اپنی صلاحیت کو سمجھنا
ہم نے اس بارے میں کچھ خاص بات نہیں کی کہ آیا اس سب کا حصول ممکن ہے اور کیا میں یہ سب کچھ کر سکتا ہوں۔ یہ سب بدھا فطرت پر بات چیت کا معاملہ ہے، جس کا بنیادی طور پر تعلق ان عناصر سے ہے جو ہم سب میں پائے جاتے ہیں جو ہمیں بدھا بننے میں معاون ہوتے ہیں۔ اس کا تعلق من کی خصوصیات سے ہے۔
کیا ہم چیزوں کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟ کیا ہم کسی شے سے ہمہ وقت آگاہی کی صلاحیت رکھتے ہیں؟ ہم کسی چیز سے کچھ عرصہ کے لئیے با خبر رہ سکتے ہیں، تو کیا اس دورانیہ کو بڑھایا جا سکتا ہے؟ جی ہاں ہم مراقبہ اور مانوسیت کے طریقوں سے اس میں اضافہ کر سکتے ہیں، لیکن اصل بات یہ ہے کہ اس میں کامیابی ہمارے شوق اور دلچسپی پر منحصر ہے۔ ہمارے نزدیک اس کا اہم اور برمحل ہونا ضروری ہے۔
یہ ایسے ہی ہے کہ جب ہم خریداری کے لئیے جاتے ہیں تو اس چیز سے آگاہ ہوتے ہیں کہ ہمارے پاس کتنی رقم ہے، کیونکہ آپ جو آپ کے پاس ہے سے زیادہ خرچ نہیں کر سکتے۔ دیگر اوقات، جب آپ گھر میں بیٹھے ہوں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کی جیب میں کتنے پیسے ہیں۔ یہ بے معنی ہے اور آپ اس کی پرواہ نہیں کرتے۔ اسی طرح، جب ہم تعلیمات کی بات کریں تو وہ ہمارے لئیے برمحل ہونی چاہئیں۔ ان کی اہمیت کو سمجھنے کے لئیے ہمیں ان کے عمل اور یہ کہ وہ کیوں اہم ہیں کو جاننا ہو گا۔ ہم اسے من کی ایک سادہ حالت "حساس رویہ" کا نام دے سکتے ہیں جس میں ہم اپنی فکر کرتے ہیں، ہمارے ساتھ کیا بیتتی ہے اور ہمارا کس سے پالا پڑتا ہے۔
اپنی ذات کی فکر کرنا
ہم غالباً اس قسم کے رویہ کو بہتر سمجھ سکتے ہیں جب اس کا رُخ دوسرے لوگوں کی طرف ہو۔ اگر مجھے دوسروں کی پرواہ نہ ہو، تو پھر مجھے اپنی گفتار اور کردار کی بھی فکر نہیں ہو گی، یا کیا انہیں یہ پسند ہے یا نہیں۔ لیکن اگر میں انہیں اہم سمجھتا ہوں، تو پھر میں اس بات کا خیال کروں گا کہ میرے رویہ کا ان پر کیا اثر ہوتا ہے۔ ہمیں اپنے لئیے بھی ایسی فکر استوار کرنا ہے، کہ اگر میں اپنا تمام وقت ضائع کر دوں اور اس قیمتی انسانی زندگی سے فائدہ نہ اٹھاؤں، تو ایک روز مجھے موت آ جائے گی اور میں اس ضیاع پر شدید شرمندہ ہوں گا۔
ہم روز مرہ کی عام باتوں پر بھی اس کا اطلاق کر سکتے ہیں۔ میں اپنے بچوں کی پرورش یا اپنے کام کے متعلق احتیاط برت سکتا ہوں؛ میں اپنی من کی اور جسمانی فلاح کے بارے میں فکر مند ہو سکتا ہوں۔ اس طرح کے احساس کے ساتھ ہم اپنے حوالے سے تعلیمات پر غور کریں گے۔ ان تعلیمات کو دھیرے دھیرے من میں بسا کر ہم انہیں یاد رکھیں گے، اگرچہ کل وقتی نہ سہی، لیکن بیشتر اوقات ہی سہی۔ مراقبہ کے توسط سے تعلیمات کو بار بار دوہرا کر ہم ان سے اس قدر مانوس ہو جاتے ہیں کہ وہ ہمارے من کا فطری جزو بن جاتی ہیں، حتیٰ کہ ہمیں انہیں یاد رکھنے کی کوشش بھی نہیں کرنا پڑتی۔
اگر ہمیں یقین ہو کہ ہم ایسی بصیرت کے اہل ہیں، تب ہم اسے کرنے میں دل و جان لگا دیں گے۔ اگر ہمیں یقین نہیں ہے تو پھر یہ ایسا ہی ہوگا جیسے ہم اڑنے کے لئیے اپنے بازو پھڑ پھڑا رہے ہوں: ہم اتنی تکلیف گوارا ہی کیوں کریں گے؟ شروع میں شائد ہم نروان اور روشن ضمیری کے مطلب سے واقف نہ ہوں، لیکن ہمارا مدعا و منتہا یہ ہے کہ ہم نے اسے سمجھنا ہے اور اس پر کام کرنا ہے، اور موت سے آگہی ہمیں زندگی کو ضائع کرنے سے روکے گی۔
درد مندی پر مراقبہ
اب ہم اس سلسلہ کی تیسری کڑی یعنی مراقبہ کو دیکھیں گے۔ تسانگ خاپا جو کہ ایک عظیم تبتی گرو تھا نے اس موضوع کا تعارف کروانے کی خاطر نہائت مفید نصیحت رقم کی۔ 'سوتر اور تنتر پر عملی نصیحت کا ایک پتر' میں اس نے لکھا کہ مراقبہ کرنے کی خاطر ہمیں "اس بات کی مکمل بصیرت ہونی چاہئیے کہ جو من کی حالت ہم پیدا کرنا چاہ رہے ہیں اس کی وجوہات کیا ہیں۔" تو اگر ہم درد مندی پیدا کرنا چاہتے ہیں تو وہ کونسے عوامل ہیں جو اس کو استوار کرنے میں معاون ہوں گے۔
یہ محتاجی کا اصول ہے – کہ دوسرے لوگوں کے دکھ اور دکھ کی وجوہات سے نجات کی خواہش استوار کر نے کی خاطر (جو کہ بدھ مت میں درد مندی کی تعریف ہے) ہمیں جاننا چاہئیے کہ ہمارا ان سے باہمی رشتہ ہے۔ وگرنہ ہمیں ان کی پرواہ بھی نہ ہو۔ پس ہمیں اس بات کو ذہن میں رکھنا ہے کہ ہماری ہستی کس طور ان کی محنت اور مہربانی کی مرہون منت ہے – وہ جنہوں نے خوراک پیدا کی، سڑکیں بنائیں، وغیرہ وغیرہ۔ اس بات کو یاد کرنے سے کہ انہوں نے کیسے ہماری زندگی کو ممکن بنایا، ہم ان کے لئیے تعریف اور تشکر استوار کرتے ہیں۔ جب یہ احساس پر خلوص ہو اور دل کی گہرائیوں سے جنم لے، تو ہمارا احساس تشکر قدرتی طور پر دل گرما دینے والا پیار پیدا کرتا ہے جس کی بدولت ہم انہیں بہت قابل ستائش جانتے ہیں اور اگر ان کےساتھ کوئی حادثہ پیش آئے تو ہم بہت دکھ محسوس کریں گے۔ اس سے پیار پیدا ہوتا ہے: ان کے لئیے مسرت اور مسرت کے اسباب کی تمنّا۔ لیکن اگر ہم انہیں عدم مسرت کی حالت میں پائیں، اور کئی طرح کی ابتلا میں گھرے ہوں ، تو ہم درد مندی سے کام لیتے ہیں۔ ہمارا درد مندی پیدا کرنے کا عمل ان تمام مراحل سے مناسب ترتیب سے گزرنے پر منحصر ہے۔
درد مندی کا انحصار تیاگ پر بھی ہے، جس سے مراد ہمارے اپنے دکھ کی پہچان ہے، اس سے نجات پانے کا مصمم ارادہ، اور اس بات کا احساس کہ اور سب لوگ بھی ایسے ہی دکھی ہیں اور ان کے لئیے بھی یہی خواہش۔ تیاگ کا بالکل یہی مطلب ہے کہ – دکھ سے نجات پانے کا پکا عزم۔ درد مندی کا مطلب بھی ایسا ہی عزم ہے جو دوسروں کے دکھ سے تعلق رکھتا ہو، اس کا انحصار واضح طور پر ایسا عزم اپنے لئیے قائم کرنے پر ہے۔
پس اگر ہم اپنے مراقبہ سے درد مندی پیدا کرنا چاہتے ہیں، تو یہ محتاجی والی بات نہائت اہم ہے کیونکہ، اگرچہ بہت سارے پاٹھ اور مانوسیت سے با الآخر ہم اسے فوراً ہی پیدا کرنے کے اہل ہوں گے، مگر شروع شروع میں ہمیں درجہ بہ درجہ اپنے آپ کو اس مقام پر لانا ہو گا جہاں ہم اسے دل سے محسوس کر سکیں۔ پس درد مندی پر مراقبہ کرنے کی خاطر ہمیں مراحل اور وہ اسباب جن پر اس کا انحصار ہوگا کے بارے میں علم ہونا چاہئیے۔
سانگ خاپا مزید یہ کہتا ہے کہ ہمیں "پہلووں کا علم" ہونا چاہئیے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہم درد مندی پیدا کرنا چاہتے ہیں، تو ہمیں دکھ کے تمام پہلو اور دکھ کے اسباب کے تمام پہلووں کا علم ہونا چاہئیے، اگر ہم چاہتے ہیں کہ سب لوگ ان مصائب سے چھٹکارا پا لیں۔ اس کا مطلب محض ان کے لئیے کوئی ملازمت یا عمدہ طعام مہیا کرنا ہی نہیں ہے – ہم یہاں اس ہمہ گیر آزار جو اضطراری رو بہ اعادہ پنر جنم (سمسار) کا نتیجہ ہے، اور حقیقت کے متعلق نہائت بنیادی عدم آگہی اور الجھن جو سمساری وجود کو پیدا کرتی ہے اور اسے قائم رکھتی ہے کی بات کر رہے ہیں۔ پیار اور درد مندی پر مراقبہ کرنے کے لئیے، آپ بیٹھ کر بس یوں نہیں سوچتے، "واہ کیا بات ہے، میں سب سے پیار کرتا ہوں۔" ایسی بات نہائت مبہم ہو گی – من کی جو حالت ہم استوار کرنا چاہتے ہیں وہ بہت مخصوص ہے۔ سانگ خاپا ان سب باتوں کا ذکر کرتا ہے جو ہمیں من کی حالت جس کے ساتھ ہم کام کر رہے ہیں اس کو صاف صاف بیان کرنے میں مدد دیں گی۔
پھر جب ہم من کی مطلوبہ حالت استوار کر رہے ہوں تو یہ جاننا نہائت ضروری ہے کہ ہم کس چیز پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں۔ ہمارے من میں کیا آنا چاہئیے؟ درد مندی سے ہم دوسری ذی حس ہستیوں پر اور ان کے آلام پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں۔ اور یہ محض درد مندی ہی نہیں ہے بلکہ "عظیم درد مندی" ہے جس کا رخ سب کی جانب برابر ہے۔ اور یہ بے شمار ہستیوں سے تعلق رکھتا ہے – اس میں واقعی ہر کوئی شامل ہے۔ یہ ایک بہت بڑے پیمانے پر سوچنے کی بات ہے، "میں دنیا میں تمام حشرات الارض کی مدد کروں گا۔" ہم یہاں من کے ہر تسلسل کی بات کر رہے ہیں، جو اپنے کرموں کے باعث اب کیڑے مکوڑے بنے ہوئے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ ہمیشہ کیڑے ہی تھے – ہم اس ہستی کو جو اس زندگی کے دورانیہ میں ایک کیڑا ہے، مگر گزشتہ زندگی میں ہماری ماں تھی نروان دلائیں گے۔ اور ہم اسے جو اس زندگی میں ہماری ماں ہے بھی نروان دلائیں گے جو کہ گزشتہ زندگی میں شائد ایک کیڑا ہو۔
ہر ہستی کو تصور میں لانا آسان کام نہیں ہے لیکن مہایان بدھ مت کے وسیع النظر مسلک میں اپنے پاٹھ کے دوران ہم اپنے گرد ہستیوں کے ایک بہت بڑے ہجوم کا تصور کرتے ہیں، جہاں ہم سب کے دکھ درد کو مٹا رہے ہیں۔ مہایان سوتروں کے شروع میں، ہمارے گرد لاکھوں کروڑوں ہستیوں کے ہجوم کا ذکر ہے، جس سے پیمانے کے حجم کا اندازہ ہوتا ہے۔
اس قسم کی عالمگیر درد مندی سب کے لئیے برابر متحمل ہونے کا تصور نا قابل یقین ہے۔ اس کی بنیاد طمانیت پر ہے، جس میں ہم اپنے من کو سب کے لئیے کھول دیتے ہیں۔ درد مندی پر صحیح طور سے مراقبہ کرنے کی خاطر ہمیں ان سب باتوں کا علم ہونا ضروری ہے۔
اس کے علاوہ یہ بھی جاننا چاہئیے کہ جس چیز پر ہمارا ارتکاز ہے اس کا ہمارے من سے کیا تعلق ہے۔ اگر ہمارا مراقبہ درد مندی پر ہے تو ہماری خواہش یہ ہو گی کہ وہ مصائب سے مکتی پا لیں، اور ان کے دکھ کی تمام وجوہات نیست و نابود ہوں۔ یہ اس بات کی تمنا نہیں ہے کہ کوئی اور آ کر ان کی مدد کرے، یا یہ کہ مشکلات عمومی طور پر آسان ہو جائں، بلکہ ہم خود ان کی مصائب پر قابو پانے میں مدد کریں گے۔
تسانگ خاپا مزید کہتا ہے کہ ہمیں یہ جاننا چاہئیے کہ درد مندی استوار کرنے میں کون سی چیز مفید اور مدد گار ہو گی اور کون سی نقصان دہ۔ کون سی چیز نہ صرف درد مندی پیدا کرنے میں معاون ہو گی بلکہ وہ کون سی لازم شے ہے جس سے ہمیں یہ تیقن ملے گا کہ دکھ سے نجات پانا واقعی ممکن ہے۔ اگر ہم اسے نا ممکن تصور کریں تو پھر ہم کیسے اس کی تمنا کریں اور اس کے حصول کے لئیے کوشاں ہوں؟ اس کی بنیاد وہ پُر اعتماد یقین ہے کہ میں اپنے آلام سے نجات پا سکتا ہوں، اور میں دوسروں کو ان کے مسائل پر قابو پانے میں مدد کا اہل ہوں۔ اس کے لئیے ہمیں اپنی صلاحیتوں اور ایک بدھا کی صلاحیتوں کی حقیقت پسند فہم ہونی چاہئیے۔ پس ہمارے درد مندی استوار کرنے میں جو چیز ضرر رساں ہے وہ نہ صرف خود پسندی اور خود غرضی ہے بلکہ اس میں دل شکنی اور عدم اعتمادی بھی شامل ہیں۔ بہر حال، مہاتما بدھ نے بتایا کہ دکھ کو پاؤں سے کانٹا نکالنے کی طرح نہیں مٹایا جا سکتا۔ ایک بدھا بھی راہنمائی کر سکتا ہے مگر محنت طلب کام لوگوں کو خود کرنا ہے۔ ہم کیسے توقع کر سکتے ہیں کہ ہماری کار کردگی کسی بدھا سے بہتر ہو گی؟
قصہ مختصر، اگر ہم من کی کوئی خاص حالت استوار کرنے کے لوازمات سے واقف نہیں ہیں، جیسے کہ درد مندی، تو ہمیں کچھ خاص کامیابی نہیں ہو گی۔ اس طرح ہم اس بات کو سمجھنے لگتے ہیں کہ مراقبہ کس قدر درست اور ترقی یافتہ شے ہے؛ ہم اسے "من کی سائنس" بھی کہہ سکتے ہیں۔
مراقبہ کی نشستوں کا درمیانی وقفہ
تسانگ خاپا یہ بھی کہتا ہے کہ مراقبہ کی نشستوں کا درمیانی وقفہ بھی بہت اہم ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ جس چیز پر ہم مراقبہ کر رہے ہیں اس پر مختلف مقدس صحیفوں کو بھی پڑھیں۔ ایک طرف تو اس سے ہمارے کام کو تقویت ملے گی کہ ہم جو کر رہے ہیں مہاتما بدھ نے بھی یہی سکھلایا؛ اور دوسری طرف، ہمیں اس سے تحریک ملے گی یہ جان کر کہ عظیم گروں نے بھی یہی کچھ پایا۔ اس کے علاوہ، تسانگ خاپا کا کہنا ہے کہ ہمیں اپنی مثبت شکتی کو بڑھانا ہے اور تزکیہ نفس کے پاٹھ کے ذریعہ منفی شکتی سے نجات پانی ہے۔
میں "مثبت شکتی" کی اصطلاح کو "انعام کی مستحق خوبی" پر ترجیح دیتا ہوں جو کہ میرے خیال میں غلط تصور پیش کرتی ہے۔ "انعام کی مستحق خوبی" سے یہ تاثر ملتا ہے کہ جیسے آپ پوائنٹ جمع کر رہے ہیں اور جب آپ کی گنتی ایک سو ہو جائے گی تو آپ جیت جائں گے۔ ہم جو کام کر رہے ہیں وہ مثبت توانائی کی استواری ہے، جس میں آپ کسی چیز کے متحرک ہونے کے لئیے مطلوبہ توانائی پیدا کرتے ہیں، جیسے ایک سیل فون کی طرح۔ تو اپنے من کے معاملہ میں بھی ہمیں من کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو عبور کرنے کے لئیے تزکیہ کا پاٹھ کرنا ہے، جہاں آپ یہ محسوس کریں کہ آپ کے پلے کچھ نہیں پڑ رہا ہے۔ یہاں جذباتی رکاوٹیں بھی ہو سکتی ہیں۔ مثبت شکتی پیدا کرنے اور تزکیہ کے مختلف پاٹھ کرنے سے ہم ان رکاوٹوں کو توڑ سکتے ہیں تا کہ فہم اور ادراک حاصل کر سکیں۔
عملی سطح پر اس کا کیا مطلب ہے؟ عملی سطح پر اس سے مراد یہ ہے: کہ جب ہم کسی چیز کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہوں، خواہ اپنے کام پر ہی سہی، اور بات نہ بنے، تو بہتر ہو گا اگر ہم کچھ وقفہ کے لئیے رک جائں۔ ہم جا کر دوسروں کی کسی طرح سے مدد کرنے کی کوشش کریں۔ ایسا کرنے سے، جب ہم واپس اپنے کام کو لوٹتے ہیں تو عموماً ہمارے من کی حالت زیادہ مثبت اور متحرک ہوتی ہے، اور عزت نفس کے افزوں پذیر احساس کے ساتھ، نہ کہ شکست خوردہ حالت میں، ہم کسی چیز کو سمجھنے کی قدرے بہتر صلاحیت رکھتے ہیں۔ پس ہم کوئی بھی ہوں، ہم ایسا کوئی نہ کوئی کام ضرور کر سکتے ہیں جو دوسرے لوگوں کے لئیے سود مند ہو۔ یہ خواہ اپنے بچوں کے ساتھ زیادہ وقت گزاری ہو یا کسی بیمار رشتہ دار کی تیمار داری کے لئیے جانا ہو، خواہ کچھ بھی ہو۔ کوئی مثبت کام کرنا نہائت کار آمد ہے۔ اگرچہ بہت ساری رسومات بھی ہیں جن کی ادائیگی کی جا سکتی ہے مگر عملی زندگی کا کوئی کام کرنا زیادہ بہتر ہے۔
اپنی کار کردگی کا جائزہ لینا
ہم میں سے بیشتر کا کوئی نجی استاد نہیں ہوتا جو ہماری کار کردگی ماپ سکے۔ لیکن لوجانگ یا من کی تربیت کی تعلیمات کا کہنا ہے کہ ہم خود اپنے بہترین شاہد و ناقد ہیں۔ یہ سوال ہم نے اپنے آپ سے خود پوچھنا ہے کیا ہمارا ارتکاز پُر زور ہے یا نہیں، یا کیا ہمارا من آوارگی کا شکار ہے یا نہیں – اس کا جواب ہمیں کوئی دوسرا شخص نہیں دے سکتا! تمام تعلیمات اور پاٹھ کا مقصد ہماری جذباتی حالت اور اپنے آپ کو بہتر بنانا ہے۔ تو اس بات کا تعیّن ہم خود ہی کر سکتے ہیں کہ کیا ہم ابھی بھی غصہ میں آ جاتے ہیں یا اب ہم کم غصہ کرتے ہیں، وغیرہ۔
ایک اصول جو ہمیں یاد رکھنا ہے وہ یہ کہ زندگی میں نشیب و فراز آتا رہتا ہے اور کار کردگی کبھی بھی یک بُعدی نہیں ہوتی۔ یہ خود بہ خود ہی روز بہ روز بہتر نہیں ہوتی جاتی۔ جب تک کہ ہم نروان حاصل نہ کر لیں اس میں اونچ نیچ ہوتی رہے گی۔ خواہ ہم نے لمبا عرصہ پاٹھ کیا ہو اور عام طور پر غصہ میں نہ آتے ہوں، مگر پھر بھی کبھی کبھار غصہ میں آ سکتے ہیں۔ مگر یہ حوصلہ شکنی کا کوئی جواز نہیں۔ ایک طرف تو ہمیں اپنے آپ کو بہتر بنانے کے لئیے سخت محنت درکار ہے، اور دوسری طرف، اگر کوئی خطا ہو جائے تو اپنے آپ کو مجرم گرداننے اور سزا دینے سے گریز کرنا ہے۔ تقدس مآب دلائی لاما کا کہنا ہے کہ جب ہم اپنی کامیابی کی پیمائش کریں تو ہمیں پانچ برس کے دورانیہ کو مد نظر رکھنا چاہئیے نہ کہ ایک ہفتہ کو۔ اگر ہم یہ دیکھیں کہ آج کی نسبت پانچ برس قبل ہم معاملات کیسے نمٹاتے تھے تو پھر ہمیں اپنی ترقی کا صحیح اندازہ ہو گا۔
خلاصہ
مراقبہ کرنے کے لئیے کسی خاص جگہ کا میسر ہونا لازم نہیں، بس ایسی جگہ جو صاف ستھری اور پر سکون ہو، لیکن اگر یہ بھی میسر نہ ہو تو چلے گا۔ میری ایک دوست اپنی ماں کے ہمراہ ایک چھوٹے سے اپارٹمنٹ میں رہتی تھی۔ اس میں ایک ہی کمرہ تھا اور اس میں ماں کا ریڈیو اور ٹیلیوژن بھی تھا، اور اگر وہ مراقبہ یا ایسا کوئی کام کرنا چاہتی تو اس کی ماں ناراض ہو جاتی۔ اس کے لئیے ایک ہی راستہ تھا اور وہ ٹائلٹ کے استعمال کا دورانیہ تھا۔ تو وہاں وہ اپنا روزانہ کا پاٹھ کرتی اور اس میں کوئی حرج نہیں تھا۔ ہمیں موم بتیاں، اگر بتیاں وغیرہ جلانے کی ضرورت نہیں – وہ تو محض "اشیاء" ہیں۔ اصل چیز تو وہ ہے جو ہم اپنے من کے ساتھ کر رہے ہیں، اور مراقبہ کا مطلب من کی کسی خاص حالت پر ارتکاز ہے، جو کہ ہم کسی وقت کسی جگہ کر سکتے ہیں۔ من کی بعض حالتیں استوار کرنا اس وقت نسبتاً آسان ہوتا ہے جب ہم کسی سب وے یا بس میں سفر کر رہے ہوں۔ جب ہم صبر پیدا کرنا چاہیں، یہ جان کر کہ ہر کوئی مسرت کا تمنائی ہے اور عدم مسرت سے گریزاں ہے، تو اس کے لئیے ایک سواریوں سے بھری بس سے بہتر کونسی جگہ ہو سکتی ہے، بہ نسبت اس کے کہ ہم اپنے کمرے میں اکیلے بیٹھے لوگوں کو تصور میں لا رہے ہوں؟
مراقبہ کی ایک اہم بات یہ ہے کہ ہم اسے روزانہ باقاعدگی سے کرتے ہیں۔ جس طرح آپ اپنے دانت برش کرنا یا ٹائلٹ جانا نہیں بھولتے ایسے ہی آپ کو مراقبہ کرنا بھی نہیں بھولنا چاہئیے۔ ہمیں اسے اپنی زندگی میں باقاعدہ طور پر شامل کر لینا چاہئیے خواہ یہ پانچ منٹ روزانہ ہی کیوں نہ ہو۔ ہم خواہ کوئی بھی ہوں ہم صبح پانچ منٹ جلدی بیدار ہو سکتے ہیں تا کہ مراقبہ کے لئیے وقت نکال سکیں۔ یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہونا چاہئیے، بلکہ اس سے ہمیں بہت زیادہ استقامت ملتی ہے – خواہ دن کے دوران کیسے ہی ہیجان برپا ہوں، آپ کو ہمیشہ یہ وقت اپنی ذات کے لئیے مختص ملے گا جس سے آپ من کا تسلسل بر قرار رکھ سکیں۔