بہت سارے بودھی پاٹھ میں بصری عرفان پایا جاتا ہے۔ تاہم "بصری عرفان" قدرے گمراہ کن ترجمہ ہو سکتا ہے، کیونکہ ہم اپنی آنکھیں استعمال نہیں کر رہے ہیں۔ ہم اپنے تصور سے کام لے رہے ہیں، لہٰذا یہ محض بصارت سے ہی تعلق نہیں رکھتا، ہمیں آواز، بو، ذائقہ اور طبعی حِس کا تصور بھی کرنا ہے۔ جب ہم ٹھوس مادہ کی مختلف اشکال کا چڑھاوا چڑھاتے ہیں، تو ہم ان سے لطف اندوز ہونے کی حِسی مسرت کا تصور بھی کرتے ہیں۔ اور ویسے بھی ہم کوئی دو ابعادی تصویروں کو تصور میں نہیں لا رہے ہیں؛ ہمیں سہ ابعادی زندہ مورتیاں جو کہ روشنی سے بنی ہوں نہ کہ محض تصویر، مجسمہ یا کارٹون مورتی ہوں کا تصور کرنا ہے۔
بدھا پر ارتکاز
جب مہایان مسلک میں مراقبہ کیا جائے تو بہت سارے گرو سانس پر توجہ دینے کی صلاح دیتے ہیں، کیونکہ ایسا کرنا بہت آسان ہے۔ ویسے اس مسلک میں مراقبہ کا مقبول ترین طریقہ ارتکاز کے لئیے ایک چھوٹے سے بدھا کو تصور میں لانے کا انداز ہے۔ ہم ایک سیب کو گھور کر ارتکاز قائم کر سکتے ہیں، لیکن در حقیقت، کسی سیب کو گھورنے سے کیا حاصل؟ اگر ہم کسی بدھا پر توجہ قائم کریں تو ارتکاز حاصل کرنے کے علاوہ ، ہم ایک بدھا کی خوبیوں سے آگاہ رہتے ہیں اور مہاتما بدھ کی بتائی ہوئی محفوظ راہ کو اپنی زندگی میں شامل کرتے ہیں (پناہ)، اس سے ہم خود بودھی چت وغیرہ کی بدولت بدھا بن سکتے ہیں۔
مزید یہ کہ، قدیم ہندی گرو اسانگا نے بتایا کہ مکمل ارتکاز من کی آگہی سے نہ کہ کسی حسی آگہی سے پیدا ہوتا ہے۔ یہ اس لئیے کہ ہم اس اتکاز کو کام میں لا کر اپنے من سے پیار، درد مندی، خالی پن کی سوجھ بوجھ وغیرہ استوار کرتے ہیں۔ پس من کی وہ حالت جس میں ہم ارتکاز پیدا کرنا چاہ رہے ہیں، کسی بدھا کا تصور ایک مفید آلہ کار ہے، جس سے ہم اپنے من کے شعور کو سدھا سکتے ہیں۔ تو خاص طور پر، تبت کے گیلوگ مسلک میں مکمل ارتکاز کے حصول کی خاطر ہم ہمیشہ کسی بدھا کو تصور میں لانے پر زور کا سبق پاتے ہیں۔
مگر تبت کے دیگر مسالک مثلاً ساکیہ، نئینگما اور کیگیو کے متعلق کیا خیال ہے جہاں ہمیں اکثر سانس پر توجہ دینے کا سبق ملتا ہے، یا کسی تصویر یا ایک بدھا کی مورتی پر نظر جمائے رکھنے کی ہدائت ملتی ہے؟ کیا یہ اسانگا کی تعلیم کے متناقض ہے؟ نہیں، جبکہ ہم ان کے من کی اشیا کی پہچان کے بیان کو دیکھیں، جہاں یہ تینوں مسلک یہ کہتے ہیں کہ آنکھ محض رنگ دار چیزوں کا اور ایک لمحہ میں ایک چیز کا شعور رکھتی ہے۔ اسی طرح کان کا شعور بھی محض آواز اور ایک لمحہ میں ایک چیز تک محدود ہے۔ پھر تصوراتی شناخت ان سب کو یکجا کرتی ہے جسے ہم "عام سوجھ بوجھ کی شے" پکار سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر، ایک سیب خالی سرخ رنگ کا گولا نہیں ہے، یہ محض کوئی ذائقہ یا خوشبو بھی نہیں ہے۔ یہ ہمارے ہاتھ میں محض کسی شے کی لمسی موجودگی کا احساس بھی نہیں ہے، اور نہ ہی محض کوئی آواز جو اسے چبانے سے پیدا ہوتی ہے۔ اس کا وجود لمحہ بہ لمحہ قائم نہیں ہے؛ بلکہ یہ ایک دورانیہ میں تسلسل کے ساتھ وجود کا حامل ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ سیب گل سڑ جائے گا، لیکن ایک روائتی سیب چند روز تک وجود رکھتا ہے۔ پس جب ہم ایک سیب دیکھتے ہیں تو ہم من کے ایک تصور کو دیکھتے ہیں۔
شناخت کی اس تعریف کے مطابق، جب ہم کسی سیب یا سانس پر ارتکاز کرتے ہیں، تو یہ ایک تصوراتی شے ہے، اور تصوراتی اشیاء پر من کی آگہی سے ارتکاز کیا جاتا ہے۔ اپنے تصور میں ہم رنگ دار اشکال، خوشبو اور دیگر لگاتار لمحات کو ایک شے میں اکٹھا کرتے ہیں، جسے ہم عمومی سوجھ بوجھ کے مطابق "سیب" کا نام دے سکتے ہیں یا کچھ اور۔ تو یہ مسالک اسانگا کی بات کو سچ مان رہے ہیں کہ ہمیں من کے شعور سے ارتکاز استوار کرنا ہے۔
پاٹھ کا عمل
اگر ہم کوئی بدھا مورتی اپنے پاٹھ میں استعمال کریں تو اس کی جسامت ہمارے انگوٹھے کے برابر ہونی چاہئیے، اور اسے ہم سے ایک بازو کی دوری پر سامنے ہونا چاہئیے۔ ہماری نظر نیچے کی جانب ہو، شے کے اوپر نہیں، کیونکہ اسے آپ کی آنکھوں نے جنم نہیں دیا۔ ہم نیچے کی سمت دیکھتے ہیں جبکہ بدھا ذرا اوپر ہوتا ہے ہمارے ماتھے کی سطح کے برابر۔
یہ بالکل مشکل نہیں ہے۔ نیچے فرش کی جانب دیکھو جبکہ تمہارا انگوٹھا تمہارے سامنے تمہارے ماتھے کے برابر ہو۔ آپ کو یہ احساس ہے کہ آپ کا انگوٹھا وہاں موجود ہے، اور آپ اس کو دیکھے بغیر اس پر ارتکاز کر سکتے ہیں، ہے نا؟ اب اگر آپ اپنا بازو نیچے لے آئں، تو آپ پھر بھی اس نکتہ پر توجہ مبذول کر سکتے ہیں جہاں آپ کا انگوٹھا تھا۔ آسان ہے نا!
بہت سارے بودھی تھیرواد مراقبوں میں آنکھیں بند رکھنے کی ہدائت دی جاتی ہے، جب کہ مہایان کتابوں میں آنکھیں کھلی رکھنے کی ہدائت ہے۔ ایسے بعض چند ایک مخصوص مراقبے ہیں جن میں آنکھیں پوری طرح کھلی رکھنے یا بند رکھنے کی ہدائت ہے، لیکن عام طور پر، مہایان مراقبہ میں آنکھیں کھلی، نہ کہ بند، ہوتی ہیں۔ آپ آنکھوں کو زیادہ بھی کھولنا نہیں چاہیں گے کیونکہ اس سے توجہ بٹ سکتی ہے۔ پس ہم نیچے کی جانب دیکھتے ہیں اپنے ناک کی چونچ کی جانب۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم بھینگے ہو جاتے ہیں مگر ہم فرش کی جانب اپنے ناک کی نوک کی سطح پر دیکھتے ہیں، کسی حد تک مرتکز، شدت کے ساتھ نہیں: ہم اپنا کانٹکٹ عدسہ جو زمین پر گر گیا اُسے نہیں ڈھونڈ رہے ہیں۔
آنکھ بند کر کے مراقبہ کرنے کے بعض نقصانات ہیں۔ اگر ہم پُر سکون ہونے اور پیار اور درد مندی استوار کرنے کی خاطر آنکھیں مکمل طور پر بند کرنے کی عادت ڈال لیں تو ایسا کرنا روز مرہ زندگی میں مشکل ہو گا۔ جب آپ کسی سے بات کر رہے ہوں تو آپ یہ نہیں کر سکتے کہ اچانک آنکھیں بند کر لیں تا کہ من کی کوئی خاص حالت استوار کر سکیں – ایسا کرنا عجیب سا ہو گا۔ مہایان مسلک میں ہم اپنی آنکھیں تھوڑی کھلی رکھتے ہیں کیونکہ ہمارا مقصد تمام دیگر مخلوق کی مدد کرنا ہے؛ ہم ان کو نظر انداز نہیں کرنا چاہتے۔ تقدس مآب دلائی لاما کے مطابق آنکھیں بند کر کے مراقبہ کرنے میں ایک مشکل یہ ہے کہ آنکھ کے پپوٹے ذرا تھرّاتے ہیں اور اکثر آپ کو رقص کرتے ہوئے سرخ نکتے بھی نظر آتے ہیں، جس سے آپ کی توجہ بٹتی ہے۔
بصری عرفان کے دو پہلو
جب ہمیں بصری عرفان ہوتا ہے تو دو اہم پہلووں کو مد نظر رکھنا لازم ہے۔ ایک کا تعلق ظہور سے ہے، جس کا ترجمہ عموماً "شفافت" کیا جاتا ہے، مگر یہ کوئی عمدہ لفظ نہیں ہے کیونکہ اس سے کسی شے کے زیر توجہ ہونے کا شائبہ ہوتا ہے۔ اس مرحلہ پر اس کا تعلق اس چیز سے نہیں ہے، اس کا تعلق ہمارے تصور سے کسی شے کا ظہور ہے۔ دوسرا عنصر صاف صاف "تکبر" ہے، جس سے مراد ہمارا یہ احساس تعلی ہے کہ جس شے کا ہم تصور کر رہے ہیں وہ واقعی موجود ہے۔
تسانگ خاپا کا کہنا ہے کہ ایسا احساس شروع شروع میں نہائت اہم ہے۔ ہمیں اپنے بصری عرفان کے مرتکز ہونے کے بارے میں زیادہ فکر مند نہیں ہونا چاہئیے، لیکن اگر ہم یہ احساس پیدا کر سکیں کہ ہمارے سامنے کوئی بدھا موجود ہے، تو یہ اچھی بات ہے۔ ہمیں کسی قسم کے ظہور کی ضرورت ہے، خواہ وہ کوئی پیلی بتی ہی کیوں نہ ہو، ہم سوچتے ہیں، "وہ ایک اصل بدھا وہاں موجود ہے۔" جوں جوں ہمارا ارتکاز بڑھے گا تو مزید تفصیل سامنے آئے گی۔"
اپنے اوپر زیادہ بوجھ نہ ڈالیں
بطور برہمچاری کے سب سے بڑی غلطی ہم یہ کرتے ہیں کہ جس چیز کو ہم تصور میں لانا چاہتے ہیں اس کی ظاہری شکل و صورت پر حد سے زیادہ توجہ ہے جیسے زیور کیسا ہو، لباس کیسا ہو، آنکھوں کا رنگ کیا ہو وغیرہ۔ یہ ہمیں اس قدر پریشان کر سکتی ہے کہ ہم بالکل ہی پاٹھ نہ کر پائں۔ اس وقت یہ اور بھی بڑا مسٔلہ بن جاتی ہے جب ہم بہت ساری شبیہ کا تصور کرنا چاہ رہے ہوں۔ اسباق بھی اس میں مدد گار نہیں ہیں، کیونکہ وہ تمام باریک تفصیلات مہیا کرتے ہیں، جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ ہمیں شروع سے ہی اس سب کا تصور کرنے کا اہل ہونا چاہئیے۔ کئی ایک مورتیوں کے پیچیدہ تانے بانے کی تفصیل کا تصور باندھنے کی صلاحیت ایک ناقابل یقین حد تک مشکل کام ہے۔ آخر کار جب ہم نہائت ہنر مند ہو جائں، ہم ان سب کا تصور کر سکیں گے، مگر فی الحال ہم اسے نظر انداز کر سکتے ہیں۔ اگر ہم تمام معلومات حاصل کرنے کے لئیے بہت زیادہ زور لگائیں تو ہمیں جو ملے گا اسے تبتی زبان میں "لنگ" کہتے ہیں، جس سے ہماری شکتی پریشان حال ہوتی ہے اور ہم شکست خوردہ ہو جاتے ہیں۔
بصری عرفان استوار کرنا
پیچیدہ بصری عرفان کے متعلق تسانگ خاپا بہت کار آمد مشورہ دیتا ہے، جس میں دو مسالک کو بیان کرتا ہے۔ ایک تو باریک نکات پر ایک ایک کر کے کام کرنا ہے، پھر ان کو اکٹھا کر کے مکمل روپ پانا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ یہ طریق کار چند خاص لوگوں کے لئیے موزوں ہے۔ ہم میں سے بیشتر کو مکمل تصویر کے ایک مبہم تصور یا احساس سے شروع کرنا ہو گا اور پھر اس تانے بانے کو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مختلف تفصیلات سے لبریز کرنا ہو گا۔
یہ امر اہم ہے کہ معلومات کو اکٹھا کرنے کا یہ عمل افزوں پذیر ہو، جس میں آپ ایک تفصیلی بات پر لطیف ارتکاز رکھتے ہوں، اور پھر پہلی والی کو کھوئے بغیر اس میں ایک اور تفصیل کا اضافہ کریں۔ تب آپ کے ارتکاز تلے دو باتیں ہوں گی، اور بغیر پہلی دو کو کھوئے اس میں تیسری کو شامل کر سکیں۔ یہ ضروری ہے کہ جب ہم مزید کچھ شامل کر رہے ہوں تو پہلے جو ہم نے قائم کیا ہے اس پر سے توجہ نہ ہٹائں۔
جب ہم کسی بدھا کا تصور کریں، تسانگ خاپا کی ہدائت ہے کہ ہم اپنی آنکھوں سے شروع کریں۔ پھر وہ کہتا ہے کہ اگر شریر کاعمومی روپ صاف ہے تو اسے قائم رکھیں۔ لیکن اگر عمومی حالت صاف نہیں ہے مگر بعض اعضاء صاف ہیں، تو ہم اپنی توجہ ان پہلووں پر مبذول کرتے ہیں جو صاف ہیں۔ لیکن اگر یہ حصے دھیمے پڑ جائں تو ہمیں پھر سے عمومی کثیف حالت کو استوار کرنا ہو گا۔
بصری عرفان بطور آگہی بڑھانے کے آلہ کار کے
اس سب پیچیدہ بصری عرفان کا کیا فائدہ ہے؟ اس کا مقصد محض من کی کھیل کود کی ہنرمندی کو بڑھا نا نہیں ہے، جس میں ہمیں بصری عرفان کے میدان میں اولمپک سونے کا تمغہ ملنے والا ہے۔ تمام معلومات کا مقصد ہماری من کی آگہی میں اضافہ اور کئی مختلف چیزوں کی بیک وقت سوجھ بوجھ ہے۔ اصل بات یہ نہیں ہے کہ ہر چیز کیسی نظر آتی ہے، بلکہ ہر مفصل بات کیا پیش کرتی ہے۔
علت و معلول کے ان مختلف پاٹھ پر غور کریں جو ایک بدھا بننے میں کام آتے ہیں: ایسے بتیس بڑے پاٹھ ہیں۔ ان تمام بتیس پاٹھوں پر بیک وقت من کی نظر رکھنا نہائت مشکل کام ہے، خاص طور پر اس وقت جب ہم انہیں مکمل طور پر تجریدی انداز سے کر رہے ہوں۔ اگر ہم ان بتیس پاٹھ کو کسی بدھا کے شریر کے بتیس عمدہ نشان کے طور پر کسی روپ میں پیش کریں، جیسا کہ بالوں کی لِٹ کو گھڑی کی سوئیوں کی حرکت مانند سنوارتے ہوئے، اس طرح انہیں یکجا کرنا آسان ہے، جو کہ ہمارا مدعا ہے۔ اگر ہم تمام بصری عرفان کو ایک ایک کر کے استوار نہیں کر پائے، تو ہم کیسے انیں ایک تانے بانے میں یکجا کر سکیں گے؟ ہم تمام ہستیوں کا بھلا کرنا چاہ رہے ہیں، جس سے مراد ہر ایک کے بارے میں بیک وقت شعور رکھنا ہے۔ اس کے لئیے ہمیں اپنے من کو کشادہ کرنا ہو گا تا کہ دھیرے دھیرے ہمارے من کے شعور میں اضافہ ہو۔ یہ والے پیچیدہ عرفان ہمیں ایسا کرنے میں مدد گار ہوتے ہیں۔
خلاصہ
اگر ہم کسی چیز کے بارے میں جوش و خروش کا اظہار کریں تو ہم سستی کا شکار نہیں ہیں، لیکن اسے آرام کے وقفہ کے بعد تک ملتوی کر دیتے ہیں؛ یہ جانکاری کہ ہمیں کب آرام کی ضرورت ہے نہائت اہم ہے، تا کہ ہم دل برداشتہ ہو کر بلکل ہی چھوڑ چھاڑ کر نہ بیٹھ جائں۔ ایک بار جب ہمیں اسباق کا درس لینے، ان کا جائزہ لینے، اور ان پر مراقبہ کرنے کے فوائد کا صحیح اندازہ ہو جائے، تب طاقت جس کے پس پشت استقامت اور مسرت ہو، دھیرے سے آتی ہے۔ اس کے علاوہ، بدھ مت کے بصری عرفان ہمارے ارتکاز اور آگہی میں اعلیٰ سطح پر لطافت پیدا کرنے کے عمدہ اطوار ہیں۔ اس کی اصل حقیقت اس بات کی پہچان ہے کہ ہمیں اس کام کو درجہ بہ درجہ کرنا ہے، اور اگر ہم اسے لمبے عرصہ تک جاری رکھیں تو ہم اپنے لئیے اور باقی سب کی مدد کے لئیے من کی نہائت سود مند حالت استوار کرنے میں کامیاب ہو جائں گے۔