ابتدائی لم-رم پاٹھ کے لئیے من کی تربیت

کسی مقدس مقام پر موجودگی سے فائدہ اٹھانا

میں نے کل اس بات کا ذکر کیا تھا کہ ہم ایک ایسی خاص جگہ پر ہیں جہاں مہاتما بدھ نے اپنی روشن ضمیری کا اظہار کیا، اور جہاں کئی روشن ضمیر ہستیاں آ چکی ہیں۔ ناگارجن، اور اس کے دو روحان بیٹے، اور بہت سارے تبتی بودھ گیا میں رہ چکے ہیں۔ مثال کے طور پر، سنگگیے-یےشےکھام سے یہاں بہت عرصہ قبل آیا اور یہاں کی خانقاہ کا صدر بن گیا۔ اور بھی بہت سے لوگ مختلف مقامات سے یہاں آۓ اور اس جگہ کی الہامی صنف کے باعث بہت ساری بصیرت سے فیض یاب ہوۓ۔ یہ اس مقدس جگہ کی خاص خوبی ہے۔ تو ہم جو یہاں موجود ہیں، اگر ایک موزوں اور مضبوط ترغیب کے حامل ہوں، اور خلوص دل سے دعا مانگیں، تو اس طرح زبردست خوشگوار استقامت اور موزوں مشق کے ذریعہ ہم بہت ساری مثبت توانائی پیدا کر سکتے ہیں۔

آپ میں سے خصوصاّ وہ لوگ جو تبت سے یہاں آۓ ہیں، چونکہ وہاں حالات نہائت ناسازگار ہیں، تو آپ کو اس مقدس مقام پر موجودگی سے ڈھیر ساری مثبت توانائی حاصل کرنے کے لئے پورا پورا فائدہ اٹھانا چاہئے۔ ہم سب جو یہاں موجود ہیں، نہائت خوش قسمت ہیں۔ ایک ایسے وقت جبکہ دنیا میں بے تحاشا ابہام، لالچ اور نفرت عام ہیں، تو یہ ہماری بہت بڑی خوش قسمتی ہے کہ ہمیں مہاتما بدھ کی محبت اور درد مندی کی تعلیمات پر عمل کرنے کا موقع ملا ہے۔ اگرچہ دنیا میں بیشمار دولت موجود ہے مگر یہ ساری دولت مل کر بھی موت، بڑھاپا اور دیگر بنیادی مسائل سے آزادی نہیں خرید سکتی۔ دکھ درد چونکہ من کی طرف سے آتا ہے اس لئے خارجی عناصر مثلاّ دولت اس کا خاتمہ نہیں کرسکتی۔ لہٰذا روحانی طریقے آزمانا بہت ضروری ہے، اور یہ بڑی عمدہ بات ہے کہ تمام مذاہب میں سے آپ نے بدھ مت میں دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔

ذرا دیکھئے ہمارے درمیان کتنے مغربی لوگ موجود ہیں۔ وہ یہاں بدھ مت میں اپنی پرخلوص دلچسپی کی بدولت آۓ ہیں۔ وہ مراقبے کرتے ہیں، دعائں پڑھتے (مانگتے) ہیں اور مشق کرتے ہیں، اور بہت کچھ جانتے ہیں۔ ان کی بدھ مت میں دلچسپی ان کی استدلالی اور عقلی سوچ کی مرہونِ منت ہے۔ بدھ مت کی تعلیمات کو قبول کرنے سے قبل انہوں نے ان کا بغور جائزہ لیا۔ انہیں دیکھ کر یہ پتہ چلتا ہے کہ اس وقت بودھ گیا جیسی مقدس جگہ پر ہونا ایک سنہری موقع ہے۔ یہاں ہم روشن ضمیر ہستیوں کے اعمال، کارنامے اور صفات سے واقفیت حاصل کرتے ہیں۔ چونکہ ایسی جگہ جو تعمیری رویّے اور سوچ کے لئے اس قدر موزوں ہو کا ملنا محال ہے، اس لئے ہمیں چاہئے کہ یہاں زیادہ سے زیادہ مثبت توانائی پیدا کریں۔ یہاں ہم جس قدر زیادہ مثبت کام کریں گے، کسی دوسری جگہ کی نسبت، اتنی ہی زیادہ مثبت قوت پیدا کریں گے، محض اس لئے کہ ہم اس مقدس جگہ پر موجود ہیں۔ آپ سمجھے نا؟

تبت کے زیارتیوں کے لئے خاص مشورہ

اگرچہ یہاں مال بیچنا منع نہیں، مگر اب جبکہ آپ یہاں ہیں تو ایمانداری سے کام لیجئے۔ اگرچہ اپنے کاروبار سے مناسب نفع کمانا درست ہے، مگر لالچ اور بے ایمانی مت کریں۔ اور جب آپ طواف کریں تو لغو گوئی اور خام خیالی سے پرہیز کریں، دھیان دیں اور احترام ملحوظ خاطر رکھیں۔ اس کے علاوہ اِدھر اُدھر کاغذ مت پھینکیں، اور جگہ جگہ پیشاب مت کریں۔ میں یہ جانتا ہوں کہ اگر آپ قطار میں لگ کر ٹائلٹ جانے کے لئے اپنی باری کا انتظار کریں تو آپ کو گھنٹوں انتظار کرنا پڑے گا۔ اس لئے آپ کو دوسری جگہوں کو استعمال کرنا پڑتا ہے۔ مگر صفائی کا پورا خیال رکھیں۔ تبت ایک سرد ملک ہے مگر یہاں ہندوستان میں سطح سمندر سے کم اونچائی کی وجہ سے صورت حال مختلف ہے۔ سب جگہ گند مت ڈالیں۔ محتاط رہیں اور ذمہ داری سے کام لیں۔

اس کے علاوہ سجدہ کرنا بہت اچھا ہے۔ یا تو جھک کر یا اوندھے لیٹ کر، مگر ٹھیک طرح سے سجدہ کریں۔ ہاتھ زمین پر کھلے اور ہتھیلیاں نیچے کی طرف ہوں۔ موم بتیاں جلائں۔ ایسے کام کرنا بڑی اچھی بات ہے، عمدہ بات ہے۔ دعا مانگیں، مراقبہ کریں، اور اگرچہ یہ پوری دلجمعی سے نہ بھی ہو پھر بھی یہ بہت عمدہ عادات و اطوار قائم (پیدا) کرتا ہے۔ سب سے اہم بات پُرخلوص نیت ہے۔ اس لئے ہمیں ہر کام میں اپنے من اور اپنی ترغیب کا جائزہ لیناچاہئے۔ یہ نہائت اہم بات ہے۔ ہمیں اپنے پریشان کن جذبات اور رویوں کی قوت کو جس قدر ممکن ہو کم کرنا چاہئے۔

سب سے اچھی بات ایک ایسا رویہ اختیار کرنا ہے جس کے تحت ہم دوسروں کو اہم اور خود کو غیر اہم گردانیں۔ یہ مہایان مسلک کا جوہر ہے۔ اپنے دل کو نرم اور گرم بنائں۔ اپنے اعمال کو تعمیری رکھنا اور دل کو نرم، گرم اور محبت سے بھر پور رکھنا اصل باتیں ہیں۔ اگر ہم دھرم کے خارجی معاملات میں تکبّر، مقابلہ یا حسد کی بنیاد پر حصہ لیں تو اس سے محض منفی کرمائی قوت میں اضافہ ہوتا ہے۔ لہٰذا یہ نہائت اہم ہے کہ ہم کیا کرتے ہیں اور کیوں کرتے ہیں۔ ہمیں ہمیشہ اپنی ترغیب کا معائنہ کرنا چاہئے اور اسے درست رکھنا چاہئے۔

ترغیب کا تعیّن

اس خاص اور مقدس جگہ پر اپنی موجودگی کے وقت ہمیں اپنا محرک، جس قدر بھی زیادہ روشن ضمیر ہو، بنانا چاہئے۔ مہاتما بدھ کی بودھی چت استوار کرنے کی مثال کو سامنے رکھتے ہوۓ، ہمیں جس حد تک ممکن ہو ان کی تقلید کرنی چاہئے۔ اگر ہم ایسی جگہ پر ایک رحیم دل اور عظیم ترغیب استوار کریں تو یہ نہائت سود مند ہو گا۔ سمجھے آپ؟

جیسا کہ 'بودھی ستوا رویہ اختیار کرنا' میں مذکور ہے کبھی بھی غصہ مت کرو، جیسا کہ وہاں رقم ہے کہ غصہ سے بڑھ کر اور کوئی شے مثبت توانائی کو تلف نہیں کرتی، لہٰذا کبھی بھی غصہ میں مت آؤ یا کسی سے ناراض مت ہو۔ اپنے من کو سدھاؤ اور اسے ضبطِ نفس سکھاؤ کہ یہ بد مزاج اور کرخت نہ ہو۔ دوسروں کے اعمال اور کامیابیوں پر رشک کرنے کے بجاۓ سب کی جو یہاں موجود ہیں، مثبت توانائی سے خوشی مناؤ۔ 'ہفت عضوی دعا' پڑھو (اس کا ورد کرو) اور اس کے تمام پہلوؤں پر غور کرو۔ جس قدر ہو سکے مثبت قوت پیدا کرو۔ سمجھے؟ اور اگر ہم یہاں تھوڑی سی (مثبت قوت) پیدا کرنے میں کامیاب ہو گئے تو اس سے ہماری زندگی بہت بہتر ہو جاۓ گی۔ ہے نا؟

تو اب ان اسباق کو سننے کے لئے بودھی چت ترغیب قائم کرو۔ یہ توگمے-زنگپو کی 'سینتیس بودھی ستوا عبادات' ہیں۔ اور یہ تین حصوں میں منقسم ہے: تمہید، اصل مباحثہ، اور اختتام۔ مباحثہ، ترغیب کے تین درجات میں منقسم ہے، جیسا کہ 'لم-رم' میں مذکور ہے۔

قیمتی انسانی زندگی

(۱) ایک بودھی ستوا مشق یہ ہے، اس وقت جبکہ ہمیں پنر جنم جیسی قیمتی نعمت اپنی تمام عنایات اور فضیلتوں کے ساتھ عطا ہوئی ہے، جسے پانا مشکل ہے، سنیں، سوچیں، اور مراقبہ کریں استقلال کے ساتھ، دن رات، تا کہ ہم خود کو اور دوسروں کو مکرّر اضطراری سمسار کے سمندر سے نجات دلا سکیں۔

دھرم عبادات کا ایک ایسا نظام ہے جو ایک پریشان حال من کو طمانیت بخشتا ہے اور ایک ان سدھے من کو سدھا دیتا ہے۔ مسرت کی تمنا اور دکھ سے نجات کے معاملہ میں ہم سب یکساں ہیں، اور دھرم اسے ممکن بناتا ہے۔ لیکن بیشتر لوگ اس پر چلنا نہیں جانتے۔ اگر ہم اپنے جسم پر نظر ڈالیں تو اگرچہ ہم انہیں بطور اپنے والدین کی افزائش نسل کی صنف کے پائں گے، لیکن اگر ہم ذرا غور سے ان کا جائزہ لیں تو ہم دیکھیں گے کہ یہ ایسی چیز ہے جسے ایک عمدہ مہلت (مو قع) اور فضائل سے نوازا گیا ہے۔ مہلت سے مراد دھرم کی راہ پر چلنے کی آزادی، جیسے یہاں ہم ہیں۔ ہمیں یہاں آ کر دھرم پر عمل کرنے کی آزادی حاصل ہے، ہے نا؟ ہم بہرے نہیں: ہمارے اندر مختلف صلاحیتوں کا فقدان نہیں جو ہمارے یہاں درس سننے کی راہ میں حائل ہو۔ مشق کرنے کے تمام سازگار حالات موجود ہیں، اور جو سازگار نہیں اس کا یہاں وجود بھی نہیں۔ درحقیقت یہاں آٹھ عمدہ مواقع اور دس فضائل موجود ہیں۔

اس دنیا میں انسان تو بہت ہیں مگر ایسے انسان بہت کم ہیں جنہیں دھرم پر چلنے کا اختیار اور آزادی حاصل ہیں۔ لہٰذا ہم بہت خوش قسمت ہیں کہ ہمیں یہ سنہری موقع ملا ہے۔ اس کے علاوہ دنیا میں کئی روحانی مرشد بھی موجود ہیں جو مہاتما بدھ کے نقش قدم پر گامزن ہیں اور اس کے اعمال کی پیروی کرتے ہیں۔ یہ منفعت بخش اثرات جن سے ہم مستفید ہو رہے ہیں ان جیسی ماضی میں پائی جانے والی وجوہات کا نتیجہ ہیں۔ باالفاظ دیگر، ہماری موجودہ خوش قسمتی ماضی میں تشکیل شدہ تعمیری علل کا نتیجہ ہے۔ پس مستقبل میں بھی ایسے ہی سنہری مواقع مہیا کرنے کی خاطر ہمیں اب تعمیری علل تشکیل دینا ہوں گے۔

اگر ہم تعلق، نفرت یا احمقانہ سادہ لوحی سے بچیں تو مستقبل میں ایک قیمتی پنر جنم کے لئے تعمیری علل استوار کرنا مشکل نہ ہو گا۔ لیکن ایسا چونکہ ہم کم ہی کرتے ہیں، اس لئے ہمیں چاہئے کہ موجودہ موقع سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائں۔ کبھی بھی ہمت نہ ہارو اور نہ ہی اپنے آپ کو کمتر محسوس کرو۔ جس درجہ ممکن ہو تعمیری انداز سے کام کرو۔

ایک سدھایا ہوا تعمیری من کوئی ایسی جنس نہیں جسے بازار سے خرید لائں، زمین میں اُگا لیں، یا جو کسی بینک سے مل جاۓ۔ یہ من کو سدھانے کی مشق سے حاصل ہوتا ہے۔ ہمیں مراقبہ اور مستحکم باریابی حاصل کرنے کے لئے مشق کرنی چاہئے۔ پس ہمیں ماضی کے عظیم مفکرین کے نقشِ قدم پر چلنا چاہئے۔

تبت میں پہلے پہل عظیم نیئنگما لاما تھے؛ پھر آتیشا اور کدم سلسلۂ نسب والے، ساکیہ لاما، اور مارپا، اور کاگیو سلسلۂ نسب کے مارپامیلاریپا اور گامپوپا، وغیرہ۔ سب نے بہت صعوبتیں برداشت کیں، اور سخت مشقت کے بعد انہیں روشن ضمیری حاصل ہوئی۔ اب یہ ہمارا کام ہے کہ ہم ان کے نقشِ قدم پر چلیں۔ ہمیں اپنا محاسبہ کرنا چاہئے اور اپنے آپ سے پوچھنا چاہئے،"میں نے گذشتہ پانچ، دس یا پندرہ سال میں اپنے من کو سدھانے کے لئے کیا کیا ہے؟" اگر ہم دیکھیں کہ ہم نے واقعی کچھ بہتری کی صورت پیدا کی ہے، تو اس سے ہماری حوصلہ افزائی ہو گی۔ غرور وغیرہ مت کرو، اگر ہم دیکھیں کہ پانچ یا دس سال میں ہم تھوڑی ترقی کر سکتے ہیں، تو پھر مختصر ادوار کے دوران ہم حوصلہ نہیں ہاریں گے۔

تعلیمات کو سننے، سوچنے اور مراقبہ کی مشق۔ جب ہم تعلیمات کو سنیں یا ان کا مطالعہ کریں تو ہمیں ان کے بارے میں اپنے رویہ کا جائزہ لینا چاہئے۔ جو کچھ بھی ہم سنیں ہمیں اس پر فوری عمل کرنا چاہئے۔ ہمیں سننے، سوچنے اور مراقبہ کرنے کے افعال کو کبھی ایک دوسرے سے جدا نہیں کرنا چاہئے اور نہ ہی ان میں سے کسی کو بھولنا چاہئے۔

قیمتی انسانی زندگی سے استفادہ کرنے کے موزوں ترین حالات

(۲) بودھی ستوا مشق سے مراد ترکِ وطن ہے، جہاں احباب سے تعلق ہمیں پانی کی مانند ادھر اُدھر اچھالتا ہے؛ دشمنوں سے ناراضگی ہمیں آگ میں جلاتی ہے؛ اور احمقانہ سادہ لوحی ظلمت سے ڈھانپتی ہے تا کہ ہم بھلا دیں کہ ہمیں کیا پکڑنا ہے اور کیا چھوڑنا ہے۔

سب سے اچھی بات ترکِ وطن ہے ۔ اور اگر ہم ایسے نہ کر پائں، تو اس کی وجہ سے جو تعلق اور نفرت ہے، اس سے بچیں۔ یوں مت سوچو،" یہ میرا ملک ہے، یہ میرا خاندان ہے،" جیسے کہ واقعی کوئی ایسا ملک ہے جس سے ہمارا تعلق ہو، اور جس کے دشمنوں سے ہمیں نفرت ہو۔ تعلق اور نفرت سے تخریبی رویہ جنم لیتا ہے اور بہت سی منفی قوت اور ابتلا پیدا ہوتی ہے۔ ہمارے منفی جذبات اور رویوں میں سے یہ دونوں سب سے بڑی مصیبتیں ہیں، اور دونوں کی تاسیس عدم آگہی (لاعلمی) پر ہے۔

اگر ہم اپنا وطن چھوڑ کر کسی دوسری جگہ چلے جائں، نئے دوست بنا لیں، نئے تعلق اور نئی نفرتیں پیدا کر لیں تو اس سے کام نہیں چلے گا۔ یہ اچھی بات نہیں۔ بنیادی بات تعلق اور نفرت سے نجات پانا ہے، اور اس کی جگہ دوسروں کے بھلے کی خواہش پیدا کرنا ہے۔ اگر ہم کسی کو پر کشش پاتے ہیں اور ان سے تعلق جوڑتے ہیں، پھر ان کے رویہ میں معمولی سی تبدیلی سے ہم ان سے متنفر ہو جاتے ہیں۔ لیکن اگر ہمارے دل میں ان لوگوں کے لئے محبت اور درد مندی کے ساتھ ان کی مدد کی خواہش ہو گی، تو اگر ان کا رویہ بگڑ بھی جاۓ تو ہم پھر بھی ان کی خوشی چاہیں گے۔ لہٰذا ہمیں دوسروں سے تعلق کو ان کی بھلائی کی خواہش میں بدل دینا چاہئے۔

ہم میں سے بیشتر جو یہاں موجود ہیں، نے اپنا وطن چھوڑ دیا ہے، لیکن اگرہم اب بھی تعلق اور نفرت کے جذبات رکھتے ہیں، تو ہم نے کوئی بڑا کارنامہ نہیں کیا۔ ہمیں ان (جذبات) سے چھٹکارا پانا چاہئے۔

(۳) ایک بودھی ستوا کی مشق علیحدگی (لاتعلقی) پر بھروسہ ہے جہاں، ہم نقصان دہ چیزوں سے چھٹکارا پا کر، اپنے پریشان کن جذبات اور رویّوں سے دھیرے دھیرے تعلق توڑ دیتے ہیں؛ راہ سے بھٹکانے والی چیزوں سے نجات پا کر قدرتی طور پر ہمارے تعمیری اعمال میں اضافہ ہوتا ہے؛ اور اپنی آگہی کو شفاف بنا کر، دھرم میں ہمارا ایمان بڑھتا ہے۔

اگر ہم ایسےلوگوں سے دور رہیں جو ہمیں پریشان کرتے ہیں، اور اگر ہمارے اوپر کام کی بھرمار نہیں، تو ہم آسانی سے تعمیری کاموں میں لگ جاتے ہیں۔ لہٰذا تنہائی اور علیحدگی اختیار کرنا نہائت سود مند ہے۔ مگر تنہائی میں مراقبہ کرنے کے لئے ہمیں تعلیمات کا مکمل، گہرا علم، بغیر کسی تعلق یا نفرت کے، ہونا لازم ہے۔

پس ہمیں ایک قیمتی انسانی پنرجنم ملا ہے، اور ہمیں اس موقع سے پورا فائدہ اٹھانا ہے کیونکہ یہ (جنم) عارضی ہے۔ لہٰذا ہمیں اس زندگی سے گہرے رشتہ سے منہ موڑنا ہے، جیسا کہ 'مسلک کے تین بڑے پہلو' میں مذکور ہے۔ اگر ہم اپنی پوری توجہ آنے والی زندگیوں پر مرکوز کریں تو اس زندگی میں بھی حالات اچھے ہو جائں گے۔ لیکن اگر ہم اس زندگی کو ہی اہمیت دیں، تو اس سے ہماری مستقبل کی زندگیوں پر اچھا اثر نہیں پڑے گا۔ لہٰذا ہمیں محض اس زندگی کو بہتر بنانے سے توجہ ہٹا کر آئندہ زندگیوں کو بہتر بنانے پر کام کرنا ہے۔ اس مقصد کے لئے ہمیں عدم استحکام پر غور کرنا ہے۔

عدم استحکام

(۴) ایک بودھی ستوا کو بطور مشق اس زندگی سے تعلق کم کرنا ہے، جس میں پرانے دوست اور عزیز ایک دوسرے سے بچھڑ جاتے ہیں؛ بڑی محنت سے کمائی ہوئی مال و دولت کو پیچھے چھوڑ جانا ہے؛ اور ہمارے شعور کو، جو ہمارا مہمان ہے، جسم سے، جو اس کا مہمان گھر ہے، رخصت ہونا ہے۔

دنیا کی تاریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ کسی کو بھی پنر جنم کے تین اضطراری ادوار میں دوام حاصل نہیں ہوا۔ ماضی کے عالیشان مقامات کو دیکھو، جیسے نلندا، جہاں آتیشا اور دیگر لوگ پھلے پھولے۔ اب وہاں صرف اس کے کھنڈرات باقی ہیں۔ اس سے ہمیں عدم استحکام کا پتہ چلتا ہے۔ ذرا ماضی میں تبت کی روایات وغیرہ کو دیکھو۔ یہ حالات گذر چکے ہیں؛ یہ غیر مستحکم تھے اور ختم ہو گئے۔ آج سے سو سال بعد یقیناً ہم میں سے کوئی بھی زندہ نہیں ہو گا۔ ہمارے من کی آگہی اور صراحت کے سلسلے آگے جا چکے ہوں گے؛ ماضی اور مستقبل کی زندگیوں کا وجود یقینی ہے۔ مگر ہمارے موجودہ تجربات آگے نہیں جائں گے – ہماری دولت، ہماری خوشحالی، یہ سب چیزیں جو گزشتہ زندگیوں کے علل کی مرہونِ منت ہیں۔ خواہ ہم کسی سے، جیسے ہمارے گھر والے، کتنے ہی قریب کیوں نہ ہوں ، ہم سب بچھڑ جائں گے اور اپنی اپنی راہ لیں گے۔ جنہوں نے مثبت توانائی پیدا کی ہے وہ مسرت سے ہمکنار ہوں گے؛ جنہوں نے ایسا نہیں کیا وہ (مسرت سے ہمکنار) نہیں ہوں گے۔ ہماری "میں" جس کی مہر لطیف توانائی اور شعور پر ثبت ہوتی ہے کا تسلسل یقینی ہے، لہٰذا ہم اپنے اس جنم میں سرزد اعمال کا پھل پائں گے۔ اس لئے ہم اب جو بھی کرتے ہیں وہ نہائت اہم ہے۔

موت کے بعد ہمیں اکیلے ہی جانا ہے۔ حتیٰ کہ دلائی لاما کو بھی مرنے کے بعد اکیلے ہی جانا ہے۔ جب ماؤ زے تنگ مر گیا تو وہ اکیلا ہی رخصت ہوا۔ اس کی بیوی جیانگچینگ اس کے ہمراہ نہیں تھی، اور نہ ہی اس کے لوگ۔ اس کی تمام شہرت جو اس نے اس وقفۂ حیات میں حاصل کی اس کے کام نہ آئی۔ ہم جانتے ہیں کہ اس کے بعد کیا ہوا۔ حد یہ ہے کہ مہاتما گاندھی جیسا عظیم انسان بھی اکیلا ہی گیا۔ وہ اپنا عصا، اپنا جوتا اور اپنی گول شیشوں کی عینک پیچھے چھوڑ کر چلا گیا۔ ہم انہیں اس کے یادگار مقام پر دیکھ سکتے ہیں؛ وہ ساتھ کچھ نہیں لیکر گیا۔ خارجی مال اسباب، دوست عزیز، کوئی شے کام نہیں آتی، حتیٰ کہ وہ جسم بھی جو ہمیں اپنے والدین سے ملا۔ جیسا کہ گونگتانگ رنپوچے نے کہا، ہم سب کو اکیلے ہی جانا ہے۔

تبتی لوگوں کو دیکھو، اپنے آپ کو دیکھو۔ اگرچہ ہم بڑے مشکل حالات سے گذر رہے ہیں، پھر بھی ہم انسان تو ہیں اور اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ ہم دوبارہ انسانی شکل اختیار کریں گے۔ اب اگر ہم جبکہ انسانی شکل میں ہیں کوئی بھلائی نہ کریں، تو کسی اگلے جنم میں جب ہم انسانی صورت میں نہیں ہوں گے، کیا کر سکیں گے۔ اب بے شک ہمیں خوراک چاہئے۔ ماسواۓ ان عظیم ہستیوں کے جو یکطرفہ ارتکاز پر جیتے ہیں، ہم سب کو ٹھوس غذا چاہئے۔ تو ظاہر ہے کہ ہمیں اناج کاشت کرنا پڑتا ہے اور اس زندگی کے لئے کئی کام کرنا ہوتے ہیں۔ لیکن ہمیں اسے اپنی واحد مصروفیت بنانے کی ضرورت نہیں۔ ہمیں اپنا تیس فیصد وقت اس زندگی کو اور ستر فیصد مستقبل کو وقف کرنا چاہئے، یا اس سے بھی بہتر ہو گا اگر ہم اسے آدھا آدھا بانٹیں۔ اصل بات یہ ہے کہ تمام وقت اسی زندگی کے کاموں پر ہی نہ صرف کر دیں۔

اچھے احباب کی اہمیت

(۵) بودھی ستوا مشق کے مطابق ہمیں ایسے برے دوستوں کو ترک کرنا ہے جنہیں جب ہم ملتے ہیں، ہمارے تین زہریلے جذبات ابھر آتے ہیں؛ ہمارے سننے، سوچنے، اور مراقبہ کے اعمال کمزور پڑ جاتے ہیں؛ اور ہمارا جذبہ محبت اور درد مندی ختم ہو جاتا ہے۔

لہٰذا ہمیں اکثر اوقات اپنی آئندہ زندگیوں کے متعلق سوچنا چاہئے، اور ایسا کرنے کی خاطر ہمیں اچھے دوستوں کی ضرورت ہے۔ وہ اس لئے اہم ہیں کیونکہ وہ ہمارے اوپر بہت حد تک اثر انداز ہوتے ہیں۔ اگر ہماری تعلیمات کو سننے اور ان پر غور کرنے کی صلاحیت محدود ہو، تو دوستوں کی مثال سے ہمیں مزید کچھ کرنے کی ترغیب ملتی ہے۔

اس لئے یہ بات اہم ہے کہ ہم ایسے لوگوں کو دوست بنائں جن کا مزاج ہمارے مزاج سے ہم آہنگ ہو۔ ایسا کیوں؟ اس لئے کہ جیسا کہ آئت میں مذکور ہے، برے یا بے راہرو دوست ہمیں اپنی صحبت سے نقصان پہنچا سکتے ہیں، اس لئے ہمیں ان سے تعلق منقطع کر لینا چاہئے۔ لیکن پھر بھی، بے شک ہمیں اپنے دل میں ان کے لئے محبت کو اجاگر رکھنا چاہئے – ان کی خوشی کی خواہش؛ بس ان کے برے اثرات سے دور رہو۔

(۶) ایک بودھی ستوا مشق یہ ہے کہ ہم اپنے شریر سے بڑھ کر اپنے مکرّم روحانی صلاح کاروں کوعزت بخشیں، جنہیں، ہمارے اپنے آپ کو حوالے کر نے سے ہماری کمزوریاں کم ہوتی ہیں اور ہماری صفات چڑھتے چاند کی مانند پھیلتی ہیں۔

اگر ہمارے دوست مثبت سوچ رکھتے ہیں اور ہم گرؤں اور روحانی مشیروں کی صحبت اختیار کرتے ہیں، تو ان کا ہمارے اوپر بہترین اثر ہوتا ہے۔ بے شک ہمیں ایسے گرو کی ضرورت ہوتی ہے جو ہمارے لئے موزوں ہو، اور اگرچہ یہ گرو ہمارے من کو بھاتا ہو، پر اس کا مکمل طور پر استعداد رکھنا لازم ہے۔ ہم تبتیوں کے ہاں ٹولکو یعنی انسانی شکل میں مشہور پہچان والے لاما، ہوتے ہیں، مگر ان کا پوری قابلیت رکھنا ضروری ہے، وگرنہ یہ بے معنی ہو گا۔ لہٰذا ہمیں کسی شخص کے ٹولکو جیسے خطاب کو نظرانداز کر کے اس کی ذاتی قابلیت کا جائزہ لینا چاہئے۔ اگر وہ پوری استعداد رکھتا ہو تو تب ہی وہ گرو یا لاما ہو سکتا ہے۔

مگر بہت سے ٹولکو در حقیقت لاما نہیں ہیں۔ ان کے پاس بڑی جاگیر اور مال و دولت تو ہو سکتا ہے لیکن ان کے پاس کوئی قابلیت نہیں۔ دولت، بڑا نام اور شہرت سے کوئی لاما نہیں بنتا۔ اس لئے ہمیں ان کی اصل صلاحیت، ان کا مطالعہ وغیرہ کو پرکھنا چاہئے۔ ایسا گہرا معائنہ نہائت ضروری ہے۔ مہاتما بدھ نے اس پر زور دیا اور تسونگکھاپانے بھی۔

گرو اور چیلوں کے درمیان ایک صحت مند رشتہ استوار کرنا ازحد لازم ہے۔ اگر گرو پوری استعداد کا مالک ہو، تو ہم بے فکر ہو کر اپنے آپ کو اس کے حوالے کر سکتے ہیں اور اس کی ہدایات پر عمل کر سکتے ہیں، جیسا کہ ناروپا اور تلوپا نے کیا۔ اگر تلوپا نے ناروپا کو کود پڑنے کو کہا تو نروپا نے یہ کام بلا جھجک کیا۔ لیکن اگر ہمارے گرو تلوپا جیسے کسی انسان کے مقام پر نہیں، تو پھر ہمیں کسی کی کہی ہوئی کوئی بات یوں ہی نہیں مان لینی چاہئے۔ اگر ہمیں کوئی احمق انسان اس ستوپ پر سے چھلانگ لگانے کو کہے تو ہم اس پر ایسے ہی، بغیر سوچے سمجھے، عمل نہیں کرتے، ہے نا؟

ہم نوآموز (طالبعلموں) کے لئے اہم ترین بات ایک ایسے اخلاقی ضبط نفس کی بنیاد ڈالنا ہے جس پر ہم مزید ترقی کر سکیں۔ ہم تبتیوں کا طریقۂ مشق نہائت شاندار ہے۔ ہمارے ہاں اخلاقی ضبط نفس کی بنیادی قدر ہے، اور اس پر مزید محبت اور درد مندی کی مہایان ریت ہے۔ پھر سب سے اوپر تنتر کی مشق ہے، اور اس طرح اس کے چاروں عناصر پورے ہو جاتے ہیں۔ در حقیقت ہم تبتی وہ واحد بدھ متی ہیں جو مہاتما بدھ کی تعلیمات کی تمام عبادات پوری کرتے ہیں، اور وہ بھی ایسے کہ ایک ہی انسان تمام مشقیں کرتا ہے۔

مثال کے طور پر تھائی لینڈ، برما اور سری لنکا میں وہ محض اخلاقی ضبط نفس کی مشق کرتے ہیں اور مہایان طریق اور تنتر پر عمل نہیں کرتے۔ جاپان، کوریا اور دوسرے کچھ علاقوں میں جہاں مہایان عام ہے، وہ تنتر تو کرتے ہیں مگر صرف پہلے تین حصے: کریا، چاریا اور یوگا۔ ان کے ہاں چوتھی مشق یعنی انوتر یوگا تنتر کا کوئی ذکر نہیں۔ بعض کے ہاں خالی پن کا تصور ہے مگر صرف چتمتر مسلک والا یا مدھیامک کا یوگا چارا-سواتنریک مسلک، لیکن پرسانگک-مدھیامک کا تصور نہیں۔ بعض جگہوں میں مہایان تو ہے مگر بغیر ضبط کے اور بعض کے ہاں صرف تنتریان ہے اور باقی دونوں غائب۔ یہ صرف ہم تبتیوں کا ہی طریق ہے کہ ایک ہی شخص مکمل مسلک اور مشق اپنے اندر سموۓ ہوۓ ہے۔ اور ہم سب کو ایسا ہی شخص ہونا چاہئے۔

محفوظ سمت (پناہ گاہ)

(۷) ایک بودھی ستوا مشق اعلیٰ جواہر سے محفوظ سمت پکڑنا ہے، جس سے ہمیں کبھی دھوکہ نہیں ہوا اس میں پناہ لینا – کیونکہ دنیاوی دیوتا کسی کو کیا تحفظ دے سکتے ہیں جو کہ خود ابھی تک سمسار کی قید میں ہیں؟

اس سے ہمیں محفوظ راہ یا پناہ کی ضرورت پیش آتی ہے، اور جب ہم ایسا کرتے ہیں، تو ہمیں تین جواہر کی اعلٰی صفات کو پیش نظر رکھنا ہے۔ مہاتما بدھ کے لئے تبتی زبان میں لفظ سنگگیے ہے۔ "سنگ" سے مراد ہر اس شے سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے جس سے جان چھڑانے کی ضرورت ہے، تمام کمزوریوں کو دور کرنا، اور "گیے" سے مراد تمام اعلٰی صفات کو اپنانا۔ سنسکرت زبان میں لفظ "دھرم" کا مطلب ہے روکنا، کسی کو ناموافق شے سے روکنا۔ دوسرے لفظوں میں دھرم پر چلنا ہمیں دکھ سے محفوظ رکھتا ہے۔

دھرم جوہر کا اصل مطلب حقیقی روک تھام اور سچ کی راہ پر گامزن من کی بلند و بالا سچائیاں ہے۔ حقیقی روک تھام سے مراد ہمارے من سے داغ دھبوں کو مٹانا، اور ان کی خالی پن کے خالص حلقہ میں تحلیل ہے۔ من کی گذرگاہوں سے مراد من کی ایسی سچی گذرگاہیں ہیں جو خالی پن کا ٹھوس، بلا واسطہ ادراک رکھتی ہیں، جو مکش اور روشن ضمیری کی جانب لے جاتے ہیں۔ یہ دھرم کے دو جوہر ہیں۔

سنگھا جوہر سے مراد آریہ یا وہ شُرَفا ہیں جو خالی پن کا ٹھوس، بلا واسطہ ادراک رکھتے ہیں۔ لہٰذا یہ محفوظ سمت کے تین جوہر ہیں۔ مہاتما بدھ جیسے طبیب؛ دھرم جیسی دوا، یا یہ کہنا زیادہ درست ہو گا، کہ علاج اور زیر معالجہ ہونا من کی گذرگاہیں اور حقیقی روک تھام ہیں؛ اور سنگھا کا کردار مددگار نرسوں جیسا ہے۔

ہم سب دکھ کو، چھوٹے دکھ سے لے کر بڑے دکھ تک، ناپسند کرتے ہیں، اور اس سے مکش چاہتے ہیں۔ اس کا اتلاف اور اسے تلف کرنے کے طریقے دھرم جوہر کی مانند ہیں۔ ہمیں اس کام کے لئے ایک استاد کی ضرورت پڑتی ہے جو کہ مہاتما بدھ جوہر ہے، اور مددگار دوست، جو کہ سنگھا جوہر ہے۔ مزید برآں، جو چیزیں ہمیں تحفظ کی خاطر محفوظ راہ دکھا رہی ہیں ہمیں ان کی صلاحیت پر پورا بھروسہ ہونا چاہئے؛ اس کے علاوہ ہمارے دل میں دکھ سے خوف اور سکھ کی خواہش ہونی چاہئے۔ یہ ہماری زندگیوں کو پناہ کی محفوظ سمت لیجانے کا سبب بنتے ہیں۔

جیسا کہ مہاتما بدھ نے حقیقی دکھ کی اصلی وجوہات کو دور کرنے کے طریقے بتاۓ ہیں، اس طرح کہ ان کا سچ مچ خاتمہ ہو جاۓ، لہٰذا وہ (مہاتما بدھ) محفوظ سمت والی شے کہلانے کا مستحق ہے۔ ہم نے ایسے مہاتما بدھ کی تعلیمات سے استفادہ کیا ہے اس لئے ہمیں زندگی میں اس کی محفوظ راہ کو پکڑنا ہے۔ ہم اپنے مستقبل میں وقوع پذیر تمام دکھ سے نجات اور روشن ضمیری حاصل کرنے کی حالت کی محفوظ راہ کو پکڑتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہم تین جواہر کی پیش کردہ علت و معلول والی محفوظ راہ بھی پکڑتے ہیں جو ہمیں اس حالت پر لاتی ہے۔ لہٰذا آپ سب کو زندگی میں محفوظ سمت چلنا چاہئے۔

Top