آریہ دیو سری لنکا میں ایک شاہی خاندان میں پیدا ہوا، اور دوسری صدی عیسوی کے وسط اور تیسری صدی عیسوی کے وسط کے درمیانی زمانہ میں با حیات رہا۔ بعض روائیتوں کے مطابق وہ ایک کنول کے پھول سے پیدا ہوا۔ کم سنی میں ہی وہ بودھی بھکشو بن گیا۔ وہاں اس نے جنوبی بھارت جانے سے پہلے بودھی صحائف، 'تریپیتاکا' کا گہرا مطالعہ کیا تا کہ وہ شاہ اودھے بھدرا کی شاتا وہانا راج دھانی میں جا کر ناگرجونا کے ساتھ مطالعہ کر سکے۔ شاہ اودھے بھدرا کو ناگرجونا کا 'دوست کے نام خط' اور 'قیمتی ہار' عطا ہوا تھا۔ آریہ دیو ناگرجونا کے ہمراہ ہو لیا اور اس کے ساتھ شری پرواتا کے مقدس پہاڑ جو دور جدید کی ناگرجونا کونڈا وادی کے اوپر آندھر پردیش میں شاتا وہانا راج دھانی میں واقع ہے پر مطالعہ جاری رکھا۔
اس وقت مترچیتا، شوا کا ایک مرید، نالندا میں سب کو مناظرے میں ہرا رہا تھا۔ آریہ دیو چیلنج قبول کرنے وہاں گیا۔ راستے میں اس کی ملاقات ایک عورت سے ہوئی جو غیرمعمولی شکتی حاصل کرنے کی کوشش کر رہی تھی، اور اس مقصد کے لئیے اسے کسی عالم فاضل بھکشو کی آنکھ کی ضرورت تھی۔ درد مندی کے زیر اثر اس نے اسے اپنی ایک آنکھ دے دی، لیکن آنکھ لینے کے بعد اس عورت نے اُسے پتھر مار کر پاش پاش کر دیا۔ اس کے بعد سے آریہ دیو ایک آنکھ والا کے طور پر پہچانا جاتا تھا۔ آریہ دیو نے مترچیتا کو مناظرہ اور خصوصی قوت دونوں میں شکست دی، اور اس کے بعد مترچیتا اس کا چیلا بن گیا۔
آریہ دیو نے کئی برس نالندا میں قیام کیا۔ زندگی کے آخری سالوں میں، تاہم، وہ ناگرجونا کے پاس واپس گیا جس نے مرنے سے پہلے اپنی تمام تعلیمات اس کو سونپ دیں۔ آریہ دیو نے جنوبی بھارت میں کئی آشرم تعمیر کئیے اور وہاں بہت درس دئیے، اور مہایانا مسلک کی بنیاد ڈالی، خصوصاً مدھیا مک عقائد ہمراہ اس کی تصنیف، 'چار سو اشلوک پر مشتمل بودھی ستوا یوگا حرکات پر مقالہ' لکھا۔ اسے اختصار کے ساتھ چار سو یا چار سو اشلوک کا مقالہ کہتے ہیں۔ ناگر جونا کی مانند آریہ دیو نے بھی 'گوہیا سماج تنتر' پر تبصرے لکھے۔
تصویری ذریعہ: himalayanart.org