دورِ جدید میں مذہب کی اہمیت

میں آج آپ سے عہد جدید میں مذہب کی معنویت پر گفتگو کرنا چاہتا ہوں۔ ہم میں سے ہر شخص فطری طور پر شعورِ نفس رکھتا ہے، اپنے نفس کو محسوس کرتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ خوشی، تکلیف یا بے گانگی کے احساس کے ساتھ ان مظاہر اور اشیاء کا تجربہ رکھتا ہے جنہیں جانا جا سکتا ہے۔ یہ تو سامنے کی بات ہے اور اس کے لیے یہ پوچھنے کی ضرورت نہیں کہ ایسا کیوں ہے۔ یہ چیز جانوروں میں بھی موجود ہے۔ از روئے فطرت ہم سب خوش رہنا چاہتے ہیں اور دکھ اور نا خوشی کو پسند نہیں کرتے۔ اسے ثبوت کی ضرورت نہیں۔ اس بنیاد پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہر شخص کا حق ہے کہ خوشی سے زندگی گذارے اور دکھ سے بچ کر رہے۔

دکھ اور مزے کی دو قسمیں ہیں۔ ایک وہ جس کا تعلق جسمانی اور محسوس ہونے والے تجربات سے ہے اور دوسری وہ جو ذہنی سطح کی چیز ہے۔ محسوسات کی سطح تو پانچ حواس رکھنے والے ممالیہ جانداروں کی ساری انواع میں مشترک ہوتی ہے۔ کچھ جانوروں میں ذہنی سطح بھی ہوتی ہے۔ لیکن چونکہ انسانوں میں زیادہ نفیس اور بہتر ذہانت ہوتی ہے لہذا ان کی یادداشت بھی دیر تک کام کرتی ہے اور وہ مستقبل کے بارے میں بھی سوچتے ہیں۔ یہ جانوروں سے زائد ایک چیز ہے۔ اسی لیے انسانوں میں ذہنی لذت اور آسودگی یا ذہنی تکلیف بھی ہوتی ہے اور امید، توقع اور خوف بھی۔ پس جسمانی خوشی، تکلیف اور ذہنی خوشی اور نا خوشی الگ الگ چیزیں ہیں۔ ایسا ہوتا ہے کہ جسم تکلیف میں ہو لیکن ذہن خوش ہے اور بعض اوقات جسم تو ٹھیک ہوتا ہے مگر ذہن پر پریشانی اور بے اطمینانی سوار ہوتی ہے۔

جسمانی معاملات کا تعلق جسمانی سہولتوں سے ہے یعنی خوراک، لباس، رہنے کا ٹھکانہ، اچھا منظر، آواز، خوشبو، ذائقے، جسمانی احساسات اور مادی سہولتیں۔ کچھ لوگ بہت دولت مند ہوتے ہیں۔ ان کو شہرت بھی ملتی ہے، تعلیم، عزت و احترام اور بہت سے دوست بھی ملتے ہیں۔ اس کے باوجود شخصی طور پر وہ بہت ناخوش رہتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مادی آسائش اور سہولتیں ذہنی آرام اور تسکین دلانے میں ناکام رہتی ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر کئی باتوں کا دباؤ ہے، پریشانیوں، مقابلے کی دوڑ، حسد، نفرت، لاگ لگاؤ نے گھیر رکھا ہے۔ یہ سب ذہنی نا خوشی اور بے اطمینانی پیدا کر دیتے ہیں۔ مزید برآں کچھ چیزیں جسمانی اور مادی بہبود اور آسائش کے بس سے باہر ہوتی ہیں۔ اگر ہم اپنے اندر کی سطح کو بھلا دیں تو شاید زندگی میں خوشی نہ رہے۔ مالدارمعاشرے ساری مادی آسائشیں رکھتے ہیں لیکن وہ یہ ضمانت نہیں دے سکتے کہ اس معاشرے کے لوگوں کے ذہن بھی خوش، پر سکون اور مطمئن ہیں۔ اسی لیے ہمیں کوئی ایسا طریقۂ کار درکار ہے جس سے ذہنی سکون حاصل ہو سکے۔

عام طور پر مذہب ایک ایسا وسیلہ ہوتا ہے جس سے کسی دین کو ماننے کی وجہ سے ذہنی سکون، آسودگی، ذہنی آرام میسر آجاتا ہے۔ بہت سے لوگ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ ذہنی سکون پانے کا سیکولر بھی کوئی راستہ ہونا چاہیے لیکن اس پر گفتگو میرے عام خطاب میں کروں گا۔ اب اگر ہم ایمان کی بنیاد پر ذہنی سکون پانے کے راستے کی بات کرتے ہیں تو یہ کہنا ہوگا کہ مذہب دو طرح کے ہوتے ہیں، ایمان فلسفے کے ساتھ اور ایمان بلا فلسفہ۔

پرانے زمانے میں لوگ امید اور ذہنی آرام پانے کے لیے اس وقت مذہب کا استعمال کرتے تھے جب انہیں کسی مشکل صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا تھا، ایسے مسائل کا جو ان کے بس سے باہر ہوتے تھے، اور ہر طرف سے نا اُمیدی ہو جاتی تھی۔ اس طرح کے حالات میں دین و ایمان کچھ نہ کچھ سہارا اور امید فراہم کرتا تھا۔ مثال کے طور پر، رات میں خطرناک جانوروں کا ڈر ہے اس لیے رات میں خوف بڑھ جاتا ہے۔ روشنی ہو تو ہمیں زیادہ تحفظ کا احساس ہوتا ہے۔ روشنی کہاں سے آتی ہے، سورج سے، اس لیے سورج ایک مقدس چیز ٹھہرا اور کچھ لوگ سورج کی پوجا کرنے لگے۔ سردی لگ رہی ہو تو آگ سے راحت ملتی ہے سو کچھ لوگ آگ کو بہت اچھی شے سمجھنے لگے۔ کبھی آسمانی بجلی کے کوندے سے بھی آگ لگ جاتی ہے جو ایک پر اسرار شے ہے۔ پس آگ اور بجلی کا کوندا دونوں مقدس ٹھہرے۔ یہ سب زمانۂ قدیم کے مذہب ہیں جن کا کوئی فلسفہ نہیں۔

مذ ہب کی ایک قسم میں مصر کے معاشرے کو شامل کیا جا سکتا ہے۔ میں اس کے بارے میں نہیں جانتا۔ مصری تہذیب ، چھ ، سات ہزار سال پرانی ہے اور اس کا ایک مذہب تھا۔ قاہرہ کی ایک یونیورسٹی میں میں نے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اگر میرے پاس وقت ہوتا تو میں وہاں تعلیم حاصل کرتا اور اس قدیم تہذیب کے بارےمیں مزید معلومات حاصل کرتا، لیکن افسوس کہ مجھے یہ فرصت میسر نہیں ہے۔ بہرکیف مذہب کی ایک قسم وہ ہے جس میں وادئ سندھ کی تہذیبیں اور چینی تہذیب شامل ہیں۔ ان کے ہاں صاف اور پرکار مذہب اور نظریۂ حیات بھی موجود تھا۔ شاید وادئ سندھ کی تہذیبوں میں دوسری تہذیبوں سے زیادہ یہ چیزیں موجود تھیں۔ ہندوستان میں تین چار ہزار سال پہلے بھی مذہب اور ایک طرح کا فلسفہ موجود تھا۔ پس ایک قسم مذہب کی وہ ہوئی جس میں ایمان اور کچھ فلسسفیانہ تصورات دونوں پائے جاتے ہیں۔

مذہب کی اس دوسری قسم میں کچھ سوالات مشترک ہوتے ہیں۔ ایک یہودی دوست نے ان کو بخوبی بیان کیا ہے: "میں" کیا ہوں؟ میں کہاں سے آیا ہوں، میں کہاں جاؤں گا؟ زندگی کا مقصد کیا ہے؟ یہ بنیادی سوال ہیں۔ ان کے جواب دو طرح کے ہیں: یزدانی اور غیر یزدانی، خدا کے حوالے سے اور اس کے بغیر۔

ہندوستان میں تین ہزار سال پہلے لوگوں نے اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی کہ "میں" کیا ہے، انسانی نفس کیا ہے؟ ہر شخص جانتا ہے کہ وہ جوانی میں ایک اور شکل صورت کا ہوتا ہے اور بڑھاپے میں اس سے مختلف ہو جاتا ہے۔ اسی طرح ذہن بھی لمحہ لمحہ بدلتا رہتا ہے لیکن "میں" کا ایک قدرتی احساس ہمیشہ رہتا ہے۔ جب "میں" جوان تھا، جب "میں" بوڑھا تھا۔ سو لازم ٹھہرا کہ اس جسم اور دماغ کا ایک مالک ہو گا۔ جسم اور ذہن کے مالک کو لازماً دائمی اور آزاد خود مختار ہونا چاہیے، بدلنا نہیں چاہیے، جبکہ جسم اور دماغ بدلتا رہتا ہے۔ لہذا ہندوستان میں یہ خیال ابھرا کہ ایک نفس، ایک روح، ایک "آتما" ہے۔ جب جسم استعمال کے قابل نہیں رہ جاتا تو بھی ایک روح باقی رہتی ہے۔ یہ ہوا اس کا جواب کہ "میں" کیا ہوں؟

اب یہ سوال ہے کہ روح کہاں سے آتی ہے؟ کیا اس کا کوئی آغاز ہے یا نہیں؟ بے آغاز و ابتدا ہونے کی بات ماننا مشکل ہے سو اس کا آغاز کہیں تو ہونا چاہیے جیسے جسم کا ایک آغاز ہوتا ہے۔ پس خدا نے اس روح کی تخلیق کی ہے۔ رہا اس کا انجام تو ہم خدا کے حضور پہنچتے ہیں یا آخر میں ہم اس میں جذب ہو جاتے ہیں۔ مشرق وسطٰی کے مذہب یعنی ابتدائی یہودی، عیسائی اور شاید مصری بھی، آخرت کی زندگی کے قائل تھے۔ لیکن یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں کے لیے آخری حقیقت خدا، خالق کائنات، کی ہے۔ وہی ہر شے کا اصل ہے۔ اس خدا کی قدرت، قوت، رحمت اور حکمت کی کوئی حد نہیں ہے۔ ہر مذہب خدا کی لا محدود اور بے نہایت رحمت اور مہربانی کا دعویٰ رکھتا ہے۔ جیسے اللہ کی بے نہایت رحمت اور خدا کی ذات ہمارے تجربے سے باہر ہے ، یہ حتمی آخری حقیقت ہے۔ یہ ہوا یزدانی مذہب یا تصورِ خدا والا مذہب۔

پھر لگ بھگ تین ہزار سال پہلے ہندوستان میں سانکھیہ فلسفہ آتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ دو شاخیں ہو جاتی ہیں، ایک خدا کو مانتی ہے اور دوسری کہتی ہے کہ کوئی خدا نہیں۔ اس کی جگہ یہ لوگ ایک پراچین مادے کے قائل ہیں جسے پرکْرِتی کہتے ہیں اور اشیاء و مظاہر کی ۲۵ ایسی قسمیں جن کو جاننا ممکن ہے۔ سو ان کےلیے پراچین مادہ ازلی ہے اور خالق ہے۔ یعنی بدھ فلسفی سے پہلے ہی غیر یزدانی تصورات موجود تھے۔

پھر لگ بھگ دو ہزار چھ سو سال قبل، بدھ فلسفی اور جین مت کے باقی مہاویر کی آمد ہوئی۔ ان کے ہاں خدا کا کوئی ذکر نہیں، یہ لوگ صرف علت اور معلول، سبب اور نتیجے کی بات کرتے تھے۔ یعنی سانکھیہ کی ایک شاخ اور بدھ مت اور جین مت دونوں غیر یزدانی مذہب ٹھہرے ہیں۔

غیر یزدانی مذاہب میں سے بدھ مت یہ کہتا ہے کہ ہر شے اپنے اسباب اور شرائط و احوال سے پیدا ہوتی ہے اور اسی لیے سبب اور نتیجے کی ماہیت میں سے ایک عنصر تغیر اور تبدیلی ہے۔ چیزیں کبھی ایک جگہ رکی نہیں رہتیں۔ اس بنا پر یہ کہا جائےگا کہ چونکہ روح یا نفس یا " میں " کی اساس جسم اور ذہن پر ہے جو ظاہر ہے کہ ہر وقت تبدیلی کی زد میں رہتے ہیں۔ مزید چونکہ "میں" کا دارومدار انہی پر ہے لہذا "میں" کی ماہیت بھی ایسی ہی ہوگی۔ یہ کوئی نہ تبدیل ہونے والی مستقل دائمی چیز نہیں ہوگی۔ اگر بنیاد ہی بدل جائے تو اس پر استوار ہونے والی ہر شے بھی تبدیل ہو جائے گی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کوئی دائمی، تبدیل نہ ہونے والی روح یا ذات یعنی "ان آتما" نہیں ہوتی۔ یہ تصور بدھ مت سے خاص ہے کہ ہر شے ایک دوسرے پر منحصر ہے، سب میں باہمی جوڑ اور تعلق ہے۔ سو تین غیر یزدانی مذاہب میں سے باقی کے دو مذہب اگرچہ اسباب و علل کے نظام کو مانتے ہیں لیکن اس کے ساتھ یہ مذاہب ایک مستقل، دائمی اور غیر متغیر ذات انسانی یا نفسِ انسانی کے بھی قائل ہیں۔

وہ مذہب جن میں ایمان اور فلسفہ دونوں موجود ہیں ان کے ہاں بھی کئی مختلف روایتیں ہیں۔ ان سب کے دو پہلو ہیں: فلسفہ و تصورات اور اعمال و عبادات۔ فلسفے اور تصورات میں بہت بڑا فرق ہے لیکن عمل سب کا ایک ہے، پیار، درد مندی ، درگزر، رواداری، برداشت اور تربیتِ نفس۔ مختلف فلسفے اور تصورات صرف وہ طریقے ہیں جن سے لوگوں میں یہ خواہش اور عزم پیدا ہوتا ہے کہ محبت، درد مندی اور دوسروں کو معاف کر دینے کے رویے عمل میں لائے جائیں۔ مزید برآں ان سب فلسفوں کا صرف ایک ہی مقصد اور ہدف ہے کہ محبت اور دردمندی وغیرہ کو فروغ دیا جائے۔

بدھ مت میں یہ صاف اور واضح ہے۔ بدھ فلسفی نے کئی تصورات کی تعلیم دی جو اکثر ایک دوسرے سے الٹ تھے۔ کچھ سوتر تو یہ بتاتے ہیں کہ جسم اور ذہن کا مجموعہ ایک بوجھ کی طرح ہوتا ہے جسے نفسِ انسانی اٹھائے رہتا ہے۔ بوجھ اور بوجھ اٹھانے والا ایک نہیں ہو سکتا، اس لیے نفس الگ ہو گا اور بڑی حد تک الگ ہستی رکھے گا۔ ایک اور سوتر یہ کہتا ہے کہ کرم یا انسانوں کے اعمال تو موجود ہیں لیکن کوئی شخص یہ اعمال نہیں کرتا، الگ سے کوئی نفس نہیں ہے جس کے یہ کرم ہوں۔ دوسرے سوتر یہ کہتے ہیں کہ خارجی مظاہر کچھ نہیں ہوتے۔ بس ایک ذہن ہے، باقی تمام مظاہر فقط ذہن میں پائے جاتے ہیں۔ اور ذہن موجود ہے، اس کا وجود ایک حقیقت ہے، لیکن دوسری طرف کچھ اور سوتر یہ بھی کہتے ہیں کہ نہ ذہن، نہ اس کے اندر کی چیزیں، کچھ بھی اصل میں وجود نہیں رکھتے جیسا کہ مثال کے طور پر "پراگیہ پارامیتا سوتر" میں یوں آیا ہے "نہ آنکھ، نہ کان، نہ ناک، نہ زبان، نہ جسم، نہ دماغ"۔ یہ سب ایک دوسرے سے الٹ بات کہتے ہیں لیکن سب ایک ہی شخص، شاکیہ مُنی، بدھ فلسفی۔ نے کہے تھے۔

لیکن بدھ فلسفی نے یہ سب کچھ اس لیے تعلیم نہیں سکھایا تھا کہ ان کے ذہن میں یہ سب خلط ملت تھا۔ نہ انہوں نے جان بوجھ کر یہ تعلیم اس طرح دی تھی کہ ان کے چیلوں میں اور زیادہ فکری الجہنوں میں نہ پڑ جائیں۔ تو پھر انہوں نے اس طرح تعلیم کیوں دی؟ بدھ فلسفی اس بات کا بہت پاس رکھتے تھے کہ لوگ الگ الگ طرح کے ہوتے ہیں اس لیے ان سب کو تعلیم دے کر ان کی مدد کرنا چاہیے- وہ دیکھ رہے تھے کہ یہ سب کچھ ضروری تھا۔

تین ہزار سال پہلے دنیا میں شاید ایک کروڑ یا دس کروڑ لوگ تھے۔ آج چھ ارب سے زیادہ آبادی ہے۔ سو اتنے لوگوں کی افتاد طبع الگ الگ ہے۔ ایک ہی گھرانے کے بچوں میں یہ اختلاف نظر آتا ہے۔ جڑواں بچوں تک کے ذہن اور احساسات الگ الگ ہوتے ہیں۔ پس انسانوں میں بھی افتاد طبع الگ الگ ہیں، رہن سہن مختلف ہے، سوچنے کے انداز جدا ہیں۔ ان اختلافات پر ماحول اور آب وھوا، جغرافیائی اور موسمی حالات بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر عرب کا علاقہ گرم خشک ہے۔ ہندوستان میں مون سون کی بارشیں ہوتی ہیں، اس لیے یہ مختلف ہے اور وہاں کے لوگوں کا رہن سہن دوسروں سے الگ ہے۔ شاید پرانے زمانے میں ہر جگہ لوگ ایک دوسرے سے اتنے مختلف نہیں ہوتے تھے۔ لیکن اب ان اختلافات کی وجہ سے الگ انداز میں بات کرنا ضروری ہے۔ لیکن ان مختلف فلسفوں اور تصورات سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔ اصل اہمیت ان کے مقصد اور ہدف کی ہے اور وہ سب کا ایک ہی ہے: دوسروں سے سلوک میں نرم خو اور درد مند آدمی بننا۔

اس لیے کچھ لوگوں کے لیے ایک خالق کا تصور، خدا کا تصور، بہت مدد گار ہوتا ہے۔ ایک مرتبہ میں نے ایک بوڑھے عیسائی راہب سے پوچھا کہ عیسائیت میں پچھلے جنموں کو کیوں نہیں مانا جاتا۔ اس نے کہا "اس لیے کہ یہ آج کی زندگی خدا کی دی ہوئی ہے"۔ اس طرح سوچنے سے اللہ سے قربت اور نزدیکی کا احساس ہوتا ہے۔ ہمارا جسم ماں کی کوکھ سے آیا ہے اس لیے ہم اپنی ماں سے مانوس ہوتے ہیں، اس کے پاس رہ کر راحت پاتے ہیں۔ یہی معاملہ خدا سے تعلق کا ہے۔ ہم خدا کی طرف سے آئے ہیں اور اس سے ہم میں ایک قرب خداوندی کا ایک احساس پیدا ہوتا ہے۔ اللہ سے جتنی نزدیکی محسوس ہوگی اتنا ہی ہدایت خداوندی پر عمل کرنے کی نیت مضبوط ہو جائے گی اور اس کی ہدایت ہے کہ خلق خدا سے محبت کرو، ان سے دردمندی سے کرو۔ بنا بریں یزدانی انداز فکر بہت طاقتور ہے اور بہت سے لوگوں کے لیے غیر یزدانی انداز فکر کے مقابلے میں کہیں زیادہ مددگار ہوتا ہے۔

اپنی مذہبی روایت پر کار بند رہنا بہتر ہے۔ منگولیا میں عیسائی مبلغ لوگوں کو ۱۵ ڈالر دے کر عیسائی بناتے تھے۔ کچھ لوگ ہر سال، محض یہ ۱۵ ڈالر کمانے کے لیے، ان کے پاس جا کر عیسائی ہو جاتے تھے۔ تبلیغی حضرات کو میں یہ مشورہ دیا کرتا ہوں کہ وہ اس معاملے میں دخل نہ دیں اور لوگوں کو اپنے روایتی بودھ مذہب پر رہنے دیں۔ مغربی لوگوں سے بھی میں یہی بات کہتا ہوں کہ وہ اپنے مذہب پر قائم رہیں۔

سب سے اچھی بات یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کی جائیں اس سے دوسروں کا احترام کرنے میں مدد ملتی ہے۔ اس لیے اگر آپ عیسائی ہیں تو اپنی عیسوی روایت کو باقی رکھیے۔ لیکن دوسری مذہبی روایتوں کو سمجھیے اور ان کا علم حاصل کیجیے۔ رہا عمل کا معاملہ تو سب مذہب ایک ہی چیز، محبت، درد مندی اور رواداری کی تلقین کرتے ہیں۔ کیونکہ نیکی اور کارِ خیر کا تصور سب میں مشترک ہے اس لیے یہ بھی ٹھیک ہے کہ آپ بدھ مت کے کچھ طریقے اختیار کر لیں۔ جہاں تک بدھ مت کے لا مطلق کے تصور کا تعلق ہے تو یہ سراسر بدھ مت والوں کا اپنا معاملہ ہے۔ دوسرے لوگوں کے لیے اس کا سیکھنا سود مند نہیں ہو گا۔ ایک عیسائی پادری نے مجھ سے خالی پن (شونیا;voidness [emptiness], )، عدمیت کے بارے میں پوچھا جس کے جواب میں میں نے اس سے کہا یہ سب آپ کے لیے اچھا نہیں ہے۔ اگر میں لوگوں کو مکمل باہمی انحصار کی تعلیم کرنے لگوں تو اس سے شاید خدا پر ان کے مضبوط ایمان میں خلل پڑے گا۔ ایسے لوگوں کے لیے بہتر یہ ہے کہ وہ خالی پن کے بارے میں گفتگو نہ سنیں۔

خلاصہ یہ کہ چونکہ سب بڑی روایتوں کا عمل ایک ہی ہے صرف طریقے الگ ہیں اور فلسفے مختلف ہیں۔ مقصد سب کا ایک ہی ہے اور یہی ایک دوسرے کا احترام کرنے کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ سو ہم اپنے مذہب پر قائم رہتے ہیں۔ اگر میری تقریر میں آپ کو بدھ مت کے کچھ ایسے عملی طریقوں سے آگاہی ہوتی ہے جنہیں آپ فائدہ مند پاتے ہیں تو انہیں استعمال کر لیجیے۔ اگر یہ مفید نہیں ہیں تو چھوڑ دیجیے۔

Top