ڈارون کا نظریہ ارتقاء قدرتی چناؤ کے عمل کا جائزہ لیتا ہے اور یہ کہ انواع حیات کے طبعی اجسام وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کس طور تغیّر پذیر ہوتے ہیں۔ اس کی کتاب انواع حیات کا آغاز' میں مندرج بیان اس دور میں ملحد قرار دیا گیا، کیونکہ یہ نظریہ رائج الوقت تصور کہ ایک قادر مطلق خدا نے یہ دنیا اور اس کے اندر موجود تمام نا قابل تبدّل اشیاء تخلیق کیں کے متضاد تھا۔ آج بھی جبکہ بعض مذاہب میں نظریہ ارتقاء کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا، لیکن بدھ مت میں ایسی کوئی بات نہیں جو اس نظریہ سے متناقض ہو۔ در حقیقت، بودھی لوگوں کے مطابق یہ نظریہ بدھ مت کی دست نگر نمو کی تعلیمات سے مکمل مطابقت رکھتا ہے، نہ کہ نظریہ تخلیق سے، اور دھرم کے چار بڑے اصولوں میں سے اولین: یعنی عدم دوام۔ مظاہر قدرت بے شمار اسباب اور حالات کے زیر اثر ہر دم تغیّر پذیر ہیں، اور اگر انسان اور جانور اس عظیم تبدّل سے مستثنیٰ قرار پائں تو یہ بڑی اچنبھے کی بات ہو گی۔
اس کا مطلب یہ نہیں کہ بدھ مت کا وقت اور ارتقاء کا نظریہ ڈارون کے نظریہ پر منطبق ہے۔ ڈارون کا نظریہ حیاتیاتی اور طبیعاتی عناصر پر توجہ مرکوز کرتا ہے جن سے حسیت پیدا ہو سکتی ہے، اور اگرچہ حیاتی عناصر کے مزید تر پیچیدہ ہونے کے ہمراہ شعور میں اضافہ کا تصور موجود ہے، لیکن یہ اُتنی گہرائی میں نہیں جاتا جتنی میں مہاتما بدھ، جو شعور کی ارتقائی منازل، ایک معمولی حس سے لے کر ایک مہاتما بدھ کی روشن ضمیری تک، جاتا ہے۔ مزید بر آں، ڈارون انواع حیات کے مجموعی ارتقاء کی بات کرتا ہے جبکہ بدھ مت انفرادی شعور کی بات بھی کرتا ہے۔
مزید یہ کہ، ڈارون کے نظریہ ارتقاء میں متواتر "ترقی" کا تصور ہے – یعنی کہ، ہستیاں تواتر کے ساتھ مثبت راہ پر گامزن ہیں جو کہ ان کی بقاء اور نسلی افزائش کے لئیے موافق ہو۔ بدھ مت کا سبق یہ ہے کہ کوئی بھی ذی حس بہت ساری مختلف اشکال میں پنر جنم لے سکتی ہے، اور یہ سلسلہ یک طرفہ ترقی کا سلسلہ نہیں ہے۔ افراد اور پوری انواع حیات اپنے کرم، اسباب اور حالات کی مناسبت سے تنزل کا شکار بھی ہو سکتی ہیں۔ تو اگرچہ تفصیلات میں تفریق ممکن ہے مگر دونوں ہی ارتقاء کے قائل ہیں۔
عملِ ارتقاء اور کائنات کی تقسیم اجزاء
سائنسدانوں کے مطابق، بِگ بینگ – کائنات کا سرعت سے پھیلاؤ جو ۱۴ ارب سال قبل وقوع پذیر ہوا – وہاں سے وقت کی ابتدا ہوتی ہے اور ہمارے کرہ ارض کی بنیاد ہے جو ۴ ارب سال پہلے واقع ہوا۔ وقت کے ساتھ ساتھ ہائیڈروجن گیس مختلف ستاروں اور سیاروں میں ڈھل گئی اور یہ جو ہماری دھرتی ہے، اس پر واحد خلیہ کے حامل نامیہ وجود میں آئے۔ پھر یہ افزائش پذیر ہو کر مختلف انواع حیات جو ہم اپنے ارد گرد پاتے ہیں میں تبدیل ہو گئے۔ سائینسدان یہ بھی کہتے ہیں کہ اربوں سال کی افزائش اور ارتقاء کے بعد کائنات ختم ہو جائے گی ، اور یہ کیسے ہو گا اس کے متعلق وہ کئی نظریات پیش کرتے ہیں۔
مہاتما بدھ نے 'شروعات کا گیان' سوتر میں کائنات کے ارتقاء اور بالآخر اس کے حصے بخرے ہونے پر بحث کی ہے۔ اس میں وہ ہماری دھرتی پر ماحول کی تعمیر اور بالآخر تخریب کا بیان کرتا ہے، مزید یہ کہ مختلف انواع حیات کی نمو اور ان کی بالآخر نا پیدگی اور مختلف معاشروں کا ارتقاء اور ان کا خاتمہ بھی شامل ہیں۔ جدید سائنس اور بدھ مت کے درمیان البتہ ایک فرق ہے اور وہ یہ کہ مہاتما بدھ کا کہنا ہے کہ کائنات کی نمو، تسلسل، اور اختتام کئی ادوار میں سے محض ایک کا حصہ ہے، اور یہ کہ وقت کی کوئی ابتدا یا انتہا نہیں ہے۔ سوتر میں بیان ہے:
جلد یا بدیر، لمبا عرصہ گزرنے کے بعد، وسیتھا، یہ دنیا انتقال پذیر ہوتی ہے ۔۔۔ مگر جلد یا بدیر، ایک بہت لمبا عرصہ گزرنے کے بعد، یہ دنیا ارتقاء پذیر ہوتی ہے ۔۔۔۔ اس وقت، وسیتھا، پانی کی ایک انگھڑ مقدار کی شکل میں ہے، اور گھپ اندھیرا ہے۔ چاند اور سورج مستور ہیں، ستاروں کے جھرمٹ اور ستارے نا پید ہیں، دن اور رات عیاں نہیں ہیں، مہینے اور پندھرواڑے نظر سے اوجھل ہیں، موسموں کے ادوار اور سال پوشیدہ ہیں، نر اور مادہ بھی مستور ہیں۔ ہستیاں محض ہستیاں کہلاتی ہیں ۔۔۔۔۔۔
ہم دیکھتے ہیں کہ مہاتما بدھ صاف صاف الفاظ میں کائنات کے ادوار اور ہستیوں کی بات کرتا ہے۔ سوتر میں اجناس کی تخلیق اور معاشروں کی ترویج جن میں مختلف طبقات شامل ہیں کا ذکر جاری ہے۔ پھر یہ ماحول اور اس میں موجود ہستیوں کے تنزل اور معدوم ہونے کو بیان کرتا ہے۔
اس سوتر سے اور دست نگر نمو اور عدم دوام کے بودھی نظریات سے، ہم دیکھ سکتے ہیں کہ سائنس کا بگ بینگ کا نظریہ اور اس کے کائنات کے خاتمہ کے متعلق نظریات اور بودھی نظریات کے مابین کوئی تضاد نہیں ہے۔
اجسام کا ارتقاء
اب ہم ذرا قریب سے حیاتیاتی اجسام کا جائزہ لیتے ہیں۔ نظریہ ارتقاء اس بارے میں واضح طور پر بیان کرتا ہے کہ ہم سب ایک واحد نامیہ سے وجود میں آئے۔ ڈارون کے نظریہ کے مطابق ارتقاء بتدریج اور ترقی پذیر ہے – دوسرے لفظوں میں، ترقی پذیر ارتقاء کا میلان ایک فطری عمل ہے۔ یہاں ہم محض طبیعاتی بنیاد پر بات کر رہے ہیں، کیونکہ بدھ مت کے حساب سے کرہ ارض پر طبعی حیات اور پنر جنم پانے والی ہستیوں کے من کے چلار کے درمیان بہت بڑا فرق ہے۔
کسی زمانے میں زمین پر ڈائنا سور گھوما پھرا کرتے تھے، مگر اب وہ مفقود ہیں۔ تو ہم اب ڈائنا سور کی شکل میں دوبارہ جنم کیوں نہیں لے سکتے؟ سائینسی نظریات کے مطابق، کوئی ۶۶ ملین سال پہلے، ایک دہشت ناک واقعہ پیش آیا جو ڈائنا سوروں کی تباہی کا باعث بنا، مگر میمولئیے اس سے محفوظ رہے، (جیسے کہ ہم انسان)، جو کہ بعد میں پھلے پھولے۔ ڈارون کے نظریہ کے مطابق ڈائنا سور "موزوں ترین کی بقاء" کی دوڑ ہار گئے اور یوں ناپید ہو گئے۔
بودھی نقطہ نظر کے مطابق، کرمائی طاقتوں اور امکانات کی پختگی کے لئیے موزوں حالات کا ہونا لازم ہے۔ اس وقت اس کرہ ارض پر بطور ایک ڈائنا سور پنر جنم لینے کے حالات موجود ہی نہیں ہیں۔ اس کی بجائے ہمارے پاس اور بے شمار طبعی وجوہات موجود ہیں جو کہ پنر جنم کے لئیے مناسب ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی بدل سکتی ہیں۔ بے شک، اگر اس وقت کائنات میں کسی اور سیارے پر ڈائنا سور موجود ہیں، تو بدھ مت یہ ماننے کو تیار ہے کہ وہاں ہمارا پنر جنم ڈائنا سور کی شکل میں ہو سکتا ہے!
سائنس دانوں کے ساتھ ایک مبحث میں تقدس مآب دلائی لاما سے پوچھا گیا کہ کیا کمپیوٹر ذی شعور مخلوق بن سکتے ہیں: کیا کبھی ان کے بھی من ہو سکتے ہیں؟ انہوں نے دلچسپ جواب دیا، وہ کہنے لگے کہ اگر کوئی کمپیوٹر یا کوئی روباٹ اس قدر ترقی یافتہ ہو جائے کہ اس کے من کے چلار تشکیل پانے لگیں، تو اس کی کوئی وجہ نہیں کہ کوئی من کا چلار کسی غیر نامی مشین کے ساتھ اس کی کسی طبعی زندگی کی بنیاد کے طور پر رابطہ نہ کر پائے۔
اس کا مطلب یہ نہیں کہ کمپیوٹر ایک من کا مالک ہے۔ یہ بات بھی نہیں کہ ہم کسی کمپیوٹر میں مصنوعی طور پر من پیدا کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی کمپیوٹر کافی ترقی یافتہ ہو، تو من کا کوئی چلار اس کے ساتھ جوڑا جا سکتا ہے اور اس کی طبعی بنیاد بن سکتا ہے۔ یہ بات ڈارون سے بھی زیادہ حیران کن ہے۔
مہاتما بدھ نے ارتقاء کے متعلق اور کچھ کیوں نہیں بتایا؟
یہ جانتے ہوئے کہ مہاتما بدھ ایک ہمہ دان ہستی تھی – مکمل گیان پانے کے بعد، اسے ہر شے کا علم تھا – ہم یہ سوچ سکتے ہیں کہ اس نے کائنات کے نظام اور چیزوں کے ارتقاء کے بارے میں مزید معلومات کیوں نہیں دیں؟
عمومی طور پر، مہاتما بدھ کی ہر تعلیم کا مقصد ہمارے نجات اور روشن ضمیری پانے کو آسان بنانے سے منسلک ہے۔ پس، کائنات اور اس کے اندر موجود ہستیاں جن چکروں سے گزرتی ہیں، ان کو بیان کرنے کا مقصد یہ تھا کہ لوگ اس قیمتی زندگی جو پنر جنم کے توسط سے ملی ہے کی اہمیت کو محسوس کریں۔ اس کی کمیابی کی اہمیت اور اسے دوبارہ پانے کی مشکل کا احساس کرتے ہوئے لوگ اپنی موجودہ صورت حال سے بھر پور فائدہ اٹھانا چاہیں گے تا کہ اپنے روحانی ہدف پا سکیں۔ مہاتما بدھ اس دنیا میں ہمیں علم سماوات یا فلکیاتی طبیعات کا سبق پڑھانے نہیں آیا تھا۔
ایسے معاملات جو اس ہدف سے غیر منسلک ہوں ان پر غور و خوض محض وقت اور توانائی کا ضیاع ہے۔ خاص طور پر ایسے موقع پر کائنات اور اس میں ذی حس مخلوق کے تعدد پر سوچ بچار کرنا جب ہمارے من الجھن اور پریشان کن جذبات کا شکار ہوں – خصوصاً جب ان کے بارے میں ہمارے اعتقادات غلط معلومات پر قائم ہوں – اس سے محض ہم اپنے مکش اور دوسروں کی مدد کے ہدف سے بھٹک جائں گے۔ ہو سکتا ہے کہ ہم مزید الجھن کا شکار ہو جائں۔
مہاتما بدھ کی زندگی کے کئی ایک واقعات اس بات کی وضاحت کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، مہاتما بدھ سے سوال کیا گیا کہ کیا کائنات کو دوام حاصل ہے، اور یہ کہ مرنے کے بعد کیا نفس کا وجود قائم رہتا ہے۔ ایسے سب معاملات میں مہاتما بدھ نے خاموشی اختیار کی، اور کوئی جواب نہ دیا۔ آخر کار مہاتما بدھ نے کہا کہ جب لوگ الجھن کا شکار ہوں اور نظریہ تخلیق اور ایک تخلیق شدہ غیر متبدل روح پر ایمان رکھتے ہوں، تو اس کا کوئی بھی جواب ان کی الجھن میں اضافہ کا باعث ہو گا۔ اگر تخلیق شدہ، دوام کی حامل روح نام کی کوئی شے وجود ہی نہیں رکھتی، تو اس قسم کا سوال کہ ایسی روحوں کا تعدد محدود ہے یا لا متناہی ہے بیکار ہے۔
یہ بذات خود بڑی عقل کی بات ہے۔ کیا کائنات کا سائز یا اس میں ہستیوں کی تعداد جان لینے سے – خواہ ہمارے پاس اس کے متعلق درست معلومات موجود ہوں بھی کہ ان کا وجود کیسا ہے – ہمیں اپنےمسائل اور دکھ درد دور کرنے میں مدد ملے گی؟ کیا اس سے دیگر ہستیوں کی مدد کرنا آسان ہو جائے گا؟ مہاتما بدھ نے کہا کہ ایسے مسائل حل کرنے سے قبل ہی ہماری موت آ جائے گی، اور ہم اپنی قیمتی زندگی کو ضائع کر دیں گے۔ اس قسم کی قیاس آرائی خواہ وہ شائد باعث تفریح ہو، ہمیں کوئی فائدہ نہیں پہنچاتی۔ جو بات اہم ہے وہ یہ کہ اپنی موجودہ صورت حال کی حقیقت کو سمجھنا اور ان نایاب عمدہ مواقع جو میسر ہیں سے فائدہ اٹھانا۔ اس بات کی فہم کہ ہم سچ مچ سمسار میں ہیں، لیکن ایک قابل قدر من اور شریر کے مالک ہیں، تو ان سے ہم آلام پر قابو پا سکتے ہیں اور دوسروں کی مدد کر سکتے ہیں۔ ہم ان طریقوں کی مشق کر سکتے ہیں جن سے ہمیں مکمل روشن ضمیری ملے۔ اور، جب ہم وہاں جا پہنچیں، تو شائد ہمیں ان سب لا ینحل سوالوں کے جواب مل جائں۔