بنیادی بودھی پاٹھ ہماری تین چیزوں میں مشق پر مشتمل ہے۔ ہم اپنے مسائل اور مصیبتوں پر قابو پانے کے لئیے، کیونکہ ہم اپنی فلاح و بہبود چاہتے ہیں، ان چیزوں کی مشق کر سکتے ہیں۔ یا ہم دل میں پیار اور درد مندی لئیے ہوۓ، تا کہ ہم اوروں کے لئیے زیادہ بھلائی کر سکیں، ان کی مشق کر سکتے ہیں۔ یہ تین مشقیں کیا ہیں؟
- اخلاقی ضبط نفس – تباہ کن رویہ سے پرہیز کی صلاحیت۔ اسے استوار کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ ہم تعمیری رویہ اختیار کریں۔ یہ پہلی مشق ہمارے اپنے نفس کے ضبط سے وابستہ ہے – ہم دوسرے لوگوں کو ضبط نفس نہیں سکھا رہے ہیں۔
- ارتکاز – یہ ہماری من کو مرکوز کرنے کی صلاحیت ہے تا کہ ہمارا من مختلف الںّوع خارجی خیالات میں آوارگی کا شکار نہ ہو۔ ہم اپنے من کو تیز طرار اور مرتکز بناتے ہیں نہ کہ سست۔ من کی اہلیت کے ہمراہ جذباتی استحکام بھی ضروری ہے تا کہ ہمارے من غصہ، لگاؤ، حسد وغیرہ سے مغلوب نہ ہوں۔
- امتیازی آگہی - یہ اس بات کی تمیز کی صلاحیت ہے کہ کیا اپنانا ہے اور کیا رد کرنا ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کہ جب آپ سبزی خریدنے جاتے ہیں، تو آپ امتیاز کرتے ہیں، " یہ اچھی نہیں لگتی مگر وہ والی خوب نظر آتی ہے۔" یہاں ہم رویہ کے بارے میں امتیاز کرتے ہیں – کہ کسی خاص حالات میں، اور یہ کہ ہم کس کے ساتھ ہیں – کیسا رویہ مناسب ہے اور کیسا نامناسب۔ غائرانہ سطح پر، ہم اصل حقیقت اور ہمارے محض خام تصورات کے درمیان تمیز کرتے ہیں۔
بودھی سائنس، بودھی فلسفہ اور بدھ دھرم
خواہ ہم یہ تین پاٹھ اپنے فائدے کے لئیے کریں یا دوسروں کے بھلے کے لئیے، ہم ان میں سے ہر ایک کو دو نظریوں سے جان سکتے ہیں۔ ان دونوں کا ماخوذ تقدس مآب دلائی لاما کی وہ تقسیم ہے جو وہ عام لوگوں سے خطاب کرتے وقت بیان کرتے ہیں۔ وہ بدھ مت کو تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں: بودھی سائنس، بودھی فلسفہ اور بدھ دھرم۔
بودھی سائنس سے مراد من کی سائنس ہے – یہ کیسے کام کرتا ہے، ہمارے جذبات، اور وہ جسے دلائی لاما من اور جذبات کی صفائی کہتے ہیں کیا چیز ہے۔ بدھ مت میں مختلف جذباتی حالتوں اور ان کے باہمی عمل اور وجود کا نہائت تفصیلی بیان پایا جاتا ہے۔ بودھی سائنس میں یہ بھی شامل ہے:
- استعدادِ ادراک – ہمارا مشاہدہ کیسے کام کرتا ہے، شعور کی ماہیٔت، اور ارتکاز قائم کرنے کی مختلف مشقیں۔
- آفرینش – کائنات کی ابتدا، اس کا قائم رہنا اور اس کا اختتام
- مادہ – مادہ، توانائی اور جوہری ذرات کے عمل کا تفصیلی جائزہ
- جسم کے اندر توانائی کیسے کام کرتی ہے۔
کوئی شخص بھی ان موضوعات کا مطالعہ کر سکتا ہے اور اس سے سیکھ سکتا ہے اور مستفید ہو سکتا ہے۔ دلائی لاما ان موضوعات پر اکثر سائنسدانوں سے بحث مباحثہ کرتے ہیں۔
دوسرا حصہ جو کہ بودھی فلسفہ ہے اس میں ایسی چیزیں شامل ہیں:
- اخلاقیات – یعنی انسانیت کی ایسی بنیادی اقدار مثلاً رحمدلی اور دریا دلی جن کا کسی مذہب سے منسلک ہونا لازم نہیں اور یہ کہ ان سے کوئی بھی فائدہ اٹھا سکتا ہے۔
- منطق اور ما بعدالطبیعات - نظریۂ دستہ جات، کلّی دعوے، جُزوی دعوے، مخصوصات، وغیرہ کا تفصیلی بیان، ان کا باہمی تعامل اور یہ کہ ہم انہیں کیسے جانتے ہیں۔
- علّت و معلول – علت و معلول کا تفصیلی جائزہ، حقیقت کیا ہے، اور ہمارے تصورات کس طرح حقیقت کو بگاڑتے ہیں۔
تو، بودھی فلسفہ محض بدھ مت والوں کے لئیے نہیں، بلکہ ایک ایسی شے ہے جس سے سب فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
تیسرا حصہ، یعن بدھ دھرم، بودھی پاٹھ کا حقیقی محور ہے جس میں کرم، پنر جنم، رسوم، منتر وغیرہ شامل ہیں۔ لہٰذا یہ ان لوگوں کے لئیے ہے جو بدھ دھرم کو اپناۓ ہوۓ ہیں۔
تین پاٹھ کو بطور بودھی سائنس اور بودھی فلسفے کے پیش کیا جا سکتا ہے، تا کہ وہ ہر شخص کے لئیے مناسب اور موزوں ہوں، یا انہیں ان دو اور بودھی دھرم کے ساتھ پیش کیا جا سکتا ہے۔ یہ ایک ایسا حصہ بن جاتا ہے جسے میں "دھرم-لائیٹ" اور "اصلی شے دھرم۔" کہتا ہوں۔
- دھرم-لائیٹ - اس سے مراد اس زندگی کو بہتر بنانے کے وہ طریقے ہیں جو ہمیں بودھی سائنس اور فلسفہ سے ملتے ہیں۔
- اصلی شے دھرم - اس سے مراد تین بودھی ہدف پانے کے لئیے تین پاٹھ کو اپنانا ہے: بہتر پنر جنم، پنر جنم سے مکش، اور روشن ضمیری۔
جب میں دھرم-لائیٹ کی بات کرتا ہوں، تو اس سے مراد اصلی شے دھرم کی جانب پہلا قدم ہے، کیونکہ پیشتر اس کے کہ ہم روحانی راستے پر گامزن ہوں ہمیں اس امر کا احساس ہونا ضروری ہے کہ ہمیں اپنی روز مرہ زندگی کو بہتر بنانا ہے۔ لیکن بودھی سائنس اور فلسفہ بودھی دھرم کا پیش خیمہ نہیں ہیں، لہٰذا ہم تین پاٹھ کا جائزہ لے سکتے ہیں یہ دیکھنے کے لئیے کہ ان کے استعمال سے کس طرح اپنی زندگی کو بہتر بنایا جاۓ، قطع نظر اس کے کہ ہم اسے بدھ مت کی راہ کی تمہید مانتے ہیں یا اسے عمومی طور پر استعمال کرتے ہیں۔
چار بلند و بالا سچائیاں
بودھی فلسفہ سے ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ بودھی سوچ کیسے کام کرتی ہے، جسے عام طور پر چار بلند و بالا سچائیاں کہا جاتا ہے۔ ہم انہیں زندگی کے چار حقائق کے طور پر بھی سمجھ سکتے ہیں، جس کا بیان ذیل میں درج ہے:
- زندگی کے مسائل اور صعوبتوں کے مد نظر پہلی حقیقت یہ ہے کہ زندگی مشکل ہے۔
- زندگی کی دوسری حقیقت یہ ہے کہ مسائل کے پسِ پش اسباب ہوتے ہیں۔
- تیسری حقیقت یہ ہے کہ ہم ان مسائل کو روک سکتے ہیں؛ ہمیں خموشی اختیار کرنے اور انہیں قبول کرنے کی ضرورت نہیں، ہم ان کا حل ڈھونڈھ سکتے ہیں۔
- چوتھی حقیقت یہ ہے کہ ہم مسائل کے سبب کو مٹا کر ان سے چھٹکارا پا سکتے ہیں۔ اس کے لئیے ہم فہم و فراست کی راہ پر چلتے ہیں جو ہمیں درست عمل، گفتار وغیرہ سکھاتی ہے۔
پس اگر ہمارا قول یا فعل مسائل کا سبب ہے، تو ہمیں اسے تبدیل کرنا ہو گا۔ تین پاٹھ اس مشق کا حصہ ہیں جسے ہم نے مسائل کے اسباب کو ختم کرنے کے لئیے اختیار کرنا ہے۔ یہ تین پاٹھ کو سمجھنے کا نہائت مفید طریقہ ہے، کیونکہ یہ ہمیں بتاتا ہے کہ ہم ان کی مشق کیوں کریں۔ پس اگر ہمیں زندگی میں مسائل درپیش ہیں تو ہم درج ذیل سوالات کا جائزہ لیتے ہیں:
- کیا میرے ضبط نفس، یعنی جو میرا قول و فعل ہے، اس میں کچھ خرابی ہے؟
- کیا میرا ارتکاز ناقص ہے – کیا میں بھٹکتا پھرتا ہوں، کیا میں جذباتی افرا تفری کا شکار ہوں؟
- خاص طور پر، کیا میرے حقیقت کے ادراک اور میرے احمقانہ تصورات کے درمیان امتیاز کرنے کی صلاحیت میں نقص ہے؟
ان اصولوں کو ہم اپنی موجودہ روز مرہ کی زندگی میں استعمال کرسکتے ہیں، یا ہم ان کا اطلاق آنے والی زندگیوں میں پیش آنے والے مسائل پر کر سکتے ہیں۔ ایک مبتدی کی حیثیت سے، ہمیں ان مشقوں کو اپنی روز مرہ زندگی کے آئینے میں دیکھنا چاہئیے: یہ ہماری کیسے مدد کر سکتے ہیں؟ ہمارے مسائل ہمارے کونسے کاموں سے پیدا ہو رہے ہیں؟ ہم انہیں ختم کرنے کے لئیے کیا کر سکتے ہیں؟
دکھ کا سبب
بودھی فلسفہ کی رو سے، ہمارے دکھ کا سبب ہماری عدم آگہی ہے۔ ہم خصوصاً دو باتوں کے متعلق یا تو لا علم ہیں یا پھر الجھن میں ہیں۔
پہلی بات یہ ہے کہ ہم علت و معلول کی کارگری سے ناواقف ہیں، خصوصاً اپنے رویہ کے بارے میں۔ اگر ہم غصہ، لالچ، لگاوٹ، غرور، حسد، وغیرہ جیسے پریشان کن جذبات سے مغلوب ہیں، تو ہمارا رویہ تباہ کن ہوتا ہے۔ ہم غصہ میں آ جاتے ہیں اور لوگوں پر چیختے چلاتے ہیں، ہم حسد کے زیر اثر لوگوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں، ہم لگاوٹ کے تحت لوگوں سے چمٹتے ہیں – یہ تمام عناصر ہمارے لئیے مسائل پیدا کرتے ہیں۔ چونکہ یہ جذبات ہمارے رویہ کو تباہ کن، بلکہ، اپنی ذات کے لئیے تباہ کن، بناتے ہیں، تو اس کا نتیجہ عدم مسرت ہوتا ہے۔
یہاں ایک پریشان کن جذبے کی پہچان کا بیان سود مند ہو گا۔ یہ من کی ایک ایسی حالت ہے جو جب استوار ہوتی ہے تو ہم من کا چین اور ضبط نفس کھو بیٹھتے ہیں۔ جب ہم غصہ کی حالت میں کسی پر چِلاتے ہیں، تو اس سے انہیں غصہ آ بھی سکتا ہے اور نہیں بھی۔ ہو سکتا ہے کہ وہ ہماری بات کو سنیں ہی نہیں، یا وہ ہمارا تمسخر اڑائیں یہ سوچتے ہوۓ کہ ہم بیوقوف ہیں۔ لیکن ہمارے من کا سکون یقیناً برباد ہو جاتا ہے، ہم جذباتی پریشانی کا شکار ہو جاتے ہیں، اور اکثر یہ حالت چیخنے چلانے کے بعد بھی دیر تک قائم رہتی ہے۔ یہ ایک ناخوشگوار صورت حال ہے۔ اور چونکہ ہم قابو سے باہر تھے تو ہم نے ایسی باتیں کہیں جن پر ہم بعد میں پچھتاتے ہیں۔
ہم ایسا کرتے ہیں کیونکہ:
- ہم درحقیقت علت و معلول سے نا بلد ہوتے ہیں۔ بیشتر اوقات ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں کہ پریشان کن جذبات کے اثر تلے جس قسم کا رویہ ہم اختیار کریں گے اس سے عدم مسرت پیدا ہو گی۔
- یا ہم علت و معلول کے متعلق غلط فہمی میں مبتلا ہیں اور اس کا الٹ مطلب لیتے ہیں۔ ہم اکثر یوں سوچتے ہیں، " اگر میں اس شخص پر برسوں تو میں بہتر محسوس کروں گا،" جو کہ کبھی بھی نہیں ہوتا۔ یا اگر ہم کسی سے بہت لگاؤ محسوس کرتے ہیں تو ہم یوں کہہ سکتے ہیں " تم مجھے بارہا کال کیوں نہیں کرتے یا مجھ سے ملنے اکثر کیوں نہیں آتے؟" جس سے وہ اکثر دور بھاگ جاتے ہیں، ہے نا؟ ہمارا مقصد تکمیل نہیں پاتا، کیونکہ ہم علت و معلول کے تعامل سے نا واقف ہیں۔
دوسری قسم کی عدم آگہی کا تعلق حقیقت کی پہچان سے ہے۔ چونکہ ہم حقیقت کے بارے میں الجھن میں ہیں، اس سے ہمارے اندر پریشان کن جذبات جنم لیتے ہیں۔ اس کی ایک مثال خود پرستی کی ہے جس میں ہم ہر دم اپنے ہی بارے میں سوچتے رہتے ہیں۔ یہ سوچ نہائت تعصبانہ صورت اختیار کر کے ایک مرض بن سکتی ہے جس میں ہم یہ سوچیں کہ ہمیں بےعیب ہونا ہے۔ ہمارا رویہ خواہ تعمیری ہی کیوں نہ ہو، بےعیب بننے کی کوشش میں، ہر معاملہ میں درستی کی جہد – ایسا رویہ بہت اضطراری ہو جاتا ہے۔ اس سے اگرچہ ہمیں کچھ عارضی خوشی مل سکتی ہے، لیکن یہ جلد ہی عدم تشفی میں بدل جاتی ہے کیونکہ ہم پھر بھی یہ سوچتے ہیں "مجھ میں کچھ کمی ہے،" اور یوں اپنے آپ کو بہتر سے بہترین بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔
چلئیے ہم کسی صفائی پسند خبطی کی مثال لیتے ہیں – جو گھر کی صفائی کے معاملہ میں کمال پسند ہے۔ وہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہوتے ہیں کہ انہیں ہر چیز پر پورا اختیار ہے اور وہ گھر کو مکمل طور پر صاف ستھرا رکھ سکتے ہیں۔ یہ ناممکن ہے! آپ نے ہر چیز صاف کی، اسے بہترین صورت دی، آپ اچھا محسوس کر رہے ہیں، اور پھر بچے گھر آگئے اور سب الٹ پلٹ ہو گیا؛ آپ عدم اطمینانی کا شکار ہوۓ اور اب سب کچھ پھر سے صاف کرنا ہے۔ اس طرح یہ رویہ اضطراری ہو جاتا ہے۔ اور جب بھی آپ کو تھوڑی سی خوشی محسوس ہوتی ہے،" آہا، اب سب کچھ صحیح ہے" – تو یہ احساس جلد ہی مِٹ جاتا ہے۔ ہمیشہ کوئی نہ کوئی داغ دھبہ ایسا ہوتا ہے جو آپ کی نظر سے بچ نکلا!
من کی ان حالتوں کا اعادہ کرنے سے، خواہ یہ کوئی پریشان کن جذبہ ہو یا رویہ، اور اس قسم کے اضطراری رویہ کو بار بار دوہرانے سے، ہمیں جو ملتا ہے اسے "ہمہ گیر و ہمہ وقت آزار" کہتے ہیں۔" اس سے مراد یہ ہے کہ ہم کس طرح اپنی عادتوں کو استوار کرتے ہیں کہ وہ ہمارے مسائل کو استقلال بخشیں۔
اس کا اثر ہمارے ذہن پر ہی نہیں ہوتا بلکہ ہمارا جسم بھی اس سے متاثر ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر ہم ہر وقت غصے میں رہیں تو ہمارا خون کا دباؤ بڑھ سکتا ہے، اور فکر مند رہنے سے ہمیں پیٹ میں رسولی ہو سکتی ہے، وغیرہ وغیرہ۔ یا اگر آپ کو صفائی کا خبط ہے تو آپ کے لئیے شانت ہونا مشکل ہے۔ آپ ہر وقت تناؤ محسوس کرتے ہیں کیونکہ آپ کے نزدیک ہر شے بالکل درست ہونی چاہئیے، مگر ایسا کبھی نہیں ہوتا۔
ہمارے مسائل کے اسباب کو مٹانے میں تین پاٹھ کیسے معاون ہوتے ہیں
ہمیں در حقیقت تین پاٹھ کی ضرورت ہے:
- ہمیں اپنی الجھن سے نجات پانے کے لئیے امتیازی آگہی درکار ہے۔ مثلاً کسی صفائی پسند خبطی کے معاملہ میں، جس کا خیال خام یہ ہے کہ " ہر شے ہر وقت بے عیب اور صاف شفاف ہونی چاہئیے اور ہر شے پر میرا اختیار لازم ہے،" تو اس کی بجاۓ آپ یوں سوچتے ہیں " گھر نے گندے تو ہونا ہی ہے، اس پر کسی کا اختیار نہیں۔" تو آپ مطمٔن ہو جاتے ہیں، اور ہاں، گھر تو آپ نے صاف کرنا ہی ہے، مگر آپ اسے اپنے اوپر طاری نہیں کر لیتے۔ روائتی صحیفوں میں تیز کلہاڑی سے درخت کاٹنے کی مثال دی جاتی ہے۔
- اس کلہاڑی سے درخت کاٹنے کے لئیے ہمیں ایک ہی جگہ بار بار کلہاڑی چلانی ہے، جسے ارتکاز کہتے ہیں۔ اگر ہمارا من انتشار کا شکار ہے، تو ہم امتیازی آگہی کھو بیٹھتے ہیں۔ پس ہماری کلی توجہ نہائت ضروری ہے تا کہ ہم ہمیشہ ایک ہی جگہ پر کلہاڑی ماریں۔
- کلہاڑی چلانے کے لئیے طاقت درکار ہے۔ اگر آپ کے پاس قوت نہیں، تو آپ کلہاڑی اٹھا بھی نہیں پائیں گے، اور یہ قوت اخلاقی ضبط نفس سے آتی ہے۔
اس طرح ہم جان سکتے ہیں کہ کس طرح تین پاٹھ ہمارے مسائل کے اسباب کو ختم کرنے میں مددگار ہو سکتے ہیں۔ ہم مندرجہ بالا تمام باتوں پر بغیر بدھ مت کا حوالہ دئیے عمل کر سکتے ہیں، پس یہ سب کے لئیے موزوں ہے۔ پیشتر اس کے کہ ہم پیش قدمی کریں، آئیے جو اب تک ہم نے سیکھا ہے اسے بخوبی سمجھیں:
- ہم خام خیالی اور حقیقت میں تفریق کرنے کی خاطر امتیازی آگہی سے کام لیتے ہیں، تا کہ ہم اپنے رویہ میں اسباب اور ان کے اثرات کو سمجھ سکیں۔ جب ہم امتیازی آگہی سے عاری ہوتے ہیں، تو ہمارا رویہ عدم مسرت پیدا کرتا ہے، یا ایسی مسرت جو کبھی بھی اطمینان بخش نہیں ہوتی۔
- اس بات کو صحیح طور پر سمجھنے کے لئیے ہمیں اعلیٰ ارتکاز کی ضرورت ہوتی ہے تا کہ ہماری توجہ مرکوز رہے۔
- اعلیٰ ارتکاز قائم کرنے کے لئیے ہمیں ضبط نفس درکار ہے تا کہ جب ہمارا من بھٹک جاۓ تو ہم اسے واپس لا سکیں۔
- ہمیں ان تین پاٹھ کا اطلاق کرنا ہے، تا کہ ہم اپنے مسائل سے نمٹ سکیں اور اپنی زندگی کو بہتر بنا سکیں۔
اس سب سے سیکھنے والی کام کی بات یہ ہے کہ ہماری مسرت اور بےاطمینانی ہماری اپنی غلط فہمی کا نتیجہ ہوتی ہے۔ اپنے مسائل کی ذمہ داری دوسروں پر یا معاشرے اور معیشت پر ڈالنے کی بجاۓ ہم ذرا گہرائی میں نظر ڈالتے ہیں۔ ہم اپنے من کی حالت کا جائزہ لیتے ہیں جو ان احوال سے نبرد آزما ہوتی ہے۔ ہمیں بہت ساری مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے، مگر یہاں ہم عام عدم مسرت اور عارضی خوشی کی بات کر رہے ہیں۔ ہمارا ہدف اس سے اونچا ہونا چاہئیے، ایک ایسی خوشی کی تمنا جس میں من کا سکون، استحکام اور استقلال شامل ہوں۔
جب ہمیں مصائب کا سامنا ہوتا ہے، تو ہم نہائت پریشان اور آزردہ حال ہو سکتے ہیں۔ یا ہم ان کا مقابلہ پرسکون من کے ساتھ کر سکتے ہیں کیونکہ ہم صورت حال کو صاف صاف دیکھ رہے ہیں، اس میں کیا کچھ شامل ہے اور یہ کہ اس سے نمٹنے کے طریقے موجود ہیں، بجاۓ اس کے کہ ہم بیٹھے اپنے اوپر ترس کھاتے رہیں۔
اُس صورت حال کے بارے میں سوچیں جب آپ کا بچہ رات کے وقت باہر جاۓ اور آپ سخت پریشان ہوں، " کیا وہ خیریت سے گھر واپس لوٹے گا؟" ہمارے خوف اور پریشانی کا ماخوز ہماری یہ سوچ ہے کہ " کسی صورت مجھے اپنے بچے کے تحفظ پر اختیار ہونا چاہئیے،" جو کہ یقیناً خام خیالی ہے۔ جب وہ صحیح سلامت گھر واپس آ جاتا ہے تو آپ خوش اور مطمٔن ہو جاتے ہیں، لیکن جب اگلی بار وہ باہر جاتا ہے تو آپ پھر سے فکرمند ہوتے ہیں۔ یعنی وہ طمانیت کا احساس زیادہ دیر تک قائم نہیں رہتا، ہے نا؟ اور اگر ہم ہر وقت پریشان رہیں تو یہ احساس اور بڑھتا ہے – ہم اس کی ایسی عادت ڈال لیتے ہیں کہ ہم ہر چیز کے بارے میں فکرمند رہتے ہیں – اس سے ہماری صحت پر برا اثر پڑتا ہے۔ یہ بڑی خراب صورت حال ہے۔
اصل بات اس چیز کو سمجھنا ہے کہ اس سب کا سبب ہماری غلط فہمی ہے۔ ہم سوچتے ہیں کہ بعض اطوار ہمیں مسرت دیں گے، یا یہ کہ ایسا رویہ جس سے سب کچھ ہمارے اختیار میں ہو درست رویہ ہے، مگر ایسا نہیں ہے۔ ہم یوں سوچتے ہیں " یہ فضول بات ہے!" اور اسی پر قائم رہتے ہیں۔
خلاصہ
جب ہم زندگی کے چار حقائق پر غور کرتے ہیں، تو یہ جان کر ہمارا حوصلہ بڑھتا ہے کہ ہمارے مسائل اور منفی جذبات ساکت نہیں ہیں بلکہ انہیں بہتر بنایا جا سکتا ہے، اور اس سے بھی بڑھ کر یہ بات کہ ان کا مکمل طور پر انسداد کیا جا سکتا ہے۔ جب ہم مصائب کے اسباب سے نبرد آزما ہوتے ہیں، تو مصائب کا وجود ختم ہو جاتا ہے، البتہ یہ اسباب خود بخود غائب نہیں ہو جاتے۔
زندگی گزارنے کا نہائت عمدہ طریقہ اخلاقیات، ارتکاز اور امتیازی آگہی کے تین پاٹھ میں پوشیدہ ہے۔ یہ ہمیں اس شے یعنی مسرت، جس کے ہم ہمہ وقت متلاشی رہتے ہیں، دلانے کے لئیے مل کر بیک وقت کام کرتے ہیں۔