ہم نے دیکھا کہ مراقبہ ایک سہ نکاتی سلسلہ کا ایک جزو ہے جو تعلیمات کو سننے، ان پر سوچنے، اور پھر ان پر ارتکاز کرنے پر مشتمل ہے۔ مراقبہ بطور تیسرے مرحلہ کے، تعلیمات کو اپنی زندگی میں شامل کرنے کے متعلق ہے جو کہ تکرار سے وقوع پذیر ہوتا ہے۔ اس تکرار کے توسط سے ہم من کی ایک مثبت حالت استوار کرنا چاہتے ہیں، تا کہ یہ ہماری عادت بن جائے۔
ہم اسباق کو سنتے ہیں جن سے ہمیں امتیازی آگہی ملتی ہے، جس سے ہم تمیز کر سکتے ہیں، " ہاں، یہ مہاتما بدھ کی تعلیم ہے" اور اس کے متعلق تیقّن قائم کرتے ہیں۔ ہم نے یہ بھی دیکھا کہ ہم تعلیمات کو احتمالاً قبول کر لیتے ہیں؛ لازم نہیں کہ ہم ساری بات کو سمجھیں، لیکن کم از کم اپنے محرک اور شوق کے سبب ہم انہیں سچ مانتے ہیں، بجز اس کے کہ ہم انہیں غلط ثابت کر دیں۔ اگر ہمیں کوئی بات غلط نظر آئے تو ہم اسے رد کر سکتے ہیں۔ البتہ ہمارا ذہن اتنا کشادہ ہونا چاہئیے کہ ہم کسی بات کو سچ فرض کر لیں، اور پھر اس کی حقیقت کو پرکھنے کی خاطر اس کا معائنہ کریں۔ اور ہمیں اس کی افادیت کو بھی وٹامن کی مانند سچ مان لینا چاہئیے۔ آپ یہ نہیں کہتے،"میں زہر لے کر دیکھتا ہوں کہ کیا اس سے واقعی میری موت واقعہ ہو گی،" مگر وٹامن کے ساتھ آپ ایسا کرتے ہیں۔ تو ہم اس کی افادیت کو وقتی طور پر مان لیتے ہیں، کیونکہ بہت سارے لوگ ایسا مانتے ہیں، پس ہم خود اسے آزما کر دیکھ سکتے ہیں۔
جب ہم تعلیمات کے بارے میں سوچتے ہیں، تو ہم ایک سلسلہ کی آخری کڑی تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں جسے "امتیازی آگہی جو تفکر سے آتی ہے" کہا جاتا ہے۔ اس مقام پر پہنچ کر ہمیں یقین کامل ہو جاتا ہے کہ ہم سبق کو بخوبی سمجھ گئے ہیں، کہ جو مہاتما بدھ نے بتایا وہ سچ تھا، کہ یہ واقعی فائدہ مند ہے، اور ہم جو پانا چاہتے تھے اس کا حصول سچ مچ ممکن ہے۔ جب کوئی لوگ مذکورہ بالا ہدایات پر عمل نہیں کرتے، جیسا کہ بہت سارے لوگ کرتے ہیں، تو کچھ عرصہ بعد وہ "شش و پنج" کا شکار ہو جاتے ہیں، دوسرے لفظوں میں شک و شبہ میں پڑ جاتے ہیں، کہ کیا یہ واقعی ممکن ہے۔ پھر وہ دستبردار ہو جاتے ہیں۔
نروان کیا چیز ہے؟
جب ہم نروان یا روشن ضمیری کی بابت پڑھتے ہیں، اور ان کے حصول کے طریقوں کے متعلق، تو ہمیں اس بات کو بخوبی سمجھنا ہے کہ نروان حاصل کرنے کا مطلب کیا ہے۔ روشن ضمیر ہو جانے کا اصل مطلب کیا ہے؟ اور پھر اس کے بعد کیا ہوتا ہے؟ تعلیمات ہمیں بتاتی ہیں کہ ایک بدھا ہمہ دان ہوتا ہے، جو کہ ہر شے کے بارے میں بیک وقت مکمل اور صحیح علم رکھتا ہے۔ کوئی بدھا ہر کسی کے بارے میں برابر کی فکر کرتا ہے، اور ان سب سے پوری طرح بات چیت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ لہٰذا ایک بدھا ہر کسی کی حسب ضرورت مدد کرتا ہے۔
کیا یہ واقعی ممکن ہے یا کہ یہ محض ایک قصہ کہانی ہے؟ اگر ہم اسے مضحکہ خیز خیال کریں، تو ہم اسے پانے کی کیا سعی کر رہے ہیں؟ اگر ہم اسے پریوں کی کہانی سمجھیں، تو بے شک ہم اس کے حصول کو نا ممکن سمجھیں گے۔ ہمیں بدھ مت میں بتائے گئے ہدف کو تنقیدی نظر سے دیکھنا ہے، اور اپنی تحریک کا جائزہ بھی لینا ہے۔
ہمارا مدعا کیا ہے؟
یہ جو لفظ "تحریک" ہے، بدھ مت میں اس کے خاص معنی ہیں۔ ہم اکثر کہتے ہیں،"اپنی اکساوٹ کی توثیق مزید کیجئیے یا اسے حرکت میں لائیے،" جس کے دو حصے ہیں۔ ایک تو ہے مدعاء – یعنی جو ہمارا ہدف ہے – اور دوسرا وہ جذبہ جو ہمیں اس ہدف کو پانے پر اکساتا ہے۔ عموماً انگریزی زبان میں تحریک کا مطلب زیادہ تر دوسرا حصہ ہے، وہ جذبہ جو ہمیں کچھ کرنے پر اکساتا ہے۔
میرے خیال میں بیشتر لوگ بدھ مت کا پاٹھ اس لئیے کرتے ہیں، "دھرم کا راستہ پکڑتے ہیں،" اگر ہم نیک نیت ہیں، ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارا مقصد اپنی زندگی کو قدرے آسان اور مزید پر مسرت بنانا ہے۔ اور اس میں کوئی حرج نہیں – میں اسے دھرم -لائٹ کہتا ہوں بہ نسبت "اصل شے دھرم" کہنے کے۔ یہ پہلا قدم ہے۔ اصل بات بہتر پنر جنم پانے کی کوشش ہے، بنیادی طور پر یہ کہ قیمتی انسانی پنر جنم کا سلسلہ جنم در جنم قائم رہے۔ لیکن اگر آپ پنر جنم پر ایمان نہیں رکھتے، تو آپ ایک بہتر پنر جنم پانے کی کیسے امید کر سکتے ہیں؟ پنر جنم کو سمجھنے کے لئیے یہ جاننا ضروری ہے کہ کونسی شے دوبارہ جنم لیتی ہے، من کے تسلسل کی فطرت، انسانی ذات کی فطرت، وغیرہ۔ در حقیقت بہتر پنر جنم کا ہدف محض بدھ مت تک ہی محدود نہیں ہے۔ عیسائی لوگ اور دیگر مذاہب بھی یہی مدعا رکھتے ہیں؛ عیسائیت میں اس سے مراد جنت میں دوبارہ جنم لینا ہے۔
اگلا ہدف اضطراری رو بہ تکرار پنر جنم سے نروان حاصل کرنا ہے۔ ہندومت کا مدعا بھی یہی ہے۔ پس ہمیں یہ جاننا ہے کہ بدھ مت میں نروان کا مطلب کیا ہے، اور اس کو پانے کے طریقے کیا ہیں۔ پھر، بے شک، حتمی مقصود تو روشن ضمیری حاصل کرنا ہے – یہ بدھ مت میں منفرد ہے۔
درجہ بہ درجہ
جب ہم بودھی تعلیمات کو دیکھتے ہیں تو انہیں درجات میں پاتے ہیں۔ ایک بصیرت سے دوسری بصیرت نکلتی ہے، اور اس کو ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے کیونکہ اگر ہم محض یہ کہیں، "میں ایک بدھا بننا چاہتا ہوں تا کہ میں تمام ذی حس مخلوق کی خدمت کر سکوں" بغیر اس کی کوئی بنیاد قائم کئیے، تو پھر یہ بے معنی الفاظ ہوں گے۔ کیا ہم واقعی دنیا میں ہر ایک کیڑے کو نروان دلا کر روشن ضمیری تک لانا چاہتے ہیں؟ غالباً نہیں۔ ایسا ہدف قائم کرنے اور اس کو معنی خیز بنانے کے لئیے من کی نا قابلِ تصور صلاحیت درکار ہو گی، پس اس لئیے ہمیں اسے رفتہ رفتہ اس مقام تک استوار کرنا ہو گا۔ اس کے حصول کی خاطر ہم تعلیمات کو ایک ایک کر کے وہ جس کا ترجمہ میں "چار مسلّمہ اصول" کرتا ہوں سے پرکھنا ہو گا، کسی چیز کا معائنہ کرنے کے چار نظریات کہتے ہیں، اور ہم دھرم کے سب سے بنیادی نکات سے شروع کرتے ہیں۔
چار مسلّمہ اصولوں کو استعمال کرنے کی ایک مثال لیتے ہیں، آئیے ہم موت اور عدم استقلال پر ایک مراقبہ کریں۔ میں یہ مثال کسی حد تک ذاتی غرض کی بنا پر استعمال کر رہا ہوں، کیونکہ میرا ایک عزیز دوست پچھلے ہفتہ چل بسا۔ بہر حال، چار مسلّمہ اصول یہ ہیں:
- محتاجی کا اصول – من کی جو حالت ہم پیدا کرنا چاہ رہے ہیں، موت کی آگہی، اس کا انحصار کس چیز پر ہے؟
- فعالیت کا اصول – اگر ہم ایسی من کی حالت استوار کر لیں، تو یہ کس کام آئے گی اور اس کے فوائد یا نقصانات کیا ہیں؟
- عقل کا اصول – اگر ہم تعلیمات کو ان کی سچائی ماپنے کے لئیے پرکھیں، تو کیا یہ مہاتما بدھ کی باقی ماندہ تعلیمات کے ساتھ مطابقت رکھتی ہیں؟ کیا یہ عقل کی کسوٹی پر پوری اترتی ہیں؟ اور جب ہم اس پر عمل کرتے ہیں تو کیا یہ مطلوبہ نتائج پیدا کرتی ہے؟
- فطرت کا اصول – کیا موت ایک فطری امر ہے؟ کیا موت سب کو آتی ہے؟
تو ہم کرتے یہ ہیں کہ کوئی ایک چیز، جیسے موت، کو لے کر اس کا ان چار اصولوں کے مطابق تجزیہ کرتے ہیں، آرام سے پورا وقت لگا کر۔ ایسا کوئی فارمولا نہیں ہے جو یہ کہے اس پر دس منٹ لگاؤ اور اس پر بیس منٹ۔ مگر جلد بازی ٹھیک نہیں، کیونکہ ایسا کرنے سے آپ کا ارتکاز بے معنی ہو جاتا ہے۔ بات کا ذہن نشین ہونا اور اس پر دل لگا کر کام کرنا احسن معاملہ ہے۔
عمیق فہم استوار کرنا
بنیادی طور پر ہم اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ ہم موضوع کو بخوبی سمجھتے ہیں، ایسی صورت حال جس میں ہم شش و پنج میں نہیں ہوتے۔ اسی لئیے تبتی لوگوں کے ہاں بحث مباحثہ کا تعلیمی طریق کار مروج ہے، جو ہمیں اپنی فہم پر سوال اٹھانے کا موقع دیتا ہے۔ یہ سب کو کرنا پڑتا ہے – آپ خاموشی سے جماعت کے کمرہ میں پیچھے نہیں بیٹھ سکتے۔ کوئی ایک شخص کچھ کہے گا، اور مد مقابل کو یا تو اسے قبول کرنا ہو گا یا اس کی مخالفت میں کچھ کہنا ہو گا۔ اس کا مقصد صحیح جواب تلاش کرنا نہیں ہے، بلکہ کسی موضوع کے متعلق اپنی فہم و فراست کی توثیق کرنا ہے۔ یہ ایک بہترین طریق کار ہے کیونکہ دوسرے لوگ ہماری سوجھ بوجھ کو ہم سے کہیں زیادہ موثر انداز سے چیلنج کر سکتے ہیں۔ بحث کے دوران عموماً بڑے جوش و خروش کا مظاہرہ ہوتا ہے کیونکہ لوگ اس میں بہت تفریح کا پہلو پاتے ہیں اور جب کوئی شخص اپنی ہی بات کی تنقیض کر دے تو اس پر خوب ہنستے ہیں۔ یہ سب زندہ دلی سے کیا جاتا ہے اور ہر کوئی لطف اندوز ہوتا ہے۔
اس انداز تعلیم کا ایک اور فائدہ یہ ہے کہ، خواہ آپ کوئی بھی ہوں، کہیں نہ کہیں آپ خود تناقض کے مرتکب ہوں گے اور کوئی احمقانہ بات کہہ دیں گے، جو کہ خودی اور تکبّر کو کم کر دے گی۔ اس سے ججھک بھی دور ہوتی ہے – آپ بے شک ججھک سے کام لے کر کسی مجمع کے سامنے کھڑے ہو کر دلائل پیش نہیں کر سکتے۔
ہم مبحث کو محض یہ کہہ کر رد نہیں کر سکتے "اوہ، یہ تو عقل و دانش کے معاملے ہیں؛ میں تو وجدان اور مراقبہ کا متمنّی ہوں۔" مباحثہ سے مراقبہ میں مدد ملتی ہے جو کہ اس کا اصل مقصد ہے۔ مبحث کے بعد، آپ کے شکوک و شبہات دور ہو جاتے ہیں اور آپ کی فہم میں تیقّن آ جاتا ہے، تب آپ مراقبہ کے توسط سے اس ادراک کو پورے اعتماد کے ساتھ اپنے من میں شامل کر سکتے ہیں۔ وگرنہ آپ کا مراقبہ اتنا مضبوط نہیں ہو گا۔ بے شک یہاں آپ ایک دوسرے کے ساتھ با قاعدہ طور پر بحث نہیں کر سکتے، لیکن اسباق کو زیر بحث لانا بغیر تکبر و تعلّی کے، بغیر مدافعت کے، اور بغیر یہ سوچے کہ مد مقابل شخص ہماری ذات پر حملہ آور ہے، عمدہ امر ہے۔
دو اور بودھی تکنیکی اصطلاحات "کسی امر واجبی کو حقیقت تسلیم کرنا،" اور "یقین کامل" ہیں۔ ہم کسی غلط بات کو سچ مان سکتے ہیں، پس ہمیں تعلیمات کے تجزیہ میں محتاط رہنا چاہئیے، مبادا ہم کسی غلط بات کو سچ مان بیٹھیں۔ یقین کامل سے مراد ہمارا ایسا پختہ یقین ہے جسے کوئی شے متزلزل نہیں کر سکتی، اور یہی وہ حالت ہے جسے ہمیں استوار کرنا ہے۔
ثابت قدم رہئیے
یہ سب کچھ خود سری اور تنگ نظری کا شکار ہو سکتا ہے۔ ہم کسی بات کی غلط فہم رکھتے ہیں اور اس پر بری طرح ضد کرتے ہیں کہ کوئی ہماری اصلاح نہیں کر سکتا - اسے بعض اوقات "غلط نظریہ" بھی کہتے ہیں۔ ہم کسی بات کی غلط فہم رکھتے ہیں اور اس پر اس قدر ہٹ دھرمی سے قائم رہتے ہیں کہ اگر کوئی اس سے اختلاف کرے تو ہم جارحیت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
ہمیں باتوں کی گہرائی میں جانے کی کوشش کرنی چاہئیے جب تک کہ ہم خود بدھا نہ بن جائں۔ تو اس لئیے ہمیں ہمیشہ کہا جاتا ہے، "اپنی سوجھ بوجھ پر مطمئن نہ ہو، اپنی کامیابی کے مرحلہ پر مطمئن نہ ہو، کیونکہ تم ہمیشہ مزید گہرائی میں جا سکتے ہو، ہمیشہ مزید اونچے مقام تک پہنچ سکتے ہو، جب تک کہ تم ایک بدھا نہ بن جاؤ۔ تو جب ہم درست فہم رکھتے ہیں تو لازم نہیں کہ یہ عمیق ترین بھی ہو۔ تقدس مآب دلائی لاما کا ایک استاد تری جنگ رنپوچے کہا کرتا تھا، " میں نے لم -رم چن-مو (راہ کی بتدریج منازل کی اعلیٰ صورت از سانگ خاپا – ایک اہم اور ضخیم کتاب) کا سو بار مطالعہ کیا ہے، اور ہر بار جب میں نے اسے پڑھا تو کوئی نئی اور مزید بصیرت افروز بات پائی ہے۔" یہ اس بات کی عمدہ مثال ہے کہ کسی بات کی درست فہم ہونے کے باوجود ہمیں مزید گہرائی میں جاتے رہنا چاہئیے۔
موت پر مراقبہ
اب ہم موت پر مراقبہ کے چار نکات کا جائزہ لیتے ہیں، تا کہ ہمارے پاس ان کی کوئی مثال ہو اور یہ کہ ان کا اطلاق کیسے ہو گا۔ بے شک یہ کام ہم تب ہی کر سکتے ہیں جب ہم نے موت اور موت پر مراقبہ کی تعلیمات حاصل کی ہوں۔ موت کا جائزہ لیتے وقت، ہم تین بنیادی حقائق سے کام لیتے ہیں:
- موت نا گزیر ہے۔
- موت کا وقت متعیّن نہیں ہے۔
- بوقت مرگ سوائے دھرم کے کچھ کام نہ آئے گا۔
ہم سب نے مرنا ہے۔ یہ ناقابل گزیر ہے – میں، آپ، اور ہر وہ انسان جسے ہم ذاتی طور پر جانتے ہیں، اور باقی سب بھی۔ ہمیں یہ بھی معلوم نہیں کہ موت کب آئے گی اور ہم مر جائں گے، اس وقت کوئی شے کام نہیں آتی سوائے ان مثبت عادات کے جو ہم نے استوار کیں اور جنہیں ہم نے اپنے من کے تسلسل کا حصہ بنایا۔
موت نا قابل گزیر ہے، لیکن اس کا انحصار کس چیز پر ہے (محتاجی کا اصول)؟ ہم اس کا کئی مراحل پر تجزیہ کر سکتے ہیں۔ اولاً، موت زندگی کی مرہون منت ہے۔ بنا زندگی آپ مر نہیں سکتے۔ دن بہ دن ہم عمر رسیدہ ہوتے جا رہے ہیں، اور ہمارے جسم، جو شروع میں بہت مضبوط تھے، کمزور ہوتے جاتے ہیں۔ پس موت کا دار و مدار ایک ایسے جسم پر بھی ہے جو بیمار ہوتا ہے، گاڑی سے ٹکرا جاتا ہے، وغیرہ وغیرہ۔
موت کے متعلق کیوں سوچنا چاہئیے؟
اس محتاجی کے مسلّمہ اصول پر غائرانہ نظر ڈالنے پر ہمیں موت پر مراقبہ کرنے سے قبل اس انوکھی، قیمتی انسانی زندگی جو ہمیں ودیعت ہوئی ہے کو سمجھنا ہے۔ موت سے آگہی کا مقصد یہ ہے کہ ہم اس قیمتی زندگی سے فائدہ اٹھائں۔ اگر ہم اپنی زندگی کی قدر و قیمت اور اپنی ذات پر کام کرنے کے اچھے موقع کو نہ پہچانیں، تو پھر ہمیں اپنی زندگی کے چھِن جانے کی کوئی خاص فکر نہ ہو گی۔ چونکہ بیشتر لوگ اس چیز کی قدر نہیں کرتے، "میں بقید حیات ہوں، اور میں کوئی تعمیری کام کرنے کے لئیے اپنے من اور شریر کو کام میں لا سکتا ہوں،" تو وہ اپنی زندگی کو ضائع کر دیتے ہیں۔ پس موت سے آگہی کا انحصار زندگی سے آگہی پر ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ ہمیں یہ قیمتی انسانی زندگی ملی ہے اور ہم ایسے برے حالات سے دوچار نہیں ہیں جو ہمیں زندگی سے فائدہ اٹھانے سے روکتے ہوں۔ ہم کوئی لال بیگ نہیں ہیں جسے جو کوئی بھی دیکھتا ہے پاؤں تلے کچلنا چاہتا ہے۔ ہم کسی چھوٹی مچھلی کے روپ میں پیدا نہیں ہوئے جسے بڑی مچھلی کھا جاتی ہے۔ ہم نے مکھی کے روپ میں بھی جنم نہیں لیا۔ ذرا سوچو، اگر ہم مکھی کی شکل میں بقید حیات ہوتے تو کیا کمال کر سکتے تھے؟ کچھ خاص نہیں، ہماری تمام زندگی غلاظت اور کوڑا کرکٹ کے ارد گرد گھومتی!
پس موت سے آگہی کا مقصد (فعالیت کا مسلّمہ اصول) شکستہ دل ہونا نہیں ہے، " اوہ، ستیا ناس! میں یقیناً قریب المرگ ہوں!" اصل بات یہ نہیں ہے۔ اصل کام ہمیں موجود قیمتی مہلت سے فائدہ اٹھانا ہے، کیونکہ ہم نہیں جانتے کہ یہ کب انجام کو پہنچے گی۔ جیسے گزشتہ ہفتہ میرے دوست کی طرح، جو بلکل صحتمند تھا اور عمر بھی خاص زیادہ نہ تھی۔ نہ تو وہ سگریٹ نوش تھا اور نہ ہی شراب نوش، خون کے دباؤ کی شکائت بھی نہیں تھی، ورزش بھی بہت کرتا تھا، وہ زبردست مراقبہ اور پاٹھ کرتا تھا۔ اور پچھلے ہفتہ ایک صبح اس نے غسل کیا، اس پر دل کا دورہ پڑا، اور وہیں ڈھیر ہو گیا۔ بس ایسے ہی۔
اس بات کا کوئی بھروسہ نہیں کہ ہماری قیمتی زندگی کب ختم ہو جائے گی، اور موت عموماً اچانک آ گھیرتی ہے۔ مرنے کے لئیے عمر رسیدہ یا بیمار ہونا لازم نہیں۔ پس موت سے آگاہ رہنے کا مطلب کاہلی اور التوا یعنی ہمیشہ کام کو کل پر اٹھا رکھنے پر قابو پانا ہے۔ میرا دوست ایلن جو فوت ہوا وہ اس کی بہترین مثال ہے۔ اس کی والدہ جو بہت بوڑھی اور بیمار تھی، وہ اس کی مادی اور مالی مدد کرنا چاہتا تھا۔ تو وہ ہر اختتام ہفتہ پر اس کی مدد کرنے جاتا تھا – سودا سلف لانا وغیرہ۔ وہ کہا کرتا تھا کہ اس کی والدہ کی وفات کے فوراً بعد ہی وہ کام سے سبکدوش ہو جائے گا اور سب سے پہلے ایک سال کے لئیے تزکیہ نفس کی خاطر وجر ستوا چلہ کاٹے گا، اور پھر چند لمبے چلے کاٹے گا۔ یہ اس کا ارادہ تھا۔
جیسا کہ میں نے کہا کہ وہ ایک زبردست پاٹھ پوجا کرنے والا شخص تھا، لیکن اس نے کبھی کوئی مراقبہ کا چلہ نہ کاٹا کیونکہ اسے اپنی ماں کا خیال رکھنا اور اس کی کفالت کرنا تھی، پس اسے کام کرنا تھا۔ تو کیا اسے اپنی ماں کی مدد کرنے کی خاطر کام کرتے رہنا چاہئیے تھا، یا موقع ملنے پر چلہ کاٹنے چلے جانا چاہئیے تھا اور ماں کی دیکھ بھال کا کام دوسرے لوگوں کو سونپ دینا چاہئیے تھا؟ ہمیں دھرم کیا کرنے کو کہے گا؟ موت پر تعلیمات ہمیں کیا سبق دیں گی؟ اس بات پر غور کرنا اچھی بات ہے، کہ ایسی صورت میں میں کیا کرتا؟
ایک صورت یہ ہو سکتی ہے کہ چھوٹے چلے کاٹے جائں اور ساتھ ساتھ ماں کا خیال بھی رکھا جائے۔ چلہ کاٹنا کوئی کل وقتی مشغلہ نہیں ہے – ہم ایک بار صبح میں کر سکتے ہیں اور ایک بار شام کو، اور دن کے دوران باقی ماندہ کام کر لیں۔ چلے کاٹنا اچھی بات ہے، لیکن اسباق ہمیشہ کہتے ہیں کہ پہلے تمام ہستیوں کی مہر کا حساب چکانا ضروری ہے، خاص طور پر اپنی ماں کا جس نے ہمیں زندگی عطا کی۔ جب آپ اپنے والدین کا خیال رکھتے ہیں، بغیر اس قسم کی کبیدہ خاطری کے، "کاش وہ چل بسیں کیونکہ میں اپنے کام سے متنفّر ہوں اور ریٹائر ہونا چاہتا ہوں،" تو آپ بہت بڑی مقدار میں مثبت امکانات کو استوار کرتے ہیں۔ اگر ہمیں اپنے ماں باپ کی نگہداشت نہ کرنی ہو، تو پھر بے شک ہمیں اپنی زندگی سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا چاہئیے۔
بیشتر اوقات تبت کے لاما دھرم کے مغربی طالب علموں کو خاص سنجیدگی کی نظر سے نہیں دیکھتے، کیونکہ ہم میں سے کئی دھرم کے لئیے زور دار دلجمعی اور عہد و اقرار نہیں رکھتے اور نہ ہی اس کی ویسی قدر و قیمت مانتے ہیں جیسی کہ تبت کے لوگ کرتے ہیں۔ مغربی لوگوں کا اس کے متعلق رویہ خاصا بے تکلف سا ہے، ایسی سوچ، مثلاً، "آج میں تھکا ہوا ہوں، میں اس درس پر اگلی بار چلا جاؤں گا۔" لیکن اگر ہم سچ مچ سنجیدہ ہوں، اور موت اور اس زندگی کی اہمیت کے بارے میں آگاہ ہوں، تو پھر ہم وہ درس سننے باقاعدگی سے جائں گے، خواہ ہم کیسا ہی محسوس کر رہے ہوں۔
موت کی آمد آمد ہے: بے فکر رہئیے
ہماری قیمتی زندگی ایک روز ختم ہونے والی ہے۔ ہم غسل خانہ میں ڈھیر ہو سکتے ہیں؛ ہم بس سے ٹکرا سکتے ہیں۔ ہم اپنی زندگی ضائع نہیں کرنا چاہتے۔ موت کے تصور سے آگہی ہمیں اپنی کاہلی پر قابو پانے میں معاون ہے اور ہمیں میسر تمام اچھے مواقع سے فائدہ اٹھانے میں ہماری مدد گار ہے۔ مگر ایسا کرنے میں ہمیں پریشان نہیں ہونا چاہئیے۔ بعض اوقات ہم معمولی غیر اہم باتوں پر پریشان ہو جاتے ہیں، ہم دھرم کے معاملہ میں بھی اعصابی تناؤ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ہمیں اپنے پاٹھ کے متعلق سنجیدہ ہونا چاہئیے مگر بے فکری کے ساتھ – اس کا مطلب کاہلی نہیں ہے۔ اگر آپ نے مثبت اطوار استوار کر رکھے ہیں تو بوقتِ مرگ کوئی پریشانی نہ ہو گی کیونکہ آپ جانتے ہیں کہ وہ عادات آپ کی مدد کریں گی۔
موت زندگی کا منطقی نتیجہ ہے
پھر ہم عقل استعمال کر کے تعلیمات کو جانچتے ہیں کہ کیا وہ مہاتما بدھ کی دی ہوئی تعلیم کے ساتھ مطابقت رکھتی ہیں (عقل کا مسلّمہ اصول)۔ ایسا کرنے سے قبل ہمیں یا تو بہت سارے اسباق لئیے ہونا چاہئیں یا پھر بہت ساری بودھی کتابیں پڑھنی چاہئیں۔ بہت ساری بودھی تعلیمات عدم استقلال کی بات کرتی ہیں، لہٰذا یہ مہاتما بدھ کی تعلیم کے عین مطابق ہے۔
کیا یہ منطق پر پورا اترتا ہے؟ جی ہاں، بالکل، ہر روز ہم موت سے قریب تر ہوتے جا رہے ہیں۔ ایک مقام پر پہنچ کر کھیل تماشا تمام ہو جائے گا۔ موت یقیناً آئے گی، کیونکہ ایسی کوئی صورت نہیں جو موت کی آمد کو ٹال سکے۔ ہمارا زندگی کا دورانیہ بڑھایا نہیں جا سکتا، ہمارا باقی ماندہ دورانیہ لحظہ بہ لحظہ کم ہو رہا ہے۔ اس حقیقت کو جذباتی سطح پر قبول کر لینا بہت بڑی بات ہے، جب ہم اسے یوں سمجھیں کہ ہم خوف زدہ نہ ہوں، بلکہ اس کی اہمیت کا احساس بھی ہو اور ہم طمانیت پسند بھی ہوں۔ اگر ہمیں زندگی کے دوران دھرم کا پاٹھ کرنے کا موقع نہ بھی ملا ہو تو بھی ہمیں مرنا تو ہے۔ ہر وہ شخص جسے زندگی ملی اس نے موت کا مزہ چکھا۔
سود مند نتائج
ما حاصل کے متعلق کیا خیال ہے؟ تو اگر ہمیں اس بات کا یقین کامل ہو کہ موت ضرور آئے گی اور ہم اس قیمتی انسانی زندگی کے حامل ہیں، اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ ہماری کاہلی میں کمی ہو گی اور ہم تمام اچھے مواقع سے فائدہ اٹھائں گے۔ ہم اپنے تجربہ سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ سود مند ہے۔
چوتھا اصول جو چیزوں کی فطرت کے بارے میں ہے، یہ کہ ہر زندہ چیز کی فطرت ہے کہ اسے مرنا ہے۔ یہ ایسے ہی ہے، یہ حقیقت کا روپ ہے، اور ہم اس کو قبول کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں کر سکتے۔
اس مثال کے ذریعہ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ہم اپنے تجربہ پر ان چار اصولوں کا اطلاق کیسے کریں تا کہ ہم اسباق کا تجزیہ کر سکیں۔ یہ ایک جاری و ساری سلسلہ ہے، کیونکہ مکمل تیقّن اور اس کی ہماری زندگی میں شمولیت کی خاطر بہت محنت کی ضرورت ہے۔ عقل و دانش کی سطح پر اس کا تیقّن آسان ہے مگر جذباتی سطح پر اس کی قبولیت نہائت مشکل ہے۔ جسم اور من بھی مختلف ہیں – مثال کے طور پر میرے دوست کی وفات کے سلسلہ میں، من کی سطح پر، جذباتی طور پر، میں مطمئن ہوں، لیکن میرا جسم بہت نقاہت محسوس کرتا ہے۔
پس مادی سطح پر غمگساری ہے، کیونکہ شریر کی سطح پر یہ احساس کہ "ہر کوئی مر جاتا ہے" اسے قبول کرنا مشکل ہے۔ اور من کی سطح پر وقتاً فوقتاً غم ابھرے گا کیونکہ یہ ایک فطری امر ہے۔ ہم مہاتما بدھ نہیں ہیں؛ ہم نے نروان نہیں پایا ہے۔ ہم نے ابھی تک پریشان کن جذبات اور دکھ سے نجات نہیں پائی ہے۔ لیکن یہ ہمارا مدعاء ہے۔
خلاصہ
ایک بار جب ہم نروان اور روشن ضمیری کو سمجھ لیں تو ہم اپنا ہدف قائم کر سکتے ہیں۔ جب ہم جان لیں کہ ہم کیا چاہتے ہیں تو ہم اس کو پانے کے مراحل کا تعیّن کر سکتے ہیں۔ ہمارے کام میں تیقّن پیدا کرنے میں چار مسلّمہ اصول کار آمد ہیں۔
جب ہم موت پر مراقبہ کر کے بخوبی جان لیں کہ ہم سب کو موت آنی ہے، اگرچہ اس کے آنے کا وقت معلوم نہیں، تو ہم اہم کام کرنے پر مستعد ہو جاتے ہیں۔ موت سے آگہی سے ہمارے اندر زبردست تبدیلی آتی ہے، جس سے ہم کاہلی اور پریشانی کا شکار ہونے سے بچ جاتے ہیں۔