سوال: کیا میں کسی ایسے شخص کا تسلسل ہوں جو کہ پہلے زندگی گزار چکا ہے؟ کیا پنر جنم کا بودھی نظریہ ما بعد الطبیعیاتی ہے یا سائنسی؟ آپ نے کہا تھا کہ بدھ مت عاقلانہ اور سائنسی ہے، کیا یہ پنر جنم کے بارہ میں بھی درست ہے؟
یہاں پر چند مختلف نکات ہیں۔ پہلا یہ کہ ہم کسی چیز کو سائنسی طور پر کیسے ثابت کرتے ہیں؟ اس سے یہ سوال نکلتا ہے کہ ہم کسی بھی چیز کو معتبر طور پر کیسے جانتے ہیں؟ بودھی تعلیمات کے مطابق اس کے دو طریقہ ہیں: صاف ادراک اور استدلال۔ کسی تجربہ گاہ میں تجربہ کر کے ہم کسی چیز کے وجود کا صاف ادراک کر سکتے ہیں، ہم اسے اپنے حواس کے ذریعہ جان سکتے ہیں۔ لیکن کچھ چیزیں صاف ادراک سے نہیں جانی جا سکتیں اور نتیجتاً ہمیں منطق، عقل اور استدلال پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ پنر جنم کو صاف حسی ادراک سے ثابت کرنا بہت مشکل ہے۔ اگرچہ ھندوستان میں ایک قدیم بودھی استاد کی کہانی موجود ہے جس نے ایک بادشاہ پر پنر جنم ثابت کرنے کے لیے وفات پائی، دوسرا جنم لیا اور پھر کہا کہ "لو میں یہاں موجود ہوں"۔ اسی طرح بہت سے لوگوں کی مثالیں موجود ہیں جو کہ اپنی گزشتہ زندگیاں یاد رکھتے ہیں اور جو یا تو اپنی ذاتی ملکیت اور یا پھر ان لوگوں کی نشاندہی کر سکتے ہیں کہ جنہیں وہ جانتے تھے۔
لیکن ان کہانیوں کو چھوڑتے ہوئے پنر جنم کی منطق بھی موجود ہے۔ عزت مآب دلائی لامہ نے فرمایا ہے کہ اگر کچھ نکات حقیقت سے مطابقت نہیں رکھتے تو وہ انہیں بدھ مت سے نکالنے کو تیار ہیں۔ اس کا اطلاق پنر جنم پر بھی ہوتا ہے۔ در حقیقت انہوں نے یہ اسی سیاق و سباق میں فرمایا تھا۔ اگر سائنسدان یہ ثابت کر دیتے ہیں کہ پنر جنم نہیںہوتا تو پھر ہم پر لازم ہے کہ ہم اس کی صداقت پر ایمان نہ رکھیں۔ تاہم اگر سائنسدان اسے باطل ثابت نہیں کر سکتے، تو پھر کیونکہ وہ ایک منطقی اور سائنسی روش پر چلتے ہیں جو کہ نئی چیزوں کو سمجھنے کا در کھلا رکھتی ہے اس لیے انہیں چاہیے کہ وہ اس امر کی تحقیق کریں کہ کیا اس کا واقعی وجود ہے۔ یہ ثابت کرنے کے لیے کہ پنر جنم کا وجود نہیں، انہیں اس کے عدم وجود کو پانا پڑے گا۔ محض یہ کہنے سے کہ "پنر جنم کا وجود نہیں ہے کیونکہ میں اسے اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ سکتا" اس کا عدم وجود ثابت نہیں ہوتا۔ ایسی بہت سی چیزیں وجود رکھتی ہیں کہ جنہیں ہم اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ سکتے۔
اگر سائنسدان پنر جنم کا عدم وجود ثابت نہیں کر سکتے تو پھر انہیں چاہیے کہ وہ اس امر کی تحقیق کریں کہ کیا پنر جنم کا واقعی وجود ہے۔ سائنسی طریقہ یہ ہے کہ کچھ حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے ایک منطقی قیاس کیا جائے اور پھر اس کا تجربہ کر کے دیکھا جائے کہ کیا وہ درست ہے۔ پس ہم حقائق کو دیکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر ہم دیکھتے ہیں کہ بچے خالی کیسٹوں کی مانند نہیں پیدا ہوتے بلکہ بہت اوائل عمری میں بھی ان کی کچھ مخصوص عادات اور شخصی خصوصیات واضح ہوتی ہیں تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کہاں سے آتی ہیں۔
یہ کہنا نامعقول ہے کہ یہ محض والدین کے مادی مواد کا تسلسل ہیں یا پھر یہ کہ یہ نطفہ اور تخم سے آتی ہیں۔ ہر نطفہ اور تخم کہ جن کا ملاپ ہوتا ہے، رحم میں نصب ہو کر جنین نہیں بنتے۔ ان کے بچہ بننے اور نہ بننے میں فرق کہاں سے آتا ہے؟ ایک بچہ کی عادات اور جبلت کہاں سے آتی ہیں؟ ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ ڈی ان اے اور مورثہ سے آتے ہیں۔ یہ ان کا مادی پہلو ہے۔ کوئی اس بات کا انکار نہیں کر سکتا کہ ایک بچہ کی تخلیق کا یہ مادی پہلو ہے، لیکن تجربی پہلو کہاں ہے؟ ذہن کہاں سے آتا ہے؟
ذہن کے لیے انگریزی لفظ کا عین وہ مطلب نہیں جو کہ ان تبتی اور سنسکرت اصطلاحات کا ہے جن کا یہ ترجمہ کرتا ہے۔ ان زبانوں میں ذہن سے مراد ذہنی فعالیت اور ذہنی حوادث ہیں نہ کہ کوئی چیز جو کہ انہیں سر انجام دیتی ہے۔ یہ فعالیت یا حادثہ مخصوص چیزوں کا ادراکی ابھار ہے مثلاً خیالات، مناظر، آوازیں، جذبات وغیرہ اور ان کے ساتھ ایک ادراکی وابستگی یعنی کہ انہیں دیکھنا، سننا، سمجھنا یا نہ سمجھنا۔ ذہن کی ان دو امتیازی خصوصیتوں کا ترجمہ عموماً بطور "شفافیت" اور "آگاہی" کیا جاتا ہے لیکن یہ انگریزی الفاظ بھی گمراہ کن ہیں۔
تو پھر ایک شخص میں یہ ابھرنے اور ادراکی اہداف سے تعلق کی ذہنی فعالیت کہاں سے آتی ہے؟ یہاں ہم یہ نہیں کہ رہے کہ جسم کہاں سے آتا ہے کیونکہ وہ تو ظاہر ہے والدین سے آتا ہے۔ اور نہ ہی ہم عقلمندی وغیرہ کی بات کر رہے ہیں کیونکہ اس کے بارہ میں بھی کہا جا سکتا ہے کے اس کی جینیاتی بنیاد ہے۔ تاہم یہ کہنا کہ کسی شخص کا مثلاً چاکلیٹ کے لیے میل اور آمادگی اس کے والدین کے مورثہ سے ہے، خاصا بعید از قیاس ہے۔
ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ ہمارے کچھ شوق ہمارے خاندان کے زیر اثر پیدا ہوتے ہیں یا پھر ان معاشی اور معاشرتی حالات کے کہ جن کے تحت ہم رہ رہے ہوتے ہیں۔ یہ عوامل ضرور اثر کرتے ہیں تاہم ہر چیز کو ان عوامل کا اثر نہیں گردانا جا سکتا۔ مثلاً میرے بچپن میں مجھے یوگا کا شوق کیوں ہوا؟ میرے خاندان یا میرے ارد گرد معاشرہ میں کسی کو یہ شوق نہیں تھا۔ میرے علاقہ میں اس موضوع پر کچھ کتابیں ضرور مہیا تھیں لہذا آپ کہ سکتے ہیں کہ معاشرہ کا کچھ اثر تھا، لیکن مجھے ہاتھا یوگا کی مخصوص کتاب میں کیوں دلچسپی ہوئی اور میں نے اسے کیوں اٹھایا؟ یہ ایک اور سوال ہے۔
لیکن ان سب چیزوں سے قطع نظر ہم اہم سوال کی جانب لوٹتے ہیں یعنی ادراکی اہداف کے ابھرنے کی ذہنی فعالیت اور ان سے ادراکی وابستگی کہاں سے آتی ہے؟ ادراک کی صلاحیت کہاں سے آتی ہے؟ زندگی کا شرارہ کہاں سے جلتا ہے؟ایک نطفہ اور تخم کے اختلاط میں زندگی کہاں سے پیدا ہوتی ہے؟ اس کو کیا چیز انسان بناتی ہے؟ خیالات اور مناظر کے ابھرنے کی صلاحیت کون دیتا ہے اور ان کے ساتھ ادراکی وابستگی کی جو کہ دماغ کی کیمیائی اور برقی نشاط کا تجربیپہلو ہے۔
یہ کہنا مشکل ہے کہ ایک نو زائیدہ بچہ کی ذہنی نشاط اس کے والدین سے آتی ہے کیونکہ پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ کیسے آتی ہے؟ اس کا کوئی طریقہ کار ہونا چاہیے۔ کیا زندگی کا شرارہ کہ جس کی خصوصیت اشیا سے آگہی ہے، والدین سے آتا ہے اور اسی طرح سے جس طرح نطفہ اور تخم آتے ہیں؟ کیا یہ جماع کی مستی کے وقت آتا ہے یا تخم ریزی کے ساتھ؟ اگر ہم اس چیز کی کوئی منطقی اور سائنسی نشاندہی نہیں کر سکتے کہ یہ والدین سے کب آتا ہے تو پھر ہمیں کوئی اور حل ڈھونڈنا چاہیے۔
محض منطقی نقطہ نظر سے ہم دیکھ سکتے ہیں کہ فعلی مظاہر اپنے ہی تسلسل سے واقع ہوتے ہیں، اپنی ہی نوعیت کے مظاہر کے گزشتہ لمحات سے۔ مثلاً ایک طبعی مظہر چاہے وہ مادہ ہو یا توانائی، اسی مادہ یا توانائی کے گزشتہ لمحات سے آتا ہے۔ یہ ایک تسلسل ہے۔
غصہ کی مثال لیجیے۔ ایک پہلو سے تو جب ہم غصہ ہوتے ہیں تو ہم ایک مادی توانائی کا احساس کر سکتے ہیں۔ لیکن غصہ محسوس کرنے کی ذہنی نشاط پر غور کریں یعنی اس جذبہ کے ابھرنے اور اس کی شعوری یا غیر شعوری آگاہی پر۔ ایک شخص کا غصہ ہونے کا تجربہ اس کی زندگی کے گزشتہ لمحات سے وابستہ ہے لیکن اس سے قبل وہ کہاں سے آیا؟ یا تو یہ اس کے والدین سے آیا اور اس کی آمد کی شرح کا کوئی طریق کار نہیں اور یا پھر یہ ایک تخلیق کنندہ خدا سے آیا۔ تاہم کچھ لوگوں کے لیے اس امر کی شرح کہ ایک قادر مطلق خدا کس طرح تخلیق کرتا ہے، منطقی طور پر غیر موافق ہے۔ ان مشکلات سے گریز کرنے کے لیے متبادل نظریہ یہ ہے کہ کسی بھی شخص کی زندگی میں غصہ کا پہلا لمحہ اپنے تسلسل کے گزشتہ لمحہ سے آیا۔پنر جنم کا نظریہ یہی کہتا ہے۔
ہم پنر جنم کو ایک فلم کی تمثیل سے سمجھنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ جیسا کہ ایک فلم متعدد فلمی فریموں کا تسلسل ہے، ہمارے ذہنی تسلسل یا ذہنی روشیں بھی ایک زندگی میں یا ایک سے دوسری زندگی میں مظاہر کی آگہی کے ہر لحظہ بدلتے ہوئے لمحات کا تسلسل ہیں۔ یہ کوئی جامد، قابل دریافت وجود مثلاً "میں" یا "میرا ذہن" نہیں جو کہ دوبارہ پیدا ہو۔ پنر جنم ایک ایسے مجسمہ کی تمثیل نہیں جو کہ ایک برقی پٹی پر بیٹھا ایک زندگی سے دوسری میں جا رہا ہو۔ بلکہ یہ ایک فلم کی طرح ہے یعنی ایک چیز جو کہ مسلسل بدل رہی ہے۔ ہر فریم پچھلے سے مختلف ہے لیکن اسی کا تسلسل ہے یعنی ہر فریم اگلے سے وابستہ ہے۔ اسی طرح مظاہر سے آگہی کے لمحات کا ایک مسلسل بدلتا ہوا تسلسل ہے اگرچہ ان میں سے کچھ لمحات غیر شعوری ہیں۔ مزید از آن، جس طرح تمام فلمیں ایک ہی فلم نہیں اگرچہ وہ سب فلمیں ہی ہیں، اسی طرح سب ذہنی تسلسل یا "ذہن" ایک ہی ذہن نہیں بلکہ مظاہر سے آگاہی کے تسلسل کی لاتعداد انفرادی روشیں ہیں۔
یہ وہ دلائل ہیں کہ جن سے ہم ایک منطقی اور سائنسی نقطہ نظر سے تفتیش کر سکتے ہیں۔ اگر ایک نظریہ منطقی طور پر درست لگے تو پھر ہم اس بات کو سنجیدہ طور پر لے سکتے ہیں کہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ انہیں اپنی گزشتہ زندگیاں یاد ہیں۔ اس طرح سے ہم پنر جنم کے وجود کی ایک سائنسی نقطہ نظر سے تحقیق کر سکتے ہیں۔
مختلف رجحانات کو ذہن میں کیسے ذخیرہ کیا جاتا ہے اور وہ کیسے ابھرتے ہیں؟
یہ خاصا پیچیدہ امر ہے۔ جب ہم ایک مخصوص فعل انجام دیتے ہیں، مثلاً جب ہم سگرٹ پیتے ہیں تو کیونکہ اس میں توانائی کا استمعال ہوتا ہے تو یہ فعل ایک اور سگرٹ پینے کا امکان یا طاقت بن جاتا ہے۔ توانائی کی ایک مجموعی قسم ہے جو کہ فعل کے اختتام کے ساتھ ہی ختم ہو جاتی ہے۔ لیکن توانائی کی ایک لطیف قسم بھی ہے جو کہ اس فعل کے دوبارہ کرنے کی مخفی توانائی ہے۔ سگرٹ پینے کے امکان کی مخفی توانائی اس لطیف ترین توانائی میں شامل ہو جاتی ہے جو کہ لطیف ترین ذہن کے ہمراہ ہوتی ہے جو کہ ایک جنم سے دوسرے میں جاتا ہے۔ سادہ الفاظ میں لطیف ترین ذہن سے مراد شفافیت اور آگاہی کی نشاط کی لطیف ترین سطح ہے جبکہ لطیف ترین توانائی سے مراد وہ بہت ہی لطیف زندگی کا سہارا توانائی ہے جو کہ اس نشاط کوسہارا دیتی ہے۔ باہم، یہ دونوں اس چیز کو تشکیل دیتی ہیں کہ جسے ہم 'زندگی کا شرارہ' کہتے ہیں۔ یہ دونوں ایک جنم سے دوسرے میں جاتی ہیں اور کرمی امکانات زندگی کے شرارہ کے ہمراہ جاتے ہیں۔
عادات و اطوار بھی ہمراہ جاتے ہیں لیکن وہ کوئی مادی چیز نہیں ہوتے۔ ایک عادت کس چیز کا نام ہے؟ مثلاً ہم میں چائے پینے کی عادت ہے، ہم نے آج صبح چائے پی تھی اور گزشتہ روز بھی اور اس سے قبل بھی۔ یہ عادت ایک مادی چائے کی پیالی کا نام نہیں ہے، یہ ہمارا ذہن نہیں جو کہہ رہا ہو "چائے پیو" بلکہ یہ ایک مشابہ واقعات کا تسلسل ہے یعنی بار بار چائے پینا۔ اس تسلسل کی بنیاد پر ہم یہ کہ سکتے ہیں یا 'الزام دھر' سکتے ہیں کہ ایک چائے پینے کی عادت موجود ہے۔ ہم اس تسلسل کا نام چائے پینے کی عادت رکھتے ہیں۔ ایک عادت محض ایک مادی چیز نہیں ہوتی بلکہ ایک تجریدی چیز ہوتی ہے جسے کہ مشابہ واقعات کے تسلسل کی بنا پر عادت کا نام دیا جاتا ہے۔ اس پر بنا کر کے ہم پیشگوئی کر سکتے ہیں کہ یہ امر دوبارہ مستقبل میں بھی واقع ہو گا۔
اسی طرح جب ہم کہتے ہیں کہ عادات و اطوار و جبلت مستقبل میں جاری رہتے ہیں تو یہ کوئی مادی چیز نہیں ہوتی جو کہ جاری ہو لیکن ایک ذہنی تسلسل کے لمحات کی بنا پر ہم کہتے ہیں اس وقت اور اُس وقت یہ واقع ہوا تھا لہذا مستقبل میں بھی ہو دوبارہ ہو گا۔