات کا سامنا ہو گا۔

فرض کیجئیے کہ ہم استدلال کے ماحصل کو تسلیم کرنے والے انسان ہیں۔ تو چلئیے ہم عدم استقلال کو اپنی دلیل اور تجزیہ کا نشانہ بناتے ہیں۔ ہم یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں اور اس طرح اس بات کو سمجھنا چاہتے ہیں کہ جو کوئی شے علت و معلول کے قاعدے سے وجود میں آۓ گی وہ آخر کو اپنے اختتام کو پہنچے گی۔ خواہ یہ کوئی کمپیوٹر ہو یا کار، ہمارا جسم یا کوئی رشتہ ناطہ، یہ علت و معلول کے توسط سے وجود میں آیا۔ اور چونکہ ان حالات اور اسباب کی ہر دم تجدید نہیں ہوتی، اس لئیے جو چیز اپنے وجود کے لئیے ان کی مرہونِ منت ہے وہ آخر کار تلف ہو جاۓ گی۔
 
آپ کسی ایسی چیز کی مثال لے سکتے ہیں جو آپ نے خریدی  اور جو آخر کار ٹوٹ گئی یا اس نے کام کرنا بند کر دیا؛ مثال کے طور پر وہ جو نئی گاڑی آپ نے خریدی وہ آخر کو جواب دے گئی، وہ پھول یا پھل جو اُگا آخر کار گل سڑ گیا۔ اس اصول سے کوئی شے مستثنیٰ نہیں ہے۔ کسی ایسی چیز کی مثال نہیں ملتی جو بنائی گئی ہو اور وہ کبھی ٹوٹی نہ ہو اور ہمیشہ سے قائم ہو۔ اگر کوئی چیز بنائی گئی – یعنی وہ پہلے موجود نہ تھی – تو یہ تلف ہو جاۓ گی۔ کیوں؟ کوئی شے جو وجود میں آتی ہے وہ حالات اور اسباب کے تابع ہوتی ہے۔ لیکن جونہی کوئی شے وجود میں آتی ہے تو وہ حالات اور اسباب جو اس کے وجود کا سبب بنے تبدیل ہو چکے ہوتے ہیں۔ ان کی تبدیلی کی وجہ یہ ہے وہ بھی جن اسباب پر منحصر تھے وہ اب نہیں رہے۔ اس وجہ سے وہ اس شے کے وجود کو ہر آنے والے لمحہ میں  دوام بخشنے سے قاصر ہیں۔ دوسرے لفظوں میں، جب کسی چیز کے وجود میں آنے کے اسباب اور حالات نہیں رہتے، تو ان کے سبب جو بھی شے وجود میں آئی وہ ٹوٹ پھوٹ جاتی ہے۔ یہ اس لئیے ٹوٹ جاتی ہے کیونکہ وہ عناصر جو اس کے وجود اور دوام کا سبب تھے وہ اب نہیں رہے۔ اس کی حالت بدل جاۓ گی کیونکہ اب کوئی دوسرے اسباب اور حالات اس پر اثر انداز ہوں گے۔  

اس کی ایک اور مثال انسانوں کے باہمی تعلقات ہیں۔ کسی سے کوئی ناطہ پیدا ہونے کے کئی اسباب اور حالات ہوتے ہیں۔ مثلاً میں عمر کے ایک خاص حصہ میں تھا، دوسرا شخص بھی عمر کے ایک خاص حصہ میں تھا، میری زندگی میں یہ ہو رہا تھا، اس کی زندگی میں وہ ہو رہا تھا، اور معاشرے میں یہ ہو رہا تھا۔ یہ سب عناصر ہمارے آپس میں ملنے اور تعلق استوار کرنے کا باعث ہوۓ۔ مگر وہ حالات ہمیشہ ویسے نہ رہے؛ ان میں مستقل بدلاؤ آتا رہا۔ ہماری عمر میں اضافہ ہو گیا، ہماری زندگیوں میں مختلف واقعات پیش آ رہے تھے۔ خواہ ہم ایک لمبا عرصہ اکٹھے بھی رہیں، پھر بھی ہم میں سے ایک دوسرے سے پہلے چل بسے گا۔ ہمارے اس تعلق کے اسباب اور حالات پر منحصر ہونے کے باعث ہمارا تعلق ہمیشہ تغیّر پذیر ہو گا اور ہمیشہ قائم نہیں رہ سکتا۔ اگرچہ ہم اس نتیجہ پر منطق کے راستے پہنچے ہیں، پر ہم اس حقیقت کو قبول کرنے کو تیار نہیں۔ 

ایک اور مثال یہ ہے کہ ہم ایک کمپیوٹر خریدتے ہیں اور توقع کرتے ہیں کہ یہ کبھی خراب نہیں ہو گا، مگر ایسا ہو جاتا ہے۔ یہ کیوں خراب ہوا؟ یہ اس لئیے ٹوٹا کیونکہ اسے بنایا گیا تھا۔ جب یہ خراب ہوا یا ٹوٹا تو اس وقت جو واقعہ پیش آیا – وہ اس کے خاتمہ کی پر اثر حالت تھی۔ اس کے خراب ہونے کی اصلی وجہ اس کا بنایا جانا تھا۔ یہ ایسے کہنے کے برابر ہے: " اس شخص کی موت کی وجہ کیا ہے؟ اس کی موت کی وجہ اس کی تولید ہے۔" ایک لطیفہ یوں ہے: کیا آپ زندگی کا مطلب جانتے ہیں؟ یہ ایک جنسی وبا ہے جس میں موت سو فیصد یقینی ہے۔" بد قسمتی سے یہ سچ ہے! اگرچہ ہم کسی چیز کے بارے میں سوچتے وقت منطق سے کام لیتے ہیں، جیسے عدم استقلال کو سمجھنے کی کوشش، پھر بھی کافی حد تک مزاحمت پیش آتی ہے۔ بعض اوقات ہم پیش نظر معلومات کو درست ماننا نہیں چاہتے۔ ہم عدم استقلال کو زندگی کی حقیقت ماننے سے گریزاں ہوتے ہیں۔ اس لئیے کسی موضوع کی عمیق فہم حاصل کرنے کی خاطر ہمیں اس کے پیچھے منطق کو بارہا دیکھنا چاہئیے۔
 
سوچ بچار کے طریقہ سے ہم کسی فہم و فراست تک پہنچتے ہیں – وہ شے جسے "امتیازی آگہی کہتے ہیں وہ سوچنے سے آتی ہے۔" ہم الفاظ کے معانی کو ٹھیک ٹھیک سمجھتے ہیں، اور اس پر ہمیں پورا یقین ہے۔ دوسرے لفظوں میں، ہم نے اس کا منطقی مطالعہ کیا ہے اور اس میں سے وہ سب نکال دیا ہے جو اس کے معانی نہیں ہیں۔ " عدم استقلال کا مطلب یہ نہیں کہ شائد میرا کمپیوٹر خراب ہو جاۓ گا۔ اس کا مطلب ہے کہ کبھی نہ کبھی یقیناً خراب ہو جاۓ گا۔" پس ہم خواہ اس حقیقت کو دل سے تسلیم کریں یا نہ کریں کہ "ہر شے جو پیدا کی گئی وہ آخر کو ٹوٹ جاۓ گی،" تو کم از کم ہم عدم استقلال کا مطلب سمجھتے ہیں۔

اس امر کا تیقن کہ جو درس ہم نے سنا وہ سچ ہے اور مفید ہے

اگلی بات جس کی ہم نے تسلی کرنی ہے وہ یہ کہ جو الفاظ ہم نے سنے ان کا مطلب کیا ہے، اور یہ کہ وہ مطلب صحیح بھی ہے۔ ہماری عدم استقلال کی مثال میں: ہو سکتا ہے کہ ہم اس اصطلاح کے معنی سے واقف ہوں، لیکن کیا ہم اس کی صحت کے بارے میں تیقن رکھتے ہیں؟ کیا ہمیں پورا یقین ہے؟ اگر ہم عدم استقلال کے متعلق سنجیدگی سے سوچیں، اور ہمیں اس اصول کی کوئی بھی خلاف ورزی نظر نہ آۓ، تو پھر ہمیں پکا یقین ہو جاۓ گا کہ عدم استقلال ایک بنیادی قانون ہے۔ ہمارا سوچ کا انداز کچھ اس طرح ہو سکتا ہے: "مجھے یقیناً موت آۓ گی۔ ہر کوئی جس نے جنم لیا اس نے موت کا مزہ چکھا۔ ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ کوئی پیدا تو ہوا مگر مرا نہیں۔ لہٰذا، کیا ایسی کوئی وجہ ہے کہ میں یہ مانوں کہ مجھے موت نہیں آۓ گی؟ نہیں، ایسی کوئی وجہ نہیں ہے۔"

اگر ہمیں اس بات کا یقین ہو کہ ایک دن ہمیں موت آ گھیرے گی تو ہم اس زندگی سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائں گے۔ ایسا اکثر ہوتا ہے کہ جب کسی کو قریب المرگ تجربہ ہو، تو وہ کہتے ہیں، "میں ابھی زندہ ہوں، اور میں اپنے باقی ماندہ وقت کو زیادہ سے زیادہ مفید بنانا چاہتا ہوں۔" لیکن ہمیں کسی قریب المرگ تجربہ کا انتظار کرنے کی ضرورت نہیں پیشتر اس کے کہ ہمیں ہمارے فنا ہونے کا یقین ہو اور ہم اپنے باقی ماندہ وقت کو بخوبی استعمال میں لائیں۔ 

پس، پہلے غور و فکر کے راستے ہم معانی کو ٹھیک ٹھیک سمجھتے ہیں۔ پھر ہم اس کی صحت کی تسلی کرتے ہیں۔ اور پھر، ہم اپنے اندر اس بات کا اعتماد پیدا کرتے ہیں کہ اس کو اپنے اندر جذب کرنے اور اس کے مطابق زندگی گزارنے سے مجھے فائدہ ہو گا۔ 

یہ تمام باتیں، 'معانی' کو سمجھنا، ان کی صحت کا یقین ہونا، اور اس کے 'سود مند' ہونے کا تیقن، یہ سب سوچ بچار سے پیدا ہونے والی امتیازی آگہی کا حصہ ہیں۔ یہ سلسلہ نہایت اہم ہے اور بہت وقت طلب بھی ہے۔ ہمیں خاموشی سے بیٹھ کر اس درس پر گہرا غور کرنا درکار ہے جو ہم نے سنا یا پڑھا ہے۔ ایسا کئیے بغیر، اگر ہم، مثال کے طور پر، عدم استقلال پر مراقبہ کرنا چاہیں تو ہو سکتا ہے ہم بیکار بیٹھے رہیں بغیر کسی تصور کے کہ ہم نے کیا کرنا ہے۔ پھر ہم گم سم بیٹھے رہیں گے - جسے "حواس باختہ" بھی کہتے ہیں – اور اسے مراقبہ سمجھیں گے۔ یہ قطعی طور پر مراقبہ نہیں ہے۔ تو پھر مراقبہ کیا چیز ہے؟

ویڈیو: گیشے لہاکدور ـ «علم اور حکمت کے درمیان فرق»
ذیلی سرورق کو سننے/دیکھنے کے لئیے ویڈیو سکرین پر دائں کونے میں نیچے ذیلی سرورق آئیکان پر کلک کریں۔ ذیلی سرورق کی زبان بدلنے کے لئیے "سیٹنگز" پر کلک کریں، پھر "ذیلی سرورق" پر کلک کریں اور اپنی من پسند زبان کا انتخاب کریں۔

مراقبہ کی تین قِسمیں

بالکل ویسے ہی جیسے کہ ہم درس کو سن کر اور اس پر غور کر کے ان دو سے منسلک امتیازی آگہی استوار کرتے ہیں،  مراقبہ سے ہمیں وہ نام نہاد "امتیازی آگہی ملتی ہے جو مراقبہ سے پیدا ہوتی ہے۔" اس آگہی کے توسط سے ہم، مکمل ارتکاز کے ساتھ، من کی وہ سود مند حالت استوار کرتے ہیں جو ہم کرنا چاہ رہے ہیں اور ہم باقی تمام من کی حالتوں سے الگ اس کی درست اور پر تیقن پہچان کر سکتے ہیں۔ اس قسم کی امتیازی آگہی کے حصول کی خاطر ہم من کی اس مطلوبہ حالت کو بار بار استوار کر کے اپنے آپ کو اس کا عادی بنا لیتے ہیں۔ ایسا کرنے والے کئی ایک مراقبے ہیں، مگر ہم تین مقبول عام مراقبوں پر غور کریں گے۔

کسی چیز پر توجہ مرکوز کرنا

مراقبہ کی پہلی قسم میں ہم کسی ایک چیز پر توجہ مرکوز کرتے ہیں۔ ہم کسی قسم کی بھی شے پر توجہ مرکوز کر سکتے ہیں اور ہم جو کرنے کی کوشش کر ر ہے ہیں وہ یہ کہ اس خاص چیز پر ارتکاز۔ ہم خواہ سانس کی آمد و رفت پر توجہ مرکوز کریں یا کسی تصوراتی مہاتما بدھ پر، یا پھر من کی فطرت پر، یہ بہر حال کسی شے پر توجہ ہے۔ سر راہے، تبتی بدھ مت میں یہ تین چیزیں ارتکاز کے لئیے سب سے زیادہ مقبول ہیں۔ 

اس قسم کے مراقبہ کا ایک اہم متبادل یہ ہے جس میں کسی شے پر توجہ مرکوز کرنا، اور اس پر توجہ قائم رکھتے ہوۓ، کسی خاص پہلو سے اس کا ادراک کرنا، مثلاً اس کے عدم استقلال پر۔ کسی شے پر اس فہم یعنی عدم استقلال کے پہلو سے توجہ مرکوز کرنے سے یہ حقیقت من میں اچھی طرح سرایت کر جاتی ہے کہ یہ شے عدم استقلال کا شکار ہے۔ ایسا کرنا کسی شے سے لگاؤ لگانے پر قابو پانے کے سلسلہ میں نہائت مفید ہے، جیسے کہ یہ ہمیشہ رہنے والی ہے۔ 

ایک اور مثال یوں ہے: آپ کی کسی سے دوستی یا خاص تعلق ہے، اور وہ آپ کو کال بھی نہیں کرتا اور نہ ہی ملنے آتا ہے، اور آپ اِس پر بہت خفا ہوتے ہیں۔ اس مثال میں آپ کو اس بات کو اچھی طرح سمجھنا ہے کہ : "اپنے اس دوست کی زندگی میں میں اکیلا ہی نہیں ہوں۔ میرے علاوہ اور لوگ بھی اس کی زندگی میں شامل ہیں۔ اس لئیے میرا یہ سوچنا کہ وہ صرف مجھے ہی وقت دے گا اور کسی اور کو وقت نہیں دے گا نہایت نا معقول بات ہے۔" یہاں آپ کسی غیر ممکن من پسند تصور کو چیلنج کر رہے ہیں، جو یہ ہے کہ: "میرے دوست کی زندگی میں میں ہی ایک اکیلا انسان ہوں۔" تو جب آپ اس بات پر ناراض ہوتے ہیں کہ آپ کا دوست آپ کے ساتھ زیادہ وقت نہیں گزارتا، تو آپ اس پر اس فہم کے ساتھ توجہ مرکوز کرتے ہیں: "اس کی زندگی میں میرے علاوہ اور لوگ اور دوسری مصروفیات بھی ہیں۔" 

لہٰذا جب ہم مراقبہ کی بات کرتے ہیں تو ہم کسی قسم کے عارفانہ یا سحر انگیز معاملہ کی بات نہیں کرتے؛ ہم کسی تصوراتی دنیا میں کھو جانے کی بات نہیں کرتے۔ در اصل مراقبہ زندگی کے دکھ، آزار اور مسائل سے نمٹنے کے عملی طریقوں پر حاوی ہے۔ 

مراقبہ کی پہلی قسم کسی ایک چیز پر ایک خاص انداز سے توجہ مرکوز کرنے کا نام ہے، یا تو محض ارتکاز کے ساتھ یا کسی قسم کی سوجھ بوجھ کے ساتھ، جیسا کہ ہماری دوست پر توجہ مرکوز کرنے والی مثال تھی۔

من کی کوئی حالت پیدا کرنا

مراقبہ کی دوسری قسم من کی کوئی مخصوص حالت استوار کرنا ہے، مثلاً پیار یا درد مندی پیدا کرنا اور اس احساس کو برقرار رکھنا ہے۔ یہاں توجہ کا مرکز وہ شے نہیں جس کے لئیے ہم پیار یا درد مندی پیدا کر رہے ہیں بلکہ مقصد وہ جذبہ یا احساس پیدا کرنا ہے۔

کوئی امنگ پیدا کرنا

مراقبہ کی تیسری قسم کسی چیز پر توجہ مرکوز کرنا ہے اس خواہش کے ہمراہ کہ اس ہدف کو پایا جاۓ جو اس سے نسبت رکھتا ہے؛ مثلاً، ہماری اپنی ذات کی روشن ضمیری پر غور جو ابھی وقوع پذیر نہیں ہوئی، اس خواہش کے ساتھ کہ "میں اسے پا لوں گا۔" اسے 'بودھی چت ' مراقبہ کہتے ہیں۔" جب ہم بودھی چت پر مراقبہ کرتے ہیں، جس کا بعض اوقات ترجمہ "جاگرت من" کیا جاتا ہے، تو ہم روشن ضمیری پر عمومی توجہ نہیں دے رہے ہوتے، اور نہ ہی یہ مہاتما بدھ کی روشن ضمیری سے تعلق رکھتا ہے؛ اس کی بجاۓ ہم اپنی ذاتی روشن ضمیری پر ارتکاز کرتے ہیں۔ ہمیں ابھی تک روشن ضمیری نہیں ملی، مگر یہ ہو سکتی ہے – ہمیں یقین ہے کہ یہ ضرور واقع ہو گی – اس کی بنیاد ہماری بدھا فطرت اور بہت سی محنت ہے۔ پس مراقبہ کی اس تیسری قسم میں ہم مستقبل کے ایک ہدف پر اسے پانے کی خاطر کام کر رہے ہیں۔

روز مرہ زندگی میں تین قسم کے مراقبہ کا اطلاق

تو یہ تین مراقبے ایسی مفید عادات استوار کرنے میں کام آتے ہیں جنہیں ہم اپنی روز مرہ زندگی کا حصہ بنانا چاہتے ہیں۔ اس بات کا خیال رکھنا نہائت ضروری ہے کہ مراقبہ کسی ایسے ضمنی فعل کی شکل اختیار نہ کر لے جس کا ہماری زندگی سے کوئی واسطہ نہ ہو۔ مراقبہ کوئی دل بہلاوا نہیں ہے؛ یہ کوئی کھیل نہیں؛ یہ کوئی فرصت کا مشغلہ نہیں۔ یہ ایسی صفات پیدا کرنے کا طریقہ ہے جنہیں ہم اپنی روز مرہ زندگی میں شامل کرنا اور ان سے استفادہ کرنا چاہتے ہیں۔ 

آئیے ہم ان مثالوں کو استعمال میں لا کر جن کا ابھی ذکر ہوا یہ دیکھیں کہ ان طریقوں کو کیسے کام میں لایا جا سکتا ہے۔ جب ہم مراقبہ کی پہلی قسم کی مشق کرتے ہیں، جس میں ہم اپنی توجہ کسی ایک شے پر مرکوز کرتے ہیں، تو ہم من کو خاموش کرنا سکھاتے ہیں اور اپنی ارتکاز کی صلاحیت میں اضافہ کرتے ہیں۔ ہم نہ صرف اپنے کام پر توجہ دینا سیکھتے ہیں بلکہ اس وقت بھی جب ہم کسی سے ہمکلام ہوں۔ ہم اس شخص پر اور اس کی بات پر توجہ مرکوز کرتے ہیں، نہ کہ اپنے من کو آوارہ چھوڑ دیں اور وہ ادھر ادھر بھٹکتا پھرے۔ ہم اس کی بات بغیر کسی نکتہ چینی کے سننا چاہتے ہیں: "اوہ، یہ واقعی احمقانہ بات ہے،" یا "کاش یہ شخص بکواس بند کر دے۔" ہم اس قسم کا من کا شور شرابہ بند کر دینا چاہتے ہیں۔ ہم اس شخص پر اور اس کی بات پر توجہ مضبوط کرنے کی خاطر ایسی سمجھ بوجھ سے کام لے سکتے ہیں: "آپ ایک انسان ہیں اور جذبات کے مالک ہیں، جیسے کہ میں؛ جب آپ بات کر رہے ہوں تو آپ چاہتے ہیں کہ لوگ توجہ دیں، بالکل ویسے ہی جیسے میں بات کرتے وقت چاہتا ہوں۔" تو ارتکازی مراقبہ کا مقصد یہ صورت حال پیدا کرنا ہے۔

دوسری قسم کا مراقبہ یعنی من کی کوئی حالت استوار کرنا، اسے ہم روز مرہ زندگی میں پیار اور درد مندی کو بڑھانے کے لئیے استعمال کر سکتے ہیں۔ ہم پیار پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں – یہ خواہش کہ ہر کسی کو مسرت ملے – خواہ ہم کہیں بھی ہوں اور کسی بھی کے ساتھ ہوں۔ یہاں پیار سے سچ مچ یہ مطلب ہے کہ ہر کسی سے پیار: بس میں سوار ہر کوئی، زمین دوز ریل گاڑی میں سب لوگ، ٹریفک میں، دکان میں سب کے سب لوگ، تمام جانور اور حشرات ارض – یعنی ہر کوئی۔ جس کا مطلب ہے ہر کسی کی عزت اپنے دل میں پیدا کرنا۔ اس لحاظ سے سب برابر ہیں کہ ہر کوئی مسرت کا خواہاں ہے، کوئی بھی دکھ جھیلنا نہیں چاہتا۔ اور ہر کسی کو خوش رہنے کا برابر کا حق ہے، حتیٰ کہ اس میں مکھی بھی شامل ہے!

اور آخری بات یہ ہے کہ ہم مراقبہ کے توسط سے ایسی تمنا پیدا کرتے ہیں جسے ہم تمام عمر اپنے ساتھ رکھیں: "میں ایک ہدف کو پانے پر کام کر رہا ہوں۔ میں اپنی کمزوریوں پر قابو پانا چاہتا ہوں۔ میں عمدہ صفات پیدا کرنے پر کام کر رہا ہوں، اور میں مکش اور روشن ضمیری پانے پر کام کر رہا ہوں۔" ایسی تمنا ہماری تمام زندگی پر چھا جاتی ہے، نہ کہ محض اس مختصر مدت کے لئیے جب ہم گدی پر بیٹھے ہوں۔

من کی سود مند حالت استوار کرنے پر تسونگکھاپا کی نصیحت

تسونگکھاپا جو کہ ایک عظیم تبتی گورو تھا، نے ہمیں مراقبہ کی ان اقسام کے متعلق بہت اچھی طرح سمجھایا جو ہمیں جاننا چاہئیے؛ دوسرے لفظوں میں، مراقبہ کی بنیاد کے طور پر من کی سود مند حالت کیسے استوار کی جاۓ۔

جس چیز پر توجہ مرکوز کر رہے ہو اسے اچھی طرح جانو

اولاً ہمیں یہ جاننا ہے کہ جس چیز پر ہم مراقبہ کر رہے ہیں وہ ہے کیا۔ آئیے ہم درد مندی کی مثال لیتے ہیں۔ درد مندی پر توجہ مرکوز کرنے کا مطلب ہے دوسروں کے دکھ پر توجہ دینا۔ یہ بودھی چت سے بہت مختلف ہے جس میں ہم اپنی ذاتی روشن ضمیری پر توجہ دیتے ہیں جو ابھی وقوع پذیر نہیں ہوئی ہے۔ بعض لوگ درد مندی پر مراقبہ کرتے ہوۓ اس غلط فہمی میں مبتلا ہوتے ہیں کہ وہ بودھی چت پر مراقبہ کر رہے ہیں؛ درد مندی بودھی چت کی بنیاد ہے مگر بودھی چت اور درد مندی ایک جیسے نہیں ہیں۔

اس کے تمام پہلووں کو جانیں

جب ہم اپنی توجہ والی شے کا تعین کر لیں – یہاں پر، دوسروں کا دکھ بطور درد مندی پر نکتہ ارتکاز کے – اگلی بات ہمیں اس شے کے تمام پہلووں سے واقفیت حاصل کرنا ہے۔ پس ہمیں دکھ اور آزار کے ان تمام پہلووں کا جائزہ لینا ہے جس سے انسان کا واسطہ پڑتا ہے: عدم مسرت، ہماری عمومی خوشی، کرم کی اضطراری کیفیت کے زیر اثر ہونا اور پنر جنم کی اضطراری صورت کا دکھ جھیلنا۔ ہم محض چند ہستیوں کے محدود مصائب پر ہی توجہ مرکوز نہیں کرتے، جیسے کسی کا اپنی ملازمت کھو دینے سے عدم مسرت اور پریشانی کا شکار ہونا۔ بڑے پیمانے کی درد مندی میں ہم سب کی، بشمول جانوروں کے، دکھ بھری کیفیت کو مد نظر رکھتے ہیں۔

اپنے من کے اس سے تعلق کو سمجھنا

اگلی بات ہم نے یہ دیکھنی ہے کہ ہمارا من اس کو کیسے سمجھ رہا ہے۔ درد مندی کے معاملہ میں، ہمارا من سب کے تمام مصائب پر توجہ دیتا ہے اس تمنا کے ساتھ کہ یہ ہمیشہ کے لئیے رفع ہو جائیں۔ اس میں ایسا رویہ نہیں ہوتا "اوہ، یہ کس قدر ہولناک ہے۔" تو بہر حال، یہ تصور بودھی چت سے بہت مختلف ہے۔ بودھی چت میں ہم اپنی ہنوز نہ شدند روشن ضمیری پر توجہ دیتے ہیں، اور ہم اسے اس نیت سے دیکھتے ہیں: "میں اسے پا لوں گا اور اسے پا کر دوسروں کا بھلا کر سکوں گا۔" یہ اس سے بہت مختلف ہے جس میں ہم درد مندی کے ساتھ دوسروں کے دکھ کو سمجھتے ہیں۔

جانو کہ اسے استوار کرنے میں کیا معاون ہو گا

 پھر ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ من کی اس حالت کو استوار کرنے میں کیا چیز معاون ہو گی۔ ہماری مثال کے مطابق، درد مندی پیدا کرنے کے لئیے ہمیں خود اپنے دکھ کے بارے میں بھی ویسا ہی احساس ہونا چاہئیے۔ اسے "مکش پانے کا مصمم ارادہ" کہتے ہیں، جس کا ترجمہ عموماً "تیاگ" کیا جاتا ہے۔ یہ ہمارے اپنے دکھوں پر توجہ مرکوز کرنا ہے اور ان سے اور ان کے اسباب سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے۔ دکھ کے اسباب سے مکش پانے کا مطلب ہے کہ ہم اس رویہ سے جان چھڑائیں جو ہمیں قابل رحم بنا رہا ہے، مثلاً غصہ کرنا۔ اگر ہم اپنے آپ کے لئیے دکھ سے مکش کا پکا ارادہ کر لیں، تو پھر ہم اس رویہ کو، اس خواہش کو اتنی ہی شدت کے ساتھ دوسروں کے کام لا سکیں گے جس سے ہم نے اسے اپنے لئیے استعمال کیا۔

جانو کہ اسے استوار کرنے میں کیا ضرر رساں ہو گا

ہمیں یہ بھی جاننا چاہئیے کہ من کی اس حالت کو استوار کرنے میں کیا رکاوٹیں ہوں گی۔ درد مندی پیدا کرنے کے معاملہ میں دوسروں کو اہمیت نہ دینا، ان کے مصائب کو اہمیت نہ دینا رکاوٹ کا باعث ہو سکتا ہے۔ اس کا اثر زائل کرنے کی خاطر ہمیں یہ سوچنا ہے، "ہر کوئی مسرت کا تمنائی ہے۔ کوئی بھی دکھ نہیں چاہتا۔ دکھ سے نجات کے سلسلہ میں سب برابر ہیں۔ ہم سب ایک جیسے ہیں۔ ہر کوئی میری طرح جذبات کا مالک ہے۔ ہر وہ شخص جو دکھ جھیل رہا ہے وہ ویسے ہی تکلیف اٹھا رہا ہے جیسے کہ میں ایسی حالت میں محسوس کرتا ہوں۔ وہ سب دکھ سے نجات چاہتے ہیں بالکل ویسے ہی جیسے کہ میں چاہتا ہوں۔" اس طرح ہم دوسروں کے لئیے احساس اور عزت پیدا کرتے ہیں۔ اگر ہمارے دل میں یہ احساس اور عزت نہ ہو تو ہم پر خلوص درد مندی پیدا کرنے میں رکاوٹیں محسوس کریں گے۔

اس کے اطلاق کو جانو

تسونگکھاپا بات کو جاری رکھتے ہوۓ کہتا ہے کہ جب ہم من کی ایسی حالت استوار کر لیں تو پھر ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ اسے کیا کیا جاۓ؟ یعنی اس کا اطلاق کیسے کیا جاۓ۔ میں نے درد مندی پیدا کر لی ہے، تو اب کیا؟ اس سے مجھے دوسروں سے معاملہ کرنے میں مدد ملے گی؛ اس سے میں ان کی بھلائی کے لئیے کام کر سکوں گا؛ اور اس سے مجھے روشن ضمیری پانے کے ہدف میں ترغیب ملے گی، تا کہ میں لوگوں کی بھر پور مدد کر سکوں۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ جو چیز اس وقت مجھے دوسروں کی مدد کرنے میں حائل ہوتی ہے وہ میری اپنی کمزوریاں ہیں، لہٰذا مجھے بالضرور اپنی کمزوریوں پر قابو پانا ہے۔"

جانو کہ یہ کیا کچھ تلف کر دے گا

اگلی بات جو ہمیں جاننا ہے وہ یہ کہ: من کی یہ حالت کس چیز کا خاتمہ کر دے گی؟ درد مندی سے میرے اندر کا وہ ٹھنڈے دل والا احساس ختم ہو جاۓ گا جس سے میں دوسروں کو نظر انداز کرتا ہوں۔ اس سے مجھے اس سستی سے نجات ملے گی جس کی بدولت میں دوسروں کی مدد کرنے سے گریز کرتا ہوں، اور اس سے مجھے اپنے کو بہتر بنانے میں جو سستی ہے اس پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔ اس سرد مہری سے جان چھڑا کر میں دوسروں کی زیادہ مدد کر سکوں گا۔ اگر ہم درد مندی استوار کرنے اور اس پر مراقبہ کرنے کے ان تمام عناصر سے واقف ہوں، تو پھر ہم پورے اعتماد سے کہہ سکتے ہیں کہ ہم یہ مراقبہ درست طریقہ سے کر رہے ہیں؛ ہمیں ٹھیک ٹھیک اندازہ ہے کہ ہم کیا کر رہے ہیں اور کیوں کر رہے ہیں۔ ہم نے اس مراقبہ کو کرنے کی پوری تیاری کی ہے۔ وگرنہ یہ ایسے ہی ہو گا کہ کوئی شخص جو تیرنا نہیں جانتا وہ تالاب کے گہرے پانی والے حصہ میں کود پڑے۔ اگر ہم محض یہ کہیں،" بس بیٹھ جاؤ اور مراقبہ کرو،" اور ہمیں کوئی اندازہ نہ ہو کہ ہمیں کیا کرنا ہے، تو امکان غالب ہے کہ اس کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلے گا۔

Top