اسلام اور بدھ مت کا مکالمہ

ذاتی وابستگی

اسلام اور بدھ مت کے مکالمے سے میرا ذاتی ربط و تعلق بہت سالوں میں جا کر رفتہ رفتہ استوار ہوا ہے۔ بدھ مت پر لیکچر دینے کے سلسلے میں دنیا گھومتے ہوئے مجھے بہت سے مسلم ممالک کا سفر کرنے کا موقع بھی ملا۔ ان ممالک میں سے بعض میں مجھے مسلمان سامعین سے براہ راست بات کرنے کی نوبت نہیں آئی، مثلاً انڈونیشیا اور ملائشیا میں میری ملاقات اور گفتگو بدھ مت کے پیرو کاروں تک محدود رہی گو ان گروہوں سے بات کرتے ہوئے ان ممالک کی مسلم اکثریت سے ان کے تعلقات کا مباحثہ بھی کبھی کبھار موضوعِ گفتگو بن جاتا تھا۔ وسطی ایشیا کی اسلامی جمہوری ریاستوں قازقستان، کرغیزستان اور ازبکستان میں یونیورسٹی کے اساتذہ، طلباء اور طلابِ روحانیت سے بھی خطاب کرنے کا موقع ملا۔ یہ لوگ اپنے ملک کے اسلامی ورثے کے بارے میں بہت کم معلومات رکھتے تھے۔ ان کی دلچسپی یہ جاننے سے تھی کہ بدھ مت اور دیگر ادیان نیز مختلف فلسفیانہ نظام، سوویت اتحاد کے بعد ابھرنے والے مسائل کا کیا حل پیش کرتے ہیں۔ اسلام اور بدھ مت کے مابین مکالمے میں میری شرکت صحیح معنی میں اس وقت ہوئی جب میں نے، ۱۹۹٥ء میں وسطی ایشیا کا تفصیلی دورہ کیا اور مجھے اس امر سے آگاہی حاصل ہوئی کہ اسلام اور بدھ مت کے باہمی تعاون میں اس خطے کے کچھ سنگین سماجی مسائل کے حل کے لیے کتنے امکانات پوشیدہ ہیں۔

ماریشس

اسی سال، چند ماہ بعد، افریقہ بالخصوص ماریشس اور زنجبار کے سفر کے دوران میں نے اس مکالمے کا آغاز کیا۔ افریقہ کےسارے علاقوں کو جنوبی ایشیاء سے آنے والی ہیروئن سمگل کرنے کا بڑا راستہ یہی دو جزیرے ہیں۔ ماریشس کے صدر ہندوستانی نصل کے مسلمان ہیں۔ ان سے ایک ملاقات میں یہ مسئلہ بھی گفتگو کا موضوع رہا کہ تبت میں بے روزگار، دل شکستہ نوجوان کیونکر منشیات کے عادی بنتے ہیں اور خود ان کے ملک میں مذہبی طبقہ اسی مسئلے سے کیونکر نمٹ رہا ہے۔ میری طرح انہیں بھی اس مسئلے پر تشویش تھی اور وہ مجھ سے متفق تھے کہ نشہ بازی سے متاثر افراد میں اپنی قدرو قیمت کا احساس بیدار کرنے کے لیے، معاشرے کی طرف سے انہیں سہارا دينے کے لیے اور اخلاقی اقدار سے ان میں بالیدگی پیدا کرنے میں مذہب بہت اہمیت رکھتا ہے۔ بعد ازاں ماریشس یونیورسٹی میں میرا ایک لیکچر ہوا جس کا عنوان تھا، "عہدِ جدید میں اخلاقی اقدار کی بازیافت- تبّتی بدھ مت اس سلسلے میں کیا کر سکتا ہے"۔ سامعین نے اس موضوع میں بہت دلچسپی کا اظہار کیا۔

زنجبار

زنجبار ٩٥ فیصد مسلم آبادی کا ملک ہے۔ مقامی مسلمان رہنماؤں سے ملاقاتوں کے دوران میں میرے علم میں آیا کہ ہیروئن کی لت چھڑوانے کے لیے اسلام کے وسیلے سے کام کرنے میں انہیں کسی حد تک کامیابی ہوئی ہے۔ وہ لوگ جو پہلے نشے کے عادی تھے انہیں جب طہارت اور وضو اور یومیہ نماز پنجگانہ میں مصروف رکھا جاتا ہے تو ان کے پاس اتنا فالتو، بےکار وقت ہی نہیں بچتا کہ وہ اسے نشے میں صرف کر سکیں۔ اس مثال پر غور کرنے سےسوچ کی اور بہت سی راہیں کھلتی ہیں مثلاً یہ کہ سجدے کی بدنی حرکات سے ان لوگوں کے لیے کیا ممکنہ فوائد حاصل ہو سکتے ہیں جو بودھوں میں سے نشے کی لت کا شکار ہو جاتے ہیں؟

ترکی

۱۹۹٥ء کے موسم بہار میں مجھے استنبول، ترکی جانے کا اتفاق ہوا جہاں میری ملاقات مرمرہ یونیورسٹی کے شعبہ الہیات کے ڈین اور اسلامی قانون اور فلسفۂ دین کے پروفیسر حضرات کے ایک گروہ سے کروائی گئی۔ ملاقات سے مقصود یہ تھا کہ میں ان سے بدھ مت کے بارے میں فقہ اسلامی کا نقطۂ نظر معلوم کروں تاکہ اس کے وسیلے سے بدھ مت اور اسلام کے مابین مذہبی ہم آہنگی کی کوئی راہ نکالی جا سکے کہ ان دنوں ہمیں ھُوِئی (چینی مسلمانوں) کے گروہ در گروہ آمد کا سامنا تھا جو چین سے آ کر تبت میں آباد ہو رہے تھے۔ تبت میں مسلمانوں کا ایک طبقہ سترھویں صدی عیسوی سے آباد چلا آ رہا ہے۔ یہ طبقہ اکثریتی بدھ آبادی میں بخوبی گھل مل چکا ہے اور روایتی طور پر انہیں وہ خصوصی قانونی مراعات بھی حاصل ہیں جو پانچویں دلائی لامہ کی طرف سے انہیں عطا کی گئی تھیں۔ تاہم چین کے ہان منطقے سےکثیر تعداد میں تبت منتقل ہونے والی اس آبادی کی حالیہ صورتحال نے ایک تناؤ کی کیفیت پیدا کر دی ہے اور اس سے ایک کشمکش کا جنم لینا بھی قابلِ فہم ہے۔

ترک پروفیسروں کی نظر میں اسلام کے لیے بدھ مت سے ہم آہنگی کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اس کے لیے ان کے تین دلائل تھے۔ کچھ جدید مسلم علماء کا خیال ہے کہ قرآن مجید میں دو مقامات پر مذکورہ نبی ذوالکفل "کفل والا شخص" اصل میں مہاتما گوتم بودھ کی طرف اشارہ ہے کیونکہ کفل کا لفظ کپل-واستو کی عربی شکل ہے جو بدھ فلسفی کی آبائی مملکت تھی۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ قرآن میں انجیر کے درخت کا جو ذکر ہے سو یہ وہی بودھ کا درخت ہے جس کے تلے بدھ فلسفی کو یریروشن ضم عطا ہوئی تھی۔ قرآن مجید کا بیان ہے کہ ذوالکفل کے پیروکار نیک لوگ ہیں۔ البیرونی اور الشہرستانی نے گیارہویں اور بارہویں صدی عیسوی میں ہندوستان کا سفر کیا۔ دونوں بڑے مسلم علماء میں شمار ہوتے ہیں۔ دونوں نے مذاہب ہند کے بارے میں تحریریں چھوڑی ہیں۔ اپنی تصانیف میں جہاں وہ بدھ فلسفی کے بارے میں اہلِ ہند کی آراء بیان کرتے ہیں وہاں انہوں نے بدھ فلسفی کو "نبی" کے عنوان سے یاد کیا ہے۔ سوم یہ کہ کشمیری مسلمان جو سترہویں صدی عیسوی کے بعد سے تبت میں آباد ہوئے اسلامی فقہ کے مطابق تبت کی بودھ عورتوں سے شادی کرتے آئے ہیں۔

اس نکتے کی وضاحت پروفیسر حضرات نے یوں کی کہ اسلام میں سب "اہلِ کتاب" کے لیے ایک قبولیت ہے اور اہل کتاب کی تعریف ہے "وہ لوگ جو خدائے خالّق کے ماننے والے ہوں۔" اہلِ کتاب کے تصور کو فقہ اسلامی نے توسیع دی ہے۔ بالخصوص سندھ پر آٹھویں سے دسویں صدی عیسوی کی عرب حکومت کے دوران اور اس کے تحت بدھ مت کے ماننے والوں کو بھی شامل کر کے انہیں وہی حیثیت اور ویسے ہی حقوق و رتبہ مراعات دیاے گیئاے جو عرب مملکت کے تحت یہود و نصاریٰ کو حاصل تھے۔ میں نے ان سے بیان کیا کہ آٹھویں صدی عیسوی میں عرب مسلمانوں کی حکومت کو جب وسطی ایشیا تک وسعت حاصل ہوئی تو ان کا بدھ مت سے پہلا رابطہ اس علاقےمیں ہوا جو آج ازبکستان اور شمالی افغانستان کا حصہ ہے۔ بدھ مت کی جو کتب اس زمانے میں وہاں زیادہ تر استعمال ہوتی تھیں وہ قدیم ترکی زبان میں اور بعد ازاں سوغدین سغدیائی تراجم میں تھیں۔ ان زبانوں میں "دھرم" یونانی زبان سے مستعار لفظ "نوم" سے ترجمہ کیا جاتا تھا جس کا مطلب ہے "قانون۔" – ویغور ترکوں اور منگولوں نے یہ لفظ سوغدین سغدیائی سے مستعار لیا اور اسے "کتاب" کے معنی میں بھی استعمال کیا۔ حاصل یہ کہ قرونِ وسطیٰ کے سارے دور میں وسطی ایشیا کے پورے علاقے میں بدھ مت کے پیرو کار "دھرم والے لوگ" ہونے کی وجہ سے "اہلِ کتاب" بھی سمجھے جاتے رہے ہیں۔

انڈونیشیا

مسلم اکثریت کا ملک انڈونیشیا سرکاری طور پر چھ مذاہب تسلیم کرتا ہے؛ اسلام، کیتھولک عیسائی، پروٹسٹنٹ عیسائی، ہندومت، بدھ مت اور کنفیوشس مت۔ اس پالیسی کی بنیاد یہ ہے کہ یہ سب مذاہب ایک خدا کے قائل ہیں جو خالق بھی ہے۔ اس شرط کو پورا کرنے کے لیے انڈونیشیا کے بودھوں نے آدی-بدھ یعنی "کالچکر تنتر" کے پراچین گوتم بودھ کو خالق قرار دیا۔ کالچکر تعلیمات انڈونیشیا میں مقبول رہی ہیں، خاص طور پر دسویں صدی عیسوی کے دوران میں۔یہ نکتہ آتیشا نے اپنے دورے کی رپورٹ میں واضح کیا ہے۔ آج کے انڈونیشیا میں البتہ ان تعلیمات کے بارے میں بہت کم لوگوں کو علم ہے۔

١٩٨٨ء میں مجھے انڈونیشیا کا دورہ کرنے اور لیکچر دینے کا موقع ملا۔ اس سفر میں بودھ راہبوں سے اس مسئلے پر میری گفتگو رہی کہ بدھ مت میں خدا کا تصور کیا ہے۔ آدی-بدھ کی ایک تعبیر یہ بھی ہو سکتی ہے کہ یہ ایک نورِ بیّن علمِ قدیم و ازلی ہے اور چونکہ سمسار اور نروان کے سارے مظاہر اسی علم قدیم، اسی "تخلیق" کا ظہور ہیں اس لیے ہمارے تبادلۂ خیال کا نتیجہ یہ تھا کہ ہمیں یہ کہنے میں کوئی الجھن نہین ہونا چاہیے؛ کہ بدھ مت بھی ایک خالق اور خدا کو تسلیم کرتا ہے۔ رہا یہ نکتہ کہ بدھ مت کا دعویٰ یہ ہے کہ آدی-بدھ کوئی انفرادی، جداگانہ ہستی نہیں ہے بلکہ وہ عنصر ہے جو ہر ذی شعور مخلوق میں موجود ہے تو اس کا تعلق فطر تِالہیہ اور ماہیتِ خدا کے بارے میں ان کلامی اور الہیاتی مباحث سے ہے جہاں متعدد اختلافات پائے جاتے ہیں۔ بہت سے یہودی، عیسائی، مسلمان اور ہندو مفکرین کا کہنا ہے کہ خدا مُنزّہ اور مجرّد بھی ہے اور ہر شے میں موجود بھی ہے۔ سب مسلمان کہتے ہیں "اللہ کے بہت سے نام ہیں"۔

چنانچہ، انڈونیشیا کے تجربے کی بنیاد پر میں اس بات سے متفق ہوں کہ آدی-بدھ کی اساس پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں بدھ مت بھی خدائے خالّق کے تصور کو تسلیم کرتا ہے تاہم اس کی تعبیر اور زاویۂ نگاہ اس کا اپنا ہے۔ ایک مرتبہ یہ مشترک فکر تیار ہوگئی تو میرے لیے یہ آسان ہو گیا کہ ترکی کے مسلمان علماء اور الہیات کے ماہرین سے مکالمے کا آغاز کر سکوں۔ ان کی طرف سے مجھے دعوت دی گئی کہ اسی سال ان کی یونیورسٹی کا دوبارہ دورہ کروں اور یونیورسٹی کے طلباء اور اساتذہ کو بدھ مت پر اور اسلام اور بدھ مت کے تقابلی تعلق پر تقریر دوں۔

تقدس مآب، جناب دلائی لامہ اور مغربی افریقہ کے ایک صوفی شیخ کا مکالمہ

سالہا سال سے تقدس مآب جناب دلائی لامہ کے روابط دنیا بھر کے مسلمان رہنماؤں سے رہے ہیں۔ ترکی سے لوٹ کر ہندوستان پہنچنے کے بعد میں گنی، مغربی افریقہ کے ایک پشتینی صوفی مذہبی رہنما ڈاکٹر ترمذیاؤ ڈیالو کو دلائی لامہ صاحب سے ملوانے کے لیے دھرمشالہ لے گیا۔ ملاقات سے پہلے کے چند دنوں میں ان سے "اہلِ کتاب" کے مفہوم پر مزید بات چیت ہوئی۔ ڈاکٹر ڈیالو کا خیال تھا کہ اس سے اشارہ ان لوگوں کی طرف ہے جو "قدیمی روایت" کے ماننے والے ہیں۔ اسے حکم تِالہیہ یا بدھ مت کی اصطلاح میں پراچین شعور قدیم و عمیق بھی کہا جا سکتاہے۔ سو انہیں یہ ماننے میں کوئی تامل نہیں تھا کہ حکمت کی یہ روایت قدیمہ صرف موسیٰ، عیسیٰ، محمد پر ہی نازل نہیں ہوئی تھی، بدھ فلسفی بھی اس کے حامل تھے۔ اگر لوگ اس خلقی اور فطرت میں جا گزیں روایت قدیمہ اور اس حکمت کے پیرو کار ہوں تو یہی "اہلِ کتاب" ہیں۔ اس کے برعکس اگر وہ نوع انسانی کی اس فطرت حکیمانہ اور اس خیرِ اساسی کی خلاف ورزی کریں تو پھر وہ " کتاب" والے نہیں ہیں۔

سو، اس لحاظ سے یہ کہنا درست ہو گا کہ بدھ فلسفی بھی اللہ کے نبی تھے اور یوں یہ بات ترک پروفیسروں کی تعبیر سے بھی مطابقت اختیار کر لیتی ہے جن کا کہنا تھا کہ "اہلِ کتاب" کا مطلب ہے وہ لوگ جو ایک تخلیق کرنے والے خدا کے قائل ہوں۔ آدی-بدھ، بطور شعورِ بیّن و نورانی، نہ صرف قدیم و عمیق حکمت ہے بلکہ تمام مظاہر کا خالق بھی ہے۔ ڈاکٹر ڈیالو اس گفتگو سے بہت خوش تھے اور ایک حدیث نبوی کا حوالہ دے رہے تھے جس میں اہلِ ایمان کو علم حاصل کرنے کا حکم دیا گیا ہے خواہ وہ چین میں ہی کیوں نہ ہو۔

ڈاکٹر ڈیالو اس حدیث میں مذکورہ اصولوں پر خود بھی عمل پیرا تھے۔ وہ تقدس مآب دلائی لامہ کے خطاب اوتار شانتی دیو نے اپنی کتاب "بودھی ستوا رویہ اختیار کرنا" کے آخری دن کے مراسم میں شریک ہوئے جہاں تقدس مآب آوالوکیت-ایشور کا عطاء اختیارکرتے ہیں۔ ڈاکٹر ڈیالو عہد و پیمان بودھی ستوا کی رسم سے بہت متاثر ہوئے۔ مغربی افریقہ کی صوفی روایت میں بھی اس درجۂ کمال کے حصول کے لیے عہد و پیمان کی رسم موجود ہے جو لفظ و بیان سے ماوراء ہے اور خلق خدا کی خدمت کا وعدہ بھی کیا جاتا ہے۔

اپنے قیام کے آخری دن تقدس مآب سے ڈاکٹر ڈیالو کی تنہائی میں ملاقات ہوئی۔ نفیس سفید کپڑوں میں ملبوس افریقہ کا یہ باوقار روحانی رہنما، تقدس مآب کے حضور پہلی حاضری کے تاثر سے ایسا سرشار ہوا کہ بے اختیار اس کے آنسو بہ نکلے۔ عام طور پر تقدس مآب اپنے خادم کو طلب کیا کرتے ہیں لیکن اس موقع پر وہ خود اٹھے اور اپنے حجرے سے کاغذی رومال لا کر صوفی شیخ کو دیا کہ وہ اپنے آنسو پونچھ سکیں۔ ڈاکٹر ڈیالو نے تقدس مآب کو مسلمانوں کا روایتی سرپوش پیش کیا جو انہوں نے بلا تذبذب زیبِ سر کیا اور ملاقات کے اختتام تک اسے پہنے رہے۔

تقدس مآب نے آغاز کلام اس بات سے کیا کہ اگر مسلمان اور بدھ مت کے پیرو کار دونوں اپنے آراء و افکار میں لچک کا مظاہرہ کریں تو ایک مفید اور کھلا مکالمہ ممکن ہو سکتا ہے۔ دونوں بزرگوں کی ملاقات گرمجوشی پر مبنی اور دل کو چھو لینے والے تھی۔ تقدس مآب نے صوفی مراقبات کی روایت کے بارے میں متعدد سوالات کیے بالخصوص مغربی افریقہ کے سلاسل تصوف کے بارے میں جہاں حب، دردمندی اور خدمت خلق کی خاص تاکید کی جاتی ہے۔ ڈاکٹر ڈیالو برسوں سے جرمنی میں جلاوطنی کی زندگی گذار رہے ہیں جہاں وہ اپنے ملک میں برپا ہونے والے کمیونسٹ انقلاب کے بعد آ کر مقیم ہوئے تھے۔ دونوں بزرگوں میں کتنی ہی چیزیں مشترک تھیں۔ تقدس مآب اور ڈاکٹر ڈیالو دونوں نے اسلام اور بدھ مت کے مکالمہ کو مستقبل میں جاری رکھنے پر اتفاق رائے کیا۔

ترکی کا دوسرا سفر

۱۹۹۵ء کے اواخرمیں مشرق وسطیٰ کا سفر دوبارہ پیش آیا۔ شعبۂ الہیات اسلامی مرمرہ یونیورسٹی استنبول میں جا کر میں نے اساتذہ اور شعبۂ فلسفہ کے گریجویٹ طلباء سے خطاب کیا۔ یہ شعبہ سارے ترکی کے لیے اسلامی تعلیم دینے والے اساتذہ اور ثانوی سکول کے اسلام اور دیگر ادیان بشمول بدھ مت پڑھانے والے معلمین کی تربیت کرتا ہے۔ اساتذہ نے اسلام اور بدھ مت کا مکالمہ شروع کرنے میں بہت دلچسپی کا اظہار کیا اور ہمارے درمیان تخلیق، وحی اور اخلاقیات کے مآخذ جیسے موضوعات پر گفتگو رہی۔ اسلام کا دعویٰ ہے کہ خدا کوئی شخص نہیں ہے بلکہ ایک منزّہ اصول تخلیق ہے اور علمِ کلام کے بعض مکات بِ فکر اس بات کے قائل ہیں کہ عمل تخلیق کا کوئی ابتدا نہیں ہے۔ شعورِ بیّن و نورانی کے بطور بے ابتدا خالق اور بے ابتدا تخلیق کے حوالے سے نیز بدھ فلسفی کو اعلیٰ حقائق کا پیغام لانے والے کی حیثیت میں دیکھتے ہوئے ہمارے پاس ایک دوستانہ اور بھرپور مکالمے کے لیے اچھی بنیاد فراہم ہوگئی۔

سابقہ سفر کے دوران اس یونیورسٹی میں میں نے جو انٹرویو دیا تھا وہ مقامی بنیاد پرستوں کے ایک مقبول مجلے میں چھپا تھا جو نہ صرف ترکی بلکہ وسطی ایشیا کی سب اسلامی جمہوری ریاستوں میں بھی پڑھا جاتا ہے۔ شعبے کی طرف سے میرے دورے کے منتظم نے بتایا کہ وہ اس مجلے میں میرے لیکچر کے تحریری متن کا ترکی ترجمہ شائع کروائیں گے۔ لیکچر میں میں نے اس مرتبہ بدھ مت کے اصول اور تاریخ ، خصوصاً وسطی ایشیا کی تُرک اقوام میں اس کی تاریخ اور دنیا بھر میں بدھ مت کی صورت حال پر گفتگو کی تھی۔ مجھے اس امر کی دعوت بھی دی گئی کہ مزید مکالمہ کے لیے ۱۹۹٦ء کے آخر میں شعبہ اسلامیات میں دوبارہ حاضر ہوں بلکہ اس نوعیت کی ملاقاتیں قونیہ میں صوفی مذہبی رہنماؤں سے بھی انجام دوں اور ترکی کی دوسری یونیورسٹیوں کے اساتذہ اور طلباء سے گفتگو کروں۔

مصر

ترکی کے بعد سفر کا اگلا مرحلہ مصر تھا جہاں مجھے قاہرہ یونیورسٹی میں لیکچر دینے کی دعوت دی گئی تھی۔ پہلا گروپ جس سے میری ملاقات ہوئی وہ شعبہ معاشیات اور سیاسیات کے مرکز برائے مطالعاتِ ایشیا کے اساتذہ پر مشتمل تھا۔ ان کی فرمائش تھی کہ میں "ایشیا کی سیاسی اور اقتصادی ترقی پر بدھ مت کے افکار کا اثر" کے موضوع پر گفتگو کروں۔ ان کی دلچسپی خاص طور پر اس نکتے سے تھی کہ بدھ مت کے اصولوں نے "ایشیا کے شیر" اقوام کی اقتصادی کامیابی میں کیا کردار انجام دیا ہے تاکہ وہ مصر کو بھی اسی طرح "افریقہ اور مشرقِ وسطیٰ کا شیر" بنانے کے عمل میں اسلام کو ایک سہارے کے طور پر استعمال کر سکیں۔ وہ ایشیا اور اس کے مذاہب کو بھی سمجھنا چاہتے تھے تاکہ اس خطے سے بہتر سیاسی اور اقتصادی روابط استوار کر سکیں۔ انہیں یہ گوارا نہیں تھا کہ انہیں اس غلط فہمی کی وجہ سے سب سے کہ سارے مسلمان بنیاد پرست اور متشدد ، دہشت گرد ہوتے ہیں ان سے فرق کیاجائے۔

اس شعبے میں بدھ مت کی تعلیمات کے بارے میں آج تک کوئی لیکچر نہیں دیا گیا تھا لہذا اس میں بہت دلچسپی کا اظہار ہوا اور اسے خوب گرمجوشی سے قبول کیا گیا۔ ان کا تقاضا تھا کہ میں بدھ مت کی بنیادی تعلیمات پر ان کے لیے ایک مقالہ لکھوں جسے ان کے سلسلہ رسائل ایشیا کے تحت انگریزی اور عربی میں شائع کیا جائے اور ساری عرب دنیا میں تقسیم کیا جائے۔ جون ۱۹۹٦ء میں یہ تحریر شائع ہوئی۔

اگلے روز میں نے بدھ مت کی بنیادی تعلیمات کے بارے میں پہلے سال کے تین سو انڈر گریجویٹ طلباء کے ایک اجتماع سے خطاب کیا جو شعبہ فنون میں ایشیائی فلسفے کا کورس پڑھ رہے تھے اور اس کے بعد فلسفے پر ایک گریجویٹ سیمینار کے طلباء کو لیکچر دیا۔ طلباء اور اساتذہ میں ایشیا کے بارے میں معلومات کی ایسی طلب اور ایسا فقدان تھا جیسا سابقہ کمیونسٹ دنیا میں نظر آتا تھا۔ لیکن ان میں ایک فرق ہے۔ سابقہ کمیونسٹ ممالک میں یہ طلب ایک روحانی تلاش پر مبنی تھی جبکہ مصریوں میں اس کا حوالہ یہ تھا کہ باقی دنیا سے باہمی احترام اور افہام و تفہیم کی بنیاد پر روابط استوار کیے جائیں۔ ان دو موخر الذکر لیکچروں کے دن ۱۵ مصری سفارتکار پاکِستان میں مصری سفارتخانے پر دہشت گردوں کی بمباری سے ہلاک ہو گئے اور یونیورسٹی میں ایک بڑا احتجاجی جلسہ تھا۔ فوج اور پولیس کی بڑی تعداد موجود تھی ، بکتر بند گاڑیاں، گرفتاریاں، کئی چیزوں سے بچ بچا کر ہم یونیورسٹی میں داخل ہوئے۔ کتنی خوش کن بات ہے کہ ایسی صورتحال اور کمرۂ جماعت کے باہر ایسے ماحول کے باوجود بدھ مت میں اتنی دلچسپی دیکھنے میں آئی۔

اردن

اس سفر میں میرا آخری پڑاؤ اردن کا شہر مفرق تھا جہاں مجھے آل البیت یونیورسٹی کی طرف سے دعوت دی گئی تھی۔ اس بین الاقوامی یونیورسٹی کا قیام جو زیادہ تر اردنی حکومت کی طرف سے تعمیر کی گئی ہے، ۱۹۹٤ء میں عمل میں آیا تھا۔ اس میں دو ہزار طلباء ہیں جن میں سے آدھے طلباء کا تعلق دوسرے مسلم ممالک سے ہے اور یونیورسٹی میں چند یورپی اور شمالی امریکہ کے عیسائی طلباء بھی شامل ہیں۔ یونیورسٹی کے اہلکاروں میں بڑی تعداد غیر ملکیوں کی ہے۔ اس کی تاسیس کا مقصد یہ تھا کہ اسلام کے تمام سات مسالک کے مابین اور اسلام اور دنیا کے دوسرے ادیان کی باہمی افہام و تفہیم کو فروغ دیا جا سکے۔ میری ملاقات یونیورسٹی کے صدر سے کروائی گئی۔ ۹ دسمبر ۱۹۹۵ء میں جاپان کے سفر پر روانہ ہو رہے تھے جہاں انہیں کلیدی خطبہ بھی دینا تھا اور اسلام اور بدھ مت میں باہمی افہام پر ایک کانفرنس میں شریک انتظام کے طور پر اپنا حصہ انجام دینا تھا۔ ان کی طرف سے اس امر میں دلچسپی کا اظہار کیا گیا کہ ایسی ہی ایک کانفرنس کا اہتمام آگے چل کر اردن میں بھی کیا جائے۔ یہ دعوت بھی ملی کہ میں ۱۹۹٦ء کے اواخر میں یونیورسٹی میں حاضر ہو کر بدھ مت اور تبت اور ان کے اسلام سے تعلق پر سلسۂ تقاریر پیش کروں اور مکالمے کو آگے بڑھاؤں۔ وہ یونیورسٹی کے کتب خانے میں بدھ مت پر ایک گوشہ بنانا چاہتے ہیں اور اس کے لیے ان کی فرمائش تھی کہ میں ان کے لیے ایک فہرست کتب تیار کردوں۔

یونیورسٹی کے ادارۂ عالی بیت الحکمۃ برائے سیاسیات کے اساتذہ سے بھی میرا ایک مکالمہ ہوا جس کا موضوع تھا جدید اور قدیم ایشیا میں اسلام اور بدھ مت کے بيچ لین دين۔ ان کا خصوصی ہدف تو ملائشیا اور انڈونیشیا کا علاقہ تھا لیکن دوسرے علاقوں کے بارے میں جاننے سے بھی انہیں بہت دلچسپی تھی۔ انہوں نے مجھ سے درخواست کی کہ ان کے بین اسلامی ڈیٹابیس سروے کے لیے تبتی مسلمانوں کے بارے میں معلومات فراہم کی جائیں اور یہ بھی دعوت د ی کہ میں آئندہ کسی موقع پر ان سے اقتصادی ترقی میں بدھ مت کی اخلاقیات کے کردار کے موضوع پر گفتگو کروں۔ مراکش اور شام سے آئے ہوئے اساتذہ سے بھی میری ملاقات کروائی گئی۔ یہ حضرات بھی اس نوعیت کے مکالمے میں بہت دلچسپی رکھتے ہیں۔

مستقبل کے امکانات

مزید برآں، اسلام اور بدھ مت کے مکالمے کا مرکزی ہدف ، میرے تجربے کے مطابق تعلیمی ہے یعنی یہ کہ طرفین دوسرے فریق کی ثقا فت اور عقائد کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کر سکیں۔ دھرمشالہ ہندوستان میں موجود "تبتی تحریروں اور ذخیروں کے کتب خانے" (Library of Tibetan Works & Archives) نے اس ضرورت کو پورا کرنے میں سب سے بڑھ کر حصہ لیا ہے۔ ان کی طرف سے ایک پروگرام شروع کیا گیا ہے جس کے تحت ان اسلامی ممالک کی مختلف یونیورسٹیوں سے کتب و رسالات کا تبادلہ کیا جائے گا جن سے میرے روابط قائم ہو چکے ہیں۔ اس طرح ان کی طرف سے سابقہ سوویت اتحاد کی وسطی ایشیا کی اسلامی جمہوری ریاستوں کے اداروں کے باہمی تعاون سے ایسے پروگرام ترتیب دیے جا رہے ہیں جن کے ذریعے ان علاقوں میں مسلمانوں اور بدھ مت کے پیرو کاروں کے باہمی تعلقات کی تاریخ پر مزید تحقیق کی جا سکے گی۔ اس ضمن میں باہمی تعاون اور روابط میں اضافوں کے وسیع امکانات پائے جاتے ہیں۔

Top