لم –رم کیا چیز ہے اور اسے مہاتما بدھ کی تعلیمات سے کیسے اخذ کیا گیا؟
بتدریج راہ ، 'لم –رم'، وہ طریقہ ہے جس سے ہم بنیادی بودھی تعلیمات کو سمجھتے ہیں اور انہیں اپنی زندگیوں میں شامل کرتے ہیں۔ مہاتما بدھ آج سے ۲،۵۰۰ برس قبل گزرا، پہلے وہ بھکشو مردوں کے ساتھ رہا، اور بعد میں اس نے بھکشو خواتین کے ساتھ زندگی گزاری۔ اس نے نہ صرف منصب رسید برادریوں کو تعلیم دی بلکہ اکثر لوگ اسے اپنے گھروں میں مدعو کرتے جہاں پہلے کھانا پیش کیا جاتا اور بعد میں وہ لیکچر دیتا۔
مہاتما بدھ ہمیشہ سکھانے کے نہائت "ماہرانہ طریقے" استعمال میں لاتا جس سے مراد اس کا سکھلانے کا ایسا طریقہ ہے جس سے کہ لوگ بات کو سمجھ سکیں۔ یہ اس لئیے ضروری تھا کہ لوگوں کے اندر فہم و فراست اور روحانی پختگی کے بہت سے مختلف درجات پاۓ جاتے تھے اور آج بھی پاۓ جاتے ہیں۔ اس سے مہاتما بدھ کو مختلف موضوعات اور مختلف سطحوں پر درس دینے کی ضرورت محسوس ہوئی۔
مہاتما بدھ کے بہت سارے پیروکاروں کی یاد داشت زبردست تھی۔ اس زمانے میں لکھنے کا رواج نہیں تھا اور بھکشو لوگ ودیا کو زبانی یاد کرتے تا کہ اسے آنے والی نسلوں تک پہنچایا جا سکے۔ آخر کار شکشا کو لکھا جانے لگا اور انہیں سوتر کا نام دیا گیا۔ اس کے صدیوں بعد بہت سارے عظیم ہندی علما نے اس مواد کو مرتب کرنے کی کوشش کی اور اس پر تبصرے لکھے۔ اتیشا، ایک ہندی گرو جو تبت بھی گیا، نے گیارھویں صدی میں اس کا نقش اول 'لم –رم' تیار کیا۔
اتیشا کے اس مثالی نمونہ نے ایک ایسا طریقہ بیان کیا جس پر چل کر ہر کوئی مہاتما بدھ کے درجہ تک پہنچ سکتا ہے۔ سوتروں کا محض سرسری مطالعہ کرنے سے ہمیں صحیح روحانی راہ کا اندازہ نہیں ہوتا کہ اسے کہاں سے شروع کیا جاۓ اور کس طرح روشن ضمیری حاصل کی جاۓ۔ ویسے تو تمام مواد موجود ہے مگر اسے منظم کرنا آسان کام نہیں ہے۔
یہ وہ کام ہے جسے 'لم –رم' کرتا ہے، یعنی مواد کو درجات کی ترتیب سے پیش کرنا۔ اتیشا کے بعد تبت میں اور بہت سارے تفصیلی روپ وجود میں آۓ ہیں۔ یہاں ہم اس روپ کا جائزہ لیں گے جسے تسانگ خاپا نے پندھرویں صدی میں تشکیل دیا جو کہ غالباّ اس مواد کی مفصل ترین شکل ہے۔ تسانگ خاپا کے کام کی یہ ایک ممتاز خوبی ہے کہ اس میں سوتروں اور ہندی تبصروں سے حوالے شامل کئیے گئے ہیں، تا کہ ہم وثوق سے کہہ سکیں کہ اس نے اپنی طرف سے اس میں کچھ شامل نہیں کیا۔
اس کا ایک اور ممتاز پہلو یہ ہے کہ تسانگ خاپا تمام نکات کی نہائت مفصل، منطقی توضیح پیش کرتا ہے، تا کہ ہم تعلیمات کی سچائی کے متعلق منطق اور دلیل کی بنیاد پر مزید تیقن حاصل کر سکیں۔ تسانگ خاپا کا ایک خصوصی عنصر یہ ہے کہ گزشتہ مصنفوں کے برعکس جو مشکل مضامین کو نظر انداز کر دیتے تھے، وہ ان پر زیادہ توجہ مرکوز کرتا ہے۔
بدھ مت کے چار پنتھوں میں سے ایک جسے "گیلوگپا" کہتے ہیں وہ تسانگ خاپا سے منسوب ہے۔
روحانی راہ سے کیا مراد ہے، اور اسے کیسے تشکیل دیا جاۓ؟
اصل سوال یہ ہے کہ ایک روحانی راہ کیسے تشکیل دی جاۓ؟ ہندوستان میں اس کے کئی ایک طریقے سکھاۓ جاتے تھے۔ مثال کے طور پر، مہاتما بدھ کے دور میں، ہند کے تمام دھرموں میں ارتکاز استوار کرنے کے طریقے عام تھے۔ یہ کوئی ایسی نئی چیز نہیں تھی جو اس نے دریافت کی یا تشکیل دی۔ اس بات پر سب متفق تھے کہ اپنے آپ کو بہتر بنانے کے سلسلہ میں ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ ہم کس طرح ارتکاز اور دیگر تمام عناصر کو اپنے روحانی مسلک میں کام میں لا سکتے ہیں۔
مہاتما بدھ کے ہاں، فطری طور پر، ہماری روحانی ترقی کے حصول کے مختلف پہلوؤں کو سمجھنے کے مختلف تشریحی بیانات موجود تھے، لیکن جو بات خاص طور پر قابل توجہ ہے وہ اس کی روحانی ہدف کی فہم ہے۔ ان روحانی اہداف کا بنیادی اصول، اور مختلف درجات میں کیا درکار ہے، وہ ہے ہماری ترغیب۔ اس مواد کو 'لم-رم' پکارا جاتا ہے، جس میں "لم" سے مراد ہے "راہ،" اور "رم" سے مراد اس راہ کی بتدریج منازل ہیں۔ یہ راہ من کی وہ حالتیں ہیں جنہیں ہم نے درجہ بہ درجہ استوار کرنا ہے تا کہ ہم اپنے ہدف تک پہنچ سکیں۔ یہ ایسا ہی ہے کہ جب ہم سفر کرتے ہیں؛ اگر ہم خشکی کے راستہ رومانیہ سے بھارت جانا چاہتے ہیں، تو ہماری منزلِ مقصود بھارت ہے۔ لیکن بھارت پہنچنے سے قبل ہمیں ترکی، ایران وغیرہ سے گزرنا ہو گا۔
روحانی ترغیب: اپنی زندگی میں مقصد کی شمولیت
'لم –رم' میں جو چیز بتدریج ہے وہ ہے ہماری ترغیب، جو بودھی نظریات کے مطابق دو حصوں پر مشتمل شے ہے۔ ترغیب کا تعلق ہمارے ہدف سے ہوتا ہے معہ اس جذبہ کے جو ہمیں اس ہدف کو پانے کی ترغیب دیتا ہے۔ بلکہ یوں کہنا زیادہ درست ہو گا، کہ ہمارے پاس کسی منزل تک پہنچنے کی عقلی دلیل ہوتی ہے مع اس جذبہ کے جو ہمیں اس منزل کی جانب رغبت دلاتا ہے۔
یہ طریق کار ہماری روز مرہ زندگی سے عین مناسبت رکھتا ہے؛ ہم زندگی کے مختلف مراحل میں مختلف ہدف قائم کرتے ہیں۔ مثلاً، ہم تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں، یا زندگی کا ساتھی تلاش کرنا چاہتے ہیں، یا کوئی اچھی ملازمت چاہتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ اس میں مثبت جذبات بھی شامل ہو سکتے ہیں اور منفی بھی، یہ تفریق ایک سے دوسرے شخص میں پائی جاتی ہے۔ بہر حال، بتدریج ترغیبوں کا یہ بیان ایک ایسی شے ہے جس کا اطلاق ہماری روز مرہ زندگی میں ہوتا ہے۔
یہ بات روحانی وجدان کے معاملہ میں بھی سچ ہے۔ یہ من کی ایسی حالتیں ہیں جنہیں ہماری روز مرہ زندگی سے مکمل نسبت ہے۔ ہم اپنی زندگی کے ساتھ کیا کر رہے ہیں؟ تو یہ "دنیاوی سطح" ہے جس میں ہمارا خاندان، ہماری ملازمت وغیرہ شامل ہیں۔ ہم روحانی سطح پر کیا کر رہے ہیں؟ اس سے ہمارے بود و باش پر اثر پڑتا ہے۔ یہ امر نہائت اہم ہے کہ ان دو عناصر کے مابین نہ تو تضاد ہو اور نہ ہی تنقیض، بلکہ دونوں میں باہم ارتباط ہو۔
نہ صرف یہ کہ ان میں ارتباط ہو بلکہ دونوں ایک دوسرے کے معاون ہوں۔ ہماری روحانی زندگی ہمیں دنیاوی زندگی بخوبی بسر کرنے کی شکتی دے، جبکہ ہماری دنیاوی زندگی ہمیں ایسے وسائل مہیا کرے جن سے ہم اپنی روحانی زندگی بخوبی بسر کر سکیں۔ 'لم –رم' کی بتدریج منازل سے ہم جو کچھ بھی سیکھیں اس کا اطلاق روز مرہ زندگی پر ہونا چاہئیے۔
بہتر انسان بننا
تو ہمیں جو بودھی پاٹھ یہاں دیا گیا ہے ہم اسے کیسے استعمال کر رہے ہیں؟ بودھی پاٹھ کو عام طور پر چند الفاظ میں سمویا جا سکتا ہے۔ سادہ الفاظ میں ہم اپنے آپ کو بہتر انسان بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ "بہتر انسان" کی اصطلاح میں تعصب پایا جاتا ہو، مگر یہاں قطعی طور پر کوئی رمزیہ پہلو نہیں ہے۔ یہ اصل بات نہیں ہے۔ ہم تو محض نقصان دہ رویہ اور منفی جذبات مثلاً غصہ، لالچ، خود غرضی وغیرہ جو ہم سب میں بعض اوقات پاۓ جاتے ہیں پر قابو پانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اس قسم کے ہدف کو پانے کے معاملہ میں کسی لحاظ سے بھی بدھ مت کوئی چنیدہ دھرم یا فلسفہ نہیں ہے۔ یہ ہمیں عیسائیت، اسلام، یہودیت، اور انسانیت پسندی میں بھی ملتا ہے۔ یہ ہر جا موجود ہے۔ بدھ مت کے طریقے، جیسا کہ یہ ہمیں ان دوسرے مذاہب میں بھی ملتے ہیں، بتدریج راہ کے ذریعہ ایک بہتر انسان بننے کے ہدف کو پانے میں کام آ سکتے ہیں۔
"بہتر انسان" بننے کی خاطر سب سے پہلے ہمیں تباہ کن رویہ، جس سے ہم دوسروں کو نقصان پہنچاتے ہیں، ترک کرنا ہو گا۔ اس کے لئیے ہمیں ضبط نفس پر عمل کرنا ہو گا۔ جب ہم اس قابل ہو جائیں، تواس کا عمیق پہلو یہ ہے کہ ہم اس نقصان دہ رویہ جس میں غصہ، لالچ، لگاوٹ، حسد، نفرت وغیرہ شامل ہیں، کے اسباب پر قابو پانے پر غور کریں۔ اس کے لئیے، ہمیں یہ جاننا لازم ہے کہ یہ منفی جذبات کیسے جنم لیتے ہیں اور کیسے اثر انداز ہوتے ہیں۔ اس طرح ہم ایک خاص قسم کی فہم و فراست استوار کرتے ہیں جو ان پریشان کن جذبات کو کم یا تلف کرنے میں معاون ہو۔
پھر ہم اس سے بھی مزید گہرائی میں جا کر ان پریشان کن جذبات کے پس پشت اصلی وجوہات کا کھوج لگاتے ہیں، جس میں ہم اپنی خود غرضی اور اپنی ہی ذات میں محو رویہ کی پہچان کرتے ہیں۔ ہم عام طور پر یوں سوچتے ہیں، "ہر کام ہمیشہ میری مرضی کے مطابق ہونا چاہئیے۔" جب ہماری مرضی نہیں چلتی، تو ہم ناراض ہو جاتے ہیں۔ ہم اگرچہ ہر کام اپنی مرضی کے مطابق ہونا پسند کرتے ہیں، پر ایسا کیوں ہونا چاہئیے؟ اس کی قطعی طور پر کوئی معقول وجہ نہیں ہے، سواۓ اس کے کہ یہ ہماری رضا ہے۔ ہر کوئی ایسے ہی سوچتا ہے، ہم سب بیک وقت درست نہیں ہو سکتے۔
ہم وقت گزرنے کے ساتھ دھیرے دھیرے اس پر اس وقت تک کام کریں گے جب تک ہم بنیادی شر انگیز عنصر پر قابو نہ پا لیں۔ جب ہم اپنی خود غرضی کا جائزہ لیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ یہ ہمارے اس تصور "میں" اور "نفس" کی پیداوار ہے۔ دوسرے لفظوں میں، ہمارے وجود کا تصور اس خیال پر منحصر ہے کہ "میں کوئی خاص انسان ہوں،" جیسا کہ میں کائنات کا محور ہوں، سب سے اہم انسان جو باقی سب انسانوں سے بےنیاز ہے۔ ہمیں اس تصور کی تحقیق کرنی ہے کیونکہ صاف ظاہر ہے کہ یہ ایک نہائت غلط اور تحریف زدہ تصور ہے۔ یہ وہ مسٔلہ ہے جس سے بتدریج راہ نبرد آزما ہے۔
ترغیب کے مرحلہ وار درجات: دھرم-لائٹ
اس قسم کے مقاصد کے حصول کے لئیے مہاتما بدھ کے بتاۓ ہوۓ طریقے بہت کارگر ہیں۔ بنیادی طور پر، ہمارے پاس نقصان دہ رویہ اور منفی جذبات جیسے غصہ اور خودغرضی سے گریز کرنے کی معقول وجہ موجود ہے۔ اور یہ وجہ غالباً یہ ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ جب ہم ان جذبات کے اثر تلے عمل کرتے ہیں، تو یہ اچھا نہیں ہوتا اور اس سے ہمارے اور دوسروں کے لئیے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ ہم ان مسائل کے طلب گار نہیں ہیں!
ہم اس مشکل سے بتدریج راہ کے ذریعہ بھی نمٹ سکتے ہیں۔ اگر میرا رویہ اس خاص قسم کا ہو تو اس سے فوری طور پر مسائل اور مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر، اگر ہم کسی سے لڑ پڑیں اور انہیں زخمی کر دیں، تو ہم خود بھی زخمی ہو سکتے ہیں یا جیل میں ڈالے جا سکتے ہیں۔ ذرا غور کرنے پر ہم اپنے تباہ کن رویہ کے دور رس نتائج کو بھی دیکھ سکتے ہیں، کیونکہ ہم نہ صرف ابھی بلکہ مستقبل میں بھی مسائل سے گریز چاہتے ہیں۔ اس پر مزید غور کرتے ہوۓ، ہم اپنے خاندان، ہمارے عزیز و اقارب، دوست احباب اور سماج کے لئیے مشکلات اور مسائل پیدا نہیں کرنا چاہتے۔ یہ سب کچھ ہماری موجودہ زندگی کے محور میں ہو رہا ہے۔ اگر اور آگے بڑھیں، تو ہم مزید دور رس نظر سے بھی دیکھ سکتے ہیں، جس میں ہم آنے والی نسلوں کے لئیے مصائب جیسے کرہ ارض کی افزوں پذیر حرارت پیدا کرنے سے پرہیز کریں۔
ان سب محرکات کے ہوتے ہوۓ، ایسا نہیں ہے کہ ہم پہلے والے ترک کر دیتے ہیں اور نئے والے اپنا لیتے ہیں، بلکہ یہ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر مجموعی طور پر کام کرتے ہیں۔ یہ بتدریج راہ کا عمومی اصول ہے۔ ابھی تک جو کچھ کہا گیا ہے میں اسے "دھرم -لائٹ" کا نام دیتا ہوں۔ یہ "دھرم" کے متعلق بدھ مت کی تعلیمات اس زندگی کے حوالے سے بیان کرتا ہے بغیر پنر جنم کو بیچ میں لانے کے۔ میں نے یہ اصطلاحات "دھرم-لائٹ" اور "اصل چیز دھرم" کوکا-کولا لائٹ اور چینی سے بھرپور کوکا-کولا کے متوازی اختراع کی ہیں۔
پنر جنم کو شک کا فائدہ دیتے ہوۓ موجودہ زندگی کو سنوارنا
"دھرم" سنسکرت زبان کا لفظ ہے جو مہاتما بدھ کی تعلیمات کے لئیے استعمال کیا جاتا ہے۔ "لائٹ" سے مراد یہ نہیں کہ اس میں کوئی نقص ہے، محض یہ کہ یہ اصل، طاقتور روپ نہیں ہے۔ لم –رم کا اصل بیان جو ہمیں تبتی مسالک میں ملتا ہے وہ حقیقی شے ہے، مگر یہ شروع کے مراحل میں ہم میں سے بیشتر کے لئیے بھاری پڑ سکتا ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ پنر جنم کو بھرپور حقیقت مانتا ہے اور تمام مضامین اسی بنیاد پر پیش کئیے جاتے ہیں کہ پنر جنم ایک حقیقت ہے۔ اس نکتۂ نظر سے ہم اپنی آئیندہ زندگیوں میں مصائب سے بچنے اور انہیں بہتر بنانے پر جہد کرتے ہیں۔
اگر ہم آئیندہ زندگی پر ایمان نہیں رکھتے تو پھر ہم اسے بہتر بنانے کی پرخلوص کوشش کیوں کریں گے؟ یہ ممکن ہی نہیں ہے۔ جب ہمیں گزشتہ اور آئیندہ زندگیوں کے تصور کے متعلق شک ہو، اور اگر ہمیں ان کے بارے میں تیقن اور فہم نہ ہو، تب ہمیں دھرم- لائٹ سے شروع کرنا چاہئیے۔ ہمیں اپنے روحانی پاٹھ کے ہدف کے متعلق اپنے آپ سے ایمانداری سے کام لینا چاہئیے۔
ہم میں سے بیشتر غالباً اس زندگی کو بہتر بنانا چاہتے ہیں۔ اور یہ ایک معقول ہدف ہے۔ یہ شروعات ہے اور ایک نہائت اہم قدم۔ جب ہم دھرم- لائٹ کی اس سطح پر ہوں تو ہمیں اس بات کا احساس ہونا لازم ہے کہ یہ دھرم-لائٹ ہے نہ کہ حقیقی شے۔ ان دونوں کو خلط ملط کرنے سے ہم بدھ مت کا درجہ کم کر کے اسے اپنی مدد آپ کے معالجہ کا ایک طریقہ بنا دیتے ہیں۔ یہ بدھ مت کے احاطہ کو کم کرنے کی بات ہے جو کہ بدھ مت کے ساتھ نا انصافی ہے۔
اگر ہم دھرم کے حقیقی روپ کو نہیں سمجھتے، اور اسے سچ ماننے کی تو بات ہی کیا، تو ہمیں اس امر کو تسلیم کرنا چاہئیے۔ ہمیں وسعت نظر سے یوں سوچنا چاہئیے، "یہ جو آئیندہ زندگیوں کی اور مکش کی بات کرتے ہیں تو میں اس کی صحت کے متعلق تیقن سے کچھ نہیں کہہ سکتا، مگر فی الحال میں دھرم- لائٹ کی سطح پر کام کروں۔ جوں جوں میری سوجھ بوجھ بڑھے گی اور میں مزید مطالعہ اور مراقبہ کروں گا، تو شائد اس سے میں حقیقی دھرم کو بہتر سمجھ پاؤں گا۔" یہ ایک نہائت ٹھوس اور معقول تصور ہے جس کی بنیاد مہاتما بدھ کا احترام اور اس بات پر ایمان ہے کہ جب وہ یہ سبق دے رہا تھا تو وہ کوئی فضول بات نہیں کر رہا تھا۔
ہمیں اس بات کو بھی تسلیم کرنا ہے کہ مستقبل کی زندگیوں اور مکش کے متعلق ہمارے بعض نظریات جن کے ہم حامل ہیں، قطعی طور پر غلط ہو سکتے ہیں، اور مزید یہ کہ بدھ مت ہمارے پہلے سے قائم شدہ نظریات اور تصورات کو تسلیم نہیں کرے گا۔ پس ہم کسی چیز کا جو مطلب لیتے ہیں، یا جسے ہم قابلِ تمسخر پاتے ہیں، وہ مہاتما بدھ کے نزدیک بھی مضحکہ خیز ہو سکتا ہے، کیونکہ یہ ایک قطعاً غلط تصور ہے۔ مثال کے طور پر، یہ خیال کہ ہم ایک روح کی مانند ہیں جو پر رکھتی ہے اور جو ہمارے جسم کو چھوڑ کر پرواز کر جاتی ہے اور کسی اور میں داخل ہو جاتی ہے، یہ ایسی بات ہے جسے مہاتما بدھ تسلیم نہیں کرے گا۔ مہاتما بدھ اس نظریہ کو بھی رد کرتا ہے کہ ہم بذات خود خدا بن سکتے ہیں۔
بے آد پنر جنم کے نظریہ کو ماننے کے فوائد
اس بتدریج راہ میں پیش کئیے جانے والے بیشتر طریقوں کا اطلاق دھرم-لائٹ یا حقیقی شے دھرم پر ہو سکتا ہے۔ لیکن بعض طریقے ایسے ہیں جن کا اطلاق آئندہ زندگیوں کی سمجھ بوجھ پر ہی منحصر ہے۔ مثلاً، سب کے لئیے برابر کا پیار استوار کرنے کی خاطر اس بات کو تسلیم کرنا لازم ہے کہ ہر کوئی بے آد پنر جنموں کا حامل ہے اور یہ کہ ہستیوں کی تعداد محدود ہے۔ اس مقام سے آغاز کرتے ہوۓ، یہ بات عیاں ہے کہ کبھی نہ کبھی ہر کوئی ہستی ہماری ماں رہ چکی ہے، اور باقی سب کی بھی۔ ہم خود بھی ہر ذی حس مخلوق کی ماں رہ چکے ہیں۔ اگر آپ چاہیں تو اس منطق کا کہ اس کی شروعات تو کوئی نہیں مگر ان ہستیوں کی تعداد محدود ہے، ریاضی کی رو سے حتمی ثبوت پیش کر سکتے ہیں۔ اگر وقت اور ہستیاں دونوں لا محدود ہوتے، تو ہم اس کے تعامل کو اس شکل میں ثابت نہ کر پاتے۔
یہ بات صاف ظاہر ہے کہ اگر ہم نے کبھی لا محدود گزشتہ پنرجنموں کے حوالے سے نہیں سوچا تو اس بات کو سمجھنا بہت مشکل ہو گا۔ لا محدود پنر جنموں کی بنیاد پر ہم یہ سوچ سکتے ہیں کہ تمام ہستیوں نے جس ماں کی ممتا کا ہمارے لئیے مظاہرہ کیا ہے، ہم اس کی قدر کریں، اور اس کے عوض رحمدلی اور محبت سے پیش آئیں۔ اس نظریہ کی بنیاد پر بہت کچھ استوار کیا جا سکتا ہے۔ اس سلسلہ کا ایک پہلو یہ سمجھنا ہے کہ کبھی نہ کبھی یہ شخص یا وہ شخص ہماری ماں کا کردار ادا کر چکا ہے۔ ہم نے خواہ اپنی ماں کو گزشتہ دس منٹ، دس دن یا دس برس میں نہیں دیکھا، لیکن پھر بھی وہ ہماری ماں تو ہے۔ اسی طرح اگر ہم نے اسے دس جنموں سے نہیں دیکھا ہوتا، تو بھی وہ ہماری ماں تو ہے۔ اگر ہم پنر جنم میں یقین رکھتے ہیں تو سوچ کا یہ انداز بہت مفید ہو سکتا ہے۔ اس تیقن کے بغیر یہ محض حماقت ہو گی۔
اس بات کا اطلاق خصوصاً تب ہوتا ہے جب ہم مچھروں کے نہ کہ انسانوں کے بارے میں سوچتے ہیں۔ یہ مچھر کسی گزشتہ زندگی کے دوران ہماری ماں کے روپ میں تھا، کیونکہ پنر جنم کسی بھی شکل میں ہو سکتا ہے جس میں من کی کاروائی پائی جاتی ہو۔ اس کا دھرم-لائٹ روپ بھی موجود ہے جس میں کوئی بھی ہمیں گھر لے جاۓ، ہمارا خیال رکھے اور ہمیں کھلاۓ پلاۓ۔ ہر کوئی ایسا کرنے کا اہل ہے؛ جب ہم سفر کرتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ بعض اوقات بالکل اجنبی لوگ ہمارے ساتھ بڑی اچھی طرح پیش آتے ہیں اور مہمان نوازی کا برتاؤ کرتے ہیں۔ اس بات سے کچھ فرق نہیں پڑتا کہ وہ مرد ہے یا عورت، ہمارے ساتھ کوئی بھی ماں جیسا سلوک کر سکتا ہے۔ کوئی بچہ، جب وہ بڑا ہو جاۓ، ہماری دیکھ بھال میں ہماری مدد کر سکتا ہے۔ ایسا تصور نہائت مفید ثابت ہو سکتا ہے، خواہ یہ محدود پیمانے پر ہی کیوں نہ ہو کیونکہ ایسا سوچنا بہت مشکل ہے کہ یہ مچھر جو ہم دیکھ رہے ہیں ہمیں گھر لے جا کر ماں کی مانند ہمارا خیال رکھے گا۔
اس سے اس بات کا کسی حد تک اندازہ ہوتا ہے کہ یہ طریقے کس طرح دھرم-لائٹ اور حقیقی شے دھرم میں استعمال ہو سکتے ہیں۔ دونوں ہی اپنی اپنی جگہ مفید ہیں، مگر دھرم-لائٹ روپ محدود ہے۔ حقیقی شے دھرم ایک بحرِ ممکنات کھول دیتا ہے۔ قطع نظر اس کے کہ ہم کونسا طریقہ اپناتے ہیں، اہم بات یہ ہے کہ ہم اس کا اطلاق اپنی روز مرہ زندگی میں کریں۔ اگر ہم ٹریفک میں پھنسے ہوں، یا ہم کسی لمبی قطار کا شکار ہوں، تو ہم لوگوں سے ناراض اور بے صبر ہو جاتے ہیں، اس دم ہمیں ان سب کو اپنی ماں تصور کرنا چاہئیے۔ ہم ایسا تصور کسی گزشتہ زندگی یا موجودہ زندگی کے متعلق قائم کر سکتے ہیں، اور اس سے ہمارا غصہ کم ہو گا اور صبر پیدا ہو گا۔ اگر ہماری ماں سچ مچ قطار میں ہمارے آگے ہو، تو مجھے یقین ہے کہ ہم قطعی طور پر اس بات کا برا نہیں منائیں گے اگر وہ ہم سے پہلے خدمات وصول کرے۔ در حقیقت، ہم غالباً خوش ہوں اگر اس کی باری ہم سے پہلے آتی ہے۔ اس طرح ہم ان تعلیمات کا اطلاق کر سکتے ہیں۔ ہمیں من کی یہ حالتیں محض اس وقت ہی استوار نہیں کرنی جب ہم مراقبہ کی گدی پر بیٹھے ہوں، بلکہ اسے روز مرہ زندگی میں بھی استعمال میں لانا ہے۔
مراقبہ کے توسط سے اپنے آپ کو بہتر بنانا
جب ہم یہ کہتے ہیں کہ دھرم سے مراد اپنی ذات پر کام کرنا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے۔ جب ہم اپنے کمرہ میں ایک خاموش اور موزوں فضا میں مراقبہ کرتے ہیں تو ہم اسی قسم کی سوجھ بوجھ اور ایسی مزید مثبت من کی حالت استوار کرتے ہیں۔ ہم دوسرے لوگوں کو تصور میں لا کر ان کے متعلق مثبت رویہ پیدا کرتے ہیں۔ اگرچہ یہ رواجی طریقہ نہیں ہے، تاہم، میرے خیال میں مراقبہ کے دوران لوگوں کی تصاویر کو دیکھنا ایک معقول طریق کار ہو سکتا ہے۔ آج سے ۲،۵۰۰ برس قبل لوگوں کی تصاویر نہیں ہوتی تھیں، لیکن میرے خیال میں جدید ٹیکنالوجی کو اس مقصد کے لئیے استعمال میں لانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
جب ہم کسی من کی حالت سے بخوبی واقفیت حاصل کر لیں، تو پھر ہم اس کا اپنی روز مرہ زندگی میں اطلاق کرتے ہیں۔ یہی اس کا اصل مقصد ہے۔ جب آپ گدی پر براجمان ہوں تو اس وقت پیار محبت کے تصورات قائم کرنا، اور پھر اپنے خاندان اور ہمکاروں کے ساتھ غصہ سے پیش آنا، مطلوب منتہا نہیں ہے۔ لہٰذا ہمیں کبھی بھی مراقبہ کو زندگی سے فرار کے لئیے استعمال نہیں کرنا چاہئیے، جس میں ہم محض اپنے لئیے کچھ سکون پانے میں چند لمحے گزار سکیں۔ یہ بھی ایک قسم کا فرار ہو گا اگر ہم کسی تصوراتی دنیا میں کھو جائیں اور طرح طرح کی انہونی باتیں سوچیں۔ مراقبہ کا پاٹھ اس سے بہت مختلف ہے؛ ہم زندگی کے مسائل سے نبرد آزما ہونے کی تربیت حاصل کر رہے ہیں۔
یہ محنت طلب کام ہے، اور ہمیں اپنے آپ کو کسی غلط فہمی میں نہیں ڈالنا چاہئیے، یا کسی قسم کی اشتہار بازی سے اس دھوکے میں نہیں آ جانا چاہئیے کہ یہ فوری اور سہل ہے۔ ہماری خود غرضی اور دیگر نقصان دہ جذبات کو قابو میں لانا آسان نہیں ہے کیونکہ ان کی بنیاد بڑی پکی عادات ہوتی ہیں۔ ان پر قابو پانے کا یہی طریقہ ہے کہ ہم چیزوں کے متعلق اپنے رویہ کو بدلیں اور اس الجھن سے چھٹکارا حاصل کریں جو ان من کی تخریبی حالتوں کے پس پشت کار فرما ہے۔
خلاصہ
بدھ مت کے پاٹھ کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے، ایک دھرم-لائٹ دوسرا حقیقی شے دھرم۔ دھرم-لائٹ کے تحت ہم اپنی موجودہ زندگی کو بہتر بنانا چاہتے ہیں، اس طور کہ ہم اپنے آپ کو ایسے من کے آلات سے لیس کر سکیں جن سے ہم زندگی کے مسائل سے بہتر طور نمٹ سکیں۔ دھرم-لائٹ میں ویسے تو قطعی طور پر کوئی خرابی نہیں ہے لیکن کوکا-کولا لائیٹ کی مانند اس کا ذائقہ کبھی بھی اصل شے جتنا لذیذ نہیں ہو گا۔
رسم و رواج کے مطابق ، 'لم-رم' کی تعلیمات دھرم-لائٹ کا کوئی حوالہ نہیں دیتیں جسے کہ ہم نے بیان کیا ہے کیونکہ یہ گزشتہ اور آئیندہ زندگیوں میں ایمان رکھتی ہے۔ تاہم، اپنی زندگی کو بہتر بنانا اور اچھے انسان بننا حقیقی شے دھرم کے پاٹھ کی راہ پر ایک اہم قدم ہے۔