بدھ مت کی تعلیمات ہماری روز مرہ زندگی بسر کرنے کے متعلق وافر نصیحت دیتی ہیں۔ ایک نظر نیچے دیکھئیے۔
جب ہم صبح اٹھتے ہیں
صبح بیدار ہونے اور اٹھنے سے پہلے ہمیں اپنے زندہ ہونے اور نیا دن شروع کرنے پر بے حد خوش اور شکر گذار ہونا چاہئیے۔ ہم اس بات کا مصمم ارادہ کرتے ہیں کہ:
(۱) ہمارا دن با مراد ہو گا۔
(۲) اور یہ جو اپنے کو بہتر بنانے اور دوسروں کی مدد کرنے کا سنہری موقع ملا ہے اسے ضائع نہیں کریں گے۔
اگر ہم نے کام پر جانا ہے تو ہم اپنے من کی توجہ کام پر مرکوز رکھیں گے اور کار آمد ثابت ہوں گے۔ ہم اپنے ہمکاروں سے ناراض، بے صبر اور بد مزاج نہیں ہوں گے۔ ہم سب سے خوش اخلاقی سے پیش آئیں گے اور بیکار باتوں اور گپ بازی سے کسی کا وقت ضائع نہیں کریں گے۔ اگر ہم نے اپنے خاندان کی دیکھ بھال کرنی ہے تو ہم صبر کا دامن نہیں چھوڑیں گے، بلکہ پوری محبت اور شفقت کے ساتھ ان کی مادی اور جذباتی ضروریات کو حتیٰ المقدور پورا کریں گے۔
صبح کا مراقبہ
عام طور پر ناشتے سے پہلے ہم تھوڑی دیر کا مراقبہ کریں گے۔ صرف پانچ، دس منٹ کے لئیے خاموش بیٹھ کر سانس پر توجہ دینا اور توجہ مرکوز کرنا مفید ہو گا۔
[دیکھئیے: مراقبہ کیسے کیا جاۓ]
ہم اس بات پر غور کرتے ہیں کہ ہماری زندگی کس طرح ہمارے گرد لوگوں کی زندگیوں سے گتھی ہوئی ہے۔ ان کے رویّہ اور فعل کا ہم سب پر اثر ہوتا ہے، اور ہم محبت بھرے جذبات استوار کرتے ہیں: "خدا ان سب کو خوش رکھے،" اور درد مندی بھی: " خدا انہیں دکھ اور مصیبتوں سے بچاۓ۔" ہم تہیّہ کرتے ہیں کہ آج ہم دوسروں کی ہر ممکن مدد کرنے کی کوشش کریں گے، اور اگر ایسا نہ ہو سکا، تو کم از کم کسی کو نقصان پہنچانے سے گریزاں ہوں گے.
دن کے دوران من کی آگہی
دن کے دوران سارا وقت ہم اس بات کے متعلق با خبر رہتے ہیں کہ ہمارا قول، فعل، فکر اور احساس کیسا ہے۔ اس بات پر ہم خصوصی توجہ دیتے ہیں کہ کہیں پریشان کن جذبات مثلاً غصہ، لالچ، حسد، تکبّر وغیرہ تو ہمارے اندر پیدا نہیں ہو رہے۔ ہم اس بات پر نظر رکھتے ہیں کہ اگر ہم خود غرضی، لا تعلقی، یا خود ترسی اور تعصب کے زیر اثر آئیں۔ ذرا لطیف سطح پر، ہم با خبر رہنے کی کوشش کرتے ہیں جب ہم اپنے بارے میں، دوسروں کے بارے میں یا ویسے ہی عمومی طور پر بیکار قصے کہانیاں سنانے چلیں۔ ہم ان لمحات پر نظر رکھتے ہیں جب ہم یہ سوچتے ہیں کہ اس لمبی قطار میں میری باری کبھی نہیں آۓ گی، یا مجھ سے بھلا کون کبھی پیار کرے گا، اورجب ہم محض یوں سوچتے ہیں کہ "میں بیچارہ۔"
جب ان پریشان کن جذبات کی بدولت ہمارا فعل، ہماری گفتار اور فکر بے قابو ہوں تو ہم من کی آگہی کی ایک اور سطح آزماتے ہیں۔ سب سے پہلے تو ہم اپنا ہاتھ روک لیتے ہیں مبادا ہم کوئی ایسی بات کہیں یا ایسا کام کریں جس پر بعد میں پچھتاوا ہو۔ اگر ہم نے ایسا رویہ اختیار کیا ہے، تو ہم فوراً وہیں رُک جاتے ہیں پیشتر اس کے کہ ہم کوئی زیادہ بری بات کہیں یا کریں۔ اگر ہم اپنے آپ کو منفی سوچ میں گھرا ہوا پائں تو بھی ہم یہی لائحہ عمل اختیار کرتے ہیں۔ ہم شانت ہونے اور من اور جذبات کے انتشار سے نمٹنے والے تریاق کو مد نظر رکھتے ہیں، اور ان کا اطلاق کرتے ہیں حتیٰ کہ ہمیں خاطر جمعی حاصل ہو جاۓ۔
اس کی ایک مثال جس سے ہم میں سے بیشتر واقف ہیں یہ ہے کہ جب ہمارے کام پر یا گھر پر کوئی ہمیں نکتہ چینی کا نشانہ بناتا ہے یا کوئی ایسا کام کرتا ہے جس سے ہم بہت خفا ہوتے ہیں:
(۱) یاد رکھو کہ چیخنے چلانے سے کچھ نہیں ہوتا، بلکہ سانس پر ارتکاز کے ذریعہ، جیسے ہم نے صبح کیا تھا، شانت ہونے کی کوشش کرو۔
(۲) یاد رکھو کہ ہر کوئی مسرت کا متلاشی ہے نہ کہ عدم مسرت کا، مگر بیشتر لوگ الجھن میں گرفتار ہیں اور ایسا رویہ اختیار کرتے ہیں جس سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔
(۳) ان کے لئیے خوشی پانے اور خوشی کے اسباب پیدا کرنے کی تمنا استوار کرو۔
(۴) اگر وہ ہماری بات سننے کو تیار ہوں تو انہیں ان کے رویّہ کے منفی اثرات سے آگاہ کریں اور انہیں اسے ختم کرنے کو کہیں۔
(۵) اگر وہ قطعی طور پر تعاون کرنے سے عاری ہوں، تو خاموش رہیں اور اسے صبر کا ایک سبق جانیں۔ پھر بھی، اگر ہم کسی قسم کی پریشان کن صورت حال کا مداوا کر سکتے ہیں تو ہمیں کبھی بھی بے اُدمی سے کام نہیں لینا چاہئیے۔
ایک اہم کام جو ہمیں اس وقت کرنا ہے جب ہم زیر تنقید ہوں یہ ہے کہ اپنی صفائی نہ پیش کریں۔ ہمیں شانت رہ کر ایمانداری سے جائزہ لینا چاہئیے یہ دیکھنے کے لئیے کہ کیا ان کی بات درست ہے، اور اگر ایسا ہے، تو پھر ہم معافی مانگیں اور اپنا رویّہ درست کریں۔ یا جو انہوں نے کہا وہ فضول بات ہے تو اگر یہ غیر اہم معاملہ ہے تو اسے بھول جائیں۔ اور اگر یہ کوئی اہم مسٔلہ ہے تو پھر ہم ان کی شکستہ سوچ کی نشاندہی کر سکتے ہیں، مگر اس بات کا خیال رہے کہ ہمارے رویّہ میں جھوٹا انکسار یا جارحیت نہ ہو۔
[دیکھئیے: غصہ سے نبرد آزمائی کے بودھی گر]
شام کا مراقبہ
رات سونے سے پہلے ہم دن بھر کی مصروفیات سے سکون حاصل کرنے کی خاطر ایک چھوٹا سا مراقبہ، جس میں ایک بار پھر سانس پر توجہ ہو، کر سکتے ہیں۔ ہم دن بھر کے واقعات کا جائزہ لیتے ہیں اور یہ دیکھتے ہیں کہ ہم نے کس طرح ان سے معاملہ کیا۔ کیا ہم غصہ میں آ گئے یا ہم نے کوئی احمقانہ بات کہی؟ اگر ایسا ہوا تو ہم ندامت کا اظہار کرتے ہیں کہ ہمیں اپنے آپ پر قابو نہ رہا، اور پھر بغیر کسی احساس جرم کے، تہیّہ کرتے ہیں کہ کل ایسا نہیں ہو گا۔ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ جب جب ہم نے معاملات کو خوش اسلوبی اور فہم و فراست سے نبھایا ہے۔ ہم اس پر خوشی مناتے ہیں اور اس سمت میں جاری و ساری رہنے کا عزم کرتے ہیں۔ پھر ہم سو جاتے ہیں، کل کی بشارت لئیے جب ہم اپنے آپ کو مزید بہتر بنائں گے اور دوسروں کی مدد کریں گے۔ ہم اس بات پر حقیقی خوشی منا سکتے ہیں کہ ہم اپنی قیمتی زندگی کو اس قدر با معنی بنا رہے ہیں۔