من کسی "چیز" کاایسا انفرادی اور جانبدارانہ مشاہدہ ہے جو کہ ہر لحظہ رو بہ تغیّر ہے۔
"من" کا تصور گریزپا ہے، اور مختلف زبانیں اس کا مختلف تصور پیش کرتی ہیں۔ بدھ مت میں من کے لئیے سنسکرت کا لفظ 'چت' ہے اور وسیع المعانی ہے۔ اس میں حسی تصور، زبانی اور تجریدی خیال، جذبات، مسرت اور عدم مسرت کے محسوسات، توجہ، ارتکاز، فراست، وغیرہ شامل ہیں۔ جب بدھ مت من کا ذکر کرتا ہے تو اس میں ہر قسم کی دماغی کاروائی کا حوالہ ہوتا ہے۔
یہاں زور طبعی پہلو – دماغ، نظام اعصاب، ہارمونز وغیرہ – پر نہیں اور نہ ہی اس میں کیمیائی اور برقی کاروائی شامل ہے۔ بدھ مت ان سے منکر نہیں ہے کیونکہ ان کا وجود قائم ہے اور یہ منضمم ہیں۔ من کسی ایسی غیرمادی "شے" کی طرف بھی اشارہ نہیں کرتا جو دماغ میں بستی ہے اور اسے حرکت دیتی ہے۔ مزید بر آں، بدھ مت کسی مجتمع لا شعور یا عالمگیر من کا قائل نہیں ہے۔
من کی کاروائی کیا چیز ہے؟
اگر من اور من کی کاروائی کسی شے کا انفرادی، جانبدارانہ مشاہدہ ہے تو پھر، مثال کے طور پر، غصہ کی حالت میں ہونے سے کیا مراد ہے؟ یہ غصہ چڑھنے اور اسے محسوس کرنے کی بات ہے جو کہ بیک وقت وقوع پذیر ہوتا ہے۔ یہ دونوں مل کر کسی ایک واقعہ کا اظہار کرتے ہیں جس میں کسی قسم کے تجربہ کا تسلسل پایا جاتا ہے۔ کس کا تجربہ؟ اگر میں غصہ میں ہوں تو یہ میرا تجربہ ہے آپکا نہیں۔ ایسا کوئی الگ سے میں نہیں جو "من" کی مشین کے اندر غصہ کا بٹن دبا رہا ہے – ہم بذات خود اس مشاہدے کا حصہ ہیں۔
یہ ایسے ہی ہے جیسے کہ ہم کوئی چیز دیکھتے ہیں، مثلاً ایک سیب۔ سائینسی نقطہ نظر سے، روشنی کی شعاعیں قرنیہ کے راستے ہماری آنکھوں میں داخل ہوتی ہیں، جہاں وہ شکبۂ چشم کے بصری عصبہ کے خُلیوں سے ملتی ہیں۔ اس سے برقی ہیجان پیدا ہوتا ہے جو بصری تہیجات کو بصری عصبہ کے ذریعہ دماغ کو بھیجتا ہےجہاں منظر تشکیل پاتا ہے۔ اس کا جانبدار مشاہدہ سیب کی ایک ذہنی سہ البعادی تمثیل ہے اور یہ ہے اس کو دیکھنے کا مطلب۔ تاہم، من دماغ کے اندر کوئی خالی جگہ نہیں ہے جس میں سیب بطور ایک سہ العبادی تمثیل کے نمودار ہوتا ہے جیسا کہ ہم کہتے ہیں "من میں کچھ ہونا۔"
من کی سہ العبادی تمثیلات کئی اور چیزوں مثلاً آواز، بُو، ذائقہ اور جسمانی حس کا نمونہ بھی ہو سکتی ہیں، حتیٰ کہ ہمارے تصورات اور سپنوں میں بھی۔ من کی سہ العبادی تمثیل کی شبیہ کی نمو جذبات کے ابھار اور مسرت اور عدم مسرت کے درجات کا مظہر بھی ہو سکتی ہے جس کا انحصار دماغ کے بعض دوسرے حصوں سے ہارمونز کی ریزش پر ہے۔ کسی لمحہ بھی، ہماری من کی سہ العبادی تمثیلات کئی پیچیدہ عناصر پر مشتمل ہوتی ہیں: کوئی شے جیسے کوئی منظر یا کوئی خیال، جس میں جذبات بھی شامل ہوں، مع مسرت یا عدم مسرت کے کچھ احساس کے۔
[دیکھئیے: مسرت کیا چیز ہے؟]
علم الاعصاب اور بدھ مت
من اور زندگی کے ادارہ کے ۱۹۸۷ میں افتتاح سے جسے دلائی لاما اور چلی کے ماہر علم الاعصاب فرانسسکو واریلا نے قائم کیا، سائینسدانوں کی عالمی جماعتیں اور فاضل بدھ علماء من اور دماغ کے باہمی اتصال پر تحقیق کر رہے ہیں۔ ماہرین علم الاعصاب نے نو آموز اور تجربہ کار دونوں قسم کے مراقبہ کنندگان کی دماغی کاروائی کا مطالعہ کیا ہے، اور یہ دریافت کیا ہے کہ مستقل مراقبہ دماغ کی اعصابی صورت گری کو متاثر کرتا ہے اور اعصاب کے نئے تانے بانے تشکیل دیتا ہے جو ارتکاز اور مثبت جذبات جیسے درد مندی پیدا کرنے کو آسان بنا دیتے ہیں۔
اب تک مغربی سائینس دانوں اور بدھ مت کی دریافت نے ایک دوسرے کو تکمیل اور تقویت بخشی ہے، اور بودھی علماء اور نامی گرامی سائینس دانوں کے مابین باہم تعاون دلائی لاما کے اکیسویں صدی کے بدھ مت کی امتیازی خصوصیت ہے۔
بدھ مت کے نزدیک "من" سے مراد زندگی کی ذہنی کاروائی ہے۔ یہ کاروائی ہر لحظہ رو بہ تغیّر ہے اور اس کے ہمراہ کئی ایک ذہنی عناصر ہوتے ہیں۔ بدھ مت ہمیں یہ بتاتا ہے کہ ہم زندگی کے رحم و کرم پر قانع نہیں ہیں، بلکہ ہم زندگی کو بسر کرنے کے معاملہ میں با اختیار ہیں کہ ہم نے کیا کرنا ہے اور کیسے کرنا ہے۔ اپنے من کی تربیت کے ذریعہ ہم اپنے تجرباتِ حیات کو بہت بہتر بنا سکتے ہیں، اور عمل پیہم کے توسط سے یہ مثبت تبدیلی آسان ہو جاۓ گی۔