باہمی جان کاری براۓ مذہبی ارتباط

 غیر بودھی ممالک کے مکین لوگوں سے بدھ فلسفہ کے متعلق بات کرنے میں مجھے بہت خوشی محسوس ہوتی ہے۔ یہ باہمی مفاہمت استوار کرنے کے لئیے اہم عنصر ہے۔ باہمی مفاہمت اس لئیے ضروری ہے کیونکہ ہم سب اس ایک کرہ ارض پر مقیم ہیں اور ہمارے کئی مذاہب ہیں۔ اب ان بے شمار مسالک کے بارے میں معلومات میسر ہیں۔ ماضی میں جب لوگ ایک دوسرے سے الگ تھلگ رہتے تھے، تب ایک سچائی، ایک دھرم کا ہونا ٹھیک تھا، اور یہ اچھی بات تھی۔ یہ ان کے لئیے موزوں تھا۔ مگر آج کے دور میں ہمارا طرز معاشرت اس امر  پر دلالت کرتا ہے کہ ہم باہمی روابط قائم کریں، اور ہم ایسا کرتے ہیں۔ ایسے دور میں، بعض اوقات کسی ایک شخص کے لئیے ایک مذہب، ایک سچائی میں ایمان بہت فائدہ مند ہو سکتا ہے۔ اس شخص کے لئیے ایسا یک طرفہ مسلک استوار کرنا مفید ہے۔ لیکن ایک وسیع تر معاشرے کے تصور کے طور پر ہمیں متعدد حقائق کے تصور کو پروان چڑھانا ہے۔ یہ حقیقت ہے۔ گزشتہ کئی صدیوں کے دوران کئی مذاہب نے جنم لیا اور کئی سچائیاں سامنے آئیں۔ لہٰذا، متعدد ادیان اور حقائق کا تصور استوار کرنے کی خاطر، دوسرے مذاہب کے بارے میں جان کاری حاصل کرنا فائدہ مند ہے۔

جہاں تک میرا تعلق ہے، تبت میں، مسلمان، تبتی مسلمان، وہاں کئی صدیوں سے آباد ہیں۔ تو ہم اسلام کے وجود سے باخبر تھے، لیکن ان کے اعتقادات کے بارے میں خاص سنجیدگی سے بات چیت نہیں ہوئی۔ ہم سوچتے تھے کہ ہمارا مذہب یعنی بدھ مت سب سے اچھا مذہب ہے۔ لیکن ہندوستان آنے پر کئی ایک مذاہب پیش نظر آۓ، مختلف لوگ، تو ہم نے مختلف ادیان کے متعلق بحث مباحثہ شروع کیا۔ میں نے عیسائیت، اسلام، ہندو مت، سکھ دھرم، جین مت، زرتشت دین، اور صوفی مسلک کی باہمی تفریق کے متعلق جان کاری حاصل کی۔ ان مختلف مذاہب کے لوگوں سے میل جول بڑھا ہے۔ باہمی احترام پیدا کرنے کی خاطر ان کے متعلق معلومات حاصل کرنا بہت مفید ثابت ہوا ہے۔ یہ مذہبی ارتباط کی بنیاد ہے۔ اسی وجہ سے جب لوگ مجھے بدھ مت کی بنیادی تعلیمات کے متعلق سوال کرتے ہیں، تو میرا خیال انہیں مذہب تبدیل کرنے کی بجاۓ انہیں معلومات فراہم کرنے پر مرتکز ہوتا ہے۔

کچھ  بدھ بھکشو اور بھکشونیوں نے کئی ہفتے عیسائی خانقاہوں میں گزارے ہیں، اور انہوں نے عیسائی دھرم کی قدر و قیمت کے بارے میں سیکھا ہے۔ میں ان سے کہتا ہوں کہ ہم بودھی بھکشو اور بھکشونیوں کو سماجی خدمت، تعلیم اور صحت کے معاملات پر زیادہ توجہ دینی چاہئیے جو کہ عیسائی راہب کرتے ہیں۔ عیسائی بھائیوں اور بہنوں نے تعلیم اور صحت کے شعبہ میں بہت خدمت کی ہے، ہمیں بھی انسانیت کی بھر پور خدمت کرنی چاہئیے۔ دوسری جانب، بعض اوقات تبلیغ کے کام سے مسائل بھی پیدا ہوۓ ہیں۔ ہم دوسرے مذاہب سے کئی کام کی باتیں سیکھ سکتے ہیں اور آپ بھی جو مختلف دین پر ایمان رکھتے ہو ہم سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔

بدھ مت ہندوستان کے قدیم مذاہب میں سے ایک ہے۔ ہندوستان میں ۳،۰۰۰ برس کے دوران لا دینیت کا تصور ابھرا ہے۔ اس کا مطلب مذہب کی بے حرمتی نہیں ہے بلکہ تمام مذاہب کی تحریم و تکریم ہے جس میں غیر دینی لوگ بھی شامل ہیں۔ زمانہ قدیم کے لا وجودیت کے ماننے والے، چرواک، مستقبل کی زندگی پر ایمان نہیں رکھتے تھے؛ وہ کسی بھی روحانیت کے قائل نہ تھے؛ لیکن لا دینیت کے مطابق ان عدم تیقن رکھنے والے لوگوں کو بھی آدر دینا لازم ہے۔ بدھ مت اس قسم کے ماحول میں پروان چڑھا، تو بدھ مت بھی مختلف نظریات رکھنے والے مختلف لوگوں کو قابل عزت سمجھتا ہے۔  اسی لئیے مہاتما بدھ نے مختلف فلسفیانہ نظریوں کا درس دیا، کیونکہ اس کے اپنے چیلوں میں ایسے لوگ بھی تھے جو مختلف نظریات کے حامل تھے۔ بعض نظریات اور فلسفیانہ نقاطِ نظر کے درمیان باہمی تنقیض پائی جاتی ہے، کیونکہ اس کے چیلے متفرق ذہنی مزاج رکھتے تھے، تو ایک نکتۂ نظر سب کے لئیے فائدہ مند نہیں ہو سکتا تھا۔ پس اس کا مطلب یہ ہے کہ مہاتما بدھ مختلف انفرادی نظریات کی تحریم کا لحاظ رکھتے ہوۓ ان کے مزاج کے مطابق درس دیتا۔ یہ اس امر کی واضح علامت ہے کہ حتیٰ کہ بے دین لوگوں کو بھی انسانیت کی بنا پر بطور بھائی بہنوں کے عزت اور قبولیت بخشنا بدھ مت کا شعار ہے۔ لہٰذا پریشان کن جذبات سے نبرد آزمائی کے لئیے بدھ مت کا ہمارے من کے متعلق علم اور بے دین لوگوں کے بارے میں ہمارے جذبات بھی فائدہ مند ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میں یہاں بدھ مت کے متعلق درس دینے میں خوشی محسوس کرتا ہوں جہاں دوسرے مذاہب کے پیرو کار اور بے دین لوگ دونوں ہی موجود ہیں۔

ہم انسانوں نے اپنی زندگی کا آغاز اس کرہ ارض پر کیا اور پھر ہماری فہم و فراست میں افزائش کے توسط سے بعض نظریات نے جنم لیا جو ایسے موقعوں پر ہماری مدد کرتے ہیں جب ہم زندگی میں مشکلات سے دوچار ہوتے ہیں اور اپنے آپ کو بے بس پاتے ہیں۔ ہمیں بعض نظریات اور تصورات کو استوار کرنے کی ضرورت تھی جن سے کہ لوگ امید کو قائم رکھ سکیں اور اس سے ایمان ارتقا پذیر ہوا: اس بات پر ایمان کہ مشکل حالات میں بھی کچھ امید قائم رہے۔

گزشتہ پانچ ہزار برس میں مختلف جگہوں پر لوگوں نے مختلف مذاہب تشکیل دئیے۔ امید قائم رکھنے کے لئیے ایمان بہت ضروری ہے؛ اور آہستہ آہستہ یہ ایمان بہ شمولیت دلائل کے فلسفیانہ نظریات میں ڈھل گیا جس سے ایمان کو تقویت ملی۔ پھر اس کی بنیاد پر، مختلف مذاہب جن کی بنیاد متفرق نظریات تھے نے جنم لیا۔ اس سے ہمیں دنیا کے بڑے بڑے مذہبی نظام ملے۔

گزشتہ چند ہزار برس کے دوران ہم نے اپنی ساری امیدیں مذہب سے وابسطہ کر دیں، مگر پچھلے تین سو سال میں پھر سے انسانی عقل نے حقیقت کو دریافت کرنے کے مزید بنیادی طریقے نکال لئیے ہیں۔ پس جدید سائنس ظہور میں آئی، اور پھر اس سے جدید ٹیکنالوجی ایجاد ہوئی۔ ٹیکنالوجی ہمیں ہماری مطلوبہ شے فوراً مہیا کر دیتی ہے، اور اس طرح انسانیت نے مادہ پرستی میں دلچسپی لینا شروع کی۔ اس وجہ سے، بہت سے لوگ خدا اور مذہب میں دلچسپی کھو بیٹھے ہیں۔

ہم دیکھتے ہیں کہ آجکل جو لوگ حضرت عیسیٰ یا کسی اور خدا یا خداؤں پر ایمان رکھتے ہیں، حتیٰ کہ مہاتما بدھ کو ماننے والے بھی، اپنے آپ کو دھرم کے بندے گردانتے ہیں، جیسا کہ یہ بدھ مت کے پیرو کاروں میں بھی ہے، مگر زندگی کے حقیقی مسائل کے سلسلہ میں وہ اس بات کی کچھ خاص پرواہ نہیں کرتے کہ خود ان کا دین کیا کہتا ہے۔ دولت اور طاقت حاصل کرنے کی خاطر یہ لوگ دنیاوی طریقے جیسے دروغ گوئی سے کام لیتے ہیں اور لوگوں کو ڈراتے دھمکاتے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے دین ایمان کے متعلق سنجیدہ نہیں ہیں۔ لوگوں کے اس طبقہ میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ لہٰذا ایسے لوگ جو اس طرح مذہب کا ڈھونگ رچاتے ہیں میں انہیں بے دین سمجھتا ہوں۔

سچا دیندار وہ ہے جو دن میں ۲۴ گھنٹے پیار اور درد مندی کا پاسباں ہو۔ جہاں تک اپنی ذات سے محبت کا معاملہ ہے تو وہ تو جانوروں میں بھی ہوتی ہے۔ مگر حقیقی پیار وہ ہے جو دوسروں کی بھلائی کے بارے میں احساس و فکر پیدا کرے۔ جس شخص کا مدعا یہ ہو اس کے لئیے جھوٹ، دھوکہ دہی یا دھمکی دینے کی گنجائش نہیں رہتی۔ ہم اپنا مقصد پانے کی خاطر کیسے کوئی غلط حربہ استعمال کر سکتے ہیں؟ جو ایسا کرتے ہیں میں انہیں بے دین سمجھتا ہوں، یا ایسے لوگ جو دین کے معاملہ میں سنجیدہ نہیں ہیں۔ بعض لوگ مذہب کو کھلم کھلا برا کہتے ہیں کیونکہ بہت سارے نام نہاد دھرم کے بندے اس کی تعلیمات پر عمل نہیں کرتے۔ اس لئیے ہمیں روحانی اقدار کی افزائش کے لئیے کچھ محنت درکار ہے – خواہ ہم ایمان رکھتے ہیں یا نہیں رکھتے – یہ ایک صحیح سائنسی طریقہ ہے۔

ایسا کرنا ممکن ہے۔ دو عناصر سے اس کا پتہ ملتا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ایسے بہت سارے لوگ ہیں جنہیں دنیا کی ہر آسائش میسر ہے، لیکن بطور ایک انسان، ان کے من کی گہرائیوں میں کسی چیز کی کمی ہے۔ وہ خوف، ڈر اور پریشانی کا شکار ہیں، اور اس لئیے ناخوش ہیں، وہ تنہا محسوس کرتے ہیں۔ ان لوگوں کو آخر کار مادی اقدار کی نا پائداری کا احساس ہوتا ہے۔ انہیں سمجھ آتی ہے کہ محض اس سے اندرونی شکتی یا پُر مسرت، شانت من نہیں ملنے والا۔

دوسری بات یہ ہے کہ گزشتہ دو یا تین سو سالوں میں سائنس نے بہت ترقی کی ہے۔ سائنسی تحقیق حقیقت کی متلاشی ہے۔ وہ حقیقت کی چھان بین کر رہے ہیں۔ سچے سائنسدان وسیع النظر ہوتے ہیں۔ وہ مائل بہ تشکیک ہوتے ہیں، اور وہ تحقیق کرتے ہیں۔ بدھ مت بھی تشکیک پر زور دیتا ہے؛ شک سے سوال اٹھتے ہیں جس سے تحقیق ہوتی ہے اور جواب تلاش کئیے جاتے ہیں۔ لہٰذا تشکیک فائدہ مند ہے بشرطیکہ یہ وسیع النظر ہو۔ پس سائنسی تحقیق حقیقت کو پا لیتی ہے۔

پھر بیسویں صدی کے اواخر میں جدید سائنس نے دماغ، ذرات اور مادے پر تحقیق پر زور دیا، اور خاص طور پر طبی سائنس کے ماہرین دماغ نے محسوس کیا ہے کہ انسانی صحت کے لئیے جذبات نہائت اہم ہیں۔ ہمارے جذبات، ہمارے دماغ کی کار کردگی اور جو ہمارے جسم کا رد عمل ہوتا ہے ان سب میں گہرا تعلق ہے۔ بعض سائنسدانوں کے مطابق جب ہم خوف زدہ ہوتے ہیں تو دوران خون ٹانگوں کی جانب زیادہ تیز ہو جاتا ہے اور اس طرح ہمیں بھاگنے کے لئیے تیار کرتا ہے۔ جب ہم غصہ میں ہوتے ہیں تو خون کی گردش ہاتھوں کی جانب تیز ہو جاتی ہے، تا کہ ہم لڑنے اور اپنا دفاع کرنے کے لئیے تیار ہو جائں۔ تو اس طرح جذباتی اور حیاتیاتی عناصر باہم ایک دوسرے کے محتاج ہیں۔ بعض اوقات کسی طبیعی فعل سے جذبات میں ہیجان پیدا ہوتا ہے، اور بعض اوقات جذبات کوئی جسمانی رد عمل پیدا کرتے ہیں۔ اس بنا پر دماغ کے ماہر لوگ آجکل جذبات میں بہت دلچسپی لے رہے ہیں اور یہ کہ یہ کیسے جنم لیتے ہیں۔

جذبہ من کا حصہ ہے۔ کچھ سائنسدان اس پر تجربات کر رہے ہیں: وہ لوگوں کو، بلکہ بچوں کو بھی، من کی آگہی اور درد مندی کی تربیت دیتے ہیں۔ تربیت سے پہلے وہ ان کا بلڈ پریشر اور تناؤ کے ہارمون کو چیک کرتے ہیں، اور پھر تین چار ہفتوں کے بعد انہیں دوبارہ چیک کرتے ہیں۔ انہوں نے دیکھا کہ اس تربیت سے بلڈ پریشر اور تناؤ کم ہوا ہے۔ طالب علموں نے یہ بھی محسوس کیا کہ ان کی قوتِ ارتکاز میں اضافہ ہوا اور ان کے سماجی تعلقات زیادہ پر سکون اور دوستانہ ہو گئے ہیں۔ چنانچہ امریکہ میں بعض دانش گاہیں، اور ہندوستان میں بھی چند ایک، کچھ تجرباتی منصوبوں پر کام کر رہی ہیں۔ تو اب بیسویں صدی کے اواخر سے لے کر اور اکیسویں صدی کے اوائل میں سائنس کی دنیا نے جذبات اور دماغ پر زیادہ تحقیق شروع کر دی ہے۔

کئی ہزار برس میں مذاہب نے بھی من سے معاملہ کیا ہے۔ تمام ادیان محبت، روا داری، درد مندی اور ذاتی ترقی کا سبق دیتے ہیں؛ ان سب کا تعلق من سے ہے۔ ایمان بھی من کی سطح پر قائم ہے۔ مرتکز عقیدہ اندرونی شکتی اور کسی قسم کی مسرت دیتا ہے۔ بڑے مذاہب میں دو طبقات ہیں۔ ایک تو الوہی ہے، وہ ایک خالق خدا پر ایمان رکھتے ہیں، ایک مطلق ابدی قسم کا خدا؛ یہ خدا یہودیت، عیسائیت، اور اسلام میں ملتا ہے، اور کئی ہندو بھی اس میں ایمان رکھتے ہیں۔ دوسرا گروہ وہ ہے جو جین مت، بدھ مت اور سمکھیا کے ایک گروپ پر مشتمل ہے جو ایک خالق خدا کے تصور کو قبول نہیں کرتے۔ لہٰذا خدا بطور خالق کائنات کا تصور موجود نہیں ہے؛ حالات و واقعات اپنے اسباب کے تابع ہیں۔ ہندوستان کے یہ تین مذاہب علت و معلول کے قائل ہیں جیسا کہ ڈارون کے نظریات: ہر شے اسباب اور اثرات کے اصول کے تحت وقوع پذیر ہوتی ہے، بغیر کسی خالق کے۔

الٰہیاتی مذاہب یہ مانتے ہیں کہ خدا نے ہر چیز پیدا کی، خصوصاً انسان، لہٰذا وہ ہمارا حقیقی باپ ہے۔ ایسے پکے عقیدے سے وہ خدا جو کہ خالق ہے کی فرمانبرداری کرتے ہیں۔ اس سے اپنی ذات پر مرتکز تعلّی کمزور پڑ جاتی ہے۔ " میں خدا کی مخلوق ہوں، پس میرا کام خدا کی اطاعت کرنا ہے۔"

عبادت خدا کی خدمت کا حصہ ہے، مگر خدا کی خدمت کا اصل مقصد اپنی ہم نسل مخلوق سے محبت کرنا ہے۔ پس، الوہی مذاہب کم و بیش ایک ہی بات یعنی نرگسیت کو کم کرنا اور انسانوں کی بے لوث خدمت کرنا سکھاتے ہیں۔ بدھ مت اور جین مت بھی نرگسیت اور تکبّر کو کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بدھ مت کے پیرو کار اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ایک خود مختار، ٹھوس وجود کے حامل نفس کا وجود محال ہے؛ یہ "میں" یا "نفس" محض ایک ضمنی شے ہے۔ اس سے انسان کی اپنی ذات کی حد سے زیادہ اہمیت کم ہوتی ہے۔ تو لہٰذا طریقے مختلف ہیں مگر ان کا مقصد ایک ہی ہے: نرگسیت کم کرنا اور بے لوث خدمت کے جذبہ میں اضافہ کرنا۔

اگر ہم قدیم بھارت کے بدھ دھرم کو دیکھیں، خاص طور پر نالندا پنتھ کو، تو ہم دیکھتے ہیں کہ ان کی لکھت میں ہمیشہ متفرق فلسفیانہ نظریات کا ذکر ملتا ہے۔ بعد کے وقتوں کے بودھی صحیفے یہ فرض کر لیتے ہیں کہ سب سامعین بودھی ہیں، تو میرے خیال میں ہمیں بھارتی روائت کی جانب رجوع کرنا چاہئیے۔ اس وقت وہاں بے شمار مسلک تھے اور وہ مختلف نظریات کا تجزیہ کرتے اور بعض اوقات ان پر بحث مباحثہ کرتے تھے۔ مگر آٹھویں یا نویں صدی سے تبت میں اکثریت بدھ مت کے ماننے والوں کی ہو گئی، لہٰذا ان مختلف فلسفیانہ نظریات پر بحث بے معنی ہو گئی۔ مگر اب، تبت سے باہر، اتنے بے شمار مختلف مذاہب اور نظریات پاۓ جاتے ہیں کہ ہمارے لئیے ان کے متعلق جان کاری ضروری ہو گئی ہے تا کہ درست فہم کے ساتھ ہم باہمی ارتباط پیدا کریں، اور اس سے باہمی احترام اور مذہبی ہم آہنگی پیدا کریں۔

Top