چار سچے حقائق
جب شکیا مونی مہاتما بدھ نے اپنی روشن ضمیری کا مظاہرہ کیا تو اس نے ہمیں بھی اس مقام تک پہنچنے کے کئی طریقے سکھاۓ۔ بنیادی طریقہ یہ ہے کہ حفاظتی تدابیر اختیار کی جائیں۔ بہ الفاظ دیگر دھرم کی راہ پر چلا جاۓ۔ اولاً ہمارے ہاں ( ۱ ) حقیقی مسائل ہوتے ہیں جو سب کو پیش آتے ہیں۔ ( ۲ ) ان کی سچ مچ کی وجوہات ہوتی ہیں۔ تاہم ( ۳ ) ہم ان وجوہات پر قابو پا کر انہیں ختم کرسکتے ہیں۔ اور ان کی موثر روک تھام کے لئے ہمیں ( ۴ ) من کے سچے راستے پروان چڑھانے کی ضرورت ہے۔
ابتدائی مرحلہ
ان چار حقیقی سچائیوں ( چار بلندوبالا آریہ سچائیوں ) کو کئی مختلف مراحل پر سمجھا جا سکتا ہے۔ ابتدائی مرحلہ میں پنر جنم میں بدترین شکلوں میں جنم لینے کے حقیقی مسائل شامل ہیں۔ اگر ہم شدید دکھ کی حالت میں ہیں، ہم بہت زیادہ بیماری، بھوک پیاس کا شکار ہیں یا ہر دم تکلیف اٹھا رہے ہیں تو ہمیں روحانی ترقی کا کوئی وقت یا امکان میسر نہیں آۓ گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے من شدید مسائل اور مشکلات تلے دبے ہوں گے۔
اس کی بڑی وجہ ہمارا تخریبی عمل ہے۔ جیسا کہ مہاتما بدھ نے بتایا کہ اگر ہم دکھ اور تکلیف کو جنم دیں تو ہمیں خود اس تکلیف کا مزہ چکھنا ہو گا۔ دوسری طرف ( ایسا بھی ہے کہ ) اگر ہم تعمیری انداز اختیار کریں، ہم مسرت وشادمانی پیدا کریں تو درحقیقت ہم خود اس مسرت کا مزہ چکھیں گے۔ پس اگر ہم سچ مچ ان شدید مسائل کو ختم کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں خلوص دل سے ان منفی اور تباہ کن حرکات سے اپنے آپ کو باز رکھنا چاہئے۔
سب سے پہلے ہمیں اس بات کا اعادہ کرنا چاہئے کہ ہماری زندگی ایک قیمتی جنس ہے۔ اس وقت ہمارے پاس روحانی ترقی کے تمام مواقع موجود ہیں۔ مثلاً ہم کسی جنگی قید خانے میں نظر بند نہیں یا کسی قحط کا شکار بھی نہیں۔ تاہم یہ سنہری مواقع ہمیشہ میسر نہیں ہوں گے کیونکہ لا محالہ ہم سب کو ایک دن مرنا ہے، اور یہ قیمتی زندگی ہم سے چھن جاۓ گی۔ اس کا بھی کوئی تعین نہیں کہ ایسا کب ہو گا۔ ہم کسی وقت بھی کسی ٹرک سے ٹکرا سکتے ہیں۔ اگر ہمیں ابھی موت آجاۓ اور اگر ہمارا رویہ ہمیشہ تباہ کن رہا ہے تو اس سے مستقبل میں ہمارے لئے بدترین حالات پیدا ہوں گے۔ ہم ایسے حالات میں دوبارہ جنم لیں گے جن میں ہم خود اس دکھ اور ان تکالیف کا مزہ چکھیں گے جنہیں ہم نے پیدا کیا۔ لہٰذا ایسے مستقبل کے خوف سے ہم اس سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ ڈھونڈتے ہیں۔ ہم مہاتما بدھوں سے راہنمائی طلب کرتے ہیں۔
مہاتما بدھ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی تمام کمزوریوں پر قابو پایا تو ان کے من، گفتار اور جسم کی تمام صلاحیتیں واضح اور لاتعداد ہیں۔ ان کے من پر پریشان کن جذبات یا رویے مثلاً غصہ، لگاؤ یا دیوانگی کا پہرہ نہیں۔ ان پر کند ذہنی یا ذہنی آوارگی کی پابندی نہیں۔ ان کے دل جو کہ من کا ایک پہلو تصور کئے جاتے ہیں خود غرضی یا طرفداری کی وجہ سے محدود نہیں ۔ ان کا تکلم گفتگو سے عاری نہیں اور ان کے اجسام میں توانائی کی کمی نہیں۔ اس طرح ان کے من، دل، کلام اور اجسام کے بارے میں ہر چیز واضح ہے۔ انہوں نے اپنی تمام صلاحیتوں کو اجاگر کر لیا ہے اور وہ ارتقائی منازل کے سب سے اونچے مقام تک پہنچ گۓ ہیں۔
مہاتما بدھوں نے نہ صرف خود یہ کیا ہے بلکہ دوسروں کو بھی بتایا ہے کہ انہوں نے یہ کیسے کیا۔ اس کے لئے انہوں نے حفاظتی تدابیر اختیار کیں یعنی دھرم کا راستہ پکڑا تا کہ وہ اپنی کمزوریوں تلے نہ دب جائیں، جو کہ ان کے لئے اور دوسروں کے لئے مسائل پیدا کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ سنگھا نام کی ایک جماعت ہے جو ایسے لوگوں پر مشتمل ہے جن کے اسی قسم کے ہدف ہیں اور وہ اس راہ میں کافی ترقی کر چکے ہیں۔ پس مہاتما بدھ ، دھرم اور سنگھا کی صفات کو دیکھتے ہوۓ اور زندگی کی ایسی روش سے بچتے ہوۓ جو کہ ہمارے لئے مزید مسائل پیدا کر سکتی ہے، اور مزید یہ جانتے ہوۓ کہ اگر ہم مہاتما بدھ ، دھرم اور سنگھا کی راہ پر چلیں گے تو یہ ہمیں ان مسائل سے بچنے کی اہلیت عطا کرے گا، تو ہم ان سے اپنی زندگی میں محفوظ راہ پر گامزن ہونے کی راہنمائی حاصل کرتے ہیں۔ تو یہ ہے پناہ لینے کا مطلب – کہ اپنی زندگی کو محفوظ راہ پر ڈالنا۔
اصل محفوظ راہ کا تعین علت و معلول کے قانون کی پیروی کرنے سے ہوتا ہے۔ لہٰذا اگر ہم مستقبل میں مسائل سے بچنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے آپ کو منفی روش مثلاً قتل، چوری، جھوٹ وغیرہ اختیار کرنے سے حقیقتاً روکنا ہو گا۔ پس ہم ایک تعمیری انداز اختیار کرتے ہیں۔ یہ چار سچے حقائق کے ادراک کی پہلی منزل ہے۔
درمیانی منزل
ایک درمیانی سطح پر، خواہ ہم کیسی ہی حالت میں دوبارہ پیدا ہوۓ ہوں، ہم زندگی کے حقیقی مسائل جیسے بیماری، ضعیف عمری اور موت سے دوچار ہوتے ہیں۔ ہم اس قسم کے حقیقی مسائل سے دوچار ہوتے ہیں جیسے کسی چیز کو باوجود کوشش کے پانے میں ناکامی، اور ناخوشگوار واقعات جنہیں کہ ہم نہیں چاہتے کہ پیش آئیں، ان کا پیش آنا۔ ہمارے کئی بےقابو، رو بہ اعادہ مسائل مثلاً دوسروں کے ساتھ نا خوشگوار تعلقات، وغیرہ ہوتے ہیں۔ اس کی اصلی وجہ ہماری حقیقت سے لاعلمی ہے – کہ ہم کون ہیں اور ہمارا وجود کیسے ہے۔ اس بنا پر ہم اپنے نفس کی کوئی ٹھوس شناخت بنا لیتے ہیں جس کے بارے میں ہم عدم تحفظ کا شکار ہوتے ہیں۔ نتیجتہً اس قسم کی شناختوں کے دفاع اور اصرار کی خاطر ہمارے من میں اس طرح کے پریشان کن جذبات اور روش مثلاً لگاؤ، غصہ، سادگی، تکبر، حسد، تذبذب، وغیرہ پیدا ہوتے ہیں۔ اس بنیاد پر ہمارے من میں کئی محرکات اور کرم جنم لیتے ہیں جس کا اظہار ہم من موجی انداز میں کرتے ہیں۔ ہم یوں اپنی شناختوں کو مزید تحفظ فراہم کرنے کے لئے کرتے ہیں۔ مثلاً ہم ڈھیر ساری دولت، مادی اشیا اکٹھا کرنے اور بہت سے دوست بنانے کی کوشش کرتے ہیں، یا ہر اس شے اور شخص کو جو ہمیں ناپسند ہے دور بھگانے یا تباہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب ہم ایسے اضطراری انداز اختیار کرتے ہیں مثلاً ایک دوسرے پر چلًانا اور ایک دوسرے سے شقی القلبی سے پیش آنا، تو یہ ہمارے لئے بڑے مسائل پیدا کرتا ہے۔
اگر ہم سچ مچ ان مسائل کی روک تھام کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں ایک سچی راہ پر چلنا ہو گا۔ سب سے اول ہمارے اندر مناسب ترغیب کا ہونا لازم ہے جو کہ مسائل سے رہائی کے مظبوط عزم جسے بعض اوقات تیاگ بھی کہا جاتا ہے پر مشتمل ہے۔ اس محرک کی بنیاد پر ہمیں ایسی امتیازی آگہی استوار کرنا ہے جس سے ہم حقیقت یا خالی پن کو پہچان سکیں۔ ایسا تدبر پانے کے لئے ہمیں ارتکاز کی ضرورت ہے، اور اپنے من پر اس طرح قابو پانے کے لئے ہمیں اپنے جسم اور گفتار کے کثیف اعمال کو قابو میں لانے کی ضرورت ہے۔ لہٰذا ہمیں اخلاقی ضبط نفس کی ضرورت ہے۔ تین اعلیٰ مشقوں - اعلیٰ اخلاقی ضبط نفس، ارتکاز اور حکمت - کی راہ پر چلنے سے ہم ایسی امتیازی آگہی پیدا کر سکتے ہیں جس سے ہم خالی پن یعنی وجود کے تمام ناممکن طریقوں کی عدم موجودگی کو دیکھ سکیں۔
چونکہ ہم حقیقت سے بے خبر ہیں اور اپنی پہچان اور اپنے وجود اور دنیا کے وجود کے بارے میں غیر یقینی حالت میں ہیں تو ہم ان کا ناممکن حالتوں میں وجود کا ایسا تصور بناتے ہیں جس میں ہر شے ٹھوس اور خودمختار ہو۔ لیکن کوئی شے بھی ایسی ناممکن تصوراتی شکل میں وجود نہیں رکھتی۔ ہر شے ایسے ناممکن انداز میں ہونے سے عاری ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ کچھ بھی موجود نہیں۔ بلکہ جو کچھ بھی موجود ہے وہ دست نگر نمو کی مرہون منت ہے۔ یعنی ہر شے کا ارتقا اسباب، حالات، حصے، یا ایک من کے ساتھ تعلق اور ذہنی لیبلنگ پر منحصر ہے۔ اس طرح ایک ادراک اور احساس کے سچے طریقہ سے ہم ایسی ذہنی رکاوٹوں پر قابو پا سکتے ہیں جو ہمارے جذبات کو پریشان کرتی ہیں اور اس طرح ہم مکش حاصل کرتے ہیں۔ یہ چار سچے حقائق کو سمجھنے کی وسطی منزل ہے۔
ترقی یافتہ منزل
ایک ترقی یافتہ سطح پر ہم دیکھتے ہیں کہ نہ صرف ہم مسائل سے دوچار ہوتے ہیں بلکہ ہر کوئی ان مسائل کا شکار ہوتا ہے۔ پس اس مقام پر حقیقی مسائل وہ مسائل ہیں جن سے سب کا واسطہ ہے۔ مزید برآں ایک اور حقیقی مسئلہ ہماری ہر شخص کی اس کے مسائل پر قابو پانے کی مدد کی نا اہلیت ہے۔ ان مسائل کی اصلی وجوہات میں سب سے پہلی بات ہماری خودغرضی ہے جس کی بنا پر ہم محض اپنی ذات پر توجہ مرکوز کرتے ہیں اور دوسروں کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔ اگلی بات وہ ذہنی رکاوٹیں ہیں جو ہمیں دوسروں کی مدد کرنے کے ماہرانہ ذرائع جاننے سے روکتی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں ذہنی رکاوٹیں ہمیں سروشتگی سے باز رکھتی ہیں۔ اس کی اصل روک تھام کا مطلب نہ صرف اپنے مسائل سے مکش حاصل کرنا بلکہ مزید آگے بڑھ کر مہاتما بدھ کا مقام حاصل کرنا ہے، جس میں ہم اپنی تمام کمزوریوں پر قابو پا لیتے ہیں اور اپنی تمام صلاحیتوں کو بروۓ کار لاتے ہیں تا کہ ہم ہر ایک کو، جس حد تک بھی ممکن ہو، فائدہ پہنچا سکیں۔
جو سچا راستہ ہمیں اس طرف لیجاتا ہے وہ ہے اولاً بودھی چت کی ترغیب پیدا کرنا، جس کا مطلب ہے اپنے دلوں کو دوسروں کے لئے اور روشن ضمیری کے لئے کشادہ کرنا، یعنی ایک مہاتما بدھ کی صورت جس میں ہم سب کو مستفید کر سکیں۔ اس ترغیب کے تحت ہم ایسی دور رس روش اور کمالات کو پروان چڑھاتے ہیں اور اس کی مشق کرتے ہیں جن سب کی بنیاد فکرمند محبت اور دردمند ہمدردی پر ہے۔ ان احساسات میں فیاضی، ضبط نفس، با صبر قوت برداشت، پر مسرت استقلال، من کا ارتکاز اور امتیازی آگہی شامل ہیں۔ ایک دور رس امتیاز کے ساتھ ہم ایک ایسی حقیقت یا خالی پن دیکھتے ہیں جس کی ہمیں اپنے پریشان کن جذبات پر قابو پانے اور مکش حاصل کرنے کے لئے ضرورت پڑی تھی۔ مگر چونکہ بودھی چت کی طاقت بطور محرک کے رہائی پانے کے عزم کی نسبت کہیں زیادہ ہے لہٰذا اس فکر میں زیادہ توانائی پائی جاتی ہے۔
اگر ہمارا مقصد محض اپنے مسائل سے چھٹکارا حاصل کرنا ہو تو یہ ہمیں حقیقت کو پانے کے لئے محدود مقدار میں توانائی بخشتا ہے ۔ لیکن اگر ہمارا مقصد سب کی مدد کے علاوہ حقیقت کو جاننا بھی ہو تو یہ بہت زیادہ توانائی بخش ہے۔ پس ہماری عقل اس دھندلے پن کی دونوں سطحات کے آر پار دیکھ سکتی ہے۔ نہ صرف پریشان کن جذبات کا ابہام بلکہ وہ بھی جو سروشتہ کی راہ میں حائل ہوتے ہیں۔
مثال کے طور پر فرض کیجئے کہ زہریلے سانپوں کے کاٹے کے علاج پر کوئی لیکچر دیا جا رہا ہے۔ اگر کوئی طالب علم جو اس کا مطالعہ محض ڈاکٹر بننے کے لئے کر رہا ہے اس لیکچر کو سنتا ہے تا کہ وہ بہت سا پیسہ کما سکے اور اپنے مالی مسائل حل کر سکے۔ وہ اس لیکچر کو محدود توانائی سے سنے گا۔ لیکن اگر کوئی ماں جس کے بچے کو ابھی ابھی سانپ نے کاٹا ہے اس کمرہ جماعت میں بھاگی بھاگی جاتی ہے تو چونکہ وہ اپنے بچے کی شفا یابی کے بارے میں بے حد فکر مند ہے تو وہ سانپ کے کاٹے کا علاج جاننے کے لئے بے حد توجہ مرکوز کرے گی۔ اسی طرح جب ہماری حقیقت کی فہم کے پیچھے بودھی چت تحریک کار فرما ہوتی ہے تو یہ اس کو بہت زیادہ قوت دیتی ہے تا کہ ہماری فہم ان من کے دھندلکوں کے آر پار دیکھ سکے۔
اس قسم کا طریق کار من کی ایک ایسی راہ اختیار کرتا ہے جس میں ضابطہ عمل اور حکمت دونوں شامل ہیں۔ یہاں جس طرح یہ دونوں سوتر کی سطح پر آپس میں ملتے ہیں یہ ایسی نہیں جہاں دونوں بیک وقت وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ بلکہ یہ ایک ضابطہ عمل ہے جس کے تحت دونوں میں سے ہر ایک دوسرے کے حوالے سے واقع ہوتا ہے۔ لہٰذا ہمارا اپنے دلوں کو دوسروں کے لئے کشادہ کرنا اور ان کو فائدہ پہنچانے کی خاطر روشن ضمیری حاصل کرنا ہمارے دانش ور ہونے کے حوالے سے ہے، یا حقیقت کی سوجھ بوجھ رکھنے کی بات ہے اور اس کے بر عکس معاملہ ( بھی درست ہے ) ۔ دوسرے لفظوں میں جب ہم اپنے دلوں کو دوسرے کے لئے کشادہ کر رہے ہوتے ہیں تو یہ ہمارے من کے حقیقت سے آشنا ہونے کے حوالے سے ہے۔ جب ہمارے من حقیقت کی شناخت کر رہے ہوتے ہیں تو یہ ہمارے دلوں کے دوسروں کے لئے کشادہ ہونے کے حوالے سے ہے۔ اس طرح ایک کا وجود دوسرے کے حوالے سے ہے، اور جب تک ہم مہاتما بدھ نہ بن جائیں اس وقت تک دونوں بیک وقت ایک ہی من میں نہیں سما سکتے۔
یوں حکمت اور طریق کار کو یکجا کر کے ذہنی دھندلکوں کے پار دیکھنے کے قابل ہونے میں بہت وقت لگتا ہے۔ در حقیقت اس کام میں تین لا انتہا دور لگتے ہیں جبکہ ایک لا انتہا دور سب سے بڑے قابل گنتی ہندسے جو کہ ۱۰ کے آگے ۶۰ صفر لگانے سے بنتا ہے کے برابر ہے۔ چلئے ہم اسے زیلین کہیں گے۔ یہ ایک نہائت طویل عرصہ ہے اور لوگ ہمارے، اپنی کمزوریوں پر قابو پانے اور صلاحیتوں کے اجاگر کرنے تا کہ ان کو بہترین طریقہ سے فائدہ پہنچا سکیں، کی خاطر اتنا لمبا عرصہ انتظار نہیں کر سکتے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں تنتر کا استعمال ہوتا ہے۔ تنتر ایک مہایان یا ایک کشادہ من کی روش ہے جو مہاتما بدھ بننے کی خاطر اختیار کی جاتی ہے – جلد از جلد اور نہائت مستعد طریقہ سے – تا کہ دوسروں کو جلد از جلد زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچایا جا سکے۔ یہ ان تمام ضوابط کار پر مشتمل ہے جن کا ہم نے چار سچے حقائق کے ضمن میں ذکر کیا ہے۔